↧
اپنے بچے کی آخری اطلاع کا انتظار مت کیجیے : وسعت اللہ خان
جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو ہم ان کو پہلی بار سینے سے چمٹانے، کروٹ دلانے، نہلانے دھلانے سے لے کر خوراک، صحت، تعلیم اور تحفظ سمیت دنیا کا ہر آرام اور سہولت بساط سے بڑھ کے مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم سب کی خواہش ہوتی ہے کہ بچہ ہم سے سب کچھ شیئر کرے، سکول میں کیا ہوا، چوٹ کیوں لگی، دیر کیوں ہو گئی، پڑھائی میں دھیان کیوں نہیں وغیرہ وغیرہ۔ جب یہی بچے، بچیاں دس بارہ برس کی عمر تک پہنچتے ہیں تو ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اب یہ اپنی بنیادی دیکھ بھال خود کر سکتے ہیں لہٰذا ضروری نہیں کہ وہ ہم سے یا ہم ان سے اسی طرح ہر بات شئیر کریں جس طرح پانچ چھ سال کی عمر تک کرتے تھے۔
↧