↧
National Security by Talat Hussain
↧
Pakistan Real Problems by Hafeez Ullah Niazi
↧
↧
Johta Koun ??? by Anasar Abbasi
↧
Dhaka Fall by Shenawaz Farooqi
↧
Drones Killing Statistics By Sarwat Jamal
↧
↧
Nato Supply Line
↧
ہم ’زندگی‘ کے مسافر ہیں یا ’موت‘ کے ؟
![]()
آج صبح صبح ایک دوست نے اطلاع دی کہ اُن کے ایک دوست جو اپنے والد کے حالتِ نزع میں ہونے کی خبرسن کر اُن کو دیکھنے گئے تھے، انتقال کرگئے، جب کہ اُن کے والد کی حالت اب بہتر ہو رہی ہے۔یہ خبر سنتے ہی طائرِ خیال کسی طیارے کی طرح پرواز کرتاہوا ماضی کی ایک صبح میں جالنگرانداز ہوا۔اُس روز ہم نے اخبار میں ایک عجیب خبر پڑھی۔یہ ذکر ہے 2008ء کا۔خبر کچھ یوں تھی:
’’ پی آئی اے کی پروازPK352 اتوار20؍اپریل کی دوپہر ڈھائی بجے کراچی سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوئی۔سہ پہر تین بج کر تینتالیس منٹ پر جب طیارہ کوئٹہ ائر پورٹ پر اُتر رہا تھاتوکپتان سلیم الدین پر اچانک دِل کا دورہ پڑگیا۔اُن کی حالت غیر ہوگئی۔تاہم وہ طیارے کو بحفاظت اُتارنے میں کامیاب ہوگئے۔کپتان سلیم الدین کو ہنگامی طورپر کمبائنڈملٹری ہسپتال کوئٹہ پہنچایاگیا، جہاں اُنھیں انتہائی نگہداشت کے شعبہ میں رکھاگیا ہے۔یہی پرواز کوئٹہ سے اِسلام آباد بھی جانے والی تھی۔ کوئٹہ اِسلام آباد پرواز منسوخ کردی گئی۔ مسافروں کو پیر21؍اپریل کی دوپہر براستہ کراچی اِسلام آباد پہنچایا گیا‘‘۔
کراچی میں تو شاذ ونادر ۔۔۔ مگر دیگر پُرامن شہروں میں لوگوں نے اکثر آسمان پراُڑتے ہوئے پرندوں کوضرور دیکھاہوگا۔ اُڑنے کے دوران میں کبھی وہ اپنے پرسمیٹ لیتے ہیں کبھی پھیلالیتے ہیں۔رحمٰن کے سواکون ہے جو اُنھیں تھامے رکھتاہے؟مگر ہوائی جہاز کے متعلق یہی سمجھا جاتاہے کہ کپتان کے سواکون ہے جو اُسے تھامے رکھتاہو؟ لوگوں نے یہ منظر شاید شدید حیرت سے دیکھا کہ اِس پرواز کے مُسافر کامل ایک دِن کی تاخیر سے اِسلام آباد پہنچنے کے باوجود پی آئی سے خفا ہونے کی بجائے خداکاشکر اداکررہے تھے۔ اور دُعاکررہے تھے کہ اﷲ کپتان سلیم الدین کو صحتِ کاملہ عاجلہ عطافرمائے۔ بات بس اتنی سی تھی کہ ان میں سے کسی کی موت کا وقت نہیں آیاتھا۔ اﷲ نے کپتان سمیت سب کو بچا لیا۔
بزرگ کہتے تھے کہ ہرکام میں اﷲ کی مصلھت ہوتی ہے۔ اﷲ کی مصلحتیں ضروری نہیں کہ بندے پر کھل ہی جائیں۔ مگر جب کھلتی ہیں توآنکھیں ہی نہیں دِل کے دریچے بھی کھول دیتی ہیں۔بشرطے کہ گوشِ نصیحت کے دریچے کھلے ہوئے یعنی۔۔۔ ’’نیوش‘‘۔۔۔ ہوں!
ہم کٹھمنڈوجانے والی وہ پرواز کبھی نہیں بھول سکتے۔ جس سے ہمارے ایک محتاط دوست اپنی تمام تر تیاریوں کے ساتھ ایک ’’اہم موقع‘‘ کے حصول کے لیے نیپال جانے والے تھے۔ احتیاطاً قبل ازوقت گھر سے نکلے ۔ مگرراستے کے ٹریفک جام میں اِس بُری طرح پھنسے کہ بمشکل پرواز کی روانگی کے عین مقررہ وقت پر ائرپورٹ کی حدود میں داخل ہوسکے۔ لاؤنج میں داخلے کے ابتدائی مراحل بھاگم بھاگ اور خلافِ عادت ومزاج بڑی افراتفری میں طے کیے۔مگر جب کاؤنٹر پر پہنچے تو اطلاع ملی کہ :
’’ صاحب ! جہازتو بالکل ابھی ابھی روانگی کے لیے پیچھے دھکیلا جاچکاہے۔Push Back ہوگیاہے۔ آپ انتہائی تاخیر سے آئے ہیں۔آپ کے لیے محفوظ کردہ نشست خالی گئی ہے‘‘۔
تاخیر سے بچنے کے لیے اپنی تمام تراحتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود پرواز چھوٹ جانے پر وہ اپنی قسمت سے حددرجہ مایوس اورملول تھے۔ کہتے تھے کہ:’’مُجھ جیسا بدنصیب شخص رُوئے زمین پر شاید ہی کوئی ہوگا‘ کہ جس کے ہاتھ آیا ہوا موقع یوں ہاتھ سے نکل جائے‘‘۔
مگرکٹھمنڈو ائرپورٹ پر اُترنے سے قبل ہی جہاز گرکرتباہ ہوگیا۔جب یہ خبرملی تو وہ اپنے آپ کودُنیا کا خوش قسمت ترین فرد تصور کررہے تھے۔
بے شک جان کی حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ خودکشی حرام ہے۔ اپنی جان کوہلاکت میں ڈالنے کی ممانعت ہے۔ حتیٰ کہ ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی چھت پر سوتا ہے کہ جس پر کگرنہیں بنائی گئی ہے، جواِسے حالتِ خواب میں گرجانے سے محفوظ رکھ سکے تو اﷲ ایسے غیرذمہ دار شخص کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیتا۔مگر عتبہ بن ابوجہل کی طرح یہ سمجھ لینا کہ انسان اپنی ’’سیکیورٹی‘‘ کی مدد سے اپنی موت کاراستہ بھی روک لے گا(جس کادِن اور وقت ہی نہیں، موقع اور مقام بھی متعین ہے) عقیدے ہی نہیں تجربے اور مشاہدے کے بھی خلافہے۔ہم یہاں اُن متعدد واقعات کو دوہرانا نہیں چاہتے جن میں دیکھا گیا کہ جس’ ’ایک فرد کی جان کی حفاظت‘‘ کی خاطر ہزاروں جانوں سے کھیلا گیا،مگرجب ’’وقت‘‘ آپہنچا تواُس کی جان لاؤ لشکر کی موجودگی اورمحفوظ قلعوں کی حفاظت وحراست میں بھی کتنی آسانی سے چلی گئی۔
حیرت ہوتی ہے کہ خلاؤں میں چہل قدمی کرنے والوں، سمندرکی تہوں میں اُترجانے والوں، موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والوں اور جمناسٹک دِکھانے والوں کوتو موت سے خوف نہیں آتا۔مگر موت کا خوف سوار رہتاہے تو اُن لوگوں کے اعصاب پر کہ جوجاں باز و جاں نثار اور کمانڈو ہونے کے دعویدار ہوں۔ اوروہ جودُنیا کی واحد ’’سُپر پاور‘‘ ہونے کے دعویدار ہوں۔ کیا اُن کو اتنی سی بات نہیں معلوم کہ وہ دوسروں کو ہلاکت میں ڈالنے والی اِن تدابیر سے وہ اپنی طبعی موت کا راستہ روک سکتے ہیں نہ اپنے فطری زوال کا۔
سیدنا عُمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ ایک ایسی عظیم پاور کے سربراہ تھے جس کی حدیں مصری ،فلسطینی،ایرانی اورساسانی سرحدوں کو عبور کرتی چلی جارہی تھیں۔ مگر دیکھیے کہ وہ کبھی کسی سنسان مقام پر ایستادہ درخت کے نیچے اینٹ کاتکیہ لگا کر سو جاتے۔ کبھی’ محض ایک خادم‘ کی مشایعت میں یروشلم کے طُول طویل سفرپربغیر سیکورٹی اور بے لاؤ لشکر روانہ ہوجاتے۔ تاہم جب اﷲ کامقررکیاہواوقت آپہنچاتو خوداپنے ایوانِ حکومت (مسجدِ نبویؐ) کی محراب کے اندر نمازِفجر کی امامت کے محفوظ ترین موقع و مقام پر قاتلانہ حملہ ہوگیا۔
وہ بھی (ہمارے لڑکپن کی) ایک یادگارصبح تھی۔جس صبح ہم نے اخبار میں ایک عجیب خبر پڑھی۔غالباً یہ 1967ء کا قصہ ہے:
گزشتہ شب کراچی سے ہالہ جانے والی بس قومی شاہراہ پر طوفانی رفتارسے دوڑی چلی جارہی تھی کہ ڈرائیورکے اچانک بریک لگادینے پر گاڑی پہیوں کی دلخراش چنگھاڑ کے ساتھ ایک جھٹکے سے رُک گئی۔سوتے ہوئے مسافر ہڑبڑاکر جاگ اُٹھے۔ ڈرائیور نے کنڈیکٹر کو مخاطب کرکے کہا:’’پیچھے جوسفید پوش بزرگ گاڑی کو ہاتھ دے رہے تھے اُن کو بلاکر بس میں بٹھالو‘‘۔
کنڈیکٹر نے نیچے اُتر کر پیچھے دیکھا ۔مگر اُسے دُور دُور تک کوئی نظر نہیں آیا۔بس میں واپس چڑھ کر اُس نے ڈرائیور سے پوچھا کہ:
’’مجھے تو کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔ تُم کس بزرگ کی بات کررہے ہو؟‘‘
