Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 6218 articles
Browse latest View live

ہمارے حالات اور صدر اوباما


مہنگائی سروے، پاکستان تیسرا سستا ملک...

$
0
0

یہ پاکستان کے شہری خصوصاً راولپنڈی، لاہور اورکراچی کے رہنے والے بڑے ناشکرے ہیں کہ مہنگائی کا رونا روتے رہتے۔ ہر کوئی دہائی دیتا ہے کہ اشیاء ضرورت اور خوردونوش بہت مہنگی ہوگئی ہیں، اسی طرح ٹرانسپورٹ کرایوں کی زیادتی کا بھی شور مچایا جاتا ہے، یہ سب یونہی ہے کہ ایک ویب سائٹ نے جو سروے کیا اس کے مطابق تو پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر سستا ملک ہے اور اس ملک میں راولپنڈی، لاہور اور کراچی ایسے شہر ہیں جو بتدریج باقی شہروں کی نسبت سستے ہیں۔ 

اس سروے میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں بھارت سب سے سستا ہے جبکہ نیپال دوسرے اور پاکستان تیسرے نمبر ہے۔ بنگلہ دیش ان سے کہیں مہنگا اور اس کا گیارہواں نمبر ہے۔سوئٹزرلینڈ، ناروے اور وینزویلا کو دنیا کے مہنگے ترین ممالک قرار دیا گیا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے کرایوں کے حوالے سے نیپال کو نمبر ایک اور پاکستان کو دوسرا درجہ دیا گیا ہے یہ سروے رپورٹ بڑی خوش کن ہے، اس خبر کو پڑھ کر تو لوگوں کی بھوک ہی اڑ گئی ہو گی کہ خوامخوا شور مچاتے ہیں، حالانکہ پاکستان کا ایک اپنا مقام ہے اور وہ تیسرا اور دوسرا درجہ ہے ۔

ابھی ایک اور خبر کا ذکر مقصود ہے کہ پٹرول کے حالات بہتر ہوئے اور لاہوریوں کے لئے سی این جی جاری رکھنے کے اقدام کی وجہ سے ایل پی جی کے نرخ بھی کم ہو گئے اور گھریلو سلنڈر پندرہ روپے فی کلو سستا ہو کر 110روپے فی کلو ہو گیا ہے۔اس سے پہلے یہ 125روپے فی کلو بک رہی تھی، یہ بھی اطمینان بخش تھی لیکن کیا کریں جب صبح ہی دفتر آتے وقت ایل پی جی فروخت کرنے والی دکانوں پر نظر ڈالی تو وہاں نرخ ایک سو دس کی بجائے 120روپے فی کلو لکھے ہوئے تھے اور اس طرح یہ خوشی تو آدھی رہ گئی اور آدھی درست بھی ہے کہ گیس دستیاب ہے لیکن 120روپے فی کلو نرخ مقرر کر دیئے گئے ہیں اور پھر جب فروٹ یعنی پھل کی طرف رخ کیا تو معلوم ہوا کہ کینو کے سوا کوئی پھل بھی سستا نہیں ہوا۔ سیب، امرود اور کیلے بدستور انہی نرخوں پر فرخت ہو رہے ہیں جو پٹرولیم کی شکایات سے پہلے تھے دوسرے معنوں میں پھلوں پر کوئی تاثر نہیں بنا، یہی حال کچھ سبزیوں کا ہے کہ موسم اور زیادہ آمد کی وجہ سے مٹر اور گو بھی سستے ہوئے ہیں۔ باقی سبزیوں (آلو اور پیاز سمیت) کے نرخ کم نہیں ہوئے، بلکہ بعض سبزیوں کے نرخ بڑھ گئے اس لئے اس خبر سے تو خوش ہوا جا سکتا ہے۔

خبر میں سروے کے مطابق یہ تو بتایا گیا کہ کون سے ممالک کس حیثیت میں ہیں، لیکن یہ تو بتایا نہیں گیا کہ سستے ممالک کی فی کس آمدنی کتنی اور ان کے مقابلے میں دوسرے ممالک اور شہروں کی کتنی ہے کیونکہ اشیاء ضرورت اور خوردنی بھی تو اسی تناسب سے سستی اور مہنگی محسوس ہوتی ہیں۔ زیادہ آمدنی ہو تو ہر شے سستی لگتی ہے اور اگر آمدنی کم ہو تو ہر چیز مہنگی اور پہنچ سے باہر ہوتی ہے۔

 اس سلسلے مین بنئے کے بارے میں کہی گئی کہاوت زیادہ معنی خیز ہے وہ یوں کہ بنئے کے بچے نے ضد کی اور ہاتھی مانگا جب نرخ دریافت کئے گئے تو سرمایہ کاری کی زبان میں ایک روپیہ بتایا گیا، بنئے صاحب نے بچے کوبہلایا اور بتایا کہ یہ بہت مہنگا ہے، کچھ عرصہ بعد پھر باپ بیٹا بازار سے گزر رہے تھے تو ہاتھی فروخت کرنے والا سامنے آ گیا۔ نرخ پوچھا تو بتایا گیا ہاتھی سو روپے کا ہے۔باپ نے فوری طور پر سو روپے ادا کئے اور ہاتھی لے کر بچے کو دے دیا، بچہ حیران تھا، اس نے باپ سے دریافت کیا کہ جب ہاتھی ایک روپے کا تھا تو آپ نے لے کر نہیں دیا، اب یہ سو روپے کا لے لیا ہے، تاجر باپ نے جواب دیا’’بیٹا جب ہاتھی ایک روپے کا تھا تو میرے پاس کچھ نہیں تھا اور آج اللہ نے مجھے سب کچھ دیا ہے اس وقت ایک روپیہ خرچ کرنا بھی ممکن نہیں تھا اور آج ایک سو روپیہ بھی ادا کیا جا سکتا ہے‘‘۔تو قارئین کرام! بات تو آپ کی استطاعت اور آپ کے ذریعہ آمدنی اور اوسط کی ہے جس سے یہ سب کچھ بھی ناپا جا سکتا ہے۔

اس کے لئے ہم ذرا ماضی میں جھانک لیتے ہیں۔1958ء کے ایوب خان والے ’’انقلاب‘‘ سے قبل بکرے کا گوشت سوا روپے کا سیر اور دیسی گھی چار روپے سیر ملتا تھا، اسی حوالے سے تانگوں اور بسوں کے کرائے تھے، اس سے ذرا آگے بڑھیں 1962ء میں ہماری اپنی ماہوار تنخواہ یا آمدنی سوا پانچ سو روپے تھی اور اس میں بہت ہی آسانی سے گزر اوقات ہوتی تھی۔ یہ تناسب 1970ء تک بھی برقرار رہا، ان دنوں رکشا اور ٹیکسی میٹر پر چلتے تھے، رکشا کا کرایہ آٹھ آنے(پچاس پیسے) فی میل اور تیکسی کا ایک روپیہ چار آنے (پچیس پیسے) فی میل تھا اور یہ میٹر پر چلتے تھے، اگر بچپن یا لڑکپن کے حالات کا ذکر کریں تو ایک آنے کا کلچہ اور اس پر دہی کی ملائی مفت ملتی تھی،

 تو اے قارئین! اب ذرا موجودہ حالات پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ رکشا فی کلو میٹر کم از کم 20روپے چارج کر رہا ہے اور ٹیکسیاں اس سے مہنگی ہیں، اس لئے یہ سروے مشکوک ہوجاتا ہے کہ ابھی تک تو مہنگائی ہی مہنگائی ہے اور لوگ رو بھی رہے ہیں۔

جہاں تک دوسرے ممالک سے تقابل کی بات ہے تو ساتھ ہی فی کس آمدنی کا پتہ کرکے درجہ بندی کئے بغیر صحیح نتیجہ اخذ کرنا ممکن نہیں، اب ذرا کراچی، لاہور اور راولپنڈی کا تقابل کریں تو احساس ہوتا ہے کہ یہی سروے کسی حد تک ٹھیک ہے کہ لاہور اور گردونواح میں حالات معمول پر اور کراچی کی نسبت اکثر اشیاء سستی ہیں، بھارت میں بھی ایسا ممکن ہے لیکن ہم کو سفر کئے زیادہ عرصہ ہو گیا۔ 

اس لئے کوئی رائے تو نہیں دے سکتے ویسے ماضی میں جب بھی گئے کوئی زیادہ فرق نہ نکلا بعض اشیاء جو بھارت یا پاکستان ہی میں ہوتی ہیں تو وہ ایک دوسرے ملک سے ذرا سستی ہوتی ہین، جیسے کاجو بھارت میں اور کپڑا پاکستان میں مقابلتاً سستا ہے۔ پاکستان میں تو اب دالوں کے پرچون نرخ اتنے ہیں کہ غریب آدمی دال بھی کھانے کے لئے دس بار سوچتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ویب سروے کو چھوڑ کر خود ہوشیاری سے معلوم کریں تو آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔

چوہدری خادم حسین

اوباما دلّی میں : وہ آئیں گھر میں ہمارے۔۔....

$
0
0

امریکی صدر باراک اوباما، بھارت کے یومِ جمہوریہ میں شرکت کے لئے گزشتہ روز دہلی پہنچے تھے۔ پہلے ان کا یہ دورہ تین روز کا تھا۔ اب اس کا دورانیہ دو روز کا ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔ آج یوم جمہوریہ کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کے بعد اوباما نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ کل تاج محل دیکھنے جانا تھا، لیکن اب وہ آگرہ نہیں جائیں گے، بلکہ دہلی سے سیدھے ریاض روانہ ہوں گے، جہاں مرحوم شاہ عبداللہ کی وفات پر نئے سعودی رہنماؤں سے اظہار تعزیت کریں گے۔

اس سے پہلے کہ مَیں قارئین کی خدمت میں اس موضوع پر مزید کچھ عرض کروں، یہ بتانا چاہوں گا کہ گلوبل میڈیا نے امریکی صدر کے اس دورے کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی ہے۔بھارتی میڈیا نے تو جانے اس دورے اور مودی ۔ اوباما ملاقات کو کیا سمجھا کہ اس پر لمبے چوڑے تبصرے کئے جاتے رہے۔ اوباما کی آمد سے کئی روز پہلے بھارتی میڈیا نے عجیب و غریب طرح کے تجزیئے کرنے شروع کر دیئے۔ 

اس نے ایسے ایسے سٹرٹیجک موضوعات کو ایسے ایسے مشکل اور پیچیدہ زبان کے لبادے اڑھائے کہ جب تک کوئی قاری بین الاقوامی سٹرٹیجک امور کا ماہر خصوصی نہ ہو، زبان و بیان کی گو ناگوں باریکیوں کو نہ سمجھتا ہو یا، مشکل اور ادق میڈیا اصلاحوں کا ’’حافظ‘‘ نہ ہو، تب تک ان تجزیوں کا لب لباب نہیں سمجھ سکتا۔ سچی بات یہ ہے کہ دو ہزار الفاظ پر مشتمل کسی کالم کو پڑھنے کے بعد کالم کا خلاصہ اُس قاری کی سمجھ میں نہیں سماتا، جس نے ایک مدت بین الاقوامی سیاسیات کو سٹڈی کرنے میں گزار دی ہو۔۔۔ حالانکہ یہ خلاصہ آسان زبان میں صرف20الفاظ میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔

بھارت کی میڈیا برادری نے، جس دیش میں گنگا بہتی ہے، کی عظمت کا ایسا بیڑا اٹھا رکھا ہے کہ معلوم ہوتا ہے بھارت دنیا کی دوسری بڑی قوت بن گیا ہے بلکہ روس اور چین کو بھی پیچھے چھوڑنے لگا ہے۔ مَیں پاکستانی میڈیا سے بھی گزارش کروں گا کہ اوباما کے اس دورے کو صرف اتنی ہی کوریج دینی چاہئے کہ جتنی کا یہ سزاوار ہے۔

مَیں اس اوباما وزٹ کی صرف ان باتوں پر آسان زبان میں تبصرہ کرنا چاہوں گا جو ایک اوسط لکھے پڑھے پاکستانی کی سمجھ میں آ سکیں۔ ہمارا اپنا میڈیا صدر اوباما کے اس دورے کے سٹرٹیجک موضوعات کو سمجھانے کے لئے سابق وزرائے خارجہ، سابق سیکرٹری ہائے خارجہ، ریٹائرڈ سفیرانِ کرام وغیرہ کی ایک فوج ظفر موج کو دعوتِ کلام دینے کا عادی ہو چکا ہے۔ مَیں ان اکابرین سے معذرت کے ساتھ گزارش کروں گا کہ بال کی کھال نہ ادھیڑا کریں کہ ایسی ادھیڑ بُن سامعین کے صرف ایک نہایت محدود سے دانشور طبقے ہی کی سمجھ میں آ سکتی ہے جبکہ میڈیا کو دیکھنے،سننے اور پڑھنے والے پاکستانیوں کا ایک ’’جم غفیر‘‘ ان کی ’’دانشوری‘‘ کی نزاکتیں سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔

میرے اپنے ساتھ یہ سانحہ کئی بار گزر چکا ہے کہ مَیں اگر کسی دفاعی موضوع پر کوئی کالم لکھنے لگوں تو اول تو اس کی اصطلاحیں اتنی نامانوس اور اجنبی ہوتی ہیں کہ عام قاری کے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔ دوسرے نفسِ مضمون بجائے خود عمومی احاط�ۂ تفہیم میں نہیں آتا۔ یہ دونوں باتیں ایک عرصے سے میرے لئے ایک ایسا چیلنج بنی ہوئی ہیں جو اس قسم کے موضوعات کو عام پاکستانی قارئین سے دور رکھتی ہیں جبکہ یہی باتیں ترقی یافتہ معاشروں میں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں اور ان پر قلم اٹھانے والے کالم نگاروں کو خراجِ تحسین پیش کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا جاتا۔ مَیں کئی بار ان سطور میں عرض کر چکا ہوں کہ اس قسم کے موضوعات پر سابق فوجیوں کو ایک تسلسل اور تواتر سے لکھنا چاہئے تاکہ عام پاکستانی بھی سمجھ سکیں کہ پاکستان کے جدید دفاعی تقاضے کیا ہیں اور ان کو سمجھنا کس قدر ضروری ہے۔

مقامِ اطمینان ہے کہ اب آہستہ آہستہ ان سٹرٹیجک دفاعی موضوعات پر کبھی کبھار کوئی ایسا مضمون/ کالم نظر سے گزر جاتا ہے جس میں تفہیم کی مشکلات کم سے کم ہوتی ہیں۔

مَیں اب صدر امریکہ کے دورۂ بھارت کی طرف آتا ہوں۔۔۔۔ سب سے پہلی بات تو ہمیں یہ سمجھنی چاہئے کہ یہ امریکی صدر اپنی مدتِ صدارت میں دوسری بار بھارت کا دورہ کیوں کر رہا ہے۔ اوباما امریکہ کے واحد صدر ہیں جو اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ دو بار نئی دہلی تشریف لا چکے ہیں۔ فارن گلوبل اور لوکل انڈین میڈیا اوباما کی اس مکرر انڈین یاترا کو نجانے بار بار کیوں موضوع سخن بنا رہا ہے۔ اوباما کے تو ابھی دو مزید برس ان کی مدتِ صدارت کے باقی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر مودی صاحب نے وہ باتیں مان لی ہیں جو اوباما ان سے منوانے آئے ہیں یا اگر ان میں سے50 فیصدبھی مان لی گئیں، تو باقی 50فیصد منوانے کے لئے اوباما اینڈ فیملی انڈین یاترا کی ہیٹ ٹرک کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گی۔ امریکیEmbedded میڈیا تیسری یاترا کا جواز یہ پیش کرے گا کہ ہمارا یہ صدارتی جوڑا اس بار تاج محل کی زیارت کے لئے آ رہا ہے۔

قارئین کو یہ بتانا بھی شاید ضروری ہو کہ گزشتہ بار جب 2010ء میں اوباما نے پرائم منسٹر من موہن سنگھ کی دعوت پر بھارت کا دورہ کیا تھا تو تب بھی تاج محل کے درشن ہوتے ہوتے رہ گئے تھے اور اس بار بھی باوجود اس کے کہ سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات مکمل تھے، یہ آگرہ وزٹ منسوخ کرنی پڑی۔ جو امریکی سیکیورٹی ٹیم آگرہ گئی تھی اس نے رپورٹ دی کہ صدر کو آگرہ نہیں جانا چاہئے کہ جو حفاظتی انتظامات انڈیا نے اٹھائے ہیں ان سے صدر اور ان کی مسز کی جان کی سلامتی کی100فیصد ضمانت نہیں دی جا سکتی۔۔۔ افسوس یہ ہے کہ امریکیوں نے جو ’’بہانہ‘‘ تراشا ہے وہ انتہائی بودا ہے۔۔۔ مرحوم شاہ عبداللہ کی تقریب ایک دن لیٹ بھی کی جا سکتی تھی۔کیا وہ مرحوم کے جنازے میں شرکت کرنے جا رہے تھے کہ پابند�ئ اوقات لازمی تھی؟

