اقبال کے خواب دیرینہ کی تعبیر اور قائد کی انتھک محنت و جاں فشانی کا ثمر پاکستان لاکھوں مسلمانان ہند کے خون کے نذرانوں کے عوض حاصل کیا گیا، لیکن اقتدار کی رسہ کشیوں، معاشی زیادتیوں، ناقص حکمت عملی اور نا اہل قیادت کے باعث 16 دسمبر 1971 کو مشرق پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ سن 1970 کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ اکثریتی جماعت بن کر سامنے تو آئی لیکن اسے اقتدار سے محروم رکھا گیا، انتخابات کے نتائج اور 6 نکات کی نامنظوری پر شیخ مجیب نے ملک گیر ہڑتال اور احتجاج کی کال دی تو پورے بنگال میں ہنگامے، توڑ پھوڑ اور گھیراؤ جلاؤ کا آغاز ہوا۔
صورت حال اس نہج پہ پہنچی کہ ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغی افسروں اور سپاہیوں نے علیحدگی پسند تنظیم مکتی باہنی قائم کر لی جس کی بھارت نے بھرپور پشت پناہی کی۔ وطن کے مشرقی بازو میں کشیدہ حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے 25 مارچ 1971 کو پاک فوج نے آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا، اسی دوران باغیوں کے لیے بھارتی اسلحہ و گولہ بارود ڈھاکہ پہنچنے لگا، دسمبر 1971 کے اوائل میں بھارت نے سرحد پر اہم ٹیلوں اور جنگی نقطہ نظر سے اہم کئی اہم پاکستانی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
بھارت نے تین اور چار دسمبرکی درمیانی شب ڈھاکہ ایئرپورٹ پر بھرپور حملہ کیا، جنگ کا باقاعدہ آغاز ہونے سے پہلے ہی مکار دشمن مشرقی بازو کو تین اطراف سے گھیر چکا تھا۔ ایک طرف بھارت کی 8 ڈویژن تازہ دم فوج، 80 فضائی اسکوارڈنز اور ایک لاکھ مکتی باہنی کے باغی تو دوسری جانب پاک فوج کی صرف تین انفنٹری ڈویژنز، پی اے ایف کا ایک اسکوارڈن، ایک ہوائی اڈہ، ایک ریئر ایڈمرل اور چار مسلح کشتیاں مقابل تھیں۔
پاکستان کو پے درپے جیسور، ناٹور، برہمن باڑیہ، چاند پوراور میمن سنگھ سیکٹرز میں پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ چھ اور سات دسمبر کو بھارتی لڑاکا طیاروں کے ہاتھوں ڈھاکا ایئرپورٹ کے رن وے کی تباہی کے باعث پاک فضائیہ بھی ناکارہ ہو کر رہ گئی۔ بھارتی مداخلت ، جنگی سازو سامان کی کمی اور ذمہ دار قیادت کا فقدان مشرقی پاکستان کو لے ڈوبا۔ 16 دسمبر 1971 کو پاکستان ٹوٹ گیا، ایک نیا ملک بنگلا دیش بن گیا۔ 16 دسمبر کے سانحے کی تحقیقات کے لیے محمود الرحمان کمیشن قائم کیا گیا مگر مکمل رپورٹ آج تک سامنے نہیں آسکی۔