اصطلاح کا ترجمہ ہوجانا کافی نہیں‘ اس کی پشت پر موجود تصور اور اس کے محرکات کو سمجھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بغیر اصل معنی تک رسائی ممکن نہیں ہوتی۔
اب ذرا ’’ڈائون سائزنگ‘‘ پر غور کیجیے۔ اس کا اصل بامحاورہ ترجمہ ہے: برطرفی۔ملازمت کا خاتمہ عرف بے روزگاری۔
لیکن اس کا تاثر یہ ہے کہ کسی ادارے کے غیر ضروری یا اضافی بوجھ کو کم کیاجارہا ہے۔ یا اس کے غیر ضروری پھیلائو اور حجم کو دائرے میں لایا جارہا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کا وزن بڑھ جائے اور ڈاکٹر کہے کہ صاحب اپنا وزن کم کیجیے ورنہ آپ کو طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہوجائیں گی۔
ڈائون سائزنگ کسی ادارے کی گویا معاشی یا مالی صحت کی بحالی ہے۔
اب ذرا معانی کے فرق پر غور کیجیے۔ برطرفی‘ ملازمت کا خاتمہ یا بے روزگاری ایک ظالمانہ فعل محسوس ہوتا ہے اور ’’علاج‘‘ کو کوئی شخص ظالمانہ نہیں کہہ سکتا۔ چنانچہ ڈائون سائزنگ کی اصطلاح حقیقت اور اس کے معنی کو بدل کرتاثر کو کچھ سے کچھ بنادیتی ہے۔
لیکن اس اصطلاح کی پشت پرموجود اصل تصور کیا ہے؟
سرمایہ دار اور بالخصوص مغربی ملٹی نیشنلز کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع کو یقینی بنانا۔ منافع ڈائون سائزنگ کے بغیر بھی ہوگا لیکن کم۔ چنانچہ زیادہ سے زیادہ منافع کے لیے سینکڑوں یا ہزاروں یا لاکھوں خاندانوں کو غربت‘ عسرت اور فاقوں کے جہنم میں جلنا پڑے تو ’’بیچارے‘‘ ملٹی نیشنلز کیا کریں؟
انہوں نے تو سرمایہ کاری کی ہے اور زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ان کا حق ہے۔ اس میں کچھ بھی تو خلاف ِقانون نہیں۔ مگر ریاست اور وہ بھی اسلامی ریاست؟ اس کے تصور کے دائرے میں تو کتا بھی بھوک سے مرتا ہے تو اس کی ذمے داری کا بوجھ سربراہِ ریاست اپنے کاندھوں پر محسوس کرتا ہے۔ تو کیا اب اسلامی ریاست میں انسانوں کی اہمیت کتوں سے بھی کم ہے؟
21 ویں صدی اور 21 ویں صدی کی اسلامی ریاستیں زندہ باد۔ نجکاری زندہ باد۔ ڈائون سائزنگ زندہ باد۔ تو کیا مغربی ماہرین شعوری طور پر ایسی اصطلاحیں وضع کرتے ہیں جن میں پوشیدہ سفاکی اور ابلیسیت ظاہر نہ ہو؟
جدید مغربی تہذیب کے جدید منتروں میں سے ایک اور منتر ’’فری مارکیٹ‘‘ کی اصطلاح ہے۔
ظاہر ہے کہ آزاد منڈی میں مقابلہ بھی آزادانہ ہوتا ہے۔ تالیاں… لیکن ٹھیریے‘ یہ اصطلاح ایک ایسے بین الاقوامی منظرنامے میں استعمال ہورہی ہے جہاں دنیا کے 80 فیصد وسائل 20 فیصد آبادی میں مرتکز ہوگئے ہیں‘ یہ ترقی یافتہ دنیا کی آبادی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے 95 فیصد ذرائع اسی آبادی کے ہاتھ میں ہیں۔ بین الاقوامی سیاست‘ بین الاقوامی سفارت‘ فوجی طاقت غرضیکہ سب کچھ اسی آبادی کے پاس ہے۔ چنانچہ آزاد منڈی کی معیشت دراصل اولمپک چیمپئن اور لنگڑوں کے مابین دوڑ کا مقابلہ ہے۔ تو پھر اس میں آزاد منڈی کہاں ہے؟ اور نہیں ہے تو آزاد منڈی‘ آزاد منڈی کیوں جپ رہی ہے؟ جادو وہ جو سرچڑھ کر بولے۔
یہ جادو نہیں تو اور کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل گزشتہ 60 سال سے صرف پانچ بڑی طاقتوں کے لیے Security Council ہے ورنہ باقی تمام ممالک اور اقوام کے لیے اس کی حیثیت دائمی In Security Council کی ہے۔ مگر ساری دنیا روبوٹس کی طرح 60 سال سے سیکورٹی کونسل‘ سیکورٹی کونسل کررہی ہے۔
آخر حماقت‘ اندھے پن اور خودفریبی کی کوئی حد بھی ہے؟ یہ تو بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ سے بھی آگے کی بات ہے۔ رہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی… تو یہاں بہروں کے اجتماع سے گونگوں کے خطابات کے مقابلے ہوتے رہتے ہیں۔ مگر ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ذکر اتنے احترام سے کرتے ہیں جیسے یہ ہمارے لیے کوئی بہت ہی مقدس ادارہ ہو۔ بعض لوگوں کا بس چلے تو وہ جنرل اسمبلی کی سمت پائوں کرکے سوئیں بھی نہیں۔
مغرب اصطلاحوں کا یہ کھیل صدیوں سے کھیل رہا ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ حفظ ِماتقدم کے تحت دشمن پر حملے یا Preemptive Strike کی بے اصولی جارج بش کی ایجاد ہے۔ لیکن یہ غلط فہمی یا خوش فہمی یا نرا سرکٹا پن ہے۔
صلیبی جنگیں بجائے خود اسی تصور کے تحت شروع ہوئیں۔آپ کا کیا خیال ہے‘ کولمبس اور واسکوڈی گاما علمی تجسس کے زیراثر نئی دنیائیں تلاش کرتے پھر رہے تھے؟ جی نہیں‘ یہ یورپ کی نوآبادیاتی طاقتوں کا ہراول دستہ تھے اور یہ بحری راستوں پر ممکنہ غلاموں کی بستیاں سونگھتے پھر رہے تھے۔
آپ ذرا اقبال کی کلیات تو اٹھایئے۔ مغرب کی ایک اصطلاح ہے ’’آزادیٔ افکار‘‘۔ اقبال نے اس کا ترجمہ کیا ہے:
آزادیٔ افکار ہے ابلیس کی اولاد
مغرب کہتا ہے ’’جمہوریت‘‘…
اقبال فرماتے ہیں:
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
لیجیے بات ڈائون سائزنگ سے شروع ہوئی تھی اور ڈائون سائزنگ پر ہی ختم ہورہی ہے۔ جمہوریت اگر معیار یا Quality کو کمیت یا Quantity میں تبدیل کرنے کا عمل ہے تو یہ روحانی‘ اخلاقی اور دانش ورانہ ڈائون سائزنگ کے سوا کیا ہے؟