Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 6213 articles
Browse latest View live

Pioneers of Freedom - Mohtarma Fatima Jinnah - محترمہ فاطمہ جناح….

$
0
0


’’وہ اپنے عظیم بھائی کی ہوبہو تصویر تھیں بلندوبالا قد، بہتر برس کی عمر میں بھی کشیدہ قامت۔ گلابی چہرہ، ستواں ناک، آنکھوں میں بلا کی چمک، ہر چیز کی ٹٹولتی ہوئی نظر، سفید بال، ماتھے پر جھریوں کی چنٹ، آواز میں جلال وجمال، چال میں کمال، مزاج میںبڑے آدمیو ں کا سا جلال، سر تا پا استقلال، رفتار میں سطوت، کردار میں عظمت، قائداعظم کی شخصیت کا آئینہ، صبا اور سنبل کی طرح نرم، رعد کی طرح گرم، بانی پاکستان کی نشانی، ایک حصار جس کے قرب سے حشمت کا احساس ہوتا ہے جس کی دوری سے عقیدت نشوونما پاتی ہے، بھائی شہنشاہ بہن بے پناہ۔‘‘

آغا شورش کاشمیری نے ان خوبصورت الفاظ میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کی بیان کردہ تمام صفات محترمہ فاطمہ جناح میں بدرجہ اتم موجود تھیں وہ سیاسی بصیرت میں اپنے بھائی قائداعظم کی حقیقی جانشین تھیںایک ایسی بہن جس نے اپنی زندگی کو بھائی کی خدمت اور تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیا تھا جو قوم کی ماں کا لقب (مادر ملت) حاصل کر کے سرخرو ہوئیں۔
31 جولائی 1893ء کو مٹھی بائی کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام فاطمہ رکھا گیا جب یہ بچی دوسال کی عمر کو پہنچی تو ماں کی شفقت ومحبت سے محروم ہو گئی بڑی بہن نے ان کی پرورش کی ذمے داری اٹھائی، جب ذرا ہوش سنبھالا تو انگلستان میں زیرتعلیم بھائی کا ذکر سن کر ان سے ملنے کی خواہش بڑھتی گئی۔ محمد علی جناح جب واپس آئے تو فاطمہ جناح چار سال کی تھیں وہ قائداعظم سے سترہ سال چھوٹی تھیں۔

محمد علی چھوٹی بہن فاطمہ کی معصوم باتوں کو سن کر وہ بہت محظوظ ہوتے تھے اس دوران جب والد کے کاروبار کو شدید نقصان کا سامنا تھا محمد علی جناح نے بمبئی جاکر وکالت کا کام شروع کیا اور کچھ دن بعد انھوں نے پورے خاندان کو بمبئی بلا لیا جب پورا خاندان بمبئی شفٹ ہو گیا تو بھائی نے آٹھ سالہ فاطمہ کی تعلیم کا بندوبست بھی گھر پر کر دیا بہن بھائی کی محبت مثالی تھی۔ فاطمہ کو بچپن سے گڑیو ں کے بجائے مطالعے کا شوق بھائی سے ملا۔

محمد علی جناح نے بہن کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی اور تمام خاندان کی شدید مخالفت کے باوجود بہن کا داخلہ 1902ء میں باندرہ کانونٹ اسکول میں کرا دیا جہاں شروع میں جاتے ہوئے وہ خوف محسوس کرتی تھیں تو بھائی ساتھ گھنٹوں اسکول کی کلاسوں میں جایا کرتے تھے جس سے ان میں اعتماد پیدا ہوا اور بخوبی اسکول کے تمام مدارج میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتی گئی۔ 1906ء میں ان کو قائد نے سینٹ پیٹرک اسکول میں داخل کرایا جہاںمیٹرک کا امتحان کامیابی سے پاس کیا اسکول سے فارغ ہو کر انھوں نے 1913ء میں سنیئر کیمرج کا امتحان پاس کیا اب وہ صاف بامحاورہ انگریزی میں ماہر ہو گئی تھیں اسی دوران قائداعظم نے رتن بائی سے شادی کر لی تو بہن بھائی میں تھوڑی سی عارضی دوری پیدا ہوگئی اس خلاء کو پر کرنے کے لیے انھوں نے بھائی کے مشورے سے احمد ڈینٹل کالج کلکتہ میں داخلہ لے لیا۔

1922ء میں ڈینٹیسٹ کی ڈگری حاصل کی اور 1923ء میں باقاعدہ کلینک کھول کر پریکٹس کا آغاز کیا لیکن جب 20 فروری 1929ء کو رتن بائی کا انتقال ہو گیا ان کی موت نے قائداعظم پر گہرا اثر ڈالا تو بھلا ایک محبت کرنے والی بہن کیسے گورا کرتی کہ بھائی کو اس حال میں اکیلے چھوڑا جائے انھوں نے تمام کام چھوڑ کر بھائی کے گھر کی ذمے داریاں سنبھال لیں اور قائداعظم تمام فکروں سے آزاد ہو کر تحریک آزادی وطن میں حصہ لینے لگے۔

قائداعظم خود بھی بہن کی صلاحیتوں کے متعارف تھے اس لیے ان کی توجہ اور شفقت نے محترمہ فاطمہ جناح کو بھی بھائی کے شانہ بشانہ تمام اجلاسوں میں شریک ہونے پر مجبور کر دیا وہ بھائی سے تمام سیاسی نکات پر بحث مباحثہ کرتیں۔ انھیں اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازتی قائداعظم ان کی صلاحیتوں کے متعارف تھے وہ بہن کے مشوروں پر عمل بھی کرتے ان کی تائید اور حوصلہ افزائی بھی کرتے۔ 1934ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح لندن میں تھے تو فاطمہ جناح بھی ان کے ہمراہ تھیں وہ کئی سال وہاں قیام پذیر رہیں لیکن وہاں کی رنگین فضائیں انھیں متاثر نہ کر سکیں۔

مادر ملت ہمیشہ سوچتیں کہ آخر ان ممالک نے کیسے ترقی کی یہاں کہیں کوئی بھکاری نظر نہیں آتا، غربت وافلاس نام کی کوئی چیز موجود نہیں آخر ہمارے ملک کے عوام ان سہولتوں سے کیوں محروم ہیں اس سوچ کے ساتھ بس ایک جواب تھا کہ آزادی یہی ایسی نعمت ہے جسے حاصل کرنے کے بعد ایک ملک اپنی تعمیر وترقی کے ساتھ عوام کو تمام سہولتیں دے سکتا ہے اسی لیے انھوں نے آزادی کی تحریکوں میں دن رات محنت کو اپنا شعار بنا لیا۔

جب 1947ء میں پاکستان دنیا کے نقشے میں ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آگیا تو مسائل کا ایک انبار بھی ساتھ تھا۔ خاص طور پر مہاجرین کی آمد اور ان کی بحالی کا مسئلہ سنگین نوعیت اختیارکیے ہوئے تھا۔ لوگوں نے جھوٹے کلیم داخل کر کے حقداروں سے ان کا حق غضب کرنے کی روایت روز اول سے شروع کر دی تھی۔ مادر ملت دن رات ان مسائل کو دور کرنے کے لیے ہمہ تن مشغول رہیں اس دوران بھائی کی صحت خراب ہونے پر انھوں نے بھائی کی تیمارداری پر خصوصی توجہ دینی شروع کردی لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا جس ملک کو بنانے میں قائد نے اتنی محنت کی وہ اس میںایک سال بھی گزار سکتے۔

