Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

History of Pakistan and US Relations By Shenawaz Farooqi

$
0
0


ہمارا زمانہ فتنۂ الفاظ کا زمانہ ہے۔ چنانچہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد انفرادی زندگی سے بین الاقوامی زندگی تک الفاظ کے ذریعے ایک دوسرے کو دھوکا دینے میں لگی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں کہیں صرف الفاظ کفایت کررہے ہیں، کہیں اصطلاحیں اور کہیں نعرے… لیکن ان سب کی بنیاد الفاظ ہیں۔ لوگ کہتے ہیں چنگیز خان انسانی تاریخ کی بدترین شخصیت تھا، اس نے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو قتل کیا۔ کہنے والے غلط نہیں کہتے۔ چنگیز خان واقعتاً ایک شقی القلب انسان تھا۔ لیکن اُس کی خوبی یہ تھی کہ وہ الفاظ اور اصطلاحوں سے کھیلنے اور ان کے ذریعے اپنی شقاوت کو خوشنما بنانے والا شخص نہیں تھا۔ چنگیز خان نے کبھی نہیں کہا کہ وہ انسانی آزادی کا احترام کرتا ہے۔ اس نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ جمہوریت کا علَم بردار ہے۔ اس کو کبھی یہ کہتے نہیں سنا گیا کہ میری قومی زندگی میں انسانی حقوق کے تحفظ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن ساری مغربی دنیا بالخصوص امریکہ خود کو انسانی آزادی کا محافظ، انسانی حقوق کا علَم بردار اور جمہوریت کا چیمپئن بھی کہتا ہے اور دوسری قوموں کے خلاف سازشیں بھی کرتا ہے۔ امریکہ کی سابق وزیرخارجہ میڈلین البرائیٹ سے بی بی سی ورلڈ پر ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ عراق پر عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے وہاں دس سال میں 10 لاکھ افراد دوائوں اور غذا کی قلت سے ہلاک ہوگئے، ان افراد میں 5 لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہتی ہیں۔ البرائیٹ نے ایک لمحے توقف کیا اور پھر پورے وثوق کے ساتھ فرمایا:

“It is acceptable and worth it.”

یعنی دس لاکھ معصوم لوگوں کی ہلاکتیں ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں اور ان پر ہمیں کوئی شرمندگی نہیں۔ یہاں تک کہ ہم انہیں گھاٹے کا سودا بھی نہیں سمجھتے۔

دیکھا جائے تو ’’پاک امریکہ تعلقات‘‘ ایک بھاری بھرکم عنوان ہے لیکن ان تعلقات کے پردے میں سازشوں کی ایک تاریخ چھپی ہوئی ہے۔ المناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے دو ملکوں کے تعلقات کو آقا اور غلام کے تعلق میں ڈھال دیا ہے، اور نہ صرف یہ بلکہ اس سے بھی بڑا جرم یہ کیا ہے کہ انہوں نے غلامی کے اس تجربے کو ’’مدلل‘‘ بنانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ لیکن پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کو پاکستان کے خلاف امریکہ کی سازشوں کی تاریخ کہنے کا کیا جواز ہے؟

جنرل ایوب خان نے اگرچہ مارشل لا 1958ء میں لگایا مگر امریکہ کی خفیہ دستاویزات سامنے آنے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ 1954ء سے امریکہ کے رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ سیاست دان ملک کو تباہ کررہے ہیں اور فوج انہیں ہرگز ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ جنرل ایوب کے ان رابطوں سے ظاہر تھا کہ جرنیل ملک کے سیاسی اور جمہوری نظام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، اور وہ 1958ء میں ان سازشوں کو نتیجہ خیز بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ امریکہ جمہوریت کو اپنا آئیڈیل کہتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ پوری دنیا میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لیے کام کررہا ہے، لیکن اس کے باوجود اُس نے جنرل ایوب کو ان کے عزائم سے باز رکھنے کی معمولی سی کوشش بھی نہ کی۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا اور انہیں امریکہ کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اہم بات یہ تھی کہ جنرل ایوب نے پاکستان کے جن سول حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کیا تھا وہ کمیونسٹ یا امریکہ مخالف نہ تھے۔ وہ سب کے سب امریکہ کے حامی بلکہ ’’امریکہ پرست‘‘ تھے، لیکن اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان میں جمہوریت کی بقا اور اسے فوجی آمریت سے محفوظ بنانے کے لیے کچھ نہ کیا۔ حالانکہ 1958ء سرد جنگ کا زمانہ تھا اور کمیونزم کے خلاف جنگ کے سلسلے میں امریکہ کو اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ پاکستان جیسے بڑے ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرے۔ لیکن امریکہ نے جمہوریت کے خلاف سازش میں جنرل ایوب کا بھرپور ساتھ دیا۔ لیکن یہ ساتھ خود جنرل ایوب کے لیے اتنا شرمناک بنا کہ ان کی خودنوشت کے عنوان تک میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ ہم امریکہ کے دوست ہیں اس کے غلام نہیں۔

