ان سطور کی اشاعت تک امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن پاکستان کا دورہ کر کے خطے میں امریکہ کی نئی پالیسی کے بارے میں واضح پیغام دے کر بھارت میں بھی مذاکرات و معاملات طے کر چکے ہوں گے۔ واشنگٹن سے روانگی سے قبل اور ایک ہفتہ میں پانچ دوروں کے دوران ان کے بیانات سے بھی واضح ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں صدر ٹرمپ کی اعلان کردہ نئی امریکی حکمت عملی کے نفاذ کا پیغام پہنچانے آئے ہیں۔ اس حکمت عملی میں امریکہ کے نئے اتحادی بھارت کی خطے میں بالادستی اور اس کیلئے امریکہ کی مکمل حمایت کا پیغام بھی ہے جبکہ امریکہ بھارت کو فوجی میدان میں تعاون سے چین کے مقابلے میں کھڑا کر کے چینی اثرونفوذ روکنا بھی چاہتا ہے ۔
گویا امریکہ بھارت کا محاذ تو چین اور اس کے دوستوں کے خلاف ہے لیکن ارد گرد کے علاقوں پر بھارتی بالادستی اور صفائی بھی لازمی ضرورت ہے۔ امریکہ خود ان تما م کاموں میں آگے بڑھ کر وہ تمام خدمات اور تعاون انجام دے رہا ہے جس کی بھارت کو ضرورت ہے۔ پاکستانی ترجمان ٹلرسن کے دورہ اسلام آباد کے بارے میں ’’سب اچھا‘‘ کے بیانات جاری کرنے کی بجائے حقائق سے عوام کو آگاہ فرمائیں، جلد ہی امریکی وزیر دفاع جنرل میٹس بھی اسلام آباد کے دورہ کیلئے متوقع ہیں ورنہ اگلے چند دنوں میں خود امریکی صدر ٹرمپ بھی بھارت کا دورہ کر کے خود جنوبی ایشیا بھر کے عوام کو ان نئے حقائق سے مطلع کر دیں گے۔ لہٰذا اب ہمارے سرکاری ترجمان حقائق کو غلاف میں لپیٹ کر بیان کرنے کی پالیسی ترک فرما دیں۔
جب ہماری ضرورت تھی تو امریکی صدور بھی کیا دلکش بیانات پاکستان کے حق میں دیا کرتے تھے۔ 23؍ جنوری 2004ء کو جنرل (ر) پرویز مشرف اور ری پبلکن صدر جارج بش کی کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات ہوئی تو مشترکہ کانفرنس میں صدر بش سے میں نے سوال کرتے ہوئے بھارت اور روس کے 20 سال کے تعلقات کے ’’رومانس‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے عالمی اداروں میں بھارت کے امریکہ کے خلاف ووٹوں کی تعداد اور شرح کا ذکر کیا اور پوچھا کہ امریکہ اپنے اتحادی پاکستان کی سیکورٹی کیلئے اب کیا گارنٹی اور اقدامات کرے گا ؟ تو صدر جارج بش نے پرویز مشرف اور ان کے وفد کی موجودگی میں جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ امریکہ پاک بھارت تنازع حل کرنے کے لئے اپنا رول ادا کر ے گا۔ وہ اس وقت بھی بھارت روسی تعلقات کے 20 سالہ دور کو نظرانداز کر گئے تھے لیکن پاکستان ، چین تعلق کو امریکہ ہضم نہیں کر پا رہا بلکہ محاذ آرائی پر آمادہ نظر آتا ہے۔
پھر بھی صدر مشرف اور وفد کے اراکین صدر بش کے اس بیان پر بڑے مسرور تھے۔ اسی طرح جب ایک اور مرتبہ میں نے صدر بش سے سوال اٹھایا کہ ماضی میں امریکہ پہلی افغان جنگ میں اپنا مقصد پورا ہونے پر پاکستان کو تنہا اور جنگ کے بعد کے اثرات سمیت چھوڑ کر چلا آیا تو صدر بش نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’’ اس بار یہ ڈانس شارٹ نہیں ہو گا۔‘‘ اور پھر تفصیل سے پاکستان کی تعریف کی لیکن آج حالات ثابت کر رہے ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات کا رومانوی ’’ڈانس‘‘ بہت ہی ’’شارٹ‘‘ ثابت ہوا اور آج وہی امریکہ اب بھارت کے ساتھ ’’رومانس‘‘ اور پاکستان کو ’’ولن‘‘ قرار دے کر تمام تعاون بھول چکا ہے۔ ڈپلومیسی کی دنیا میں کوئی تعلق مستقل نہیں ہوتا لیکن ہمارے ماضی کے حکمرانوں نے قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھنے کی بجائے اپنی ذاتی خواہشات، اقتدار کی طوالت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر امریکہ سے مذاکرات اور سمجھوتے کئے جس کے نتیجے میں ہم نے امریکی مفادات کیلئے قربانیاں دیں.
