پاکستان میں2013ء کا سال 9 کروڑ سے زائد نوجوانوں کے لئے ہر لحاظ سے اچھا رہا ہے۔ اس لئے کہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت خواہ وہ حکمران ہو یا اپوزیشن کا حصہ سب کو اپنے اپنے سیاسی مقاصد پورے کرنے کے لئے’’یوتھ‘‘ کی سیڑھی کی ضرورت پڑگئی ہے۔
یہ چیز ہر لحاظ سے صحت مند رجحان کی علامت ہے اس لئے کہ پچھلے دس پندرہ سال کی غلط ا قتصادی پالیسیوں اور اقدامات کے باعث ملک میں یوتھ کے لئے تو عملاً نئے روزگار کے مواقع ختم ہی ہو کر رہ گئے۔ اس کی لاتعداد وجوہات ہیں۔ اس کے باعث ہماری نوجوان نسل کی اکثریت منفی ر جحانات کی طرف مائل ہوتی گئی ۔ ہمارے نوجوانوں کو اہمیت دینے کے کام کا آغاز پہلے تحریک انصاف اور عمران خان نے کیا اور سوشل میڈیا کا تصور اجاگر کیا، پھر پیپلز پارٹی کی حکومت نے یوتھ کو اپنی طرف مائل کرنے کی ناکام کوشش کی تاہم مسلم لیگ(ن) یوتھ کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور ان کی قربت حاصل کرنے میں کامیاب رہی جس کا سہرا وزیراعظم نواز شریف یا وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے زیادہ مریم نواز شریف کو جاتا ہے جن کی خواہش اور مرضی سے 7دسمبر کو وزیر اعظم یوتھ بزنس لون اسکیم کا اجراء کیا گیا۔ اس اسکیم کے لئے وزیر اعظم کی سطح پر کافی ہفتوں سے کام ہو رہا تھا۔ بالآخر اس اسکیم میں بے روزگار نوجوانوں کی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ سمیڈا اور وویمن بنک کی مختلف برانچوں میں لاتعداد بے روزگار، نوجوان بچے بچیاں قرضہ فارم حاصل کرچکی ہیں۔
مسئلہ قرضہ فارم کا نہیں مسئلہ قرضہ حاصل کرنے کی شرائط پوری کرنے اور پھر اس قرضہ سے کوئی کاروبار کرنا ہے، خاص کر ایسے حالات میں جب ملک میں پہلے ہی بجلی اور گیس کے بحران کی وجہ سے ایسے ہزاروں نہیں لاکھوں افراد اپنا اپنا چھوٹا موٹا کاروبار بند کرنے کے قریب آچکے ہیں۔ بڑی صنعتوں اور کاروباری اداروں کو تو ان حالات سے کوئی فرق نہیں پڑا اور نہ ہی مزید ایسا کوئی خدشہ ہے۔ اس لئے کہ امیروں کے منافع میں کمی تو ہو رہی ہے مگر غریبوں کے تو چولہے ہی بند ہورہے ہیں۔ حقیقی طور پر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ توانائی کے بحران اور گورننس کی کمزوری کی وجہ سے سب سے زیادہ SME سیکٹر متاثر ہوا ہے اور اس سے لاکھوں افراد کا روزگار بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر وابستہ ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے شاید اس SMEسیکٹر کی بحالی کے لئے اس اسکیم کے اجراء کا اعلان کیا ہے مگر اس کے اجراء کا وقت مناسب نہیں ہے اس لئے کہ حکومت کی کارکردگی سے عوامی حلقوں میں فی الحال زیادہ اچھا تاثر نہیں پایا جا رہا بلکہ کئی حلقوں میں مایوسی کے تاثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ان میں نوجوانوں سے لے کر ہر عمر کے افراد اور خواتین شامل ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ یہی مایوس طبقہ اب بڑی امیدوں کے ساتھ نئی یوتھ بزنس اسکیم کی طرف رجوع ک ررہا ہے اس اسکیم کے حوالے سے بعض حلقوں کا خدشہ ہے کہ شاید یہ بلدیاتی انتخابات سے قبل یوتھ اور درمیانی عمر کے افراد کا ووٹ حاصل کرنے کی طرف ایک قدم ہو۔