قائداعظم بیماری کے دوران انتقال فرما گئے۔ مادرملت نے بھائی کی موت کا صدمہ کس طرح سہا ہوگا وہ ہی جانتی ہوں گی بھائی کے سکھائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ مادر ملت جو خود جمہوریت کی قائل تھیں اور جن کی تربیت قائداعظم نے کی تھی وہ بھلا کیسے گورا کر لیتیں کہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد انگریز نواز نوکر شاہی اقتدار پر قبضہ کر کے جمہوریت کے خلاف سازش کرے۔

انھوں نے جنرل ایوب کی فوجی آمریت کے خلاف میدان میں نکلنے کا فیصلہ کیا اور جمہوریت کو ایک نئی زندگی دی قوم کو آمریت سے چھٹکارا دلانے کے لیے میدان سیاست میں قدم رکھا۔ تو کونسل مسلم لیگ نے انھیں اپنا صدراتی امیدوار نامزد کر دیا۔ مادر ملت کے میدان میں آنے پر سیاستداں چوکنا ہوگئے۔ انھوں نے وسیع تر اتحاد قائم کرنے کی کوششیں تیزکر دیں انتخابی جلسوں میں ملک کے دوردراز کے دوروں میں قوم کی ماں کے استقبال کے لیے لاکھوں کی تعداد میں لوگ موجود ہوتے۔

مغربی پاکستا ن اور خاص کر مشرقی پاکستان کے عوام مادر ملت سے گہری عقیدت رکھتے تھے وہ مادر ملت کو ’’مکتی نیتا‘‘ کے نام سے پکارنے لگے ادھر ایوب خان نے مادر ملت کو شکست دینے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے جس کی بناء پر جب انتخابات ہوئے تو مادر ملت ہار گئیں عوام میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی خاص کر مشرقی پاکستان کے عوام سخت غم وغصے سے دوچار تھے۔ مادر ملت کی صورت میں انھیں ایک نجات دہندہ ملا تھا سول اور بیورو کریسی نے وہ بھی چھین لیا۔

مادر ملت زندگی کے اس آخری دور میں اپنوں کے لگائے گئے جھوٹ وفریب اور مکاری کے زخم کبھی نہ بھول سکیں۔ زندگی کے آخری ایام میں آخر وقت سیاست سے خود کو دور رکھا لیکن بناء کسی ذاتی غرض کے عوام الناس کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ قوم کی اس ماں نے 8 جولائی 1967ء کے دن داعی اجل کو لبیک کہا۔ مادر ملت کی قومی خدمات کے صلے میں پاکستانی عوام اپنی اس ماں کو بطورمحسن وملت ہمیشہ یاد رکھے گی۔

Pioneers of Freedom - Mohtarma Fatima Jinnah


Israel commits 'genocide' as Gaza strikes continue ...

$
0
0







 Israel commits 'genocide' as Gaza strikes continue ...

Israeli occupation forces escalate attack against the Gaza Strip

$
0
0
  • An Israeli missile hits an area in Rafah, southern Gaza Strip. The Israeli army  intensified its offensive on the Hamas-run Gaza Strip, striking Hamas sites and killing more than a dozen of people on the second day of a military operation. 

Indonesian elections 2014: Jokowi vs Prabowo

$
0
0
Indonesian presidential candidate Prabowo Subianto, center, talks to journalists after casting his ballot at a polling station in Bogor, Indonesia. After the most polarizing campaigning in Indonesia's history, millions of people voted to elect a new president Wednesday in a race too tight to predict, hoping for change after years of corruption and poverty. 

Gaza Children : Tears of Gaza

غزہ پر صہیونی ریاست کی وحشیانہ بمباری.......

$
0
0


جولائی بروز بدھ صہیونی ریاست نے غزہ کی شہری آبادی پر وحشیانہ فضائی اور بحری بمباری کر کے ایک دن میں 3 عورتوں اور بچوں کے بشمول 35 شہریوں کو ہلاک جبکہ تین دن سے جاری اس خونیں کھیل میں 61 فلسطینی لقمۂ اجل بن گئے اور 370سے زائد زخمی ہو گئے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ صرف حماس کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنا رہا ہے کیونکہ ان کی جانب سے اسرائیل کی سرزمین پر راکٹ باری ہوتی رہی ہے۔ صہیونی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی کارروائی کا مقصد اسرائیل پر راکٹ حملے روکنا ہے چنانچہ 7،8 جولائی اس نے 430 مقامات کو نشانہ بنایا ہے جبکہ 9 جولائی کو مزاحمت کاروں کے 270 سے زائد ٹھکانوں کو تباہ کر دیا۔ دو حملہ آور اسرائیلی طیاروں نے 9 جولائی کی صبح بیت حنون میں حماس کمانڈر حافظ احمد کے گھر پر بمباری کر کے ان سمیت پانچ اہل خانہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اسرائیلی بحریہ کے حملوں میں حماس کے چار عسکریت پسند مارے گئے۔ اس سے قبل 7 جولائی کو اسرائیل لڑاکا طیاروں نے حماس کے عسکری دھڑے عزالدین قسام کے 9 جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا۔ لیکن اسرائیل کا یہ کہنا غلط ہے کہ وہ صرف حماس کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنا رہا ہے کیونکہ جولائی کے پہلے ہفتے میں اسرائیلی حملے میں 16 فلسطینی بشمول عورتیں اور بچے ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 9 جولائی بدھ کے فضائی اور بحری حملوں میں پچاس گھر مکمل طور پر تباہ کر دیئے گئے اور ایک ہزار سات سو گھروں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

حالیہ جھڑپوں کے دوران حماس عسکریت پسندوں نے اسرائیلی سر زمین پر اب تک ڈیڑھ سو راکٹ برسائے جس پر اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل چیخ پڑا کہ خبردار راکٹ باری نہیں ہونی چاہیے اور متحاربین تشدد سے گریز کریں۔ میں غزہ اسرائیل کی ہفتہ وار فضائی اور بحری بمباری سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کا مندرجہ بالا سطور میں اجمالی ذکر کر چکا ہوں اور اس کے مقابلے میں فلسطینیوں کی راکٹ باری سے ایک شخص بھی ہلاک نہیں ہوا تو ان دونوں کو مساوی جرائم کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟ نیز اسرائیل نے اپنی چالیس ہزار فاضل فوج (Reserve Force) طلب کر لی ہے جبکہ غزہ کی سرحد پر مزید ٹینک تعینات کر دیئے ہیں۔ کیا یہ وسیع تر جنگ کی تیاری نہیں ہے؟ ماضی میں اسرائیل 2008ء اور 2012ء میں غزوہ پر فوج کشی کر چکا ہے ۔ 2012ء میں اسرائیل غزہ پر بھرپور حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا تھا تو مصر اور ترکی کے دباؤ پر حماس اور اسرائیل میں ان شرائط پر جنگ بندی ہو گئی تھی کہ:

(1) صہیونی ریاست غزہ کی ناکہ بندی ختم کر دے جبکہ
(2) حماس اسرائیل کی سرزمین پر راکٹ حملے نہ کرے۔ حماس نے توراکٹ باری بند کر دی لیکن صہیونی ریاست نے غزہ کی ناکہ بندی ختم نہیں کی۔

