خشکی کے علاوہ سمندر میں بھی زلزلے آتے ہیں۔ ہر دو سطحوں پر آنے والے زلزلوں کی ایک سے زائد اقسام ہیں جن کا مختصر احوال درج ذیل ہے۔
چٹانی زلزلہ
اکثر زلزلے زمین میں موجود چٹانی پلیٹوں کی حرکت کی بدولت آتے ہیں۔ یہ پلیٹیں زمین کی پرت بناتی ہیں۔ ان پلیٹوں کی زیادہ تر حرکت اس قدر خفیف ہوتی ہے کہ ہم اسے محسوس نہیں کر سکتے۔ اسے صرف سیسموگراف پر ہی ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔ زمینی پرت ہر وقت حرکت میں رہتی ہے اور اسی حرکت کے نتیجے میں براعظم افریقہ یورپ کی جانب بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں جرمنی اور ہالینڈ کے مابین خلیج پیدا ہونے کا امکان ہے۔ زمینی پلیٹوں میں سے اکثر ایک دوسرے سے قریب ہوتی ہیں اور حرکت نہیں کرتیں۔ کچھ پلیٹیں آپس میں جڑ کر بڑی پلیٹوں کی شکل اختیار کیے ہوئے ہیں، یہ پلیٹیں بعض اوقات اچانک حرکت کرتی ہیں جس کی بنا پر زمینی پرت میں تھرتھراہٹ پیدا ہوئی ہے جسے ہم زلزلے کی صورت میں محسوس کر سکتے ہیں۔
چٹانی پلیٹیں آپس میں ٹکرا بھی سکتی ہیں اور ان کا ایک دوسرے پر پھسلنا بھی ممکن ہے۔ ان دونوں واقعات کے نتیجے میں نئے پہاڑی سلسلے وجود میں آتے ہیں۔ یہ وقوعہ زمین کی سطح سے کئی کلومیٹر نیچے ہوتا ہے اور اسی مقام کو ’’ہائیپو سینٹر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پلیٹیں حرکت کیوں کرتی ہیں؟ دراصل یہ سب کچھ زمین کے اندر گرم اور نسبتاً کم گرم چٹانوں اور مادے کے بہاؤ کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ گرم مادہ حرکت کرنا چاہتا ہے (جیسا کہ گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے اور ٹھنڈی نیچے آ جاتی ہے) چنانچہ یہ دیگر مادوں کو پرے دھکیل کر اپنا راستہ بناتا ہے جس کے نتیجے میں تھرتھراہت پیدا ہوتی ہے۔
چٹانی زلزلے آتش فشاں پھٹنے سے پیدا ہونے والے زلزلوں کی نسبت کہیں زیادہ طاقتوں ہوتے ہیں۔ 4.8 سے زیادہ شدت کے تمام زلزلے انہی چٹانی پلیٹوں کی حرکت کے سبب آتے ہیں۔ زلزلے کا مرکز سطح زمین سے جتنا قریب ہو گا اس کی لہریں اتنی ہی شدت سے اثر انداز ہوں گی۔ اس کے برعکس زلزلے کا مرکز زیر زمین گہرائی میں ہونے کی صورت میں لہروں کی شدت میں کمی آ جاتی ہے۔
آتش فشاں:
چھوٹے زلزلے زمین کی تہہ میں موجود مادے ’’میگما‘‘ کی حرکت سے آتے ہیں جو اپنے اردگرد موجود اشیا کو پرے دھکیل کر راستہ بناتا ہے۔ زندہ آتش فشاں کے قریب یہ چھوٹے زلزلے اکثر و بیشتر آتے رہتے ہیں اور کسی قابل ذکر نقصان کا سبب نہیں بنتے۔ 1883ء میں کراکاتو نامی آتش فشاں پھٹنے کی آواز پانچ ہزار کلومیٹر دور تک سنی گئی تاہم اس سے قابل ذکر سیسمک لہریں پیدا نہ ہوئیں۔
انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں آنے والا زلزلہ
بعض زلزلے سطح زمین پر انسان سرگرمیوں کی وجہ سے آتے ہیں۔ ایٹم بم پھٹنے یا ایٹمی تجربے سے بھی سیسمک لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ لہریں زیادہ طاقت ور نہیں ہوتیں تاہم ان میں آتش فشاں پھٹنے سے پیدا ہونے والی لہروں کی نسبت زیادہ قوت ہوتی ہے۔ ایٹم بم کے علاوہ کچھ اور انسانی سرگرمیاں بھی زلزلیاتی کیفیت کا باعث ہو سکتی ہیں۔ یہ کیفیت زمین پر بے جا بوجھ ڈالنے، آبی گزرگاہوں میں رکاوٹ پیدا کرنے، بلاوجہ ڈیم بنانے اور زمین سے بڑے پیمانے پر پانی حاصل کرنے کے لیے بھاری مشینری کے مستقل استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ زلزلے نسبتاً کم شدت کے ہوتے ہیں مگر ان کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ایسا ہی زلزلہ ماضی قریب میں ہالینڈ میں آیا جہاں گیس کے دھماکے نے سیسمک لہریں پیدا کر دیں۔ اسی طرح گہرے کنوؤں میں پانی ڈالنے (ہانی جمع کرنے کے لیے) اور زمین سے تیل نکالنے کی وجہ سے بھی چٹانوں کی حرکت میں خلل پڑتا ہے۔ امریکا، جاپان اور کینیڈا میں ایسا ہو چکا ہے۔ 1967ء میں امریکی ریاست کولوراڈو میں ڈینور کے مقام پر زمین میں پانی داخل کرنے کے نتیجے میں زلزلہ آ گیا جس کی شدت 5.5 تھی۔ ڈیم اور بیراج بناتے وقت پانی کے بہاؤ کی قوت اور اخراج کے سلسلے میں مناسب جگہ کا تعین نہ ہونے سے زمین کی اندرونی سطح پر دراڑیں پیدا ہو جاتی ہیں جو مستقبل میں زلزلے کا سبب بن سکتی ہیں۔ زیرِمین پانی گنجائش سے زیادہ کھینچنے اور ٹیوب ویلز کے بے دریغ استعمال سے بھی زمین کی اندرونی کیفیت متاثر ہوتی ہے۔ کم ترقی یافتہ ممالک میں عمارتیں تعمیر کرتے وقت حساس علاقے مدنظر نہیں رکھے جاتے اور زمین پر بلند و بالا عمارتوں کی شکل میں بے تحاشہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں زیرزمین خاموش فالٹ پنپنا شروع کر دیتی ہیں۔
سمندری زلزلے
سمندری زلزلے بھی زمین پر آنے والے زلزلوں جیسے ہوتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ زلزلے سمندر کی تہہ یا اس سے بھی نیچے چٹانی پلیٹوں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں آتے ہیں۔ جب پلیٹیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو یہ ابھر کر سطح سمندر کے قریب بھی آ سکتی ہیں۔ اسی عمل کے نتیجے میں جزیرے وجود میں آتے ہیں۔ جزائر ہوائی اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ خیال رہے کہ سمندری زلزلوں کے نتیجے میں جہاں جزیرے ابھر آتے ہیں وہیں غائب بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسا ہونے سے اس مقام پر سمندر کی گہرائی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اکثر سمندری زلزلے ہمیں محسوس نہیں ہوتے۔ ہم انہیں صرف سمندر میں جزیرہ ابھرنے سے پہچان سکتے ہیں اور یہ بھی اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب زلزلے کا مقام بندر گاہ سے زیادہ دور نہ ہو۔
سونامی
سمندری زلزلے میں ہمیں براہ راست نقصان نہیں پہنچاتے، البتہ بالواسطہ طور پر یہ انسانی آبادیوں کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ زلزلے کے نتیجے میں جب سمندری پیندا حرکت کرتا ہے تو اس پر موجود پانی بھی اوپر نیچے اور دائیں بائیں حرکت میں آ جاتا ہے۔ پانی کی اس بے ترتیب حرکت کے نتیجے میں بڑی بڑی لہریں خشکی کا رخ کر لیتی ہیں اور ان کی راہ میں آنے والی ہر شے ملیامیٹ ہو جاتی ہے۔ اس زلزلے کو سونامی کہا جاتا ہے جو کہ جاپانی زبان کی اصطلاح ہے۔ سونامی کی سب سے بڑی مثال 26 دسمبر 2005ء کو انڈونیشیا اور ملحقہ ممالک میں آنے والا سمندری زلزلہ ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ سے زائد انسان لقمہ اجل بن گئے۔ سونامی کے نتیجے میں 30 میٹر سے بھی زائد بلند سمندری لہریں اٹھتی ہیں۔ مشرقی ایشیائی خطہ سونامی کے حوالے سے سرگرم علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ بحرالکاہل سونامی کا مرکز ہے۔ عموماً سونامی کو مدوجزر کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لہریں سمجھا جاتا ہے جو کہ درست نہیں۔ سونامی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لہریں بہت زیادہ اونچی بھی ہو سکتی ہیں۔ یہ لہریں ساحلوں سے ٹکرانے کے بعد خشکی پر ہولناک تباہی پھیلاتی ہیں۔