Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 6213 articles
Browse latest View live

Corruption in Pakistan by Ansar Abbasi


Real story why Chairman Nadra Tariq Malik was mysteriously fired overnight!

$
0
0


Real story why Chairman Nadra Tariq Malik was mysteriously fired overnight!
Enhanced by Zemanta

Two Nation Theory

Nelson Mandela and Pakistan

Tribute to Cheif Justice of Pakistan Iftikhar Mohammed Chaudhry

$
0
0
 
Tribute to Cheif Justice of Pakistan Iftikhar Mohammed Chaudhry
Enhanced by Zemanta

بس تھوڑے دن کی تو بات ہے

$
0
0
 

 

 

بس چند دن ہی کی تو بات ہے۔ سب ٹھیک ہونا شروع ہوجائے گا۔ وزیرِ اعظم کو جنات کے ہاتھوں انسانوں کے غائب ہونے پر حیران ہونے کی اداکاری اور ’میرا دل ان کے چہرے دیکھ کے خون کے آنسو روتا ہے‘ جیسے ڈائیلاگ بولنے سے نجات مل جائے گی۔

سابق حزبِ اختلافی پاٹے خان اور حسبِ ضرورت وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف بٹ کو مائی باپ نے بہت محنت سے پینتیس کا جو پہاڑہ رٹوایا ہے وہ مائی لارڈ کو اٹک اٹک کر نہیں سنانا پڑے گا کہ پینتیس میں سے دو تو دورانِ حراست پرامن موت مر گئے۔ باقی بچے تینتیس۔ تینتیس میں سے دو قید میں ہیں۔ باقی بچے اکتیس۔ اکتیس میں سے ایک سعودی عرب چلا گیا، آٹھ افغانستان بھاگ گئے، تین وزیرستان روانہ ہوگئے۔ پانچ کے بارے میں مصدقہ معلومات نہیں اور سات کے بارے میں قسمے خدا دی کوئی پتہ نئیں کہ کتھے گئے۔ یہ ہوگئے کل ملا کے اٹھائیس۔ اب بچ گئے پینتیس میں سے سات۔ تو میں ان سات کو چودہ بنا کے عدالت میں پیش کر رہا ہوں بس چہروں سے چادریں نا ہٹوائیےگا آپ کی بڑی مہربانی۔

مگر بٹ صاحب آپ یہ تفصیل پہلے روز بھی تو دے سکتے تھے۔ اپنا اور عدالت کا اتنا وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ مالاکنڈ حراستی مرکز کا سپرینڈنڈنٹ عطا اللہ تو حلفاً کہتا ہے کہ اس کے پاس جو چھیاسٹھ قیدی تھے ان میں سے آرمی پینتیس لے گئی۔

جی نہیں مائی لارڈ نہ عطا اللہ جھوٹ بول رہا ہے، نہ میں اور نہ فوج اور انٹیلی جینس والے۔ عطا الے سمیت ہر کوئی اپنے اپنے حصے کا سچ بول رہا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ جھوٹ کی چادر بے جوڑ ہوتی ہے اور سچ ٹکڑے ٹکڑے جمع کر کے سینا پڑتا ہے۔ یقین کریں میں یہ بات پوری سچائی سے کہہ رہا ہوں۔

بس کچھ دن اور۔۔۔۔عدلیہ کی آزادی کے سابق ہیرو اور حالیہ اٹارنی جنرل منیر ملک کو عدالت میں ادھر ادھر یا اوپر نیچے دیکھ کر بات نہیں کرنی پڑے گی ۔چئیر اپ ملک صاحب۔ آپ پہلے ہی گردے کے مریض ہیں۔

نا ہم سمجھے نا آپ آئے کہیں سے

پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے

اور آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل اعجاز شاہد صاحب آپ بھی دل چھوٹا نہ کریں۔ آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں یونہی مریض بنے لیٹے رہیں۔ ہاں ٹوئٹر سے کھیلنے پے کوئی پابندی نہیں۔ ایسی تصاویر ٹوئیٹ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ لاپتہ افراد کا چیمپئن ماما قدیر آزاد بلوچستان کا فوٹو شاپ جھنڈا اٹھائے کیک کاٹ رہا ہے۔ ایسے ٹوئٹرز سے نہ صرف عزم کا پتہ چلتا ہے بلکہ مریض کا دل بھی بہلا رہتا ہے۔ آپ سے پہلے والے والے افسر بھی ڈی آئی جی کوئٹہ کی گواہی اور لوگوں کو غائب کرنے کے ویڈیو ثبوتوں کے باوجود طلبی کے سمنوں کو ٹائلٹ پیپر کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ بارہ دسمبر کو آپ بھی ہسپتال سے ڈسچارج ہو جائیےگا۔ اللہ خیر کرے گا۔

اور چیف تیرے جانثار بے شمار بے شمار کے نعروں سے گلا بٹھانے والے اے پیارے وکیلو۔ جاتے جاتے سے خفا ہونے کی ضرورت نہیں۔ اب کوئی بھی آپ سے کلائنٹس اور ججوں کو بے عزت کرنے اور گالی گھونسے مکے لات کی آزادی نہیں چھین سکتا۔ ویسے بھی انصاف کا گھی سیدھی انگلیوں کب نکلا۔ لہٰذا دل پے پتھر رکھ کر ہی سہی بس چند دن کے لیے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کر لیں۔

یقین کیجیے یہ چیف ضرور کہلاتے ہیں مگر وہ والے چیف نہیں جن کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہو سکے اور اس بات پر اب آپ سمیت تمام مکاتیبِ سیاست و عسکریات متفق علیہ اور خوش ہیں۔ ان والے چیف کے بارے میں تو یہ خوش گمانی بھی نہیں کہ ٹرکوں پر تصویر بنے گی اور پھر اس تصویر پر کوئی کفیل بھائی رائٹ آرم لیف آرم باؤلر گھوٹکی والا یہ مصرعہ پینٹ کرے گا کہ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔

بارہ دسمبر کو بھی بلوچستان کے دھول زدہ پہاڑوں میں بغیر نمبر پلیٹ کی کالے شیشوں والی گاڑیاں شکار پے نکلی ہوئی ہوں گی۔ خیبر پختون خواہ کے کسی تفتیشی مرکز میں بکرے الٹے لٹکے ہوں گے۔ اسلام آباد کی کسی پرشکوہ عمارت کے ڈائننگ ہال میں لذیذ کھابے اتر رہے ہوں گے۔ قریب کے کسی ای یا ایف ٹائپ گھر میں کسی میگا پروجیکٹ کی ڈیل حسبِ اطمینان طے ہونے کے بعد باچھیں چوڑی ہو چکی ہوں گی۔ آب پارہ کی کسی بے نام بلڈنگ کے کاریڈور میں قطرہ قطرہ مسکراہٹ برس رہی ہوگی ۔ وزیرِ دفاع کئی دن بعد ایک اچھی نیند سے بیدار ہوں گے۔ اٹارنی جنرل ایک عرصے بعد نصف شب کے بجائے سرِ شام دفتر سے گھر خوش خوش لوٹیں گے۔