برسبیل تذکرہ ، انڈیا نے مسٹر اور مسز اوباما کی تاج محل زیارت کے لئے اپنی ’’اوقات‘‘ سے بڑھ کر سیکیورٹی کی کوششیں کر رکھی تھیں۔ ان کاوشوں کی تفصیلات انڈین میڈیا پر آتی رہی ہیں۔ ان کے مطابق تاج محل کو بیرونی غسل دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا اور نجانے کون کون سے ’’سرف ایکسل‘‘ پر تجربات کئے گئے۔ ہوائی اڈے سے تاج محل تک جانے والی11کلو میٹر سڑک کو مشینی برشوں سے نہیں، بلکہ دستی برشوں سے رگڑ رگڑ کر صاف کیا گیا۔600مزدور اس کام پر دن رات لگے رہے۔ ایک مزدور کی یومیہ اجرت 300 روپے ادا کی گئی۔(پاکستانی500روپوں سے بھی زیادہ) ۔۔۔ آوارہ کتوں، گؤ ماتاؤں اور ہنو مانی بندروں کی ایک پوری فوج تاج محل کے اردگرد منڈلاتی رہتی ہے،اس کو ختم کیا گیا۔۔۔ سڑک پر لگی سفید پینٹ کی وسطی لکیروں کو ختم کیا گیا تاکہ مہمانِ گرامی کو اس یکطرفہ سڑک کی تنگی کا احساس نہ ہو۔۔۔ سڑک پر جگہ جگہ پان کی پیکیں نظر آتی تھیں۔ 

بھارتی کار سواروں کی کثیر تعداد پان خورانی کی اسیر ہے اور جہاں چاہتی ہے، کار کا دروازہ کھول کر مُنہ کھول دیتی ہے۔ گدھا گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی ’’عنایات‘‘ الگ ہیں۔ اس منجمد کتھے اور چونے کو صاف کرنا ایک مشکل ایکسر سائز تھی جو کی گئی۔۔۔ تاج محل کے گردو نواح میں اوباما کی آمد سے پہلے مودی صاحب کی ہدایت پر صفائی ستھرائی کا جو کام چل رہا تھا اس کو روک دیا گیا تاکہ گردو غبار اُڑ کر تاج محل کے اندرونی احاطے کو مٹیالا اور گرد آلود نہ کر دے۔۔۔۔ تاج محل کے اندر جو وسیع و عریض لان ہیں اور ان کے گردا گرد سبزے کی باڑیں (Hedges) لگی ہوئی ہیں ان کی جھاڑ پھونک کے لئے روزانہ 100سے زائد نوکرانیاں ڈیلی ویجز پر بھرتی کی گئیں۔۔۔ تین ہزار سے زائد پولیس والے ان کشتیوں میں سوار چیکنگ پر مامور کئے گئے جو تاج محل کے پہلو میں بہتے دریائے جمنا میں 24گھنٹے گشت کرتی رہیں؟ 

۔۔۔ بھارتی دریا عموماً گندگی سے بھرے رہتے ہیں۔ پرائم منسٹر کے خصوصی حکم پرگزشتہ دو دنوں میں دریائے جمنا پر تیرتے گندگی کے جو متعفن ڈھیر اٹھائے گئے، ان کا وزن دو ٹن(60من) سے زیادہ تھا!۔۔۔ تاج محل کے قرب و جوار میں رہنے والے ہزاروں مکینوں کو مطلع کیا گیا تھا کہ وہ 27جنوری کو اپنی چھتوں پر نہ آئیں اور کھیتوں میں رفع حاجت کے لئے بھی باہر نہ نکلیں۔( یعنی27تاریخ کو ان کی ’’ہر چیز‘‘ بند)

تاریخ میں لکھا ہے کہ1631ء میں جب مغل حکمران شاہجہان نے اپنی محبوب بیوی ممتاز محل کی وفات پر اس کی یاد میں یہ یگان�ۂ روز گار عمارت تعمیر کروائی تھی تو اس پر16سال تک 20,000 مزدور اور کاریگر دن رات کام کرتے رہے تھے۔ اس سرخ و سفید مغل شہنشاہ کو کیا معلوم تھا کہ400 سال بعد جب ایک سیاہ فام حکمران امریکی جوڑا اس یاد گار کی زیارت کے لئے آئے گا تو 16دنوں تک 20,000بھارتی مزدوروں کی صفائی ستھرائی کی کاوشوں پر اس طرح پانی پھیر کر چلتا بنے گا!

ایک عام قاری یہ بھی جاننا چاہے گا کہ اوباما کے اس ’’ہائی فائی‘‘ دورے کا مشن کیا ہے اور دوسری طرف بھارت اپنے اس مہمانانِ خصوصی سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔۔۔ ان دونوں سوالوں کا جواب جیسا کہ مَیں نے کالم کے آغاز میں عرض کیا تھا، مشکل الفاظ میں مشکل بھی ہے اور آسان الفاظ میں آسان بھی ہے۔۔۔ مشکل اصطلاحوں کو فی الحال چھوڑتے ہیں۔آسان زبان میں بات کرتے ہیں۔اوباما صاحب اسی لئے تشریف لا رہے ہیں کہ:
 اپنے دفاعی سازو سامان کو بھارت کے ہاں فروخت کریں ۔
 
بھارت کو روس کے دفاعی حصار سے باہر نکالیں اور اپنے حصار میں محصور کریں۔
 
چین کے خلاف ہلال کی شکل کا ایک حفاظتی بند تعمیر کریں جو تائیوان سے شروع ہو اور فلپائن، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ویت نام اور میانمر سے ہوتا ہوا بھارت تک چلا آئے۔

بھارت میں دفاعی سازو سامان تعمیر کرنے کے لئے امریکی فیکٹریاں قائم کی جائیں جو تیسری دنیا کے ممالک کو ’’میڈ اِن امریکہ‘‘ پراڈکٹس سے ’’ مالا مال‘‘ کر دیں۔

امریکی دفاعی ماہرین کی ایک بڑی کھیپ کے علاوہ دوسری امریکی مصنوعات کی تیاریوں میں مدد دینے والے امریکی کاریگروں کو بھارت برآمد کیا جا سکے۔
مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان و پاکستان میں امریکی اثرو رسوخ کو روسی اور چینی اثرو رسوخ کے مقابلے میں زیادہ موثر اور مستحکم بنایا جا سکے وغیرہ وغیرہ۔

اب دوسری طرف یہ دیکھتے ہیں کہ بھارت، امریکہ سے کیا چاہتا ہے۔۔۔۔ اس سوال کے ساتھ پاکستان کے مفادات بھی وابستہ ہیں اور نقصانات بھی۔۔۔ اس لئے یہ سوال ہمارے لئے پہلے سوال کی نسبت زیادہ اہم ہے۔ میرے تجزیئے کے مطابق بھارت،امریکہ سے دو طرح کا تعاون چاہتا ہے۔ایک دفاعی اور دوسرا بین الاقوامی۔۔۔ دونوں کے دورانئے شارٹ ٹرم بھی ہیں اور لانگ ٹرم بھی۔۔۔ شارٹ ٹرم مقصودات میں بھارت، امریکہ سے فضائی ٹیکنالوجی کا وہ حصہ (Segment) مانگنا چاہے گا، جو امریکہ دینے میں زیادہ پس و پیش نہیں کرے گا۔ میری مراد سی130- ملٹری طیاروں کی ہندوستان میں پروڈکشن سے ہے اور دوسرے مسلح ڈرونوں کی ٹیکنالوجی کا وہ ورشن ہے جو دنیا کی نگاہوں سے ہنوز پوشیدہ ہے اور کھل کر سامنے نہیں آیا۔۔۔ کوشش کروں گا کہ اگلا کالم اسی موضوع پر لکھوں۔

لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان

حج پالیسی 2015ء کے لئے تجاویز....

$
0
0

میں نے قارئین سے وعدہ کیا تھا حج پالیسی 2015ء کے لئے تجاویز پیش کروں گا۔ اسی سلسلے میں کچھ گزارشات وزارت مذہبی امور اور کچھ سعودی حکومت سے کروں گا۔ حج پالیسی کی عملی تیاری تو سعودی حکومت سے ایگریمنٹ سائن ہونے کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔ خوش بختی ہے وزارت مذہبی امور کی جہاں انہیں تجربہ کار سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری اور ایڈیشنل سیکرٹری کے تبادلے کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔ وہاں دور اندیش ،محنتی ڈپٹی سیکرٹری فرید اللہ خٹک سیکشن آفیسر ،ناصر عزیز اور اظہر ہاشمی جیسے ایماندار افراد کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔

 ناصر خان اور حافظ شیر علی کی وزارت مذہبی امور میں تبادلے کی خبروں سے خوف زدہ لابی سے بھی یہی کہوں گا۔ ایماندار افسر جہاں بھی ہوگا ملک ملت کا سرمایہ ہے کام تو اللہ نے لینا ہے وفاقی سیکرٹری مذہبی امور عامر سہیل مرزا کی پرائیویٹ حج سکیم کے حوالے سے تحفظات کے اظہار کے حوالے سے جو خبریں منظر عام پر آ رہی تھی کہ مخصوص لابی جن کے مفادات سرکاری حج سکیم سے وابستہ ہیں انہوں نے نئے سیکرٹری ایڈیشنل سیکرٹری جوائنٹ سیکرٹری کو پرائیویٹ حج سکیم کے حوالے سے حقائق کے منافی اور گمراہ کن پٹیاں پڑھا رہے تھے۔ 

یہی وجہ ہے عامر سہیل مرزا جب سے وفاقی سیکرٹری مذہبی امور کی حیثیت سے میدان میں آئے ہیں۔ انہوں نے سرکاری حج کی کامیابیوں کا خوب ڈھونڈراپیٹا ہے اور ساتھ سینٹ اور قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹیوں کے دباؤ کا بہانہ بنا کر یہاں تک کہہ دیا ہے مجھ پر سرکاری حج کوٹہ بڑھانے کا پریشر ہے ۔ بظاہر وفاقی سیکرٹری نے ہوپ کے نمائندوں پر دھاک بٹھانے کے لئے بظاہر عرصہ تک مصروفیت کی چادر میں اپنے آپ کو لپیٹے رکھا۔ 

سینٹ اور قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹیوں کے ذمہ داران وفاقی سیکرٹری اور ہوپ کے ذمہ داران کی مشترکہ میٹنگ کے بعد سارے ڈرامے کا ڈراپ سین ہو گیا ہے، جب سٹینڈنگ کمیٹیوں نے پرائیویٹ حج سکیم کو 50فیصد کا سٹیک ہولڈر تسلیم کیا۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے بھی وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں سائن ہونے والے ایم او یو کا اعتراف کیا اور کہا پرائیویٹ سکیم ہماری شروع کردہ نہیں بلکہ سعودی حکومت کی پوری دنیا کی طرح پاکستان کے لئے پالیسی کا حصہ ہے۔ 

لاہور میں ہونے والی حج کانفرنس کے موقع پر وفاقی سیکرٹری عامر سہیل مرزا ایڈیشل سیکرٹری خالد حنیف جوائنٹ سیکرٹری محمد فاروق سے مل کر جو میں نے خود اندازہ لگایا کہ مارکیٹ میں افواہیں جو پھیلائی جا رہی ہیں۔ حقیقت میں ان کا کوئی تعلق نہ ہے۔ حج ورکشاپ میں عامر سہیل مرزا صاحب کے خطاب کے بعد وقفے میں جوائنٹ سیکرٹری حج محمد فاروق سے تفصیلی بات کرنے کا موقع ملا تومیں نے کہا جناب سرکاری حج سستا ہونے کی وجہ سے جو کامیابیوں کا ڈھونڈرا پیٹا جا رہا ہے اور بار بار پرائیویٹ حج سکیم سے تقابل کیا جا رہا ہے اس میں آپ لوگوں کا کیا کردار ہے۔ آپ کا کردار تو واضح ہوگا 2015ء کے حج کے بعد دوسرا میں نے ان سے پوچھا 2010ء اور2011ء میں سرکاری حج سکیم میں منظر عام پر آنے والے سکینڈل اور بے ضابطگیوں کے بعد کیوں یہ نہیں کہا گیا۔

سرکاری حج سکیم ختم کر دی جائے مجھے بڑی خوشی ہوئی وفاقی سیکرٹری ایڈیشنل سیکرٹری کی طرح جے ایس حج محمد فاروق تمام حقائق سے آگاہ ہیں بلکہ تھوڑے وقت میں سب کچھ سمجھ گئے ہیں۔فاروق صاحب نے جو حج 2015ء کے لئے تیاریوں اور 2014ء میں سرزد ہونے والی غلطیوں کے ازلے کا نقشہ پیش کیا تو مجھے حوصلہ ہوا سرکاری اور پرائیویٹ حج محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ حج 2015ء کی تجاویز سے پہلے وزارت مذہبی امور نے نئے ذمہ داران سے عرض کرنی ہے ۔ 2010ء کے حج میں معمولی بے ضابطگیوں کو جو صرف 19فیصد عمارتوں کی خریداری میں اربوں روپے کی کمیشن اور کرپشن بنا کر پوری دنیا میں وزارت اور وطن عزیز کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔

 وہی مافیا دوبارہ حج 2014ء کے کامیاب آپریشن کو ناکام قرار دینے کے لئے سعودیہ میں گزشتہ 3سال سے ایمانداری کے ساتھ کام کرنے والے ڈی جی حج سید ابوعاکف اور ان کی ٹیم کو صرف اس لئے اربوں روپے کی کرپشن کا ذمہ دار قرار دے کر بدنام کر رہا ہے ان کے حوالے سے خبریں آئی ہیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری خالد حنیف کے سیکرٹری بننے کے بعد ابوعاکف کو ایڈیشنل سیکرٹری بنایا جا رہا ہے۔ میاں نوازشریف نے سعودیہ کے دورے کے دوران ڈی جی حج ابوعاکف اور رافع شاہ کی تعریف کر دی ہے۔ کون لوگ ہیں باہر کے نہیں وزارت کے اندر موجود ہیں سابق وفاقی وزیر علامہ حامد سعید کاظمی ڈی جی حج راؤ شکیل جے ایس حج آفتاب اسلام انہی کی سازشوں کی بھینٹ چڑھائے گئے۔ 

اب بات کرتے ہیں حج 2014ء میں پیش آنے والے مسائل اور حج 2015ء میں ان کے حل کے حوالے سے منیٰ کے خیمے اور کولنگ کا نظام ایک صدی سے زائد پرانا ہو چکا ہے۔90 فیصد کولر خراب ہیں۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کی سربراہی میں جانے والا وفد حج 2015ء کا ایم او یو سائن کرتے وقت سعودی حکومت کو باور کرائے ، منیٰ کے خیمے اور کولر بدلے جائیں گرمی میں حج کی وجہ سے حجاج بہتر انداز میں مناسک حج نہیں کر پاتے۔ حج 2015ء کے لئے وزارت مذہبی امور اوپن سکائی پالیسی اپنائے سرکاری اور پرائیویٹ حج سکیم کا کرایہ یکساں رکھا جائے۔

 حج 2015ء میں دنیا بھر کی 8ایئرلائنز 85ہزار میں حج کروانے کے لئے تیار تھیں۔ پی آئی اے نے 125000کرایہ دے کر سب کو مجبور کیا وہ بھی یہی کرایہ لیں اس روایت کو ختم کرائیں۔40روزہ 20روزہ حج کے لئے تمام ایئر لائنز کو اجازت دیں ایک کرایہ فیکس کر دیں۔ وزارت مذہبی امور لازمی واجبات کی مد میں ہر سال اضافہ ختم کرے اور لازمی واجبات حج 2015ء کے لئے کم کرے حج آرگنائزر کو بار بار سعودیہ جانا پڑتا ہے۔ کم از کم چھ ماہ کے لئے ملٹی پل ویزہ جاری کرے۔ وزارت مذہبی امور سازشوں کا حصہ بننے کی بجائے حقائق کو سامنے رکھے۔ جلد حج پالیسی کا اعلان کرتے اور پہلے سرکاری حج سکیم کی درخواستیں وصول کرے اور پھر پرائیویٹ حج سکیم کو بکنگ اور تیاریوں کے لئے مناسب وقت دے۔ حج آرگنائزر کی طرف سے آخری درخواست جو بہت زیادہ آئی ہے وہ سعودیہ میں بنک اکاؤنٹ کھولنے کی ہے۔ رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے گورنمنٹ آف پاکستان مداخلت کرے۔ ہنڈی کے ذریعے پیسہ باہر منتقل کرنے کے خاتمے کے لئے ضروری ہے۔ 

حج آرگنائزر کے اکاؤنٹ فوری کھولے جائیں۔ یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ وزارت مذہبی امور اگر چاہتی ہے پرائیویٹ حج سکیم زیادہ موثر ہو تو کم از کم 2020ء تک لیٹر جاری کرے تاکہ حج آرگنائزر مکہ مدینہ میں مستقل عمارتیں حاصل کرکے حج سستا کر سکے۔ حج کوٹہ کم از کم 100رکھنے کا بھی کہا گیا ہے۔ پرائیویٹ حج سکیم کی طرف سے حج 2015ء کی پالیسی کو موثر بنانے اور عملی بنانے کے لئے توجہ دلائی گئی ہے۔ وفاقی سیکرٹری جوائنٹ سیکرٹری پرائیویٹ حج سکیم کے نمائندوں کو ہر مرحلہ پرمشاورت کا حصہ بنائے۔

پرائیویٹ کی طرح سرکاری حج سکیم کی مانیٹرنگ بھی ہوپ کی مشاورت سے بنائی جائے۔ مناسک حج اور مکہ مدینہ ہوٹلوں میں پیدا ہونے والے مسائل کو موقع پر حل کرنے کاموقع فراہم کیا جائے۔ پرائیویٹ اور سرکاری حج کے لئے تربیتی نظام کو ڈنگ ٹپاؤ پالیسی سے نکال کر مستقبل طریقے اپنائے جائیں۔ گورنمنٹ آف پاکستان 10طرح کے پمفلٹ اور کتابچے شائع کرنے کی بجائے ایک موثر کتاب اور کتابچہ فراہم کرے اور ساتھ کم از کم 10لٹر زم زم حاجی کو حج کا تحفہ لانے کو یقینی بنائے۔5کلو زم زم زیادتی ہے۔ حج 2015ء میں 10کلو کا ایم او یو سائن کرے۔

 سرکاری اور پرائیویٹ حج پالیسی 2015ء کی تیاریوں کے لئے مجھے موصول ہونے والی تجاویز قارئین کی نذر کر دی ہیں۔ امید کرتا ہوں وزارت مذہبی امور کے ذمہ داران مثبت تنقید برائے اصلاح سمجھتے ہوئے ان امور کو حج پالیسی 2015ء کا حصہ بنائے گی۔ پوری قوم کی طرح میں بھی 2015ء کی حج پالیسی کے بروقت اعلان اور کامیاب آپریشن کے لئے دعاگو ہوں۔

آمین

میاں اشفاق انجم

ہماری معیشت کیوں ڈوب رہی ہے ؟..

