ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے صوبے کے پورے نظام تعلیم کو انگلش میڈیم بنادیا ہے اور پنجاب میں اِس سال سے پہلی جماعت کے طلبہ بھی انگریزی میں تعلیم حاصل کریں گے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ صوبے میں چینی زبان کی تعلیم کا اہتمام کرے گی اور بہت جلد صوبے کے طلبہ پر انگریزی، اردو اور سندھی کے ساتھ چینی زبان کا بوجھ بھی ڈال دیا جائے گا۔
دنیا پر نہ کبھی گونگوں نے حکومت کی ہے، نہ انھوں نے ترقی کے میدان میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہے۔ ورنہ ہمارے حکمران قوم سے کہتے کہ اب تجھے گونگوں کی زبان سیکھنی ہوگی۔ اس صورتِ حال کو دیکھا جائے تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ میاں شہبازشریف اور سید قائم علی شاہ جیسے لوگ ایک سطح پر لسانی عسرت اور دوسری سطح پر ایسے لسانی فاقے کا شکار ہیں جو قوموں کو ہلاک کرسکتا ہے۔
جہاں تک میاں شہبازشریف کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں لوگ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے صوبے پر انگریزی امریکہ کے اشارے پر مسلط کی ہے جو ملک کے سب سے بڑے اور ’’حکمران صوبے‘‘ کے عوام کو تہذیبی خلا سے دوچار کرکے پاکستان پر وہ نسل مسلط کرنا چاہتا ہے جس کا اس کے مذہب، تہذیب، تاریخ اور لسانی ورثے سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ہمارے ملک میں غیرملکی سازش کا نظریہ بہت مقبول ہے اور اس کے مقبول ہونے کے تاریخی اسباب ہیں، لیکن سازش خفیہ ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی سازش سے کہیں زیادہ منصوبے، پالیسی اور حکمت ِعملی سے کام لے رہے ہیں۔
پنجاب میں انگریزی کا تازہ ترین تسلط بھی سازش سے زیادہ امریکہ کی پالیسی اور حکمت عملی ہے اور میاں شہبازشریف امریکہ کی پالیسی کے تناظر میں ’’مقامی لارڈ میکالے‘‘ بن کر ابھرے ہیں۔ لارڈ میکالے ہندوستان کے لوگوں کو ان کی تہذیب سے کاٹ کر انھیں انگریزی کا دائمی غلام بنانا چاہتا تھا اور اس کی تعلیمی حکمت عملی بدنیتی پر مبنی تھی۔ لیکن میاں شہبازشریف جو کچھ کررہے ہیں ’’نیک نیتی‘‘ سے کررہے ہیں، اس لیے وہ لارڈ میکالے سے ہزار گنا زیادہ خطرناک اور قابلِ مذمت ہیں، اس لیے کہ انھوں نے ’’سازش‘‘ کو ’’پالیسی‘‘ بنادیا ہے۔ سید قائم علی شاہ کا مسئلہ سازش سے زیادہ کم فہمی سے متعلق ہے۔ انھیں معلوم ہی نہیں کہ چینی زبان میں چین ترقی کرسکتا ہے، پاکستان نہیں۔ پاکستان اگر ترقی کرسکتا ہے تو صرف اردو، سندھی، پنجابی، پشتو یا بلوچی میں۔ اس لیے کہ زبان کا تعلق کسی قوم کی تہذیب، اس کے انفرادی اور اجتماعی شعور اور لاشعور سے ہوتا ہے۔ اور انگریزی اور چینی نہ ہماری تہذیب میں جڑیں رکھتی ہیں اور نہ ہی وہ ہمارے انفرادی اور اجتماعی شعور اور لاشعور کا حصہ ہیں۔
پاکستان میں زبان کی اہمیت اور اس کے بحران پر گفتگو کرتے ہوئے بانیٔ پاکستان قائداعطم محمد علی جناح کا حوالہ دینا ناگزیر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قائداعظم نے 1949ء میں فرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان صرف اردو ہوگی۔ اہم بات یہ ہے کہ قائداعظم نے یہ بات مشرقی پاکستان میں کہی تھی جہاں بنگلہ زبان کا تعصب شدید تھا۔ لیکن بدقسمتی سے قائداعظم کے لسانی مؤقف کو سیاسی تناظر میں دیکھا اور بیان کیا جاتا ہے، حالانکہ قائداعظم کے لسانی مؤقف کا تہذیبی اور لسانی پہلو سیاسی پہلو سے ہزار گنا اہم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو قائداعظم کی مادری زبان نہیں تھی، تعلیمی زبان نہیں تھی، اظہار کی زبان نہیں تھی، اور نہ ہی قائداعظم اردو میں سوچتے تھے۔ ان کی مادری زبان گجراتی تھی، تعلیم کی زبان انگریزی تھی۔ قائداعظم گفتگو بھی انگریزی میں کرتے تھے اور سوچتے بھی انگریزی ہی میں تھے۔ چنانچہ اس تناظر میں دیکھا جائے تو انھیں انگریزی کو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان بنانا چاہیے تھا۔ ہمارے سیکولر اور لبرل حضرات کا اصرار ہے کہ قائداعظم پاکستان کو جدید اور سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو انگریزی ہی کو قائداعظم کا انتخاب ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ انگریزی ’’جدید‘‘ تھی، اور اردو جدید لوگوں کے نزدیک ایک ’’پسماندہ‘‘ زبان تھی۔ مگر قائداعظم اردو کی حمایت میں تقریباً مجاہد، یا سیکولر لوگوں کی اصطلاح میں ’’Millitant‘‘ بن کر کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے اپنے انفرادی ذوق کو ملت کے اجتماعی ذوق پر قربان کردیا۔ لیکن میاں شہبازشریف قائداعظم سے بھی بڑے رہنما اور ان سے بھی بڑے انگریزی دان بن کر ابھرے ہیں، اور جو بات گویا قائداعظم کو بھی نہ سوجھی وہ میاں شہبازشریف کو سوجھ گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قائداعظم نے انگریزی کے بجائے اردو کا مقدمہ کیوں لڑا؟ کیا وہ یو پی اور سی پی کے کسی ’’لسانی‘‘ تعصب میں مبتلا تھے؟ کیا وہ پاکستان بنتے ہی بنگالیوں کو ناراض کرنا چاہتے تھے؟ کیا وہ چاہتے تھے کہ قوم جدید نہ بنے؟
ایسا نہیں ہے۔ قائداعظم نے اردو کا مقدمہ ’’میرٹ‘‘ کی بنیاد پر لڑا۔ انھیں معلوم تھا کہ اردو نے گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں عربی اور فارسی سے زیادہ بڑا مذہبی ادب پیدا کیا ہے۔ اردو میں بڑے مفسر پیدا ہوئے ہیں۔ اردو نے علم حدیث کے دائرے میں بڑا کام پیش کیا ہے۔ اردو نے سیرت کے موضوع پر سیرت کے تقاضوں کا حق ادا کرنے کی شاندار کوشش کی ہے۔ اردو نے فقہ کی عظیم الشان روایت کو زندہ رکھا اور اسے ایک حد تک آگے بڑھایا ہے۔ اردو نے شاعری کی عظیم الشان روایت پیدا کی ہے۔ اردو نے برصغیر کیکسی بھی دوسری زبان سے بڑھ کر ترجمے کی روایت کو اپنایا ہے۔ اردو نے تمام اہم علوم و فنون میں اظہار کے سانچے پیدا کیے ہیں۔ اردو کی وسیع المشربی کا یہ عالم ہے کہ اس نے دنیا کی کسی بھی زبان سے سیکھنے سے انکار نہیں کیا۔ اردو دِلّی میں پیدا ہوئی یا یوپی میں یا پنجاب میں… اس بارے میں وثوق سے کچھ بھی کہنا دشوار ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اردو پورے برصغیر کی زبان ہے اور اس نے یہ اہمیت انگریزی کی طرح نوآبادیاتی تجربے سے حاصل نہیں کی، اس نے یہ مقام سرکار اور دربار کی سرپرستی سے حاصل نہیں کیا، بلکہ اردو کی حیثیت اس کے مزاج اور اس کی تخلیقی و تہذیبی قوت کا حاصل ہے۔ اس قوت نے پورے برصغیر کے مسلمانوں ہی کو نہیں ہندوئوں کو بھی گہرائی سے متاثر کیا ہے۔ اس سلسلے میں منشی پریم چند، رگھوپتی سہائے، فراق اور راجندر سنگھ بیدی کی مثال پیش کردینا ہی کافی ہے۔ پریم چند اردو افسانے کے بنیاد گزار ہیں۔ فراقؔ اردو کے تین بڑے نقادوں میں سے ایک ہیں اور ان کی غزل جدید غزل کی سب سے توانا آواز ہے۔ رہے راجندر سنگھ بیدی تو وہ بلاشبہ اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار ہیں۔ اردو کی قوت کا ایک مظہر یہ ہے کہ بھارت میں سنیما کی پوری روایت اردو پر کھڑی ہے۔ چنانچہ قائداعظم کو معلوم تھا کہ پاکستانی قوم کو اردو سے کاٹنا اس کو اس کی مذہبی، تہذیبی اور تاریخی روایت سے کاٹ دینا ہے۔