لاہور کے صوبائی سیکریٹیریٹ میں قومی فیصلے ہو رہے ہوں گے۔ قبائلی علاقے میں کچھ مقامی علما سرکاری قاصد بنے میران شاہ کی طرف رواں ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کوئی ایسی گاڑی بھی ان کی فور وھیلر کو کراس کرے جو بارود سے بھری ہو۔ اندرونِ سندھ کے کسی دور دراز گاؤں میں کوئی لڑکی ریپ ہو چکی ہوگی۔ کراچی میں ایک نیا پولیس مقابلہ دکھانے کی تیاری مکمل ہوگی۔ ماما قدیر پریس کلب کے باہر کی فٹ پاتھ پر غائبین کا تصویری سٹال پھر سے سجا رہا ہوگا۔

بارہ دسمبر میں دن ہی کتنے بچے ہیں۔۔۔دو تین چار ۔۔بسسسس۔۔۔۔؟؟

وسعت اللہ خان

جب منڈیلا نے کلنٹن کو مشکل میں ڈال دیا۔۔

$
0
0


امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن نے جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی وفات کے بعد بی بی سی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انھیں اپنے ہی انداز میں یاد کیا اور کچھ ایسے واقعات بیان کیے جب منڈیلا نے انہیں مشکل میں ڈال دیا تھا۔

صدر کلنٹن نے منڈیلا کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے سیاسی لیڈر ہونے اور صدارت چھوڑنے کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا مگر ’وہ درحقیقت ایک بہت اچھے صدر تھے اور اپنے عوام اور ملک کے وفادار نمائندے تھے۔ اگر اس بات کو دیکھا جائے کہ وہ کتنا عرصہ جیل میں رہے اور کس قدر جلد انہوں نے حالات پر قابو پایا اور اپنے اردگرد لوگوں کو کام کرتے رہنے دیا، حکومت میں کام کرتے رہنے دیا جس دوران وہ اپنے لوگوں کو حکومت میں شامل کرتے رہے‘۔

 صدر کلنٹن نے مزید کہا کہ ’انہوں نے بطور صدر بہت اچھا کام کیا اور مجھے ان کے ساتھ کام کر کے بہت اچھا لگا اور یہ سب کام کے حوالے سے ہوتا تھا۔ کام کے بعد ہم پھر سے دوست بن جاتے تھے بےشک ہم ایک دوسرے سے پندرہ منٹ تک بات کرتے رہے ہوں۔ مگر کام سب سے اولین ترجیح ہوتا تھا اس کے بعد ذاتی بات چیت اور کام ہوتے تھے۔‘

 صدر کلنٹن نے کہا کہ ’میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ وہ میرے ساتھ بہت بے تکلف تھے عام روش سے ہٹ کر۔‘

صدر کلنٹن نے کہا کہ ’میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ وہ میرے ساتھ بہت بے تکلف تھے عام روش سے ہٹ کر۔ اگرچہ ہم ایک دوسرے سے بحث مباحثہ کرتے تھے اور ایک دو بار تو ہماری بہت تندوتیز بحث ہوئی۔ میں اکثر ان سے کیوبا کے بارے میں شکوہ کرتا تھا۔‘

ایک دلچسپ واقعے کو یاد کرتے ہوئے صدر کنٹن نے بتایا کہ ’منڈیلا بہت زیادہ وفادار تھے خاص طور پر ان ممالک اور حکومتوں کے ساتھ جنہوں نے ان کے اسیری کے دور میں ان کی حمایت اور مدد کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک رات ہم ان کے مہمان تھے، تقریباً سات سال قبل ان کی سالگرہ کے دنوں میں اور ہم ان کی فاؤنڈیشن کے لیے ایک نیلامی پر گئے۔ میں اپنے پورے امریکی وفد کو ساتھ لے کر گیا۔ ہم نے نیلامی میں حصہ لیا اور ان کی فاؤنڈیشن کے لیے بہت سی رقم جمع کی۔ اس نیلامی میں بہت سی چیزیں نیلامی کے لیے رکھی تھیں جن میں ایک بہت قیمتی رم کی بوتل تھی جو کیوبا کے رہنما فیدل کاسترو نے منڈیلا کو تحفتاً دی تھی۔ مجھے بہت سے لوگوں نے کہا کہ منڈیلا کی خاطر آپ کو اسے خریدنا چاہیے۔ تو میں نے خرید تو لی مگر اسے امریکہ واپسی سے پہلے ہی کسی کو دے دیا کیونکہ میں کیوبا پر امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتا تھا‘۔

صدر کلنٹن نے مزید بتایا کہ میں نے ایک بار ان سے پوچھا کہ آپ نے مفاہمت کے عمل میں کیسے حصہ لیا دیکھیں ان لوگوں نے آپ سے کیا سلوک کیا آپ نفرت تو کرتے ہوں گے ان سے؟

صدر کلنٹن نے کہا کہ منڈیلا ’در حقیقت ایک بہت اچھے صدر تھے اور اپنے عوام اور ملک کے وفادار نمائندے تھے‘

منڈیلا نے جواب دیا ’میں جب جیل گیا تو جوان اور قوی تھا اور گیارہ سال تک میں اپنی نفرت پر پلتا رہا۔ ایک دن جب میں چٹانیں توڑ رہا تھا تو میں نے اس سب کے بارے میں سوچا جو انہوں نے مجھ سے کیا اور میرے سے چھینا۔ اور مجھے ذہنی اور جسمانی طور پر اذیتیں دیں۔ انہوں نے مجھ سے میرے بچوں کو جوان ہوتے دیکھنے کا حق چھین لیا اور میری شادی تباہ کی۔ مجھے احساس ہوا کہ وہ مجھ سے سب کچھ چھین سکتے ہیں سوائے میرے ذہن اور میرے دل کے۔ میں نے یہ دونوں چیزیں نہ دینے کا فیصلہ کیا۔‘

مشہور مورخ اور مصنف ڈاکٹر مبارک علی نے نیلسن منڈیلا اور صدر کلنٹن کے حوالے سے ایک تاریخی واقعہ بیان کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے یاد ہے کہ جب بل کلنٹن جنوبی افریقہ گئے ہوئے تھے کہ اور انہوں نے اپنی تقریر میں جب لیبیا کے اوپر تنقید کی تو لائیو نشر ہونے والی اس تقریر میں منڈیلا نے امریکی صدر کو روک دیا۔ انہوں نے کہا کہ رک جائیں اور لیبیا پر تنقید نہ کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہماری اس وقت مدد کی تھی جب ہم انتہائی مشکلات کا شکار تھے۔‘

ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق ان نزدیک ایسا کرنا بہت اخلاقی جرات کا کام ہے اور یہ منڈیلا جیسی شحصیت ہی کر سکتی تھی جو دنیا کے طاقتور ترین شخص کو روک سکیں اور ان لوگوں کے احسان کو یاد رکھیں انہوں نے برے وقت میں ان کی مدد کی۔

Help and Duaa for our sister Amna Masood Janjua Stuggle for Missing Persons

$
0
0
This is not the life we wanted but the life we were forced to adopt. Sadly the second day is about to end and not even a single person from the authorities visited the missing persons camp.

