آٹھ دس سال قبل میں ایک معاصر اخبار میں اداراتی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ 16؍ دسمبر کی مناسبت سے سقوط ڈھاکہ کے اسباب، واقعات اور ذمہ داروں کے حوالے سے اداریہ لکھا جس میں جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ شیخ مجیب الرحمٰن اور عوامی لیگ کے کردار پربھی روشنی ڈالی گئی تھی۔ صبح صبح بنگلہ دیش کے سفارت خانے سے ایک اعلیٰ عہدیدار کا فون آیا جو بنگ بندھو کے ذکر پر برہم تھے کہ اداریے میں ان کا ذکر منفی انداز میں کیا گیا۔ میں نے معذرت خواہانہ انداز اختیار کئے بغیر اپنا اور اپنے اخبار کا نقطہ نظر پیش کیا اور فون بند کر دیا۔
گزشتہ روز بنگلہ دیش کے دفتر خارجہ نے پاکستان کے ہائی کمشنر کو طلب کیا اور قومی اسمبلی کی وہ قرارداد واپس لینے کا مطالبہ ہوا جس میں عبدالقادر ملا شہید کی سزائے موت پر اظہار تشویش کیا گیا، احتجاج یا مذمت نہیں۔ تو مجھے یہ واقعہ یاد آیا اس روز بھارت نے نیویارک میں اپنے ایک سفارتی اہلکار کی گرفتاری پر شدید احتجاج کرتے ہوئے نئی دہلی میں تمام امریکی سفارتکاروں کے خصوصی پاسز منسوخ کر دیئے، حفاظتی سہولتیں ختم کر دیں اور بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کے علاوہ نریندر مودی اور راہول گاندھی نے دورے پر آئے امریکی وفد سے ملاقات منسوخ کر دی۔ ریاستیں اور معاشرے اپنے قومی مفادات اور وقار کے حوالے سے واقعی حساس ہوتی ہیں مگر ہم؟
بنگلہ دیش کے قیام میں ہماری سیاسی، فوجی اور معاشی پالیسیوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کے عمل دخل سے کوئی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کا التوا، عوامی لیگ کو انتقال اقتدار سے انکار اور فوجی ایکشن کے دوران گیہوں کے ساتھ گھن پس جانے کی پالیسی کا کوئی معقول جواز پیش کرنا مشکل ہے مگر اس حقیقت کا منکر بھی کوئی سنگدل اور ذہنی طور پر قلاش شخص ہو سکتا ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان بھارت کی زیر سرپرستی مکتی باہنی کی گوریلا وار، کھلم کھلا فوجی مداخلت اور امریکہ و سوویت یونین کی انڈر سٹینڈنگ کا نتیجہ تھا۔ مرکز کی بالادستی اور مشرقی پاکستان کے استحصال کی داستانیں اس سٹرٹیجی کا حصہ تھیں۔
1947ء میں مشرقی پاکستان کس قدر ترقی یافتہ اور خوشحال علاقہ تھا؟ ذوالفقار علی بھٹو نے اطالوی صحافی اوریانہ فلاس کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا ’’1947ء میں ڈھاکہ غلیظ کچی بستی تھی جہاں پختہ گلیاں تک نہ تھیں‘‘ ڈاکٹر پروفیسر سجاد حسین نے THE WASTE OF TIME میں لکھا ’’حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے اپنائی جانے والی صنعتی پالیسی کے نتیجے میں مشرقی بنگال کے مسلمانوں کو بھی نئی زندگی بسر کرنے کا موقع ملا۔ کچی مٹی سے لیپے ہوئے فرش کی جگہ ٹائلز نے لی، بانس اور گھاس پھونس کے بجائے سیمنٹ کا استعمال ہوا اور تنکوں کی چٹائی کی جگہ لکڑی اور دھات کے بنے میز کرسیوں نے لی۔ ‘‘
بھارتی حکمرانوں، پریس اور قوم پرستی کے خمار میں مبتلا بنگالی سیاستدانوں بالخصوص شیخ مجیب الرحمٰن اور تاج الدین نے جس طرح کا پروپیگنڈہ سونار بنگلہ کے استحصال اور لوٹ مار کے حوالے سے کیا اسی طرح کی مہم 3مارچ سے 25مارچ کے دوران مکتی باہنی، عوامی لیگی باغیوں اور بھارتی گوریلوں کے وحشیانہ مظالم کا نشانہ بننے والے بنگالی اور غیربنگالی پاکستانیوں اور پاک فوج کے خلاف چلائی گئی جس میں نام نہاد عالمی برادری اور پریس نے کھل کر ریاست کے خلاف لڑنے والوں کا ساتھ دیا اور آج تک بہت سے لوگ اس سے مسحور ہیں۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بھارتی آرمی چیف فیلڈ مارشل مانک شا نے THE PIONEER کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ ’’دراصل مکتی باہنی پاکستانی فوجیوں کے خلاف انتقامی کارروائی میں مصروف تھی مگر پھر بھی وہ ہمارے مقابلے میں غاروں میں نہیں بیٹھے بلکہ محاصروں میں ہونے کے باوجود قہر، غضب اور شدت کے ساتھ لڑے۔ ہم نے پاکستان آرمی کے خلاف لوٹ مار، آبروریزی اور غیر انسانی تشدد کا پروپیگنڈا اس قدر بڑھا چڑھا کر کیا کہ ان کی انسانی شخصیت تباہ ہو کر رہ گئی، ان کا حوصلہ پست ہو گیا پھر بھی پاکستانی فوج نو ماہ تک بے جگری سے نبرد آزما رہی۔ ‘‘
دنیا کا طے شدہ اصول ہے کہ کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں، ناکامی یتیم اور بے آسرا ہوتی ہے۔ اندرا گاندھی اور مجیب الرحمٰن کو کامیابی ملی اور یحییٰ خانی ٹولے کی غلطی پالیسیوں کی سزا پاکستان کو ناکامی اور سرنڈر کی صورت میں ملی جس پر ہر پاکستانی آج تک شرمندہ ہے۔ اسی شرمندگی کے زیر اثر جنرل پرویز مشرف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے ڈھاکہ جا کر سر عام معافی مانگی مگر حسینہ واجد اور ان کے ساتھیوں کا دل نہیں پسیجا، آتش انتقام سرد نہیں ہوئی اور علیحدگی پسندوں کے مقامی ہمدردوں کی تشفی بھی نہیں ہوئی۔ تبھی بار بار پاکستان سے معافی کا مطالبہ ہوتا ہے مگر بنگلہ دیش کے موجودہ حکمرانوں اور 1971 میں محب وطن پاکستانی بنگالیوں، بہاریوں اور مغربی پاکستانیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے مکتی باہنی، مجیب باہنی اور دیگر قوم پرست غنڈوں، قاتلوں سے نہیں جو ایک یونیورسٹی کے طلبہ، میڈیکل کالج کی طالبات اور رجمنٹل سنٹر میں فوجیوں کو نہ صرف چن چن کر فائرنگ کا نشانہ بناتے رہے بلکہ آبرو ریزی کے بعد خواتین کی الف ننگی لاشوں پر تیل چھڑک کر آگ بھی لگاتے رہے۔ ایک پاکستانی فوجی میجر یہ منظر دیکھ کر ذہنی توازن کھو بیٹھا۔ فوجی ایکشن تو ان مظالم اور غیر انسانی کارروائیوں کے بعد ہوا اور اس کی تائید قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘ کہہ کر کی۔
قومی اسمبلی کی جس ہومیو پیتھک قرارداد پر بنگلہ دیش بر افروختہ ہے اس کی مخالفت ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے کی۔ ایم کیو ایم کی مخالفت قابل فہم ہے۔ الطاف بھائی تقسیم برصغیر کو غلط قرار دے چکے ہیں اور کہا یہ کہ ’’اگر وہ 1946 میں ہوتے تو تقسیم کے خلاف ووٹ دیتے‘‘۔ مگر پیپلز پارٹی کو کیا ہوا جس کے باوا آدم نے مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کا دفاع ان الفاظ میں کیا ’’یہ بات درست ہے کہ مشرقی پاکستان میں ایسے حالات پیدا کئے جا چکے تھے کہ ایک خونریز کارروائی کا جواز بن چکا تھا۔ مارچ 1971میں پاکستان کے اتحاد کا انحصار علیحدگی پسندوں کو کچلنے پر تھا۔ ٹکا خان نے جو کیا ایک فوجی کی حیثیت سے کیا۔ ‘‘ اسی ٹکا خان کو قائد عوام نے پاکستان کا آرمی چیف بنایا جسے عوامی لیگ کے علاوہ اس کے حمایتی عالمی پریس نے ’’بنگال کے قصاب‘‘ کا خطاب دیا۔
پیپلز پارٹی کے ایم این اے عبدالستار بچانی اور نفیسہ شاہ کی طرف سے عبدالقادر ملا کی سزا کو عدالتی کارروائی کا نتیجہ قرار دینا بھی خوب ہے؟ ایک ایسی عدالت جسے دنیا بھر میں ناقص، مشکوک، متنازع قرار دیا گیا۔ مگر قائد عوام کے بارے میں پیپلز پارٹی کا کیا خیال ہے جسے 1973کے آئین کے تحت کام کرنے والی اعلیٰ عدالتوں نے سزا دی۔ ان میں سے کوئی جج پی سی او زدہ تھا نہ ضیاء الحق کا مقرر کردہ۔
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ
ہم نے پاکستان کے وفاداروں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا اور سفارتی نزاکتوں کا خیال کرتے ہوئے عبدالقادر ملا کی پھانسی پر خاموش رہے۔ اور بنگلہ دیش نے بھی بھارت کی طرح ہمیں غریب کی جوار سمجھ لیا ہے؟ مشکوک عدالتی کارروائی پر کچھ نہ بولے مگر بنگلہ دیش حکومت نے ہماری آزاد، خودمختار قومی اسمبلی کی قرارداد پر احتجاج کیا اور واپس لینے کا مطالبہ کیا ۔ کیا یہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں؟