وزیرِاعظم نواز شریف کابینہ میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اسحاق ڈار کی وہی اہمیت ہے جو کسی بھی پکوان میں نمک کی۔
اسحاق ڈار پڑھے لکھے ٹیکنو کریٹ سیاستدان اور معاملہ فہم کارپوریٹ آڈیٹر ہونے کے علاوہ ضروری حد تک قدامت پسند، اپنے مطلب کی دنیا اور رشتوں ناطوں کی مجبوریوں کی سمجھ بوجھ رکھنے والے شخص ہیں اور شوکت عزیز کی طرح خود کو اقتصادی جادوگر کہلوا کے خوش بھی ہوتے ہیں۔
آپ کا تعلق بھی معیشت کے فرقہِ چمتکاریہ سے ہے۔ جب سب مایوس ہوں تب اسحاق ڈار کے حوصلے بلند ہوتے ہیں مثلاً 28 مئی 1998 کو پاکستان نے بھارت کے چار کے مقابلے میں جب پانچ جوہری پٹاخے پھوڑے تو اسحاق ڈار وزیرِ تجارت اور سرتاج عزیز وزیرِ خزانہ تھے۔
ایٹمی تجربات کی دھمک سے جب دشمن کے حوصلے اور بیرونی قرضوں اور امداد پے کھڑی معیشت کے ستون لرزہ براندام ہوئے تو یہ ہمارے ڈار صاحب کی ’’ڈارنامکس’’ ہی تھی جس کے تحت پاکستانی شہریوں کے ڈالر اکاؤنٹس منجمد کرکے پانچوں دھماکوں کا خرچہ پانی پلک جھپکتے میں وصول کرلیا گیا اور آج جبکہ ڈالر کی سرکاری قیمت ایک سو آٹھ روپے ہے۔
منجمد اکاؤنٹس کے ایٹمی ڈالر کا نرخ پندرہ سال بعد بھی اسی اکتالیس روپے پر کھڑا ہے۔ مگر اس ڈاکے کے اثرات کو نواز شریف اینڈ کمپنی نے غیر محسوس طریقے سے اپنے سیاسی اعمال سے ایسے دھو دیا جیسے بے نظیر کے خون کو پرویز مشرف نے دھو ڈالا۔
پھر بھی یہ بات ماننے کی ہے کہ جوہری دھماکوں کے بعد سرتاج عزیز سے وزارتِ خزانہ کا قلمدان لے کر جب اسحاق ڈار کے حوالے کیا گیا تو انہوں نے جانے کیا منتر پڑھا کہ آئی ایم ایف سے امریکی پابندیوں کے باوجود ڈیڑھ دو ارب ڈالر کا انجکشن حاصل کرلیا۔
حالات میں بہتری کے امکان
"ہمارے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے بتایا ہے کہ امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ کے ایک اعشاریہ چار بلین ڈالر کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کی ٹیلی کام کمپنی ایتصلات سے بھی آٹھ سو ملین ڈالر ملنے والے ہیں جو وہ پاکستان ٹیلی کام خریدنے کے باوجود پچھلے کئی برس سے دبائے بیٹھی ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی اگلی قسط آنے والی ہے اور مختلف میگا پروجیکٹس کے لیے بیرونی امداد بس پہنچا ہی چاہتی ہے۔ چنانچہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر اگلے تین برس میں بیس ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے اور حکومت معیشت کی بحالی اور سرمایہ کاری راغب کرنے کے لیے جو مثالی اقدامات کررہی ہے اس کے نتیجے میں موجودہ سال کا ساڑھے سات فیصد بجٹ خسارہ کم ہو کر اگلے برس ڈھائی فیصد تک رہ جائے گا۔"
آج پندرہ برس بعد بھی ’ ڈارنامکس‘ کا بول بالا ہے۔ ایک طرف پوری قوم چند ہی ماہ میں ڈالر کے اٹھانوے روپے سے اوپن مارکیٹ میں ایک سو دس روپے تک چھلانگ لگانے پر ششدر ہے۔ مہنگائی کا نوکیلا بانس پہلے سے زیادہ تکلیف دے رہا ہے۔ مگر محبِ وطن یار لوگ ڈالر کے مزید مہنگا ہونے کی آس میں اس کی مسلسل زخیرہ اندوزی کرر ہے ہیں۔ غیرملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر بارہ برس میں سب سے کم سطح پر آچکے ہیں یعنی خزانے میں ایک برس پہلے کے چودہ ارب ڈالر کے مقابلے میں صرف ڈھائی ارب ڈالر باقی ہیں۔ مگر کوئی شخص اگر مطمئن ہے تو وہ ہمارے ڈار صاحب۔
چودہ دسمبر کو ہی آپ نے یورپی یونین کی طرف سے پاکستانی مصنوعات کے لیے بلا محصول منڈی کھلنے کی خوشی میں دھمکی دی ہے کہ اگر ذخیرہ اندوز اگلے چند روز میں ڈالر مارکیٹ میں نہ لائے تو پھر وہ سر پکڑ کے روئیں گے کیونکہ اگلے ہفتے عشرے میں ڈالر ایک سو آٹھ سے اتر کر اٹھانوے ننانوے روپے پر واپس جانے والا ہے۔
