Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

این اے 120 کا انتخابی معرکہ : فیصلے کی گھڑی قریب تر

$
0
0

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے دلچسپ ترین انتخابی معرکے کے لیے میدان سج گیا ہے اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلی کے بعد خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن کی تمام تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں۔ اس سلسلے میں این اے 120 کے لیے انتخابی مہم ختم ہونے کے ساتھ ہی کاؤنٹ ڈاؤن بھی شروع ہو گیا ہے۔

میدان میں ہے کون کون؟
قومی اسمبلی کے اس انتخابی حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے 44 امیدوار میدان میں اترے تھے۔ لیکن اصل مقابلہ صرف کلثوم نواز اور ڈاکٹر یاسمین راشد ہی کے مابین ہو گا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سابق خاتون اول اور برصغیر کے معروف پہلوان گاما پہلوان کی نواسی 67 سالہ بیگم کلثوم نواز اس حلقے سے انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کی فارغ التحصیل بیگم کلثوم نواز نے عملی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لینا انیس سو ننانوے میں شروع کیا تھا، جب جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں ان کے شوہر نواز شریف کی حکومت برطرف ہو گئی تھی۔ کلثوم نواز مسلم لیگ (ن) کی عبوری صدر بھی رہی ہیں، وہ آج کل اپنی علالت کی وجہ سے لندن میں ہیں اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے ان کی انتخابی مہم کی سربراہی کی ہے۔

اس انتخابی حلقے سے پی ٹی آئی کی امیدوار پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ کے ایک وفاقی وزیر ملک غلام نبی کی بہو ڈاکٹر یاسمین راشد ہیں، جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور میں گائناکالوجی کی پروفیسر بھی رہی ہیں۔ وہ تھیلیسیمیا کی بیماری کے شکار بچوں کی مدد کے لیے ایک غیر سرکاری فلاحی ادارہ بھی چلاتی ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی صدر بھی رہ چکی ہیں۔ انہوں نے 2013 کے انتخابات میں اسی حلقے سے نواز شریف کے اکانوے ہزار ووٹوں کے مقابلے میں باون ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔
اسی الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک سابق رہنما اور معروف صحافی وارث میر مرحوم کے صاحبزادے امیدوار ہیں تو جماعت اسلامی کی طرف سے اسلامی جمیعت طلبہ کے سابق رہنما اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سینئیر نائب صدر ڈاکٹر ضیاا لدین انصاری بھی اس انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ جماعت الدعوہ کی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے اس انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت نہ مل سکی تھی لیکن اس کے امیدوار قاری یعقوب شیخ، حافظ محمد سعید اور قائد اعظم کی تصاویر کے ساتھ اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔

ضابطہ اخلاق پر عمل نہ ہو سکا
اس انتخابی مہم میں الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی دیکھنے میں آتی رہی۔ سیاسی رہنما اور وزراء غیر قانونی طور پر انتخابی مہم چلاتے رہے۔ انتخابی اخراجات کی قانونی حد بھی پیش نظر نہ رہی۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ووٹروں کو تحائف، مفت کھانے اور مفت پٹرول کی فراہمی کی اطلاعات بھی ملتی رہیں۔اس کے علاوہ ووٹوں کی خرید و فروخت اور زیادہ ووٹوں کے حامل خاندانوں کو موٹر سائیکلوں کی فراہمی کی باتیں بھی سنی جاتی رہیں۔ اپنے علاقے میں انتخابی دفاتر کھولنے کے نام پر بھی ووٹروں کو نوازا گیا۔ الیکشن کمیشن 29 ہزار کے قریب غیر مصدقہ ووٹروں کی لسٹوں کا مسئلہ بھی حل نہ کر سکا۔ تاہم لاہور ہائی کورٹ نے  ان فہرستوں کو پبلک کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

کون کتنے پانی میں؟
اگرچہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی ممکنہ جیت کے دعوے کر رہی ہیں تاہم رائے عامہ کے جائزے بتا رہے ہیں کہ اس حلقے میں اصل مقابلہ مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے مابین ہی ہو گا۔ 1985 کے بعد سے اب تک اس انتخابی حلقے کو نواز شریف کی سیاسی طاقت کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے۔ 1985 سے لے کر اب تک ہمیشہ اس حلقے میں شریف فیملی کا کوئی نہ کوئی امیدوار ہی بھاری اکثریت سے جیتتا رہا ہے۔

بشکریہ DW اردو
 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

Trending Articles