پاکستان کے خلاف امریکہ کی ایک اور بڑی سازش 1962ء میں سامنے آئی۔ اس سال چین بھارت جنگ ہوئی۔ اس جنگ کا دائرہ وسیع تھا اور چینی قیادت کو معلوم تھا کہ بھارت اس جنگ میں اپنی پوری جنگی قوت جھونکنے پر مجبور ہوجائے گا۔ چنانچہ چین نے پاکستان سے کہا کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھائے۔ کشمیر تقسیم برصغیر کے فارمولے کی رو سے پاکستان کا حصہ ہے، چنانچہ پاکستان طاقت استعمال کرے اور کشمیر پر قبضہ کرلے۔ مگر یہ بات امریکہ کو معلوم ہوگئی اور اس نے پاکستان کے حکمرانوں سے کہا کہ وہ بھارت کے خلاف کارروائی سے گریز کریں۔ امریکہ نے پاکستان کو یقین دلایا کہ اگر وہ اس موقع پر بھارت کے خلاف اقدام سے باز رہا تو چین بھارت جنگ کے بعد امریکہ مسئلہ کشمیر کو حل کرا دے گا۔ لیکن چین بھارت جنگ ختم ہوگئی اور امریکہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں کوئی کردار ادا نہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ جب پاکستان کو مذکورہ یقین دہانی کرا رہا تھا تو پاکستان امریکہ، اور بھارت سوویت یونین کے حلقہ اثر میں تھا اور پنڈت نہرو خود کو سوشلسٹ کہا کرتے تھے۔ لیکن امریکہ نے اس کے باوجود دوست کی پیٹھ میں خنجر گھونپا اور اپنے دشمن کے دوست کو تقویت فراہم کی۔

1971ء کی پاک بھارت جنگ میں امریکہ کی سازشوں کی نئی صورتیں سامنے آئیں۔ مشرقی پاکستان کا بحران پاکستان کا داخلی مسئلہ تھا اور بھارت کو اس بحران میں مداخلت کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔ لیکن بھارت نے مداخلت کی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ اس مرحلے پر پاکستان نے امریکہ سے مدد کی درخواست کی جسے یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ امریکہ پاکستان کی مدد صرف اس صورت میں کرسکتا ہے جب اسے کسی کمیونسٹ ملک سے خطرہ لاحق ہو۔ لیکن جب پاکستان کا اصرار بڑھا تو امریکہ نے اپنا ساتواں بحری بیڑا پاکستان کی مدد کے لیے روانہ کرنے کا اعلان کیا، لیکن پاکستان ٹوٹ گیا اور امریکہ کا بحری بیڑہ کبھی پاکستان نہ پہنچ سکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ بیڑہ کبھی پاکستان کے لیے روانہ ہوا ہی نہ تھا۔ لیکن امریکہ کا اس جنگ میں اس سے بھی بھیانک کردار اُس وقت سامنے آیا جب پاکستان نے برادر اسلامی ملک اردن سے امریکی ساختہ ایف 104 طیارے طلب کیے۔ اس درخواست کے جواب میں اردن کے شاہ حسین نے 5 دسمبر 1971ء کو امریکہ کو ایک خط لکھا جس میں پاکستان کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے امریکہ سے درخواست کی کہ وہ اردن کو ایف 104 طیارے پاکستان کو فراہم کرنے کی اجازت دے۔ لیکن امریکہ نے اردن کو ایسا کرنے کی اجازت نہ دی۔ حال ہی میں سامنے آنے والی امریکہ کی خفیہ دستاویزات کے مطابق جنرل یحییٰ نے اس صورت حال میں امریکہ سے کہا کہ اگر وہ خود پاکستان کی مدد نہیں کرسکتا تو اردن کو ہی اس کی مدد کرنے دے، لیکن امریکہ نے جنرل یحییٰ کی بات کو بھی درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ یہاں تک کہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ 1971ء میں پاکستان امریکہ کا قریب ترین اتحادی تھا۔ وہ نیٹو اور سینٹو کا رکن تھا۔ بلاشبہ بھارت کمیونسٹ ملک نہیں تھا لیکن وہ کمیونزم کی سب سے بڑی علامت سوویت یونین پر انحصار کرنے والا ملک تھا اور اس کی کمزوری خطے میں سوویت یونین کی کمزوری اور اس کی قوت سوویت یونین کی قوت تھی، لیکن اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے بحران میں نہ خود پاکستان کی مدد کی اور نہ اردن کو اس کی مدد کرنے دی۔ امریکہ کے اس طرزِعمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ قوانین کی بہت زیادہ پابندی کرنے والا ملک ہے۔ حالانکہ عملی صورت حال یہ ہے کہ امریکہ نے درجنوں جنگیں ایجاد کی ہیں۔ درجنوں حکومتوں کے تختے الٹے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو کسی جواز کے بغیر قتل کیا ہے۔

