چین اور امریکہ کے درمیان معاشی و دفاعی کشمکش میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے علاوہ اس خطّہ جس میں ہم رہتے ہیں اور اس سے ذرا دور کے خطوں میں کیا ہورہا ہے۔ ہمارے قارئین کے علم میں آنا چاہئے کہ 5 دسمبر 2013ء کو امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے چینی صدر ژی جن پنگ سے بیجنگ میں کہا کہ وہ چینی ’’فضائی شناخت منطقہ‘‘ (ADIZ) کو تسلیم نہیں کرتا۔ چین کا کہنا ہے کہ اِس کے ایئر ڈیفنس زون میں داخل ہونے والے ہر جہاز کو اپنی شناخت کرانا چاہئے ورنہ اس کو دفاعی تحفظ کے اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ وہ گرا دیا جائے۔ امریکہ نے شناخت زون کو نہ تسلیم کرنے کا ایک مظاہرہ اپنے دو B-52 بمبار طیارے جو ایٹمی اسلحہ سے مسلح تھے اِس زون کے ایک جزیرہ سینکاکو/دیااویو میں بھیج کر کیا۔ چین کے فضائی دفاعی حدود میں دو B-52 بمبار بھیج کر چین کو اُسی طرح پیغام دینے کی کوشش کی ہے جیسی 1996ء میں بل کلنٹن نے تائیوان میں طیارے بھیج کر کی تھی۔ اس طرح سے پیغام بھیجنے کو آج کے دور میں ایک غیر ذمہ دارانہ عمل ہی کہا ج اسکتا ہے۔
امریکیوں نے ایک اور بیوقوفی کی کہ انہوں نے ایک اشتعال انگیز بیان بھی دیا کہ امریکہ نے سینکاکو کے علاقہ میں آپریشن کیا ہے اور چین کی طرف سے اِس کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ واضح رہے کہ حال ہی میں چین نے اِس فضائی دفاعی شناخت زون بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں B-52 بمبار طیارہ جو کہ ایٹمی اسلحہ سے لیس تھے بھیج کر امریکہ نے چین کا مذاق اڑایا اور اُس کو اشتعال دلایا۔ جسے بہرحال ذمہ دارانہ قدم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چین اِن بمبار طیاروں کو مار کر گرا سکتے تھے، تو کیا وہ امریکہ جو شام اور ایران پر حملہ نہیں کرسکا ہے وہ چین پر کیسے حملہ آور ہوسکتا تھا۔ وہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں بھی نہیں جاسکتا تھا کہ اس کو اب وہاں کم حمایت حاصل ہے اور جائے بھی تو اُس کو دو ویٹو سے ملاقات ہوسکتی تھی۔ اگر چینیوں نے امریکی بمبار طیاروں پر حملہ نہیں کیا تو اس کے قطعاً یہ معنی نہیں ہیں کہ امریکہ نے چین کو سبق سکھا دیا۔ یہ غلط ہے، چینی اِس کی امریکہ سے بھاری قیمت وصول کریں گے مگر اُن کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ امریکہ نے یہ بمبار بھیج کر صرف اپنی کائو بوائے ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو ڈپلومیسی کے آداب سے عاری اور صرف ڈرانے دھمکانے والے ایک غیر ذمہ دار شخص کا سا انداز ہے اگرچہ یہ معاملہ گفتگو کاری سے نمٹ سکتا تھا۔
چین کے اعلان شدہ ’’فضائی شناخت منطقہ‘‘ کی امریکی جہازوں کی خلاف ورزی کے بعد فضائی شناخت خطّہ کے دوسرے ممالک جاپان اور جنوربی کوریا نے بھی اِس خطّہ میں اپنے جہاز بھیجے۔ امریکی نائب صدر دسمبر 2013ء کے پہلے ہفتے سے چین میں موجود ہیں اور چین کے عزائم کو بہ نفس نفیس مل کر جائزہ لے رہے ہیں اور شاید چین کو انتباہ بھی کررہے ہیں کہ اُن کا ’’دفاعی شناخت کا خطّہ‘‘ عالمی امن کے لئے خطرہ ہے اور وہ جو کچھ بھی کرسکتے ہیں، کریں گے۔ چین نے اس خلاف ورزی پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہانگ لی نے 5 دسمبر 2013ء کو کہا کہ امریکہ کو اُن کے اعلان شدہ فضائی منطقہ کا احترام کرنا چاہئے۔ اُن کو اعلان شدہ فضائی منطقہ عالمی قوانین اور رواج کے عین مطابق ہے۔ چینی جزیرہ سینکاکو/ دیااویو پر جاپان نے زبردستی قبضہ کیا ہوا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اِس جزیرے پر جاپان اور چین کے درمیان مخاصمت عشروں سے جاری ہے تاہم دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا جو بندھن ہے اُس کی وجہ سے اِس معاملہ پر جنگ تک نوبت اب تک تو نہیں آئی اور شاید یہ تجارتی تعلقات جنگ کی راہ میں رکاوٹ بنے رہیں۔ واضح رہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان کشمکش روز بروز بڑھتی جارہی ہے، چھیڑچھاڑ بھی جاری ہے،جو پنجہ آزمائی کے مشابہہ قرار دی جاسکتی ہے۔ یہ سلسلہ اِس سال کے شروع سے دیکھنے میں آیا۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ کشمکش 2020ء تک چلے گی جب چین اپنے آپ کو ایک طاقتور ملک کے طور پر سامنے لائے گا۔ چین کی اِس پیشرفت کو روکنے کیلئے امریکہ نے بساط بچھانا شروع کردی ہے اور ایشیاء بحرالکاہل کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اپنی 60 فیصد بحریہ کو اِس خطّہ میں جمع کرلیا ہے۔ وہ اِس کا جواز یہ دیتا ہے کہ یہ اجتماع دراصل شمالی کوریا کے خلاف ہے مگر چینی اِس کو تسلیم نہیں کرتے، وہ جانتے ہیں کہ یہ اجتماع اصل میں اُن کے ملک کے ہی خلاف ہے۔
اس کے ساتھ امریکہ نے خطّہ کے تمام ممالک سے دفاعی معاہدے کرلئے ہیں اور اپنے بحری و فضائی بیڑے کو تعینات کردیا ہے۔ سنگاپور میں اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھائی ہے، فلپائن سے نیا دفاعی معاہدہ کیا ہے، فلپائن میں بھی بحری و فضائی افواج کی تعداد میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ انڈونیشیا، ملائیشیا، برونائی، ویتنام اور دیگر ممالک سے بھی ایسے ہی دفاعی معاملات کئے ہیں۔ آسٹریلیا میں نیا فوجی اڈہ قائم کر لیا ہے جو پہلے موجود نہیں تھا، جاپان میں تو وہ مقیم ہے، وہاں پر بھی فوجیوں کیلئے جدید سامانِ حرب جمع کیا جارہا ہے اور بھارت کو اِس بات پر راضی کیا جارہا ہے کہ وہ چین کو گھیرنے میں اُس کا ساتھ دے۔ چنانچہ بھارت نے ویتنام اور منگولیا سے معاہدات کئے ہیں اور براہموس میزائل وہاں لگا دیئے ہیں، جن کا رُخ چین کی طرف ہے۔ چین نے اِس طرح پاکستان کے ساتھ قربت کو بڑھایا ہے اور ایک نئے عالمی نظام کی بنیاد ڈالنے کے لئے وہ پاکستان کی مشکلات میں اُس کا ساتھی بن گیا ہے۔
پاکستان کو امریکہ اور بھارت سے خطرات درپیش ہیں، امریکہ نے افغانستان سے میزائل شیلڈ لگانے کا معاہدہ کرلیا ہے جس کی زد میں چین، روس، پاکستان اور ایران آتے ہیں، جس کو ایران نے رد کردیا ہے اور پاکستان کے وزیراعظم نے کابل جا کر حامد کرزئی سے کہا کہ امریکہ کے ساتھ معاہدہ پاکستان کے خلاف نہیں ہونا چاہئے۔ امریکہ، ایران جوہری معاہدہ کر کے شیشہ میں اتارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ پہلے ایران کو ساڑھے تین فیصد افزودگی کی اجازت دینے کو تیار نہیں تھا اب امریکہ اور پانچ دیگر ممالک نے ایران کو 5 فیصد یورینیم افزودگی کی اجازت دے دی ہے، جس سے خطّہ میں بھونچال آگیا ہے مگر یہ معاہدہ امریکہ کی اُس پالیسی کا حصہ ہے کہ وہ چین کو گھیرے اور اُس کے حمایتی پاکستان کو بھی خطّہ میں تنہا کرے۔ چین اور امریکہ میں کھینچاتانی کی وجہ سے نئے ہتھیاروں کی نمائش اور عالمی سمندر میں اُن ہتھیاروں کا استعمال اپنی طاقت اور صلاحیت کا اظہار کیا جارہا ہے تاکہ دوسرا ملک مرعوب ہو اور اُس کے مدمقابل نہ آئے۔ اسی بات سے پریشان ہو کر امریکی نائب صدر جوبائیڈن مشرق وسطیٰ کے تین ملکوں کے دورے پر ہیں۔ چین کا دورہ انہوں نے مکمل کرکے وہ5دسمبر 2013ء کو جنوبی کوریا کے دورے پر گئے اور اپنی حالت تیاری کا اظہار کریں گے تاہم یہ حقیقت ہے کہ چین کی پیش قدمی جاری ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہورہا ہے جس سے چین اور امریکہ کے درمیان کشمکش بھی بڑھ رہی ہے۔