اسرائیل سلامتی کونسل کی قرار داد اور جنیوا کنونشن چہارم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں عربوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے امریکی مالی امداد کی رقم سے یہودی بستیاں تعمیر کرتا رہا ۔مذاکرات کی بحالی کو یہودی بستیوں کی تعمیر کے خاتمے سے مشروط کرنا پڑا۔ لیکن امریکہ نے نیتن یاہو کو یہودی بستیوں کی تعمیر سے روکنے کی بجائے محمود عباس پر دباؤ ڈال کر اس شرط پر مذاکرات میں حصہ لینے پر راضی کر لیا کہ اسرائیل یہودی بستیوں کی تعمیر کی رفتار سست کر دے گا اور محمود عباس راضی ہو گئے ۔ اب جبکہ الفتح اور حماس میں کئی سال کی محاذ آرائی کے بعد مفاہمت ہو گئی تو امریکہ اور صہیونی ریاست نے دونوں کی مخلوط حکومت کی اس بنا پر مخالفت کی کہ اس دہشت گرد تنظیم جس کے ساتھ الفتح کو حکومت نہیں بنانا چاہیے۔ صہیونی جارحیت کا الٹا اثر ہوا کہ محمود عباس نے اقوام متحدہ کے نمائندے برائے فلسطین رابرٹ سرے کے ہاتھ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو مراسلہ بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی شہری آبادی پر صہیونی بمباری کے نتیجے میں پیدا شدہ تباہ کاری کی انکوائری کرائی جائے ۔ جب سے الفتح اور حماس کے مابین مفاہمت ہوئی ہے تو وہ ایک زبان ہو کر عالمی تنظیم سے اسرائیلی جارحیت کے سدباب کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ مصر اور اردن نے بھی غزہ پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے۔ (اسلام 10 جولائی 2014ء) یہ سب اپنی جگہ درست لیکن حماس کو بھی بلاوجہ اسرائیل کو اشتعال دینے سے احتراز کرنا چاہیے۔ مثلاً اسرائیلی نوجوانوں کا اغوا اور قتل انتہائی مذموم فعل ہے جتنا ابو قبطر کے انتہا پسند یہودیوں کے ہاتھوں زندہ جلانا۔

یہ ماننا پڑتا ہے کہ اس بار نیتن یاہو نے فلسطینی نوجوان کے اغوا اورقتل کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اس غیر انسانی فعل کے مرتکب یہودیوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے عز م کا عملی مظاہرہ کیاہے جبکہ اسرائیلی پولیس نے چھ مشتبہ یہودیوں پر ابو قبطر کے اغوا اور قتل کی فرد جرم عائد کر دی ہے۔ ادھر یہودی ریاست پر بھی لازم ہے کہ اب وہ فلسطینی ریاست کے قیام میں مزاحمت نہ کرے ورنہ مقبوضہ علاقے کی آبادی قابض ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد پر مجبور ہو جائے گی کیونکہ بیرونی فوجی قبضہ خالی کرانے کے لیے مسلح جدوجہد کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے ۔ مانا کہ اسرائیل اپنی عسکری برتری سے فلسطین کو کھنڈر بنا سکتا ہے لیکن وہ بیس لاکھ فلسطینیوں کو صفحۂ ہستی سے نہیں مٹا سکتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل شام اور عراق کی خانہ جنگی میں ملوث عرب اور علاقائی ریاستوں کے باہمی اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حماس کی کمر توڑنا چاہتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ مندرجہ بالا بحران کے باعث بڑی طاقتوں کی توجہ فلسطین پر مرکوز نہیں ہو گی اس لیے وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں موجود حریت پسندوں کا قلع قمع کر دینا چاہتا ہے لیکن جب حریت پسندوں کی جڑیں عوام میں پیوست ہوں تو انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ اور نیٹو کی عبرتناک شکست استعمار کے مہم جوؤں کی ہمت شکنی کے لیے کافی ہے۔ کیا اس کے باوجود امریکہ یورپی استعمار اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ وہ جس ملک اور قوم کو چاہے ان کی تسخیر کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو امریکہ ویتنام، افغانستان اور عراق کے میدان جنگ سے راہ فرار نہ اختیار کرتا۔

بہ شکریہ روزنامہ ’’نئی بات 

Gaza under attack – The Western media’s censorship of Israeli aggression

$
0
0
Gaza under attack – The Western media’s censorship of Israeli aggression

Gaza Bleeds, World Sleeps


انسانی ساختہ آفات اور بھوک کا سبب کیا ہے؟........

$
0
0


جدید دنیا کی ترقی اور خوشحالی کے ترانے تو بہت گائے جاتے ہیں مگر اس دنیا کا معاشی عدم توازن دل دہلا دینے والا ہے۔
دنیا کے وسائل کا 80 فیصد صرف 20 فیصد آبادی کے پاس ہے، اور دنیا کی 80 فیصد آبادی صرف 20 فیصد وسائل پر قناعت کررہی ہے۔
اس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب ہے اور اسی 7 ارب آبادی میں ایک ارب 34 کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدنی سوا ڈالر سے کم ہے۔ مزید ڈھائی سے تین ارب لوگ ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدنی انہیں ایک گھٹی ہوئی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
بھوک اور زراعت سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق سن 2012 میں 87 کروڑ افراد بھوک یا انتہائی شدید غذائی قلت کا شکار تھے۔ ان میں سے 85 کروڑ افراد کا تعلق ترقی پذیر دنیا سے تھا۔
لیکن ’’ترقی یافتہ‘‘ کہلانے والی دنیا میں بھی ایک کروڑ 60 لاکھ افراد بھوک زدہ یا فاقہ زدہ تھے۔
اہم بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھوک زدہ افراد کی تعداد گھٹ نہیں رہی بلکہ بڑھ رہی ہے۔ مثلاً 2006ء میں ترقی یافتہ دنیا میں صرف ایک کروڑ 30 لاکھ لوگ فاقہ زدہ تھے، مگر 2012ء میں ان کی تعداد بڑھ کر ایک کروڑ 60 لاکھ ہوگئی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کی اس غربت اور بھوک کا سبب کیا ہے؟ مغرب کے ماہرین خود کہہ رہے ہیں کہ اس صورت حال کا بنیادی سبب دنیا کے سیاسی اور معاشی نظام ہیں، جنگیں ہیں، علاقائی تنازعات اور موسمیاتی تغیرات ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں مغرب کی عقل پرستی اور اس کی استعماری روش نے پیدا کی ہیں اور یہ تمام آفات انسانی ساختہ ہیں

شاہنواز فاروقی

Gaza still Occupied and under Attack

$
0
0
Gaza still Occupied and under Attack


اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے........

$
0
0


معروف یہودی مورخ آئزک ڈوشر کہتے ہیں کہ جو لوگ اسرائیل کو ایک غاصب ریاست سمجھتے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہودی شوق سے نہیں آئے بلکہ زمانی جبر انھیں فلسطین کھینچ کے لایا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ایک یہودی نے جان بچانے کے لیے جلتی عمارت سے چھلانگ لگائی اور اتفاقاً نیچے کھڑے فلسطینی پہ جا گرا۔ یوں وہ فلسطینی بھی اچھا خاصا زخمی ہوگیا۔ایسے حالات میں آپ چھلانگ لگانے والے کو کتنا قصور وار ٹھہرائیں گے؟

آئزک ڈوشر کی دلیل میں خاصا وزن ہے مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی ، جب
 یورپ کی جلتی ہوئی عمارت سے جان بچانے کے لیے یہودی نے نیچے چھلانگ لگائی تو جو فلسطینی اس کے بوجھ تلے دب کر ہڈیاں تڑوا بیٹھا اس سے معذرت کرنے یا مرہم پٹی کے بجائے اسے مارنا کیوں شروع کردیا اور پھر اس گرنے والے یہودی کی چوتھی نسل اس فلسطینی کی چوتھی نسل کو کیوں مار رہی ہے ؟
احساسِ جرم بھلے انفرادی ہو کہ اجتماعی اس سے دو طرح سے نمٹا جاسکتا ہے۔ یا تو آپ یہ اعتراف کرکے دل ہلکا کرلیں کہ مجھ سے زیادتی ہوگئی اور اب میں اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ایک احساسِ جرم کو دبانے کے لیے اس پر دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں جرم کا بوجھ رکھتے چلے جائیں اور آخر میں ایسے نفسیاتی مریض بن جائیں جو اس احساس سے ہی عاری ہو کہ کیا جرم ہے اور کیا جرم نہیں۔

