Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

بلٹ ٹرین : آئندہ دس برس میں چین کی اجارہ داری ہو گی

$
0
0

جاپان کا نام سنتے ہی کسی بھی غیر ملکی کے ذہن میں جو چند چیزیں فوری طور پر آتی ہیں، ان میں سے ایک تیز ترین ریل گاڑی بھی ہے۔ بلٹ ٹرین جسے عرف عام میں شن کان سین کہا جاتا ہے۔ ہر روٹ کے لیے یہاں ایک الگ نام رکھتی ہے۔ ان میں سے ایک معروف نام ’’خیال‘‘ بھی ہے۔ شاید یہ خیال کی طرح تیز رفتاری سے سفر کرتی ہے اسی سبب سے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ شن کان سین نے ٹوکیو اور آئو موری کے درمیان نئی سروس کا آغاز کیا تھا ۔ جاپان نے دنیا کی تیز ترین ریل گاڑی بنانے کا اپنا ہی ریکارڈ بہتر بنایا ہے۔ ابتدائی طور پر اس کی رفتار 320 کلومیٹر فی گھنٹہ رکھی گئی جو کہ 360 کلومیٹر فی گھنٹہ کر دی جائے گی۔ 

اس ٹرین کی ٹیسٹ رفتار 584 کلومیٹر فی گھنٹہ ریکارڈ کی گئی تھی لیکن وہ ایک خطرناک سطح کی رفتار تھی۔ اس رفتار پر زندگی کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ بلٹ ٹرین کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ ’’حفاظت ہمارا اولین نصب العین‘‘ وہ اس دعوے میں حق بجانب بھی ہیں کہ 1964 میں پہلی بلٹ ٹرین کے افتتاح سے لے کر آج تک بلٹ ٹرین کو ایک بھی حادثہ پیش نہیں آیا ہے۔ کسی معمولی حادثے کو ہم استثنیات میں شامل کر سکتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ بلٹ ٹرین عام استعمال ہونے والی پٹڑی پر نہیں چلتی۔ اس کا مخصوص ٹریک ہوتا ہے جس میں لوہے اور دیگر دھاتوں کے علاوہ مقناطیس استعمال کیا جاتا ہے ۔

گاڑی کے ڈبے بناتے ہوئے بھی اسی تکنیک کو استعمال کیا جاتا ہے۔ گاڑی کے ڈبوں میں شور کو کم کرنے کا بھی بندوبست کیا جاتا ہے کیونکہ تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے بھی زیادہ رفتار پر شدید شور کا پیدا ہونا ایک منطقی عمل ہے ۔ اس ٹرین کی پٹڑی آبادیوں میں سے گزرتے ہوئے حفاظتی نقطہ نظر کے تحت سطح زمین سے عموماً بیس فٹ اونچائی پر ہوتی ہے تاکہ اس سے آ کر کوئی چیز نہ ٹکرا سکے۔عقاب کی چونچ جیسا منہ لیے شن کان سین گزشتہ دنوں جب ٹوکیو سے آئوموری کے درمیان بنائی گئی نئی پٹڑی پر پہلی مرتبہ روانہ ہوئی تو اس کی تمام نشستیں بھری ہوئی تھیں۔ 

مسافروں میں سے زیادہ تر شوقین لوگ تھے کیونکہ پندرہ ہزار روپے کا ریل ٹکٹ ان لوگوں نے انٹرنیٹ سے بلیک میں چار چار لاکھ روپے تک میں خریدا تھا تاکہ اس یادگار سفر کا حصہ بن سکیں۔ پولیس نے بلیک میں فروخت کیے گئے ٹکٹوں کے متعلق تحقیقات کی تھی مگر کوئی قابو نہیں آیا۔ قانون کے مطابق ریل کا خریدا ہوا ٹکٹ بیچنا جرم ہے۔ ریکارڈ ساز رفتار کے ساتھ ٹرین کے پہلے سفر کے لیے جب ریلوے حکام نے ٹکٹ فروخت کے لیے پیش کیے تو تمام ٹکٹ 24 سیکنڈ میں ہی فروخت ہو گئے تھے۔ مسافروں کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ یہاں بلیک میں ٹکٹ بیچنا جرم ہے مگر خریدنا جرم نہیں ہے۔ بلٹ ٹرین کو جاپان کا طرۂ امتیاز خیال کیا جاتا ہے۔ 