$
0
0

جب پاکستان وجود میں آیا تو ہم مالی طور پر تقریباً کنگال تھے۔ ہمارا معاشی ڈھانچہ ابھی تیار بھی نہیں ہوا تھا۔ ہمارے حصے کا کیش جو برطانوی ہند سے ہمیں دیا جانا تھا وہ بھی ایک سال تک بھارت نے روکے رکھا۔ ہمارے حصے میں جو اسلحہ آیا تھا، اُس کی تقسیم میں بھی ہندوستان نے بے ایمانی کی اور تقریباً ناکارہ اسلحہ ہمیں دیا۔ 1948ء میں قائد اعظم کا انتقال ہوا اور کشمیر کی پہلی جنگ چھڑ گئی۔ محدود وسائل کے باوجود ہماری افواج اور اُن کے مدد گار قبائلیوں نے تقریباً نصف کشمیر آزاد کروالیا۔ نوزائیدہ پاکستان کے لئے مہاجروں کی آبادکاری بڑا بوجھ تھا۔ 

حکومتی نظام کو چلانے کے لئے نہ ہی تربیت یافتہ سینئر عملہ موجود تھا، کیونکہ ہندو اَفسر اور اہل کار بھارت جا چکے تھے اور ہم مسلمانوں کے پاس اُن ہندو اہل کاروں کے متبادل اہل کار مناسب تعداد میں نہیں تھے۔ البتہ اس کسمپرُ سی کے حالات میں پاکستان کے لئے دو چیزیں بہتر ہوئیں۔ ایک تو تھی کوریا کی جنگ۔ اس جنگ کی و جہ سے پاکستان کی خام روئی اور خام جُیوٹ سونے کے بھاؤ بکنے لگا۔ ابھی پلاسٹک اور نائلون کمرشل تعداد میں مارکیٹ میں نہیں آیا تھا اس لئے قدرتی ریشہ (fiber) جنگی ساز و سامان کی انڈسٹری میں استعمال ہوتا تھا۔ جیوُٹ پر پاکستان کی اَجارہ داری ہونے کی وجہ سے ہمیں کثیر تعداد میں زرمبادلہ ملنا شروع ہوگیا۔
ہمارے روپے کی قدر بہت مضبوط ہو گئی۔ 1952ء تک ہمارا روپیہ ہندوستان کے ڈیڑھ روپے کے برابر تھا۔ ایک ڈالر اور 20 سینٹس کے برابر ہمارا ایک روپیہ تھا بلکہ ہمارے ایک روپے کے 3 سعودی ریال ملتے تھے۔ کورین جنگ 1951ء میں ختم ہوگئی، لیکن اس جنگ کی وجہ سے ہمارے ملک کی مرکنیٹائل (تاجر) کلاس بہت امیر ہوگئی۔ اُس وقت پاکستان میں صنعت برائے نام تھی۔ 1953ء تک ہم کوئی ٹیکسٹائل مِل نہیں بنا سکے تھے۔ تقسیم ہند کے وقت ہمیں لائل پور ٹیکسٹائل مِل ،ڈالمیاسمنٹ فیکٹری کراچی اور مردان شوگر مِلز ورثے میں بطور متروکہ جائیداد حاصل ہوئے تھے۔

ہندوستان سے 1948ء کی جنگِ کشمیر کے بعد ہماری نیک توقعات، بطور ایک اچھے ہمسائے کے ، ہندوستان سے ختم ہوگئیں۔ ہندوستانی لیڈروں کو بھارت کو کاٹ کر پاکستان بنانے کا بڑا قلق تھا۔ وہ ہمارے لئے نیک خواہشات نہیں رکھتے تھے ،جِس کی وجہ سے پاکستان کو اپنی سکیورٹی کے لئے ایک مضبوط فوج رکھنی پڑی۔ فوج کو ساز و سامان امریکہ سے تو 1953ء کے بعد مِلنا شروع ہوا، لیکن اس سے پہلے ہمارے بجٹ کا بڑا حصہ دفاعی ضروریات کے لئے مختص کیا جانے لگا۔ 

ترقیاتی کاموں کے لئے کم رقم بچتی تھی اور یوں پاکستان نہ چاہتے ہوئے بھی ایک Security State بن گیا۔ اَب ہمیں اپنا ترقیاتی بجٹ کم کر کے ہر صورت دفاعی بجٹ پورا کرنا ضروری ہو گیا۔ 1960ء میں ہم نے ورلڈ بینک سے پہلا قرض لیا۔ فیلڈمارشل ایوب خان کے دورِ حکومت میں ہمارے ہاں صنعت ساز ی شروع ہوئی ۔ تاجروں کی وہ کلاس ،جس نے جنگِ کوریا میں خوب روپیہ کمایا تھا، اُس طبقہ کو مختلف مراعات دے کر صنعت کی طرف مائل کیا گیا۔ خام مال کی اِمپورٹ عام کی گئی، صنعتی ترقی کی اِبتدا کے لئے PIDC کا ادارہ وجود میں لایا گیا، تاکہ بھاری صنعتوں کو حکومت خود اپنے سرمائے سے چالو کر کے کامیاب کرے اور پھر وہ صنعتیں پرائیویٹ صنعت کاروں کو سونپ دی جائیں۔ 

یہ تجربہ کامیاب رہا۔جب صنعت کاروں کو حوصلہ ملا، خطیر منافع مِلا اور حکومتی سرپرستی ملی تو پاکستان صنعتی لحاظ سے Asian Tiger بننے ہی والا تھا کہ چند واقعات اُوپر نیچے ہوئے، جن کی وجہ سے پاکستان کی ترقی کا پہیہ نہ صرف رُک گیا ،بلکہ اُسے پیچھے موڑ دیا گیا۔ 1965ء کی جنگ بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہم پر مسلط کر دی گئی۔ مَیں تاریخ کی گہرائی اور سازشوں کے ذِکر سے بچتا ہوا، یہ ضرور کہوں گا کہ 1965 ء کی جنگ Engineered تھی ،یعنی جس نے بھی شروع کروائی، اُس کا مقصد پاکستان کی برق رفتار ترقی کو روکنا تھا اور فیلڈ مارشل ایوب کی امریکہ کے خلاف کتاب لکھنے کا شاخسانہ بھی تھا، جس کی وجہ سے امریکہ نے Regime Change (حکومت بدلنے) کا منصوبہ بنایا۔ 1965 ء کی جنگ اور اُس کا 17 روز بعد خاتمہ ، ذوالفقار علی بھٹو کا ایوب خان سے روٹھ کر اپنی علیحدہ سیاسی پارٹی بنانا، ایوب خان کو بے عزت کر کے صدارت سے ہٹوانا، ایسٹ پاکستان میں بغاوت کا ہونا، جنرل یحییٰ خان کا جوڑ توڑ میں ملّوث ہونا، ایسٹ پاکستان کا بنگلہ دیش بننا، بھٹوصاحب کا حکومت میں آتے ہی روپے کی قدر کو نہایت کم کر دینا، تمام چھوٹی بڑی صنعتوں کو قومیانہ، پاکستانی مزدور اور چھوٹے درجے کے ملازموں کو نظم و ضبط سے عاری کر کے گستاخ اور کام چور بنادینا، یہ تمام کڑیاں پاکستان کی معاشی ریڑھ کی ہڈی کو توڑنے کے مترادف تھیں،یہاں تک کہ ہمارے پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں کو جب قومیالیا گیا تو سمجھ لیں کہ تعلیمی معیار کو بھی مسمار کر دیا گیا۔ ذرا غور کیجئے گا۔ 1972ء کے بعد سے ہمارے سرکاری تعلیمی معیار کا اِنحطاط ہوتا ہی چلا جا رہا ہے۔

ہماری معیشت کو پسماندگی کی گہرایوں میں پھینکنے کے لئے جب مندرجہ ذیل لوازم پورے کر دیئے گئے تو پروگرام کااگلا حصہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔ (1) ہماری لیبر اور چھوٹے درجے کے ملازمین کو نظم و ضبط سے بے بہرہ کر کے گستاخ اور کام چور بنا دیا گیا۔ (2) چھوٹی بڑی صنعتوں کو قومیانے سے مزید سرمایہ کاری نہ صرف رُک گئی بلکہ سرمایہ بیرون ملک چلاگیا۔ (3) پاکستان میں جو سرمایہ بچا وہ چھوٹے درجے کی ٹریڈنگ اور دوکانداری میں استعمال ہوایعنی کارپوریٹ ٹیکس ملنا بند ہو گیا اور چھوٹے تاجر نے ٹیکس چوری شروع کر دی۔(4)ٹیکس چوری کی وجہ سے بالواسطہ ٹیکس زیادہ بڑھنے شروع ہو گئے اور یوں مہنگائی بڑھتی گئی جس کا مطلب ہوا کہ عوام کی بچتوں کو مہنگائی نے نِگلنا شروع کر دیا۔ (5) بلاواسطہ ٹیکس کا نظام جب کم ہوتا گیا تو کالا دھن زیادہ پیدا ہونا شروع ہوگیا یعنی ملک تو غریب ہوتا چلا گیا اور ٹیکس نادہندہ عوام امیر سے امیر ہوتے چلے گئے۔ (6) اَب حالت یہ ہے کہ ہماری قومی آمدنی سرکاری طور پر 3 فیصد سالانہ بڑھ رہی ہے، جبکہ Black economy (کالادھن) 15 فیصد سالانہ بڑھ رہی ہے۔ (7) مناسب اور ٹھوس نظامِ ٹیکس نہ ہونے کی وجہ سے کالا دھن ہماری زندگی کے ہر شعبے میں در آیا ہے۔ شادی بیاہ سے جُڑے ہوئے اَخراجات آنکھوں کو خیرہ کر دیتے ہیں، مہنگے سکولوں کی بے تحا شہ فیس Structure ، مہنگے سٹورز ، اَن گنت ہائی فائی ریسٹورنٹ ، مہنگی کاریں ، کھال اُتارنے والے ہسپتالوں کی بھر مار اور شہری لوگوں کے 5 سٹار اور 7 سٹار عمرے ، اس چیز کی غمازی کرتے ہیں کہ کالا دھن Consumption (کھپت)میں جا رہا ہے، پیداواری عمل میں نہیں۔ 

یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے شہروں میں ملازمتیں کالا دھن پیدا کرنے والے شعبوں میں مِل رہی ہیں مثلاً سوپرسٹورز، ریسٹورنٹس،مہنگے بیوٹی پارلرز،اُونچے درجے کے سکول، کیٹرنگ اور شادی ہالز چلانے والے، بڑی بڑی بوتیکس اور فیشن/ ڈیزائنرزسٹورز، جبکہ صنعت کاری مناسب تعداد میں نہ ہونے کی وجہ سے صنعتی ملازمتیں کم میسّرہیں۔ اگر یہ نظام یوں ہی چلتا رہا اور ٹیکس کے نظام کو منصفانہ نہیں بنایا گیا تو ہماری معیشت مزید بگاڑ کی طرف بڑھتی جائے گی۔ کالے دھن کے علاوہ، بے لگام مالی کرپشن جو ہمارے حکومتی اور معاشرتی نظام میں پھیل گئی ہے، وہ بھی ہماری معیشت کی ترقی میں منفی کِردار ادا کر رہی ہے۔ 

ماہرینِ معاشیات کی نظر میں ہلکی پھلکی مالی کرپشن معاشی ترقی کے لئے ضروری ہے، لیکن ایسی مالی بدعنوانیاں جو ہمارے ملک میں ہو رہی ہیں اور جس اُونچے درجہ کی ہو رہی ہیں اُس کرپشن کے لئے تو ڈکیتی سے بھی بڑا نام درکار ہے۔ جب حکمران طبقہ ٹیکس نہیں دے گا، ہر کاروبارِ حکومت میں اپنا کمیشن رکھے گا، حکومتی اہم عہدوں پر اپنے پسنددیدہ اور غیر مستحق اَفراد کا تقرر اور اقربا پروری کرے گا، عوام کی بنیادی ضروریات پر اخراجات کرنے کی بجائے میگا پروجیکٹس پر حکومتی خزانہ لُٹا دے گا تو پھر بتایئے کہ غریب عوام کو کیا ملے گا، معاشی ترقی، سیاسی دیانت داری اور اِنصاف کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔ معاشی ترقی کے لئے امن و امان اور قانون کی عملداری بھی بہت ضروری ہیں۔

 پچھلے 15 سال سے دہشت گردی، فرقہ بندی ، لسانی فسادات ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان نے سرمایہ کار کو خوف زدہ کر دیا ہے۔ کوئی بھی نیا سرمایہ کار طویل المدتی سرمایہ کاری کرنے کے لئے راضی نہیں ہے۔ کالے دھن کے مالکان مختصر مدتی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور وہ بھی اُسی کاروبار یا صنعت میں جہاں بینکوں سے اپنے ہی سرمائے کی ضمانت پر قرض لے کر کام چلا یا جا سکے اور موقع مِلے تو دھاندلی کے ذریعے سیاسی بلیک میلنگ کے ذریعے حکومتی دباؤ ڈلوا کر بینکوں کے قرض کی رقم ہی معاف کروالی جائے ورنہ جمع شدہ سود تو ضرور معاف کر وا لیا جائے، معاشی ترقی کے لئے حُبّ الو طن سرمایہ کار کے علاوہ تربیت یافتہ کاریگروں کا میسّر ہونا بھی بہت اہم ہے۔

صنعتی مشینیں اَب کمپیوٹرکا استعمال بہت زیادہ کرتی ہیں۔ ہماری روائتی صنعت مثلاً شوگر، ٹیکسٹائل اور لائٹ انجینئرنگ میں ہائی ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کا عمل دخل زیادہ ہے۔ ہمارا کاریگر اَن پڑھ یا کم پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے بھی جدید مشینوں کا آپریشن نہیں سمجھ پاتا۔ جو نوجوان زیادہ پڑھ لکھ جاتے ہیں اور کمپیوٹر کی بھی تعلیم حاصل کر لیتے ہیں وہ مشین آپریٹر بننا نہیں چاہتے بلکہ سفید کالر والی ملازمت ڈھونڈتے ہیں جو کم ہی ملتی ہیں۔ صنعت کار جب اپنی مشین کے لئے کاریگروں کوتربیت دِلوا لیتا ہے تو وہ کاریگر موقع ملتے ہی ملک سے باہر جانے کی کوشش کرتا ہے۔

