تارکین وطن کا مسئلہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ جنگ اور غربت کے شکار ممالک سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ اب مغربی ممالک میں بھی تارکین وطن اور مہاجرین کے لیے قوانین سخت ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی متعدد نامور تنظیموں نے قوانین میں سختی اور تارکین وطن کی ’’غیرقانونی‘‘ قید کے خلاف بیانات جاری کیے ہیں اور احتجاج بھی کیا ہے۔ کینیڈا کا رخ کرنے والوں میں بہت سے اس ملک میں بس جاتے ہیں لیکن متعدد قید بھی ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے تعلق رکھنے والی دو محققین پیٹرا مولنار اور سٹیفینی جے سلور مین نے مقید تارکین وطن کے حالات کا جائزہ لیا جسے ذیل میں بیان کیا گیا ہے.
میکسیکو سے تعلق رکھنے والے لوسیا ویگا جیمنیز کی عمر 42 سال، چیک ری پبلک کے جان زمکو کی عمر 31 سال، برونڈی کے ملکیورو گاہنگو کی عمر 64 سال، صومالیہ کے عبدالرحمان کی عمر 39 سال تھی۔ مزید کم از کم 11 افراد ہیں جو جان سے گئے۔ ماہ رواں میں ایک 50 سالہ عورت جس کا نام معلوم نہیں، جان سے گئی۔ وہ اونٹاریو کی جیل میں قید تھی، دوسروں کی طرح اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا، اسے صرف اس کے امیگریشن سٹیٹس کی وجہ سے قید میں ڈالا گیا تھا۔ 2000ء سے اب تک کم از کم 16 افراد کینیڈا کی امیگریشن کے نظام کی خرابیوں کی وجہ سے دوران قید ہلاک ہوئے۔ ان میں وہ چار اموات بھی شامل ہیں جو مارچ 2016ء سے ہوئیں۔
اتنی اموات کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کچھ اموات دوسروں سے کم اہم ہوتی ہیں؟ یعنی کیا تارکین وطن کی زندگی اہم نہیں ہے؟ اس سلسلے میں ہم نے امیگریشن کے تحت قید ہونے والوں کے سماجی و قانونی نکات پر غور کیا۔ یہاں ایک ایسا نظام انصاف کام کرتا ہے جس کا انحصار کرمنل لاء کی بجائے انتظامیہ پر ہے۔ اس مساوی نظام کی بنیاد پر کینیڈا میں تارکین وطن اور مہاجرین کو کرمنل کوڈ کے تحت کسی جرم پر قید نہیں کیا جاتا بلکہ امیگریشن سے متعلق معاملات پر کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر تارکین وطن کو جیل نما قید کے مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ تاہم ایک تہائی کو ایک ایسے مقام پر رکھا جاتا ہے جہاں بہت زیادہ سکیورٹی ہے اور وہ اس مقام سے بہت دور ہے جہاں ان کے دوست، خاندان یا وکلا رہتے ہیں۔
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ ان میں سے بڑی تعداد ان افراد پر مشتمل ہے جو بڑے صدمات سے گزرنے کی وجہ سے ذہنی امراض کا شکار ہیں۔ جب تارکین وطن کو یوں علیحدہ کر دیا جاتا ہے تو وہ مزید صدمے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب انہیں دور قید کیا جاتا ہے تو ان کے حالات کے بارے میں جان کاری حاصل کرنا اور انصاف کے نظام تک رسائی دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ قید سے ان افراد کی ذہنی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ وہ اپنے خاندان سے دور ہو جاتے ہیں، ان کی وکلا اور مشیروں تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔
انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی سزا کا دورانیہ کتنا ہو گا۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ بعض تارکین وطن کو قید تنہائی میں بھی رکھا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک کاشف ہے جسے مسلسل 103 دن تنہائی میں رکھا گیا۔ اسی طرح ایسے دستاویزی ثبوت بھی ملے ہیں کہ شام سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو دو ہفتوں سے زیادہ قید تنہائی میں رکھا گیا۔ ملک میں جاری جنگ کی وجہ سے وہ پہلے ہی صدمات سے شدید ذہنی دباؤکا شکار تھے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ تارکین وطن کو جس طرح رکھا جا رہا ہے وہ بین الاقوامی معیار سے مطابقت نہیں رکھتا۔