دوسرا یہ کہ 2014ء کے ا بتدائی چھ ماہ میں بجلی اور گیس کے بحران کی شدت کے حوالے سے حکومت اور بزنس طبقہ دونوں پریشان ہیں ۔ اس حوالے سے اگر حکومت عوام کو مطمئن کرنے کے لئے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ تین سے چار گھنٹے رکھتی ہے تو اس کے لئے اسے ساٹھ ارب سے ستر ارب روپے کے اضافی وسائل پاور سکیٹر کو دینے ہوں گے۔ دوسری طرف اس عرصہ میں سرکلر ڈٹ بھی بڑھنے والا ہے۔ ایسے حالات میں یوتھ انویسٹرز کے لئے حکومت بجلی اور گیس وغیرہ کی فراہمی کیسے کریگی۔
تاریخی طور پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان میں اس طرح کی اسکیموں کے اجراء کا سلسلہ عملاً صدر ایوب خان کے دور سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ اس وقت اس کا اجراء پیپلز کریڈٹ اسکیم تھا، پھر میاں نواز شریف کے سابقہ دور میں یلیو کیب اسکیم آئی ،اس سے پہلے سمال بزنس لون اسکیم آئی، یلیو کیب اسکیم میں قومی بینکوں کے32,30ارب روپے کھائے گئے۔ اس اسکیم کے تحت نکلنے والی گاڑیاں افغانستان تک گئیں اور ان قرضوں کو کھانے والے آج بھی انجوائے کررہے ہیں جبکہ ان کے ضمانت کنندگان پریشان اور بے حال ہیں۔ نئی یوتھ بزنس اسکیم کے حوالے سے نوجوانوں کو یہ خدشہ ہے کہ وزیر اعظم جو مرضی اعلان کرتے رہیں اس سے بااثر افراد اور پارٹی کے افراد کو ہی بینکوں وغیرہ میں ترجیح دی جائے گی۔ آٹھ سال کے لئے بیس لاکھ روپے قرضہ کی اسکیم کے لئے پہلا سال گریس پریڈ کا ہے، بینکوں کے حکام اس پریڈ کو چھ ماہ رکھنا چاہتے تھے لیکن مریم نواز شریف کے دبائو پر اس عرصہ کو ایک سال کے لئے کیا گیا۔
اسٹیٹ بنک نے اس اسکیم کے اجراء سے قبل نومبر اور دسمبر میں اپنے دو تین سرکلرز میں5ارب روپے، اس مد میں بینکوں کے لئے5ارب روپے رکھے ہیں جو 100 ارب روپے کی Limitسے اوپر ہیں یعنی اس کا مطلب ہے کہ100ارب روپے کے قرضوں کے عوض کم از کم 5ارب روپے تو ضرور ڈوب جائیں گے۔ ایک بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ کہ اسٹیٹ بنک کو نیشنل بنک اور وویمن بنک کو اس مد میں اضافی وسائل فراہم کرنا پڑیں گے، اس اسکیم میں خواتین کے لئے جو50فیصد حصہ رکھا گیا ہے، اس سےخواتین کو قومی سطح پر پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کا موقع مل سکے گا۔ اس اسکیم کے حوالے سے یہ خدشہ بہرحال جائز ہے کہ اگر 7-6سال میں اس کی ریکوری 100فیصد نہ ہوئی تو اس سے حکومت کے لئے انتظامی، مالی اور سیاسی طور پر کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہر ضلع میں ’’خصوصی مانیٹرنگ کمیٹیاں‘‘ بنا کر یوتھ لون اسکیم کے قرضوں کو سیاسی اور ذاتی طور پر استعمال ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ چلتے چلتے اس اسکیم کے اجراء کے بعد ایسے نظر آرہا ہے کہ2014ء میں مریم نواز شریف قومی سطح پر بلاول بھٹو کے مدمقابل کھڑی ہونگی اور ہوسکتا ہے جیسے ہی بلاول بھٹو قومی اسمبلی میں پہنچیں مریم نواز شریف بھی کسی بڑی پوزیشن کے ساتھ سامنے ہوں اور یوں دونوں بڑی موروثی پارٹیوں میں اقتدار کے حصول اور اس کو بچانے کی جنگ تیسری نسل لڑنا شروع کر دے۔ سکندر حمید لودھی بشکریہ روزنامہ "جنگ"