پاکستان کی معیشت کی بنیاد دراصل زراعت اور اس سے جُڑی ہوئی صنعت اور تجارت پر ہے۔ ہمارے ملک کو اللہ تعالیٰ نے 4 موسم عطا فرمائے ہیں۔ ہمارا سرمایہ کار اگر زراعت میں، لائیوسٹاک ، ڈیری پراڈکٹس کی مصنوعات ، پھلوں اور پھولوں کی کاشت میں سائنسی بنیادوں پر سرمایہ کاری کرے تو ہم بھی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ڈنمارک کی طرح خوشحال ہو سکتے ہیں، اَب کچھ لوگ دودھ اور پولٹری کو جدید پیداواری عمل کی طرف لے جا رہے ہیں۔زراعتی صنعت کاری میں ہماری اَن پڑھ افرادی قوت کو روز گار بھی مِل سکتا ہے۔

 ہماری حکومتوں کے کارپرواز پچھلے 40 سال سے خود غرض اور بدعنوان آتے رہے ہیں۔ کالا باغ ڈیم جس کو چند سازشی اور بدعنوان سیاستدانوں نے ایک گالی بنا دیا ہے اور پاکستان کے لئے شجر ممنوعہ قرار دے دیا ہے، اگر وقت پر بنا دیا جاتا تو آج ہم جس قسم کی معاشی کسمپری کی حالت میں ہیں ، وہ نہ ہوتے۔ کالا باغ ڈیم جو دریائے سوات اور دریائے کابل کے پانی کو ذخیرہ کر کے تعمیر کیا جانا تھا اُس کی راہ میں خا ص مقصد اور لالچ کے لئے روڑے اَٹکائے گئے۔ ہم جانتے ہیں کہ کالا باغ دیم کے ذریعے دریاؤں کے پانی کو ذخیرہ کر کے سستی بجلی بھی بنانی تھی اور سیلابوں کی تباہ کاریوں کو بھی روکنا تھا۔

 ڈیموں کی بجلی تھرمل بجلی سے بہت زیادہ ارزاں ہوتی ہے۔ تھرمل بجلی پاکستان میں فرنس آئل اور ڈیزل سے پیدا ہوتی ہے۔ بڑی آئل کمپنیاں ، جن میں بیرونی سرمایہ کاری ہوئی ہے، کبھی نہیں چاہیں گی کہ پاکستان میں اُن کے تیل کی طلب کم ہو جائے۔ آئل کمپنیوں نے پاکستان کو اپنے چنگل میں پھنسائے رکھنے کے لئے سیاستدانوں کو بڑی رشوتیں دے کر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو اپنے اپنے صوبوں کے لئے نقصان دہ قرار دِلوا دیا۔ بعض سیاستدانوں نے تو کالا باغ ڈیم کو بم سے اُڑا دینے کی دھمکی دی۔ کالا باغ ڈیم سے ہماری لاکھوں ایکڑ زمین سیراب ہوتی، سیلابی تباہ کاریاں کم سے کم تر ہو جاتیں، سستی بجلی وافر مقدار میں مِلتی ہزاروں ہنر مندوں کو ملازمتیں ملتیں۔ ہماری معیشت کا گراف کہاں جا پہنچتا اور کِن بلندیوں کو چھوتا ۔ 

پاکستان کے بدخواہوں نے یہ منصوبہ نہیں بننے دیا۔ فوجی سربراہ بھی آئے، لیکن وہ بُزدل نکلے۔ سیاستدانوں کی بڑکو ں سے ڈرگئے ۔ کاش ایوب خان جیسا حُبّ الو طن فوجی سربراہ ہوتا تو وہ کبھی کا فیصلہ کر چکا ہوتا۔ پاکستان کی معاشی بد قسمتی یہ نہیں تو پھرکیا ہے۔ اگر ہمارے ہاں ایوب خان، نواب آف کالا باغ اور خدا بخش بچہ جیسے حکمران ، جو زراعت سے بھی محبت رکھتے تھے اور بے لوث بھی تھے، پیدا ہو جائیں تو پاکستان مضبوط معیشت کا مالک ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری معاشی ترقی کا پہیہ اُلٹا چل رہا ہے۔ 

مزید بیڑہ غرق دہشت گردی کے عذاب نے کر دیا ہے۔ ہمارے فوجی اخراجات حالتِ جنگ کی مانند ہیں،بجٹ کا بڑا حصہ غیر ملکی قرضوں کے سود کی ادائیگی اور پھر دفاع پر خرچ ہو جاتا ہے پھر کرپشن بھی بہت کچھ چاٹ جاتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی ٹڈی دَل کی طرح ہماری مزید پسماندگی کا باعث بن رہی ہے۔ اچھی صحت ،بہتر تعلیم، غیر آلودہ ماحول، صاف پینے کا پانی، مناسب رہائشی سہولیات اور جرائم میں کمی، ایسی برکات ہیں جو آبادی کے کنٹرول سے وابستہ ہیں۔ بے ہنگم آبادی کی زیادتی محدود ذرائع(Resources) پر بڑا بوجھ بن جاتی ہے۔اِن حالات میں عوام کی بنیادی ضروریات کہاں سے پوری ہوں گی؟

منظور احمد

آزادئ اظہار ، انسانی حقوق اور یورپ...

$
0
0

فرانس میں گستاخانہ کارٹون بنانے والے میگزین کے دفتر کے اندر گھس کر کچھ مشتعل لوگوں نے صحافیوں اور کارٹون بنانے والوں کو قتل کر دیا۔ عالم اسلام اور عالم انسانیت کے لوگ قاتلوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ دنیا بھر کے دانشوروں اور مسیحیوں کے روحانی سربراہ پوپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنہوں نے کہا کہ اظہار رائے کی کوئی حد ہوتی ہے۔ اس بہانے سے کسی بھی مذہب کی توہین نہیں کی جا سکتی۔

پوپ نے کہا کہ میری ماں کے خلاف نازیبازبان استعمال کرنے والے کو گھونسا کھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ نچلے درجے کی کاروباری بات یہ بھی ہے کہ اس طرح ایک معمولی رسالے کے مالکان ساری دنیا میں بدنام ہو کر اپنے معاملات کو پوری دنیا میں پھیلا لیتے ہیں۔ جو رسالہ 30ہزار کاپی کی بھی اشاعت نہیں رکھتا تھا۔ اگلے پرچے کی اشاعت لاکھوں میں پہنچا دی گئی ہے۔ ہم ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ مگر کسی یورپی جریدے میں گستاخانہ باتیں کسی بھی دہشت گردی سے بڑھ کر دہشت گردی ہے۔

امریکہ اور دوسرے ممالک میں کئی ملین پاکستانیوں سمیت مسلمان بستے ہیں۔ جن کو ان حکومتوں نے ملازمتیں اور روزگار دی ہوئی ہیں اور ان کو نیشنلیٹی، جائیدادیں خریدنے اور اظہارِ خیال کے حقوق دیے ہوئے ہیں۔ جو ان کو بعض مسلمان ممالک میں بھی میسر نہیں۔ ہمارا گلہ صرف ان چند شرارتی عناصر سے ہے جو تہذیبوں کو آپس میں لڑانے کی مسلسل سازش کر رہے ہیں۔ یہ وہ انتہا پسند اور تنگ نظر مٹھی بھر لوگ ہیں جو دین اسلام کو بد نام کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور وہ اس دین کی آفاقی شکل اور تیز پھیلاؤ سے خائف ہیں۔ ان کو یہ پتہ ہے کہ ہم سب حضرت ابراہیم ؑ کو ماننے والے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کو سب مسلمان بر حق اللہ کے پیغمبر مانتے ہیں۔ لیکن اسلام دشمن سوچ نے ان کو باولا کیا ہوا ہے۔ ان کے دل و دماغ مفلوج ہو چکے ہیں۔
  
بل آف رائٹس انگریزوں کو اظہارِ خیال کی آزادی دیتا ہے۔  فرانسیسی انقلاب کے وقت انگریزوں نے ایک آزادئ اظہار کابل پاس کیا۔ جس کے آرٹیکل 11کے مطابق ہر شہری بول، لکھ اور پرنٹ کر سکتا ہے۔ لیکن اس آزادی کو کسی بھی قانون کے برعکس غلط استعمال نہیں کر سکتا۔ یعنی اس اظہار خیال کی آزادی ہے۔ جو اجتماعی فلاح کے لیے ہو۔ لیکن وہ آزادی اظہار جس سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوں یا ان کے اقدار اور ایمان کو ٹھیس پہنچے ان کو یہ قانون کوئی دفاع مہیا نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 19بھی آزادی اظہار کے جائز استعمال کی تلقین کرتا ہے۔

 مغربی دنیا کے بنائے ہوئے موجودہ قوانین میں اگر کوئی ابہام ہے تو اس کو دور کرنا بھی مغربی قانون ساز اداروں ہی کا کام ہے۔لیکن وقت آگیا ہے کہ مغربی دانشور اور قانوں ساز اسمبلیوں میں بیٹھے بڑے بڑے قانون دان اورمحقق اب اظہارِ خیال کی آزادی کے قوانین میں ایسی ترمیم ضرور کریں جس سے دوسرے انسان کے جذبات مجروح کرنے والے جاہل کو فوراً قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ ورنہ موجود قانون کی آڑ میں سلمان رشدی جیسے شیطان ہر جگہ اپنی اظہار خیال کی آزادی کی آڑ میں دنیا کے امن کو آگ لگاتے رہیں گے اور جانیں ضائع ہوتی رہیں گی۔

یورپ اور خاص طور پر برطانیہ کو بھی چاہیے کہ انسانی حقوق کی آڑ میں جو سیاسی پناہ گاہیں بنائی ہوئی ہیں۔ خدارا ان کو بند کریں اور دنیا میں امن قائم ہونے دیں۔ لیکن کبھی اس شیطان رشدی کو وائٹ ہاؤس میں استقبالیے دیے گئے۔ مغربی دنیا بتائے اگر یہ شیطان رشدی ہالو کاسٹ (Holocast)کے بارے میں لکھے تو کیا یہ آزادی خیال کے حامی تب بھی اسے ایوارڈ سے نوازیں گے؟ ڈیوڈ کیمرون اور اوباما نے اپنے مشترکہ آرٹیکل میں خاکوں کو آزادی اظہار قرار دیا ہے۔ فرانسیسی صدرنے جریدے کی حمایت میں بیان جاری کیا ہے ۔ وہ اپنی جانبداری سے تہذیبوں کے مابین نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں۔ جس سے عالمی امن کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اوباما ، کیمرون اور اولاند جیسے لیڈروں کو بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔

لیکن یہ اس وقت ممکن ہوگا جب مغربی قانون ساز ادارے بھی اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں یہ محسوس کریں کہ کسی بھی دوسرے شخص کے عقیدے اور ایمان پر حملہ کرنے کی کوئی بھی مذہب اور مہذب معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔ مغربی دانشور جب غیر مسلموں کے انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مسلمان بھی انسان ہیں۔ ان کے بھی انسانی حقوق ہیں۔ ایسے قوانین کیوں بنائے جائیں جو دنیا میں فساد پیدا کریں۔ جس سے نوبت قتل و غارت تک پہنج جائے اور نفرتوں میں اضافہ ہو۔

فرانس کے اندر حالیہ دنوں میں جو کچھ ہوا اس کو مسلمان بالکل اچھا نہیں سمجھتے۔ چونکہ ہمارا دین کسی کی بھی غیر قانونی طور پر جان لینے کی مخالفت کرتا ہے۔ سزائیں ملکی قوانین کے تحت ہونی چاہیں۔ چونکہ افراد کے ہاتھوں میں یہ فیصلے چھوڑنے سے معاشرہ تباہ ہو جاتاہے۔

مغربی دنیا میں لوگ نسبتاً اچھے ہیں۔ صرف مغرب میں موجود چند اسلام دشمن عناصر اور لابیاں ان کو گمراہ کرتے ہیں اور مغربی حکومتیں خاموش تماشائی بن کر اسلام کے خلاف نفرتوں میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔
چارلی ہیبڈوکے ناپاک اقدامات پر جس طرح یورپی سربراہان ہم آواز ہو کر میدان عمل میں اُترے ہیں اس نے دنیا کو ایک نئے بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ یورپی سربراہان اور عوام کا یہ طرز عمل کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں۔ اگر چارلی ہیبڈو کے دفاع کے لئے چالیس ممالک کے سربراہان جمع ہو سکتے ہیں اور چالیس لاکھ افراد کو سڑکوں پر لا سکتے ہیں۔ تو مسلمان سربراہان اپنے مرکز محبت کے دفاع کے لیے میدان عمل میں نہیں آسکتے۔

مسلمان حکمران کو اس مسئلے پر سنجیدہ اور مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مسلے پر معاشرے کے تمام طبقات بشمول سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو متحد ہو کر نبی کریم ﷺ کی حرمت کے لیے آواز اُٹھانی چاہیے۔ اگر مسلمان متحد ہو جائیں تو بین الاقوامی سطح پر حرمتِ رسول ﷺ کے حوالے سے مؤثر قانون سازی کروائی جا سکتی ہے۔ اگر جمہوریت عوام کی رائے کا نام ہے تو اہل مغرب کو ڈیڑھ ارب مسلمان کی رائے اور جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔

یوسف سرورمیر

Living in the Ruins of Gaza

عرب دنیا پریشانیوں میں گرفتار کیوں؟....

$
0
0

یہ بھارتی ریاست کیرالہ کے شہر کالی کٹ کے ایک ہوٹل کا واقعہ ہے ۔ میں ہوٹل میں بیٹھا چائے کے گرم گھونٹ لے رہا تھا کہ خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ایک گروپ نے مجھ سے رابطہ کیا۔ اس گروپ میں نوجوان خواتین عرب بھی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ان کی گفتگو کا حصہ بن جاوں۔ گفتگو شروع تو ماحولیاتی معاملے سے ہوئی لیکن کھیلوں کی دنیا سے ہوتی ہوئی عرب دنیا کی سیاست تک پہنچ گئی۔

سنگا پور میں بزنس اور فنانس کی تعلیم پانے والے ایک نوجوان نے پوچھا ''عرب دنیا اس قدر پریشانیوں میں گرفتار کیوں ہے؟ اس سوال پر میرا برجستہ کہنا تھا اس سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہے۔ لیکن اس نوجوان کے تمام ساتھی جن کی عمریں بیس برس کے لگ بھگ تھیں سب اس مشکل سوال کا جواب جاننا چاہتے تھے۔ میں نے کہا اس صورت حال کی مختلف وجوہات ہیں۔ لیکن میری دانست میں عرب دنیا کو کبھی بھی ''ٹیک آف ''کا موقع نہیں مل سکا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد عرب لیگ کے قیام سے ایک امید کی کرن سامنے آئی تھی۔ لیگ نے بہتر مستقبل کی تعمیر اور خطہ عرب میں عوام کی بہتری کے لیے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ تاہم مغربی استعمارسے پھر عرب دنیا کو ایک بڑا دھچکا انیس صد اڑتالیس میں صہیونی ریاست کے قیام کی صورت برداشت کرنا پڑا۔ یوں علاقے میں اسرائیل کو امریکا نے ایک کانٹے کی طرح ابھار دیا۔ اس سے زیادہ خطرناکی عرب ممالک کی نا اہلی بنی ہم نے نے اپنے لوگوں کو اپنی توانائیاں جمع رکھنے اور خوشحالی کے لیے رہنمائی دینے میں کوتاہی برتی۔

بعد ازاں انیس صد سڑسٹھ میں عرب اسرائیل جنگ مں عرب دنیا کو نیچا دیکھنا پڑا، اندرونی جھگڑوں اور رقابتوں کے علاوہ حکومتی تبدیلیاں، بد انتظامیاں، آمریت ، عوام پر سختیوں اور خود ساختہ حکمرانوں کی وجہ سے عرب دنیا بدحالی و پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں گری رہی۔ پھر عراق کی چڑھائی ہو گئی۔ یہ عملا عربوں کے تابوت میں آخری کیل تھا۔ کمزور، نوکر شاہی کی ماری ہوئی اور کرپشن میں پھنسی ہوئی ان ریاستوں میں فرسٹریشن کا اہم سبب ہیں ، انہی کی وجہ سے خطے کے لوگوں میں غصہ اور ناراضگی ہے ۔ عزت نفس اور وقار کی قدرے بحالی کے لیے تیونس اور مصر میں تحریکیں شروع ہوئیں۔ اسے عرب بہاری کا نام دیا گیا ۔ بد قسمتی سے اس عرب بہاری کو کچھ مفاد پرست عناصر نے اپنے کنٹرول میں کر لیا، جیسا کہ مصر کے معاملے میں ہوا۔

شام میں عظمت کے گھمنڈ کا شکار آمر بھی عوام کی بے چینی کی وجوہات کوختم کرنے پر تیار ہے، نہ نوشتہ دیوار پڑھنے کو اور نہ ہی عوام پر ڈالے گئے بوجھ کو کم کرنے پر تیار ہیں۔ ایسے حکمران کے فیصلوں کی وجہ سے زاروں افراد کی زندگیاں موت کے گھاٹ اتر گئی ہیں اور دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آگئیں۔ جو جب چاہیں قتل کرتی ہیں۔ دوسری جانب عراق ہے۔ اسے امریکی مداخلت کے بعد مسلسل خانہ جنگی کا سامنا ہے۔ یہی حال یمن اور عرب دنیا کے دیگر ملکوں کا ہے۔ عملا عرب خطہ ایک جنگی علاقہ بن کر رہ گیا ہے۔ جس میں محض اپنے لیے سوچنے والے کھلاڑیوں کا حصہ بہر حال زیادہ ہے۔

