امریکی میڈیا کے پروپیگنڈے نے مسلمانوں اور دہشت گردی کو لازم و ملزوم بنا رکھا ہے چناں چہ اکثر امریکی یہی دعویٰ کرنے لگے کہ شدت پسند مسلمان ایک قدامت پسند عیسائی کے صدر بننے سے ناراض ہیں لہٰذا اب وہ یہود پر اپنا غصّہ اتارنا چاہتے ہیں۔ امریکا میں کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ ایک یہودی بھی اپنے ہم مذہبوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کر سکتا ہے۔ آخر میں یہی سچائی طشت ازبام ہوئی۔ جب امریکی خفیہ ایجنسی نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کالیں کرنے والا ’’سپوف کارڈ‘‘ (SpoofCard) کی مدد سے کال کرتا ہے۔ امریکا کی ایک کمپنی، ٹیل ٹیک سپوف کارڈ کی سروس فراہم کرتی ہے۔ اس سروس کی مدد سے فون کال کرنے والا اپنی شناخت چھپا سکتا ہے۔ چناں چہ یہ پتا نہیں چلتا کہ کال کہاں سے ہوئی۔
![]()
امریکی خفیہ اداروں نے عدالت سے حکم لیا اور ٹیلی ٹیک پہنچ گئے تا کہ کالر کے حقیقی نمبر کا پتا چل سکے۔ وہاں نیا انکشاف ہوا کہ کالر گوگل وائس سروس سے کالیں کرتا ہے۔ اس عیار کالر نے جعلی نام سے سروس حاصل کر رکھی تھی اور یہ کہ وہ دو تین بار کالیں کرنے کے بعد نیا اکاؤنٹ کھول لیتا تھا۔ ٹیل ٹیک اور گوگل کی سرور لاگز بھی کالر تک پہنچنے کے سلسلے میں امریکی خفیہ اداروں کی کوئی مدد نہ کر سکیں۔ کالر دنیائے انٹرنیٹ میں انونیمس پراکسی سرور کے ذریعے گھومتا پھرتا تھا جو بیرون ممالک واقع تھے۔ کالر اتنا چالاک و کائیاں تھا کہ اس نے سپوف کارڈ کا ایک آپشن استعمال کرتے ہوئے اپنی آواز مردانہ سے نسوانی بنا لی ۔ سپوف کارڈ سروس پانے کی خاطر رقم خرچنا پڑتی ہے۔ اس معاملے میں بھی کالر اپنی شناخت عیاں کیے بغیر سروس پانے میں کامیاب رہا۔ اس نے اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال نہیں کیا بلکہ سپوف کارڈ انٹرنیٹ کرنسی، بٹ کوائن خرچ کر کے خریدا۔
یہ عیاں تھا کہ کالر اپنے آپ کو چھپانے والی جدید ترین ٹیکنالوجیوں سے بخوبی آشنا ہے۔ مگر مجرم کتنا ہی عیار و مکار ہو، وہ جرم کرتے ہوئے ایسی کوئی چھوٹی غلطی ضرور کر جاتا ہے جو قانون کو اس تک پہنچا دیتی ہے۔ یہودی طبقے میں خوف کی لہر پھیلا دینے والے کالر سے بھی ایسی ہی کوتاہی سرزد ہو گئی۔ ایک بار کالر نے واشنگٹن کے جیوش کمیونٹی سینٹر میں دھمکی آمیز کال کی تو وہ انونیمس پراکسی سرور پر موجود نہ تھا۔ چناں چہ اس کا حقیقی آئی پی ایڈریس ریکارڈ ہو گیا۔ تبھی امریکی خفیہ اداروں کو علم ہوا کہ یہ ایڈریس اسرائیل کا ہے۔ چناں چہ انہوں نے اسرائیلی خفیہ اداروں سے رابطہ کر لیا۔
اسرائیل میں تفتیش ہوئی، تو انکشاف ہوا کہ یہ ایڈریس ساحلی شہر، عسقلان میں واقع ہے۔ خفیہ پولیس وہاں پہنچی، تو پتا چلا کہ مائیکل قیدار نامی انیس سالہ لڑکا ایک وائی فائی ایسیس پوائنٹ سے انٹرنیٹ چرا کر استعمال کر رہا ہے۔ اس نے انٹرنیٹ چرانے کی خاطر گھر کی کھڑکی پر دیوہیکل انٹینا لگا رکھا تھا۔ خفیہ پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔ جب امریکا میں یہود کو خبر ہوئی کہ ان کے کمیونٹی سینٹروں اور اسکولوں میں دھمکی آمیز کالیں کرنے اور خوف پھیلانے والا مجرم ایک یہودی ہے، تو دنگ رہ گئے۔ وہ تو یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ یہ شدت پسند مسلمانوں کی حرکت ہے۔
مائیکل قیدار سے اسرائیلی و امریکی خفیہ ادارے تحقیق کر رہے ہیں۔ اب تک واضح نہیں ہو سکا کہ انیس سالہ لڑکا اپنی ہی قوم کے خلاف کیوں ہو گیا؟ شاید معصوم فلسطینیوں پر اسرائیلی حکومت کے مظالم دیکھ کر اس کا ضمیر جاگ اٹھا اور وہ اپنے ہم وطنوں کے خلاف کارروائیاں کرنے لگا۔ ایک قوم جتنے مرضی مظالم ڈھالے، آخر اس کے اندر ہی سے حق و انصاف کی آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ شاید مائیکل قیدار انہی آوازوں کا ایک نمائندہ بن گیا۔
ع ۔ محمود