Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

وسطی یورپ میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی

$
0
0

روس نے کچھ عرصہ قبل سرد جنگ کے بعد اپنی مغربی سرحد پر بہت بڑی جنگی مشقیں کیں۔ جنگی مشقیں یوکرین میں ممکنہ جنگ کے پس منظر میں سر انجام دی گئی تھیں اور ان میں بیلاروس اور روسی افواج کی مطابقت کا امتحان لیا گیا۔ خیال رہے کہ بیلاروس روس کا اتحادی ہے۔ دوسری طرف پولینڈ، یوکرین اور بالٹک ریاستوں کے سیاست دانوں نے ان جنگی مشقوں کو جارحیت شمار کیا کیونکہ وہ روس پر اعتماد نہیں کرتے۔ انہوں نے ان جنگی مشقوں اور روس کے عزائم کو جواز بنا کر اپنے ملکوں میں ’’سماجی عسکریت‘‘ کو فروغ دینے کا کام شروع کر رکھا ہے۔

وہاں دراصل ایسی رضاکارانہ دفاعی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جو متعدد اوقات مسلح بھی ہوتی ہیں۔ ان تنظیموں یا گروہوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے خود کو ’’خدمت وطن‘‘ کے لیے وقف کررکھا ہے۔ ان کا خمیرانتہا پسند دائیں بازو کی سیاسی تنظیموں سے اٹھا ہے۔ لیکن یہ صرف ’’روسی خطرہ‘‘ نہیں جس کی وجہ سے دائیں بازو کے سیاست دان اپنے معاشروں میں عسکریت (ملٹرئزیشن) کی ایک خاص انداز میں ترویج کر رہے ہیں۔ 1989ء کے بعد آزاد خیال جمہوریت نے اس خطے میں قدم رکھا اور نیٹو کی رسائی بھی وسطی یورپ تک ہوئی۔ یہ خطہ پہلے سوویت یونین کے زیر اثر تھا۔

اس دوران آہستہ آہستہ یہاں عسکریت پسندی کا انحطاط ہوا اور مغربی یورپ کی طرز پر سول جمہوریت کی جانب سفر کا آغاز ہوا۔ نتیجتاً ان کی فوجوں کی تعداد کم ہوئی اور ان ممالک میں فوج کی حیثیت پیشہ ور قوت تک محدود ہو گئی۔ البتہ گزشتہ چند سالوں میں صورت میں بدلاؤ آیا ہے اور وسطی یورپ میں اس ماڈل کو سنجیدہ چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خطے میں نچلی سطح پر منظم ہونے والے پیرا ملٹری عناصر کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ وہ عوامی مقامات پر نظر بھی آنے لگے ہیں۔ یہ عناصر بلغاریہ اور ہنگری میں مہاجرین کے خلاف کارروائیوں میں بھی ملوث ہیں۔ یہ سلواکیہ، جمہوریہ چیک ، بالٹک اور پولینڈ میں بھی سرگرم ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2019ء تک پولینڈ میں 53 ہزار افراد کو ’’علاقائی دفاعی فورس‘‘ کے لیے عسکری تربیت دی جائے گی۔

یہ ایک نئی فورس ہے جس کی نوعیت عسکری ہے لیکن اس میں شامل عام مقامی شہری ہیں اور ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو پہلے ہی کسی پیراملٹری فورس کے رکن ہیں۔ پولینڈ میں تاریخ کی تعلیم میں ان واقعات پر زیادہ زور دیا جانے لگا ہے جن کی نوعیت عسکری ہے۔ صورت حال میں تبدیلی کا مشاہدہ عوامی مقامات پر کیا جا سکتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں استعمال ہونے والے کپڑے اور ساز و سامان مقبول ہو رہے ہیں اور مختلف کنبوں کو ایسی جگہوں پر پکنک مناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جہاں شوٹنگز ہوتی ہیں اور اسلحے کی نمائش ہوتی ہے۔مختلف مقامات پر بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا جا سکتا ہے جو عسکری نوعیت کے لباس پہنے ہوتے ہیں۔

ایسٹونیا میں رضا کاروں کے لیے ہفتہ وار عسکری تربیت کا بندوبست کیا جا رہا ہے جسے پیرا ملٹری گروپس سرانجام دے رہے ہیں۔ سرکاری سطح پر یہ نظریاتی تبدیلی پولینڈ کے وزیر دفاع کے ایک بیان سے واضح ہوتی ہے۔ انہوں نے بچوں کے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں مخالف قوتوں کے خلاف دفاع کے لیے لڑنے کی اہمیت پر زور دیا۔ ہنگری میں حکومت کنڈر گارٹن کی سطح سے شروع ہونے والے قومی دفاع کے ایک پروگرام پر عمل درآمد کر رہی ہے۔ اس میں سکول کی سطح پر بندوق چلانے کے ساتھ ساتھ مزید عسکری تربیت دی جائے گی۔ اسٹونیا اور پولینڈ میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہنگری کے وزیر دفاع عام لوگوں کو عسکری تربیت دینے کی ترویج کر رہے ہیں۔ 

وسطی یورپ کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے ان کے معاشروں کو مہاجرین، دہشت گردوں اور یوکرین کے بحران سے پیدا شدہ صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے جس چیلنج کا سامنا ہے اس کی تیاری ضروری ہے اور یہ سب اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ تاہم معاشرے میں عسکریت پسندی کے یوں فروغ سے فوجی حکام اور سول سوسائٹی دونوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ تبدیلی جمہوری اقدار کے خلاف ہے اور اس سے آئین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس کا ایک اورطرح کا اثر یہ ہے کہ مخالفین کو دبانے کے لیے ان پر غداری کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔

پولینڈ اور ہنگری میں دیکھا گیا ہے کہ حقوق کی بات کرنے والوں کو غدار کے طور پر پیش کیا گیا اور ان کے خلاف پرتشدد کارروائیاں بھی ہوئیں۔ خطے میں پھیلنے والے عسکریت پسند انہ خیالات اور قوم پرستی کی دو وجوہ بیان کی جاتی ہیں، یہ دہشت گردی کا خطرہ اور روس کی جانب سے خدشات ہیں۔ لیکن بات یہاں تک مکمل نہیں ہوتی۔ ایک اور وجہ ان وعدوں کا پورا نہ ہونا ہے جو 1989ء کے بعد (سوویت یونین کا انحطاط) کیے گئے تھے۔ عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ انہیں معاشی میدان میں نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ اگر ان کے حقیقی مسائل کو مثبت سوچ کے ساتھ حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو اس نوع کے خیالات فروغ پاتے رہیں گے۔

رضوان عطا


 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

Trending Articles