Is this the roshan Pakistan we want to give our children?
 Just came back from the Supreme Court. All the news regarding the release of 14 persons is false... The defense ministry only presented 7 people who's identity is known. They were head scarfed.
Assalam alaikum , please visit the Missing Persons Camp at D chowk islamabad and generously help this great cause of the poor and aggrieved missing persons families. Women, children and old left without justice are Waiting anxiously in the 2nd day of Camp in the chilling cold of Islamabad . 7th Dec 2013 .
Amina Masood janjua

 Islamabad police trying to take the camp down. Immediate help required.
A message from the daughter
(Javaria) of a missing person IBRAHIM AHMAD:
Prime Minister Sahab. I just want to request you that please, for GOD's sake,release the missing fathers,brothers,husbands and sons.Their families are on the road on a very cold night & they will be staying on the road all night if you do not release their dears ones.

So please release them because little children like me are getting ill due to the cold.

We are waiting for you on the D chowk ISLAMABAD.
Enhanced by Zemanta

Raise and Fall of Iftikhar Mohammed Chaudhry

$
0
0

Raise and Fall of Iftikhar Mohammed Chaudhry
Enhanced by Zemanta

Iran, USA and Pakistan

Abdul Qadir Mullah - ہم کہ ٹھہرے اجنبی۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!

$
0
0

ہم کہ ٹھہرے اجنبی۔۔۔۔۔۔۔۔!!!! 
اسلام کے نام پر حاصل کردہ پاکستان سے محبت کا "جرم"کرنے والے عبدالقادر ملّا، جنہیں آج شب پھانسی دے دی جائے گی۔ 
سقوط ڈھاکہ کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ ان عظیم شخصیات اور ان کی عظیم قربانیوں سے خود وہ لوگ ناواقف ہیں جن کی خاطر وہ تختہ دار پر پھانسی کے پھندے کو چوم رہے ہیں۔ افسوس پاکستانیو افسوس    


















































Enhanced by Zemanta

عدالت اور سیاست........طلعت حسین

$
0
0




کہتے ہیں کامیابی کے بہت سے والدین پیدا ہو جاتے ہیں جب کہ ناکامی ہمیشہ یتیم ہی رہتی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے گرد گھومنے والی وکلاء تحریک اور اس کے بعد پیدا ہونے والے بڑے بڑے واقعات کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے عدلیہ کی آزادی کے معاملے کو اپنے مقاصد کے لیے جی بھر کے استعمال کیا۔ اپنا سر بلند کیا۔ سینہ پُھلا کر جمہوریت کے تمغے خود کو عنایت کیے اور موقعے کی مناسبت سے ’’قدم بڑھائو چیف جسٹس ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘کا نعرہ بلند کیا۔ مگر جب آزاد عدلیہ نے اپنے فیصلوں کے ذریعے ان تمام معاملات کی نشاندہی کرنا شروع کی جن کا تعلق ایک جابر نظام کے استحصالی گماشتوں کے کرتوتوں سے تھا تو تقریبا ہر کسی نے عدلیہ کی ’’حدود‘‘ متعین کرنے کی بحث کا آغاز کر دیا۔

میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا تھو تھوکا رویہ اب بھی موجود ہے بلکہ یوں کہیے کہ اپنے عروج پر ہے۔ کوئی بھی جماعت ایسی نہیں ہے کہ جو چیف جسٹس کے جانے کا انتظار نہ کر رہی ہو۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے سب کو عدلیہ کی آزادانہ کارروائیوں سے ایک ایسا بخار ہو گیا ہے جو چیف جسٹس کے اترنے سے ہی اترے گا۔ اگرچہ یہ سب وہی جماعتیں ہیں جو افتخار محمد چوہدری اور ان کے ساتھ دوسرے معزول جج صاحبان کے نام سے اپنے دن کا آغاز کرتیں اور ان کی مالا جپتے ہوئے آنکھیں موندتیں تھیں۔ اس وقت سب چیف جسٹس کو چڑھانے میں مصروف تھے اور اب ان کے اترنے کے لیے بے چین ہیں۔

یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ ایک وجہ تو سیاست خود ہے۔ یہاں پر وفاداری کا وہی حال ہے جو ہالی وُڈ میں شادیوں کا ہوتا ہے۔ دو ماہ سے زیادہ نہیں چلتیں اور پھر ختم ہونے کے بعد خوفناک مقدمات میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ دوسری وجہ کا تعلق ان توقعات سے ہے جو سیاسی جماعتوں نے عدلیہ کے بحال ہونے سے منسلک کر لیں تھیں۔ جس کسی نے بھی جنرل مشرف کے اقدامات کے خلاف اور ججز کے حق میں ایک مرتبہ بھی زبان کھولی تھی وہ یہ سمجھنے لگ گیا تھا کہ اس کا ہر الٹا سیدھا عدلیہ کے سامنے صرف اس وجہ سے قابل قبول ہو جانا چاہیے کہ وہ کسی زمانے میں سپریم کورٹ کے سامنے کھڑا ہو کر نعرے لگایا کرتا تھا۔ کوئی عدلیہ کے انصاف اور اس کی آزادی کے اثرات کو خود پر لاگو ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ آزاد عدلیہ سیاسی مخالفین کو غلام بنانے میں معاونت بھی کرے۔ دوسرے الفاظ میں سیاسی قیادت عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کو بھی اسی نظر سے دیکھتی ہے جس طرح آزادی صحافت کو۔ ان کے نزدیک اچھا صحافی وہی ہے جو کامیابی کے تمام دعوئوں پر دھمال ڈالے اور پارٹی قیادت کے شادی بینڈ میں زور زور سے ڈھول پیٹے۔ ان کے نزدیک جج وہی اچھا ہے جو ان کا بغل بچہ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک کے سیاسی اور عسکری حلقوں نے خود سے آزاد عدلیہ کو مسیحا بنانے کا کام بھی جاری رکھا۔ کون سا ایسا معاملہ ہے جو حکومت یا حزب اختلاف عدالت کے سامنے لے کر نہیں گئی۔ عدالت کے سو موٹو پر تو بڑا شور مچا یا جاتا ہے مگر کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اُن کاموں کے لیے بھی عدالت کا دروزاہ کھٹکھٹایا گیا جس کو انھوں نے خود حل کرنا تھا۔ انتخابات کے لیے ووٹرز لسٹیں ہوں یا ریاست کے خلاف ہونے والی سازشیں (میمو گیٹ) ہر مسئلے پر فیصلے کے لیے عدالت کا رُخ کیا جاتا رہا۔ اس وقت کسی نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ اس عادت کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ویسے بھی اگر ہر ادارے کی کارکردگی غیر معیاری ہے، انتظامیہ نکمی اور احتساب کے عمل سے باہر ہے۔ طاقتور فرعون اور کمزور، مطیع و مجبور و بے کس ہے تو کسی نہ کسی ادارے نے تو ذمے داری اٹھانی ہے۔ کسی نے تو چارج لینا ہے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عدالت یا ججز محترم با اختیار یقینا ہیں مگر ان کو بھی آئین کے پیرائے میں رہ کر اپنا کام کرنا ہے مگر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس ملک میں کروڑوں باسی ایسے ہیں جن کے شب و روز اس پستی میں گزرتے ہیں جہاں پر قانون نوکر اور آئینی معاملات بے وقعت ہیں۔ ان کو بحث مباحثہ نہیں تکلیف میں فوری تخفیف چاہیے۔