میں نے نوجوانوں کے اس گروپ کو بتایا یہ تاریخ کا دہرایا جانا نہیں ہے۔ لیکن ماضی کی ایک جھلک ضرور ہے، اگر ہم نے اس کو سمجھ لیا تو ممکن ہے ہم بہتر حکمت عملی ترتیب دینے میں کامیاب ہو جائیں اور اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثات کی روک تھام کر سکیں۔ ہم اپنے اندر موجود اپنے دشمنوں سے نمٹ سکیں اور باہر کی طاقتوں کے منفی مقاصد ارادوں اور مفادات کی مزاحمت کر سکیں۔ لیکن ہمارے حکرا ن اس سب کچھ کو ختم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ ان حکمرانوں نے نوجوانوں کی ضروریات کو نظر انداز کر رکھا ہے، ان کے اور نوجوانوں کے اہداف میں فرق ہے۔ خواہ یہ فوجی حکمران ہوں یا چند سری حکومتیں ہوں۔ ان کی سوچ سے نوجوانوں کی سوچ مختلف ہے۔

سابق امریکی صدر جا ن ایف کینیڈی نے کہا تھا''جو لوگ پر امن تبدیلی اور انقلاب کی کوششوں کو ناکام بنادیتے ہیں ان کے لیے پر تشدد انقلاب سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔''یہ ہے جو ہمارا خطہ دیکھ رہا ہے ہے۔ اقتدار میں رہنے والوں اور ان کے درمیان لڑائیاں ہیں جو تبدیلی چاہتے ہیں، آج عرب دنیا میں مذہبی انتہا پسندی ، دہشت گردی اور بے یقینی ان لوگوں کو خوفزدہ کر دینے والی ہے، جو امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ، عزت چاہتے ہیں اور اپنے سے متعلقہ امور میں اپنی آواز اور رائے رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ایسے معاشرے میں رہنا چاہتے ہیں جہاں وہ چیزوں کو میرٹ پر دیکھ سکیں۔ کیونکہ ایسے لوگوں کا ایمان ہے کہ آگے بڑھنے کا یہی راستہ ہے۔ ایک نوجوان عرب خاتون کا پوچھنا تھا ''کیا ایسا ممکن ہو جائے گا ؟ میں نے پورے یقین سے کہا ''ہاں یہ ممکن ہو سکتا ہے، اگر ہم عالمی سطح پر پھیلے تشدد کو ختم کرکے امن کو ایک موقع دے دیں۔

خالد المعینا


Mount Kilimanjaro in the Distance

$
0
0
Mount Kilimanjaro in the distance, as elephants walk in Amboseli National park.

The frozen Toronto Harbor

$
0
0
People skate the frozen Toronto Harbor just off Algonquin Island with the city of Toronto in the background.

فضائل جہالت....وسعت اللہ خان

$
0
0

یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ان پڑھ شخص جاہل بھی ہو۔جاہل ہونے کے لیے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔عمرو ابن ِہشام قریش میں ابو الحکم ( دانش کا باپ ) کے لقب سے جانا جاتا تھا۔مگر اسی ابوالحکم نے اپنی کور چشمی کے سبب دربارِ رسول سے ابو جہل کا لقب پایا۔ایسا ہٹیلا کہ مرتے مرتے بھی کہہ مرا کہ میرا سر گردن سمیت کاٹنا تاکہ دیگر سروں کے درمیان ممتاز رہے۔ ان پڑھ لاعلم ہوتا ہے مگر حصولِ علم سے لاعلمی کا مداوا کرلیتا ہے۔

جاہل باعلم ہوتا ہے مگر اس کا باعلم ہونا اس سمیت کسی کے کام نہیں آتا۔ان پڑھ جانتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔جاہل سمجھتا ہے کہ وہ سب جانتا ہے۔علم حلم پیدا کرتا ہے۔جہل غرورِ علم پیدا کرتا ہے۔جاہل بصارت کو بصیرت سمجھتا ہے اور عالم بصیرت کو بصارت بنا دیتا ہے۔ ان پڑھ اکبرِ اعظم ہوسکتا ہے مگر جاہل ترقی کرکے جاہلِ اعظم ہوجاتا ہے۔ان پڑھ اگر پڑھ لکھ جائے تو امکان ہے کہ وہ دوسروں کو بھی اس راہ پر لگادے۔لیکن جاہل کو پیر رکھنے کی بھی جگہ مل جائے تو وہ علم کی ہری بھری کھیتی اجاڑنے کے لیے بہت ہے۔ اور اگر کسی قوم کے شعبہِ تعلیم پر ہی اہلِ جہالت کا قبضہ ہوجائے تو پھر ایسی قوم کو کسی اندرونی و بیرونی دشمن کی ضرورت ہی نہیں۔سپاہِ جہلت ہی کام تمام کرنے کے لیے کافی ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ طالبان کو کوستے رہتے ہیں کہ وہ تعلیم کے خلاف ہیں اور اتنے اسکول تباہ کردیے۔مگر انھوں نے پاکستان کے لگ بھگ تین لاکھ تعلیمی اداروں میں سے زیادہ سے زیادہ کتنے تباہ کیے ہوں گے ؟ پانچ سو ، ہزار ، ڈیڑھ ہزار بس ؟ ہم میں سے بہت سے یہ راگ بھی الاپتے ہیں کہ دینی مدارس انتہاپسندی کی نرسریاں ہیں۔مگر تقریباً پندرہ ہزار میں کتنے ایسے مدارس ہوں گے ؟ پانچ سو ، ہزار ، دو ہزار بس ؟ ہم میں سے متعدد واویلا کرتے ہیں کہ اس ملک کی تعلیم کو غیر حاضر ، نااہل ، سفارشی اور بھوت اساتذہ کی دیمک لگ گئی ہے جو گھروں پر بیٹھے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔لیکن سولہ لاکھ اساتذہ میں ایسے کتنے ہوں گے ؟ چالیس ہزار ، اسی ہزار ، ایک لاکھ بس ؟ ہم شور مچاتے ہیں کہ اسکولوں کی عمارات خالی پڑی ہیں۔ان میں جنات بستے ہیں، مویشی بندھتے ہیں ، بااثر لوگوں کے کارندے تین پتی کھیلتے ہیں ، ان میں مہمان خانے بنے ہوئے ہیں۔مگر لگ بھگ سوا دو لاکھ پرائمری و مڈل اسکول کی عمارات میں سے ایسی کتنی ہوں گی جن کا ایسا غیر تعلیمی استعمال ہو رہا ہوگا ؟ پانچ سو ، ہزار ، پانچ ہزار بس؟

تو کیا تعلیم انھی اسباب کے سبب تباہ حال ہے یا پھر یہ زبوں حال تصویر عام آدمی کو دھوکا دینے کے لیے تخلیق کی گئی ہے ؟ آج بھی پانچ سے سولہ برس تک کے بچوں بچیوں کو لازمی اور مفت تعلیم دینا ریاست کی آئینی ذمے داری ہے۔آج بھی شعبہِ تعلیم میں سرکاری اسکولوں کا تناسب بہتر فیصد ہے۔آج بھی چھیاسٹھ فیصد طلبا سرکاری اداروں میں اور صرف چونتیس فیصد پرائیویٹ اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔تو کیا یہ سب خودکار ہے ؟

چلیے مان لیا کہ حکومت کی ترجیحات میں تعلیم سب سے نیچے ہے۔یہ بھی درست کہ سرکاری اسپتالوں اور سرکاری اسکولوں کا حال یکساں ہے۔یہ بھی تسلیم کہ اکثر سرکاری اسکولوں میں فرنیچر ، صحت و صفائی کی بنیادی سہولتوں اور چار دیواری کی کمی ہے۔یہ بھی بجا کہ بہت سے اسکولوں میں تربیت یافتہ اساتذہ کی قلت ہے۔مگر جن اسکولوں میں یہ سب مسائل نہیں کیا وہاں واقعی پرائمری و مڈل بچوں بچیوں کو چھ گھنٹے روزانہ تعلیم مل رہی ہے ؟ کیا واقعی ان اسکولوں میں مفت کتابیں بانٹنے سے معیارِ تعلیم میں کوئی فرق پڑا ہے ؟

اور کبھی ہم نے اس پر بھی غور کیا ہے کہ اب سے چالیس برس پہلے تک جب پرائیویٹ سیکٹر کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا اور سرکاری اسکول بھی آج کے مقابلے میں خاصے کم اور دور دور واقع تھے تب معیارِ تعلیم کی زبوں حالی پر بکثرت سوالات کیوں نہیں اٹھتے تھے۔تب انھی اسکولوں کے بچے زندگی کے ہر شعبے میں بلا ججھک کیوں کامیاب سمجھے جاتے تھے اور آج جب قریہ قریہ اسکول پھیلے ہوئے ہیں۔محکمہ تعلیم روزگار کی فراہمی کے اعتبار سے سب سے بڑا سرکاری سیکٹر ہے اور بنیادی خواندگی بڑھانے کے لیے ملکی و بین الاقوامی این جی اوز بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں تو پھر ایسا کیوں ہے کہ پیلے اسکول کا ملک گیر نظام دیمک زدہ ہوچکا ہے اور ہوتا ہی چلا جارہا ہے ؟

وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر ٹیچر نہ صرف کوالیفائیڈ تھے بلکہ کسی مجبوری میں نہیں بالرضا اس شعبے میں آتے تھے۔ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ کوئی منفعت بخش ملازمت نہیں پھر بھی وہ قناعت پسند تھے۔اسکولوں کی انسپکشن کا نظام ابھی اتنا کرپٹ نہیں ہوا تھا۔استاد ڈنڈے کا استعمال مارنے سے زیادہ ڈسپلن قائم رکھنے کے لیے کرتا تھا۔( جب سے ڈنڈے کا استعمال ممنوع ہوا تب سے شاگرد کے بجائے استاد ڈرنے لگا ہے)۔

والدین کو استاد پر اندھا اعتماد تھا کہ وہ ان کے بچوں کو سوائے تعلیمی استعداد کے کسی اور معیار پر نہیں جانچے گا اور سب طلبا و طالبات اس کی نظروں میں برابر ہوں گے۔اسی لیے کسی باپ کو اپنا بچہ داخل کراتے ہوئے یہ کہنے میں قطعاً ہچکچاہٹ نہیں تھی کہ ’’ گوشت آپ کا ہڈیاں ہماری ’’۔

مگر یہ تب کی بات ہے جب تعلیم کو مالی منافع اور خسارے کے ترازو میں تولنے کا رواج نہیں ہوا تھا۔جب محکمہ تعلیم سیاسی چہیتوں کی چراگاہ نہیں بنا تھا کہ جس میں ہر گائے بھینس بکری کو چرنے کا پرمٹ مل جائے۔تقرری و تبادلے و ترقی کا رشتہ رشوت و خوشامد سے بہت زیادہ استوار نہیں ہوا تھا۔ استاد کو اسکول کے بعد جزوقتی نوکریاں کرکے گھر چلانے کی حاجت و مجبوری درپیش نہیں تھی۔ٹیوشن رضاکارانہ تھی ، گلا کاٹ سفاک صنعت نہیں بنی تھی۔استاد کی ذمے داری صرف اور صرف تعلیم دینے تک تسلیم کی جاتی تھی۔زیادہ سے زیادہ اسے الیکشن ڈیوٹی، امتحانی پرچوں کی جانچ اور امتحانی مراکز کی نگرانی کا اضافی کام سونپا جاتا تھا اور اس کا بھی اس زمانے کے حساب سے معقول معاوضہ ملتا تھا۔

ایسا نہیں تھا کہ استاد سے یہ توقع بھی رکھی جائے کہ تمام کلاسیں بھی لے اور پھر اسکول کی چھٹی کے بعد پولیو کے قطرے بھی پلائے ، مردم شماری اور خانہ شماری کے لیے بھی ایک ایک دروازہ کھٹکھٹائے ، ووٹروں کے اندراج کے لیے بھی در در جائے ، سیلابی نقصانات کے تخمینے کے کام میں بھی جھونک دیا جائے ، اسکول سے باہر رہ جانے والے بچوں کا سروے بھی کرتا پھرے ، سیاسی جلسوں میں بھی لازمی شرکت کا پابند ہو ، ضلعی انتظامیہ کے کنٹرول روم میں بیٹھ کر ایمرجنسی فون نمبروں پر جواب دینے کی بیگار بھی کرے، اپنے سے اوپر والوں کی مسلسل خوشامد اور چاپلوسی کو بھی اس کے فرائض کا حصہ سمجھ لیا جائے۔

اوپر سے آنے والے ہر زبانی حکم کو بھی تحریری جانے اور اضافی خدمات کے معاوضے کے لیے مہینوں کبھی کسی افسر کے سامنے بتیسیاں نکالے توکبھی کسی کلرک کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتا پھرے۔اور پھر اس سے یہ توقع بھی ہو کہ اس کے شاگردوں کا تعلیمی نتیجہ بھی اچھا اور پہلے سے بہتر ہو۔کیا ایسا کبھی ہوا ہے۔کیا ایسا کبھی ہوتا ہے ؟ مگر یہ پورا نظام چلانے والے ابو جہلوں کو اس سے کیا ؟ یہ نہ ان کا مسئلہ ہے اور نہ ہی ان کے بچوں کے مستقبل کا مسئلہ۔
انھیں آخر کیوں یہ سادہ سی بات سمجھ میں آئے کہ اگر ایک نیا اسکول بنانے کے بجائے پہلے سے موجود ایک اسکول کو ڈبل شفٹ پر چلایا جائے تو ایک ہی عمارت دو اسکولوں کے برابر کام کرے گی۔

اگر یہ سامنے کی بات بھی راکٹ سائنس ہے تو پھر اس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ صرف ایک حکم سے ایک ہی دن میں تین لاکھ تعلیمی ادارے چھ لاکھ اداروں میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔اس کا یہ مطلب ہے کہ ایک استاد چھ گھنٹے کے بجائے بارہ گھنٹے کی دو شفٹوں میں پڑھائے تو اس کا مالی مسئلہ فوراً حل ہوسکتا ہے۔اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر ایک ہی اسکول میں ایک شفٹ لڑکیوں کے لیے اور دوسری شفٹ لڑکوں کے لیے ہو تو لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ اسکول بنانے پر اربوں روپے بچائے جاسکتے ہیں۔

اس کا یہ مطلب ہے کہ اسکول سے باہر پانچ برس کی عمر تک کے جو اکیاون لاکھ بچے ہر سال لور لور پھر رہے ہیں ان کی بھی انھی اسکولوں میں کھپت ہوسکتی ہے، ایک بھی اضافی عمارت اٹھائے بغیر۔۔۔
لیکن اگر ہر کام سیدھا سیدھا سوچا جائے تو پھر جہالت کی دیمک ساز تعلیمی فیکٹری کیونکر چلے گی ؟ اب آپ کو کچھ کچھ اندازہ ہوا کہ دہشت گرد کس کارخانے میں کیسے تیار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔

یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا میر

وسعت اللہ خان

"بہ شکریہ روذنامہ "ایکسپریس

پرویز مشرف کا دعویٰ اور زمینی حقائق....