پہلا گروہ جس نے نازی جرائم میں شرکت یا خاموش کردار ادا کرنے کا کھلا اقبال کرکے ذہنی کش مکش سے نجات حاصل کرلی، وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی جرمن قوم تھی۔مغربی جرمنی نے نہ صرف نازی نظریے کو کالعدم قرار دیا بلکہ ہٹلر کے ستم گزیدہ یہودیوں کو ان کی املاک لوٹائیں اور متاثرین کو اسرائیلی ریاست کی معرفت لگ بھگ پانچ ارب ڈالر معاوضہ بھی ادا کیا۔مگر کیا ستم ظریفی ہے کہ نازیوں کا نشانہ بننے والے یہودیوں نے کنسنٹریشن کیمپوں سے چھوٹنے کے تین برس کے اندر ہی اپنی مظلومیت خود غرضی اور ظلم کے ہاتھ فروخت کردی اور فلسطینیوں کو اپنی مجبوریاں سمجھانے کے بجائے انہی کے سینے پرچڑھ بیٹھے۔اپنی بحالی کی بنیاد فلسطینیوں کی بے گھری پر رکھی اور دور دور تک احساسِ ندامت بھی نہیں۔

صیہونی اسرائیلی کہتے ہیں کہ انھیں احساسِ جرم کیوں ستائے۔وہ تو اپنے آبا کی زمین پر دوبارہ آن بسے ہیں۔ یہ فلسطینی تھے جنہوں نے ساڑھے تین ہزار سال پہلے یہودیوں کی چھوڑی زمین پر قبضہ کرلیا تھا۔ہم نے تو بس انیس سو اڑتالیس میں قبضہ چھڑایا ہے۔کیا اپنی زمین واپس لینا اتنا ہی بڑا جرم ہے ؟
اب میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ مورخ آئزک ڈوشر کا نظریہِ مجبوری مانوں یا صیہونیت کا نظریہِ سینہ زوری۔اگر بیک وقت دونوں نظریے بھی تسلیم کرلوں تب بھی دونوں نظریات میں معذرت یا افہام و تفہیم کی روح کا شائبہ تک نہیں۔کیا یہ کسی مبنی بر حق قوم کی ثابت قدمی ہے یا پھر احساسِ جرم کو دبانے کے لیے مسلسل کوشاں قوم کی اکڑ۔مجھے تو پیروں کے نشانات ثابت قدمی سے زیادہ احساسِ جرم کی پیداوار اکڑ کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔

کیا یہ احساسِ جرم سے نگاہیں چرانے کی کوشش نہیں کہ ہر اسرائیلی بچے کو ہوش سنبھالتے ہی گھر اور اسکول میں ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ یہودی تاریخی اعتبار سے دنیا کی مظلوم ترین قوم ہے۔فلسطینی پیدائشی قاتل ہیں اور ان کی یہودیوں سے نفرت بلا جواز ہے۔فلسطینی ہماری طرح کے انسان بھی نہیں۔اب جب ایک بچہ اس طرح کی باتیں مسلسل سنتا سنتا جوان ہوگا تو اس کا رویہ فلسطینوں سے کس طرح کا ہوگا۔یہ جاننے کے لیے ارسطو ہونا بالکل ضروری نہیں۔
ایک بوڑھے اسرائیلی کو تو خیر جانے دیجئے۔نفرت کی گھٹی پر پلنے والی نئی نسل کا کیا حال ہے اس کی ایک مثال خوبرو ایلت شاکید ہے جو اسرائیل بننے کے اٹھائیس برس بعد پیدا ہوئی۔ یونیورسٹی گریجویٹ اور کمپیوٹر انجینئر ہے۔اس وقت نیتن یاہو کی مخلوط حکومت میں شامل انتہائی دائیں بازو کی جماعت ہابیت ہایہودی(یہودی مادرِ وطن)کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ (کنیسٹ)کی رکن ہے۔گذشتہ ہفتے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر یہ محترمہ رکنِ پارلیمان کیا لکھتی ہیں۔

’’ ہر دہشت گرد کے پیچھے بیسیوں ایسی عورتیں اور مرد ہیں جن کی مدد اور تائید کے بغیر وہ دہشت گرد نہیں بن سکتا۔چنانچہ یہ سب کے سب لوگ مسلح جنگجو کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ اور جو جو بھی دہشتگردی کا نشانہ بنا اس کا خون ان سب کی گردن پر ہے۔ان میں وہ مائیں بھی شامل ہیں جو اپنے دہشتگرد بچوں کی لاشوں کو پھولوں اور بوسوں کے ساتھ جانبِ جہنم رخصت کرتی ہیں۔انصاف یہی ہے کہ ان ماؤں کو بھی ان کے بیٹوں کے ساتھ روانہ کردیا جائے۔اور ان کے گھر بھی مسمار کردیے جائیں جہاں رہتے ہوئے وہ سانپ پیدا کرتی ہیں۔بصورتِ دیگر یہ سنپولیے ہی پیدا کرتی رہیں گی‘‘۔
(مذکورہ تحریر نازی کنسنٹریشن کیمپوں سے زندہ بچ نکلنے والوں کی نئی نسل کے جذبات سے زیادہ ہٹلر کی سوانح حیات ’’ مین کیمپف ’’ کا کوئی اقتباس لگتا ہے)۔
ایلت شاکید کی اس تحریر کو دو گھنٹے کے اندر فیس بک پر ایک ہزار سے زائد اسرائیلیوں نے شئر اور پانچ ہزار سے زائد نے لائیک کیا۔سوچئے کہ ایک دن کنیسٹ کی یہ رکن ایلت شاکید وزیرِاعظم بن جائے تو پھر؟؟؟؟
چلیے مان لیا کہ ایلت کی تحریر کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئیے کیونکہ یہ اس دن لکھی گئی جب تین اغوا شدہ اسرائیلی نو عمروں کی لاشیں غربِ اردن کے کسی ویرانے سے ملیں۔ لیکن اس سے اگلے روز ایک پندرہ سالہ فلسطینی بچے محمد خدیر کی جلی ہوئی لاش ملی۔ تب کیا کسی فیس بک یا ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کسی اسرائیلی نوجوان نے اظہارِ افسوس کیا؟ اگر کیا بھی ہوگا تو اسے اتنے لوگوں نے شئیر نہیں کیا ہوگا جتنی محمد خدیر کی وہ تصویر شئیر ہوئی جس کے نیچے لکھا تھا ’’نوعمر فلسطینی دہشت گرد‘‘۔
اور جب اسرائیلی سیکیورٹی اہلکاروں نے محمد خدیر کے امریکا سے چھٹیوں پر آئے ہوئے نو عمر کزن طارق ابو خدیر کو مار مار کے اس کا چہرہ اتنا بگاڑ دیا کہ ہونٹ سوجھ کے باہر کی طرف لٹک پڑے تو اسرائیلی ٹویٹر پر جو تصویر سب سے زیادہ شئیر ہوئی اس میں ایک طرف طارق ابو خدیر کا سوجھا ہوا چہرہ اور ساتھ ہی ایک خنزیر کی تھوتھنی بھی دکھائی گئی۔تین اسرائیلی نو عمروں کے قتل میں تو نیتن یاہو حکومت کو فوراً حماس کا ہاتھ نظر آگیا اور اس کے نتیجے میں غزہ کے لگ بھگ دو سو فلسطینی اب تک اپنی جانوں کی قیمت ادا کرچکے لیکن محمد خدیر کو زندہ جلانے کے شک میں جن چھ اسرائیلی نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا ان پر باقاعدہ فردِ جرم عائد کرنے سے پہلے یہ اطمینان کیا جائے گا کہ کیا واقعی یہی قاتل ہیں؟ کیونکہ ایک مہذب معاشرے میں انصاف و قانون کے تمام بنیادی تقاضے پورے ہونے ضروری ہیں۔