ان تک پہنچنے کا راستہ صرف براہ راست عمل ہے۔ ان کے لیے جمہوری اداروں کے ارتقائی مراحل کا مطلب امید کی شمع کا گل ہونا ہے۔ وہ انتظار نہیں کر سکتے۔ اگر ان کا ہاتھ سیاست دان نہیں پکڑے گا تو یہ کام جج کو کرنا پڑے گا۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے آپ کو زیادہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ صرف یہ سوچ لیں کہ کیا آپ کو پاکستان میں بد عنوانی کی گہری جڑوں کے بارے میں پتہ چلتا، اگر یہ معاملات عدلیہ نہ اٹھاتی؟ کیا آپ یہ جان پاتے کہ ڈاکو کیسے کیسے روپ اختیار کر کے اس قوم کے خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر تباہ کرتے ہیں؟ کیا آپ کو گمشدہ افراد کے بارے میں معلومات ملتی؟ کراچی کے قاتلوں کا پتہ چلتا؟ ان درجنوں اسکینڈلز پر سے پردہ اٹھتا جو اب ہر کسی کو زبانی یاد ہو چکے ہیں۔ یقینا نہیں۔ یہ سب کچھ عدلیہ کی متحرک پالیسی کے ذریعے ممکن ہوا۔ اگر جج اس گند کے ڈرم سے ڈھکن نہ اٹھاتے تو ہم بھی احمقوں کی اس جنت میں بیٹھے ہوتے جو طاقتور شداد ہمیں گمراہ کرنے کے لیے بناتے ہیں اور پھر ہمیں یہ بتلاتے ہیں کہ ’’سب اچھا ہے‘‘ مگر کیا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے تحت چلنے والے عدالتی نظام نے سب کچھ صحیح کیا؟ اس پر اگلا کالم تحریر ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ"ایکسپریس"

Enhanced by Zemanta

Why People Dont like Iftikhar Mohamemd Chaudhry?

$
0
0
Why People Dont like Iftikhar Mohamemd Chaudhry?

پی پی کو چیف جسٹس نہیں پسند کیوںکہ انہوں نے ان کو کرپشن پر فورا پکڑا اور وزیر اعظم ہی فارغ کر دیا قادری کو چیف جسٹس نہیں پسند کیونکہ انہوں نے ان کا ایجنڈا مکمل نہیں ہونے دیا اور ملک ریاض کے فنڈڈ انقلاب کو بریک لگا دی عمران خان کو چیف جسٹس نہیں پسند کیونکہ عمران کی انا حقیقت سے بڑی ہے اپنی ہار تسلیم نہیں کی اور کسی اور پر الزام لگا دیا ق لیگ کو چیف جسٹس نہیں پسند کیونکہ اس چیف کی وجہ سے وزیر اعظم پرویز الہی کے نعروں کو زنگ لگ گیا اور وردی میں مشرف کو سو بار منتخب نہ کروا سکے مشرف کو چیف جسٹس نہیں پسند کیونکہ اس نے "ظالم حکمران"کے منہ پر نہ کہا اور اس کی خدایی کو چیلنج کر دیا آرمی کو چیف جسٹس نہیں پسند کیونکہ اس نے لاپتہ افراد کے گھروالوں کے لیے آواز بلند کی اور بلوچستان میں ان کے کردار پر سوال اٹھایا ایم کیو ایم کو چیف جسٹس نہیں پسند کیونکہ اس کی وجہ سے آج کراچی میں آپریشن ہو رہا ہے اور نا معلوم افراد سامنے آنا شروع ہو گیے ہیں میڈیا کو چیف جسٹس نہیں پسند کیونکہ چیف ان کے بہکاوے میں نہیں آیا اور اپنا کام کرتا رہا ن لیگ کو چیف جسٹس نہیں پسند کیونکہ وہ باقیوں کی طرح ان سے بھی رعایت نہیں برتتا اس مرد آہن سے قبل عدالتوں سے کسی قسم کی کویی امید پاکستانی قوم نے نہیں لگایی تھی ہم دوسروں کی تعریف کرتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں اب یہ وہ ملک ہے جہاں جرنیل وزیر اعظم وزرا بیوروکریسی ہاتھ باندھے قانون کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور یہ ملک صرف اور صرف اس شخص کی وجہ سے آج ایسا ہے اللہ چیف جسٹس کو اس کے کاموں کا اجر دے اور ہمارے ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو اور چیف جسٹس کے اس مقصد میں سرخرو کرے جس کا آغاز اس نے کیا - آمین

Enhanced by Zemanta

Chief Justice of Pakistan Tassaduq Hussain Jillani

$
0
0


 سپریم کورٹ آف پاکستان کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق جسٹس تصدق حسین جیلانی 6 جولائی 1949ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ملتان سے ہے۔ انہوں نے فورمین کرسچین کالج لاہور سے سیاسیات میں ایم اے اور پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔

وہ یونیورسٹی آف لندن کے انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانس لیگل اسٹڈیز سے کانسٹیٹیوشنل لاء کا کورس بھی کامیابی کے ساتھ پاس کر چکے ہیں۔ انہوں نے وکالت کا آغاز 1974ء میں ڈسٹرکٹ کورٹ ملتان سے کیا۔ وہ 1983ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل کی حیثیت سے انرول ہوئے۔

انہیں انرولمنٹ کے دس سال بعد یعنی 1993میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب تعینات کیا گیاجبکہ 7اگست 1994کو انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف لیا۔

وہ 31جولائی 2004ء کو سپریم کورٹ کے جج تعینات ہوئے۔ اس کے تین سال بعد 3 نومبر2007ء کی ایمرجنسی میں انھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا تو غیر فعال کر دئیے گئے۔ تاہم ستمبر 2009ء میں انہیں بحال کر دیا گیا۔ انہیں رواں سال ہی قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بھی تعینات کیا گیا تھا۔

