Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

امریکیوں کو شاید علم نہیں

$
0
0

جمہوریت کا فرق تو صاف نظر آ رہا ہے۔ یہی امریکہ تھا جس نے آمریت کے دنوں میں اس وقت کے ڈکٹیٹر جنرل (ر) پرویز مشرف کو ایک فون کال کی تھی اور افغانستان کے خلاف پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت حاصل کر کے افغانستان میں اپنی فوجیں اتار دی تھیں۔ آج جمہوریت ہے تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان اور نئی افغان پالیسی پر پاکستان کا ردعمل بالکل مختلف ہے۔ شاید امریکیوں کو بھی اس کی توقع نہیں ہو گی۔ امریکہ کے خلاف پاکستانی قوم کا یکساں موقف سامنے آیا ہے۔ کیا حکومت ، کیا اپوزیشن اور کیا فوج، سبھی ایک نکتے پر کھڑے ہو گئے ہیں۔ عوام تو پہلے ہی پاکستان کی سلامتی اور اقتدار اعلیٰ کی حفاظت کے لئے سربکف رہے ہیں۔ 

آج یہ بات ہمیں سمجھ آ جانی چاہیے کہ امریکہ کیوں پاکستان میں آمروں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ان سے بات منوانا کہیں آسان ہوتا ہے، کیونکہ ان کے ساتھ قوم نہیں ہوتی اور اپنے غیر آئینی اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے وہ ہمیشہ امریکہ طرف دیکھتے ہیں۔ جمہوریت کے دعوے کرنے والا امریکہ اپنے مفاد کے لئے سب نظریئے فنا کر دیتا ہے۔ امریکہ نے سب سے زیادہ فوجی و مالی امداد بھی آمروں کے زمانے میں ہی دی ہے۔ آج ڈونلڈ ٹرمپ یہ الزام دیتے ہیں کہ ہم نے اربوں ڈالر دیئے، لیکن پاکستان نے کچھ نہیں دیا، مگر وہ بھی یہ ضرور جانتے ہوں گے کہ یہ اربوں ڈالر گئے کہاں؟ جنرل (ر) پرویز مشرف اس کا حساب دینے کو تیار نہیں، حالانکہ کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت دی جانے والی ساری امداد انہی کے دور میں آتی رہی، آج وہ دنیا کے امیر لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، یہ پیسہ ان کے پاس کہاں سے آیا؟

اگرچہ یہ ایسے سوالات اٹھانے کا وقت نہیں، مگر امریکہ کو خود یہ سوچنا چاہیے کہ جب وہ غیر نمائندہ حکمرانوں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتا رہا ہے تو یہ طعنے کیوں دیتا ہے کہ پاکستان کو کروڑوں ڈالر دیئے گئے، اس نے کچھ نہیں کیا۔شاید جمہوریت کا یہی پہلو ہے جس کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ برُی سے بُری جمہوریت بھی اچھی سے اچھی آمریت سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ جمہوریت میں سب ادارے کام کر رہے ہوتے ہیں، من مانی کی گنجائش جتنی بھی نکال لی جائے، وہ آمریت کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ شاید ابھی ماضی کے اسی خمار میں مبتلا ہیں جب امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کے ایک فون پر سارے کام ہو جاتے تھے۔ پاکستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں امریکی سفارتخانے نے شائد انہیں آگاہ نہیں کیا۔

امریکیوں کو اتنا علم تو ضرور ہو گا کہ پاکستان میں پچھلے تقریباً دس برسوں سے جمہوریت اپنے پورے اختیار کے ساتھ قائم ہے۔ ان دس برسوں میں ایسے بہت سے مواقع آئے جب ماضی کی طرح فوج پاکستانی اقتدار سنبھال سکتی تھی، لیکن فوجی قیادت نے اپنے اس عزم کو عملی جامہ پہنائے رکھا کہ جمہوریت کی حمایت جاری رہے گی۔ دوسری طرف عدلیہ کے کردار کو بھی نہیں بھولنا چاہیے، جس نے باقاعدہ ایک ضابطہ اخلاق بنا کر اس پر عملدرآمد شروع کر دیا کہ آئندہ کسی آمر کو نظریہ ء ضرورت کے تحت تحفظ فراہم نہیں کیا جائے گا۔ یہ دونوں راستے بند ہو گئے تو آمریت کی راہیں بھی مسدود ہو گئیں۔

