Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

امریکا میں پھیلتا گن کلچر

$
0
0

بو کر ببول آم کی خواہش نہ کیجیے
زہریلے بیج بو کے نہ امرت تلاش کر

دنیا میں پولیس اہلکار کا کردار ادا کرنے والا امریکا تقریباً ہر ملک کو حقوق انسانی کا درس دینا اولین فریضہ سمجھتا ہے۔ کسی ملک میں کوئی بھی واقعہ پیش آئے، امریکا اس پر اپنا موقف واضح کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ تاہم خود امریکا میں حالات ایسے ہوتے جا رہے ہیں کہ عام امریکی عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ وہاں آئے دن فائرنگ کے واقعات بڑھ رہے ہیں اور گن کلچر کو فروغ مل رہا ہے۔ پچھلے دنوں ایک سفید فام، سٹیفن پیڈوک نے امریکی شہر،لاس ویگاس میں موسیقی سنتے لوگوں پر دیوانہ وار گولیاں چلا دیں۔ اس حملے میں 58 افراد مارے گئے جبکہ 489 زخمی ہوئے۔ یہ امریکی تاریخ کا سب سے جان لیوا حادثہ بن گیا۔ فائرنگ کے واقعات یقینی طور پر افسوسناک ہوتے ہیں جن میں عام آدمی کی زندگیاں تلف ہو جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعات امریکی معاشرہ میں پائی جانے والی بے چینی بھی ظاہر کرتے ہیں۔ یہ امریکی نظام کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ایسے واقعات وہاں بتدریج بڑھتے جا رہے ہیں اور لوگ اس پر سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہیں کر پا رہے ۔
صدر امریکا، ٹرمپ نے بھی ایسے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا لیکن صرف افسوس ظاہر کرنے سے یہ مسئلے حل نہیں ہو جاتے بلکہ ان کے تدارک کی خاطر سارے معاشرے میں بہتری کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور فی الحال ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آتا۔ گذشتہ چند برس سے امریکا کے مختلف شہروں میں فائرنگ کے واقعات پیش آئے ہیں اور ان واقعات میں عام اور بے گناہ شہری زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس سال 12 جون کو اولینڈو میں ایک کلب پر فائرنگ ہوئی جس میں تقریبا 49 افراد ہلاک ہوگئے۔ اس واقعہ کو انتہا پسندی سے جوڑا گیا اور ساری دنیا میں اس کی مذمت ہوئی ۔ اس کے بعد 7 جولائی کو ایک سابق امریکی فوجی نے ڈالاس میں فائرنگ کرتے ہوئے پانچ پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ اس سے قبل بھی امریکہ میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں محض شوقیہ فائرنگ کرتے ہوئے بے گناہوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ۔ ہر واقعہ کے بعد کچھ دن سوگ منایا جاتا ہے اورمقتولین کو خراج پیش کرتے ہوئے اسے فراموش کر دیا جاتا ہے۔ واقعات کے تدارک کے لیے کوئی جامع اور مبسوط حکومت عملی تیار نہیں کی جاتی۔

جو واقعات امریکا میں پیش آ رہے ہیں وہ امریکی معاشرہ کے کھوکھلے پن اور عوام میں پائی جانے والی بے چینی و عدم اطمینان کی کیفیت ظاہر کرتے ہیں۔ ایسے واقعات اس امر کے متقاضی ہیں کہ امریکا دنیا بھر میں دوسروں کو درس دینے کی بجائے اپنے معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی اور مسلسل فروغ پاتے ہوئے بندوق کلچر کو ختم کرنے پر توجہ دے۔ جب اولینڈو میں فائرنگ ہوئی تو اسے آئی ایس آئی ایس سے جوڑ دیا گیا۔ یقینی طور پر آئی ایس آئی ایس قابل مذمت اور قاتلوں کا گروپ ہے جس کی ہر گوشے سے مذمت کی جانی چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی جو عام شہری بندوق اٹھا رہے ہیں اور دوسرے بے گناہوں کو قتل کر رہے ہیں، ان کے حوالے سے بھی سخت گیر رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی سفید فاموں میں بڑھتی انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہیں۔

اب تک یہ واقعات اکا دکا قرار دئے جاتے تھے لیکن ان میں تسلسل پیدا ہو رہا ہے اور یہ مسلسل امریکا کے کسی نہ کسی شہر میں یہ واقعات پیش آ رہے ہیں اور بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ عام نوجوان ایسے واقعات میں ملوث ہیں۔ انہوں نے پہلے تو بے دریغ فائرنگ کرتے ہوئے دوسروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر خود کو ہلاک کردیا یا پولیس کی جوابی فائرنگ میں ہلاک ہو گئے۔ پہلے سیاہ فام باشندوں کو اس طرح کے واقعات کا ذمہ دار قرار دیا جاتا تھا۔ اب فائرنگ کے واقعات صرف سیاہ فام باشندوں تک محدود نہیں رہے۔

امریکی معاشرے میں امتیازی سلوک اور نفرت کا ماحول دھیرے دھیرے سرائیت کر رہا ہے۔ لگتا ہے، صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنی تقاریر سے اس لعنت کو ہوا دے رہے ہیں اور وہ نفرت کی سیاست کو اختیار کر رہے ہیں۔ عام شہریوں کو ہتھیار کس طرح حاصل ہوتے ہیں، یہ سوال اہمیت کا حامل ہے۔ یہ صورتحال خود امریکی معاشرے اور امریکی عوام کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہتھیار موجود ہوں تو حکومت امریکا اسے امریکی عوام کے لیے خطرناک قرار دیتی ہے۔ لیکن خود اس کے شہروں میں عام لوگوں کے ہاتھوں میں ہتھیار کسی رکاوٹ کے بغیر پہنچ رہے ہیں اور امریکی حکمرانوں کو کوئی پروا نہیں۔

اقبال حسن
 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

Trending Articles