وہ اب تک متعدد بین الاقوامی اجلاسوں، کانفرنسز، سیمینارز اور مذاکرات میں پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ وہ مالٹا، برطانیہ، آسٹریااور امریکہ سمیت کئی ممالک کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔

تصدیق حسین جیلانی کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ انہیں نوادرات جمع کرنے اور پھل دار درخت لگانے کا شوق ہے۔ پرانے فرنیچر سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ تصدق جیلانی کے پاس 1965ء کے دورکا ایک ریڈیو بھی ہے جو ابھی تک کام کررہا ہے۔

 

Chief Justice of Pakistan Tassaduq Hussain Jillani  

Enhanced by Zemanta

پاکستان سے محبت کی سزا

$
0
0



جماعت اسلامی کے رہنماء عبدالقدیر ملا کو پھانسی دیدی گئی۔ عبدالقادر ملا کو گزشتہ منگل کو سزائے موت پر عملدرآمد آخر لمحوں میں روک دیا گیا تھا۔
  ادارے کے مطابق بنگلہ دیش کی عدالت عالیہ نے جماعت اسلامی کے رہنماء عبدالقدیر ملا کی پھانسی کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن آج انہیں پھانسی دیدی گئی ہے۔ جنگی جرائم کی عدالت نے انھیں عمر قید کی سزا سنائی تھی لیکن سپریم کورٹ نے حکومت کی اپیل پر اسے سزائے موت میں بدل دیا تھا۔ جماعتِ اسلامی نے دھمکی دی ہے کہ اگر عبدالقادر ملا کو پھانسی دی گئی تو اس کے خوفناک نتائج سامنے آئیں گے۔ واضع رہے کہ جماعت اسلامی کے رہنماء عبدالقادر ملا پر 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کے دوران جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ عبدالقادر ملا پر الزام تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے تحت قائم کی گئی البدر نامی عسکری تنظیم کے رکن تھے۔  بنگلہ دیش کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ 1971ء میں جنگ کے دوران 30 لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جنگی جرائم کا یہ ٹربیونل بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ 65 سالہ عبدالقادر ملا جماعت اسلامی کے سرکردہ مرکزی رہنماء تھے۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے ان کے لئے عمر قید کی سزا سنائی تھی جس کے بعد بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے تھے


