تقریبا 9 برس قبل غزہ پٹی پر اسرائیلی حملے کے دوران اسرائیلی ڈرون طیارے سے داغے جانے والے راکٹ نے فلسطینی نوجوانوں کے ایک گروپ کو نشانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں گروپ کے سات نوجوان موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جب کہ ایک نوجوان ابراہیم ابو ثریا اپنی دونوں ٹانگیں گنوا کر زندہ رہ گیا۔ اسرائیل کی اس مجرمانہ کارروائی کے بعد غزہ کی پٹی میں فلسطینی پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں سکونت پذیر نوجوان ابراہیم اپنے پسندیدہ شوق اور پیشے یعنی مچھلیاں کے شکار کو ترک کرنے پر مجبور ہو گیا۔
ابراہیم کے گھرانے کے مالی حالات اسے پنڈلیوں سے محروم ہونے کے باوجود روزگار کی تلاش میں سڑک پر لے آئے۔ اس نے ملازمت تلاش کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کی مگر ناکام رہا۔ آخرکار اس نے گاڑیاں دھونے کا کام شروع کر دیا۔ ابراہیم کی جانب سے گاڑی دھونے کے لیے اس کی چھت پر چڑھنے کا منظر راہ گیروں کے لیے دل چسپی کا سامان ہوتا ہے۔ غزہ کی پٹی کے اکثر مظاہروں اور سیاسی واقعات میں اس کی موجودگی نے لوگوں میں اسے ایک جانا پہچانا انسان بنا دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلانِ قُدس کے بعد غزہ پٹی میں ہونے والا کوئی ایسا احتجاجی مظاہرہ اور ریلی نہیں جس میں ابراہیم شریک نہ ہوتا ہو۔ ایسا نظر آتا ہے کہ قابض حکام نے جمعے کے روز اُس شخص کے زندگی کے سفر پر روک لگانے کا فیصلہ کر لیا جو آدھے جسم کے ساتھ مزاحمت کی علامت بن گیا۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے ابراہیم ابو ثریا کو براہ راست سر میں گولی ماری گئی تا کہ وہ اپنے اُن ساتھیوں سے جا ملے جو 9 برس قبل اسے چھوڑ کر جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