آج اگر امریکہ چاہے بھی کہ پاکستان میں غیر آئینی تبدیلی کی راہ ہموار کی جائے تو اسے منہ کی کھانا پڑے گی، کیونکہ کوئی ایک ادارہ یا جماعت بھی ایسی نہیں ملے گی جو جمہوریت کے برعکس فیصلوں کی حمایت کرتی ہو۔ پھر ایک اور تبدیلی بھی واضح طور پر دیکھنے میں آ رہی ہے، جو غالباً امریکیوں کی نظر میں نہیں۔ ایک زمانہ تھا سیاسی جماعتیں اقتدار کی خاطر امریکہ کی آلہ ء کار بن جاتی تھیں اور جمہوری حکومت کو گرانے کے لئے اپنا کندھا پیش کرتی تھیں، جس سے فائدہ اٹھا کر امریکہ کسی ڈکٹیٹر کے آنے کی راہ نکال لیتا تھا۔ اب کوئی بھی سیاسی جماعت امریکی آشیرباد کی متلاشی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف بیان دیا ، تمام سیاسی قوتوں نے، جن میں پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ق)، اے این پی، ایم کیو ایم، پی ایس پی اور دیگر چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہیں، نہ صرف ٹرمپ کے بیان کی مذمت کی ہے، بلکہ واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ اگر امریکہ نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو اسے دندان شکن جواب دیا جائے گا۔ 

اُدھر نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بھی سیاسی و عسکری قیادت نے بغیر لگی لپٹی رکھے یہ اعلان کیا کہ امریکہ ہم سے ڈومور کا تقاضا نہ کرے، بلکہ خود ڈومور کرے۔ افغانستان میں امن قائم نہیں ہو رہا، یہ ذمہ داری افغان حکومت اور نیٹو فورسز کی ہے کہ وہ افغانستان میں امن قائم کریں۔ یہ عزم بھی ظاہر کیا گیا کہ پاکستان کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا اور پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں پوری شدت کے ساتھ جاری رکھی جائیں گی۔ یہ وہ سب حقیقتیں ہیں، جو شاید امریکہ کی نظر میں نہیں اور وہ 2000ء کی طرح کا پاکستان ڈھونڈ رہا ہے۔امریکی سفیر نے شاید یہ بات بھی پہلی بار پاکستان کے آرمی چیف کی زبان سے سنی ہو گی کہ ہمیں اسلحہ چاہیے، نہ امداد، ہمیں امریکہ کا یہ اعتماد چاہیے کہ وہ ہماری قربانیوں کو تسلیم کرتا ہے اور ہمارے بارے میں خلاف حقائق بداعتمادی کا شکار نہیں۔ ’’یہ بدلا ہوا لہجہ اور یہ بدلا ہوا اظہار‘‘۔ امریکیوں کو یہ بات سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ وہ ماضی کے خوابوں سے نکل آئیں اور زمینی حقیقتوں کا سامنا کریں۔

چیف آف آرمی سٹاف کو یہ علم ہے کہ پوری قوم ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ ایک آمر کا لب و لہجہ ملتجیانہ اور معذرت خواہانہ ہوتا ہے، لیکن جو سپہ سالار جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہو اور عوام اس کی پشت پر ہوں، وہ اسی طرح بولتا ہے، جیسے جنرل قمر جاوید باجوہ بولے ہیں۔ امریکیوں کے لئے یقیناًیہ بات بھی باعثِ حیرت ہو گی کہ اس وقت پوری سیاسی و عسکری قیادت اس کے خلاف یک زبان ہو گئی ہے۔ اب بات کس سے کریں اور نقب کہاں سے لگائیں؟۔ کئی لوگوں کو آج بھی یقین نہیں آ رہا کہ ہم واقعی امریکیوں کو للکار رہے ہیں۔ یہ جرات و حمیت ہم میں کہاں سے آ گئی؟۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ ہم ایک جمہوری ملک میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ہم نے آمریت کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔ ہماری جمہوریت اب جھٹکے برداشت کرنے کے قابل ہو چکی ہے۔ 

آمریت کا ڈراوا دے کرجمہوری حکمرانوں اور عوام سے ڈرا کر آمروں کو اپنی مطلب براری کے لئے استعمال کرنے کا دور گزر گیا۔ جس سی پیک کی وجہ سے امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف سازشیں کر رہا ہے، اسی سی پیک نے ہمیں اتنا اعتماد دیا ہے کہ ہم امریکہ کے لئے حرف انکار زبان پر لا سکیں۔ چین اور روس ہمارے ساتھ اس لئے آ کھڑے ہوئے ہیں کہ وہ سی پیک کو اس پورے خطے کے لئے گیم چینجر سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے خود امریکہ کی اقتصادی سپر پاور خطرے میں پڑ جائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ ہم نے مشکلات کے باوجود جمہوریت کی ڈور کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور اگر سیاسی و عسکری قیادتوں نے اسے کمزور کرنے کے لئے کھینچا تانی نہ کی، تو ہم تمام مشکلات پر قابو پالیں گے، حتیٰ کہ امریکہ کو بھی مجبور کر دیں گے کہ وہ ہمارے اقتدار اعلیٰ کو نہ صرف تسلیم کرے، بلکہ اس کا احترام کرتے ہوئے ہمارے ساتھ برابری کی بنیاد پر بات کرے.

نسیم شاہد
 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

Trending Articles