Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

پہلے زندگی، ایمبولینس کو راستہ دیں

$
0
0

'میں جائے حادثہ پر تھوڑی دیر سے پہنچا تو لوگ مجھے گلی میں گھسیٹ کر لے گئے اور بہت مارا۔ میں نے لوگوں کو بتانے کی کوشش کی کہ میں ٹریفک میں پھنس گیا تھا لیکن انھوں نے نہیں سنی۔' یہ کہنا ہے کراچی میں ایدھی ایمبولینس کے ڈرائیور محمد جنید کا۔ محمد جنید اسلام آباد میں منعقد ہونے والی تقریب ’پہلے زندگی، ایمبولینس کو راستہ دیں‘ کی تقریب میں موجود تھے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں تلخ کلامی اور گالم گلوچ تو عام ہے لیکن 'میرے ساتھ یہ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ مشتعل ہجوم نے بد زبانی کے علاوہ مار پیٹ پر آ جائیں۔'

اسلام آباد میں انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کی جانب سے ’پہلے زندگی، ایمبولینس کو راستہ دیں‘ کی مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ تنظیم کے مطابق ملک بھر میں ایمبولینس کا راستہ روکنے یا اس کو راستہ نہ دینا تشدد کی ایک قسم ہے۔
مہم کے آغاز کے لیے کی جانے والی تقریب میں ایدھی اور ریسکیو 1122 کے اہلکار شامل تھے۔ انھی ریسکیو اہلکاروں کے درمیان کراچی کے جناح ہسپتال کی نرس نسیم اختر بھی موجود تھیں جنھوں نے توجہ دلائی کہ صرف ایمبولینس ڈرائیورز ہی تشدد کا نشانہ نہیں بنتے بلکہ ہسپتالوں کے شعبہ ایمرجنسی میں کام کرنے والے طبی اہلکار بھی نشانہ بنتے ہیں۔ نسیم اختر نے کہا 'جب آپ ایمرجنسی وارڈ میں کسی کو قتل کرنے کی کوشش کے عینی شاہد ہوتے ہیں تو آپ کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔'

انھوں نے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک نوجوان کو زخمی حالت میں جناح ہسپتال لایا گیا۔ وہ دو سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے جھگڑے میں زخمی ہونے والے متعدد زخمیوں میں سے ایک تھا۔ انھوں نے بتایا کہ جب اس نوجوان کو ہسپتال لایا گیا تو تقریباً 20 افراد بھی ایمرجنسی روم میں داخل ہو گئے اور ہسپتال عام طور پر اتنے افراد کو ایمرجنسی میں داخل ہونے نہیں دیتا۔ 'لیکن کیا کریں دھمکیوں اور تشدد کے باعث سکیورٹی گارڈز لوگوں کو ایمرجنسی میں آنے دیتے ہیں۔' نسیم نے بتایا کہ ابھی اس جھگڑے میں زخمیوں کا علاج شروع ہی کیا کہ ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان دوسری جماعت کا ہے جس کا علاج کیا جا رہا ہے۔

'یہ افراد مسلح تھے اور انھوں نے اسلحہ نکال کر نوجوان کو مارنے کی کوشش کی۔ اسلحہ دیکھ کر ایمرجنسی روم میں بھگدڑ مچ گئی اور ہم سب اپنی جان بچانے کے لیے بھاگے۔' انھوں نے کہا کہ 'مجھے نہیں معلوم کہ اس نوجوان کی جان ہم نے کیسے بچائی؟ کسی طرح ہم نے رینجرز کو بلایا۔ ایسا روزانہ نہیں ہوتا۔ لیکن جب ہوا تو مجھ کو احساس ہوا کہ یہ میری زندگی کا آخری دن ہے۔' ریسکیو اہلکاروں کا کام اتنا آسان نہیں جتنا لگتا ہے۔ ریسکیو 1122 کے فاروق زاہد نے بتایا کہ عام افراد کو ایسا لگتا ہو گا کہ ریسکیو کا کام ایک طرح ہی کا ہے لیکن اس میں ہر روز کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے۔

'کچھ عرصہ پہلے ہی ایک بچہ پائپ میں پھنس گیا۔ یہ ایک نیا کیس تھا ہمارے لیے۔ ہمارے پاس اس قسم کے واقعات کے لیے آلات نہیں تھے اور اسی وجہ سے وہ بچہ پائپ سے زندہ نہ نکل سکا۔' انھوں نے بتایا جکہ اس بچے کو نکالنے کے لیے آلات تو نہیں تھے لیکن جو کچھ پاس تھا ان اشیا کو استعمال کر کے اس بچے کو نکالنے کی کوشش کی لیکن ناکمی ہوئی۔ 'اس واقعے کے بعد رپورٹ کی گئی اور ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے آلات ملے۔' آئی سی آر سی کی جانب ایمبولینس کو راستہ دینے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فاروق زاہد نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ لوگ راستہ نہیں دیتے۔ 'لوگ جتنا ہو سکتا ہے راستہ دیتے ہیں لیکن ملک میں کمیونیکیشن کا نظام ایسا ہے کہ کبھی لوگ راستہ نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کی جانب سے ایمبولینس لین متعارف کرائی جائے تا کہ ایمبولینس سروس بغیر کسی رکاوٹ کے سفر کر سکے۔ خاص طور پر ان شہروں میں جہاں ٹریفک بہت زیادہ ہوتی ہے جیسے کراچی، لاہور اور راولپنڈی۔'

رضا ہمدانی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

Trending Articles