فی زمانہ محبت اور جنگ ہی میں نہیں، سیاست میں بھی سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے۔ کہنے والے بڑے زور و شور سے کہتے ہیں: محبت، جنگ اور سیاست میں سب چلتا ہے۔ ان فقروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دور میں محبت، جنگ اور سیاست میں سے کسی کی کوئی اخلاقی بنیاد نہیں۔ ان تمام دائروں میں ’’کامیابی‘‘ ہی سب کچھ ہے۔ حالانکہ تجزیہ کیا جائے تو محبت انسانی وجود کی بنیاد ہے، اور اگر محبت زہرآلود ہوگئی تو انسان کا پورا وجود اور اس کی پوری زندگی زہرناک ہوگئی۔ جنگ کا تعلق بھی براہِ راست انسانی زندگی سے ہے، چنانچہ جنگ اگر زہر آلود خیالات کی نذر ہوجائے تو لاکھوں کروڑوں انسانوں کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے۔ سیاست اپنی اصل میں زندگی کی تعمیر کا نام ہے، لیکن جب سیاست میں سب کچھ روا ہوجاتا ہے تو سیاست زندگی کی تخریب بن جاتی ہے۔ پاکستان کی سیاست اس دعوے کا ایک بڑا ثبوت ہے۔
پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد کا حاصل تھا، اور قیام پاکستان سے پہلے نہ فوج کا ادارہ موجود تھا اور نہ اس ادارے کا پاکستان کی تخلیق میں کوئی کردار تھا، لیکن پاکستانی فوج کے جرنیلوں نے قومی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی اقتدار پر قبضے کا منصوبہ بنانا شروع کردیا تھا۔ جنرل ایوب نے اگرچہ مارشل لا 1958ء میں لگایا مگر حال ہی میں سامنے آنے والی امریکہ کی بعض دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ایوب خان نہ صرف یہ کہ 1954ء سے امریکہ سے رابطے میں تھے بلکہ وہ امریکہ کو دو باتیں تواتر کے ساتھ بتا رہے تھے۔ ایک یہ کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کررہے ہیں ،اور دوسری بات یہ کہ فوج پاکستان کی محافظ ہے اور وہ سیاست دانوں کو ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ یہ ایک زہر آلود فکر تھی اور اس کی کوئی اخلاقی، تاریخی اور سیاسی بنیاد نہ تھی۔ جرنیل سیاست دانوں کے مقابلے پر متقیوں کا گروہ نہیں تھا، نہ ہی پاکستان کی تاریخ میں اس کا کوئی کردار تھا اور نہ ہی ملک کے آئین اور قوم نے جرنیلوں کو اس طرح سوچنے کی اجازت دی ہوئی تھی۔ جنرل ایوب کے پاس صرف زہرآلود فکر ہی نہ تھی، اُن کے پاس طاقت بھی تھی، چنانچہ ان کی فکر صرف فکر نہ رہی، اس نے بہت جلد عمل کی صورت اختیار کرلی اور 1958ء میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا طلوع ہوگیا۔ جنرل ایوب کے مارشل لا نے کئی ہولناک کام کیے۔ اس نے پہلا ہولناک کام یہ کیا کہ فوج کو فوج نہ رہنے دیا، اسے ملک کی سب سے منظم اور طاقت ور سیاسی جماعت بنادیا۔ جنرل ایوب کے مارشل لا نے مزید مارشل لائوں کی راہ ہموار کردی۔ جنرل ایوب کے اقتدار پر قبضے نے سیاست دانوں کو دائمی نااہلی میں مبتلا کردیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جنرل ایوب سیاسی جماعتوں کی برائیاں کرتے ہوئے اقتدار میں آئے تھے لیکن پھر خود انہوں نے ’’مسلم لیگ کنونشن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے بنیادی جمہوریت کا تجربہ کیا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ جنرل ایوب جس سیاسی عدم استحکام کی آڑ میٰں اقتدار پر قابض ہوئے تھے وہ عدم استحکام ان کے آخری دور میں زیادہ شدت سے ظاہر ہوا اور وہ اس کے نتیجے میں اقتدار سے علیحدگی پر مجبور ہوئے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ مارشل لا ملک و قوم کی ضرورت نہ تھا، وہ صرف جنرل ایوب کی ضرورت تھا، چنانچہ انہوںنے مارشل لا کو ملک و قوم کی ضرورت باور کرانے کے لیے ایک ایسا تجزیہ تخلیق کیا جس کا قومی مفادات سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔
جنرل ایوب دس سال اقتدارمیںرہنے کے بعد رخصت ہوگئے لیکن ان کا اقتدار آنے والے جرنیلوں کے لیے ایک مثال بن گیا۔ چنانچہ 1977ء میں سیاسی ماحول گرم ہوا تو جنرل ضیاء الحق نے سیاسی عدم استحکام کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی فرمایا کہ اگر وہ مداخلت نہ کرتے تو ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی۔ جنرل ایوب کی طرح جنرل ضیاء بھی سیاسی جاعتوں پر لعن طعن کرتے ہوئے اقتدار میں آئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے غیر جماعتی انتخابات کی راہ ہموار کی۔ لیکن غیر جماعتی انتخابات سے جنرل ضیاء کی جونیجو لیگ برآمد ہوئی۔ جنرل ضیاء ’’سیاست بازی‘‘ کے سخت خلاف تھے مگر انہوں نے کراچی میں جماعت اسلامی اور دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگانے کے لیے ایم کیو ایم تخلیق کی۔ جنرل پرویزمشرف بھی سیاسی رہنمائوںکی ناکامی کا رونا روتے ہوئے اقتدار میں آئے۔ جنرل پرویز مشرف کی بھی کوئی سیاسی جماعت نہ تھی مگر انہوںنے بھی (ق) لیگ تخلیق کی۔ اہم بات یہ ہے کہ جنرل ایوب کی طرح جنرل ضیاء اور جنرل پرویزمشرف سے بھی ملک کا سیاسی عدم استحکام دور ہوا اور نہ کوئی اہم قومی مسئلہ حل ہوا۔ جنرل ایوب کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل پرویزمشرف نے ایک انٹرویو میں جنرل ایوب کو اپنا آئیڈیل قرار دیا۔ جنرل ضیاء الحق لبرل اور سیکولر ہوتے تو وہ بھی جنرل ایوب ہی کو اپنا ہیرو قرار دیتے۔
زہرآلود خیالات کی سیاست کی ایک مثال کالا باغ ڈیم ہے۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ اگرچہ جنرل ایوب کے زمانے میں زیربحث آیا، مگر اس کی موجودگی حقیقی معنوں میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں آشکار ہوئی۔ اُس وقت تک کالا باغ ڈیم محض ایک فنی اور مالیاتی مسئلہ تھا، سیاسی مسئلہ نہ تھا۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کی سیاست نے کالا باغ ڈیم کو سیاسی مسئلہ بنا دیا۔ سندھ اور سابق صوبہ سرحد میں اس حوالے سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ بلاشبہ اس سلسلے میں صوبوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا کو بھی دخل تھا مگر یہ بات جنرل ضیاء الحق کے علم میں تھی۔ لیکن انہوں نے اس حقیقت کا ادراک کیے بغیر کالا باغ ڈیم کا نعرہ لگایا جس سے قومی وحدت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
جنرل پرویزمشرف نے بھی ایک مرحلے پر کالا باغ ڈیم کا پرچم بلند کیا۔ انہوں نے سندھ کا خصوصی دورہ کیا۔ سندھ کے دانش وروں اور سیاست دانوں سے رابطہ کیا، لیکن وہ کالا باغ ڈیم کا مقدمہ کامیابی کے ساتھ پیش نہ کرسکے۔ لیکن جنرل ضیاء اور جنرل پرویزمشرف نے کالا باغ ڈیم کا پرچم بلند کیا ہی کیوں؟ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ پنجاب میں مقبول ہے اور کالا باغ ڈیم پر گفتگو سے حکمرانوں کو پنجاب میں پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جنرل ضیاء اور جنرل پرویزمشرف نے کالا باغ ڈیم پر گفتگو تو بہت کی مگر وہ اس جانب ایک قدم بھی پیش قدمی نہ کرسکے۔ یعنی کالا باغ ڈیم حقیقت تو نہ بن سکا مگر اس حوالے سے صوبوں کے درمیان تلخیاں ضرور پیدا ہوگئیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سے پاکستان کو فائدہ ہوا یا نقصان؟