اس وقت وہ دنیا میں اس ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا برآمد کنندہ بھی ہے۔ یورپ سے لے کر امریکہ تک ہر طرف بلٹ ٹرین کے شعبے میں اسی کی اجارہ داری محسوس ہوتی ہے لیکن یہ صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گی، تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق آئندہ دس برس میں چین اس کی جگہ لیتا نظر آرہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت جاپان میں بلٹ ٹرین کی پٹڑی سب سے زیادہ ہے لیکن اگلے دس سال کے لیے چین میں پوری دنیا میں پائی جانے والی بلٹ ٹرین کی پٹڑی کی مجموعی لمبائی سے بھی زیادہ ٹریک بچھائے جائیں گے۔ اس کے باوجود ریلوے کے شعبے میں دنیا جاپان کی طرف دیکھتی ہے۔ 

اس کی تازہ مثال دوبئی میں تکمیل پانے والا زیرِزمین میٹرو منصوبہ ہے جسے ایک جاپانی کمپنی نے بنایا ہے۔ گزشتہ دنوں مجھے اس ٹرین میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا تھا۔ یقین کیجئے! ایسی زیر زمین ریل سروس نیویارک، لندن یا یورپ کے کسی بھی شہر میں نہیں ہے۔ ٹوکیو کی میٹرو بھی اس سے پیچھے دکھائی دیتی ہے کیونکہ جاپانی کمپنی نے دوبئی کے اپنے منصوبے میں زیادہ جدید ٹیکنالوجی استعمال کی ہے اورلندن کی ٹیوب اور نیو یارک کا سب وے تو اس کے مقابلے میں گزرے زمانے کی یادگاریں محسوس ہوتی ہیں۔ بلٹ ٹرین کی رفتار اور فاصلے کا حساب لگاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جب پاکستان میں یہ ریل سروس شروع ہو گی تو لاہور سے کراچی کا فاصلہ چار گھنٹے سے بھی کم رہ جائے گا۔

ملک کے کسی بھی کونے سے دوسرے کونے تک کا سفر پانچ چھ گھنٹے سے زیادہ کا نہ ہو گا۔ یہاں جاپانی معاشرے کا ایک دلچسپ پہلو آپ کو بتاتا چلوں، یہاں لوگ فاصلے کا حساب کلومیٹر یا میلوں میں نہیں کرتے بلکہ اس کا پیمانہ وقت ہوتا ہے۔ اگر کسی سے آپ پوچھیں کہ فلاں جگہ کتنی دور ہے تو جواب منٹوں یا گھنٹوں کی صورت میں ملے گا۔ پاکستان میں بلٹ ٹرین کے تصور کے متعلق عرض کر رہا تھا کہ ہمارا جغرافیہ ایسا ہے کہ بلٹ ٹرین سروس شروع ہونے کے بعد اندرونِ ملک لوگ شاید ہوائی جہاز پر سفر کرنا چھوڑ دیں گے۔ یہاں پر بھی ایسا ہی ہوا ہے، پانچ سو کلومیٹر سے کم کا فاصلہ بلٹ ٹرین پر ہی طے کیا جاتا ہے ۔یوں بھی بلٹ ٹرین والے علاقوں میں چھوٹے سفر کے لئے عموماً ہوائی فضائی سروس دستیاب ہی نہیں ہوتی۔

عامر بن علی



Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

Trending Articles