- رسم اہلِ وفا ہر ستم جھیلنااپنی تاریخ ہے موت سے کھیلناکج فہم لوگ ہم کو ڈرانے پہ ہیںہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیں...جرم ہے مقتدر، ظلم مغرور ہےمحو طاقت جفاؤں پہ معمور ہےہم بھی اپنا جگر آزمانے پہ ہیںہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیںغیرت دین سے ربط کو توڑ دیںڈر کے طاغوت سے نظریہ چھوڑ دیںیہ سبق ہم کو بزدل پڑھانے پہ ہیںہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیںقاتلو! قتل گاہیں سجاتے رہوسینے حاضر ہیں گولی چلاتے رہوہم عقیدے پہ تن من لُٹانے پہ ہیںہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیںیہ تقاضہ ہے مُلک خُدا داد کاسکہ چلنے نہیں دیں گے الحاد کااُن کے تاج ستم ہم گرانے پہ ہیںہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیںگرم پرواز، جانباز، شہباز ہمکشمکش ہے، جنوں ہے، تگ و تاز ہمجان کی بازیاں کھیل جانے پہ ہیںہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیںزور و زر زیر ہونے کو ہے اک دنبام و در ڈھیر ہونے کو ہے اک دنمٹنے والے ہیں وہ جو مٹانے پہ ہیںہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیںدشمنوں کا چلن جندہی جان پرہر حد آدمیت بُھلانے پہ ہےہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیںوقت بدلے گا افضال کو ہے یقیںجبر کے دور سے ہم ہراساں نہیںفتح و نصرت کے پیغام آنے کو ہیںہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیںچلتی بندوق کےہم دہانے پہ ہیں
↧