کیا ہم جانتے ہیں کہ البدر کیا تھی؟یہ تنظیم میجر ریاض حسین ملک نے بنائی۔اور میجر سے میرا تعلق دو عشروں پر محیط ہے۔میجر ریاض بتاتے ہیں کہ راجشاہی میں فوج کی نفری کم تھی اور ہمارے لیے ممکن نہیں رہا تھا کہ ہم پلوں اور رستوں کی نگرانی کر سکیں۔ایک روز کچھ بنگالی نوجوان ان کے پاس آئے اور کہا کہ دفاع وطن کے لیے آپ کے کچھ کام آ سکیں تو حاضر ہیں۔ان جوانوں کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔میجر ریاض نے انہیں کہا ٹھیک ہے آپ فلاں فلاں پلوں پر پہرا دیجیے۔ایک نوجوان نے کہا:’’ میجر صاحب ہمیں اپنی حفاظت کے لئے بھی کچھ دیں‘‘۔یہ وہ دن تھے جب ہائی کمان کی طرف سے حکم آ چکا تھا کہ تمام بنگالیوں کو غیر مسلح کر دو۔میجر ریاض کی آج بھی آہیں نکل جاتی ہیں جب وہ بتاتے ہیں کہ یہ سن کر وہ اندر گئے اور سورہ یسین کا ایک نسخہ اس جوان کو پکڑا دیا کہ اپنی حفاظت کے لیے میں تمہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔
وہ نوجوان چلے گئے، گھر نہیں بلکہ میجر کے دیے مشن پر۔بانس کے ڈنڈے انہوں نے بنا لیے اور ندی نالوں اور پلوں پر جہاں سے مکتی باہنی اسلحہ لاتی تھی پہرے شروع کر دیے۔میجر ریاض بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے اسلحہ نہیں مانگا۔لیکن میجر کے من کی دنیا اجڑ چکی تھی۔فوجی ضابطے انہیں عذاب لگ رہے تھے۔ایک روز تیس کے قریب نوجوان ان کے پاس آئے کہ انہیں بھی اس رضاکار دستے میں شامل کر لیں۔ان میں ایک بچہ بھی تھا۔ میجر نے اسے کہا بیٹا آپ بہت چھوٹے ہو واپس چلے جاؤ۔وہ بچہ اپنی ایڑیوں پر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا:’’ میجر شاب ہُن تو بڑا ہوئے گاشے‘‘( میجر صاحب اب تو بڑا ہو گیا ہوں)۔میجر تڑپ اٹھے، انہیں معوز اور معاذ یاد آ گئے جن میں ایک نے نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں ایسے ہی ایڑیاں اٹھا کر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اتنے چھوٹے بھی نہیں کہ جہاد میں حصہ نہ لے سکیں۔میجر نے اس بچے کو سینے سے لگا لیا۔ہائی کمان کا حکم پامال کرتے ہوئے ان جوانوں کو مسلح کر دیا اور جنگ بدر کی نسبت سے اس رضاکار دستے کو ’’ البدر‘‘ کا نام دے دیا۔کئی ہفتے بعد ہائی کمان نے ان سے پوچھا کہ ان کے علاقے میں اتنا امن کیسے ممکن ہوا تو میجر نے یہ راز فاش کیا کہ میں نے آپ کی حکم عدولی کی اور میں نے تمام بنگالیوں پر عدم اعتماد نہیں کیا۔میں نے بنگالیوں کو مسلح کر کے بھارت اور مکتی باہنی کے مقابلے میں کھڑا کر دیا ہے۔تب یہ رضاکار تنظیم پورے بنگال میں قائم کر دی گئی۔ ایک روز میں نے میجر سے پوچھا ،کہ ہم میں عمروں کے فرق کے باوجود تکلف باقی نہیں ہے،’’ البدر نے ظلم تو بہت کیے ہوں گے اپنے سیاسی مخالفین پر؟‘‘۔یہ سوال سن کر میجر کو ایک چُپ سی لگ گئی۔کہنے لگے:’’ آصف تم میری بات کا یقین کرو گے؟‘‘ میں نے کہا میجر صاحب آپ سے پچیس سال کا تعلق ہے میرا نہیں خیال کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔میجر نے کہا:’’ میں اپنے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں میں نے البدر کے لوگوں سے زیادہ قیمتی اور نیک لڑکے نہیں دیکھے ، یہ لڑکے اللہ کا معجزہ تھے، میرے علم میں کوئی ایک واقعہ بھی نہیں کہ انہوں نے کسی سے ذاتی انتقام لیا ہو۔مجھے تو جب یہ پتا چلا کہ ان کی فکری تربیت مودودی نام کے ایک آدمی نے کی ہے تو اشتیاق پیدا ہوا کہ دیکھوں یہ مودودی کون ہے۔برسوں بعد جب میں بھارت کی قید سے رہا ہوا تو میں اپنے گھر نہیں گیا ، میں سیدھا اچھرہ گیا، مودودی صاحب کے گھر، میں دیکھنا چاہتا ہے وہ شخص کیسا ہے جس نے ایسے باکردار اور عظیم نوجوان تیار کیے‘‘۔
آج یہی البدر پھانسی گھاٹ پر لٹک رہی ہے اور ہم ایک حرف مذمت بھی نہیں کہہ سکتے۔ہم سا بے حس بھی کوئی ہو گا؟سیکولر مُلائیت کا تو پیشہ ہی اہل مذہب سے نفرت ہے ان مجہول عصبیت فروشوں سے کیا گلہ؟ کیا یہ بھی نامناسب ہوتا کہ آج پارلیمنٹ کے لان میں پاکستان پر قربان ہونے والے مُلاعبدالقادر کی جنازہ ہی پڑھ لی جاتی؟سماج کدھر ہے؟ کیا سب مر گئے؟
جماعت اسلامی نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔پاک فوج کے شہداء کے بعد اس ملک پر قربان ہونے والوں میں یہ سب سے آگے ہے لیکن اُدھر بھی یہ غدار ، اِ دھر بھی یہ غدار۔’’ ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز‘‘۔