کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں 13 جنوری کو وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ محسود کو راؤ انوار کی سربراہی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا تھا جس کی تفتیش کے لیے پولیس کی انکوائری ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔ راؤ انوار کو انکوائری ٹیم کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی تاہم وہ پیش نہیں ہوئے۔ بعد ازاں ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج راؤ انوار اور ان کی ٹیم کوبلایا تھا مگروہ پیش نہیں ہوئے جبکہ ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کا موبائل بند تھا۔ ڈی آئی جی ایسٹ نے کہا کہ انکوائری کمیٹی راؤ انوار کو سننا چاہتی ہے کیونکہ راؤ انوار کو موقع دینا چاہتے تھے، اگر ان کے پاس ثبوت ہیں تو پیش کریں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں شفاف تحقیقات کرنی ہیں اور ہم پر کسی بھی ادارے کا دباؤ نہیں۔ سلطان خواجہ نے کہا کہ اگر ہم پراعتبارنہیں تو راؤ انوار ہیومن رائٹس کمیشن کے سامنے پیش ہو جائیں۔
راؤانوار پر ہونے والے خود کش حملے پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے ڈی آئی جی ایسٹ نے کہا کہ خودکش حملہ آور جلتا نہیں ہے اس لیے راؤانوار پر ہونے والا خودکش حملہ مشکوک لگتا ہے اور اس خود کش حملے کی تفتیش کریں گے۔ قبل ازیں راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ جب وہ پولیس پارٹی کے ہمرا انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اس وقت انھوں نے 'مکمل تعاون کیا تھا'تاہم بعد ازاں مجھے کہا گیا کہ ایک اور سیشن ڈی آئی جی ایسٹ کے دفتر میں جمعے کی نماز کے بعد ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ جمعے کی نماز کے بعد ڈی آئی جی ایسٹ کے دفتر میں چار مرتبہ رابطہ کیا لیکن انھیں کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔
دوسری جانب ملیر کے ایس پی انوسٹی گیشن عابد قائم خانی نے راؤ انوار کے اس دعوے کو مسترد کر دیا جس میں انھوں کہا تھا کہ ڈی آئی جی ایسٹ کے دفتر سے رابطے کے لیے چار مرتبہ کوشش کی لیکن انھیں ملاقات کے لیے نہیں بلایا گیا۔ ایس پی انوسٹی گیشن عابد قائم خانی نے ایک اور نوٹی فیکیشن میں ایس ایس پی راؤ انوار اور سابق ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن ایس آئی امان اللہ کو پیر کو اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے پیش ہونے کی ہدایت کی۔