اسرائیل تو ویسے بھی مشرقِ وسطیٰ کے بے ہنگم و وحشی سمندر میں جمہوریت کا جزیرہ مانا جاتا ہے۔ ایسی جمہوریت جس میں یہودیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی عربوں کو بھی ووٹ دینے اور اپنے نمایندے منتخب کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تل ابیب میں کوئی اسرائیلی یہودی کسی اسرائیلی عرب کو اپنا اپارٹمنٹ کرائے پر دے دے گا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ حکومت یہودیوں آبادکار بستیوں کی طرز پر اسرائیلی عربوں کو بھی بستیاں بنانے کی اجازت دے یا پھر انھیں آسان شرائط پر مکان بنانے کے لیے قرضے دیتی پھرے۔
اسرائیل جو غربِ اردن میں انیس سو سڑسٹھ کے بعد سے اب تک سات لاکھ سے زائد یہودی بسا چکا ہے۔اس جمہوریت میں ایک بھی نئی عرب بستی بسانے کی اجازت نہیں۔اور اس جمہوریت کے زیرِ تسلط مقبوضہ فلسطینوں کے ساتھ جو رویہ ہے وہ کسی بھی جمہوری ملک کی تاریخ کی انہونی مثال ہے۔
برطانوی زیرِ انتداب فلسطین میں ارگون جیسی صیہونی دہشت گرد تنظیم کا سربراہ مینہم بیگن اسرائیل میں لیخود پارٹی بنا کر یا صابرہ اور شتیلا کے قتلِ عام کا ذمے دار شیرون اگر وزیرِ اعظم بن جائے تو یہ عین جمہوری عمل ہے۔لیکن حماس اگر شفاف انتخابات کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی میں برسرِ اقتدار آجائے تو یہ دہشت گردی ہے۔

غزہ پر اسرائیل اس لیے مسلسل ایک ہفتے سے پوری فوجی طاقت استعمال کررہا ہے کیونکہ حماس کے شرارتی لونڈے بچارے اسرائیلیوں پر ایک ہزار سے زائد راکٹ برسا چکے ہیں۔مگر یہ کیسے اللہ مارے راکٹ ہیں جن سے ایک اسرائیلی بھی نہیں مرا۔ ان ’’ریکٹوں’’ سے تو اسرائیل کے وہ بم اچھے جو پھٹتے ہیں تو پورا پورا خاندان اڑا لے جاتے ہیں۔البتہ حماس کی راکٹ باری کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ خطرے کے اسرائیلی سائرنوں پر بیٹھی گرد صاف ہوگئی۔ اسرائیل کی نئی پود کے لیے تو اتنی فلسطینی جارحیت بھی بہت ہے۔ایک نو عمر نے ٹویٹر پر لکھا

’’اے عربو تمہارے کرتوتوں کے نتیجے میں صبح ہی صبح بجنے والے سائرنوں سے میری نیند حرام ہوگئی ہے۔خدا تم سب کو غارت کرے‘‘۔
تو رات میں لکھا ہے’’ آنکھ کے بدلے آنکھ ’’۔مگر جدید اسرائیل میں اس کی تشریح یوں ہے کہ’’ ایک پلک کے بدلے دوسرے کی کم از کم دونوں آنکھیں اور ہوسکے تو چہرہ بھی‘‘۔۔

نوم چومسکی نے ایک فلسطینی کو یوں نقل کیا ہے۔
’’ تم نے میرا پانی لے لیا، زیتون جلا ڈالے، گھر مسمار کردیا، روزگار چھین لیا، زمین چرا لی، باپ قید کردیا، ماں مار ڈالی، میری دھرتی کو بموں سے کھود ڈالا، میرے راستے میں فاقے بچھا دیے، مجھے کہیں کا نہ رکھا اور اب یہ الزام بھی کہ میں نے تم سے پہلے راکٹ کیوں پھینک دیا‘‘۔

غزہ پر صیہونی یلغار........

$
0
0


فلسطینی علاقہ غزہ جو گزشتہ 6برس سے زائد عرصے سے غاصب صیہونی اسرائیلی محاصرے میں ہے، غزہ کی اندرونی صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کے پاس کھانے کوخوراک نہیں تو بیماروں کو دینے کو دوا نہیں، کہیں اسپتالوں میں مشینری موجود ہے تو ڈاکٹر موجود نہیں اور اگر ڈاکٹرز موجود بھی ہیں تو ادویات کی قلت کے باعث معصوم فلسطینیوں کی مشکلات کا سامنا ہے۔

اسی طرح غزہ کو سپلائی کی جانے والی بجلی کے ہیڈ آفسز پر بھی صہیونی اسرائیلیوں کا قبضہ ہے، جس کے باعث غزہ کے لوگوں کو اندھیروں میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، اسی طرح غزہ میں موجود کھیتوں کو صہیونیوں نے اجاڑ دیا ہے تا کہ فلسطینی کسان کسی بھی قسم کی کھیتی باڑی کر کے سبزیاں اور اناج پیدا کر کے خوراک حاصل نہ کر سکیں۔

غزہ میں بسنے والے اٹھارہ لاکھ انسان ایسے زندگی گزار رہے ہیں جس کا کوئی مطلب نہیں نکلتا، خلاصہ یہ ہے کہ غاصب اسرائیل نے غزہ کے ان اٹھارہ لاکھ فلسطینیوں پر زندگی تنگ کر دی ہے اور موت آسان کر دی ہے، غزہ میں بسنے والے فلسطینیوں کا قصور کیا ہے؟ کیا یہ لوگ انسانوں میں شمار نہیں ہوتے ہیں؟ کیا ان اٹھارہ لاکھ افراد کو زندگی گزارنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے؟ کیا ان اٹھارہ لاکھ انسانوں کے کسی بھی قسم کے بنیادی حقوق نہیں ہیں؟ کیا یہ اٹھارہ لاکھ مظلوم انسان صرف اس لیے قتل کیے جا رہے ہیں کہ کیونکہ یہ فلسطینی ہیں؟ یا پھر ان کو اس لیے انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنایا جا رہاہے کیونکہ یہ فلسطینی ہیں اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے؟
یا پھر ان کا گناہ یہ ہے کہ انھوں نے 2006ء میں فلسطین میں ہونے والے انتخابات میں فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کو ووٹ دیا تھا؟ یا پھر اس سے بھی بڑھ کر ان کا گناہ یہ ہے کہ یہ سر زمین فلسطین پر پیدا ہوئے ہیں؟ تو کیا فلسطینی ہونا کوئی گناہ کی بات ہے؟ اس طرح کے درجنوں سوالات اذہان میں جنم لے رہے ہیں، کیونکہ ان اٹھارہ لاکھ فلسطینیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں، عالمی برادری کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ دنیا کے ان مظلوم ترین انسانوں کی مدد کے لیے کوئی پروگرام ترتیب دیا جائے، اقوام متحدہ ہو یا عرب لیگ یا پھر یورپی یونین ہو یا اسلامی ممالک کی تنظیم یہ سب کے سب خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہیں۔