-رو رہی ہے یہ زمیں اور رو رہا ہے آسماں

نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں غرق نہیں ہوا

سقوطِ ڈھاکا کے اسباب

$
0
0

مسلم دنیا کی تاریخ کے تین بڑے سانحے ہیں: سقوطِ بغداد، سقوطِ دلّی اور سقوطِ ڈھاکا۔ لیکن ان سانحوں میں سب سے بڑا سانحہ سقوطِ ڈھاکا ہے۔ اس کی چار وجوہ ہیں:
(1) سقوطِ بغداد اور سقوطِ دلّی داخلی کمزوری کا نتیجہ نہیں تھے لیکن سقوطِ ڈھاکا میں مقامی آبادی دشمن کے ساتھ کھڑی ہوگئی یا اسے ایسا کرنے پر مجبور کردیا گیا۔
(2) سقوطِ ڈھاکا میں مسلم فوجوں نے تقریباً لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے۔
(3) سقوطِ ڈھاکا کے نتیجے میں ہمارے 90 ہزار فوجی گرفتار ہوئے اور انہوں نے دشمن کی قید میں طویل مدت گزاری۔
(4) اس کے باوجود کہ پاکستان کا مغربی بازو پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر موجود رہا، تاہم 42 سال گزرنے کے باوجود نہ سقوطِ ڈھاکا کے ذمے داروں کا تعین ہوا اور نہ اس سلسلے میں کسی کو سزا دی گئی۔
لیکن یہ کہانی شروع کہاں سے ہوتی ہے؟
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عجیب وغریب پہلو یہ ہے کہ ملک اقلیتیں توڑتی ہیں۔ وہ اکثریت کی شکایت کرتی ہیں اور ملک سے الگ ہونے کے لیے کوشاں ہوتی ہیں۔ لیکن مشرقی پاکستان میں اکثریت نے اقلیت سے الگ ہونے کی جدوجہد کی، حالانکہ یہ اکثریت برصغیر میں مسلمانوں کے مفادات کے لیے سب سے پہلے آواز بلند کرنے والی اور تحریکِ پاکستان میں سر دھڑ کی بازی لگا دینے والی اکثریت تھی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ دلّی‘ لاہور‘ کراچی یا پشاور میں نہیں 1906ء میں ڈھاکا میں قائم ہوئی تھی اور اُس کے بانیوں میں بنگالی قائدین کی اکثریت تھی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ بنگال میں انگریزوں اور ہندوئوں کے جبر کا احساس شدید تھا اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بنگالی مسلمانوں میں سیاسی شعور کی سطح بلند تھی۔ بنگالیوں کا یہ سیاسی شعور تحریکِ پاکستان میں پوری طرح بروئے کار آیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جن بنگالیوں نے 1947ء میں پاکستان بنایا تھا وہ قیام پاکستان کے محض 24 سال بعد پاکستان سے الگ ہونے پر کیوں مائل ہوگئے؟
پاکستان کے ساتھ سب سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ قائداعظم کی اہمیت یہ تھی کہ وہ پاکستان بنانے والے تھے۔ پورے ملک کے عوام پر ان کا گہرا اخلاقی اور تاریخی اثر تھا اور عوام کی عظیم اکثریت ان سے محبت کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ قائداعظم پاکستان کی وحدت و سلامتی کی علامت تھے۔ وہ ہر طرح کی تقسیم سے بلند تھے اور ملک کے تمام طبقات ان پر بھروسا کرتے تھے۔ صرف قائداعظم میں یہ جرأت تھی کہ وہ ڈھاکا میں کھڑے ہوکر کہیں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔ عام طور پر جماعتیں رہنمائوں کے بعد ان کا نعم البدل بن جاتی ہیں، مگر مسلم لیگ کی حالت خستہ تھی اور قائداعظم کے بعد ان کی جگہ لینے کے لیے نہ کوئی شخصیت موجود تھی نہ جماعت۔ لیکن قائداعظم کی عدم موجودگی سے بھی بڑا سانحہ یہ ہوا کہ پاکستان جس نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا، 1948ء سے 1971ء تک اسے حقیقت بنانے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی، بلکہ اس کے برعکس ملک کا اقتدار اُن لوگوں کے ہاتھ میں آگیا جو سیکولر تھے، لبرل تھے اور جن کو مذہب سے رتی برابر دلچسپی نہیں تھی۔چنانچہ مغربی اورمشرقی پاکستان کے درمیان قربت اور یگانگت کا وہ احساس پیدا ہی نہیں ہوسکا جو اسلام پیداکرتا ہے اور جس نے برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کو نسل، زبان، جغرافیہ اور فرقہ و مسلک سے بلند ہونے پر مائل کیا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی کہانی ایک فقرے میں بیان کی جاسکتی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان مذہب کی قوت نے بنایا تھا اور مذہب کی قوت کی عدم موجودگی نے پاکستان کو دولخت کردیا۔ لیکن اس کا ذمہ دار مذہب نہیں وہ حکمران طبقہ ہے جس نے پاکستان میں اسلام کو اپنے امکانات ظاہر ہی نہیں کرنے دیے۔ اسلام دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تخلیق کرسکتا تھا تو وہ اس ریاست کو سپر پاور بھی بناسکتا تھا۔ ریاست مدینہ کیا خلافتِ عثمانیہ تک اس کی ٹھوس مثال ہے۔ بعض لوگ مذہب کی اہمیت پر اس اصرار کو ’’مبالغہ آمیز‘‘ سمجھتے ہیں۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ ان لوگوں کا مذہب سے تعلق ہی نہیں ہوتا۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ مذہب کو صرف عقائد و عبادات اور اخلاقیات کا مجموعہ سمجھتے ہیں، حالانکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور جب ا سلام پر عمل ہوتا ہے تو انفرادی اور اجتماعی زندگی کا پورا سانچہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک مثال اسلام کا تصورِ عدل ہے جس کے بغیر اسلامی معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اور مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہمیں کہیں بھی عدل نظر نہیں آتا۔
مشرقی پاکستان کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی اور مشرقی پاکستان کے لوگوں کو اسی اعتبار سے پاکستان کے معاشی اور سماجی کیک سے حصہ فراہم ہونا چاہیے تھا۔ لیکن مشرقی پاکستان کے لوگوں سے کہا گیا کہ تمہیں مساوات یا Parity کے اصول کو تسلیم کرنا ہوگا اور وسائل میں تمہارا حصہ 54 فیصد نہیں صرف 50 فیصد ہوگا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے لیے اس اصول کو تسلیم کرنا آسان نہ تھا لیکن حسین شہید سہروردی نے پاکستان کی وحدت کے لیے اس اصول کو تسلیم کرنے کی مہم چلائی اور وہ اپنی مہم میں کامیاب رہے۔ لیکن مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے مساوات کے اصول پر بھی عمل نہ کیا۔ یہاں تک کہ حسین شہید سہروردی کی عزیزہ شائستہ اکرام اللہ نے اپنی کتاب ’’پردے سے پارلیمنٹ تک‘‘ میں شکایت کی ہے کہ حسین شہید سہروردی نے مساوات کے اصول کے حق میں مہم چلا کر اپنے سیاسی کیریئر کو دائو پر لگایا لیکن مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے کبھی اُن کی اس خدمت کا اعتراف کرنا تک پسند نہ کیا۔ نتیجہ یہ کہ مشرقی پاکستان میں معاشی استحصال کی شکایات عام ہوگئیں۔ ان شکایات کو عملی زندگی کے تجربات سے تقویت فراہم ہوتی رہی۔ مثال کے طور پر بنگالی‘ آبادی کا 54 فیصد تھے لیکن برّی فوج میں ان کی موجودگی صرف آٹھ دس فیصد تھی۔ فضائیہ میں ان کی موجودگی زیادہ تھی مگر یہ بھی پندرہ بیس فیصد سے زیادہ نہ تھی۔ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان ہجرت کرنے والے اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اگر مشرقی پاکستان میں 50 تھانے تھے تو صرف پانچ چھ تھانوں کے سربراہ بنگالی تھے۔ باقی تھانوں کے ایس ایچ اوز پنجابی‘ پٹھان یا مہاجر تھے۔ پاکستان کی نوکر شاہی کا معاملہ بھی یہی تھا۔ بیوروکریسی میں بنگالیوں کی موجودگی آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ یہ صورت حال بنگالی 24 سال تک اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے، چنانچہ اُن میں مغربی پاکستان کے حکمرانوں کے خلاف ردعمل پیدا ہونا فطری بات ہے۔ جنرل یحییٰ خان نے فوج میں بنگالیوں کی کمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی، مگر اُس وقت تک دیر ہوچکی تھی اور جنرل یحییٰ کے اضافے سے بھی بنگالیوں کا فیصد برّی فوج میں دس سے بڑھ کر پندرہ بیس فیصد ہوجاتا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جیسے پاکستان‘ اس کی فوج‘ اس کی پولیس اور اس کی بیوروکریسی پنجابیوں‘ پٹھانوں اور مہاجروں کو ’’جہیز‘‘ میں ملی تھی اور اس جہیز میں بنگالیوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم کاز کے لیے بنگالی 1906ء سے جدوجہد کررہے تھے جبکہ پنجاب میں1946ء تک یونینسٹوں اور صوبہ سرحد پر سرحدی گاندھی کا قبضہ تھا۔ لیکن ناانصافی سے بھی زیادہ افسوس ناک چیز بنگالیوں کی تذلیل اور تحقیر تھی۔
