↧
کیا شریف حکومت آج 1997 کی غلطی دوبارہ دہرائے گی ؟
جہاں سینیٹر نہال ہاشمی کی منی ٹریل کے تحقیق کاروں کو وارننگ اس قدر اشتعال انگیز اور واضح تھی کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہاں عدلیہ کو ہدف بنانے والی مسلم لیگ ن کے دیگر رہنماؤں کی مسلسل دھواں دھار تقاریر کسی خطرے سے کم نہیں لگتیں۔ ایسے تبصروں پر جج صاحبان کے شدید غصے کا اندازہ جسٹس عظمت سعید کے اس ریمارکس سے لگایا جا سکتا ہے : "ایسا تو دہشتگرد اور مافیا کرتے ہیں۔"انہوں نے حکومت کو ’سیسیلیئن مافیا’ سے تشبیہہ بھی دی۔ کسی قسم کے سیاسی رد عمل سے بچنے کے لیے، پارٹی نے سینیٹر کو پارٹی سے نکال دیا، لیکن عدلیہ کو ہدف بنانے والے دیگر ممبران کو روکنے کی ابھی کسی قسم کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔
عدالت پر دھاوا بولنے کا یہ واقعہ نواز شریف کی دوسری حکومت کے غرور کا نتیجہ تھا جو بھاری اکثیرت کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔ صوبائی سطح پر پارٹی کنٹرول نے پارٹی کی سیاسی گرفت مزید مستحکم کر دی تھی۔ ایک کمزور اپوزیشن کے لیے اس دیو قامت طاقت سے مزاحمت کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ سپریم کورٹ پر حملے نے انتظامیہ کی طاقت پر عدلیہ کے تمام ضابطوں کو ختم کر دیا یوں نواز شریف، بااختیار ’امیر المومنین’ بننے کے اپنے مقصد کے بہت قریب پہنچ گئے۔ تاہم 1999 کی فوجی بغاوت نے ان کے اس خواب کو حقیقت ہونے نہیں دیا۔
یہ بات شاید سچ ہو کہ پاناما پیپرز اسکینڈل نے معاملات کو سب کے سامنے کھول کر پیش کر دیا ہے، لیکن شریف خاندان پر لندن میں مہنگی جائیدادوں کی خریداری کے الزامات نئے نہیں ہیں۔ پہلی بار ایسا معاملہ قریب دو دہائیوں پہلے ایک ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آیا جس میں مے فیئر اپارٹمنٹس کی ملکیت کے بارے میں تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔ پرویز مشرف کی فوجی حکومت میں قید کے دوران اسحاق ڈار نے مبینہ طور پر پیسوں کی منتقلی کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی تھیں۔ اگرچہ وزیر خزانہ کے دعویٰ کے مطابق وہ بیان زبردستی دلوایا گیا تھا، مگر اب بھی معاملے کی تہہ تک تحقیقات کی جانے ضرورت ہے۔ سچ سامنے لانے کا واحد طریقہ اس اسکینڈل کی غیر جانبدار تحقیقات ہے، جس کے باعث پورے سیاسی نظام پر عوام کا اعتماد داؤ پر لگا ہوا ہے۔
↧