یکم جولائی یعنی 2رمضان المبارک سے ایک مرتبہ پھر محصورین غزہ پر اسرائیل کی جانب سے آگ و خون برسانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے، اس مرتبہ اسرائیل نے غزہ پر یلغار کرنے کے لیے جو بہانہ بنایا ہے وہ تین یہودی آباد کاروں کا اغوا اور پھر ان کا قتل ہے، 12جون 2014ء کو مقبوضہ فلسطین کے تین یہودی آباد کاروں کو اغوا کر لیا گیا جس کے بعد کافی دن گزر جانے کے بعد یکم جولائی کو ان تینوں یہودی آباد کاروں کی لاشیں غزہ کے ایک علاقے میں پھینک دی گئیں جس کے بعد غاصب صیہونی اسرائیل نے فوری طور پر غزہ پر حملہ کا آغاز کر دیا اور بڑے پیمانے پر فضائی حملوں کا آغاز کر دیا۔

پہلے روز مختلف مقامات کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا تاہم رفتہ رفتہ صیہونی فضائیہ کے ساتھ بحری اور بری فوجیں بھی میدان میں کود پڑی ، صیہونیوں نے ایک طرف اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے چیدہ چیدہ رہنمائوں کو غزہ میں نشانہ بنانا شروع کیا تو دوسری جانب غزہ میں بسنے والے عام فلسطینیوں پر بھی بڑے پیمانے پر یلغار شروع کر دی جس کے نتیجے میں درجنوں کی تعداد میں بچے، خواتین اور نوجوان شہید ہوئے ، سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہو چکے ہیں۔
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے تین یہودی آباد کاروں کے اغوا کا الزام اسلامی مزاحمتی تحریک حماس پر عائد کیا اور روز اول سے ہی حماس کے خلاف حملے اورکارروائی کا راگ الاپنا شروع کر دیا، جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ غاصب اسرائیل نے بہت پہلے سے ہی غزہ میں اسلامی مزاحمتی تحریک کے خلاف سازشوں کا جال بنا رکھا تھا، بس وہ کسی بہانے کے انتظار میں تھا اور پھر یہ جواز اسرائیل نے خود ہی پیدا کر لیا، پہلے اپنے ہی شہریوں کو اغوا کیا اور پھر کچھ روز قید میں رکھنے کے بعد انھیں قتل کرکے ایسے علاقے میں پھینکا گیا جہاں فلسطینیوں کی کثیرآبادی مقیم ہے تا کہ اس کا الزام براہ راست فلسطینیوں پر ثابت کیا جائے۔
فرض کریں کہ اگر تین یہودی آباد کاروں کے اغوا میں فلسطینی گروہ یا پھر حما س ہی ملوث ہوتی تو پھر ان تین یہودی آباد کاروں کے بدلے میں کہ جن کے لیے اسرائیل ان کے اغوا کے بعد سے ہی بے چین ہو رہا تھا ، فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ کیا جاتا، کوئی ڈیل سامنے آتی ، جیسا کہ ماضی میں ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ حماس نے اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کیا اور پھر ان فوجیوں کے بدلے میں سیکڑوں کی تعداد میں فلسطینی قیدیوں کو رہائی ملی، یقینا ایسا کوئی معاہدہ کیا جاتا ۔

حماس اس طرح کی بزدلانہ کارروائی میں ملوث نہیں ہو سکتی، لیکن اسرائیل کہ جس کا ماضی اس طرح کی بزدلانہ کارروائیوں سے بھرا پڑا ہے کوئی بعید نہیں ہے کہ خود اپنے شہریوں کا اغوا کیا جانا اور پھر قتل کیا جانا اسرائیلی بدنام زمانہ ایجنسی ’’موساد‘‘ کی کاروائی ہو سکتی ہے، اور امریکا ہو یا اسرائیل اس قسم کی کاروائیوں سے تاریخ میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں، جس میں سے ایک مثال 9/11کی ہے۔
غزہ پر صہیونی بد ترین جارحیت اور یلغار جاری ہے، لیکن دوسری طرف عالم اسلام خاموش ہے، کہیں سے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے، ایک آدھ اسلامی ملک ہے جو مسئلہ فلسطین کی خاطر مسلسل جد وجہد کرتا ہوا نظر آرہا ہے لیکن مجموعی طور پر صورتحال قابل تشویش ہے۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ پوری مسلم امہ اس ماہ رمضان المبارک میں یکجان ہو کر اٹھ کھڑی ہو، مسلم ممالک میں کام کرنے والی اسرائیلی اقتصادی کمپنیوں پر فی الفور پابندی عائد کر دی جائے اور پوری مسلم امہ امریکا اور اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑی ہو تو وہ دن دور نہیں ہے کہ جب غاصب صیہونی اسرائیل کا 
وجود ہی صفحہ ہستی سے ختم ہو جائے گا۔

The amazing Doctors in Al-Shifa hospital in #Gaza

$
0
0
The amazing Doctors in Al-Shifa hospital in #Gaza on duty 24/7 saving lives. They pray, eat and sleep at the hospital.

May Allah reward them, protect them, grant them strength and raise their status. Ameen

Gaza

United Nations and Philistine


Remember Dr. Aafia Siddiqui

غزہ کا واحد سہارا ایردوان ........

$
0
0



تین اسرائیلی نوجوانوں کی فلسطینیوں کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد اسرائیل نے غزہ میں موت کے جس کھیل کا آغاز کررکھا ہے وہ کھیل اب بھی جاری ہے اور اس خونی کھیل میں اب تک 160 سے زائد بے گناہ فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔ اسرائیل جو اپنے ایک ایک باشندے کی زندگی کی جانب خصوصی توجہ دیتا ہے بدقسمتی سےاپنی ہی آبائی سرزمین پر آباد فلسطینی باشندوں کو اپنے مستقبل کے لئے بہت بڑا خطرہ تصور کرتا ہے اور اس کو جیسے ہی کوئی موقع ملتا ہے ان مقامی باشندوں کو سزا دینے سے ہر گز نہیں چوکتا ہے بلکہ اس نے ان باشندوں کا ان کی اپنی ہی سرزمین پر جینا دو بھر کررکھا ہے۔ اسرائیل نے اپنی اس پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہوئے معصوم اور بے گناہ فلسطینی بچوں اور خواتین کے قتل عام کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس کی مہذب دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ اسرائیل نے مختلف ہتھکنڈے اپناتے ہوئے جس طریقے سے فلسطینی باشندوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اس کو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں( فیس بک پر پیش کی جانے والی تصاویر اور فوٹیج اس قتل عام کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔) اسرائیلی فوج غزہ میں اپنی کارروائی کے دوران جس فلسطینی باشندے کو بھی شک و شبہے کی نظر سے دیکھتی ہے فوری طور پر اس کو چند منٹوں کے اندر گھر خالی کرنے کا نوٹس جاری کر دیتی ہےاور فلسطینی باشندہ نوٹس کے ملنے کے فوراً بعد اہلِ خانہ کے ہمراہ اس گھرکو خالی کرنے پر مجبور ہوجاتا کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس کی زندگی کی پروا کیے بغیر ہی بمباری کر کے اس گھر ہی کو تباہ کر دیا جاتا ہے۔

