لیبیا کی بندرگاہیں انسانوں کی فروخت کی سب سے بڑی منڈیاں ہیں۔ یہاں 4 سو ڈالر میں انسان بکتا ہے۔ بڑے سے بڑے عالمی ادارے اس منڈی کو بند کروانے میں ناکام رہے ہیں۔ حتیٰ کہ انٹر پول بھی قابل ذکر کردار ادا نہیں کر سکا ۔ بدقسمتی سے انسانی سمگلرز خواتین کی خرید و فروخت بھی کر رہے ہیں۔ وہ خواتین کو ایک ملک سے دوسرے ملک میں سمگل کرنے کے مکروہ دھندے میں ملوث ہیں۔ افریقہ اور دوسرے پسماندہ صحرائی علاقوں سے روشن مستقبل کا خواب لیے ہوئے لیبیا سے فرار ہونے والے بحری قذاق اور انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ پھر موت ہی انہیں اس زندگی سے چھٹکارا دلا سکتی ہے۔
ان کے ہتھے چڑھنے والی 16سالہ نائیجرین لڑکی نے بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے لیے اچھی نوکری کی تلاش میں نکلی تھی۔ سپانسر نے اسے ایک سمگلر کے حوالے کیا جس نے اس 16 سالہ لڑکی کو آگے بیچ دیا۔ اس کے علاوہ 6 لڑکیاں اور بھی تھیں ۔عالمی برادری کے دبائو پر سینگال، نائیجر، چاڈ، ماریطانیہ اور مالی میں انسانی سمگلنگ کیخلاف ایک بہت بڑے آپریشن کا آغاز ہوا۔ افریقی ممالک کی پولیس نے 40 سے زائد انسانی سمگلرز کو حراست میں لے کر 236 بچو ں سمیت سینکڑوں افراد کو رہائی دلائی تھی۔ رہائی پانے والوں میں زیادہ تر خواتین تھیں۔
انٹر پول کی مدد سے انسداد سمگلنگ کی یہ سب سے بڑی کارروائی تھی جس میں متعدد ممالک سے آئے ہوئے سینکڑوں افراد کو انسانی سمگلروں سے آزاد کرا لیا گیا ۔عالمی تنظیم برائے مائیگریشن اور ایڈ گروپ ان سینکڑوں مغویوں کی دیکھ بھال پر مامور ہیں۔ انسانی سمگلروں کی کارروائیاں اب ریڈ لائن عبور کر چکی ہیں۔ اور ناقابل برداشت ہو چکی ہیں۔ جرمنی انساد انسانی سمگلنگ میں سب سے آگے ہے۔ جرمن حکومت نے ’’محفوظ ساحل‘‘ منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ اس کام میں وہ افریقی ممالک کے ساتھ کھڑا ہے۔