Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

جمہوریہ ترکی، اتاترک سے ایردوان تک

$
0
0

تین براعظموں تک پھیلی ہوئی عالمِ اسلام کی واحد مملکت ’ سلطنتِ عثمانیہ‘کے خاتمے کے بعد ترکی زبان بولنے والے علاقوں پر مشتمل جغرافیے میں ’ جدید جمہوریہ ترکی‘ کے نام سے 29 اکتوبر 1923 میں نئی مملکت معرضِ وجود میں آئی، گزشتہ ہفتےاس کے قیام کی 94 ویں سالگرہ منائی گئی۔ اس نئی مملکت کو اپنے قیام کے ساتھ ہی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ عصمت انونو نے فوج کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے جس طریقے سے استعمال کیا اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ 

انہوں نے اس دوران مذہبِ اسلام سے اپنی دشمنی کو اتاترک کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے ملک میں مذہبی حلقوں کا جینا دوبھر کر دیا اور فوج میں مذہبی تعلیم و تربیت پر پابندی عائد کر دی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عصمت انونو نے مجبور ہو کر واحد پارٹی سسٹم ختم کرتے ہوئے دیگر جماعتوں کو بھی انتخاب میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا لیکن فوج کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی کی کہ 1945 کے انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی کو اپنی بقا کے لئے شکست قبول کرنا پڑی.

 لیکن پچاس کی دہائی کے عام انتخابات میں ڈیمو کریٹ پارٹی نے اتنے بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی کہ عصمت انونو اور ان کے ساتھیوں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ ڈیمو کریٹ پارٹی کے سربراہ اور وزیراعظم عدنان میندریس نے سب سے پہلے عصمت انونو کے دور میں مقفل کی گئی تمام مساجد کے دروازے عوام کے لئے کھول دئیے اور ترکی زبان میں دی جانے والی اذان کی جگہ عربی زبان میں اذان دینے کا سلسلہ دوبارہ سے شروع کیا جس پر 27 مئی 1960 کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جمال گرسل نے عدنان میندریس کی حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے 17 ستمبر 1961 کو عدنان میندریس اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی پر لٹکا دیا۔

فوجی حکومت کی نگرانی میں 1965 میں عام انتخابات کرائے گئے جس میں جسٹس پارٹی نے سلیمان دیمرل کی قیادت میں 52.6 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے پارلیمینٹ کی 450 نشستوں میں سے 240 نشستیں حاصل کر لیں اور پھر 1969 میں ہونیوالے عام انتخابات میں بھی سیلمان دیمرل کی جماعت نے 46.55 فیصد ووٹ حاصل کئے اور پارلیمینٹ کی 450 نشستوں میں سے 256 نشستیں حاصل کرتے ہوئے دوسری بار حکومت بنائی۔ اس دوران فوج نے ایک بار پھر مداخلت کرتے ہوئے صدر دیمرل کی حکومت کو ختم کر دیا اور پارلیمنٹ کے اندر ہی سے ایک غیر جانبدار رکن پارلیمنٹ نہات ایردیم کی قیادت میں ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت قائم کر دی جو اکتوبر 1972 تک جاری رہی۔ 

چودہ اکتوبر1973 میں ہونے والے عام انتخابات میں بلنت ایجوت کی قیادت میں بائیں بازو کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی 33.29 فیصد ووٹ حاصل کر کے پارلیمنٹ کی149 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔ بلنت ایجوت نے اس وقت ترکی کی سیاست پر نمودار ہونے والے نجم الدین ایربکان کی ملی سلامت پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی ۔ ستّر کی دہائی ترکی کی سیاسی تاریخ میں سیاہ ترین باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ ترکی کا یہ دس سالہ عرصہ انتشار کا شکار رہا۔ چیف آف جنرل اسٹاف جنرل کنعان ایورن نے 12 ستمبر1980ء کو ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ جنرل کنعان ایورن نے 6 نومبر 1983ء کے عام انتخابات میں صرف نئی سیاسی جماعتوں ہی کو حصہ لینے کی اجازت دی۔