زہرآلود خیالات کی سیاست کی ایک مثال الطاف حسین ہیں۔ انہوں نے سیاست شروع کی تھی تو فرمایا تھا کہ وہ کوٹہ سسٹم ختم کرائیں گے۔ مشرقی پاکستان میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لائیں گے اور مہاجر کلچر کا تحفظ کریں گے۔ مگر وہ چند برسوں ہی میں اپنی سیاست کی تینوں بنیادوں کو بھول گئے۔ البتہ اس عرصے میں انہوں نے مہاجروں کو پٹھانوں سے لڑایا، پنجابیوں سے لڑایا، سندھیوں سے لڑایا، یہاں تک کہ مہاجروں کو مہاجروں کے خلاف صف آراء کیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ کوٹہ سسٹم کے مخالف بھی ہیں اور انہوں نے سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کرنے والی پیپلزپارٹی کے ساتھ پندرہ سال تک اقتدار کے مزے بھی لوٹے ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ ترین واردات الطاف حسین کا یہ اعلان ہے کہ یا تو ہمارے حقوق دو یا سندھ کو تقسیم کرو۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر سندھ کو تقسیم نہ کیا گیا تو پاکستان سے علیحدگی کی صورت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ الطاف حسین کے اس بیان پر ہنگامہ برپا ہوا تو الطاف حسین نے ’’سندھ ون اور سندھ ٹو‘‘ کی بات شروع کردی۔ سوال کرنے والے سوال کررہے ہیں کہ ایم کیو ایم گزشتہ پانچ سال تک صوبے کے اقتدار میں شریک تھی مگر اسے اس دوران وسائل کی منصفانہ تقسیم کا خیال آیا نہ اس کی جانب سے سندھ ون اور سندھ ٹو کا نعرہ بلند ہوا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ الطاف حسین نے اس مرحلے پر یہ نعرے بلند ہی کیوں کیے؟ اس سلسلے میں ایک سے زیادہ توجیہات موجود ہیں۔ ایک توجیہہ یہ ہے کہ پاکستان کی تردید الطاف حسین کی نفسیات اور ذہنی ساخت کا حصہ ہے اور وہ بھارت میں کھڑے ہوکر صاف الفاظ میں کہہ چکے ہیںکہ اگر وہ قیام پاکستان کے وقت موجود ہوتے تو قیام پاکستان کے خلاف ووٹ دیتے۔ الطاف حسین کے مذکورہ بیانات کی دوسری توجیہہ یہ ہے کہ الطاف حسین کے خلاف برطانیہ میں کوئی کارروائی ہونے والی ہے اور الطاف حسین اس سے قبل اپنے حلقے میں اپنی مقبولیت کو مستحکم کررہے ہیں۔ تیسری توجیہہ یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایم کیو ایم کراچی اور حیدرآباد میں انتہائی غیر مقبول ہوچکی ہے، چنانچہ الطاف حسین نے گڑے مُردے اکھاڑ کر ایم کیو ایم کی سیاسی بنیاد کو مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیاسی حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو تیسری توجیہہ الطاف حسین کے بیانات کی زیادہ بہتر وضاحت کرتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ الطاف حسین نے اپنی تنظیم کے معمولی سے فائدے کے لیے دیہی اور شہری سندھ کے درمیان آویزش اور نفرت کو ہوا دی اور پاکستان کی سلامتی تک پر حملہ کردیا۔ الطاف حسین مفادات کی سیاست کے اسیر ہیں، وہ ایک بات کہہ کر بھول جائیں گے لیکن اُن کی زبان سے نکلنے والے الفاظ لاکھوں اذہان میں زہر گھولتے رہیں گے۔
سیاست قومی خدمت اور ابلاغ کا عمل ہے، اور ابلاغ کا عمل اپنی نہاد میں مثبت ہے۔ مگر ہمارے ملک میں سیاست ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات کی غلام بن گئی ہے اور اکثر سیاسی جماعتوں اور سیاسی و فوجی رہنمائوں کا مسئلہ سستی شہرت ہے خواہ اس کے لیے انہیں منفی ابلاغ کی انتہائی صورت ہی کیوں نہ اختیار کرنی پڑے۔ بقول شاعر ؎