اسرائیلی فوج بعض اوقات جان بوجھ کر ان فلسطینی باشندوں کو اتنا کم وقت دیتی
 ہے کہ اس دوران ان کے گھروں سے نکلنے کے امکانات ہی موجود نہیں رہتے ہیں کیونکہ اسرائیلی فوج دئیے ہوئے وقت سے پہلے ہی فضائی کارروائی کرتے ہوئے ایسے تمام فلسطینی باشندوں کو جان بوجھ کر ہلاک کررہی ہے تاکہ علاقے کو ان سے پاک کیا جائے تاکہ مستقبل میں ان آبائی باشندوں کا علاقے میں کوئی نام و نشان ہی باقی نہ رہے ۔ اسرائیل نے اس روئے زمین پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے لیکن اسرائیل کو روکنے والا کوئی نہیں ہے اور اسلامی ممالک کے حکمران بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ اس ماہ رمضان کے دوران فلسطین کے مظلوم باشندے اسرائیل کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں اور ان کی مدد کو کوئی بھی نہیں آرہا ہے ۔فلسطینی باشندے اسی ماہ رمضان میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم سے بچنے کے لئے اپنے بھائیوں کی مدد کے منتظر ہیں۔لیکن عرب حکمرانوں پر بھی خاموشی طاری ہےآخر یہ بے حسی کب تک جاری رہے گی؟

اس موقع پر اگر کوئی مسلم رہنما فلسطینیوں کی مددکےلئے آگے بڑھا ہے تو وہ بلا شبہ ترکی کے وزیراعظم رجب طیب ایردوان ہی ہیں۔وزیراعظم ایردوان کو دنیا اس وقت سے جانتی ہے جب انہوں نے ڈیوس اقتصادی فورم کے موقع پر اسرائیل کے صدر شمعون پئیرز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا ’’ آپ اسرائیلی، معصوم فلسطینی بچوں کو ہلاک کرنے کے فن میں ماہر ہیں‘‘۔ وزیراعظم ایردوان کے ان الفاظ نے وہاں بیٹھے اسرائیلی صدر کے چھکے چھڑا دئیے تھے اور ایردوان نے ان الفاظ کی ادائیگی کے بعد اس فورم ہی کو ترک کر دیا تھا۔ ایردوان کی مظلوم فلسطینیوں سے گہری محبت نے راتوں رات ایردوان کو عالم عرب کا بھی ہیرو بنا دیا تھا۔

یہ ہیرو ایک بار پھر ایک ایسے وقت میں غزہ کے فلسطینیوں کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا ہے جبکہ عالم اسلام کے دیگر رہنما فلسطینیوں پر کیے گئے ظلم و ستم کے باوجود ٹس سے مس نہیںہورہے بلکہ ماہ رمضان کےموقع پر ان مظلوموں پر کیے جانے والے ظلم و ستم پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ وزیراعظم ایردوان نے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر کئے جانے والے فضائی حملے کے پہلے روز ہی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کو ٹیلی فون کرتے ہوئے اسرائیل کے فضائی حملے فوراً رکوانے کی اپیل کی ( یہ الگ بات ہے کہ اقوام متحدہ اسرائیل کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے اور اقوام متحدہ کی کسی بھی قرارداد کی کوئی پروا نہیں ہے)لیکن ان کی یہ اپیل ابھی تک اپنا کوئی اثر نہیں دکھا سکی ہے ۔ اسی دوران وزیراعظم ایردوان نے فلسطین کے صدر محمود عباس کو ٹیلی فون کرتے ہوئے ہرممکنہ امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ا ور اسی دوران انہوں نے حماس کے سیاسی ونگ کے رہنما خالد مشل کو بھی ٹیلی فون کرتے ہوئے غزہ کی صورت حال کے بارے میں بات چیت کی۔ یہاں پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ وزیراعظم ایردوان کی کوششوں ہی کے نتیجے میں صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل حنیہ کے درمیان اختلافات کو دور کرتے ہوئے فلسطین کی سرزمین پر ایک مشترکہ سول حکومت قائم کرنے کی راہ ہموار ہوئی تھی اور اسرئیل کے حملوں سے قبل اس نئی حکومت تشکیل دینے کی تیاریوں کو مکمل کرلیا گیا تھا لیکن اسرائیل کو اس نئی حکومت کی تشکیل ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔ اسی لئے کہا جارہا ہے کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کیے ہیں تاکہ فلسطین میں کوئی مشترکہ یا قومی اتحادی حکومت قائم نہ کی جا سکے جو مستقبل میں اسرائیل کے لئے خطر ناک ثابت ہو۔

اسی دوران اسرائیل کی جانب سے ترکی کے ساتھ تعلقات کو معمول کی سطح پر لانے سے متعلق کئی بار کی جانے والی اپیل پر ترکی کے وزیراعظم ایردوان نے اپنی صدارتی مہم کے دوران عوام سے خطاب کرتے ہوئے برملا طور پر اسرائیل پر واضح کردیا کہ ترکی اس وقت تک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول کی سطح پر نہیں لاسکتا جب تک اسرائیل غزہ پر عائد پابندیوں کو ختم نہیں کر دیتا۔

وزیراعظم ایردوان نے غزہ میں کیے جانے والے غیر انسانی سلوک اور فضائی حملوں کو رکوانے کے لئے اپنی سفارتی کوششوں کو بھی جاری رکھا ہوا ہے ۔ انہوں نے اس سلسلے میں فرانس کے صدر فرانسواں اولینڈ اور قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے۔وزیراعظم ایردوان نے فرانس کے صدر فرانسواں اولینڈ کو یورپی یونین کے توسط سے اسرائیل پر اپنا دبائو ڈالتے ہوئے فضائی حملوں کو فوراً رکوانے کی اپیل کی ہے اور 2012ء میں طے پانے والے فائر بندی کے سمجھوتے پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے جبکہ قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی سے عرب لیگ کا اجلاس منعقد کرتے ہوئے عرب ممالک کا مشترکہ موقف اختیار کرنے اور اپنے اوپر عائد ہونے والے فرائض ادا کرنے کی بھی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ترکی نے اس دوران غزہ کے فلسطینیوں کی امداد کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ ترکی کے کوآپریشن اینڈ کوآرڈی نیشن ادارے تیکا نے غزہ میں اپنا ایک امدادی دفتر قائم کر رکھا ہے اور ترکی نے اپنے اس ادارے کے توسط سے عالمی ادارہ صحت ڈیڑھ ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے تاکہ غزہ میں دوائوں کی کمی کو دور کیا جا سکے اور زخمیوں کاعلاج معالجہ کیا جاسکے ۔ اس کے علاوہ ترکی کے اسی ادارے نے غزہ کے باشندوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک ملین ڈالر فراہم کیے ہیں۔ اسی دوران حکومت ِ ترکی نے حکومتِ فلسطین کے ساتھ گہرا رابطہ قائم کررکھا ہے اور علاقے کی صورتِ حال کے بارے میں صلاح و مشورے کی غرض سے فلسطین کے صدر مملکت محمود عباس اٹھارہ جولائی بروز جمعہ ترکی کے دورے پر تشریف لا رہے ہیں۔ صدر محمود عباس کے دورہ ترکی کے دوران غزہ کی صورتِ حال کا تمام پہلوئوں سے جائزہ لینے کے علاوہ فلسطین میں ایک قومی اتحاد حکوت کی تشکیل کے بارے میں غور کیے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر فرقان حمید
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 

History shows passenger plane shootdowns often mistakes

$
0
0

یوکرین کی فضائی حدود میں ملائیشیا کے مسافر بردار طیارے ایم 17 کو ممکنہ طور پر میزائل سے مار گرائے جانے کے واقعے نے اس سے قبل پیش آنے والے چند حادثوں کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔
اس سے پہلے پانچ بار مسافر طیاروں کو مارگرایا گیا ہے۔ ایسے ہی حادثوں پر ایک نظر:
سائبرين ایئر لائنز کی پرواز نمبر 1812، اکتوبر سنہ 2001 چار اکتوبر سنہ 2001 کو سائبیريئن ایئر لائنز کا ایک طیارہ اسرائیل کے شہر تل ابیب سے روس کے شہر نوووسیبرسك جانے کے لیے بحیرۂ اسود پر پرواز کر رہا تھا کہ اسے مار گرایا گیا۔ طیارہ بحیرۂ اسود میں جاگرا جس کے نتیجے میں اس میں سوار تمام 78 افراد ہلاک ہو گئے۔