$
0
0



سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف کا مستقبل کیا ہے؟ اس بارے میں اَن گنت قیاس کئے جا سکتے ہیں، مگر انہوں نے حال ہی میں ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بڑی دلیری کے ساتھ یہ کہہ دیا ہے کہ حکومت کو پتہ ہونا چاہئے کہ میری فوج میں کیا اہمیت ہے، اس لئے مجھے معمولی آدمی نہ سمجھا جائے۔ کیا عجیب صورت حال ہے کہ ایک طرف پرویز مشرف سیاست دان بن کر اپنی جماعت چلا رہے ہیں اور دوسری طرف وہ فوج کی چھتری تلے بھی رہنا چاہتے ہیں۔ 

اُسی فوج کی چھتری تلے جو اُن کی رخصتی کے بعد بہت تبدیل ہو چکی ہے اور اُس کی قیادت اب سیاست میں ملوث ہونے کو تیار نہیں اور نہ مُلک میں مارشل لاء لگانا چاہتی ہے، حالانکہ اس دوران بعض اوقات ایسے مواقع بھی آئے جب فوج کو مُلک میں آپریشن اور لاقانونیت کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے کی اپیلیں کی گئیں۔ پرویز مشرف کے خلاف حال ہی میں اکبر بگٹی کیس میں فرد جرم بھی عائد کی گئی ہے۔ یہ آرٹیکل 6 کے تحت چلنے والے کیس کے بعد دوسرا سنگین نوعیت کا مقدمہ ہے، جس کا وہ سامنا کر رہے ہیں تاہم انہوں نے کہہ دیا ہے کہ اس مقدمے کا کوئی سر پیر نہیں، پہاڑوں میں اُس وقت کیا ہوا، کس نے اکبر بگٹی کو مارا، اس کی کوئی شہادت ہے اور نہ مقدمے میں کوئی جان، صرف سیاسی مقاصد کے لئے یہ کیس چلایا جا رہا ہے۔

پرویز مشرف پچھلے کچھ عرصے سے خود کو تیسری قوت کا گاڈ فادر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جب سے مخدوم امین فہیم نے اُن کے ساتھ ملاقات کی ہے، بہت سی افواہیں ہیں، حالانکہ خود امین فہیم اس ملاقات کو صرف ذاتی ملاقات کہہ چکے ہیں، جس کا کسی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ پرویز مشرف ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی کھل کر حمایت کرتے رہے۔ تاہم انہوں نے بڑی ہوشیاری سے یہ بھی کہا ہے کہ عمران خان کو ابھی میچور سیاست دان بننے کے لئے وقت درکار ہے۔ 
گویا دوسرے لفظوں میں وہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کی چھتری تلے موجودہ حکومت کی مخالف تمام سیاسی قوتیں اکٹھی ہو جائیں،اب انہوں نے واضح طور پر یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ فوج کبھی انہیں تنہا نہیں چھوڑے گی۔ مَیں سمجھتا ہوں ان کا ایک چینل پر آ کر ایسا دعویٰ کرنا بہت سے مضمرات کو سامنے لے آیا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ان پر آرٹیکل 6لگا کر جو کارروائی شروع کی گئی وہ صرف سیاسی ایشو کی حد تک رہے گی، کبھی بغاوت کے مقدمے میں انہیں سزا نہیں ہو سکے گی۔کیا واقعتا دھرنوں اور مختلف حوالوں سے ماض�ئ قریب میں حکومت پر پڑنے والے دباؤ صرف پرویز مشرف کے خلاف شروع کی جانے والی کارروائی کا ردعمل تھے؟

 کیا حکومت سے واقعی غلطی ہوئی تھی کہ اس نے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل6کے تحت خصوصی کورٹ میں ریفرنس بھیجا،جس کے بعد کھینچا تانی کا ایک طویل عمل شروع ہوا۔ پرویز مشرف نے خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہونے سے ہر ممکن انکار کیا، فوجی ہسپتال میں داخل رہے، لیکن بالآخر انہیں مجبور ہونا پڑا۔ شاید فوج انہیں ایک حد تک تحفظ دے سکتی تھی۔ جب معاملہ کسی اور طرف جانے لگا تو انہیں فرد جرم کے لئے عدالت میں پیش ہونا ہی پڑا۔ تاہم اس کے بعد انہیں ہر قسم کا استثنیٰ مل گیا۔

 اب اکبر بگٹی قتل کیس میں انہیں فرد جرم کا سامنا ہے، لیکن یقینِ واثق ہے کہ وہ یہاں بھی ایک آئرن مین کی طرح کسی بھی قسم کی قانونی گرفت سے محفوظ رہیں گے۔ نجانے ہماری سیاسی قیادت نے یہ حماقت کیوں کی کہ ایک سابق آمر کو جو فوج کے چیف آف آرمی سٹاف تھے۔ نشان عبرت بنانے کا فیصلہ کیا۔ ذرا آپ حالات کا یو ٹرن ملاحظہ فرمائیں۔ ایک دور تھا کہ جب پرویز مشرف کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے وکلاء تحریک کے ذریعے چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ وہ قوم کے ہیرو بن کے ابھرے تھے،مگر جونہی وہ چیف جسٹس کے منصب سے علیحدہ ہوئے ان کا قد کاٹھ کم ہونا شروع ہو گیا۔ 

آج اُن کی یہ حالت ہے کہ انہیں اپنی نیک نامی برقرار رکھنے کے لئے عمران خان پر 20ارب ہرجانے کا مقدمہ کرنا پڑا۔ خیر یہ تو ایسی بات نہیں، اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے عدالتی نظام کی آزادی اور مضبوطی کا جو ڈھنڈورا پیٹا تھا،وہ آج اس طرح ملیا میٹ ہو گیا ہے کہ خود پارلیمنٹ نے فوجی عدالتوں کا ترمیمی بل منظور کیا ہے۔کیا دلچسپ حقیقت ہے جو کام پرویز مشرف اپنے اقتدار میں ہونے کے باوجود نہیں کرا سکے وہ اب ہو چکا ہے، اس لئے ان سے جب فوجی عدالتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ضرور ہونی چاہئیں، کیونکہ ہمارا عدالتی نظام انصاف دینے سے قاصر ہے۔

یہ کہتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ انہیں انہی عدالتوں نے ریلیف دے رکھا ہے اور انہیں گرفتار نہیں ہونے دیا۔ یہ انہی عدالتوں کی قانونی موشگافیاں ہیں کہ جن سے فائدہ اٹھا کر وہ ہر پیشی پر استثنیٰ لے لیتے ہیں، حالانکہ فوجداری مقدمات میں ملزم کا حاضر ہونا ایک قانونی شرط ہے۔

پاکستان کو جس قسم کے چیلنجوں کا سامنا ہے اس کی وجہ سے فوج کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اب یہ دہشت گردی کا مسئلہ ہی دیکھ لیں، ہمارے سول اداروں میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ اس عفریت سے نمٹ سکیں۔ بجا طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں سنے جانے چاہئیں۔ ہم ہر معاملے میں فوج کی طرف دیکھتے ہیں۔ یقیناًفوج بھی پاکستان کی ہے اور اُس کی طرف مشکل وقت میں دیکھنا چاہئے، مگر سوال یہ ہے کہ جس نظام پر ہم اربوں روپے ہر سال خرچ کرتے ہیں، اُس کی افادیت کیا ہے۔اگر پرویز مشرف آج یہ کہتے ہیں کہ جمہوریت یا آمریت کوئی معنی نہیں رکھتے، اصل چیز گڈ گورننس ہے،جو عوام کو امن و سکون دے سکے تو غلط نہیں کہتے۔ 

جمہوریت اچھی حکومت کا ایک وسیلہ ہے۔ اگر وہ عوام کو اچھی حکمرانی نہیں دے پاتی، تو اس کا مطلب ہے وہ آمریت سے بھی بدتر ہے۔ مَیں خود سالہا سال کے تجربے اور مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ کہاوت جس نے بھی ایجاد کی کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے، وہ کوئی دھوکے باز اور فراڈ آدمی تھا۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ایک نظام کو جمہوری بھی کہتے ہوں اور وہ بدترین بھی ہو۔ یہ دو عملی تو صرف عوام کو دھوکہ دینے کے لئے اختیار کی جاتی ہے۔ یہ شاید اس دوعملی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ہاں نہ جمہوریت مضبوط ہوئی اور نہ سول ادارے مضبوط ہو سکے۔ 

یہ بحث اپنی جگہ تفصیل طلب ہے کہ پاکستان میں جمہوریت بار بار فوجی مداخلت کی وجہ سے مضبوط نہیں ہوئی یا اس کی وجہ خود سیاست دان ہیں تاہم عوام کے نقط�ۂ نظر سے دیکھا جائے تو وہ جمہوریت میں زیادہ پستے ہیں۔ آمریتوں میں تو انہیں بنیادی جمہوریت کا نظام مل جاتا ہے، جو اُن کے مسائل حل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے، مگر جمہوریت میں انہیں بلدیاتی نظام سے محروم کر دیا جاتا ہے اور عوامی نمائندے اُن کی دسترس سے باہر ہو جاتے ہیں۔ پرویز مشرف نے ٹھیک کہا ہے کہ اُن کے دور میں پٹرول بحران کبھی پیدا نہیں ہوا اور لوڈشیڈنگ بھی بہت کم تھی۔

سچی بات ہے مجھے ذاتی طور پر پرویز مشرف کا یہ کہنا بہت نامناسب لگا کہ وہ فوج کے چیف رہے ہیں، اس لئے حکومت کو احساس ہونا چاہئے کہ فوج اُن کی پشت پر کھڑی ہے۔ شاید اِسی لئے آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج واضح کرے وہ پرویز مشرف کو آگے لا رہی ہے یا نہیں۔میرا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ اس وقت فوج بڑے بڑے چیلنجوں سے نبرد آزما ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف جرأت مندانہ فیصلے کر رہے ہیں۔ یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ فوج مُلک میں فیصلہ سازی سے لاتعلق نہیں، لیکن اسے کوئی مستحق اگر براہ است سیاست میں ملوث کرنے کی بات کرتا ہے تو یہ نامناسب ہے۔ 

پرویز مشرف اب ایک سیاست دان ہیں، انہیں یہ تاثر نہیں دینا چاہئے کہ فوج اُن کے ساتھ ہے۔ اگر وہ خود کو صرف سابق آرمی چیف تک محدود رکھتے تو پھر بھی کوئی جواز بنتا، مگر ایک سیاست دان کی حیثیت سے اگر وہ یہ دعویٰ کریں گے، تو پھر وہ اعتراضات ضرور اٹھیں گے،جن کا آصف علی زرداری نے ذکر کیا تھا۔ البتہ ان کی یہ بات درست ہے کہ انہیں انفرادی طور پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 

حکومت نے اُن پر بغارت کا انفرادی مقدمہ بنا کر جو غلطی کی تھی وہ اس طرح سامنے آ گئی کہ عدالت نے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو بھی بطور شریک ملزم طلب کر رکھا ہے یوں خوامخواہ سابق فوجی قیادت اور سابق سول قیادت کے درمیان امتیازی سلوک روا رکھنے کی، جو مثال قائم کی گئی تھی اور جس کے باعث فوج اور حکومت کے درمیان تناؤ بھی پیدا ہوا تھا، غلط فیصلہ قرار پائی۔ فیصلوں میں اگر مفادات اور تعصبات شامل ہو جائیں تو وہ انفرادی اجتماعی سطح پر نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، پرویز مشرف کا معاملہ اس کی بہترین مثال ہے۔

نسیم شاہد

سلامتی کونسل کیلئے بھارتی خواب اور اوباما کی حمایت؟....

$
0
0

’’ہم تو ابھی تک دہشت گردی ،داخلی انتشار ، معیشت اور قومی بقاء کے بحرانوں سے نکلنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں کہ ہمارے اتحادی ملک امریکہ کے ڈیمو کریٹ صدر اوباما نے ہمارے پڑوسی اور تاریخی مخالف بھارت کے ساتھ تعلقات کو یکسرنئی قربت اور نئی سمت دینے کا اعلان کرتے ہوئے سول نیوکلیئر تعاون، جدید ہتھیاروں کی بھارت میں مشترکہ مینو فیکچرنگ ،امریکی سرمایہ کاری اور دونوں ممالک کی تجارت میں کئی گنا اضافہ کے سلسلے میں معاہدوں ،اقدامات اور اعلانات کا ذکر کیا ہے۔

 اسکے ساتھ ساتھ بھارت کو ایک عالمی امیج اور بالا دستی کا تاثر دینے کیلئے صدر اوباما نے اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کیلئے امریکی حمایت کا وعدہ بھی دہرایا ہے۔ جی ہاں وہی بھارت جو سالہا سال تک امریکہ کا مخالف ،غیر جانبدار ممالک کا قائد اور روس کا حامی رہا ہے اور تمام عالمی فورموں بشمول اقوام متحدہ میں امریکی تجاویز اور موقف کیخلاف کھل کر ووٹ دیتا رہا ہے جو امریکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو تعصب تشدد اور مذہبی منافرت پھیلانے کی وجہ سے امریکہ کا ویزا دینے سے انکاری رہا ہے۔

آج وہی امریکہ اور بھارت بغل گیر ہو کر اس صدی کے نئے عالمی اتحادی بننے کا اعلان کر رہے ہیں، مگر عالمی امن اور استحکام کے مقصد کیلئے قائم ہونیوالے بھارت اور امریکہ کے اس ’’فطری اتحاد‘‘ کے بارے میں متعدد سوالات جواب اور توجہ طلب ہیں، آخر بھارت میں امریکی تعاون و اشتراک سے بنائے جانیوالے جدید ہتھیار اور ڈرون کہاں اور کس کیخلاف استعمال ہوں گے؟ کیا مشرق وسطی کے بحران زدہ ممالک میں بھی بھارت کو رول دیا جا رہا ہے اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں عدم استحکام ،تیل اور قدرتی وسائل کی سیاست میں بھی بھارت امریکہ کے اتحادی کا رول ادا کریگا؟ بھارت نے تو سول نیوکلیئر تعاون کیلئے مطلوبہ شرائط بھی پوری نہیں کیں، مگر امریکہ نے پھر بھی سول نیوکلیئر تعاون کے معاہدے پر اپنا موقف بدلتے ہوئے دستخط کیوں کر دیئے؟

اس طرح انٹلیکچول پراپرٹی کے تحفظ کیلئے بھی قوانین میں تبدیلی کا وعدہ بھارت نے پورا نہیں کیا مگر امریکہ ان پہلوئوں کو نظر انداز کر کے صدر اوباما بھارت کو یہ مراعات کیوں فراہم کر رہا ہے؟ ڈیمو کریٹ امریکی صدر اوباما اپنی صدارت کے بقیہ دو سال کے عرصے میں بھارت، امریکہ تعاون کے کتنے مقاصد حاصل کر سکیں گے؟ کیا صدر اوباما کے اس مشن کو پورا کرنے میں ری پبلکن اکثریت کی حامل امریکی کانگریس کتنا تعاون کرے گی اور مطلوبہ منظوری دے گی؟ امریکی صدارت کیلئے ڈیموکریٹ اور ری پبلکن پارٹیوں کی انتخابی سیاست اور مخالفت کے اثرات کیا ہونگے؟ کیا صدر اوباما کے بعد نیا امریکی صدر بھی اس امریکی پالیسی کو جاری رکھے گا؟ بہرحال یہ صورتحال پاکستان اور مشرق و سطیٰ اور خلیجی ممالک کیلئے تشویش اور فوری توجہ کے لائق ہے۔

 جبکہ بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کیلئے امریکی حمایت کا اعلان بھی عالمی برادری اور اقوام متحدہ کیلئے متعدد سوالات کو جنم دیتا ہے کیونکہ بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل نشست دینے کیلئے نہ صرف اقوام متحدہ کے منشور اور ڈھانچہ میں تبدیلی کرنا ہو گی جو کئی وجوہات کی بناء پر ممکن نظر نہیں آتا۔

 اقوام متحدہ کے منشور اور قواعد و ضوابط میں نہ تو سلامتی کونسل کی رکنیت کی تعداد میں توسیع کی کوئی گنجائش ہے بلکہ مستقل اراکین سلامتی کونسل کی تعداد پانچ مقرر ہے اور اقوام متحدہ کے منشور کے آرٹیکل 23 میں جن پانچ ممالک کے نام ہیں ان میں بھارت کا نام شامل نہیں ہے۔ لہٰذا اقوام متحدہ کے قواعد و ضوابط میں ترمیم اور تبدیلی کیلئے اقوام متحدہ کے موجودہ 193 رکن،ممالک پر مشتمل جنرل اسمبلی اتفاق رائے سے فیصلہ کرے گا ۔عالمی طاقت امریکہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ’’ایک ملک۔ایک ووٹ‘‘ کے اصول کے تحت صرف ایک ووٹ حاصل ہو گا

یہ فیصلہ 193 ممالک متفقہ طور پر کام کرینگے اور یہ اسلئے قابل عمل نہیں کیونکہ اقوام متحدہ کے ضوابط میں تبدیلی و ترمیم کیلئے 193 ممالک کا اتفاق رائے ممکن نظر نہیں آتا۔

 سلامتی کونسل کی توسیع کے ایشو پر اقوام متحدہ میں پہلے بھی سفارت کاری، توسیع کے مختلف فارمولے اور علاقائی حقائق زیر بحث رہے ہیں، ہمارے ذہین سابق سفیر منیر اکرم کی ٹیم میں موجودہ سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری اور دیگر سفارتی افسران کی ٹیم نےاقوام متحدہ کے ایوانوں میں اپنی محنت اور ذہانت سے اس توسیع کی مہم کا راستہ روک کر اپنے ہم خیال اور ہم موقف ممالک سے داد تحسین حاصل کی تھی، اس دور میں یہ حقیقت بھی اجاگر ہو کر سامنے آئی کہ سلامتی کونسل کی توسیع کی صورت میں علاقائی تضادات اور توقعات اور خواہشات کچھ یوں ہیں کہ بھارت کے مقابلے میں ایشیا سے جاپان،یورپ میں جرمنی کے مقابلے میں اٹلی ، افریقہ میں جنوبی افریقہ کے مقابلے میں نائیجریا اور لاطینی امریکہ میں برازیل کے مقابلے میں میکسیکو سلامتی کونسل کی نئی نشستوں پر امیدوار اور دعویدار ہوں گے۔جس سے علاقائی رقابتیں پیدا ہوں گی، پاکستانی سفارت کاروں نے اس صورتحال کا نوٹس لیکر سفارت کاری کے ذریعے اس توسیع کو کامیابی سے روک دیا۔

آج بھی یہ علاقائی حقائق بدستور موجود ہیں۔ بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل نشست دینے کی صورت میں معاشی عالمی طاقت جاپان پر کیا گزرے گی؟ کیا چین اپنے خلاف امریکی تعاون سے آگے بڑھتے ہوئے ہمسایہ بھارت کو مستقل رکن کے طور پر ’’ویٹو پاور‘‘ کو شیئر کرنا برداشت کر لے گا ؟

کیا سلامتی کونسل کے موجودہ مستقل پانچ رکنی یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین جو اپنے ’’ویٹو پاور‘‘ کے باعث سلامتی کونسل کے فیصلے اور قراردادوں کو منظور ہونے سے روک کر مسترد کر سکتے ہیں وہ یہ منفرد عالمی اختیار بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ شیئر کر کے اپنی اس قوت کو تحلیل یا کم کرنے کو تیار ہیں ؟

 بھارت کشمیر میں رائے شماری اور کشمیریوں کو حقوق دینے کے بارے میں سلامتی کونسل کا فیصلہ اور قرارداد تسلیم کر چکا ہے مگر اس قرارداد پر عمل کرنے سے انکار اور خلاف ورزی کا مرتکب ہے اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ ماضی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ امریکہ نے بھی کشمیر پر اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا تھا مگر وقت کی تبدیلیوں اور ہمارے حکمرانوں کی کیساتھ ساتھ امریکہ اور دنیا نے قرار داد کی موجودگی میں اپنا رویہ اور موقف بدل لیا۔ مگر ایک حقیقت اور ایک اصول آج بھی یہ ہے کہ کیا سلامتی کونسل کی قرارداد کو تسلیم کر کے اسکی خلاف ورزی کرنے والا بھارت دنیا کے دوسرے ممالک کو سیکورٹی کونسل کی منظور کی جانیوالی قراردادوں پر عمل کرنے کا درس کیسے دے سکتا ہے۔ وہ سلامتی کونسل کی مستقل نشست پر بیٹھ کر اس عمل کا حصہ کیسے بن سکتا ہے ؟ پاکستان اس مسئلہ کو عالمی فورم میں اٹھا کر عالمی برادری کو آزمائش میں ڈال سکتا ہے.