دیکھا جائے تو میاں شہبازشریف قائداعظم کے ’’کارکن‘‘ بننے کے بھی لائق نہیں، مگر وہ لسانی محاذ پر قائداعظم کے ’’استاد‘‘ بن کر کھڑے ہوگئے ہیں، حالانکہ انھیں زبان کے بارے میں الف ب بھی معلوم نہیں۔ انھیں کچھ اور کیا یہ تک معلوم نہیں کہ پڑھنے کی زبان پڑھنے سے آتی ہے، لکھنے کی زبان لکھنے سے آتی ہے، بولنے کی زبان بولنے سے آتی ہے اور سوچنے کی زبان سوچنے سے آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے نصاب کے سوا اور کہاں انگریزی پڑھیں گے؟ اور اگر نہیں پڑھیں گے تو ان کی پڑھنے کی زبان کیسے بہتر ہوگی؟ سوال یہ ہے کہ ہمارے انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم اسکول کے کام اور امتحانات کی کاپیوں کے سوا اور کہاں انگریزی لکھیں گے؟ اور اگر نہیں لکھیں گے تو انھیں لکھنے کی زبان کیسے آئے گی؟ اور اگر ہمارے یہ طالب علم کلاس روم کے سوا کہیں انگریزی نہیں بولیں گے تو انھیں بولنے کی زبان کہاں سے آئے گی؟ اور اگر ہمارے یہ طالب علم کلاس کے سوا کہیں بھی انگریزی میں نہیں سوچیں گے تو ان کی سوچنے کی زبان کس طرح ترقی کرے گی؟ اور اگر یہ سب کچھ نہیں ہوگا تو قوم کو انگریزی میڈیم بنانے کا کیا فائدہ ہے؟ اس طرح پنجاب کی نئی نسلیں اپنی مذہبی اور تہذیبی میراث اور قومی نفسیات سے بھی محروم ہوجائیں گی اور وہ ’’ترقی‘‘ بھی نہیں کرسکیں گی، یہاں تک کہ وہ بیچاری ’’جدید‘‘ بھی نہیں کہلا سکیں گی۔ اس اعتبار سے سوال یہ ہے کہ میاں شہبازشریف پنجاب سے محبت کررہے ہیں یا اس کے خلاف سازش کررہے ہیں؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ انگریزی معلومات اور علم کی زبان ہے، اور وہ غلط نہیںکہتے۔ لیکن جو لوگ یہ بات کہتے ہیں انھیں یہ معلوم نہیں کہ کسی قوم میں تخلیق کی صلاحیت، معلومات یا علم کو دماغ میں جمع کرنے یا Accumulate Assimilate کرنے سے پیدا ہوتی ہے، اور معلومات اور علم کا انجذاب اس زبان میں ہوسکتا ہے جو قوم کی تہذیبی زبان ہو، جو اس کے مجموعی ماحول میں موجود ہو، اور جس سے وہ شعوری طور پر ہی نہیں لاشعوری طور پر بھی اثرات قبول کررہی ہو۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں ایسی زبان یا تو اردو ہے یا پھر پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ میاں شہبازشریف اگر پنجاب کو ’’پنجابی میڈیم‘‘ اور قائم علی شاہ سندھ کو ’’سندھی میڈیم‘‘ بنادیں گے تو وہ اپنے صوبے کے لوگوں کو زیادہ تخلیقی بنائیں گے۔ اس لیے کہ یہ زبانیں کم از کم ہمارے صوبوں کے ماحول کا حصہ ہیں۔ انگریزی سے ہمارے تعلق کی ایک مثال خود اقبال کی شخصیت ہے۔ اقبال پانچ چھ زبانیں جانتے تھے۔ انھوں نے اردو اور فارسی میں شاعری کی اور انگریزی میں ’’خطبات‘‘ لکھی۔ خطبات بھی ظاہر ہے کہ اقبال ہی کی تصنیف ہے، اس لیے اس کی فکری اور تخلیقی سطح بھی بلند ہے، لیکن اس کے باوجود خطبات کی سطح اقبال کی اردو اور فارسی شاعری کا پاسنگ بھی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزی اقبال کی تہذیبی زبان نہیں ہے۔ اس کے برعکس اردو اور فارسی دونوں اقبال کی تہذیبی زبانیں ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر اقبال کا معاملہ یہ ہے تو انگریزی کے سلسلے میں عام لوگوں کا قصہ کیا ہوگا! اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم انگریزی کو دیس نکالا دے دیں۔ مسلمان دنیا کی کسی بھی زبان کے خلاف نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں زبانوں کو اپنی نشانی کہا ہے۔ چنانچہ ہمیں پوری پاکستانی قوم کو انگریزی سکھانی چاہیے اور بہترین انگریزی سکھانی چاہیے، لیکن صرف اس لیے کہ وہ انگریزی کا عام کیا علمی متن بھی پڑھ اور سمجھ سکیں اور ضرورت کے تحت انگریزی میں تھوڑی بہت گفتگو کر سکیں۔