سلامتی کی مد ميں پاکستان کو دی جانے والی امريکی مالی امداد کی جزوی معطلی کے بعد امکان ظاہر کيا جا رہا ہے کہ پاکستان کا چين طرف جھکاؤ بڑھے گا۔ تاہم يہ رشتہ دو دھاری تلوار کی مانند ہو گا اور اس سے کئی مسائل بھی منسلک ہيں۔ پاکستان اور امريکا کے مابين جاری کشيدگی کی تازہ لہر ميں واشنگٹن حکومت نے پاکستان کو سلامتی کی مد ميں فراہم کی جانے والی امداد کو معطل کرنے کا اعلان کيا۔ ايسے ميں چين کے پاس، جو پاکستان ميں قريب ساٹھ بلين ڈالر ماليت کے منصوبے سی پيک پر کام کر رہا، يہ موقع ہے کہ وہ پاکستان ميں اپنا اثر و رسوخ مزيد بڑھا سکے۔ تاہم يہ بات فی الحال واضح نہيں کہ آيا بيجنگ حکومت اسلام آباد کے ليے اپنی دفاعی امداد بھی بڑھائے گی۔ اور اگر ايسا ہوتا بھی ہے، تو کيا ايسی کوئی ممکنہ اضافی امداد امريکا کی طرف سے دی جانے والی امداد کی معطلی کے بعد پيدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے ليے کافی ہو گی۔
يکم جنوری کو سال نو کے موقع پر امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر کڑی تنقيد کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹر پيغام ميں لکھا تھا کہ ان کا ملک ’پاکستان کو بے وقوفانہ طور پر پچھلے پندرہ سالوں ميں تقريباً تينتيس بلين ڈالر کی دفاعی امداد فراہم کر چکا ہے، جس کے بدلے ميں واشنگٹن کو صرف جھوٹ اور دھوکے ملے ہيں‘۔ ٹرمپ نے ايک مرتبہ پھر يہ الزام لگايا کہ افغانستان ميں حملے کرنے والے جنگجوؤں کو پاکستان ميں پناہ گاہيں فراہم ہيں۔ امريکی صدر نے بعدازاں چار جنوری کو پاکستان کے ليے نو سو ملين ڈالر امداد معطل کرنے کا اعلان کر ديا۔
چين کا رد عمل چينی دارالحکومت بيجنگ ميں قائم ’چائنيز اکيڈمی آف سوشل سائنسز‘ سے منسلک ايک ماہر يی ہيلن نے اس پيش رفت پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امريکا کی طرف سے امداد کی معطلی درست نہيں ہے۔ ڈی ڈبليو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ايسا نہيں ہے کہ امريکا نے پاکستان کو امداد دی اور بدلے ميں اسے کچھ نہيں ملا، پاکستان نے افغانستان ميں تعينات امريکی دستوں کو ساز و سامان سپلائی کيا اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔‘‘
دريں اثناء ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹر پيغامات کے بعد اگلے ہی دن چينی وزارت خارجہ کے ترجمان گينگ شوانگ پاکستان کے دفاع کے ليے ميدان ميں کود پڑے۔ ايک پريس کانفرنس ميں انہوں نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کو سراہا اور يہ يقين دہانی بھی کرائی کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ شوانگ کا مزيد کہنا تھا، ’’چين متعدد شعبوں ميں پاکستان کے ساتھ تعاون کو مزيد بڑھانے کے ليے تيار ہے تاکہ دونوں ملکوں کے عوام کو فائدہ پہنچ سکے۔‘‘ يہاں سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کيا پاکستان اور چين کے مابين اسٹريٹيجک پارٹنرشپ، پاک امريکی تعلقات کے متبادل کے طور پر جگہ لے سکتی ہے؟
بالخصوص اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ امريکی فوجی اڈے خطے ميں پھيلے ہوئے ہيں اور واشنگٹن حکومت پاکستان کے روايتی حريف ملک بھارت کے ساتھ تعاون بڑھانے کو بھی تيار کھڑی ہے۔ ايک اور دفاعی تجزيہ نگار امجد شعيب کا کہنا ہے کہ پاکستان، امريکا اور چين دونوں ہی کی امداد کے بغير بھی کام چلا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’فوجی ساز و سامان کی خريداری ميں کچھ دقت آئے گی ليکن وہ ديگر کئی ملکوں سے خريدا جا سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزيد کہا کہ پاکستان ايف سولہ لڑاکا طياروں کا کچھ سامان ترکی سے خريد چکا ہے جب کہ يوکرائن سے ٹينک بھی خريدے جا چکے ہيں۔