مگر ہمیں ہرچند سال امریکہ کی جانب سے اقتصادی ، فوجی پابندیاں اورمشکلات ملیں اور ہمارا ایٹمی طاقت بننا بھی پسند نہ آیا۔ پاک امریکہ تعلقات کو ’’بند گلی‘‘ میں لانے والوں میں خود ہمارے حکمرانوں کی کمزور یاں خواہشات اور کم عقلی کا بھی دخل ہے۔ حال ہی میں پانچ امریکی کینیڈین افراد کی دہشت گردوں سے پانچ سال بعد رہائی کا واقعہ بھی صرف دو دن تک اثر قائم رکھ سکا۔ صرف آٹھ منٹ کی فون کال پر امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کےسامنے ہتھیار ڈال کر غیر مشروط طور پر افغان جنگ میں اتحادی بن کر امریکہ کیلئے پاکستان کی پوری سرزمین اور فضا کھول دینے والے حکمراں تو پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کی یقین دہانیاں کراتے رہے۔ آج وہ کہاں ہیں؟
بہرحال بھارت اور امریکہ کے درمیان ڈرامائی انداز میں تعلقات گہرے ہو رہے ہیں چین کے اثرو رسوخ کو روکنے کیلئے بھارت کو امریکہ فوجی ، معاشی اور ہر طرح کی فنانسنگ اور تعاون فراہم کرے گا بلکہ آسٹریلیا اور جاپان کو بھی بھارت امریکہ سیکورٹی تعاون کا حصہ بنانے پر کام ہو رہا ہے تاکہ چین اور اس کے دوست ممالک کے خلاف حصار مکمل ہو سکے۔ وزیر خارجہ ٹلرسن قطر سعودی تعلقات کو بہتر بنانے پر تو کوئی قدم نہ اٹھا سکے لیکن مسلم دنیا کی بے بسی دیکھئے کہ حالیہ ماضی میں عراق پر سعودی سرزمین سے امریکی طیاروں نے اڑ کر نہ صرف بمباری کی بلکہ عشروں تک سعودی، عراق سرحدیں بند رکھی گئیں لیکن اب سعودی، عراق کوآرڈی نیشن کونسل قائم کر کے ایران کے خلاف جنگی محاذ قائم ہو گیا ہے ٹلرسن اس کونسل کے اجلاس میں شرکت کر کے قطر روانہ ہوئے۔
مشرق وسطیٰ اور چین کے اردگرد اپنے مفادات اور سیکورٹی کا حصار اور اتحاد قائم کرنے کے علاوہ جنوبی ایشیا میں افغانستان، پاکستان اور بھارت کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کے تحت پرانے اتحادی پاکستان کو ’’ڈومور‘‘ کے دبائو اور ’’سی پیک ‘‘ کی سزا کا حقدار قرار دیتے ہوئے بھارت کو علاقے کی سب سے بڑی قوت کے طور پر ابھار کر جنوبی ایشیامیں بالادستی اور چین کی مقابل طاقت کے طور پر کھڑا کرنا مقصود ہے۔ اس امریکی اسٹرٹیجی میں پاکستان کیلئے امریکہ نے کوئی گنجائش نہیں رکھی اور پاکستان کو اپنے وسائل اور چینی حمایت پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔ سری لنکا اور پاکستان میں چین کے جو تعمیراتی پروجیکٹ جاری ہیں ان پر بھارت کو بڑی تشویش ہے اور امریکہ بھی ان پروجیکٹس کو خطرہ سمجھتا ہے کہ چین اپنی سرحدوں سے نکل کر بیرونی دنیا میں اپنا اثرونفوذ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے.
