چند برس پہلے کی بات ہے کہ میں جنوبی جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے کی گلیوں میں گھوم رہا تھا کہ میرے ایک دوست نے جو میرے ساتھ تھا، اچانک رک کر ایک پرچون فروش کی دوکان کے اوپر ایک کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’کیا آپ وہ بالاخانہ دیکھ رہے ہیں؟ آئن سٹائن یہیں پیدا ہوا تھا۔‘‘ اسی دن تھوڑی دیر بعد میری ملاقات آئن سٹائن کے چچا سے ہوئی۔ مجھے وہ کوئی غیر معمولی ذہانت کا مالک دکھائی نہ دیا۔ لیکن یہ کوئی عجیب بات نہ تھی۔ کیونکہ جب خود البرٹ آئن سٹائن بچہ تھا تو کسی کو بھی وہم و گمان نہ تھا کہ وہ اس قدر ذہین نکلے گا۔ آج کل وہ دور حاضر کا ذہین ترین مفکر سمجھا جاتا ہے۔
لیکن آج سے ساٹھ برس پہلے وہ ایک سست اور شرمیلا بچہ تھا، اس نے بولنا بھی بڑی مشکل سے سیکھا تھا، وہ اتنا کند ذہن تھا کہ اس کے استاد بھی اس سے تنگ آچکے تھے۔ اور اس کے اپنے والدین اسے مخبوط الحواس سمجھتے تھے۔ لیکن چند برس بعد ایک سہانی صبح کو آئن سٹائن یہ معلوم کر کے حیران رہ گیا کہ وہ دنیا کے مشہور ترین لوگوں میں سے ایک ہے۔ یہ بات بالکل ناقابل یقین دکھائی دیتی تھی کہ ریاضی کے ایک عام سے پروفیسر کا نام پانچوں براعظموں کے ہزاروں اخبارات میں جلی حروف سے چھپے۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ شروع شروع میں یہ سب کچھ خود اس کی سمجھ میں بھی نہ آیا تھا، دوسرے لوگ تو سمجھنے سے قاصر تھے ہی۔
تاریخ انسانیت میں پہلے کبھی ایسا ہوا بھی نہ تھا۔ آئن سٹائن اتنا ہی عجیب و غریب تھا جتنا اس کا نظریہ اضافت۔ اسے ان تمام اشیاء سے نفرت تھی جن پر لوگ جان دیتے ہیں۔ مثلا شہرت ، دولت، عیش وعشرت۔ ایک دفعہ ایک بحری سفر کے دوران جہاز کے کپتان نے اسے جہاز کے سب سے آراستہ کمرے میں ٹھہرنے کے لئے کہا مگر آئن سٹائن نے اس کی یہ پیشکش یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ وہ کسی خاص عنایت کو قبول کرنے کے بجائے جہاز کے عرشے پر سفر کرنا زیادہ پسند کرے گا۔ جب آئن سٹائن نے اپنی پچاسویں سالگرہ منائی تو جرمنی کے لوگوں نے اس پر عنایات کی بارش کی دی۔ اس کا ایک مجسمہ تیار کیا گیا ، اسے رہائش کے لئے ایک مکان اور سیر کے لئے ایک کشتی پیش کی گئی.
لیکن چند برس بعد ہٹلر کے عہد میں اس کی جائیداد ضبط کر لی گئی اور وہ اپنے گاؤں جانے پر مجبور ہو گیا۔ اس نے کئی ہفتی بیلجیم کے ایک قید خانے میں میں گزارے جس کے دروازے پر رات کے وقت سپاہی پہرہ دیا کرتا تھا۔ جب وہ نیویارک کے ایک کالج میں ریاضی کے پروفیسر کی حیثیت سے آیا تو وہ اخبارات کے رپورٹروں سے بچنا چاہتا تھا۔ جہاز سے اترتے ہی اس کے دوست خفیہ طور پر اسے ایک کار میں بٹھا کر لے گئے۔ آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ اس کے نظریہ اضافت کو فقط بارہ آدمی سمجھتے ہیں ، اگرچہ اس کی وضاحت کرنے کے لئے کوئی دس ہزار مضامین اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔
وہ خود نظریہ اضافت کی تشریح اس مثال سے کرتا تھا۔ جب آپ کسی اچھی جگہ ایک گھنٹہ بیٹھیں تو آپ سمجھتے ہیں کہ فقط ایک منٹ بیٹھے ہیں۔ لیکن جب ایک جلتے ہوئے چولہے پر فقط ایک منٹ بیٹھیں تو آپ خیال کرتے ہیں کہ وہاں ایک گھنٹے تک بیٹھے رہے ہیں۔ آئن سٹائن نے دو شادیاں کی تھیں۔ مسز آئن سٹائن تسلیم کرتی تھیں کہ وہ اپنے شوہر کے نظریہ اضافت کو خود بھی نہیں سمجھی، لیکن وہ اپنے شوہر کو ضرور سمجھتی ہیں۔ جو ایک بیوی کے لئے نہایت ضروری بات ہے۔ اس کی بیوی فراؤ آئن سٹائن کا کہنا ہے کہ اس کا شوہر اپنی سوچ میں تو تنظیم کو پسند کرتا تھا۔ لیکن اپنی طرز حیات میں باقاعدگی اسے بالکل پسند نہ تھی۔ وہ جب کبھی جو کچھ کرنا چاہتا ، کر گزرتا ۔
اس کے طرز عمل کے فقط دو اصول تھے۔ پہلا کسی قسم کا کوئی اصول نہ بنائیں۔ دوسرا دوسروں کی رائے کی پرواہ نہ کریں۔ وہ بڑی سادہ زندگی بسر کرتا، وہ بغیر استری کئے ہوئے پرانے لباس میں گھومتا رہتا۔ شاید ہی کبھی ہیٹ پہنتا اور غسل خانے میں خوب گاتا اور سیٹیاں بجاتا، وہ نہانے والے ٹب میں بیٹھ کر شیو کرتا اور کبھی شیونگ صابن استعمال نہ کرتا۔ جس صابن سے وہ نہاتا، اس سے شیو بھی کر لیتا۔ یہ شخض جو کائنات کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف تھا، کہتا تھا کہ دو قسم کاصابن استعمال کرنے سے زندگی بڑی پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
آئن سٹائن نے مجھے بہت متاثر کیا ۔ اس کے نظریہ اضافت کے مقابلے میں اس کا فلسفہ مسرت میرے لئے زیادہ اہم ہے۔ وہ کہتا تھا کہ وہ خوش رہتا ہے۔ کیونکہ وہ کسی سے کچھ نہیں مانگتا، اسے نہ تو ستائش کی پرواہ تھی اور نہ ہی صلے کی۔ اس کی خوشی کے ذرائع بڑے سیدھے سادے تھے۔ ایک دفعہ برلن میں ایک ٹرام میں سفر کرتے ہوئے اس نے بے خیالی میں کنڈیکٹر سے کہہ دیا کہ اس نے ریزگاری پوری نہیں دی۔ جب کنڈیکٹر نے ریزگاری دوبارہ گنی تو وہ صحیح نکلی۔ اس نے ریز گاری دور جدید کے سب سے بڑے حساب دان کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، ’’میرا خیال ہے آپ کو گنتی نہیں آتی‘‘۔