میانمار میں ریاستی مظالم سے تنگ آکر لاکھوں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں ، ان میں سے ہر مسلمان کی داستان انتہائی المناک اور تکلیف دہ ہے، یہ داستانیں سن کر پتھر دل لوگوں کی آنکھیں بھی چھلک پڑتی ہیں، ایسی ہی ایک داستان سات سالہ یاسر حسین کی ہے جو کہ مسلسل 2 ہفتوں تک اپنی چھوٹی بہن کو اٹھا کر چلتا رہا اور بالاخر بنگلہ دیش پہنچ گیا۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق یاسر حسین مسلسل دو ہفتوں تک کیچڑ سے بھرے ہوئے راستوں ، برساتی کھائیوں اور گھنے جنگلوں میں اپنی چھوٹی بہن کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر چلتا رہا، اس دوران مسلسل اس نے اپنی سکول یونیفارم پہنے رکھی، یاسر نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری بہن بہت بھاری ہے اور میرا خیال تھا کہ میں اسے اٹھا کر چل نہیں پاﺅں گا۔
یاسر کی ماں فیروز بیگم کا کہنا تھا کہ دو ہفتے قبل اچانک ہمارے گاﺅں پر بلوائیوں نے حملہ کر دیا، سارے گاﺅں سے آگ کے شعلے بلند ہونا شروع ہو گئے اور ہم نے بھاگنے کی کوشش کی مگر اس دوران یاسر کے باپ کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا، لیکن میں اپنے تین معصوم بیٹوں کے ساتھ بھاگنے میں کامیاب ہو گئی، ہم یاسر کی آنٹیوں اوردرجنوں کزنز کے ہمراہ مسلسل چلتے رہے، ہمیں چھہ دن تک کھانے کو کچھ نہیں ملا اور کئی دن مسلسل چلنے کے بعد ہم دریائے ناف کے کنارے پہنچ گئے، یہاں پر کئی مہاجرین پہلے سے موجود تھے اور ہم ایک بوسید ہ کشتی میں سوار ہو کر بنگلہ دیش پہنچنے میں کامیاب ہو گئے.
لیکن ہمارا یہ سفر یہاں پر اختتام پذیر نہیں ہوا بلکہ ہمیں ایک دن اور پیدل چلنا پڑا۔ اس سارے عرصے میں یاسر نے سبز اور سفید سکول یونیفارم پہن رکھے تھے۔ یاسر حسین نے خبر ایجنسی سے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں سکول میں سیاہ جوتے اور سیاہ جراب پہن کر رکھتا تھا مگر میانمار سے ہجرت کے وقت میں انہیں وہاں سے لا نہیں پایا ۔ یاسر کا خاندان بنگلہ دیش میں اپنے ایک رشتہ دار کے ہاں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جبکہ یاسر آج بھی ان تلخ دنوں کو یاد کر کے آبدیدہ ہو جاتا ہے۔