اس تحقیر کا ایک پہلو ’’مارشل ریس‘‘ کا نظریہ تھا جس کے تحت صرف چھ فٹ کے جوان فوج کے لیے موزوں سمجھے جاتے تھے، جبکہ بنگالی پستہ قد تھے، چنانچہ وہ پنجابیوں‘ پٹھانوں اور مہاجروں کے برابر ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ یہ تحقیر مغربی پاکستان کے حکمرانوں بالخصوص فوجیوں میں اوپر سے نیچے تک موجود تھی۔ ایم ایم عالم پاک فضائیہ کے بے مثال شاہین تھے۔ انہوں نے 1965ء کی جنگ میں دو منٹ میں بھارت کے چار جہاز گرائے تھے اور یہ ایک عالمی ریکارڈ تھا۔ چند سال پہلے وہ اے آر وائی پر انٹرویو دیتے ہوئے بتارہے تھے کہ جنرل ایوب کو جب میرے کارنامے کی اطلاع دی گئی تو وہ بہت خوش ہوئے لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ کارنامہ انجام دینے و الا بنگالی ہے تو اُن کا چہرہ سرخ سے سیاہ ہوگیا۔ یعنی انہیں یہ بات پسند نہ آئی۔ کرنل صدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ سقوطِ ڈھاکا سے کافی عرصہ پہلے ڈھاکا پہنچے تو ہوائی اڈے پر ایک بنگالی نے ان کے لیے قلی کا کام انجام دیا۔ صدیق سالک نے اس بنگالی کو کچھ پیسے دینے چاہے تو ان کو ہوائی اڈے پر “Recieve” کرنے والے فوجی افسر نے کہا: ’’سر، ان حرام زادوں کا دماغ خراب نہ کریں‘‘۔ یعنی ہمارے فوجی افسر کے لیے ایک عام بنگالی ’’حرام زادہ‘‘ تھا۔ جنرل رائو فرمان علی مشرقی پاکستان کا ایک اہم کردار تھے۔ انہوں نے کئی برس پہلے ہفت روزہ تکبیر کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ مشرقی پاکستان کے بحران کے دوران میرے گھر میں کام کرنے والی ماسی نے مجھ سے کہا کہ صاحب آپ ’’غداروں‘‘ کا سر کچل دیں۔ یعنی بنگالیوں کے غدار ہونے کی داستان ان کے ’’غدار‘‘ بننے سے پہلے ہی عام کردی گئی تھی اور اس غداری کی اطلاع ’’ماسیوں‘‘ تک کو ہوگئی تھی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بنگالیوں کی تذلیل کا کیسا سلسلہ مدتوں سے جاری تھا۔ اسلام نسل‘ رنگ‘ جغرافیے اور زبان کے جن بتوں کو توڑتا ہے پاکستان کے حکمران طبقے کے اراکین مشرقی پاکستان میں ان تمام بتوں کی پوجا کررہے تھے۔
مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ تھا مگر اس کے باوجود مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے یہ تصور عام کیا ہوا تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان میں وہ فوجی قوت موجود ہی نہ تھی جو مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے ناگزیر تھی۔ اس پہ طرہ یہ کہ مشرقی پاکستان میں تعینات فوجی مشرقی پاکستان کو اپنا گھر ہی نہیں سمجھتے تھے۔ صدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ میں ڈھاکا پہنچا تو مجھے میرے فوجی ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ رہنے کے لیے بھاری سامان نہ خریدنا کیونکہ پتا نہیں ہمیں کس وقت یہاں سے جانا پڑ جائے۔ چند برس پہلے جنرل (ر) حمیدگل سے ایک انٹرویو کے سلسلے میں ملاقات ہوئی تو وہ فرمانے لگے کہ ہماری فوج کا ڈسپلن بڑا زبردست ہے، یہ ٹوٹتا نہیں ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ کیسا ڈسپلن ہے کہ ملک ٹوٹ جاتا ہے مگر ڈسپلن نہیں ٹوٹتا! جنرل (ر) حمیدگل نے ہمارا سوال سنا تو کہنے لگے کہ آپ کے سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ اس مثال کو مشرقی پاکستان کے حالات پر منطبق کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے ہتھیار ڈالنے والے 90 ہزار فوجیوں میں ایسے دس پندرہ ہزار فوجی تو ضرور ہونے چاہیے تھے جو کہتے کہ ہمارا ملک ٹوٹ رہا ہے اس لیے ہم مرجائیں گے مگر دشمن کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ لیکن ادھر جی ایچ کیو سے ایک حکم آیا اور اُدھر تمام فوجیوں نے ڈسپلن کی پاسداری کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے۔ بلاشبہ دس پندرہ ہزار فوجیوں کے ہتھیار نہ ڈالنے سے کچھ نہ ہوتا، لیکن ایک مثال تو قائم ہوتی اور ہم آج فخر سے کہتے کہ ہمارے کچھ فوجیوں نے مشرقی پاکستان کا دفاع ٹھیک اس طرح کیا جس طرح مادرِ وطن کا دفاع کیا جاتا ہے۔ اپنے گھر کا دفاع کیا جاتا ہے۔
جمہوریت کا اصول اکثریت ہے اور 1970ء کے انتخابات میں اکثریت شیخ مجیب الرحمن کو حاصل ہوگئی تھی، چنانچہ انہیں ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر اقتدار منتقل ہونا چاہیے تھا۔ لیکن نہ بھٹو نے اُن کی اکثریت کو تسلیم کیا، نہ جنرل یحییٰ نے۔ لیکن اس صورتِ حال کے اصل ذمے دار جنرل یحییٰ تھے۔ فوج ان کے ہاتھ میں تھی، اکثریت کا اصول ثابت ہوچکا تھا، چنانچہ اگر وہ بھٹو سے کہتے کہ شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم کرو تو بھٹو کے پاس اُن کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا، بالخصوص اس صورت میں جب کہ بھٹو اور شیخ مجیب کے درمیان شیخ مجیب کے چھ میں سے ساڑھے پانچ نکات پر اتفاقِ رائے کی خبر گرم تھی۔ لیکن جنرل یحییٰ نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ لوگ کہتے ہیں سقوطِ ڈھاکا کے ذمے دار تین لوگ ہیں: اندرا گاندھی، بھٹو اور یحییٰ۔ لیکن اگر ایسا ہے تو بھٹو اور یحییٰ پر کبھی ملک توڑنے کے الزام میں مقدمہ کیوں نہیں چل سکا؟ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو ایک شخص کے مشتبہ مقدمے میں سزائے موت دے دی لیکن ان پر سقوطِ ڈھاکا میں ملوث ہونے کا الزام کبھی نہیں لگایا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ جنرل ضیاء الحق بھٹو پر ملک توڑنے کا مقدمہ چلاتے تو پھر ان کے فوجی بھائیوں کا کردار بھی ضرور سامنے آتا۔ بلاشبہ بھارت کی مداخلت کے بغیر مشرقی پاکستان الگ نہیں ہوسکتا تھا مگر بھارت کی مداخلت کے لیے سازگار حالات ہمارے حکمرانوں نے خود پیدا کیے تھے۔ بھارت پہلے دن سے پاکستان کی تاک میں تھا اور مشرقی پاکستان میں ہندوئوں کی بڑی آبادی تھی، چنانچہ ہمیں مشرقی پاکستان کو زیادہ محبت‘ زیادہ انصاف اور زیادہ مہربان بن کر چلانا چاہیے تھا، لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس کے برعکس طریقے سے مشرقی پاکستان کو چلایا۔ المناک بات یہ ہے کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں خلیج حائل تھی اورہمارے ذرائع ابلاغ مشرقی پاکستان میں سب ٹھیک ہے کا سرکاری راگ الاپ رہے تھے، چنانچہ سقوطِ ڈھاکا ہوا تو مغربی پاکستان کے لوگ حیران رہ گئے۔
لیکن سقوطِ ڈھاکا کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اس کہانی کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو اس طرح فراموش کیا جیسے 16 دسمبر 1971ء کو ملک نہ ٹوٹا ہو، قمیض کا بٹن ٹوٹا ہو۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو متحدہ پاکستان کی جنگ صرف جماعت اسلامی نے لڑی۔ اس کے رہنمائوں اورکارکنوں نے ملک بچانے کے لیے 1971ء میں بھی قربانیاں دیں اور اس کے بعد فوج کا ساتھ دینے کے طعنے سہے، یہاں تک کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں آج بھی پاکستان کے تحفظ کی جنگ کی قیمت ادا کررہی ہے۔ شیخ حسینہ واجد کی حکومت اس کے رہنمائوں پر جھوٹے مقدمات چلارہی ہے اور خود ساختہ عدالتیں انہیں موت اور عمرقید کی سزائیں سنا رہی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی فوج اور حکومت جس طرح 1971ء میں جماعت اسلامی کو تنہا چھوڑ کر فرار ہوئی تھیں اسی طرح آج حکومتِ پاکستان اور پاک فوج کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ساتھ اظہارِ ہمدردی تک کی توفیق فراہم نہیں۔ یہ سقوطِ ڈھاکا کا تسلسل نہیں تو اور کیا ہے؟
شاہنواز فاروقی