مگر جب ڈرائیورکی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو اُس نے مُڑ کر ڈرائیور کی طرف دیکھا۔ وہ اسٹیئرنگ پر سر رکھے سورہاتھا۔ کنڈیکٹر نے قریب پہنچ کر اُسے جھنجھوڑا تو پتا چلا کہ ابدی نیند سوچکاہے‘‘۔
موت کے فرشتے کوشاید اُس بھری پُری فراٹے بھرتی بس میں سے صرف ایک ہی شخص کی رُوح قبض کرنے کا حکم ملاتھا
Abu Nasar
↧
پشاور دھرنا …ممکنہ فوائد اور نقصانات............طلعت حسین
پاکستان تحریک انصاف نے نیٹو رسد کے خلاف دھرنا دے کر اپنا ایک وعدہ تو یقیناً پورا کردیا ہے۔ راولپنڈی سانحہ کے بعد جب اس کی تاریخ تبدیل کی گئی تو بہت سے ذہنوں میں یہ شکوک پیدا ہوئے کہ آیا خیبرپختونخوا کی حکومت سیاسی اتحادیوں کے ساتھ مل کر سڑکیں اور رستے بند کرنے کی اس دھمکی کو عملی جامہ پہنا پائے گی۔ کل ایک بڑے اجتماع کو اکھٹا کرکے عمران خان اور ہم خیال سیاسی جماعتوں نے اس حد تک تو کام کر دکھایا۔ جب بھی لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی پالیسی بنائی جاتی ہے تو اُس کے ممکنہ مثبت پہلووں کے ساتھ ساتھ کئی چیلنجز بھی جڑے ہوتے ہیں۔ چیلنجز بیان کرنے سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کو اس پالیسی کے ذر یعے جو فائدہ پہنچ سکتا ہے اُس کا احاطہ کرنا ضروری ہے۔ پنڈال میں بڑے بڑے بینرز پر لکھا ہوا یہ نعرہ ’’دھرتی ہماری، مرضی‘‘ ہماری اُس قومی جذبے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بیسیوں سالوں سے بیرونی دراندازی اور اندرونی لڑائیوں میں اس طرح گم ہوگیا ہے کہ وطن سے محبت کو ایک طعنے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
پاکستانیت یا پاکستانی ہونا غریبوں کے لیے بے معنی، متوسط طبقے کے لیے مذاکروں کا موضوع اور نام نہاد امراء کے لیے باعث تمسخر ہے۔ دھرتی کی عزت اُس کے تحفظ سے ہوتی ہے۔ جس ماں کی چادر میں چھید ہو اُ س کی اولاد یہ کبھی دعویٰ نہیں کرسکتی کہ انھوں نے اپنی اجتماعی عزت کی لاج رکھی ہے۔ ہمار ے وطن کا دامن تار تار ہے۔ عمو ماً سیاسی جماعتیں اس قسم کے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قومیت کے جذبے کو اپنے اور ملک کے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ملکی پرچم کو پارٹی پرچم سے اوپر لہرا کر اُن کروڑوں پاکستانیوں کی توجہ اور ستائش حاصل کرپائے جو خود کو سبز اور سفید رنگ کے سوا کسی اور رنگ میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ پاکستان تحریک انصاف اگرچہ خارجہ پالیسی کے ایک معاملے کو بنیاد بناکر قومی ضرورت اور اپنی دھرتی کے تحفظ کی بات کررہی ہے مگر اس موقعے پر اس نعرے کے اس طرح پھیلنے کے بہترین امکانات موجود ہیں کہ اس کو ایک قومی تحریک میں تبدیل کر دیا جائے۔
دوسرے الفاظ میں ظاہراً معاملہ نیٹو رسد بند کرنے اور ڈرون حملوں پر احتجاج کا ہے۔ مگر اس کے پیچھے پاکستان کی بطور ملک عزت نفس اور اُس کی خود مختاری کا بھی سوال ہے جس کا جواب دینے سے پہلے ہی حکمران ایک ایسی فضول بحث اور باہمی طعنوں کے کھیل کا آغاز کر دیتے ہیں کہ پوچھنے والا چکرا کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اگر اپنے تصور کو مزید وسعت دے تو وہ یقیناً اِ س خلا کو پر کرسکتی ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ابھی تک کسی نے ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس دھرنے کو اس وجہ سے بھی اہمیت مل رہی ہے کہ حکومت وقت تنقید برائے تنقید کے علاوہ کوئی خاص رد عمل نہیں بناپائی۔ وزیراعظم پاکستان ایک طرف ڈرون حملوں کو پاکستان کے مفادات اور سرزمین پر ضرب کاری کا درجہ دیتے ہیں اور اِن پر احتجاج کو جائز کہتے ہیں۔
مگر دوسری طرف اُن کے وزیراطلاعات اس کی عملی شکل کو شعبدہ بازی قرار دینے کے لیے ایک باقاعدہ پریس کانفرنس کر ڈالتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے پاس یا تو قومی غصے کے اظہار کا کوئی اپنا طریقہ ہونا چاہیے اور یا پھر بطور سیاسی جماعت اُس کو تحریک انصاف کے دھرنے کے ساتھ منسلک ہوکر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اُن کا افسوس بناوٹی نہیں ہے۔ اور وہ حقیقت میں بذریعہ اقدامات کرکے امر یکہ کو یہ پیغام دینا چاہتے ہے کہ اُس کی طرف سے ہونے والے حملے ناقابل قبول ہیں۔ ابھی تک نواز لیگ نے یہ دونوں کام نہیں کیے لہذا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ نواز لیگ کا موازنہ کچھ ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک کھلاڑی اورکمینٹٹر کا ہو ایک مید ان میں کھیل رہا ہے اور دوسرا شیشے کے کمرے میں بیٹھ کر تجزیوں اور بیانات سے خانہ پُری کر رہا ہے۔
مگر پاکستان تحریک انصاف کے سامنے چیلنجز بھی بے شمار ہیں۔ ماضی میں اس قسم کے دھرنے علامتی حیثیت رکھتے تھے۔ چند گھنٹے یا ایک دن اور ایک رات پر محیط احتجاج عملی بھی لگتا ہے اور اس کو سنبھا لنا بھی آسان ہوتا ہے مگر حکومت میں ہوتے ہوئے اپنے شہروں کو بند کرنا اور مسلسل عوامی احتجاج کی کیفیت برقرار رکھنا مشکل تو ہے ہی نا ممکن بھی بن سکتا ہے۔ انتخابات 2013ء سے پہلے مولانا طاہر القادری نے اسلام آباد میں جو احتجاج کیا وہ شاید ہماری حالیہ تاریخ کا طویل ترین احتجاج تھا۔ مگر طاہر القادری ہجوم کو باہر سے لائے تھے۔ وہ حکومت کا برج الٹانے کی بات کرر ہے تھے اُن کے لیے گڑبڑ کا پھیلنا سیاسی فائدے کا باعث بنتا ہوا نظر آرہا تھا۔ اگرچہ حضرت مولانا کا دھماکا اُن کے قاعدے کے مطابق آخر میں ایک بچگانہ پٹاخہ ثابت ہوا مگر وہ ان چار پانچ دنوں میں وہ کچھ کر پائے جو دوسری جماعتوں کے ہاتھ سے نہ ہوا۔
عمران خان کی جماعت طاقت میں ہے‘ اُس کو صوبہ چلانا ہے حکومت کی کارکردگی ویسے بھی واجبی سی ہے۔ ترقیاتی بجٹ آدھا سال مکمل ہونے کے باوجود نہ ہونے کے برابر استعمال ہوا ہے۔ ایسے میں احتجاج کے عمل کو جاری رکھنا ایک بڑا درد سر بن سکتا ہے۔ اگر خیبرپختونخوا کی حکومت نیٹو ٹرکوں کے جانے کے رستے کو بند کررہی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ افغانستان سے نکلنے والی افواج اور اُن کے سازوسامان کے ر ستے بھی روک رہی ہے تو وفاقی حکومت کے ساتھ ہم آ ہنگی بنائے بغیر اس احتجاج سے ممکنہ فائدے یکسر نقصان میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اگر پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے ان تمام ممکنات پر غور کیے بغیر میدان میں چھلانگ لگا د ی ہے توخسار ے کا خانہ فائدے کے کھا تے سے بھاری بھی ہو سکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"
↧
ٹی وی اور کمپیوٹر کے آگے گھنٹوں بیٹھنا مضر صحت
