تین ہزار برس گزر جانے کے باوجود ہم ابھی تک یہ درست اندازہ نہیں لگا سکے یہ مصریوں نے ان اہراموں کو اس بہترین انجینئرنگ کے ساتھ کیسے بنایا تھا جو آج کے جدید علوم کو بھی شرما دے۔ یہ اہرام ستاروں اور کہکشاؤں کی پوزیشن دیکھ کر بنائے گئے ہیں اور ان میں ابھی تک بے شمار ایسے چیمبر اور کمرے موجود ہیں جہاں انسان ابھی تک نہیں پہنچ سکا۔ یہ بلاشبہ انسانی عقل و دانش کا بہترین نمونہ ہیں اور بادشاہوں کی شان کے عین مطابق ہیں۔ یوں تو مصر میں موجود کبھی اہرام عجائبات عالم میں شمار ہوتے ہیں تاہم سب سے بڑا اور قدیم ترین اہرام غزہ کا اہرام ہی مانا جاتا ہے۔
اس اہرام میں مصریوں کے عظیم بادشاہ خوفو کی ممی موجود ہے۔ دریائے نیل کے کنارے کنارے چایس کے قریب اہرام موجود ہیں۔ لیکن خوفو کے اہرام کے مقابلے میں سبھی ہیچ ہیں۔ یہ 450 فٹ اونچا ہے اور تقریبًا 13 ایکڑ رقبے میں پھیلا ہوا ہے۔ اسے بہت نفاست کے ساتھ کٹے ہوئے پتھروں کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ ان پتھروں کی کل تعداد 23 لاکھ ہے جبکہ ان میں سے ہر پتھر کا وزن پندرہ ٹن کے درمیان ہے۔ نپولین کے ماہرین تعمیرات اس عجوبے کو دیکھ کر ششدر رہ گئے تھے۔ انہوں نے حساب لگایا کہ جتنا سامان اس اہرام کی تعمیر میں استعمال کیا گیا تھا، اس سے فرانس کے گرد ایک دیوار تعمیر کی جا سکتی ہے جو تین گز اونچی اور ایک گز چوڑی ہو۔
یہ اہرام سیاحوں کی خصوصی توجہ کا مرکز ہیں اور ہر برس لاکھوں افراد ان شاہکاروں کو دیکھ کر انسانی عقل و فن کے معترف ہو جاتے ہیں۔ ہر دو چار سال بعد مصری حکومت قاہرہ میں عظیم الشان نئے دارالحکومت کی تعمیر کے دعوے کر دیتی ہے۔ ایسا ہی ایک دعویٰ 2015ء میں بھی کیا گیا تھا اور شہر کو آباد کرنے کے لیے کئی سو ارب روپے درکار ہیں جو فی الحال مصری حکومت کے پاس نہیں ہیں۔ مصری حکومت کا سب سے بڑا ذریعہ فرعون مصر کی یادداشتیں ہیں۔ آثار قدیمہ عالمی سیاحوں کے لیے کشش کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔ تقریباً ڈیڑھ کروڑ کے قریب قریب سیاح سرزمین مصر پر قدم رکھتے تھے لیکن روسی طیارے کے گرائے جانے کے بعد جیسے سیاحوں پر خوف طاری ہو گیا اور سیاحوں کی آمد کم ہو کر 45 لاکھ رہ گئی۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق جدید قاہرہ کی تعمیر پرانے کھنڈرات پر ہوئی ہے اسی جدید شہر کے نیچے 5 ہزار سال پرانی تہذیبیں دفن ہیں ۔
مصر کا یہ عالی شان شہر کئی بار تعمیر اور برباد ہوا کئی قبروں میں دو دو مردے دفن کرنے کے آثار بھی ملے ہیں۔ مصری اب تک صرف ایک فیصد نوادرات حاصل کر پائے ہیں ۔ 70 فیصد ممی اور نوادرات آج بھی زمین کے نیچے ہیں۔ کبھی کبھار کھدائی کے دوران مل جاتا ہے یہ قاہرہ کے نیچے پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ قاہرہ جتنا زمین کے اوپر ہے اس سے کہیں زیادہ زمین کے نیچے ہے۔ قاہرہ میں بادشاہوں کے نام سے ایک علاقہ مخصوص ہے یہ سیاحوں اور ماہرین آثار قدیمہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ آثار قدیمہ کا ایک حصہ اسی وادی میں دریافت ہوا تھا۔ اسی وادی میں توتن خانم نامی ایک فرعون کے آثار ملے تھے اس کے بعد تو چل سو چل جیسے کوئی سیریز شروع ہو گئی۔