اگر سلامتی کونسل میں توسیع اور مستقل رکنیت میں اضافہ کا باب کھولا گیا تو پھر نئی مستقل نشست کیلئے معیار اہلیت کیا ہوگا ؟ برطانیہ اور فرانس دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اس دور کے ماحول اور زمینی حقائق کی بنیاد پر سیکورٹی کونسل کے لئے مستقل رکن تھے آج یہ دونوں ممالک امن و سلامتی اور جنگ کے معاملات پر وہ قوت و اختیار اور صلاحیت نہیں رکھتے ۔سوویت یونین بھی ٹوٹ کر اب مختلف ممالک میں تقسیم ہو کر روس رہ گیا ہے۔ کیا امریکہ بھارت کی خاطر یہ پنڈورا باکس کھولنے کو تیار ہے؟

اگر یہ تلخ حقیقت مان بھی لی جائے کہ عالمی طاقت کے امریکہ بھارت کے لئے ترجیح اور طاقت اور اثر کے ذریعے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کیلئے راہ ہموار کرے گا اور کسی معیار اہلیت کے بغیر بھی حمایت کرے گا تو یہ مسئلہ صرف جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ معاملہ نہیں بلکہ دنیا کی دیگر علاقائی طاقتوں کا بھی علاقائی اور عالمی مسئلہ ہو گا ؟ اس کرسی پر بیٹھ کر اگر بھارت پاکستان کے ساتھ برصغیر کی تقسیم کا قرض چکانے کا خواب دیکھ سکتا ہے تو ہر بر اعظم اور ہر علاقے میں یہ کیفیت یہ ماحول یہ ایسی علاقائی طاقتیں موجود ہیں جو سلامتی کونسل کی مستقل نشست کی خواہشمند ہیں۔ لہٰذا سلامتی کونسل کی مستقل نشست بھارت کو دلانے کی امریکی حمایت کے باوجود بھارت کی راہ میں ابھی بہت سی مشکلات، مسائل اور مراحل باقی ہیں۔

عظیم ایم میاں
"بہ شکریہ روزنامہ "جنگ


عدلیہ پر تیر اندازی کیوں ؟....

$
0
0

پاکستان اس وقت جس صورت حال سے دوچار ہے وہ کسی بھی لحاظ سے باعث اطمینان نہیں ہے۔ تمام اہم ملکی ادارے اس بات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں کہ ملک 1971 کے بعد سب سے بڑے بحران اور کڑے امتحان سے دوچار ہے۔ 1971کے بحران نے دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کو دو لخت کر دیا تھا ۔ آج ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے یہ دہشت گردی ہمارا پیچھا کئے ہوئے ہے۔ دہشت گردی کے اس عفریت نے ہماری معاشرتی اور معاشی ترقی کو روک دیا ہے۔ فوج کے تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ کے الفاظ میں بھارت بھی دہشت گردی کے اس کھیل میں ملوث ہے جو بھارت کیوں کر مانے گا۔

 وہ تو الٹا ہی پاکستان کو مورد الزام ٹہراتا ہے۔ لیکن پاکستان میں بھی ایسے نادان موجود ہیں جو بھارت کی بات کو ہی درست تسلیم کرتے ہیں۔ بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کے حالات فیصلہ کن مرحلے میں ہے۔ ایسے نازک حالات میں ملک کے تین بڑے ستون انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان کشیدگی کسی طور پر بھی پاکستان کے لئے مناسب تصور نہیں کی جاسکتی ہے۔ اب تو سپریم کورٹ نے بھی کھل کر کہہ دیا ہے کہ فوجی عدالتیں بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔

 فوجی عدالتوں کے قیام پر اعلی ترین عدلیہ کے ججوں نے اظہار خیال اس وقت کیا ہے جب پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کر چکی ہے لیکن ان جج حضرات کے اعتراضات عمومی نہیں کہ انہیں جھٹک دیا جائے یا خارج کیا جا سکے۔ اگر فوجی عدالتیں وہ کام نہیں کر سکیں جس کے بارے میں فوج یا حکومت نے سوچا ہے تو پھر ہم کہاں کھڑے ہوئے ہوں گے؟ اتفاق رائے سے قبل وزیر اعظم نواز شریف نے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔

 دوسرے ہی روز انہوں نے وضاحت بھی کی لیکن تاخیر اس لئے ہو چکی تھی کہ اعلی ترین عدلیہ کے ججوں نے ان کے بیان پر ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے رد عمل کا اظہار کر دیا تھا۔

پاکستان میں تو سارے ہی حکمران عدلیہ پر اپنے اپنے وقت پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ بعض نے تو ججوں کے ساتھ افسوس ناک سلوک روا رکھنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ایوب، بھٹو، مشرف، مرحومہ بے نظیر اور نواز شریف عدلیہ سے اکثر ناخوش ہی رہے۔ کوئی زیادہ اور کوئی کم۔ سیاسست دانوں، دانشوروں، سیاسی مبصرین اور ہر ایک نے ایک وطیرہ اختیار کر لیا ہے کہ ہر ادارے کی توقیر پر انگلی اٹھا دی جائے سو وہ ایسا کرتے ہی رہتے ہیں۔ یہ آزادی اظہار کی ایک ایسی صنف ہے جس کی مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے۔ 

عدالتوں کے بارے میں معادانہ رویہ نیچے تک سرایت کر گیا ہے۔ بدھ کے روز سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر حیدرآباد میں تھیں۔ وہ سی پی ایل سی کی جانب سے خواتین کے لئے مرکز شکایت کے قیام کی افتتا حی ٰ تقریب میں مہمان خصوصی تھیں۔ اس میں تقریر کرتے ہوئے محترمہ نے ہائی کورٹ کے ایک فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے ججوں کو ان لوگوں کا جو بقول ان کے اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرانا چاہتے ہیں ، سہولت کار قرار دے دیا۔

جب ان سے وضاحت مانگی گئی اور انہیں یہ احساس دلایا گیا کہ آپ نے ججوں کو سہولت کار قرار دے دیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ججوں کو نہیں کہا بلکہ ہر اس شخص کو کہا ہے جو دباؤ کا شکار ہے یا زیر اثر ہے۔ وہ اس بات پر بھی بضد تھیں کہ انہوں نے ججوں کے کنڈکٹ پر تنقید نہیں کی ہے بلکہ فیصلے پر تنقید کی ہے اور فیصلہ عوام کی ملکیت ہوتا ہے۔ یہ بھی خوب استدلال ہے۔ عدلیہ کا فیصلہ عوام کی ملکیت اس حوالے سے ہوتا ہے کہ حکومت اس پر عمل کرائے اور انتظامیہ کی ناکامی کی صورت میں عوام اس پر دباؤ ڈالیں۔

 اگر کسی کو عدلیہ کا فیصلہ قبول نہیں تو پھر اسے عدالتی طریقہ کار ہی اپنانا ہوتا ہے۔ فیصلے کے خلاف اپیل، فیصلے ہر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ لیکن اگر عدلیہ کے فیصلوں کو عوام الناس کے درمیان تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا تو پھر عدلیہ کی توقیر پر حرف آتا ہے۔ جو کسی بھی حالت میں ملک، عوام اور عدلیہ کے لئے بہتر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ہفتہ کے روز حیدرآباد میں ہی مجلس وحدت المسلمین کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے ایک پریس کانفرنس میں عدلیہ پر اس طرح انگلی اٹھائی کہ ’’پیسے اور سیاسی اثر و نفوذ کی بنیاد پر جن دہشت گردوں کو رہا کیا گیا ہے، حکومت ان کے مقدمات نئے سرے سے فوجی عدالتوں میں پیش کرے‘‘۔ یہ عدالتوں پر عدم اعتماد نہیں تو کیا ہے۔ ؟

ایک مقدمے میں دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کے حوالے سے شائع ہونے والے وزیر اعظم کے بیان پر سخت ردعمل اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عدالتوں میں مقدمات کے زیر التوا رہنے کی ذمہ دار عدالتیں نہیں خود سرکار ہے۔ حکومت خود کو نااہل قرار دے کر بھی تمام تر الزامات عدالتوں پر تھوپ دیتی ہے۔ ایک طرف سرکار کہتی ہے کہ ان کی اپنی نااہلی ہے کہ وہ موثر قانون سازی نہیں کر سکتی دوسری طرف کہہ رہی ہے کہ عدالتیں اپنا کام نہیں کرتیں، جب ملزمان کیخلاف شہادتیں اکٹھی نہیں ہوں گی، چالان مکمل نہیں ہوں گے ملزمان عدالتوں سے بری ہوتے رہیں گے ۔

 اسی سماعت کے دوران جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتیں بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ، کیا فوجی عدالتوں میں بیٹھے جج موجودہ اعلی ٰ عدلیہ میں بیٹھے ججوں سے زیادہ ذہین ، فرض شناس اور قابل ہیں کہ وہ سارے مسائل کا خاتمہ کر دیں گے۔ عدالتوں میں عملہ کم ہے انہی عدالتوں میں مسائل ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ عوام الناس کو انصاف فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عدالتیں اپنا کام کریں یا حکومت کا بھی کام کریں۔

 اگر حکومت نے اپنا کام نہیں کرنا تو عدالت کو ہی حکومت کرنے کا اختیار بھی دے دے۔حکومت عوام کے ساتھ مذاق بند کرے یہ ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے۔ جسٹس خواجہ مزید کہتے ہیں کہ عوام پریشان ہیں عوام کو بھی تو پتہ چلنا چاہئے کہ ان کے عدالتوں میں مقدمات کیوں زیر التوا ہیں اور اس کے ذمہ دار کون لوگ ہیں۔ عدالتوں کا کام حقائق کی روشنی میں اور جمع کروائی گئی شہادتوں کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔ عدالتیں کسی کو بے گناہ لٹکا نہیں سکتیں۔ حکومت قانون بنادے کہ غلطی بھی حکومت کی ہو مگر عدالتیں ملزمان کو بری نہ کریں۔

اس تماش گاہ میں واقف کار لوگ آگا ہ ہیں کہ پولس مقدمہ سازی میں کہاں کہاں اور کیوں کیوں کوتاہی کی مرتکب ہوتی ہے جس کی وجہ سے ملزمان رہائی پا لیتے ہیں۔ حکومتوں کو اس کا علاج تلاش کرنا چاہئے ناکہ عدلیہ پر تیر اندازی کی جائے۔ پولس کی نااہلی یا دانستہ کوتاہی خود ایک خطر ناک رجحان پیدا کر رہا ہے۔ ایک پولس افسر نے حال ہی میں مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو عدالتوں میں بھیجنے سے بہتر ہے کہ ہم ہی ان کو مٹا دیں۔ یہ رجحان یوں خطرناک ہے کہ معاشرہ ریاستی سطح پر فسطا ئیت کا شکار ہو جائے گا اور اس وقت سول عدالتیں تو کیا، خصوصی یا فوجی عدالتیں بھی کچھ نہیں کر پائیں گی۔ 

معاشرہ جس بری طرح تقسیم ہے اس کا ایک مظاہرہ تو حال ہی میں سامنے آیا۔ فرانسیسی جریدے کے خلاف پاکستان کے کسی بھی شہر میں دس لاکھ انسان اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے جمع نہیں ہو سکے۔ حیدرآباد میں مظاہرے تو کئے گئے لیکن کیا صحافی، کیا وکلاء ، کیا سیاسی رہنماء اور کارکن اور کیا مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں ۔ سب ہی ٹکڑیوں تقسیم تھے یا ٹکڑے ٹکڑے تھے۔ کوئی ایسی شعوری کوشش بھی نہیں کی گئی کہ سب مل کر ایک بہت بڑا مظاہرہ کرتے تاکہ یہ ثابت ہو تا کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام متحد ہیں۔ماسٹر جمیل صاحب سے اسی موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی تو انہوں نے واجد سعیدی مرحوم کا بیس یا پچیس سال قبل کہا گیا ایک شعر سنایا ۔

وحدت پرست ٹکڑیوں میں بٹ گئے واجد
ہزاروں پرچموں نے لاج کھو دی ایک پرچم کی

علی حسن

امریکہ بھارت گتھ جوڑ....