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ٹیلیوژن پرہر روز اپنے پسندیدہ پروگراموں سے دل بہلانا یا کئی کئی گھنٹے کمپیوٹر کے آگے بیٹھے رہنے کی عادت نوجوانوں کوغیرفعال طرز زندگی کا عادی بنا رہی ہے، جس سے مستقبل میں تندرست نوجوانوں میں صحت کی خرابی کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والے محقیقین نے پتا لگایا ہے کہ ٹی وی یا کمپیوٹر کے آگے زیادہ دیر بیٹھنے سے صحت پر پڑنے والے نقصانات بڑوں اور نوجوانوں دونوں پر یکساں طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔ زیادہ دیر تک بیٹھنےکی وجہ سے حتی کہ 30 برس کے نوجوان کے جسم کی شریانیں بھی سخت ہو جاتی ہیں یا اکڑ جاتی ہیں جسے میڈیکل سائنس میں'کارڈیو ویسکیولر'یا دل کے امراض کے خطرے کی علامت تصور کیا جاتا ہے ۔ڈچ ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ جن لوگوں کے روزمرہ معمولات میں زیادہ دیر تک ٹی وی دیکھنا شامل ہوتا ہے وہ عموما ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر دن گذارتے ہیں اور اپنی جگہ سے اٹھنے میں کسلمندی دیکھاتے ہیں اور رفتہ رفتہ جسمانی سرگرمیوں سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ماسٹریچٹ یونیورسٹی آف نیدر لینڈ سے تعلق رکھنے والی محقیق ازابیلا فریرا کے مطابق ،''تشویش کی بات یہ ہے کہ ،ایک کم فعال زندگی کے باعث ایک شخص کی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات کو روزمرہ کی جسمانی سر گرمیوں یا ورزش کے فوائد سے زائل نہیں کیا جا سکتا ہے ۔''انھوں نے کہا کہ ،پچھلے تحقیقی مطالعوں میں بتایا گیا تھا کہ دیر تک ٹی وی دیکھنا وزن بڑھاتا ہےاور کئی امراض مثلا کولیسٹرول ، ذیا بیطس اور بلند فشار خون کے خطرات کو جنم دیتا ہے لیکن نئی تحقیق میں ماہرین یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ، آیا نوجوانوں میں کم فعال طرز زندگی کی وجہ سے صحت پر پڑنے والے ابتدائی نقصانات کی علامات کو شناخت کیا جا سکتا ہے یا نہیں ۔
'برٹش جرنل اینڈ اسپورٹس 'میں حال ہی میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ، ریسرچ میں حصہ لینے والے بالغان کی عمریں 32 برس تھی جن سے ان کی طرز زندگی اور ٹی وی یا کمپیوٹر پر وقت گزارنے کے اوقات پر مبنی سوالنامہ بھروایا گیا اور یہی سوالنامہ چار سال گذرنے کے بعد پھر سے بھروایا گیا ۔36 سال کی عمر میں 373 مردو خواتین کو انفرادی طور پر الٹراساؤنڈ سے معائنہ کیا اور ان کے جسم کی شریانوں (خون کی نالیاں) کی پیمائش کے اعدادوشمار کو تحقیق کے لیے استعمال کیا ۔نتیجے کے بارے میں ماہرین نے بتایا کہ ،لچکدار شریانیں رکھنے والے شرکاء کی نسبت جن نوجوانوں کی مرکزی شریان 'کیروٹیڈ' (شہ رگ) جو گردن اور سر میں موجود ہوتی ہے زیادہ سخت اور اکڑی ہوئی تھی وہ اپنے ساتھیوں کی نسبت یومیہ ٹی وی یا کمپیوٹر کے آگے صرف 20 منٹ زیادہ وقت گزارا رہے تھے ۔اسی طرح زیادہ دیر بیٹھنے والوں کی 'فیمورل شریان 'جو ٹانگوں میں موجود ہوتی ہے اس میں بھی تناؤ اور کھنچاؤ پایا گیا ۔ڈاکٹر ازابیلا نے کہا کہ اگر آپ کی خون کی نالیاں سخت ہوتی جاتی ہیں توبڑھتی عمر کے ساتھ بلند فشار خون اور امراض قلب کے امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکن اکیڈمی آف پیڈیا ٹریکس کی سفارشات کے تحت بچوں کے لیے دن میں دو گھنٹے ٹی وی دیکھنے کی حد مقرر کی گئی ہے، چونکہ کم فعال طرز زندگی کے نقصانات کو ورزش یا جسمانی سرگرمیوں کی مدد سے درست نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا، فعال رہنا اس کا بہترین حل ہے اور اس کے لیے ٹی وی یا کمپیوٹر کی اسکرین کے آگے بیٹھے کے وقت کو محدود کرنا ضروری ہے۔'انڈیانا یونیورسٹی بلومنگٹن اسکول آف پبلک ہیلتھ 'سے منسلک پروفیسر جیول اسٹریجر نے تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے، رائٹرز سےکہا کہ، ''جسم کی شریانیں سخت ہونے کی وجہ سے انھیں فوری صحت سے منسلک امراض کا سامنا نہیں ہے لیکن مستقبل کے لیے یہ ایک بڑا خطرہ ہیں ۔''دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک پیشگی اطلاع ہے کہ ،''آپ تک پہنچنے والے قلبی امراض کا ممکنہ خطرہ راستے میں ہے۔''
↧
↧
ایران کا ’’ایٹمی سرنڈر‘‘ اور پاکستان؟

آخرکار ایران نے بھی عالمی صورتحال کے تلخ زمینی حقائق اور مغربی ممالک کی عائد شدہ پابندیوں کے تسلسل سے مجبور ہو کر امریکہ اور اس پانچ ساتھی ممالک کے ساتھ ایک عارضی سمجھوتے کے تحت اپنا ایٹمی پروگرام نہ صرف عارضی طور پر روکنے کا اعلان کیا ہے بلکہ چار صفحات پر مشتمل سمجھوتے کا جاری کردہ متن پڑھنے سے تو یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ایران نے کھلے الفاظ میں یہ بھی یقین دلایا ہے کہ ایران نہ تو ایٹمی ہتھیار بنانے کی خواہش رکھتا ہے اور نہ ہی ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوئی کوشش کرے گا بلکہ اب تک یورینیم کی جو مقدار وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے لئے 20% انرچمنٹ کرچکا ہے اس کا بھی بڑا حصہ تحلیل کر کے بے کار کردے گا جبکہ بجلی اور توانائی یعنی پرامن مقاصد کے لئے مقررہ 5% انرچمنٹ جاری رکھے گا۔
ایران نے لیبیا کے معمر قذافی کی طرح اپنی یورینیم اور ایٹمی تنصیبات کو امریکیوں کے حوالے تو نہیں کیا کہ وہ اسے اپنے کسی میوزیم میں سجا سکیں لیکن میرے خیال میں ایران نے بھی سالہا سال سے خود کو ایٹمی ملک بنانے اور منوانے کی جنگ کو ڈپلومیسی اور مذاکرات کی میز پر ہار دیا ہے۔ ایران کا یہ ’’سرنڈر‘‘ مسلم دنیا کے واحد ایٹمی ملک پاکستان کے لئے زبردست لمحہ فکریہ ہے۔ خدا نہ کرے کہ پاکستان کو اپنے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں کسی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے لیکن یہ واضح ہے کہ ایٹمی پاکستان کو ان اثاثوں کے حوالے سے ایسے ہی دبائو اور مطالبات کا سامنا ہونے کا امکان ہے۔
ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور انتظامی مشینری چلانے والوں کا مزاج کچھ ایسا ہے کہ نقصانات کو قوم سے چھپاتے رہے ہیں۔ ڈرون حملوں کے بارے میں بہت سے چشم کشا حقائق تو ابھی امریکی خفیہ ریکارڈ کا حصہ ہیں جو سامنے آنا باقی ہیں لیکن یہ بات تو اب سامنے آچکی کہ پرویز مشرف کے دور میں ڈرون حملوں کا آغاز پاکستانی حکمراں کی منظوری اور علم سے ہوا اور پاکستانی سرزمین بھی ان حملوں کے لئے نہ صرف استعمال ہوئی بلکہ ان حملوں کے نتائج اور اثرات کی خفیہ معلومات بھی امریکیوں نے ان پاکستانی حکمرانوں اور اداروں سے شیئر کیں۔ صدر بننے کے بعد صدر زرداری کے پہلے دورہ نیویارک کے دوران بھی جب سی آئی اے کے سربراہ مائیکل ہیڈن اور آصف زرداری کی خاموش ملاقات ہوئی تو اس وقت بھی پاکستانی حکمراں کا کہنا تھا کہ ’’کولیٹرل‘‘ نقصان کی کوئی پروا نہیں دہشت گردوں پر حملے ہونا ضروری ہیں۔ ہمارے حکمراں امریکی سرپرستوں کے سامنے ہر فرمائش کی تعمیل کے لئے ماضی میں بھی تیار پائے گئے اور اب بھی صورتحال یہی چل رہی ہے۔ میرے لئے کوئی تعجب نہ ہو گا کہ اگر یہ انکشاف ہوکہ ماضی کا کوئی پاکستانی حکمراں ہمارے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں بہت سی خفیہ معلومات بھی اپنے غیر ملکی سرپرستوں کی خوشنودی کے لئے انہیں فراہم کرچکا ہے جس طرح ڈرون حملوں اور پاکستان میں لائے جانے والے امریکی آلات و ہتھیار اور ان کے استعمال کے سلسلے میں خاموش عمل ہوا۔