ماہرین آثار قدیمہ کو پچھلے چند سالوں کے اندراندر 63 کے قریب آثار ملے۔ تب ماہرین نے مل جل کر قدیم مصر کے نقش ترتیب دئیے جہاں سے بھی کوئی نمونہ دریافت ہوا مصری ماہرین نے غیر ملکیوں کے ساتھ مل کر ان مقامات کی جوائنٹ ترتیب دے کر علاقے کی چھان بین میں جت گئے۔ انہیں اندازہ تھا کہ مصرکی زمین اسی جگہ سے تاریخی ورثے کا سونا اگلے گی۔ حال ہی میں دریافت ہونے والے تاریخی ورثے میں 20 ممیز بڑے مرتبان نما برتنوں میں محفوظ کی گئیں تاکہ ہوا سے ان ممیز کو بچایا جا سکے۔ زمانہ قدیم کے فرعون ہوا کے نقصانات سے باخوبی آگاہ تھے۔ اسی لیے مرتبان نما برتنوں کو سیل بند کیا گیا تھا۔ کچھ آثار 5 میٹر اونچے ہیں ۔5 سے 8 میٹر اونچائی کے مجسمے قاہرہ اور غزہ میں بھی دریافت ہوئے ہیں ۔
اہرام بھی غزہ میں دریافت ہوا ہے۔ لیکن یہ دوسرے اہرام مصر کی طرح ترقی یافتہ نہیں بے رحم وقت نے ان احرام کو بہت نقصان پہنچایا ہے اس کے کچھ حصے بہت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔ 8 مجسمے ایک فرعون کی گردن ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس کا سر ٹوٹا ہوا تھا۔ ایک جگہ سے اس کا سر دریافت ہوا اور دوسرے جگہ سے دھڑ۔سونے چاندی کے نوادرات بھی قریب سے ملے۔ ان مجسموں کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ یہ کس کے ہیں اور یہ کس زمانے کے ہیں اس پر ابھی تحقیق ہوگی۔ ابھی پچھلے دنوں یعنی ستمبر کے پہلے ہفتے میں ماہرین کو ایک جگہ کھدائی کرتے وقت زمین کے نیچے ایک کمرے کے آثار ملے ۔ جب وہ اندر داخل ہوئے تو ایک اور کمرے میں 4 ممیز کا پتہ چلا ان کا تعلق 18 ویں شاہی خاندان سے تھا۔ 2011ء میں بھی مصری حکومت نے قاہرہ کے نزدیک ایک نیا اور جدید ترین دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا اس وقت کے وزیر ہائوسنگ نے اس کو دنیا کا پہلی پلاننگ کے ساتھ بنایا جانے والا شہر قرار دیا تھا۔
وہ شہر بستا تو عظیم الشان ہوتا بس یہ سب کچھ کاغذوں میں دبا رہ گیا۔ دراصل موجودہ مصری حکومت ہی فرعو ن مصر سے متاثر ہوتی رہی ہے جو ہر زمانہ میں شہر بساتے رہے ہیں اور وہ اپنے زمانے کے جدید ترین شہر ہوا کرتے تھے۔ سابق وزیر آثار قدیمہ کے مطابق فرعون مصر باقاعدہ سائنسی سوچ کے حامل تھے۔ انہوں نے مصر کو ایک مخصوص سائنسی انداز میں بسایا اور اپنے شہریوں کو اس وقت کی دستیاب سہولتوں سے بہرہ ور کیا۔ ابھی کچھ آثار 46 سو سال پرانے دریافت ہوئے ہیں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق اسی زمانے سے تھا ۔ لیکن یہ آثار اب مزید آثار قدیمہ بنتے جا رہے ہیں۔