امریکہ پاکستان کا کتنا ’’گہرا دوست‘‘ اور قوانین کا کتنا زیادہ پابند ہے اس کا اندازہ 1980ء کی دہائی میں ہونے والے ایف۔16 طیاروں کی خریداری کے معاملے سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے 1980ء کی دہائی میں امریکہ سے ایف۔16 طیارے خریدنے کے لیے ایک تجارتی سمجھوتہ کیا اور ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم پیشگی کے طور پر ادا کی، لیکن امریکہ نے سمجھوتے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے طیارے دینے سے انکار کردیا۔ اس کا کہنا تھاکہ پاکستان نے پریسلر ترمیم کی خلاف ورزی کی ہے چنانچہ امریکہ پاکستان کو ایف۔ 16 طیارے نہیں دے سکتا۔ یہ زیادتی کی انتہا تھی، لیکن امریکہ نے اس انتہا پر بھی قناعت نہ کی۔ اس نے نہ صرف یہ کہ طیارے نہیں دیے بلکہ پاکستان کی رقم ادا کرنے سے بھی انکار کردیا۔ تجارتی سمجھوتوں کی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ کسی ملک نے نہ چیز دی ہو نہ خریداری کی رقم لوٹائی ہو۔ امریکہ پاکستان کی یہ رقم بارہ سال تک دبائے بیٹھا رہا اور پھر بالآخر اُس نے اس کے عوض پاکستان کو کھانے کا تیل فراہم کیا۔ سوال یہ ہے کہ یہی دوستی ہے تو دشمنی کس کو کہتے ہیں؟ لیکن امریکہ کی دشمنی اور سازشوں کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوگیا۔

نائن الیون کے بعد جنرل پرویزمشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کردیا۔ پاکستان کے جرنیلوں نے امریکہ کے لیے فوج کو اپنی ہی قوم کے خلاف کھڑا کردیا۔ اس صورت حال کے نتیجے میں پاکستان کے پانچ ہزار فوجی اور تیس ہزار سے زیادہ عام شہری لقمہ اجل بن گئے۔ پاکستان کو 10 برسوں میں 70 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ لیکن امریکہ کے لیے سب کچھ گنوا دینے والوں کے ہاتھ میں ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ چیک پوسٹ جیسے سانحات آئے جن میں امریکہ نے پاکستان کی آزادی اور خودمختاری ہی کو نہیں امریکہ کے لیے قربانیاں دینے والی فوج کو بھی براہِ راست نشانہ بنایا۔ ایسا کرکے امریکہ نے یہ بتایا کہ وہ پاک فوج کو اپنی اتحادی نہیں کرائے کی فوج سمجھتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ پاکستان کے خلاف امریکہ کی سازشوں کی تاریخ کیوں بن گئی ہے؟

شاہنواز فاروقی

History of Pakistan and US Relations By Shenawaz Farooqi

Enhanced by Zemanta

Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

Trending Articles