$
0
0

امریکی صدر اوباما نے 25 جنوری سے شروع ہونے والے بھارت کے دوسرے دورے سے قبل بھارت کے جریدے انڈیا ٹو ڈے کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’26 نومبر کو ممبئی پر دہشت گردانہ حملوں میں ملوث افراد کو ہر حال میں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا (ڈان 24 جنوری 015) اس سے قبل برطانیہ اور امریکہ دونوں نے حکومت پاکستان سے ذکی الرحمن لکھوی کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا جبکہ امریکہ کے مسلسل دباؤ پر نواز حکومت نے جماعۃ الدعوۃ اور حقانی قبائل سمیت کئی تنظیموں پر پابندی عائد کردی۔ ساتھ ہی الرشید وقف سمیت دیگر فلاحی اور کرنسی کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں پر بھی پابندیاں عائد کردیں۔

 ان میں سے کچھ کمپنیاں اور ادارے پاکستان میں زلزلے سیلاب اور دیگر ارضی و سماوی مصائب میں راحت رسانی کا کام انجام دیتے رہے جہاں تک الرشید ٹرسٹ کا تعلق ہے تو اس پر تو امریکی آقاؤں کے حکم سے پہلے ہی پابندی عائد کرائی گئی تھی یعنی 11 ستمبر کو جارج بش کے صلیبی جنگ کے اعلان کے بعد بنی۔ یہ ادارہ غیرسیاسی، غیرعسکری اور خالص دینی و فلاحی نوعیت کا حامل ہے جس کا جدید خطوط پر منظم شعبہ اکاؤنٹ ہے اور اسے مخیر شہریوں سے موصول ہونے والی رقوم اور ٹرسٹ کی جانب سے کیے گئے اخراجات کا انتہائی شفاف اندراج موجود ہے جو متعلقہ حکام کے معائنے کے لئے ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔

 یہ ٹرسٹ جامعۃ الرشید جیسی معیاری رہائش گاہ قائم کر چکا ہے جہاں جدید علوم و فنون کے ساتھ فقہ اور اسلامیات کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس میں سند یافتہ ماہرین تعلیم درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ چنانچہ ایسے ٹرسٹ کے کے کھاتے کو منجمد کرنا علم دشمنی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔

اگر الرشید ٹرسٹ اندرون و بیرون ملک تخریب کاری یا دہشت گردی کی کسی واردات میں ملوث ہے تو اس پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے اگر وہ اس میں ملوث پایا گیا تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے لیکن یہ مہذب دنیا کے کسی بھی ضابطے اور قانون کی رو سے مناسب نہیں ہے، نوکر شاہی اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے ایسے ادارے کے اثاثے ضبط کر لے جو سیلاب، زلزلے اور قحط زدہ ہم وطنوں کو راحت بآسانی فراہم کرتا ہے۔ 

جب الرشید ٹرسٹ کے ساتھ ایسی زیادتی کی جا ری ہے تو ان تمام تنظیموں پر عائد کردہ پابندیاں بھی مشکوک اور غیرشفاف تصور کی جائے گی۔ بات دراصل یہ ہے کہ نوکرشاہی کو ان تنظیموں کی فلاحی سرگرمیوں پر صرف کی گئی رقوم غبن اور خوردبرد کا موقع نہیں ملتا جو انہیں امریکی امداد میں حاصل ہوتا ہے اس لئے سرکاری اہلکار ملک میں ہر بار دہشت گردی کی آڑ میں ان فلاحی اداروں پر پابندیاں عائد کردیتے ہیں، آخر اس وقت پاکستان کی نصف درجن خفیہ ایجنسیاں کہاں سوئی ہوئی تھی جو ان امریکی ایجنٹوں کی نشاندہی نہیں کرسکیں جو 2005ء میں بالاکوٹ اور آزادکشمیر میں زلزلے سے متاثرہ افراد کی راحت رسانی کے بہانے ملک میں گھس آئے تھے۔ 

اس کا انکشاف بھی امریکہ نے ہی کیا تھا دنیا کو یہ دکھانے کے لئے کہ وہ پاکستان کی ایجنسیوں کی آنکھوں میں کس طرح دھول جھونک کر دراندازی کرتا ہے۔ امریکہ نے تو بی سی سی آئی پر کرنسی میں ہیرا پھیری Money Laundering کا الزام لگا کر اس لئے اسے بند کرادیا تھا کہ اس پر اسے شبہ تھا کہ اس نے پاکستان میں جوہری بم سازی کو درکار کل پرزے خرید کر پاکستان سمگل کئے تھے۔

اس زمانے میں مغربی ذرائع ابلاغ پاکستان کے جوہری منصوبے کے خلاف افواہ گردی کی مہم چلائے ہوئے تھے جس کا ہدف ذوالفقار علی بھٹو تھے جن کو Islamic Bomb فلم میں مرکزی کردار کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور امریکہ کے یہودی دربار میں ہنری کسنجر نے انہیں نشان عبرت بنانے کی دھمکی دی تھی اگر وہ جوہری بم سازی کے منصوبے سے دستبردار نہیں ہوئے۔ یہ سلسلہ جنرل ضیاء الحق تک جاری رہا اور اب بھی جاری ہے چنانچہ پاکستان کے سابق سپہ سالار جنرل کیانی نے اوباما کی ڈومور کی رٹ سے تنگ آکر مبینہ طور پر اسے ایک طویل مراسلے میں جتا دیا تھا کہ وہ (اوباما) دراصل پاکستان کو اس کے جوی اسلحہ سے محروم کر دینا چاہتا ہے۔

 اوباما جان لے کہ افواج پاکستان صورت حال کی نزاکت کے تحت کبھی کبھار تو شاید اس کے انتہائی نامعقول مطالبات کو مان لیں لیکن اسے یا کسی کو اپنے ایٹمی اسلحہ خانے کے پاس پھٹکنے نہیں دینگی۔ کیا امریکی اور فرانسیسی ایجنسیوں کو یاد نہیں کہ پاکستان کے جانباز کمانڈروں نے اس وقت کے فرانسیسی سفیر کے دانت توڑ دیئے تھے جو آداب سفارت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہوٹہ کی تجربہ گاہ کے آس پاس مشتبہ حالت میں منڈلا رہا تھا اور بی بی سی کو تو ضرور یاد ہوگا کہ اس کے رپورٹر کرس شرول کا کیا حشر ہوا تھا جو کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کے علاقے میں پاکستان کے جوہری منصوبے کی ٹوہ لے رہا تھا۔ امریکی انتظامیہ نے اپنے جاسوس ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پولیو انسداد مہم کی آڑ میں اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لئے استعمال کیا تھا۔ 

پھر کس طرح آئی ایس آئی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ اوباما ایک تو بھارت کے کہنے پر ذکی الرحمن لکھوی اور حافظ محمد سعید کو قید کرنے کا مطالبہ کرتا ہے لیکن اپنے جاسوس ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی پر اصرار کرتا ہے! اوبابا کو شرم آنی چاہیے کہ وہ ریمنڈ ڈیوس جیسے کرائے کے قاتل کو سفارتکار کہتا ہے اور اسے ویانا کنونشن کے تحت قتل کے جرم سے استثنیٰ دلوانا چاہتا ہے کہ نوجوان سیاہ فام مائیکل براؤن کے قاتل پولیس اہلکار کو رہا کردیا جاتا ہے۔

 جنوری کو نئی دہلی پہنچنے سے قبل اس نے مذکورہ بھارتی جریدے سے کہا کہ امریکہ اور بھارت کے تعلقات پاکستان سے ماورا ہیں۔ امریکہ اور بھارت قدرتی ساجھے دار ہیں کیونکہ ان کی طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ دونوں ہی نجی سرمائے کی آزادی، تبدیلی، اختراعات، سائنس اور ٹیکنالوجی کے حامل معاشرے ہیں۔ اوباما نے اعلان کیا کہ وہ بھارت کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کی حمایت کرتا ہے کیونکہ بھارت ایک اہم عالمی طاقت ہے جسے امریکہ کے اشتراک سے ایشیا بحرالکاہل میں موثر کردار ادا کرنا ہے(ڈان ہفتہ 24 جنوری 015اب پاکستان کے حکمران اور پریم سبھا کا طائفہ دیکھ لیں کہ امریکہ کی نظر میں ان کی کیا اوقات ہے؟ لیکن یہ اوباما کی بھول ہے۔ 

بھارت کشمیر میں اقوام متحدہ کی تحویل میں رائے شماری کرائے بغیر اس ادارے کا رکن نہیں بن سکتا کیونکہ سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کرنے والی کوئی ریاست عالمی تنظیم کی رکنیت کی اہل نہیں ہوسکتی۔ بھارت سے زیادہ افریقی اور لاطینی امریکہ کی ریاستیں مثلاً جنوبی افریقہ اور برازیل اقوام متحدہ کی رکنیت کی مستحق ہیں کیونکہ اس انجمن میں براعظموں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے جبکہ ایشیا کی نمائندگی عوامی جمہوریہ چین کرتا ہے جو بھارت سے کہیں زیادہ باوسائل اور طاقتور ریاست ہے۔ دراصل اوباما بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کرنا چاہتا ہے، وہ اسے بحرالکاہل میں اپنا کردار ادا کرنے کی دعوت دے رہا ہے جبکہ بھارت بحرہند میں واقع ہے۔

پروفیسر شمیم اختر
"بہ شکریہ روزنامہ "نئی بات



فیس بک استعمال کرنے کے چند آداب....

$
0
0

دنیا بھر میں مقبول ترین سوشل نیٹ ورک سائٹ ہماری زندگی میں سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کا عمل دخل خاصا بڑھ چکا۔ آج لاکھوں پاکستانی اپنی ہر چھوٹی بڑی بات ان ویب سائٹس کے ذریعے دوسروں سے شیئر کرتے ہیں۔ کوئی بھی تقریب ہو،اس کا احوال اور تصاویر جب تک فیس بک وغیرہ کے ذریعے دوسروں تک نہ پہنچا دیں، انھیں چین نہیں آتا۔

 یہ چونکہ مقبول ترین سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ہے،اس لیے وہاں ایک کروڑ سے زائد پاکستانی تصاویر و سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔درحقیقت فیس بک ان کی زندگی کا لازمی جزو بن چکی۔ اس کے ذریعے نہ صرف دوستیاں، رشتے داریاں بڑھ رہی ہیں بلکہ دشمنیاں بھی پیدا ہوچکیں۔ اس لیے فیس بک بہتر طور پر استعمال کرنے کے ہمیں کچھ آداب معلوم ہونے چاہئیں۔

 ضروری نہیں کہ ہر کوئی ان آداب کو ملحوظِ خاطر رکھے یا ان سے اتفاق کرے، لیکن انھیں پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گا، اگر اسے استعمال کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال رکھا جائے،تو زیادہ بہتر ہے۔

 ذاتی باتیں پیغامات تک محدود رکھیں اپنے کسی دوست کے بارے میں کوئی ذاتی بات اپنی یا اس کی وال پر لکھنے کے بجائے پیغام کی صورت بھیجئے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے لیے تو وہ بات اتنی اہم نہ ہو، لیکن شاید دوست اسے سب کے سامنے پیش کرنا پسند نہ کرے۔ اس لیے جوش کے بجائے ہوش سے کام لیتے ہوئے پہلے ذاتی پیغام میں ایک دوسرے سے بات کیجیے۔

 فیس بک ایک عوامی پلیٹ فارم ہے، اگر آپ نے کوئی ایسی ویسی ذاتی بات لکھ دی‘ تو آپ کو اندازہ نہیں، وہ کہاں تک پہنچ سکتی ہے۔ ذاتی خبریں فون کے ذریعے دیجیے خوشی یا غم کی کوئی ذاتی خبر ہے، تو اپنے قریبی دوستوں کو بذریعہ فون یا ایس ایم ایس دیں۔ یہ بات صرف فیس بک کے دائرہ آداب میں نہیں آتی بلکہ ہماری عام زندگی میں بھی رائج ہونی چاہیے۔ خاص کر دوسروں کے بارے میں ذاتی خبریں شیئر نہ کریں کیونکہ یہ امر بعض اوقات دشمنی پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ سنی سنائی خبریں، جن کے مستند ہونے کا آپ کو علم نہیں ہو، فوراً شیئر کرنے سے پہلے فون پر تصدیق ضرور کر لیں۔ 

ہر پوسٹ پر تبصرے سے گریز کیجیے اگر آپ کا کوئی بہت اچھا دوست ہے،تو اپنی دوستی ظاہر کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ اس کی ہر پوسٹ کو پسند یا اس پر تبصرہ کریں۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ آپ ہر پوسٹ بنا پڑھے ہی پسند کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں،تو ہر پوسٹ پسند کر سکتے ہیں، لیکن کبھی کبھی کسی بات کو نظرانداز کر دینا بھی اچھا ہے کیونکہ دوسرے آپ کی یہ عادت نوٹ کر تے ہیں کہ آپ فلاں بندے کی ہر پوسٹ کو باقاعدگی سے پسند کر رہے ہیں۔ 

اپنے لہجے کا خیال رکھیے پڑھنے اور بولی ہوئی بات سننے میں بہت فرق ہے۔ جیسے آپ کوئی بات کریں اور کوئی دوسرا سننے والا جب تیسرے کو بتائے‘ تو بات میں فرق آسکتا ہے۔ یہ فرق ہوتا ہے لہجے کا، یعنی تیسرے نے چونکہ براہِ راست بات آپ سے نہیں سنی‘ اس لیے اسے نہیں پتا کہ آپ کا لہجہ کیسا تھا۔ اسی طرح فیس بک پر سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہوئے یہ بات دھیان میں رکھیں کہ آپ کا لہجہ مناسب ہو۔پڑھنے والا اسے کسی بھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ 

چونکہ ہر کوئی ٹائپ کرنے کا انداز مختلف رکھتا ہے، لہٰذا کچھ لکھتے ہوئے خیال رکھیں کہ کوئی اس کا غلط مطلب نہ نکال لے۔ سادہ الفاظ میں ہلکی پھلکی اور خوشگوار باتوں کو اپنا فیس بک سٹیٹس بنائیں۔ جملے کے آخر میں موجود ایک مسکراہٹ بھی اچھا اثر ڈالتی ہے۔ 

مشہو ر کہاوت ہے ’’مسکرائیے… دنیا آپ کے ساتھ مسکرائے گی۔‘‘ اجنبی لوگوں کو دوستی کی درخواست مت بھیجئے کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ فیس بک پر زیادہ سے زیادہ دوست ہونا ان کی شہرت کا ثبوت ہے۔ اگر آپ کے لاتعداد دوست ہیں‘ تو یہ بات ٹھیک ہے، لیکن دوست حقیقی ہونے چاہئیں۔

 ایسے لوگ نہ ہوں جنھیں آپ جانتے بھی نہیں، بس فیس بک پر کہیں نظرآئے اور آپ نے انھیں ایڈ کر لیا۔ دُور کی جان پہچان والے یا ایسے لوگ جن کے متعلق آپ جاننا چاہتے ہوں ، انھیں ایڈ کرنے میں کوئی بْرائی نہیں،لیکن اجنبی لوگوں اور خاص کر بڑی تعداد میں اجنبیوں کو ایڈ کرنا کسی بھی طرح آپ کی شہرت ثابت نہیں کرتا، بلکہ یہ آپ کی پروفائل پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

 ذاتی تشہیر مت کریں اپنی نیوز فیڈ دیکھتے ہوئے آپ کو کسی دوست کی کافی پوسٹیں نظر آتی ہیں۔ کچھ لوگ خودنمائی بہت پسند کرتے اور اپنی ذات سے وابستہ ہر بات دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ مثلاً میں فلاں ہوٹل میں ہوں، کھانا بہت اچھا ہے، فلاں میرے ساتھ ہے، اب ہم سنیما جا رہے ہیں۔ ہر دس پندرہ منٹ بعد ایک نئی پوسٹ دیکھتے ہوئے آپ عاجز آجاتے ہیں اور آخرکار اس دوست کی تمام پوسٹس ہائیڈ کر دیتے ہیں۔

اگر آپ دوسروں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں، تو کوئی آپ کے ساتھ بھی ایسا کر سکتا ہے، لیکن اسی صورت میں کہ آپ بھی تواتر سے پوسٹیں کریں۔ یہ کوئی غلط بات نہیں، لیکن انسانی مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ پڑھنے والے ضروری نہیں کہ آپ کی ہر پوسٹ سے لطف اندوز ہوں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ایسا کچھ شیئر کریں کہ سب اس میں دلچسپی لیں۔ دوسروں کی رائے کا احترام کیجیے انٹرنیٹ کی دنیا میں ہر کوئی آزاد ہے۔ ہر انسان اپنی الگ رائے رکھتا ہے۔

 اس لیے فیس بک پر اپنی رائے کا اظہار کرنے میں سبھی آزاد ہیں۔ دوسروں کی کسی بات سے اگر آپ اتفاق نہ کریں،تو انھیں صحیح راہ پر لانے کے لیے خدائی فوجدار بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر آپ کسی امر سے متفق نہیں‘ تو کوئی بات نہیں، اختلاف نظرانداز کر کے آگے بڑھ جائیے۔ جذبات میں آکر الجھنا آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسروں کے لیے بدگمانی مت پالیے۔

ایک چھوٹی سی بات پر اگر آپ کسی دوست سے الجھ جاتے ہیں،تو کچھ دن بعد وہ ایسی پوسٹ بھی لگا سکتا ہے جس سے آپ متفق ہوں۔ پھر آپ اس کی تائید کرنے میں ہچکچائیں گے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ صبروتحمل کا مظاہرہ کریں۔ ہمیشہ دل بڑا رکھیں اور اگر کسی کی کوئی بات پسند نہ آئے‘ تو فوراً جتلانے کے بجائے درگزر کر دیں۔ پرائیویسی سیٹنگز اپنے فیس بک اکاؤنٹ کی پرائیویسی سیٹنگز ضرور چیک کریں۔ قریبی دوستوں کے علاوہ رشتے دار، جان پہچان کے لوگ اور دفتر کے ساتھی بھی فیس بک پر ایڈ ہوتے ہیں۔ 

اس لیے کچھ بھی شیئر کرنے سے پہلے دھیان رکھیں کہ آپ کی پوسٹ کن کن لوگوں تک پہنچے گی۔ بہتر ہے کہ دوستوں کے مختلف گروپس بنا لیں۔ اگر کوئی بات صرف رشتے داروں سے شیئر کرنے والی ہے تو صرف فیملی کے لیے پوسٹ کریں۔ جو دوستوں سے شیئر کرنے والی بات ہو، اسے دوستوں سے کریں۔ 

اگر عام سی کوئی بات ہے جسے آپ سب سے شیئر کرنا چاہتے ہیں‘ تو پوسٹ کرتے وقت پبلک بھی منتخب کر سکتے ہیں۔

 اختتامیہ:ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ ان تمام ہدایات پر سختی سے کاربند ہو کر فیس بک سے لطف اندوز ہونا ہی چھوڑ دیں۔دراصل فیس بک ایک دو دھاری تلوار ہے، اسے احتیاط سے استعمال کرنا ہی عقلمندی کا تقاضاہے

علمدار حسین

روشن خیالی یا بے غیرتی

Inside Kobani

Hezbollah missiles hit Israel

پاکستان مانیٹری پالیسی.....ڈاکٹر شاہد حسن

Viewing all 6218 articles
Browse latest View live