Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

شدید کشیدگی کے بعد شمالی و جنوبی کوریا میں مذاکرات کا آغاز

$
0
0

شمالی اور جنوبی کوریا کے اعلی ترین حکام دو برس بعد پہلی ملاقات میں مشترکہ سرحد پر کشیدگی کم کرنے کے لیے مذاکرات کرنے پر متفق ہو گئے ہیں۔ اس سے پہلے بات چیت میں جنوبی کوریا نے جوہری ہتھیاروں کے معاملے کو شامل کرنے کی تجویز دی تھی جسے شمالی کوریا نے سختی سے مسترد کر دیا تھا۔ ممالک کے درمیان طے پانے والے نئے معاہدے کے تحت شمالی کوریا جنوبی کوریا میں ہونے والے موسمِ سرما کے اولمپکس مقابلوں میں اپنے کھلاڑی بھیجنے پر بھی رضامند ہو گیا ہے۔ جنوبی کوریا کی حکومت کے بیان کے مطابق دونوں ممالک فوجوں میں کشیدگی کم کرنے کے لیے ’ہاٹ لائن‘ کو بحال کرنے پر بھی متفق ہو گئے ہیں، تاہم جنوبی کوریا کا کہنا تھا کہ جوہری تخفیف کے معاملے میں شمالی کوریا کے وفد کا رویہ منفی تھا۔ دو دن کے مذاکرات کے بعد جاری کیے گئے مشترکہ بیان میں دونوں ممالک نے تعلقات میں بہتری کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر رابطے جاری رکھنے کے علاوہ کچھ دیگر شعبوں میں بھی تعاون پر اتفاق کیا تاہم اس بارے میں مزید وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

شمالی کوریا نے جن معاملات پر اتفاق کیا ان میں اپنی قومی اولمپکس کمیٹی کے وفد کے دورے کے علاوہ کھلاڑیوں، کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھانے والی چیئر لیڈرز، جسمانی کرتب دکھانے والے کھلاڑیوں، تماشائیوں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو جنوبی کوریا بھیجنے پر رضامندی شامل ہے۔ جنوبی کوریا نے ان مہمانوں کو ضروری سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ان مذاکرات میں جنوبی کوریا نے شمالی کوریا سے ایسے جارحانہ اقدامات سے پرہیز کا بھی کہا ہے جن سے دونوں ملکوں میں کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے، اور شمالی کوریا نے اس بات سے اتفاق کیا کہ جزیرہ نما کوریا پر پُرامن فضا قائم رکھنا ضروری ہے ۔  مشترکہ بیان کے علاوہ ذرائع ابلاغ نے مذاکرات کی جو تفصیلات جاری کی ہیں ان کے مطابق:

جنوبی کوریا نے تجویز پیش کی ہے کہ اگلے ماہ کے سرمائی اولپمکس کی افتتاحی تقریب میں دونوں ملکوں کے کھلاڑی اسی طرح اکٹھے گراؤنڈ میں داخل ہوں گے جیسے وہ سنہ 2006 کے اولمپکس میں ہوئے تھے۔ جنوبی کوریا نے مذاکرات میں زور دیا کہ کھیلوں کے دوران کوریائی قمری سال کی تعطیل کے دن کوریائی جنگ کے دوران ایک دوسرے سے بچھڑ جانے والے خاندانوں کے افراد کو ایک دوسرے سے ملایا جائے۔ جنوبی کوریا کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے کھلاڑیوں کی اولمپکس میں شرکت کو آسان بنانے کے لیے شمالی کوریا پر لگی پابندیوں کو جنوبی کوریا اقوام متحدہ کے تعاون سےعارضی طور پر اٹھا لے گا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ان امور پر شمالی کوریا کے ردعمل کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

مذاکرات کے بعد بیان دیتے ہوئے شمالی کوریا کے وفد کے سربراہ کے ابتدائی الفاظ بالکل غیر جانبدارانہ تھے۔ ری سون گؤان کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ ’شمالی کوریا کا موقف مخلصانہ اور سنجیدگی پر مبنی ہے اور انھیں توقع ہے کہ یہ مذاکرات نئے سال کے لیے ایک ’اچھا تحفہ‘ ثابت ہوں گے۔ سیول میں بی بی سی کے نامہ نگار روپرٹ وِنگفیلڈ ہیز کے تجزیے کے مطابق صرف ایک ہفتہ قبل شمالی کوریا جوہری جنگ کی دھمکیاں دے رہا تھا، اور منگل کی صبح پیونگ یانگ سے ایک وفد چہل قدمی کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان کھینچی ہوئی اس لکیر کی دوسری جانب پہنچ گیا جس نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے جدا کیا ہوا ہے۔

ہمارے نامہ نگار کے خیال میں کئی ماہ کی کشیدگی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات اگرچہ ایک ڈرامائی تبدیلی ہیں، لیکن جنوبی کوریا میں کم ہی لوگ ایسے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات شمالی کوریا کے رویے میں کسی بنیادی تبدیلی کی نشاندھی کرتے ہیں۔ دوسری جانب جنوبی کوریا کے صدر مون جائئن کو بھی ایک مشکل صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ وہ اگر شمالی کوریا کو کسی قسم کے بامعنی مذاکرات پر رضامند کر بھی لیتے ہیں تو خدشہ یہ ہے کہ امریکہ شاید اپنے اتحادی کی اس کوشش کو بھی شک کی نظر دیکھ سکتا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

Trending Articles