بلکہ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے تو چین کے مالی تعاون اور سرمایہ کاری کو ایک مختلف رنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’’چین کا رویہ شکاریوں جیسا ہے اور وہ قرضوں اور سرمایہ کاری کے ذریعے بعض ملکوں کو معاشی دبائو تلے لا رہا ہے۔ ’’بھارت کو اپنے عقب میں ہونے والی یہ ’’جیو۔ اکنامک‘‘ ترقی و توسیع سے خطرات ہیں اور جب چین کا ’’ہوا‘‘ کھڑا کر کے بھارت کو امریکہ جیسی عالمی طاقت اور اسرائیل جیسی مہارت اور مشرق وسطیٰ میں امریکی حامی اور عرب مخالف ملک کا خفیہ تعاون اور حمایت حاصل ہو رہی ہے تو ا س سے زیادہ اچھا موقع کیا ہو گا۔ بھارت تو افغانستان میں اپنے فوجی بھیجنے سے تاحال انکاری ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ جس روز بھارتی فوج نے افغانستان میں قدم رکھا تو اسی روز نہ صرف پورا افغانستان بھارت کو اپنا دشمن قرار دے کر اٹھ کھڑا ہو گا بلکہ بھارت کو وہ قیمت ادا کرنا ہو گی جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت انٹیلی جنس اور دیگر طریقوں سے افغانستان میں مصروف ہے اور افغانستان میں ’’ترقی و تعمیر‘‘ کے عنوان سے اپنا رول ادا کرنا چاہتا ہے مگر اپنے ’’فوجی بوٹس‘‘ افغانستان میں بھیجنے سے انکاری ہے وہ کوئی جانی قربانی دیئے بغیر ہی افغانستان میں اپنا قدم جمانا چاہتا ہے۔
اس لئے پاکستان پر ابھی تک ’’ڈومور‘‘ کے دبائو کے ذریعے پاکستانی فوج کو افغان جنگ اور صفائی کی مہم میں ’’انگیج‘‘ رکھنا مقصود ہے۔ ٹلرسن پاکستان کا موقف سننے کیلئے نہیں پاکستان کو سخت لہجے میں پیغام دینے کیلئے آئے ہیں۔ اسی لئے وہ واشنگٹن ، ریاض، دوحہ اور کابل میں اپنے بیانات میں افغانستان اور پاکستان کا ذکر خیر اور اپنے دورے کا مقصد بیان کرتے رہے ہیں حالانکہ ڈپلومیسی کا تقاضا ہے کہ کسی ملک کا دورہ کرنے اور مذاکرات کے بعد ہی کسی بیان اور موقف کا اظہار کرنا مناسب ہوتا ہے۔ پاکستان پہنچنے سے قبل پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرنا بہت کچھ واضح کر رہا ہے۔ افغانستان میں 783 ارب ڈالرز کے اخراجات اور ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجیوں کے 14 سالہ قیام اور آپریشنز کے بارے میں امریکہ کوئی بات کرنے اور امریکی ناکامی کو زیر بحث لانے کیلئے تیار نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام تو لگاتا ہے مگر ثبوت فراہم نہیں کرتا۔
پاکستان کو امریکہ سے مشروط تعلقات کی اطلاع بھی پہلے سے دی جا چکی ہے۔ خطے میں بھارتی برتری قائم کرنے کے بعد پاکستان کی سلامتی کا ذکر امریکی وزیر خارجہ کے منہ سے اچھا نہیں لگتا۔ ٹلرسن کا لب و لہجہ یکطرفہ شرائط پر ڈائیلاگ سے قبل ہی حاکمانہ ہے۔ یہ دورہ اسلام آباد محض یکطرفہ پیغام تک محدود اور امریکی پلان کو تمام شرائط کے ساتھ قبول کرنے پر مجبور کرنے تک محدود ہے۔ خدا خیر کرے۔