بٹ کائن (Bitcoin) کو آپ’’ بٹ Butt کائن‘‘ نہیں کہہ سکتے ۔ کمپیوٹر کی دنیا میں اربوں ڈالر کا بزنس روزانہ ہی ہو رہا ہے، پیسہ ہے یا نہیں، لین دین جاری ہے۔ اس کا اے ٹی ایم بھی موجود ہے۔ کمپیوٹر پر بزنس کرنے والوں نے انوکھی کرنسی ’’بٹ کائن‘‘ کے ذریعے ڈالروں اور پائونڈوں سے نجات پالی ہے۔ اس ’’کرنسی ‘‘کی مانگ بڑھنے سے قیمت چند ہی برسوں میں ایک ڈالر سے بڑھ کر 11395 ڈالر تک پہنچ گئی، اب گر کر 9 ہزار ڈالر پر آگئی ہے، صرف 24 گھنٹے میں اس کی قیمت میں 2250 ڈالر کی کمی ہوئی۔ دوسری ڈیجیٹل کرنسی ایتھیریم Ethereum کی وجہ سے بٹ کوائن کی قیمت ایک ہی دن میں 19 فیصد گر گئی۔ اس کے باوجود بھی یہ دنیا کی مہنگی ترین کرنسی ہے۔
ابتدا میں ’’بٹ کائن‘‘ایک ڈالر کا تھا، لیکن اب یہ 8300 ڈالر میں ملتا ہے۔ بٹ کائن پاور سیکٹر کی نظروں میں آگیا ہے۔ بجلی کے بڑھتے ہوئے استعمال اورلوڈ شیڈنگ کا ذمہ دار اسی کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس کی تیاری پر جتنی بجلی استعمال ہوتی ہے اتنی تو سال بھر میں سویڈن میں بھی استعمال نہیں ہوتی۔ کیونکہ بٹ کائن کمپیوٹر کے پیچیدہ عمل کے ذریعے تیار کیے جاتے ہیں، اس عمل کو ’’مائننگ‘‘ کہا جاتا ہے.2017 میں بٹ کائن کی تیاری میں خرچ ہونے والی بجلی کی مقدار تقریباً تمام افریقی ممالک سے زیادہ تھی۔ ایک برطانوی تحقیق کے مطابق تمام بٹ کائنز کی مائننگ میں 160 ممالک کے برابر توانائی تو خرچ ہو چکی ہو گی۔
ایک بٹ کائن 29.05 TWH بجلی سے تیار ہوتا ہے۔ جبکہ آئر لینڈ میں بجلی کا سالانہ استعمال 25 TWH ہے۔ چین میں بہت بڑی تعداد میں بٹ کائن کی مائننگ کی گئی۔ کیونکہ وہاں اس کی لاگتی اخراجات کم ہوئے ہیں اور امریکہ اور برطانیہ کے مقابلے میں سستی پڑی یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بٹ کائن کو تیار کرنے والے 6 بڑے اداروں کا تعلق چین سے ہے۔ چنانچہ ماحولیاتی آلودگی کا بھی ایک بڑا ذریعہ بٹ کائنز کی تخلیق ہے جس میں کثیر مقدار میں بجلی ضائع ہوتی ہے۔ پہلا بٹ کائن 2009ء میں تیار کیا گیا۔ اس وقت یہ کسی ایک پارٹی کی ملکیت میں نہ تھا بلکہ یہ بلاک چین سسٹم کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا تھا، تاکہ کوئی اس کی اونر شپ کو تبدیل نہ کر سکے۔ ریکارڈ تبدیل نہ کرنے اور غیر قانونی ٹرانزیکشن پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
اسی لیے اسے ’’بلاک سسٹم ‘‘کہا گیا۔ لیکن اب بہت سے لوگ بٹ کائن تخلیق کر رہے ہیں۔ کمپیوٹر پر 2 کروڑ10 لاکھ بٹ کائنز زیر گردش ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس وقت 40 لاکھ بٹ کائنز سسٹم سے غائب ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں کسی پارٹی یا گروپ نے قیمتیں چڑھانے کے لئے چھپا رکھا ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس میں بھی بلیک مارکیٹنگ شروع ہو چکی ہے۔ تھوڑے سے عرصے میں اس کی گرانی کی وجہ بھی شاید یہی ہو۔ جان نافٹن میں شائع شدہ مضمون کے مطابق گوگل بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ گوگل سرچ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہو رہی ہے ایک سرچ کلک دبانے سے 7 گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔
کم و بیش اس کی آدھی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس چولہے پر کیتلی گرم کرنے سے خرچ ہوتی ہے تاہم گوگل نے 7 گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ کو حیران کن حد تک زیادہ قرار دیتے ہوئے غلط قرار دیا ہے۔ گوگل کے ترجمان کے مطابق ایک سرچ کر نے سے ایک پوائنٹ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ ایک کلو میٹر کار کے لیے 140 گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ منظور کی گئی ہے لیکن کاریں اس سے کہیں زیادہ گند پھیلا رہی ہیں۔ گوگل نے فضائی آلودگی کا ذمہ دار کاروں کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ میں ایک کلو میٹر چلنے والی کاریں ایک ہزار سرچ کے برابر آلودگی پیدا کرنے کی ذمہ دار ہیں۔2007ء میں جدید سمارٹ فون کے منظرعام پر آنے کے بعد تمام ڈیٹا کو اسی میں محفوظ کیا جا رہا ہے اور سب کچھ موبائل فون اور کمپیوٹر میں محفوظ کرنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کے مطابق دنیا میں استعمال ہونے والی بجلی ڈیجیٹل ایکو سسٹم استعمال کرتی ہے اور یہ استعمال 2020ء تک بڑھتے بڑھتے 12 فیصد ہو جائے گا اور پھر 2030ء میں سالانہ اضافہ 60 فیصد کے برابر ہو گا۔ چنانچہ فیس بک ، ایپل اور گوگل نے 4 سال پہلے ری نیوایبل انرجی کے استعمال پر غور کیا تھا۔ اب مزید 20 کمپنیاں اس کا حصہ ہیں مگر بدقسمتی سے سرور اورکمپیوٹر نیٹ ورک 50 فیصد بجلی استعمال کرتے ہیں جبکہ ہمارے زیر استعمال آلات مزید 43 فیصد اور انہیں بنانے والی فیکٹریاں 16 فیصد بجلیاں استعمال کرتی ہیں۔ ایک پی سی کمپیوٹر 8 گھنٹے میں پونے دو سو گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج کرتا ہے اس طرح آپ ہزاروں کمپیوٹرز کے ذریعے خارج ہونے والی توانائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ فروری 2011ء میں ایک بٹ کائن کی شرح تبادلہ محض ایک ڈالر تھی۔ اس کی قیمت دن دگنی اوررات چگنی ہو گئی ۔ اور ایک اندازے کے مطابق بٹ کائن کی تیاری کے لیے آنے والے دور میں 27 لاکھ امریکی گھرانوں کے برابر بجلی استعمال ہو گی اور یہ دنیا بھر میں استعمال ہونے والی بجلی کا 0.3 فیصد ہو گا۔