ان عام انتخابات میں ترگت اوزال کی مدر لینڈ پارٹی نے واضح برتری حاصل کی اور نئی حکومت تشکیل دی اور پورے ملک سے مارشل لا ختم کیا۔ ترگت اوزال جمہوریہ ترکی کے پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے ملک میں آزاد منڈی اقتصادیات اور نج کاری کو متعارف کرایا۔ اسی دور میں ملک میں میڈیا کو آزادی نصیب ہوئی اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے دور کا آغاز ہوا جس سے ملک میں شفافیت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ 9 نومبر 1989ء کو جنرل کنعان ایورن اپنی سات سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو گئے اور ان کی جگہ ترگت اوزال نے وزارتِ عظمیٰ چھوڑ کر ملک کی صدارت کے فرائض سنبھال لئے۔ ترگت اوزال کی وفات کے بعد پرانے سیاستدانوں جن پر مارشل لا دور میں پابندی لگا دی گئی تھی ترکی کی سیاست میں دوبارہ وارد ہوئے۔

سلیمان دیمرل ایک بار پھر ملک کے وزیراعظم منتخب کر لئے گئے لیکن ہمیشہ کی طرح انہوں نے اس بار بھی قوم کو مایوس کیا اور ایک بار پھر ملک میں سیاسی اور اقتصادی بحران کی بنیاد رکھ دی اور رہی سہی کسر انہی کی جماعت کی وزیراعظم تانسو چیلر نے پوری کردی۔ ملک میں اب مخلوط حکومتیں قائم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہ بچا تھا جس کا فوج نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور نجم الدین ایربکان کی حکومت کی ایسی ڈوری کھینچی کہ ان کو پھر سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ فوج ہی کے دباؤ میں آئینی عدالت نے نجم الدین ایربکان سمیت پانچ رہنماؤں کو سیکولرازم کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے سیاست میں پانچ سال کیلئے پابندی لگانے اور رفاہ پارٹی کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سنا دیا۔ 

ایربکان ہی کے قریبی ساتھیوں میں سے عبداللہ گل اور رجب طیب ایردوان پر مشتمل ایک گروپ نے چودہ اگست 2001ء میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے نام سے ایک الگ جماعت قائم کر لی ۔ رجب طیب ایردوان اور ان کے ساتھیوں نے 3 نومبر 2002ء کو ہونے والے عام انتخابات سے پندرہ ماہ قبل بھرپور طریقے سے ملک بھر میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ تین نومبر 2002ء کو جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے اپنے بانی ایردوان کے بغیر انتخاب لڑا اور34 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں کلی اکثریت حاصل کر لی تھی جس پر پارٹی کی نمبر دو شخصیت عبداللہ گل کی قیادت میں حکومت تشکیل دے دی گئی بعد میں حزبِ اختلاف کی ری پبلکن پیپلز پارٹی نے آق کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور آئین میں ترمیم کرتے ہوئے ایردوان کو پہلے پارلیمنٹ کا رکن اور پھر وزیراعظم بنانے کی راہ ہموار کر دی۔

ایردوان 15 مارچ 2003ء میں ملک کے نئے وزیراعظم منتخب کر لئے گئے ۔ ایردوان کا اقتدار حاصل کرنے کا سفر کوئی آسان سفر نہ تھا تین بار ان کی حکومت کا تختہ بھی الٹنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے کبھی بھی ہمت نہ ہاری    انہوں نے ترکی کو جو تیسرے درجے کا ایک ملک سمجھا جاتا تھا دنیا کی سولہویں اقتصادی قوت، اور گیارہ ہزار ڈالر آمدنی والا ملک بنا دیا۔ ایردوان ترکی اور دنیا میں واحد شخصیت ہیں جن کی مقبولیت میں اقتدار میں رہنے کے باوجود مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں صدارتی نظام متعارف کرانے میں بھی کامیابی حاصل کی۔ اگرچہ 15 جولائی 2016ء کو ان کا تختہ الٹنے کی ایک بار پھر کوشش کی گئی لیکن عوام نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ملک میں جمہوریت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئےتابندہ بنا دیا ہے۔

ڈاکٹر فر قان حمید
 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

Trending Articles