شروع میں یوکرین کی فوج نے اس حادثے میں اپنے کردار سے انکار کیا تھا تاہم بعد میں اس نے قبول کیا کہ اس کی فوج نے جنگی مشق کے دوران غلطی سے طیارے کو نشانہ بنا لیا تھا۔
ایران ایئر کی پرواز نمبر 655، جولائی سنہ1988
تین جولائی سنہ 1988 کو ایران ایئر کی دبئی جانے والی ایئر بس اے 300 طیارے کو امریکہ نے ایف -14 لڑاکا طیارہ سمجھ کر مار گرایا تھا۔
1979 میں ایرانی انقلاب سے پہلے امریکہ نے یہ ایف -14 لڑاکا طیارہ ایران کو فروخت کیا تھا۔ تاہم جولائی 1988 میں امریکی جہاز یو ایس ایس ونسینس(USS Vincennes) نے ایران کے اسی طیارے پر دو میزائل داغے۔
اس حملے کی وجہ سے طیارے میں سوار تمام 290 مسافر اور عملے کے ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔
ایران نے اس حادثے کو ’مجرمانہ کارروائی، ظلم اور قتل عام‘ کہہ کر اس پر احتجاج کیا تھا، جبکہ امریکہ مسلسل زور دیتا رہا کہ یہ غلطی سے ہوا تھا۔
سنہ 1996 میں ایران نے امریکہ کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ بھی شروع کیا تھا اور بعد میں امریکہ نے ہلاک ہونے والوں کے خاندان والوں کو معاوضہ بھی دیا تھا۔
کورین ایئر لائنز کی پرواز نمبر 007، ستمبر سنہ 1983نیویارک سے سیول جانے والے کورین ایئر لائنز کے مسافر طیارے کو ایک ستمبر سنہ 1983 کو سوویت یونین کےایک لڑاکا طیارے نے مار گرایا تھا۔ طیارے میں سوار تمام 269 افراد اور عملے کے ارکان ہلاک ہو گئے تھے.
یہ طیارہ اپنا راستہ بدل کر سابق سوویت یونین کے فضائی حدود میں داخل ہو گیا تھا۔ سوویت یونین کے رہنماؤں نےشروع میں حادثے کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا تھا، تاہم بعد میں طیارے کو گرانے میں اپنا کردار قبول کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ طیارے کے ذریعے جاسوسی کی جا رہی تھی۔
ليبيئن عرب ایئر لائنز کی پرواز نمبر 114، فروری سنہ 1973اسرائیل کے لڑاکا طیاروں نے ليبيئن ایئر لائنز کے بوئنگ 727-200 طیارے کو مصر کے صحرائے سینا کے اوپر 21 فروری سنہ 1973 کو مار گرایا تھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ خراب موسم اور فنی خرابی کے باعث پائلٹ شمالی مصر کے اوپر راستہ بھٹک گئے تھے اور اسرائیل کے کنٹرول والے علاقے میں داخل ہو گئے تھے۔
اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے خبردار کرنے کے لیے پہلے شاٹ فائر کیے اور طیارے کو اترنے کے سگنل دیے۔ تاہم بعد میں دو لڑاکا طیاروں نے اس مسافر طیارے کو مار گرایا۔اس حادثے میں طیارے میں سوار 113 افراد میں سے صرف پانچ ہی بچ پائے تھے۔
كیتھے پیسیفك ايئرویز کی پرواز نمبر سی 54 ، جولائی 1954كیتھے پیسیفک ايئرویز کا سی -54 سكائی ماسٹر طیارہ بینکاک سے ہانگ کانگ کے لیے 23 جولائی1954 کو روانہ ہوا۔ اس دوران ہنان جزیرے کے ساحلی علاقے میں چینی لڑاکا طیارے نے اسے مار گرایا، جس کے نتیجے میں جہاز میں سوار 19 مسافروں میں سے دس ہلاک ہو گئے۔
چین کا موقف تھا کہ اس نے جہاز کو حملہ آور مہم پر آیا ہوا فوجی طیارے سمجھ لیا تھا۔


Online Petition for Aafia's Release

Ezzedine Al-Qassam Brigades

$
0
0

 Before 1990, the name of Hamas's military wing was unknown. That year, however, witnessed a quantum leap in the military performance of the movement, which founded its own military force, the "Ezzedine Al-Qassam Brigades", named after the martyred Syrian resistance fighter who was shot dead by British soldiers in the Palestinian town of Ya'bad near Jenin in 1935.
The founding leaders of Al-Qassam Brigades say that military activities of the Muslim Brotherhood, prior to the establishment of Hamas, started in the 1980s under different names, including "Palestinian Mujahedeen" and "Majd".
In January 1, 1992, the brigades issued their first statement and circulated it following an operation carried out by one of the movement's cells, which killed the rabbi of Kfar Dorom settlement, Doron Shoshan. In the statement, Hamas introduced Al-Qassam Brigades officially as its military wing.
After its modest foundation with only a handful of fighters, the brigades now fill the Gaza Strip; the extent of their presence in the West Bank is not known. According to a bulletin issued by Al-Qassam on its 20th anniversary, the number of members in Gaza alone exceeds 10,000. It is thus a real army with military formations of individuals, companies, battalions and brigades.
The bulletin revealed that Al-Qassam has four brigades: Northern Gaza Brigade, Gaza Brigade, Central Gaza Brigade and Southern Gaza Brigade.
The military wing started its operations with a pistol, then a rifle and then manufactured its own machine gun. Its weapons evolved to include improvised explosive devices such as "Hoaz" explosives, and then suicide bombings using explosive belts, in addition to bombs and remote-detonation equipment.
The Sderot settlement was the first target of the locally-produced Palestinian rocket launched by Al-Qassam on Friday 26 October, 2001. The rocket was named "Qassam 1" and was described by Time Magazine as "the primitive rocket that may transform the Middle East." It was developed rapidly into "Qassam 2", which debuted in February 2002. The resistance group has expanded the range of its rockets to over 80 kilometres. The M75 was used in Israel's war against Gaza in 2012; Israel's latest assault and invasion of Gaza this month has seen the R160 rocket used in retaliation, aimed at Haifa. In a remarkable development, Al-Qassam announced on 14 July its ability to manufacture 3 drones for use in special operations against Israel.
Like other armed forces around the world, Al-Qassam has specialist units for engineering, aerial operations, artillery and martyrs. During the current Israeli operation in Gaza, the brigades have announced the first operation by marine commandos, who infiltrated Israel's heavily-fortified Zakim military base located in the city of Ashkelon.
Al-Qassam Brigades have employed deterrent technology to confront the Israeli armed forces. The military wing has claimed that it has produced anti-tank missiles, such as "Al-Battar" and "Al-Yassin", and improvised explosive devices which have shattered the myth of the invincibility of Israel's Merkava tanks.
Furthermore, the wing has captured a number of Israeli soldiers as hostages, the last of whom was Gilad Shalit. He was captured while on active duty in 2005; his release was made in exchange for 1,050 Palestinian prisoners as part of a swap deal in 2011.
The brigades fought in Israel's two wars of aggression against the Gaza Strip in 2008 and 2012, and claim to have inflicted heavy losses on the Israelis.
The current leader of Al-Qassam Brigades is Mohamed Al-Deif. Israel has placed him on its "bank of targets to be liquidated" and has tried to assassinate him on more than one occasion. He stands accused of being the mastermind behind all key Al-Qassam operations.
Viewing all 6213 articles
Browse latest View live