↧
راؤ انوار آغاز سے انجام تک
ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے کہنے پر نصیر اللہ بابر نے راؤ انوار پر خصوصی نظرِ کرم کی، جس کے بعد راؤ انوار نے کراچی میں مقابلوں کی بھرمار کر دی۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے فاروق دادا اور بانی متحدہ قومی موومنٹ کے بھتیجوں کے مقابلے میں مارے جانے کا الزام بھی راؤ انوار کے سر ہی آتا رہا۔ سینئر افسران کے مطابق ایم کیو ایم کے کارکنوں پر تشدد میں بطور دھمکی ‘چیرا لگانا‘ ایک بھیانک طریقہ مانا جاتا تھا، جس کے موجد بھی یہی سمجھے جاتے ہیں۔ اِن مقابلوں کے بعد راؤ انوار کو ترقی ملتی رہی اور وہ بدستور سب انسپکٹر اور پھر انسپکٹر کے عہدے تک جا پہنچے۔
راؤ انوار کا نام اُس وقت زیادہ منظرِ عام پر آیا جب مبیّنہ مقابلوں میں مارے جانے والے نوجوانوں کے اہلِ خانہ نے اُن کو جعلی قرار دے کر عدالت سے رجوع کیا۔ فروری 2011 میں نوجوان انیس سومرو کے قتل کے الزام میں عدالت نے راؤ انوار کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا اور عدالتی تحقیقات کا حُکم دیا۔ انیس سومرو کے والد اپنے بیٹے کا مقدمہ لڑتے رہے اور عدالت کو بتایا کہ راؤ انوار اور اُن کے ساتھی افسران کیس واپس لینے کے لیے دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اِسی دوران 16 اپریل کو ایک اور پٹیشن پر عدالت نے ایکشن لیا، جس میں زاہد علی عابد نے درخواست جمع کروائی تھی کہ اُن کے بیٹے کو راؤ انوار نے اغواء کر کے 5 لاکھ روپے طلب کیے اور ادا نہ کرنے پر بیٹے کو قتل کر دیا۔ معاملہ صرف یہیں تک نہیں تھا، بلکہ سندھ ہائی کورٹ نے 2015ء میں مبینہ مقابلوں میں مارے جانے والے مشتبہ افراد میں سے 50 کی تحقیقات کا حکم دیا جبکہ ملیر میں زمینوں پر قبضے اور لوگوں کو دھمکیاں دے کر جائیدادیں ہتھیانے کے حوالے سے بھی کیس کی سماعت کی۔
↧