فی الوقت تو پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ امریکہ سے طویل المیعاد معاہدہ کو افغان لوئی جرگہ نے بھی منظور کرلیا ہے افغانی صدر حامد کرزئی اپنی سیاسی اور ذاتی وجوہ کے باعث اس معاہدہ کو فی الحال انتخابی نتائج تک ملتوی کرنا چاہتے ہیں۔ یوں بھی حامد کرزئی اپنی مدت صدارت پوری ہونے پر سبکدوش ہو جائیں گے اور ان کی اہمیت آج جیسی نہیں رہے گی۔ بہرحال امریکی افواج کے افغانستان سے جزوی انخلاء کے بعد کئی ہزار مسلح امریکی فوجی اور ان کے مددگار عملہ بشمول سی آئی اے اور محکمہ خارجہ سمیت مددگار عملہ افغانستان میں ہی چھوڑ کر جارہا ہے اور معاہدہ کی رو سے یہ تمام امریکی افغان شہریوں کے مقابلے میں کسی بھی جوابدہی، گرفتاری اور ایکشن سے بالاتر ہوں گے اور انہیں افغان قانون سے استثنیٰ حاصل ہو گا۔ امریکہ اپنے کئی ہزار فوجی اگر افغانستان میں متعین رکھے گا تو ان کے قیام کا مشن اور مقصد ہو گا۔
اس کے لئے آپ دنیا کے مختلف ممالک میں قائم امریکی چھائونیوں کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں۔ افغانستان میں امریکہ بھارت کے لئے اپنے اتحادی کے طور پر اس کا رول متعین کر چکا ہے۔ افغانستان میں بھارت کی واضح موجودگی اور وہاں امریکی فوج کی چھائونی کی موجودگی پاکستان کے لئے کسی خوشی یا تشویش کا باعث ہوگی؟ اس صورتحال کے کیا ممکنہ اثرات ہوں گے؟ کیا پاکستانی مفادکے ذمہ داروں اس حقیقت کے بارے میں کوئی فکر بھی ہے؟ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل رکن ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور اضافی شامل ملک جرمنی جسے "P5+1"کا نام دیا گیا ہے۔ ان 6ممالک سے جنیوا میں مذاکرات کے بعد ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایک سمجھوتہ طے کیا ہے جو عوام کے لئے تو اچانک اور غیرمتوقع تھا مگر پس پردہ ڈپلومیٹک سرگرمیوں، امریکی وزیر خارجہ کے دورہ اسرائیل، جان کیری کی نظر نہ آنے والی ملاقاتوں سے واقف ’’ایرانی خطرہ‘‘ کے ’’غیر جنگی حل‘‘ نکلنے کی توقع کا اظہار کر رہے تھے۔ امریکی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ، سنجیدہ سفارتکاری کا تجربہ، امریکی طرز زندگی سوچ اور مزاج سے بخوبی واقف اور اقوام متحدہ میں پانچ سال تک ایرانی سفیر کے طور پر متعین رہنے والے جواد ظریف ایران کے نئے وزیر خارجہ اور عالمی برادری بلکہ بعض امریکی اہم سیاستدانوں سے بھی تعلقات رکھتے ہیں۔
انہوں نے بہت سی خاموش ملاقاتوں اور پس پردہ رابطوں کے ذریعے ایران کو سلامتی کونسل اور دیگر ممالک کی پابندیوں سے نکالنے کی کوششیں کی ہیں۔ عالمی صورتحال کے زمینی حقائق اور ان حقائق کے تناظر میں ایران کو دوبارہ عالمی برادری میں واپس لانے کے لئے کام کیا لیکن آخرکار ایران کو اپنے ایٹمی پروگرام کے محاذ پر عالمی دبائو، اقتصادی پابندیوں، مغربی ممالک کے اتحاد اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے تلخ حقائق کے سامنے ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام ’’سرنڈر‘‘ کا آغاز کردیا ہے۔ جن قارئین کو میری اس رائے سے اختلاف ہو وہ امریکی وزیر خارجہ کے بیانات، امریکی میڈیا کی رائے اور تمام اطلاعات کو جانبدارانہ سمجھ کر نظرانداز کردیں اور چار صفحات پر مشتمل اس سمجھوتہ کے متن کو خود پڑھیں اور تجزیہ کرلیں۔ ابتدائی سطور میں ہی ایران نے کہہ دیا ہے کہ اس کا پروگرام پُرامن ہے اور وہ کبھی بھی ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا۔ اسی طرح تفصیل میں تو انرچمنٹ صرف توانائی کے لئے اور غیرایٹمی مقاصد کے لئے ہوگی۔ چھ ماہ کے اس معاہدے کے دوران ایران کو جو کچھ کرنا ہے امریکہ، اسرائیل اور ان کے ساتھیوں کے لئے عملاً اطمینان کے لئے کافی ہو گا۔
ایران اگر اس عالمی معاہدے کی معمولی بھی خلاف ورزی کرے گا تو پابندیاں دوبارہ لاگو ہوں گی اور مکمل اطلاق تک معاہدہ پر عمل نہیں مانا جائے گا۔ ایران کو ڈپلومیسی کے ذریعے ایک انتہائی مشکل صورتحال میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہ عارضی سمجھوتہ ایک نئے ماڈل کے طور پر امریکی ایجاد ہے جسے بوقت ضرورت دیگر ایٹمی ممالک یا حاصل کرنے کی دوڑ میں شریک ممالک پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے۔ کیا ایران کو مصروف کر دینے کے بعد اب امریکہ کا اگلا ٹارگٹ کون ہو گا؟ مسلم دنیا کے واحد ایٹمی ملک پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر ایران کی نئی صورتحال کے کیا اثرات ہوں گے؟ کیا ان ممکنہ اثرات کے بارے میں پاکستانی قیادت کو کوئی فکر ہے؟ کوئی تدارک یا حل سوچا؟ کہیں ڈرون حملوں کی طرح سابق حکمرانوں نے ایٹمی امور پر بھی تو کچھ منظوریاں نہیں دے ڈالیں؟
عظیم ایم میاں
بشکریہ روزنامہ "جنگ"
↧
Lieutenant General Raheel Sharif Profile and History
Principal Staff Officer (PSO) to Gen Kayani Inspector General Training and Evaluation (IGT&E) Service History
- Commander, Gujranwala XXX Corps (as three-star/Lt General)
- Commandant of Pakistan Military Academy, Kakul (as two-star/Maj General)
- General Officer Commanding, Lahore (as two-star/Maj General)
Winning Hand
- Third in line in terms of seniority, Sharif also has the rare and coveted legacy angle covered as the brother of Nishan-e-Haider medal recipient for valour, Shabbir Sharif Shaheed
- Sharif has been a key element in Kayani's unsung feats - developing new doctrines for COIN/CT, where the Infantry training manual has essentially been re-written under his watch to move the largest fighting arm and backbone of the Army from the traditional India-centric role to a more diversified counterinsurgency capacity as well
- For the eastern front, he has also worked on beefing up other fighting and supporting arms for countering India's Cold Start doctrine with more integrated, even sophisticated responses than the 2000s saw
- As heritage and lineage matter in the Army more than other institutions, Sharif enjoys support from the traditionalist rank and file for his legacy
- Derided unfairly in the press as a "mediocre careerist", Sharif enjoys close connections with former army chiefs and top brass as well as Lahore's political elite, and is a tall, confident man with a booming voice and a soldier's nuance
↧
جن قوموں کو اپنا وقار عزیز ہوتا ہے...........
جب بھی قومی غیرت اور خودمختاری کی بات ہوتی ہے،ہمارے دانش گرد حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے ایک ہی بات کی جُگالی کرتے نظر آتے ہیں کہ بھکاریوں کی زبان سے ایسے الفاظ اچھے نہیں لگتے۔
ہم امریکہ کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں ،اس کی دی ہوئی امداد سے ہماری روزی روٹی چل رہی ہے،ایسے حالات میں حکومت ڈرون حملے رکوانے کیلئے کیا کر سکتی ہے؟نیٹو سپلائی کی بندش پر عمران خان کو بھی یہی طعنہ دیا جا رہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں تمہاری حکومت امریکہ سے 500 ملین ڈالر کی امداد لے رہی ہے اور تم امریکہ سے پنگا لینے کی بات کرتے ہو، اگر ہمت ہے تو پہلے اس امریکی امداد کو لات مارو۔ نوٹنکی کے طور پر پنجاب حکومت نے امریکی امداد کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کر دیا ہے اور اس کا مقصد تحریک انصاف کو مشتعل کر کے خیبرپختونخوا میں اس طرح کا فیصلہ کرانا ہے۔
پہلی دروغ گوئی تو امریکی امداد کی اصطلاح ہے، امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت پر ہمیں جو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے،امریکہ اس کے زر تلافی کے طور پر ہمیں ڈالر دے رہا ہے۔ امریکی کانگریس کی دستاویزات میں بھی اسے امداد نہیں بلکہ کولیشن سپورٹ فنڈ کہا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان کے تخمینوں کے مطابق گزشتہ 12سال کے دوران امریکہ کا ساتھ دینے پر ہمیں 100بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ اس دوران امریکہ نے تمام مدات میں پاکستان کو صرف17.83بلین ڈالر کی ’’خیرات‘‘ دی۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ترقی یافتہ ممالک اپنی جی ڈی پی کا 0.7فیصد ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ ممالک کیلئے وقف کرنے کے پابند ہیں اور یہ خیرات نہیں بلکہ ایک طرح کا فرض بھی ہے اور قرض بھی۔امریکہ ہر سال 50 ارب ڈالر کی غیر ملکی امداد دیتا ہے جس میں سے سب سے زیادہ حصہ اسرائیل کا ہے۔اسرائیل ہر سال 3075ملین ڈالر امریکی امداد وصول کرتا ہے مگر کبھی اس کے رویّے میں عاجزی و انکساری دیکھنے کو نہیں ملی۔ اردن جیسا امیر ملک امریکہ سے سالانہ 676 ملین ڈالر امداد لیتا ہے، مصر کو اس مد میں ہر سال 1557ملین ڈالر ملتے ہیں۔ معاشی ترقی کے اعتبار سے بھارت ہم سے کہیں آگے ہے اور اس کا کشکول بھی ہم سے کہیں زیادہ بڑا ہے مگر اس نے کبھی اپنے ملکی مفاد پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ بھارت جاپان سے امداد لینے والے ممالک میں سرفہرست ہے ،یہاں تک کہ جب سونامی کے بعد جاپان نے بیشتر ممالک کی امداد بند کر دی تو تب بھی بھارت کی امداد میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔
برطانیہ سے امداد لینے والے ممالک میں بھی بھارت دوسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کا غریب ترین ملک ایتھوپیا برطانیہ سے 324 ملین پؤنڈ کی امداد لیتا ہے جبکہ بھارت کو سالانہ 300 ملین پاؤنڈ ملتے ہیں۔پاکستان جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اگاڑی ریاست کا درجہ حاصل ہے اسے سالانہ 215 ملین پاؤنڈ ملتے ہیں۔رواں سال جب بھارت نے 126جنگی جہاز خریدنے تھے تو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون لابنگ کرنے کے لئے خود دہلی گئے، پاکستان کے خلاف بیان دیا تاکہ برطانوی کمپنی BAE کے یورو فائٹر ٹائفن خریدنے پر رضامند کیا جا سکے لیکن بھارت نے برطانیہ کی ناراضی مول لیکر13بلین پاؤنڈ کا یہ ٹھیکہ فرانسیسی کمپنی کو دے دیا کیونکہ ان کے خیال میں یہی ملکی مفاد کا تقاضا تھا۔سری لنکا بھی برطانیہ سے امداد لیتا ہے لیکن جب چند ہفتے قبل ڈیوڈ کیمرون نے تامل ٹائیگرز کے خلاف آپریشن سے متعلق بیان دیا تو سری لنکا کے وزیراعظم نے کہا،زبان سنبھال کر بات کریں ،ہم آپ کی کالونی نہیں ہیں۔
جن قوموں کو اپنا وقار عزیز ہوتا ہے وہ نفع نقصان سے بالاتر ہو کر فیصلے کیا کرتی ہیں۔ مہاتیر محمد ملائیشیا کے وزیراعظم تھے تو انہوں نے ایک بیان پر امریکی نائب صدر الگور کو ملک بدر کر دیا۔ براعظم جنوبی امریکہ کے غریب ترین ملک بولیویا کے صدر ایوو مورالیس نے اندرونی معاملات میں درپردہ مداخلت پر امریکی سفیر گوئڈ برگ کو ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اگلے دن جوابی کارروائی کے طور پر امریکی حکومت نے بھی بولیوئین سفیر کو ملک چھوڑنے کا الٹی میٹم دے دیا۔ اس پر وینزویلا کے صدر ہیوگو شاویز نے امریکی سفیر کو یہ کہ کر اپنے ملک سے نکال باہر کیا کہ جہنم میں جاؤ غلیظ امریکیو!ہم خوددار لوگ ہیں۔حالانکہ امریکہ وینزویلا کے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اگر امریکہ سالانہ 40بلین ڈالر کا تیل نہ خریدے تو اس کی معیشت کے غبارے سے ہوا نکل جائے۔ چند دن بعد ہنڈراس کے صدر فیوئیل زی لایا نے احتجاجاً امریکی سفیر کی اسناد سفارت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وینزویلا کی آبادی تین کروڑ ہے اور یہ تینوں ممالک کسی اعتبار سے پاکستان کے ہم پلہ نہیں۔ ان کے پاس نہ تو ایٹم بم ہے نہ آبدوزیں ہیں نہ ہی میزائل اور جدید جنگی جہاز ہیں۔اگر امریکہ ان پر چڑھ دوڑے تو یہ تین دن کے لئے بھی مزاحمت نہیں کر سکتے،لیکن انہیں معلوم ہے کہ جب کوئی قوم لڑنے مرنے پہ تیار ہو جاتی ہے تو پھر لڑائی کی نوبت نہیں آتی۔آپ ایران کو دیکھ لیں،امریکہ کب سے اس پر حملہ کرنے کو تیار بیٹھا تھا،2جنوری 2011ء میں پاسداران انقلاب نے جاسوسی کرنے والے دو امریکی ڈرون خلیج فارس میں مار گرائے مگر امریکہ کو ایران پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
بھارت کی سمندری حدود میں اطالوی فوجیوں کی فائرنگ سے چند بھارتی مچھیرے مارے گئے تو ان فوجیوں کو حراست میں لے لیا گیا اور ان پر مقدمہ چلا۔ جب اطالوی سفیر کی ضمانت پر انہیں رہائی ملی اور انہوں نے واپس آنے سے انکار کر دیا تو بھارتی ہائیکورٹ کے حکم پر اطالوی سفیر کے بیرون ملک جانے پر پابندی لگا دی گئی۔ امریکیوں نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے میں ہمارے فوجی مار دیئے، ہم نے سات ماہ نیٹو سپلائی روکے رکھی مگر امریکہ نے معافی نہ مانگی اور ہم نے پرانی تنخواہ پر کام کرتے ہوئے نیٹو سپلائی کھول دی۔ امریکہ افغانستان اور عراق سمیت مختلف ممالک سے سویلین ہلاکتوں پر 102 مرتبہ معافی مانگ چکا ہے مگر ہمیں محض اظہار افسوس پر ٹرخا دیا گیا۔
امریکیوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ ڈرون حملوں کے ایشو پر سب اپنی اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔عمران خان کا اخلاص اپنی جگہ لیکن خیبرپختونخوا کی حکومت سنجیدہ ہے تو ہنگو حملے کی ایف آئی آر سی آئی اے چیف کے خلاف کیوں نہیں کاٹی گئی؟اگر میاں نواز شریف کی حکومت واقعی خلوص نیت کے ساتھ ڈرون حملوں پر احتجاج کرتی ہے اور امریکہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں تو سنجیدگی ظاہر کرنے کے لئے امریکی سفیر کو ملک بدر کیوں نہیں کیا گیا؟پاک فوج کو ڈرون گرانے کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا؟اس لئے کہ اگر ہم نے امریکی ڈرون مار گرایا تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے۔یہ توجیہ سن کر لگتا ہے پاکستان کوئی ملک نہیں بلکہ سہمی ہوئی رضیہ ہے جو غنڈوں میں پھنس گئی ہے۔
اگر وہ چاہے تو انہیں روک سکتی ہے اس کے ہاتھ میں پستول ہے جس سے غنڈوں کو گولی ماری جا سکتی ہے مگر وہ یہ سوچ کر کوئی قدم نہیں اٹھاتی کہ گولی چلا کر اپنی عزت تو بچا لے گی لیکن بعد میں اس پر قتل کا مقدمہ ہو جائے گا....اس کی یہ نرالی منطق دیکھ کر مجھے بدنام زمانہ نصیحت یاد آتی ہے کہ جب جبری زیادتی کو روکنا ممکن نہ ہو اور ناگزیر ہو جائے تو پھر چیخ و پکار کرنے کے بجائے لطف اندوز ہوا جائے۔ اب یہ بات کون سمجھائے کہ محض التجاؤں سے کچھ نہیں ہوتا،آپ لٹیرے کو اللہ رسول ﷺ کے واسطے دیں ،اردو میں بات کریں ،انگریزی میں مدعا بیان کریں ،دھیمے لہجے میں عرض کریں ،غصے میں آ جائیں یا جی بھر کر چلّائیں، ہونی ہو کر ہی رہتی ہے۔اس ہونی کو ٹالنے کا تو بس ایک ہی راستہ ہے کہ خوابیدہ غیرت کو جگائیں اور اپنی حرمت کے لئے لڑ مر جائیں یا پھر ضمیر کو ایک ہی بار تھپکی دے کر سلائیں، حِظ اُٹھائیں اور احساس ندامت و ملامت سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑائیں۔
محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ "جنگ"

↧
Moulana Tariq Jameel and Amir Khan
↧
↧
Chief Jusitice Tassaduq Hussain Jillani
صدر نے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس تصدق حسین جیلانی کا 12دسمبر سے بطور چیف جسٹس پاکستان تقرر کر دیا ہے ۔جسٹس تصدق جیلانی نرم خو مگر قانون پر سختی سے عمل درآمد کرنے والی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا''نغمہ انصاف سب کیلئے''انہی کا تحریر کر دہ ہے۔جسٹس تصدق جیلانی نے سیاسیات میں ایف سی کالج لاہور سے ایم اے ، پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایل ایل بی جب کہ یونیورسٹی آف لندن سے کانسٹی ٹیوشنل لاء کا کورس کیا۔جسٹس تصدق جیلانی 7 اگست 1994 کو لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے اور 31 جولائی 2004 کو سپریم کورٹ کے جج مقرر کیے گئے ، وہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی رہ چکے ہیں ۔ جسٹس تصدق جیلانی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ فوزیہ گیلانی کے ماموں ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب یوسف رضا گیلانی پر توہین عدالت کی فرد جرم عائد کی گئی تو انہوں نے اس کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کرنے والے بنچ میں بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا۔ جسٹس تصدق جیلانی سپریم کورٹ کے ان ججز میں شامل ہیں جنہوں نے 3نومبر 2007 کو پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں فاروق نائیک فارمولا کے تحت سپریم کورٹ کے جن چار ججز نے حلف لیا ، ان میں جسٹس تصدق جیلانی بھی شامل تھے تاہم چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے کئی ججز کی مدت 2نومبر سے ہی بحال کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا تھا۔جسٹس تصدق جیلانی سپریم کورٹ کے اس پانچ رکنی بینچ کے بھی سربراہ تھے جس نے پرویز مشرف دور میں میاں نواز شریف کو ہائی جیکنگ کے الزامات سے بری کیا۔ جسٹس تصدق جیلانی کے خط پر سپریم کورٹ نے نیو مری منصوبے کے خلاف ازخود نوٹس بھی لیا تھا ، جسٹس جیلانی کا پسندیدہ رنگ سرخ ہے۔
Jusitice Tassaduq Hussain Life and History
↧
Pakistan Education System Primary to University
↧
Lessons from Paul Walker's Death
Paul Walker (the actor from the 'Fast and the Furious' movies) passed away earlier today and this was the state of the car that he died in.
There are some lessons we can learn from his death. One of the main lessons is that you will die the way you lived your life. So if you live your life in the fast lane, you will also die in the fast lane. If you live your life by the gun you will also die by the gun. If you live a righteous life, Allah Azzawajal will in His infinite Mercy give you a righteous death....
There are some lessons we can learn from his death. One of the main lessons is that you will die the way you lived your life. So if you live your life in the fast lane, you will also die in the fast lane. If you live your life by the gun you will also die by the gun. If you live a righteous life, Allah Azzawajal will in His infinite Mercy give you a righteous death....
Many people think these celebrities are untouchable but the reality is different. I bet he was looking forward to the release of his new 'Fast and the Furious' film next year, without thinking he may be dead by then. Most of us do the same thing, we think about the future and ignore the fact that we may pass away before our plans become a reality.
Only Allah Azzawajal knows how long we have left in this world. Many of us may not be alive next week and that is the honest truth. So make the most of every minute you have in this world and do as much as you can for your Akhirah because as you can see from the picture, all it takes is a wrong move of the steering wheel and you are gone.
Astaghfirullahal'adzeem.....May ALLAH SWT guide us all in right path..Aameen
Only Allah Azzawajal knows how long we have left in this world. Many of us may not be alive next week and that is the honest truth. So make the most of every minute you have in this world and do as much as you can for your Akhirah because as you can see from the picture, all it takes is a wrong move of the steering wheel and you are gone.
Astaghfirullahal'adzeem.....May ALLAH SWT guide us all in right path..Aameen
↧
Moulana Abul Kalam Azad and Pakistan
↧
↧
مسنگ میاں نواز شریف۔
جاوید چوہدری
میاں صاحب آپ کو وہ دن یقیناً یاد ہو گا‘ فوج نے جب 12 اکتوبر 1999ء کی شام وزیراعظم ہاؤس کو گھیر لیا‘ آپ کے اے ڈی سی‘ آپ کے فوجی کمانڈوز اور آپ کے ملٹری اسٹاف نے اپنی نظریں پھیر لیں اور آپ آدھ گھنٹے میں دنیا کی واحد اسلامی جوہری طاقت کے ہیوی مینڈیٹ وزیراعظم کے عہدے سے اتر کر قیدی وزیراعظم بن گئے‘ آپ کو شروع میں وزیراعظم ہاؤس میں قید کیا گیا‘ آپ کو بعد ازاں مری لے جایا گیا اوروہاں گورنر ہاؤس میں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا‘ آپ کمرے میں تنہا تھے‘ کمرے کے دروازے پر سیل تھی‘ آپ کو کھانا بھی دروازے کے نیچے سے دیا جاتا تھا‘ آپ کو اپنے خاندان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔
آپ کے بھائیوں‘ آپ کے صاحبزادوں اور آپ کے والدین میں سے کون زندہ تھا اور کون دنیا سے رخصت ہو چکا تھا‘ آپ نہیں جانتے تھے‘ تنہائی کے ان دنوں میں آپ کے پاس اللہ کی یاد‘ ایک ڈوبتی تیرتی نامکمل امید اور اپنی ماضی کی غلطیوں کے تجزیے کے سوا کچھ نہیں تھا‘ آپ اپنے خاندان کے کسی فرد کی آواز سننا چاہتے تھے اور آپ سے اگر کوئی اس وقت اس آواز کے بدلے کوئی قیمت مانگ لیتا تو آپ یہ قیمت اسی وقت چکا دیتے مگر وقت ناراض ہو چکا تھا اور جب وقت ناراض ہوتا ہے تو اللہ انسان کے انتہائی قریبی لوگوں کو اس سے دور کر دیتا ہے‘ آپ کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا‘ آپ کے صاحبزادے حسین نواز شریف حافظ قرآن ہیں‘ قید خانے کے مالکوں نے انھیں قرآن مجید تک فراہم نہ کیا مگر دنیا کی کوئی طاقت زبان نہیں روک سکتی چنانچہ حافظ حسین نواز شریف روز اونچی آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔
میاں صاحب آپ کو یاد ہو گا آپ ایک دن انتہائی پریشان تھے‘ آپ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں پر توبہ کی اور اچانک ہوا حسین نواز شریف کی بیرک سے آپ کی بیرک کی طرف چلنے لگی‘ آپ کے کانوں تک حسین نواز شریف کی تلاوت کی آواز پہنچ گئی‘ یہ آواز اس وقت آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا تحفہ تھا؟ یہ آپ جانتے ہیں یا پھر آپ کا اللہ تعالیٰ۔ آپ آج!جی ہاں آج! ایک لمحے کے لیے اس آواز‘ مری کی ٹھنڈی پڑتی راتوں اور ان راتوں کو سنبھالتا ہوا کمزور‘ بدبودار اور چھوٹا سا کمبل‘ آپ ایک لمحے کے لیے ان تمام چیزوں‘ ان تمام گزری باتوں کو ذہن میں لائیے‘ مجھے یقین ہے آپ مسنگ پرسنز‘ مسنگ پرسنز کے والدین‘ ان کے بھائیوں اور بہنوں اور دوستوں کا دکھ سمجھ جائیں گے‘ آپ کو ان میں سے ہر شخص کے اندر ایک جیتا‘ جاگتا اور تڑپتا میاں نواز شریف نظر آئے گا‘ آپ اٹھ کر بیٹھ جائیں گے اور شاید آپ کے ماتھے پر پسینہ بھی آ جائے۔
ہم تمام لوگ خوف‘ پریشانی‘ اندیشوں‘ غلطیوں اور گناہوں میں گندھے ہوئے گوشت پوست کے انسان ہیں‘ ہم سب ایک جیسے ہیں‘ہم پر جب زکام حملہ کرتا ہے تو میاں صاحب آپ اور عام مزدور دونوں کی ناک بہتی ہے اور دونوں ٹشو پیپر تلاش کرتے ہیں‘ چوٹ‘ دکھ‘ درد اور پریشانی دونوں کو بے چین کر دیتی ہے اور ہم عام شہری ہوں یا وزیراعظم‘ ہم سب کو پانی‘ ہوا اور خوراک ‘ سانس لینے‘ عدالت میں قانون کا سامنا کرنے‘ اپنی ماں کے ہاتھ چومنے‘ اپنی بیٹی‘ اپنے بیٹے سے گلے ملنے اور اپنے والد کو گلے لگانے کا حق چاہتے ہیں‘ ہم بیٹے بھی ہوتے ہیں‘ شوہر بھی اور باپ بھی اور ہم سب کے دکھ اور تکلیف بھی ایک جیسے ہوتے ہیں‘ آپ یاد رکھئے‘ آپ بھی ایک وقت میں مسنگ پرسن تھے اور آپ بھی ملک میں انصاف تلاش کرتے پھر رہے تھے لیکن انصاف کے راستے میں رائفل‘ بوٹ اور جنرل پرویز مشرف کے احکامات کھڑے تھے مگر آج آپ سیکڑوں ہزاروں مسنگ پرسنز کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وزیراعظم ہاؤس کو انجوائے کر رہے ہیں۔
آپ ایک لمحے کے لیے مسنگ نواز شریف بن جائیے یا پھر ملک کے تمام مسنگ پرسنز کو حسین نواز شریف سمجھ لیجیے‘ آپ کو لوگوں کا دکھ سمجھ آ جائے گا‘ صدر پرویز مشرف کے دور سے ملک بھر سے مشکوک لوگ اٹھائے جا رہے ہیں‘ یہ لوگ عقوبت خانوں میں پھینکے جاتے ہیں اور وہاں ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے‘ آپ کسی ایک مسنگ پرسن کی کہانی سن لیجیے‘ آپ پھر پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا سکیں گے‘ مسنگ پرسنز کے لواحقین دس سال سے پارلیمنٹ ہاؤس‘ میڈیا کے دفاتر اور پریس کلب کے سامنے دھرنے دے رہے ہیں‘ ہم صحافی کالم اور پروگرام کر کے تھک گئے ہیں مگر جبر کے نظام کی پیشانی پر خدا ترسی کا ایک قطرہ تک نہیں ابھرا‘ آپ تصور کیجیے‘ بلوچستان کے 35 مسنگ پرسنز کے لواحقین کوئٹہ سے ساڑھے سات سو کلو میٹر کا پیدل سفر کر کے کراچی پہنچے اور یہ لوگ 12 دنوں سے کراچی پریس کلب کے سامنے بیٹھے ہیں‘ ان میں بوڑھی خواتین‘جوان لڑکیاں اور نابالغ بچیاں بھی شامل ہیں۔
آپ ان کے پاؤں میں آبلے بھی دیکھ سکتے ہیں‘ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں‘ یہ صرف ایک بار اپنے اپنے نواز شریف اور حسین نواز کو دیکھنا چاہتے ہیں‘ یہ اس کی تلاوت‘ اس کی آواز سننا چاہتے ہیں مگر ہمارا نظام ان کی یہ خواہش بھی پوری نہیں ہونے دے رہا‘ میں ہرگز یہ نہیں کہتا‘ یہ مسنگ پرسنز بے گنا ہیں‘ یہ تمام لوگ مجرم ہو سکتے ہیں‘ یہ گناہگار‘ قاتل‘ غدار اور ظالم بھی ہو سکتے ہیں لیکن ہم آئین توڑنے‘ لال مسجد پر حملہ کرنے‘ سپریم جوڈیشری کو معطل کرنے اور ججوں کو گھروں میں محبوس کرنے والے ملزم جنرل(ریٹائر) پرویز مشرف کو عدالتوں میں پیش ہونے‘ وکیل کرنے‘ ثبوت اور دلائل دینے کا پورا موقع فراہم کر رہے ہیں مگر یہ مسنگ پرسنز عدالت میں پیش ہونے کا حق نہیں رکھتے؟ یہ لوگ یقیناً مجرم ہوں گے لیکن ان کے جرم کا فیصلہ کون کرے گا؟ کیا ان کے لیے قانون مختلف اور جنرل مشرف کے لیے قانون اور ہے‘ دنیا کا قانون سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال کو بھی اپنی صفائی کا موقع دیتا ہے لیکن ہم مسنگ پرسنز کو تھانے اور عدالت میں پیش ہونے تک کی اجازت نہیں دے رہے‘ کیا یہ ظلم نہیں؟ کیا یہ زیادتی نہیں؟۔
میاں صاحب چیف جسٹس آف پاکستان اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے مسنگ پرسنز کا ایشو حل کرنا چاہتے ہیں‘ آپ مہربانی فرما کر ان کا ساتھ دیں‘ آپ عدالت کے احکامات پر عمل کا حکم جاری کر دیں‘ آپ بلوچستان کے 33مسنگ پرسنز کو عدالت میں پیش کریں اور باقی تمام مسنگ پرسنز کو دہشت گردی کی عدالتوں کے حوالے کر دیں‘ عدالتیں ان کا فیصلہ کریں‘ ملک میں اگر دہشت گردوں کے لیے قانون نہیں تو آپ ایک آدھ دن میں قانون بنائیں‘ یہ لوگ اگر مجرم ہیں تو انھیں کڑی سے کڑی سزا دیں اور یہ اگر بے گناہ ہیں تو پھر ان بے گناہوں کو اٹھانے والوں‘ حراست میں رکھنے والوں اور ان پر تشدد کرنے والوں کو سزا دیں‘ آپ نے کل موٹر ویز کے سابق آئی جی ظفر عباس لک کو گریڈ 21 سے گریڈ 20 میں ’’ڈی موٹ‘‘ کردیا تھا‘ ظفرعباس لک کا قصور یہ تھا‘ آپ کے وزیراعظم بننے کے بعد اس نے سرکاری خزانے سے آپ کے لیے مبارک باد کا اشتہار دے دیا تھا۔
آپ ناراض ہو گئے اور آپ نے اسے ’’ڈی موٹ‘‘ کر دیا لیکن کیا آپ مسنگ پرسنز اور بے گناہ مسنگ پرسنز کو غیر قانونی حراست میں رکھنے‘ انھیں تشدد کے ذریعے ہلاک کرنے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر پھینکنے والے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ بھی یہ سلوک کر سکیں گے؟ کیا آپ انھیں بھی ’’ڈی موٹ‘‘ کریں گے؟ میرا خیال ہے نہیں کیونکہ تھیوری اور حقیقت میں بڑا فرق ہوتا ہے‘ ذاتی قید‘ ذاتی دکھ اور ذاتی مسائل ذاتی ہوتے ہیں اور پرائے مسائل‘ پرائے دکھ اور پرائی قید پرائی ہوتی ہے‘ ہم صرف اپنی ماؤں کو مائیں‘ اپنی بہنوں کو بہنیں اور اپنی بیٹیوں کو بیٹیاں سمجھتے ہیں‘ ہم اپنی غلطیوں کے وکیل ہوتے ہیں اور دوسروں کی خطاؤں کے جج‘ ہم اپنے بڑے سے بڑے جرم‘ بڑے سے بڑے گناہ کو قابل معافی سمجھتے ہیں جب کہ ہم دوسروں کی معمولی سی غلطیوں پر تارا مسیح بن جاتے ہیں۔
ہم سعودی عرب اور لندن میں بھی بیٹھے ہوں تو ہمیں پاکستانی عدالتوں سے انصاف چاہیے ہوتا ہے لیکن ملک کے غریب اور بے آسراء لوگ کوئٹہ‘ پشاور‘ کراچی اور اسلام آباد کے سیف ہاؤسز میں ہوں تو بھی ہم انھیں تھانے‘ کچہری اور عدالت کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے‘ ہمارے ملک میں آج بھی چیف آف آرمی اسٹاف وزیر دفاع کو سیلوٹ کر دے تو یہ بریکنگ نیوزہوتی ہے اور ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے ہیں‘ ہم نے آج بھی انصاف کو طاقتور لوگوں کی دہلیز پر باندھ رکھا ہے‘ میاں صاحب آپ اگر آج مظلوموں کی دعائیں لینا چاہتے ہیں‘ آپ اگر ملک پر سایہ فگن نحوست کا خاتمہ چاہتے ہیں تو آپ تمام مسنگ پرسنز کو عدالتوں میں پیش کرنے کا اعلان کر یں‘ آپ خدا اور خلق خدا دونوں کی خوشنودی پا جائیں گے ‘ مسنگ پرسنز کے دکھ کو ماضی کا ایک مسنگ پرسن ہی سمجھ سکتا ہے‘ مسنگ میاں نواز شریف۔
↧
Imran Khan Drone Policy by Talat Hussain
↧
Overseas Pakistanis
Overseas Pakistanis
ویسے توعدلیہ کے ایک فیصلے نے بیرون ملک مقیم دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو تو عملاً پاکستان کے سرکاری، سیاسی اور عوامی نظام سے بے دخل کر دیا ہے مگر ہر سال ان کی محنت سے کمائے ہوئے بارہ تا پندرہ ارب ڈالر کے زرمبادلہ کو پاکستان کا نظام چلانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی ایک خوب تماشا ہے کہ جب کسی سیاسی قائد کو جلا وطن کیا جائے یا وہ اقتدار سے محروم ہو جائے بلکہ دوران اقتدار و اختیار بھی اگر وہ بیرون ملک کسی دورے پر آئیں تو وہ ایسے پاکستانیوں کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں جو ان کے اعزاز میں دعوتیں کریں، لنچ اور ڈنر کر کے دوستوں کے اجتماعات کریں، تصاویر کھنچوائیں اور تقاریر کروا کر ان کو عزت و توقیر دیں۔ یہی حال سرکاری حکام اور ان کے ریٹائر ہونے کے بعد امریکہ و کینیڈا میں مستقل قیام کے خواہشمندوں کا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ ایک محب وطن شہری کے حقوق و فرائض کے بجائے ہر طرح کے فرائض تو لازم قرار دے دیئے مگر ان کے حقوق اور حب الوطنی کی صرف زبانی تعریف اور انہیں ’’پاکستان کے سفیر‘‘ کا خوش کن خطاب دیکر ذمہ داری ادا کر دی جاتی ہے اور پھر جب وہ پاکستان میں پلاٹ یا جائیداد خریدیں، سرمایہ کاری کریں یا اپنے بچوں یعنی نئی نسل کو پاکستان سے وابستہ کرنے کے لئے پاکستان لے کر آئیں تو قبضہ گروپ اور کرائم مافیا ان کی جائیدادوں پر قبضہ، اغوا، جعلی دستاویزات، بدعنوان حکومتی ملازمین کو رشوت دیکر ان سے جو سلوک کیا جاتا ہے وہ ایک الگ اور المناک داستان ہے۔
کتنے ہی پاکستانیوں نے بیرون ملک محنت سے کمائی کر کے پاکستان میں جائیدادوں کی خریداری کی اور وہ اپنی کمائی جرائم پیشہ لوگوں کے ہاتھ لٹا بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اوورسیز پاکستانی اپنوں کی زیادتی اور ظلم سہنے کے علاوہ غیروں کے ہاتھوں بھی اپنے پاکستانی ہونے کی جو سزا پاتے ہیں اس کی تازہ مثال ملاحظہ ہو۔ امریکہ میں آباد اور امریکی شہریت اور پاسپورٹ کے حامل پاکستانی نژاد افراد کو امریکی شہری ہونے کے باوجود آپ کا پڑوسی ملک بھارت ویزا نہیں دیتا ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی پاکستانی شہریت کو منسوخ کرنے کا سرٹیفکیٹ یعنی ثبوت پیش کریں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر بھارت کا ویزا حاصل کرنے کیلئے درخواست دینے والے تارکین وطن کو بھارت کا ویزا حاصل کرنے میں کئی ماہ تک غیر یقینی حالت میں انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر بھی اکثر ویزا نہیں ملتا۔ گزشتہ ستمبر نیویارک میں وزیر اعظم نوازشریف اور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی ملاقات کے موقع پر بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید بھی آئے ہوئے تھے۔
پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم کے عہدیداروں کا ایک وفد سلمان خورشید سے ملا اور کہا کہ امریکہ میں آباد پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کا ایک بڑا گروپ بھارت کا دورہ خیر سگالی کرنا چاہتا ہے۔ نہ سیاست کرنا ہے نہ کوئی ایجنڈا ہے۔ خیر سگالی کے اس اظہار کیلئے بھی وہی اعتراض سامنے آیا کہ امریکی پاسپورٹوں والے ڈاکٹر حضرات کو بھارتی ویزا لینے کیلئے اپنی پاکستانی شہریت منسوخ کئے جانے کا ثبوت بھارتی قواعد کی لازمی ضرورت ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید سے عرض کی گئی کہنے اور سننے کو ہے۔ 11ستمبر کے سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں ملوث اور ذمہ دار قرار پانے والوں میں پاکستانی کوئی نہ تھا مگر آج بھی تخریب کاری اور دہشت گردی کے ذکر کے ساتھ ہی پاکستان کا نام چپک کر رہ گیا ہے۔ بیرون ملک آباد پاکستانیوں کی اکثریت صرف اپنی پاکستانی شناخت کی بدولت گزشتہ بارہ سال کے دوران بڑی آزمائش سے گزری ہے اور انہی پاکستانیوں کو دہری شہریت کا طعنہ دے کر پاکستان نے اپنے سیاسی و سرکاری نظام کے تمام دروازے قانوناً ان پر بند کر دیئے ہیں۔
پاکستانی نژاد اپنے امریکی یا کینیڈین پاسپورٹ کے ساتھ بھی جب سفر کرتے ہیں تو پیدائش کے خانے میں پاکستان کے ساتھ ہی بہت سے ممالک میں خصوصی نگاہوں کا مرکز بننا پڑ جاتا ہے۔ بھارت سرکار کی تو یہ قانونی اور امتیازی پالیسی ہے کہ وہ امریکی پاسپورٹ پر بھی پاکستانی نژاد لوگوں کو بھارت کا ویزا نہیں دیتے۔ حالانکہ یہ نسلی امتیاز بداخلاقی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ایک تازہ اور تلخ حقیقت سنئے۔ امریکہ میں آباد پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی مشہور تنظیم ’’اپنا‘‘ نے بھارت کے دورہ خیر سگالی اور سیاحت کا پروگرام بنایا کہ دسمبر2013ء میں ’’اپنا‘‘ کے موسم سرما کا سالانہ اجلاس کراچی میں ہوگا لہٰذا اس میں شرکت کرنے والے ممبران پہلے بھارت کا 10روزہ دورہ خیر سگالی اور سیاحت کریں گے۔ 13تا23دسمبر بھارت میں گزار کر پھر پاکستان کے ’’اپنا‘‘ کے اجلاس میں شرکت اور اپنے عزیزوں، رشتہ داروں سے ملاقات کے بعد واپس امریکہ آ جائیں گے ۔’’اپنا‘‘ کے عہدیدار اس سلسلے میں بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید سے بھی ملے جو اپنے بھارتی وزیر اعظم کے ہمراہ گزشتہ ستمبر میں اقوام متحدہ اور نواز شریف من موہن ملاقات کے سلسلے میں نیویارک آئے ہوئے تھے۔
ان اعلیٰ تعلیم یافتہ متوازن سوچ سمجھ والے پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کو بھارتی ویزا جاری کرنے کیلئے وہی مسئلہ کھڑا ہوا کہ یہ تمام حضرات بھارتی قاعدے کے مطابق اپنی پاکستانی شہریت ترک کرنے کا ثبوت پیش کریں۔ بھارتی وزیر خارجہ نے اس بارے میں کوئی وعدہ کئے بغیر جو ممکن ہو گا کریں گے کا وعدہ کر لیا۔ تقریباً 200پاکستانی نژاد ڈاکٹروں نے گروپ کی صورت میں بھارتی ویزا کیلئے درخواستیں دیں مگر بھارتی حکام کی جانب سے ایسا رویہ رہا کہ ’’اپنا‘‘ نے نومبر کے آخر میں اپنے ممبران سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ممبران کو متبادل طور پر اپنی تعطیلات گزارنے کی چھوٹ دے دی گویا بھارت کا دورہ اور 200ڈاکٹروں کے سفر کے انتظامات وغیرہ پر اوس پڑ گئی۔ یہ تو غنیمت ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ کی خصوصی دلچسپی کے باعث ان ڈاکٹروں کو پاکستانی شہریت ترک کرنے کا ثبوت فراہم کرنے سے مستثنیٰ کر دیا گیا۔ یہ تو غیروں کا سلوک ہے اب ذرا دہری شہریت اور بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ اپنوں کے سلوک کی مختصر سی تفصیل ملاحظہ ہو۔ یہ بے چارے غیر ملکوں میں محنت کی کمائی لے جا کر پاکستان میں پلاٹ زرعی زمین اور جائیدادیں خریدتے ہیں تو پاکستان جرائم مافیا کے گروہ ،کرپٹ سرکاری افسروں کے ساتھ مل کر ان کی جائیدادوں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔
جعلی دستاویزات، مقدمات کے ذریعے جائیداد پر قبضہ، اغوا برائے تاوان ،سیاسی رشوت ستانی حفاظت، دھوکہ فراڈ اپنی جائیداد اور اثاثوں سے محرومی کی ہزاروں حل طلب داستانیں اور حقائق موجود ہیں۔اپنی بہترین صلاحیتوں اور کارکردگی کے ساتھ یہ پاکستانی امریکہ ،برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا ، یورپ سمیت ہر جگہ وہ نمایاں اور قابل قدر خدمات انجام دیتے ہیں۔ صدر اوباما نے حال ہی میں ملتان کے ایک پاکستانی نوجوان کو قابل فخر سرمایہ قرار دیا مگر یہ پاکستانی اپنے آبائی وطن کے لئے ایک غیر ملکی اور بے کار ہیں۔ جی ہاں، یہ ہر سال بارہ ارب ڈالرز پاکستان ضرور بھیجیں، یہ ان کا فرض ہے۔ ان ڈالروں سے پاکستان کا فرسودہ بیورو کریٹک نظام چلایا جائے گا لیکن اس نظام کے چلانے، سنوارنے اور اس میں شریک نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم نوازشریف اپنا وعدہ پورا کر کے قانونی ترمیم کریں اور دہری شہریت والوں کا حق دیں۔
بشکریہ روزنامہ "جنگ"
عظیم ایم میاں
↧