Enhanced by Zemanta

Aman Ki Asha

البدر کیا تھی؟

$
0
0

کیا ہم جانتے ہیں کہ البدر کیا تھی؟یہ تنظیم میجر ریاض حسین ملک نے بنائی۔اور میجر سے میرا تعلق دو عشروں پر محیط ہے۔میجر ریاض بتاتے ہیں کہ راجشاہی میں فوج کی نفری کم تھی اور ہمارے لیے ممکن نہیں رہا تھا کہ ہم پلوں اور رستوں کی نگرانی کر سکیں۔ایک روز کچھ بنگالی نوجوان ان کے پاس آئے اور کہا کہ دفاع وطن کے لیے آپ کے کچھ کام آ سکیں تو حاضر ہیں۔ان جوانوں کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔میجر ریاض نے انہیں کہا ٹھیک ہے آپ فلاں فلاں پلوں پر پہرا دیجیے۔ایک نوجوان نے کہا:’’ میجر صاحب ہمیں اپنی حفاظت کے لئے بھی کچھ دیں‘‘۔یہ وہ دن تھے جب ہائی کمان کی طرف سے حکم آ چکا تھا کہ تمام بنگالیوں کو غیر مسلح کر دو۔میجر ریاض کی آج بھی آہیں نکل جاتی ہیں جب وہ بتاتے ہیں کہ یہ سن کر وہ اندر گئے اور سورہ یسین کا ایک نسخہ اس جوان کو پکڑا دیا کہ اپنی حفاظت کے لیے میں تمہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔

وہ نوجوان چلے گئے، گھر نہیں بلکہ میجر کے دیے مشن پر۔بانس کے ڈنڈے انہوں نے بنا لیے اور ندی نالوں اور پلوں پر جہاں سے مکتی باہنی اسلحہ لاتی تھی پہرے شروع کر دیے۔میجر ریاض بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے اسلحہ نہیں مانگا۔لیکن میجر کے من کی دنیا اجڑ چکی تھی۔فوجی ضابطے انہیں عذاب لگ رہے تھے۔ایک روز تیس کے قریب نوجوان ان کے پاس آئے کہ انہیں بھی اس رضاکار دستے میں شامل کر لیں۔ان میں ایک بچہ بھی تھا۔ میجر نے اسے کہا بیٹا آپ بہت چھوٹے ہو واپس چلے جاؤ۔وہ بچہ اپنی ایڑیوں پر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا:’’ میجر شاب ہُن تو بڑا ہوئے گاشے‘‘( میجر صاحب اب تو بڑا ہو گیا ہوں)۔میجر تڑپ اٹھے، انہیں معوز اور معاذ یاد آ گئے جن میں ایک نے نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں ایسے ہی ایڑیاں اٹھا کر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اتنے چھوٹے بھی نہیں کہ جہاد میں حصہ نہ لے سکیں۔میجر نے اس بچے کو سینے سے لگا لیا۔ہائی کمان کا حکم پامال کرتے ہوئے ان جوانوں کو مسلح کر دیا اور جنگ بدر کی نسبت سے اس رضاکار دستے کو ’’ البدر‘‘ کا نام دے دیا۔کئی ہفتے بعد ہائی کمان نے ان سے پوچھا کہ ان کے علاقے میں اتنا امن کیسے ممکن ہوا تو میجر نے یہ راز فاش کیا کہ میں نے آپ کی حکم عدولی کی اور میں نے تمام بنگالیوں پر عدم اعتماد نہیں کیا۔میں نے بنگالیوں کو مسلح کر کے بھارت اور مکتی باہنی کے مقابلے میں کھڑا کر دیا ہے۔تب یہ رضاکار تنظیم پورے بنگال میں قائم کر دی گئی۔
 ایک روز میں نے میجر سے پوچھا ،کہ ہم میں عمروں کے فرق کے باوجود تکلف باقی نہیں ہے،’’ البدر نے ظلم تو بہت کیے ہوں گے اپنے سیاسی مخالفین پر؟‘‘۔یہ سوال سن کر میجر کو ایک چُپ سی لگ گئی۔کہنے لگے:’’ آصف تم میری بات کا یقین کرو گے؟‘‘ میں نے کہا میجر صاحب آپ سے پچیس سال کا تعلق ہے میرا نہیں خیال کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔میجر نے کہا:’’ میں اپنے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں میں نے البدر کے لوگوں سے زیادہ قیمتی اور نیک لڑکے نہیں دیکھے ، یہ لڑکے اللہ کا معجزہ تھے، میرے علم میں کوئی ایک واقعہ بھی نہیں کہ انہوں نے کسی سے ذاتی انتقام لیا ہو۔مجھے تو جب یہ پتا چلا کہ ان کی فکری تربیت مودودی نام کے ایک آدمی نے کی ہے تو اشتیاق پیدا ہوا کہ دیکھوں یہ مودودی کون ہے۔برسوں بعد جب میں بھارت کی قید سے رہا ہوا تو میں اپنے گھر نہیں گیا ، میں سیدھا اچھرہ گیا، مودودی صاحب کے گھر، میں دیکھنا چاہتا ہے وہ شخص کیسا ہے جس نے ایسے باکردار اور عظیم نوجوان تیار کیے‘‘۔


 آج یہی البدر پھانسی گھاٹ پر لٹک رہی ہے اور ہم ایک حرف مذمت بھی نہیں کہہ سکتے۔ہم سا بے حس بھی کوئی ہو گا؟سیکولر مُلائیت کا تو پیشہ ہی اہل مذہب سے نفرت ہے ان مجہول عصبیت فروشوں سے کیا گلہ؟ کیا یہ بھی نامناسب ہوتا کہ آج پارلیمنٹ کے لان میں پاکستان پر قربان ہونے والے مُلاعبدالقادر کی جنازہ ہی پڑھ لی جاتی؟سماج کدھر ہے؟ کیا سب مر گئے؟


 جماعت اسلامی نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔پاک فوج کے شہداء کے بعد اس ملک پر قربان ہونے والوں میں یہ سب سے آگے ہے لیکن اُدھر بھی یہ غدار ، اِ دھر بھی یہ غدار۔’’ ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز‘‘۔

Viewing all 6213 articles
Browse latest View live