ہمارے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے اس کا سبب یہ بتایا ہے کہ امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ کے ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کی ٹیلی کام کمپنی ایتصلات سے بھی آٹھ کروڑ ڈالر ملنے والے ہیں جو وہ پاکستان ٹیلی کام خریدنے کے باوجود پچھلے کئی برس سے دبائے بیٹھی ہے۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی اگلی قسط آنے والی ہے اور مختلف میگا پروجیکٹس کے لیے بیرونی امداد بس پہنچا ہی چاہتی ہے۔ چنانچہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر اگلے تین برس میں بیس ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے اور حکومت معیشت کی بحالی اور سرمایہ کاری راغب کرنے کے لیے جو مثالی اقدامات کررہی ہے اس کے نتیجے میں موجودہ سال کا ساڑھے سات فیصد بجٹ خسارہ کم ہو کر اگلے برس ڈھائی فیصد تک رہ جائے گا۔۔۔
کسی نے پوچھا کہ حال ہی میں امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل اسلام آباد یہ پیغام پہنچا کر گئے ہیں کہ اگر نیٹو سپلائی میں رکاوٹ برقرار رہی تو امریکہ کے لیے کولیشن سپورٹ فنڈ کلیئر کرنا مشکل ہوجائے گا۔
اس پر ہمارے جری چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کا یہ موقف ہے کہ میں دیکھتا ہوں اگلے چار ہفتے میں امریکی ہمارے بل کیسے کلیئر نہیں کرتے۔ کسی نے پوچھا کہ معیشت کی بہتری کے لیے بھارت کو پسندیدہ تجارتی درجہ دینے میں اب کیا رکاوٹ ہے ؟ اسحاق ڈار کا جواب تھا ’ اوپر دی گڑ گڑ دی اینکس بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی در فٹے منہ‘۔۔۔
لگتا ہے ڈار صاحب معیشت کو خودی کی طرح بلند کرنے کی خوابناک تگ و دو میں اس قدر مست ہیں کہ ان کا اپنے ساتھیوں سے بھی رابطہ بمشکل ہو پا رہا ہے۔
مثلاً وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی کے بقول وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو عزتِ نفس اور ڈالر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلینا چاہییے جبکہ وزیرِ پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اگلے تین ماہ کے دوران پنجاب میں سوائے گھریلو صارفین کے صنعتی سیکٹر سمیت کسی کو بھی گیس نہیں ملے گی۔
البتہ یہ معلوم نہیں کہ وزیرِ قدرتی وسائل کی اس اشتعال انگیزی کے خلاف خادمِ پنجاب شہباز شریف اسی طرح وفاقی حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لائیں گے جس طرح گذشتہ برس زرداری حکومت کی جانب سے پنجاب کو اقتصادی طور پر قتل کرنے کی لوڈ شیڈنگ سازش کے خلاف لائے تھے۔
شاید چھوٹے میاں کو اس بارے میں دس بار سوچنا پڑے کیونکہ بڑے میاں تازہ تازہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت کے معیشت بحالی کے اقدامات سے قومی پیداوار میں گذشتہ ادوار کے تین فیصد کے مقابلے میں پانچ فیصد اضافہ ہونے جارہا ہے۔ چنانچہ اگلا ہدف ساڑھے سات فیصد مقرر کیا جاسکتا ہے۔
مختصر یہ کہ اس وقت ’دو وزرائے اعظم‘ ( یعنی نواز و شہباز شریف )، چار وزرائے خارجہ (یعنی سرتاج عزیز ، طارق فاطمی، چوہدری نثار اور عمران خان) اور ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ پر مشتمل سرکار آٹو پائلٹ پر بگٹٹ دوڑ رہی ہے اور پرجوش حامی دو رویہ کھڑے ایک ہی نعرہ لگا رہے ہیں۔
’دبّی رکھ نواز شریف ہم تمہارے پاس ہیں۔۔۔‘
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی