↧
Three Tragedies of the Muslim world
↧
Shaheed-e-Pakistan
↧
↧
Silence of Pakistan Dollarized Media
↧
The Dhaka Fall - 16th December
↧
دبّی رکھ نواز شریف ہم تمہارے پاس ہیں۔۔۔
وزیرِاعظم نواز شریف کابینہ میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اسحاق ڈار کی وہی اہمیت ہے جو کسی بھی پکوان میں نمک کی۔
اسحاق ڈار پڑھے لکھے ٹیکنو کریٹ سیاستدان اور معاملہ فہم کارپوریٹ آڈیٹر ہونے کے علاوہ ضروری حد تک قدامت پسند، اپنے مطلب کی دنیا اور رشتوں ناطوں کی مجبوریوں کی سمجھ بوجھ رکھنے والے شخص ہیں اور شوکت عزیز کی طرح خود کو اقتصادی جادوگر کہلوا کے خوش بھی ہوتے ہیں۔
آپ کا تعلق بھی معیشت کے فرقہِ چمتکاریہ سے ہے۔ جب سب مایوس ہوں تب اسحاق ڈار کے حوصلے بلند ہوتے ہیں مثلاً 28 مئی 1998 کو پاکستان نے بھارت کے چار کے مقابلے میں جب پانچ جوہری پٹاخے پھوڑے تو اسحاق ڈار وزیرِ تجارت اور سرتاج عزیز وزیرِ خزانہ تھے۔
ایٹمی تجربات کی دھمک سے جب دشمن کے حوصلے اور بیرونی قرضوں اور امداد پے کھڑی معیشت کے ستون لرزہ براندام ہوئے تو یہ ہمارے ڈار صاحب کی ’’ڈارنامکس’’ ہی تھی جس کے تحت پاکستانی شہریوں کے ڈالر اکاؤنٹس منجمد کرکے پانچوں دھماکوں کا خرچہ پانی پلک جھپکتے میں وصول کرلیا گیا اور آج جبکہ ڈالر کی سرکاری قیمت ایک سو آٹھ روپے ہے۔
منجمد اکاؤنٹس کے ایٹمی ڈالر کا نرخ پندرہ سال بعد بھی اسی اکتالیس روپے پر کھڑا ہے۔ مگر اس ڈاکے کے اثرات کو نواز شریف اینڈ کمپنی نے غیر محسوس طریقے سے اپنے سیاسی اعمال سے ایسے دھو دیا جیسے بے نظیر کے خون کو پرویز مشرف نے دھو ڈالا۔
پھر بھی یہ بات ماننے کی ہے کہ جوہری دھماکوں کے بعد سرتاج عزیز سے وزارتِ خزانہ کا قلمدان لے کر جب اسحاق ڈار کے حوالے کیا گیا تو انہوں نے جانے کیا منتر پڑھا کہ آئی ایم ایف سے امریکی پابندیوں کے باوجود ڈیڑھ دو ارب ڈالر کا انجکشن حاصل کرلیا۔
حالات میں بہتری کے امکان
"ہمارے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے بتایا ہے کہ امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ کے ایک اعشاریہ چار بلین ڈالر کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کی ٹیلی کام کمپنی ایتصلات سے بھی آٹھ سو ملین ڈالر ملنے والے ہیں جو وہ پاکستان ٹیلی کام خریدنے کے باوجود پچھلے کئی برس سے دبائے بیٹھی ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی اگلی قسط آنے والی ہے اور مختلف میگا پروجیکٹس کے لیے بیرونی امداد بس پہنچا ہی چاہتی ہے۔ چنانچہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر اگلے تین برس میں بیس ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے اور حکومت معیشت کی بحالی اور سرمایہ کاری راغب کرنے کے لیے جو مثالی اقدامات کررہی ہے اس کے نتیجے میں موجودہ سال کا ساڑھے سات فیصد بجٹ خسارہ کم ہو کر اگلے برس ڈھائی فیصد تک رہ جائے گا۔"
آج پندرہ برس بعد بھی ’ ڈارنامکس‘ کا بول بالا ہے۔ ایک طرف پوری قوم چند ہی ماہ میں ڈالر کے اٹھانوے روپے سے اوپن مارکیٹ میں ایک سو دس روپے تک چھلانگ لگانے پر ششدر ہے۔ مہنگائی کا نوکیلا بانس پہلے سے زیادہ تکلیف دے رہا ہے۔ مگر محبِ وطن یار لوگ ڈالر کے مزید مہنگا ہونے کی آس میں اس کی مسلسل زخیرہ اندوزی کرر ہے ہیں۔ غیرملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر بارہ برس میں سب سے کم سطح پر آچکے ہیں یعنی خزانے میں ایک برس پہلے کے چودہ ارب ڈالر کے مقابلے میں صرف ڈھائی ارب ڈالر باقی ہیں۔ مگر کوئی شخص اگر مطمئن ہے تو وہ ہمارے ڈار صاحب۔
چودہ دسمبر کو ہی آپ نے یورپی یونین کی طرف سے پاکستانی مصنوعات کے لیے بلا محصول منڈی کھلنے کی خوشی میں دھمکی دی ہے کہ اگر ذخیرہ اندوز اگلے چند روز میں ڈالر مارکیٹ میں نہ لائے تو پھر وہ سر پکڑ کے روئیں گے کیونکہ اگلے ہفتے عشرے میں ڈالر ایک سو آٹھ سے اتر کر اٹھانوے ننانوے روپے پر واپس جانے والا ہے۔
ہمارے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے اس کا سبب یہ بتایا ہے کہ امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ کے ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کی ٹیلی کام کمپنی ایتصلات سے بھی آٹھ کروڑ ڈالر ملنے والے ہیں جو وہ پاکستان ٹیلی کام خریدنے کے باوجود پچھلے کئی برس سے دبائے بیٹھی ہے۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی اگلی قسط آنے والی ہے اور مختلف میگا پروجیکٹس کے لیے بیرونی امداد بس پہنچا ہی چاہتی ہے۔ چنانچہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر اگلے تین برس میں بیس ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے اور حکومت معیشت کی بحالی اور سرمایہ کاری راغب کرنے کے لیے جو مثالی اقدامات کررہی ہے اس کے نتیجے میں موجودہ سال کا ساڑھے سات فیصد بجٹ خسارہ کم ہو کر اگلے برس ڈھائی فیصد تک رہ جائے گا۔۔۔
کسی نے پوچھا کہ حال ہی میں امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل اسلام آباد یہ پیغام پہنچا کر گئے ہیں کہ اگر نیٹو سپلائی میں رکاوٹ برقرار رہی تو امریکہ کے لیے کولیشن سپورٹ فنڈ کلیئر کرنا مشکل ہوجائے گا۔
اس پر ہمارے جری چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کا یہ موقف ہے کہ میں دیکھتا ہوں اگلے چار ہفتے میں امریکی ہمارے بل کیسے کلیئر نہیں کرتے۔ کسی نے پوچھا کہ معیشت کی بہتری کے لیے بھارت کو پسندیدہ تجارتی درجہ دینے میں اب کیا رکاوٹ ہے ؟ اسحاق ڈار کا جواب تھا ’ اوپر دی گڑ گڑ دی اینکس بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی در فٹے منہ‘۔۔۔
لگتا ہے ڈار صاحب معیشت کو خودی کی طرح بلند کرنے کی خوابناک تگ و دو میں اس قدر مست ہیں کہ ان کا اپنے ساتھیوں سے بھی رابطہ بمشکل ہو پا رہا ہے۔
مثلاً وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی کے بقول وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو عزتِ نفس اور ڈالر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلینا چاہییے جبکہ وزیرِ پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اگلے تین ماہ کے دوران پنجاب میں سوائے گھریلو صارفین کے صنعتی سیکٹر سمیت کسی کو بھی گیس نہیں ملے گی۔
البتہ یہ معلوم نہیں کہ وزیرِ قدرتی وسائل کی اس اشتعال انگیزی کے خلاف خادمِ پنجاب شہباز شریف اسی طرح وفاقی حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لائیں گے جس طرح گذشتہ برس زرداری حکومت کی جانب سے پنجاب کو اقتصادی طور پر قتل کرنے کی لوڈ شیڈنگ سازش کے خلاف لائے تھے۔
شاید چھوٹے میاں کو اس بارے میں دس بار سوچنا پڑے کیونکہ بڑے میاں تازہ تازہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت کے معیشت بحالی کے اقدامات سے قومی پیداوار میں گذشتہ ادوار کے تین فیصد کے مقابلے میں پانچ فیصد اضافہ ہونے جارہا ہے۔ چنانچہ اگلا ہدف ساڑھے سات فیصد مقرر کیا جاسکتا ہے۔
مختصر یہ کہ اس وقت ’دو وزرائے اعظم‘ ( یعنی نواز و شہباز شریف )، چار وزرائے خارجہ (یعنی سرتاج عزیز ، طارق فاطمی، چوہدری نثار اور عمران خان) اور ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ پر مشتمل سرکار آٹو پائلٹ پر بگٹٹ دوڑ رہی ہے اور پرجوش حامی دو رویہ کھڑے ایک ہی نعرہ لگا رہے ہیں۔
’دبّی رکھ نواز شریف ہم تمہارے پاس ہیں۔۔۔‘
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
↧
↧
اگر تو یہ انصاف ہے
جب بنگلہ دیش بنا تو اس وقت شیخ مجیب الرحمان دیوتا تھے، پھر بھی ان کا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ بنگالی قوم کے احساس ِ محرومی ، غصے اور جذبہِ انتقام کو قومی تعمیر کی جانب مرتکز کرکے خون میں نہائی آزادی سے ایک شونار بنگلہ ( سنہری بنگلہ دیش ) پیدا کرلیا جائے۔ایسا بالکل ممکن تھا کیونکہ اس وقت قومی اکثریت شیخ مجیب کے ایک اشارے پر کچھ بھی کرنے پر آمادہ تھی۔لیکن گرم لوہا ٹھنڈا ہوتا چلا گیا۔مجیب الرحمان کو جو مختصر قیمتی وقت میسر آیا اس کو شخصی و خاندانی حکمرانی پروان چڑھانے اور ملک کو یک جماعتی آمریت کی جانب دھکیلنے اور کولوبریٹر ایکٹ اور وارکرائم ٹریبونل ایکٹ پر لگا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے صرف ساڑھے چار برس بعد ہی غصہ غصے کو کھا گیا۔شیخ مجیب کے پورے خاندان کو انھی میں سے کچھ فوجیوں نے صفحہِ ہستی سے مٹا دیا جنہوں نے جنگِ آزادی میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا تھا۔بس دو بیٹیاں ریحانہ اور حسینہ بچ گئیں۔
ہاں انیس سو اکہتر کے مشرقی پاکستان میں انسانیت کو ننگا نچوایا گیا تھا۔ہاں جسٹس حمود الرحمان کمیشن کے چھبیس ہزار سے مجیب حکومت کے تیس لاکھ کے درمیان کی کسی تعداد میں انسان قتل ہوئے۔ہاں پچاس ہزار سے دو لاکھ کے درمیان عورتیں ریپ ہوئیں۔ہاں البدر ، الشمس ، المجاہد اور رضاکار متحدہ پاکستان کی حمایت میں انسانیت کے خلاف جرائم کا حصہ بنے اور مکتی باہنی نے شونار بنگلہ کے حصول کے لیے غیر بنگالیوں کو جہاں موقع ملا گاجر مولی کی طرح کاٹا۔ہاں خانہ جنگیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے اور آیندہ بھی ایسے ہی ہوگا۔چند لوگ ایک دوسرے کے ولن ہوں گے لیکن اجتماعی بھگتان نسلوں اور پورے پورے نسلی و مذہبی گروہوں کو سہنا پڑے گا۔اس کے باوجود کہیں تو لکیر کھینچنی ہی پڑتی ہے کہ بس جو ہو گیا سو ہوگیا۔ جو آزادی مل گئی اس کے صدقے خونی ماضی کو یادوں کی کوٹھڑی میں کسک کی کیل سے ٹانگ دو اور آگے کا سوچو۔جو نادم ہو اسے معاف کردو جو نادم نا ہو اسے معاف کر کے نادم کردو۔
کیا مکہ میں ڈیڑھ ہزار برس پہلے یہی نہیں ہوا تھا ؟ کیا ڈیڑھ ہزار برس بعد الجزائریوں نے نوآبادیاتی فرانسیسیوں کے ساتھ یہی نہیں کیا ؟ کیا جنوبی افریقہ کے کالوں نے سفاک گوروں کے ساتھ یہی نہیں کیا ؟ کیا سابق یوگوسلاویہ میں ہزاروں سربوں ، کروٹوں اور مسلمانوں کی ہلاکت کے بعد یہی نہیں ہوا۔کیا یہ بات سمجھنا اور سمجھانا راکٹ سائنس ہے کہ منتقم غصہ دوسرے سے زیادہ خود کو اندر سے سنگسار کرتا رہتا ہے۔ کچھ کو یہ بات فوراً سمجھ میں آجاتی ہے جیسے نیلسن منڈیلا وغیرہ۔ کچھ کو بیالیس برس میں بھی سمجھ میں نہیں آتی جیسے حسینہ واجد وغیرہ۔
پھر بھی اگر آپ ماضی کا کھاتہ معافی کے بجائے انصاف سے صاف کرکے دل کو تسکین دینا چاہتے ہیں تو یہ بھی کوئی بری بات نہیں۔مگر انصاف کا کھیل ذرا ٹیکنیکل ہے۔اس راہ میں پھونک پھونک کے رکھے جانے والے ننانوے قدموں کے بعد ایک سوواں قدم بھی ٹھیک ٹھیک ہی پڑنا چاہیے ورنہ انصاف کی ساری مسافت بے کار ، پلید اور ملیامیٹ ہونے میں ایک سیکنڈ لگتا ہے۔
کتنا اچھا لگا تھا جب شیخ مجیب الرحمان بطور وزیرِ اعظم فروری انیس سو چوہتر کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تھے۔معافی تو تب بھی پاکستان نے نہیں مانگی تھی۔جماعتِ اسلامی تو تب بھی تاریخ کے پہیے کو پیچھے چلانے کے لیے بنگلہ دیش نامنظور کا پورا زور لگا رہی تھی۔ایک سو پچانوے پاکستانی فوجی افسر تو تب بھی بنگلہ دیش کی جنگی جرائم کی فہرست میں تھے۔لیکن جب ان پر اس لیے مقدمہ نہیں چل پایا کہ دو لاکھ بنگالی شہری مغربی پاکستان میں پھنسے ہوئے تھے تو پھر ان ایک سو پچانوے کے مقامی ہوتوں سوتوں پر چالیس برس بعد مقدمہ چلانے کا جواز عجیب سا لگتا ہے۔
سن تہتر میں جب جنگی جرائم کا پہلا ٹریبونل بنا تو بنگلہ دیش میں مشتبہ جنگی مجرموں کی تعداد تیس سے چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔اب یہ تعداد سرکاری طور پر سولہ سو کے لگ بھگ ہے۔یہ بھی چند برس میں مر ہی جاتے جیسے باقی ساڑھے اڑتیس ہزار مر گئے۔اسرائیل نے برسوں بعد بھی جب ہاتھ ڈالا اصلی نازیوں پر ڈالا ان کے مقامی چیلوں چانٹوں پر وقت ضایع نہیں کیا۔ویسے بھی جب کمہار پہ بس نا چلے تو گدھے کے کان اینٹنھنے سے کیا حاصل۔
پھر بھی مجھے قطعاً پریشانی نہیں ہے کہ ملا عبدالقادر کو پھانسی اتنی عجلت میں کیوں دے دی گئی۔پریشانی بس یہ ہے کہ جب سرکاری وار کرائمز ٹریبونل نے انھیں پانچ انسانیت سوز جرائم پر عمر قید کی سزا سنا دی تھی اور ایک جرم میں بری کردیا تھا تو پھر سپریم کورٹ نے چھٹا جرم بحال کرکے عمر قید کو سزائے موت میں کیسے بدل دیا۔اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ وار کرائمز ٹریبونل کا فیصلہ ناقص تھا اور اسے سپریم کورٹ نے درست کردیا تو پھر ایسے ناکارہ وار کرائمز ٹریبونل کو توڑ کے نیا ٹریبونل کیوں نہیں بنایا گیا اور اسی ناقص ٹریبونل نے جن باقی نو مجرموں کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔ ان کے ناقص ہونے یا نا ہونے کے بارے میں سپریم کورٹ کب اور فیصلہ کرے گی۔
جب فروری میں ملا عبدالقادر کو وار کرائمز ٹریبونل نے عمر قید کی سزا سنائی تو ڈھاکہ کے شاہ بیگ چوک اور دیگر شہروں میں ہزاروں افراد نے اس فیصلے کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا اور مطالبہ کیا کہ ہمیں جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو سزائے موت سے کم کوئی سزا منظور نہیں۔اور پھر عوامی لیگ حکومت نے وار کرائم ایکٹ میں یہ ترمیم کی کہ اگر حکومت عدالتی سزا سے مطمئن نہیں تو وہ متاثرین کی نمایندہ بن کے اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کرے گی۔اور پھر سپریم کورٹ نے ملا عبدالقادر کی عمرقید کو سزائے موت سے بدل دیا۔تو کیا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سپریم کورٹ کسی انفرادی و اجتماعی دباؤ میں نہیں آئی۔
اور وار کرائمز ٹریبونل نے پروفیسر غلام اعظم کو انیس سو اکہتر کے اخباری تراشوں کو بنیادی ثبوت مانتے ہوئے انسانئیت سوز مجرم کیسے قرار دے دیا اور اس نوے سالہ پروفیسر کو نوے سال قید کی سزا کیسے سنادی ؟ کیا یہ وہی غلام اعظم نہیں جن کی بنگلہ دیشی شہریت خود سپریم کورٹ نے انیس سو چورانوے میں بحال کی اور فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ وہ بطور آزاد شہری سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔اور اگر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ناقص تھا تو پھر اس فیصلے کے دو برس بعد انیس سو چھیانوے میں برسرِ اقتدار آنے والی حسینہ واجد حکومت نے اقتدار میں پورے پانچ برس گذارنے کے باوجود سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کیوں دائر نہیں کی اور جو وار کرائمز ٹریبونل حسینہ حکومت نے دو ہزار دس میں تشکیل دیا وہی ٹریبونل انیس سو چھیانوے تا دو ہزار ایک کے درمیان تشکیل دینے میں کیا رکاوٹ تھی۔کیا ایسا تو نہیں کہ ان پانچ برسوں کے دوران حسینہ واجد حکومت پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کے سبب جنگی جرائم کے انصافی کھڑاگ میں پڑے بغیر اکیس برس کے وقفے سے ملنے والی حکومت کی مدت پوری کرنا چاہ رہی تھی اور جیسے ہی انھیں دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت مل گئی تو انیس سو اکہتر کے نامکمل انصافی تقاضے پوری طرح سے یاد آگئے۔
لیکن وار کرائمز ٹریبونل بناتے وقت حسینہ واجد کو یہ کیوں یاد نہیں آیا کہ یہ وہی غدار جماعتِ اسلامی ہے جو 80 کے عشرے میں عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے شانہ بشانہ فوجی آمر حسین محمد ارشاد کے خلاف تحریک میں شامل تھی۔اور یہ وہی جماعتِ اسلامی ہے جس کے ارکان ِ پارلیمان اسی ایوان میں انیس سو اناسی سے اب تک بیٹھتے رہے ہیں جس میں عوامی لیگ کبھی حزبِ اقتدار تو کبھی حزبِ اختلاف کے طور پر موجود رہی ہے۔جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کو جنرل ضیا الرحمان کی حکومت نے بنگلہ دیش واپسی کی اجازت دی تھی۔ انھوں نے ہی جماعت پر سیاسی پابندی اٹھائی تھی۔ توہے کوئی عوامی لیگ میں جو جنرل ضیا الرحمان کو غدار کہہ سکے۔وہ میجرضیا الرحمان جس نے چٹاگانگ ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کرکے بنگلہ دیش کی آزادی کا پہلا اعلان نشر کیا اور مال خانے کے ہتھیاروں سمیت سرحد پار جا کر آزادی پسندوں کو منظم کرتا رہا۔
مگر یہ بات بھی درست ہے کہ جس نے جو جرم کیا اس کو اس کی پوری سزا ملنی چاہیے۔اچھا آپ کے پاس تو جماعتِ اسلامی کے نائب امیر دلاور حسین سید کو سزائے موت سنانے کے لیے نسل کشی ، قتلِ عام ، ریپ اور ٹارچر کے ٹھوس ثبوت اور عینی شاہدوں کی کثیر تعداد تھی۔پھر بھی ان کی طرف سے پیش ہونے والے گواہ سکھ رنجن بالی کو عین عدالت کے دروازے سے پولیس کیوں اغوا کر کے لے گئی اور وہ ایک برس بعد بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کی جیل میں کیوں پایا گیا۔اور برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کو یہ کیوں لکھنا پڑ گیا کہ دلاور سید کے مقدمے کے مرکزی جج کے استعفیٰ کے بعد دیگر ججوں نے صفائی کے تمام گواہوں کو سنے بغیر سزائے موت سنادی۔اچھا تو ابوالکلام آزاد عرف بچو رضاکار کو اپنی صفائی میں ایک بھی گواہ کیوں نا مل سکا ؟ محمد قمر الزماں اسٹنٹ سیکریٹری جنرل جماعتِ اسلامی کو سال بھر بغیر فردِ جرم کے رکھا گیا اور پھر جنگی جرائم کی فردِ جرم سامنے آگئی۔علی احسن محمد مجاہد پر سات الزامات لگے، پانچ میں بری مگر دو کی بنیاد پر سزائے موت ؟؟
ویسٹ پاکستان اسمبلی کے ایک اسپیکر فضل القادر چوہدری کو بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جنگی جرائم میں شراکت کی مد میں جیل میں ڈالا گیا۔انیس سو تہتر میں وہ بلا مقدمہ جیل میں ہی مرگئے۔اب ان کے بیٹے صلاح الدین قادر چوہدری چار مرتبہ بنگلہ دیشی پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے بعد جنگی مجرم قرار پائے۔تئیس الزامات میں سے نو کی بنیاد پر سزائے موت سنا دی گئی۔
دو ہزار دس میں جنگی جرائم کا جو ٹریبونل تشکیل پایا اس کے چیف جج محمد نظام الحق اور دو معاون جج اے ٹی ایم فضلِ کبیر اور اے کے ظہیر احمد تھے۔محمد نظام الحق مقدمات کی سماعت کے دوران برسلز میں مقیم بیرسٹر احمد ضیا الدین سے سکائپ اور ای میل پر مسلسل صلاح مشورے کرتے رہے۔دو سو تیس سے زائد ای میلز اور سترہ گھنٹے کی سکائپ ریکارڈنگ اخبار امر دیش کے ایڈیٹر محمود رحمان کے ہتھے چڑھ گئی۔انھوں نے اسے شایع کردیا۔حکومت نے اس جرم میں ان پر بھی غداری کا مقدمہ بنا دیا۔ایک ٹیپ میں چیف جج محمد نظام الحق کہہ رہے ہیں کہ عوامی لیگی حکومت بالکل پاگل ہوگئی ہے۔وہ سولہ دسمبر کو یومِ آزادی سے پہلے پہلے تمام مقدموں کا فیصلہ چاہتے ہیں۔مجھ پر مسلسل دباؤ ہے۔اس ریکارڈنگ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد نظام الحق نے ٹریبونل سے استعفیٰ دے دیا لیکن حکومت نے نیا ٹریبونل تشکیل دینے کے بجائے فضلِ کبیر کو چیف جج بنا دیا۔حسینہ واجد نے کہا کسی کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔کارروائی جاری رہے گی۔
ہیومین رائٹس واچ ، ایمنسٹی ، امریکا ، یورپی یونین ، جرمنی ، برطانیہ ، آسٹریلیا اور اقوامِ متحدہ نے دو ہزار دس میں وار کرائمز ٹریبونل بنانے کا خیر مقدم کیا تھا۔لیکن آج یہ سب تنظیمیں یک زبان ہیں کہ مقدمات انصاف کے بین القوامی معیارات کے مطابق نہیں چلائے گئے۔
↧
راہ حق کے شہیدوں، وفا کی تصویروں کو سلام
↧
کیا براک اوباما سے نوبل امن انعام واپس لے لیا جانا چاہیے؟
سال 2013ء کا اختتام ہونے کو ہے لیکن افغانستان ،پاکستان اور یمن میں امریکا کی ڈرون جنگیں جاری ہیں،صدر براک اوباما اپنے وعدے کے مطابق بدنام زمانہ عقوبت خانے گوانتانامو بے کو بند کرنےمیں ناکام رہے ہیں اور وہ شامی صدر بشارالاسد کو اپنے ہی عوام کے قتل عام سے روکنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔امریکی صدر کی گذشتہ چار سال پر محیط ناکامیوں کی اس داستان کے پیش نظر یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ ان سے نوبل امن انعام واپس لے لیا جانا چاہیے۔
یمن کی پارلیمان نے اسی ہفتے ایک علامتی قرارداد منظور کی ہے جس میں امریکا سے ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس سے پہلے پاکستان کی پارلیمان بھی قراردادوں کے ذریعے اپنی سرزمین پر امریکا کے بغیر پائیلٹ جاسوس طیاروں کے میزائل حملے روکنے کا مطالبہ کرچکی ہے اور ملک کی دینی وسیاسی جماعتیں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف مسلسل احتجاج کررہی ہیں۔
صدر اوباما کو مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کی وجہ سے سب سے زیادہ تنقید کا سامنا ہے۔سعودی عرب کے بااثر شہزادے اور سابق انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے امریکا کو مشرق وسطیٰ کے بارے میں کوئی فیصلہ کن اقدام نہ کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ان کے علاوہ اور آوازیں بھی امریکا اور اس کے صدر کے خلاف اٹھ رہی ہیں۔
اس سال اگست میں جب شامی صدر بشارالاسد کی وفادار فورسز نے دمشق کے نواح میں شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا حملہ کیا تو اس کے فوری بعد امریکی صدر نے شام پر فوجی چڑھائی کی دھمکی دی اور انھوں نے ایسا سماں باندھا کہ صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف امریکا کا فوجی اقدام ناگزیر نظر آرہا تھا۔
اس دوران ایک سویڈش رپورٹر نے ان سے ایک سوال کیا جو بہت سوں کے ذہنوں میں تھا کہ کیا وہ نوبل امن انعام وصول پانے کے باوجود شام پر فوجی حملے کے لیے تیار ہیں؟چنانچہ انھیں جب اس طرح کے سوالوں کا سامنا ہوا تو انھوں نے کانگریس سے حملے کی منظوری کی اجازت طلب کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔
اس کے بعد شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے کے لیے سمجھوتا طے پاگیا۔شہزادہ ترکی کا کہنا ہے کہ امریکا اور برطانیہ نے صدر بشارالاسد کی ''کلنگ مشین''کے مقابلے میں زیادہ اعتدال پسند اور سیکولر شامیوں کی امداد کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔
جنگ کی ضرورت
براک اوباما کو 2009ء میں عوام میں بین الاقوامی سفارت کاری اور تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے ان کی غیر معمولی کوششوں کے اعتراف میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔
ناروے کی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے نوبل امن کمیٹی کے پانچ ارکان سات ماہ تک اس بات پر غوروخوض کرتے رہے تھے کہ کس کو نوبل امن انعام سے نوازا جائے۔براک اوباما کمیٹی کے فیصلے سے نو ماہ قبل ہی صدر امریکا بنے تھے۔انھوں نے دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے اپنا ایک وژن پیش کیا تھا اور وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبردار کی حیثیت سے سامنے آئے تھے۔
ناروے نوبل کمیٹی کے مستقل سیکرٹری جیر لنڈیسٹاڈ نے العربیہ نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''2009ء میں اوباما بین الاقوامی تعاون کے سرکردہ ترجمان کے طور پر سامنے آئے تھے تاکہ اس کے ذریعے مباحثے اور مذاکرات کے لیے کثیر الجہت اداروں کو مضبوط بنایا جاسکے''۔
لنڈیسٹاڈ نے ،جو ناروے کے نوبل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر بھی ہیں،مزید کہا کہ ''اوباما نے نیو کلئیر فری دنیا کے لیے اپنا وژن پیش کیا تھا۔وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے ترجمان کے طور پرسامنے آئے تھے اور انھوں نے ایک نئی ماحولیاتی پالیسی کی حمایت کی تھی۔اس طرح وہ ان نظریات کے علمبردار کے طور پر سامنے آئے تھے جن کی ناروے کی نوبل کمیٹی گذشتہ کئی سال بلکہ گذشتہ کئی عشروں سے حمایت کررہی تھی''۔
تاہم براک اوباما کو نوبل انعام عطا کرنے کے لیے جو طریق کار اختیار کیا گیا ،اس پر 2009ء ہی سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔کانگریس کے سابق ری پبلکن رکن مائِیکل پی فلنگن نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امن کا نوبل انعام دینے کے لیے احمقانہ اور مضحکہ خیز طریق کار اختیار کیا جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ''فزکس کا نوبل انعام دینے کا فیصلہ ماہرین ،دنیا بھر کے معروف طبیعات دانوں اور اس مضمون میں سابق نوبل انعام یافتگان پر مشتمل کمیٹی کرتی ہے۔اس طرح جس نتیجے پر اتفاق کیا جاتا ہے،آپ اس پر اعتماد کرتے ہیں لیکن امن کا نوبل انعام دینے کے لیے ایسا کوئی طریق کار نہیں ہے۔اس کا نحصار ناروے کے لبرل سیاست دانوں کی سوچ پر ہے''۔
''براک اوباما:دی اسٹوری''کے عنوان سے کتاب کے مصنف پلٹزرانعام یافتہ ڈیوڈ مارنیس نے بھی امریکی صدر کو نوبل انعام دینے کی مخالفت کی ہے۔انھوں نے العربیہ سے گفتگو میں کہا کہ ''صدر نوبل انعام کے حق دار نہیں تھے۔انھیں امریکی صدر کے طور پر یہ انعام نہیں دیا گیا تھا بلکہ اوباما کی عالمی شناخت اور تاریخ کے پیش نظر انھیں اس انعام سے نوازا گیا تھا''۔
لیکن لنڈیسٹاڈ اس ضمن میں سویڈیش کیمیادان اور موجد الفریڈ نوبل کے ایک قول کا حوالہ دیتے ہیں جنھوں نے لکھا تھا کہ نوبل انعام کے امیدواروں کو ان کی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر پرکھا جائے۔انھوں نے بتایا کہ ''بالعموم ہم گذشتہ برسوں یا پھر پوری زندگی پر محیط کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔جب ہم نوبل کے سوال کی جانب لوٹتے ہیں تو پھر واضح جواب براک اوباما ہی تھے''۔
اوباما کی ڈرون جنگیں
براک اوباما کو تو دنیا میں قیام امن کے لیے منفرد اور نئے نظریات پیش کرنے پر نوبل انعام سے نوازا گیا تھا اور انھوں نے یہ عالمی اعزاز حاصل کرتے وقت جنگ کو امن سے قبل کے دور کا دیباچہ قراردیا تھا لیکن انعام وصول پانے کے چار سال کے بعد بھی ان کی پاکستان ،یمن اور افغانستان میں ڈرون جنگیں جاری ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی ڈرون پالیسی سے زندگی اور موت سے متعلق صدارتی اختیارات کے بارے میں سنگین سوالات پیدا ہوئے ہیں۔مصنف مارنیس کے بہ قول اوباما یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ ان کی پالیسی سے جتنے لوگوں کی زندگیاں لی جارہی ہیں،اس سے زیادہ کا تحفظ کیا جارہا ہے لیکن ڈرون امن کی علامت نہیں ہیں۔
اکتوبر میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکا کے ڈرون حملوں کی پراسراریت کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ سی آئی اے کے جو عہدے دار پاکستان اور یمن میں مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف ڈرون حملوں کی مہم کے ذمے دار ہیں،انھوں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور ان کے خلاف مقدمات چلائے جانے چاہئیں۔
ایمنسٹی کے پاکستان میں محقق مصطفیٰ قادری کا کہنا ہے کہ ''ڈرون پروگرام سے متعلق پراسراریت سے امریکی انتظامیہ کو عدالتوں اور بین الاقوامی قانون کے معیارات سے ماورا قتل کرنے کا لائسنس حاصل ہوگیا ہے''۔
ڈرون حملوں میں اضافہ
اوباما انتظامیہ کے دور میں پاکستان میں ڈرون حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ان کے پیش رو سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں 2004ء سے 2009ء تک پاکستان کی سرزمین پر اکیاون ڈرون حملے کیے گئے تھے اور ان میں 595 افراد مارے گئے تھے۔
لندن میں قائم تحقیقاتی صحافت کے بیورو کی رپورٹ کے مطابق بش اور اوباما دونوں کے ادوار حکومت میں 2004ء سے 2013ء تک پاکستان میں کل 376 ڈرون حملے کیے گئے ہیں۔ان میں 3613 افراد مارے گئے تھے اور ان میں 926 عام شہری تھے۔ان 376 ڈرون حملوں میں 325 براک اوباما کی اجازت سے کیے گئے ہیں۔
ایمنسٹی نے اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فضائی اور ڈرون حملوں کی تحقیقات کرے اور اس بات کا بھی جائزہ لے کہ آیا پاکستانی عہدے دار تو ڈرون حملوں کے لیے معلومات فراہم کرنے میں ملوث نہیں ہیں۔
امریکا نے یمن میں 2002ء سے 2013ء تک قریباً 90 ڈرون اور فضائی حملے کیے ہیں۔ان میں بش انتظامیہ کے دور میں صرف ایک حملہ کیا گیا تھا۔ان تمام حملوں میں یمن میں 885 افراد مارے گئے تھے۔ان میں بھی 66 عام شہری اور 51 نامعلوم تھے۔
براک اوباما کے دفاع میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ انھیں عراق اور افغانستان کی دو جنگیں بش انتظامیہ سے وراثت سے ملی تھیں۔امریکا کے ایک سینیر فوجی عہدے دار کے بہ قول انھوں نے ایک جنگ کو تو کامیابی سے ختم کردیا اور دوسری کو محدود کردیا ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے دنیا بھر میں امریکا کی خفیہ جیلوں اور حراستی مراکز کو بھی ختم کردیا ہے۔
لیکن گوانتا نامو بے کا بدنام زمانہ حراستی مرکز بدستور موجود ہے جو امریکا کے چہرے پر کلنک کا داغ بنا ہوا ہے۔اس حراستی مرکز میں اس وقت دنیا بھر سے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیے گئے ایک سو ساٹھ قیدی موجود ہیں مگر ان کے خلاف بارہ تیرہ سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک کوئی فرد جرم عاید نہیں کی گئی ہے۔بعض امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ براک اوباما ابھی تک اس عقوبت خانے کو بند کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
ڈرون جنگوں ،گوانتاناموبے اور شام پر سوالات کے باوجود ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق نومبر میں جنیوا میں طے پائے عبوری سمجھوتے سے براک اوباما کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔اب وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن معاہدے کرانے کے لیے کوشاں ہیں اور مشرق وسطیٰ کے دیرینہ تنازعے کو طے کرنے کے لیے امریکا کی ثالثی ہی میں مذاکرات جاری ہیں۔
امریکا کے چوالیسویں صدر کی امن کوششوں کے حوالے سے سنجیدہ سوالات کے پیش نظر یہ کہا جارہا ہے کہ کیا انھیں نوبل انعام سے محروم کردیا جانا چاہیے اور کیا نوبل کمیٹی اس انعام کو کالعدم قراردے سکتی ہے؟ مسٹر لنڈیسٹاڈ کا کہنا ہے''ایسا نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ جب آپ کسی کو انعام دے دیتے ہیں تو پھر اس کو واپس نہیں لے سکتے''۔
انھوں نے کہا کہ ''براک اوباما کو اس صورت حال کی بنا پر انعام دیا گیا تھا جس کو ہم نے دیکھا تھا۔اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والا بعد کے آنے والوں برسوں میں بھی پہلے کی طرح ہی کردار وعمل کا مظاہرہ کرے گا۔ہر کوئی یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ امریکی صدر بہت سے امور میں الجھا ہوتا ہے اور ان میں بعض تو بہت ہی خطرناک قسم کے ہوتے ہیں''۔
ایمان الشناوی
↧
یوتھ لون اسکیم اور مریم نواز کا مستقبل؟
![]()
پاکستان میں2013ء کا سال 9 کروڑ سے زائد نوجوانوں کے لئے ہر لحاظ سے اچھا رہا ہے۔ اس لئے کہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت خواہ وہ حکمران ہو یا اپوزیشن کا حصہ سب کو اپنے اپنے سیاسی مقاصد پورے کرنے کے لئے’’یوتھ‘‘ کی سیڑھی کی ضرورت پڑگئی ہے۔
یہ چیز ہر لحاظ سے صحت مند رجحان کی علامت ہے اس لئے کہ پچھلے دس پندرہ سال کی غلط ا قتصادی پالیسیوں اور اقدامات کے باعث ملک میں یوتھ کے لئے تو عملاً نئے روزگار کے مواقع ختم ہی ہو کر رہ گئے۔ اس کی لاتعداد وجوہات ہیں۔ اس کے باعث ہماری نوجوان نسل کی اکثریت منفی ر جحانات کی طرف مائل ہوتی گئی ۔ ہمارے نوجوانوں کو اہمیت دینے کے کام کا آغاز پہلے تحریک انصاف اور عمران خان نے کیا اور سوشل میڈیا کا تصور اجاگر کیا، پھر پیپلز پارٹی کی حکومت نے یوتھ کو اپنی طرف مائل کرنے کی ناکام کوشش کی تاہم مسلم لیگ(ن) یوتھ کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور ان کی قربت حاصل کرنے میں کامیاب رہی جس کا سہرا وزیراعظم نواز شریف یا وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے زیادہ مریم نواز شریف کو جاتا ہے جن کی خواہش اور مرضی سے 7دسمبر کو وزیر اعظم یوتھ بزنس لون اسکیم کا اجراء کیا گیا۔ اس اسکیم کے لئے وزیر اعظم کی سطح پر کافی ہفتوں سے کام ہو رہا تھا۔ بالآخر اس اسکیم میں بے روزگار نوجوانوں کی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ سمیڈا اور وویمن بنک کی مختلف برانچوں میں لاتعداد بے روزگار، نوجوان بچے بچیاں قرضہ فارم حاصل کرچکی ہیں۔
مسئلہ قرضہ فارم کا نہیں مسئلہ قرضہ حاصل کرنے کی شرائط پوری کرنے اور پھر اس قرضہ سے کوئی کاروبار کرنا ہے، خاص کر ایسے حالات میں جب ملک میں پہلے ہی بجلی اور گیس کے بحران کی وجہ سے ایسے ہزاروں نہیں لاکھوں افراد اپنا اپنا چھوٹا موٹا کاروبار بند کرنے کے قریب آچکے ہیں۔ بڑی صنعتوں اور کاروباری اداروں کو تو ان حالات سے کوئی فرق نہیں پڑا اور نہ ہی مزید ایسا کوئی خدشہ ہے۔ اس لئے کہ امیروں کے منافع میں کمی تو ہو رہی ہے مگر غریبوں کے تو چولہے ہی بند ہورہے ہیں۔ حقیقی طور پر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ توانائی کے بحران اور گورننس کی کمزوری کی وجہ سے سب سے زیادہ SME سیکٹر متاثر ہوا ہے اور اس سے لاکھوں افراد کا روزگار بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر وابستہ ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے شاید اس SMEسیکٹر کی بحالی کے لئے اس اسکیم کے اجراء کا اعلان کیا ہے مگر اس کے اجراء کا وقت مناسب نہیں ہے اس لئے کہ حکومت کی کارکردگی سے عوامی حلقوں میں فی الحال زیادہ اچھا تاثر نہیں پایا جا رہا بلکہ کئی حلقوں میں مایوسی کے تاثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ان میں نوجوانوں سے لے کر ہر عمر کے افراد اور خواتین شامل ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ یہی مایوس طبقہ اب بڑی امیدوں کے ساتھ نئی یوتھ بزنس اسکیم کی طرف رجوع ک ررہا ہے اس اسکیم کے حوالے سے بعض حلقوں کا خدشہ ہے کہ شاید یہ بلدیاتی انتخابات سے قبل یوتھ اور درمیانی عمر کے افراد کا ووٹ حاصل کرنے کی طرف ایک قدم ہو۔
دوسرا یہ کہ 2014ء کے ا بتدائی چھ ماہ میں بجلی اور گیس کے بحران کی شدت کے حوالے سے حکومت اور بزنس طبقہ دونوں پریشان ہیں ۔ اس حوالے سے اگر حکومت عوام کو مطمئن کرنے کے لئے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ تین سے چار گھنٹے رکھتی ہے تو اس کے لئے اسے ساٹھ ارب سے ستر ارب روپے کے اضافی وسائل پاور سکیٹر کو دینے ہوں گے۔ دوسری طرف اس عرصہ میں سرکلر ڈٹ بھی بڑھنے والا ہے۔ ایسے حالات میں یوتھ انویسٹرز کے لئے حکومت بجلی اور گیس وغیرہ کی فراہمی کیسے کریگی۔
تاریخی طور پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان میں اس طرح کی اسکیموں کے اجراء کا سلسلہ عملاً صدر ایوب خان کے دور سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ اس وقت اس کا اجراء پیپلز کریڈٹ اسکیم تھا، پھر میاں نواز شریف کے سابقہ دور میں یلیو کیب اسکیم آئی ،اس سے پہلے سمال بزنس لون اسکیم آئی، یلیو کیب اسکیم میں قومی بینکوں کے32,30ارب روپے کھائے گئے۔ اس اسکیم کے تحت نکلنے والی گاڑیاں افغانستان تک گئیں اور ان قرضوں کو کھانے والے آج بھی انجوائے کررہے ہیں جبکہ ان کے ضمانت کنندگان پریشان اور بے حال ہیں۔ نئی یوتھ بزنس اسکیم کے حوالے سے نوجوانوں کو یہ خدشہ ہے کہ وزیر اعظم جو مرضی اعلان کرتے رہیں اس سے بااثر افراد اور پارٹی کے افراد کو ہی بینکوں وغیرہ میں ترجیح دی جائے گی۔ آٹھ سال کے لئے بیس لاکھ روپے قرضہ کی اسکیم کے لئے پہلا سال گریس پریڈ کا ہے، بینکوں کے حکام اس پریڈ کو چھ ماہ رکھنا چاہتے تھے لیکن مریم نواز شریف کے دبائو پر اس عرصہ کو ایک سال کے لئے کیا گیا۔
اسٹیٹ بنک نے اس اسکیم کے اجراء سے قبل نومبر اور دسمبر میں اپنے دو تین سرکلرز میں5ارب روپے، اس مد میں بینکوں کے لئے5ارب روپے رکھے ہیں جو 100 ارب روپے کی Limitسے اوپر ہیں یعنی اس کا مطلب ہے کہ100ارب روپے کے قرضوں کے عوض کم از کم 5ارب روپے تو ضرور ڈوب جائیں گے۔ ایک بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ کہ اسٹیٹ بنک کو نیشنل بنک اور وویمن بنک کو اس مد میں اضافی وسائل فراہم کرنا پڑیں گے، اس اسکیم میں خواتین کے لئے جو50فیصد حصہ رکھا گیا ہے، اس سےخواتین کو قومی سطح پر پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کا موقع مل سکے گا۔ اس اسکیم کے حوالے سے یہ خدشہ بہرحال جائز ہے کہ اگر 7-6سال میں اس کی ریکوری 100فیصد نہ ہوئی تو اس سے حکومت کے لئے انتظامی، مالی اور سیاسی طور پر کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہر ضلع میں ’’خصوصی مانیٹرنگ کمیٹیاں‘‘ بنا کر یوتھ لون اسکیم کے قرضوں کو سیاسی اور ذاتی طور پر استعمال ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ چلتے چلتے اس اسکیم کے اجراء کے بعد ایسے نظر آرہا ہے کہ2014ء میں مریم نواز شریف قومی سطح پر بلاول بھٹو کے مدمقابل کھڑی ہونگی اور ہوسکتا ہے جیسے ہی بلاول بھٹو قومی اسمبلی میں پہنچیں مریم نواز شریف بھی کسی بڑی پوزیشن کے ساتھ سامنے ہوں اور یوں دونوں بڑی موروثی پارٹیوں میں اقتدار کے حصول اور اس کو بچانے کی جنگ تیسری نسل لڑنا شروع کر دے۔
سکندر حمید لودھی
بشکریہ روزنامہ "جنگ"
↧
↧
Dhaka Fall by Mirza Aslam Baig
↧
کون سا دو قومی نظریہ
ہماری ابتدائے رپورٹنگ کے زمانے میں جن استادوں کی خدمت میں حاضری کا اعزاز رہا، ان میں سے ایک مشہور و معروف رپورٹر میاں محمد شفیع بھی تھے جو م ش کے نام سے مشہور تھے۔ ایک دن دفتر کی سیڑھیوں میں ان سے ملاقات ہو گئی۔ انھوں نے مجھے روکا اور کہا کہ دیکھو رپورٹر کے اندر بھی ایک خبر ہوتی ہے۔ اتنا کہہ کر وہ حسب عادت تیزی کے ساتھ سیڑھیاں اتر گئے اور مجھے کنفیوژن اور ابہام کی کیفیت میں مبتلا کر گئے۔میں نے رات کی ڈیوٹی پر موجود اپنے نیوز ایڈیٹر سے پوچھا کہ میاں صاحب نے مجھے اس الجھن میں ڈال دیا ہے کہ رپورٹر کے اندر بھی ایک خبر ہوتی ہے، اس کا مطلب کیا ہے جواب میں انھوں نے تفصیل کے ساتھ میاں صاحب کی بات کی وضاحت کی کہ کوئی خبر کس طرح بنی اور کس طرح سامنے آئی، اس کا پس منظر کیا تھا اور کیا حالات تھے جنہوں نے کسی خبر کو جنم دیا۔ یہ سب باتیں رپورٹر کے ذہن میں ہونی چاہئیں۔ اس وقت وہ ایک بڑے لیڈر کا بیان ایڈٹ کر رہے تھے۔ انھوں نے اسی کو میرے سامنے رکھ کر کہا کہ انھوں نے یہ بیان کیوں دیا ہے جب تک اس بیان کو جاری کرنے کی وجہ باقی رہے گی تب تک یہ بیان زندہ رہے گا۔ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے جب تک کوئی عمل باقی رہے گا اس کا ردعمل بھی سامنے آتا رہے گا۔ خبر بنتی رہے گی۔عملی صحافت میں میاں صاحب (م ش) کی اس بات کے اسرار کھلتے رہے اور اس کی وجہ سے ایکسکلوزیو خبریں آتی رہیں جن کا سورس میرا ذہن ہوتا تھا۔ خبر باہر سے نہیں میرے اندر سے پیدا ہوتی تھی اور آج کوئی رپورٹر اگر غور کرے تو اسے یہ صورت حال واضح طور پر دکھائی دے گی۔ ان دنوں کوئی 66 برس بعد پہلی مرتبہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں پر نہیں اس کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ شروع ہوا ہے ورنہ سقوط ڈھاکہ تک بھارت نے ہمیشہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں پر لشکر کشی کی لیکن اب اس نے جغرافیائی سرحدوں کو چھوڑ کر اسے اندر سے کھوکھلا کرنے کے لیے اس کی نظریاتی سرحدوں پر یلغار شروع کر دی ہے۔پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہے اور اب تک وہ پہلا ہی ہے جو زمینی حدود کی وجہ سے نہیں نظریاتی حدود کی وجہ سے وجود میں آیا ہے ورنہ سرزمین ہند کے جس حصے پر پاکستان ہے وہاں پہلے اس نام سے کوئی آزاد ملک نہیں تھا۔ اس لیے جب پاکستان کا وہ بنیادی دو قومی نظریہ کمزور کر دیا جائے گا پاکستان اتنا ہی کمزور ہو جائے گا۔ پاکستان پر نظرثانی حملہ اس وجہ سے بھی کہا گیا ہے کہ اب اس پر فوجی حملہ آور کے لیے سخت خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایٹم بم کے وجود نے اس ملک کی جون ہی بدل دی ہے اور اب یہ ڈھاکہ کی طرح ایک آسان محاذ نہیں ہے اگرچہ یہاں بھی اب سیاستدانوں کی ایک ایسی نسل تیار ہو گئی ہے جو سابقہ مشرقی پاکستان کی یاد دلاتی ہے۔ یحییٰ خان، بھٹو اور شیخ مجیب کی قماش کے لوگ دکھائی دینے لگ گئے ہیں۔یہ ایک لمبی اور ضروری بحث ہے، موقع ملا تو دل کی بھڑاس ضرور نکالیں گے فی الحال میں یہ خبر دینا چاہتا ہوں کہ بھارت امریکا کی سرپرستی اور خوشدلانہ تعاون کی وجہ سے شیر بن رہا ہے اور پاکستان کی حکومت کو اپنے دباؤ میں رکھے ہوئے ہے۔ ایک عجیب خبر چھپی ہے کہ ’پاکستانی‘ ملا عبدالقادر کی پھانسی پر حکومت پاکستان اس لیے خاموش رہی کہ اس سے بھارت کے ساتھ امریکا بھی ناراض ہو سکتا ہے یعنی وہ خبر جو میں اپنے ذہنی سورس کی وجہ سے سمجھ رہا تھا وہ اب اخبارات میں چھپ رہی ہے۔تھوڑا سا پس منظر بیان کریں تو جب برطانیہ عظمیٰ عالمی جنگ میں کمزور ہو گیا تو اس نے اپنی وسیع و عریض مقبوضات سے دست برداری کا فیصلہ کر لیا اور امریکا سے بات کر کے اس کو اپنا جانشین مقرر کر کے یہ مقبوضات اپنے سمیت اس کے سپرد کردیں اور خود جزائر برطانیہ تک سمٹ گیا۔ آپ یاد کریں کہ امریکا نے پاکستان میں اپنے خاص اسٹائل میں قبضے کا آغاز کیا۔ ہماری فوج کو اپنے تابع کیا، اسلحہ دیا اور صرف اسلحہ ہی نہیں فوج کو چھاؤنیاں بھی بنا کر دیں مثلاً ہماری کھاریاں چھاؤنی امریکا کی تعمیر کی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی میدان میں بھی امریکا نے پاکستان کو اپنا محتاج کر لیا۔ امریکی ڈالر کا تماشا ہم دیکھ رہے اور امریکی زیر اثر ادارے آئی ایم ایف کا ہماری معیشت پر قبضہ، یہ سب ہمارے سامنے ہے۔ تفصیلات بہت ہیں لیکن مختصراً اتنا سمجھ لیں کہ اب انگریزی سامراج کی جگہ امریکا نے لے لی ہے۔ یہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ امریکا اس خطے میں بھارت کو اپنا تھانیدار بنا رہا ہے۔امریکا کا یہ پرانا طریق کار ہے کہ وہ دنیا کے مختلف خطوں میں جہاں بس چلتا ہے وہاں اپنا ایجنٹ مقرر کر دیتا ہے۔ ایک مدت تک شاہ ایران اس خطے کا بھی بادشاہ تھا۔ ایران میں خمینی انقلاب نے شاہ ایران کو بے دخل کر دیا۔ امریکا اس مذہبی انقلاب کا جائزہ لیتا رہا اور اب برسوں بعد اس انقلاب کے نمایندے امریکا کے ساتھ معاہدے کر رہے ہیں۔ ع بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔ ہمارے ہاں پاکستان میں امریکا کو کسی کا سامنے نہیں تھا۔ بہت آسان صورت حال تھی۔ مارشل لاء لگے تو امریکا کی علانیہ منظوری کے ساتھ۔ ہمارے بعض فوجی حکمران تو امریکا کے ریٹائر جرنیلوں تک سے بھی اپنے انقلاب کی اجازت لیتے رہے ہیں جیسے پرویز مشرف نے اپنے کسی ٹونی جرنیل سے لی تھی جو ان دنوں افریقہ کے کسی ملک میں تھا اور ریٹائرمنٹ کے موڈ میں کسی ملک میں سیرکر رہا تھا۔ ہمارے ہاں کھلے بندوں یہ پوچھا جاتا ہے کہ حکمران کو امریکا نے منظور کر لیا ہے یا نہیں۔ خواہ وہ منتخب وزیراعظم ہو یا فوجی آمر۔ آج کے پاکستان پر امریکا کی بالادستی ایک مسلمہ واقعہ ہے۔امریکا نے اپنے ہاتھ پاؤں اس قدر پھیلا لیے ہیں کہ اب اسے دنیا کے اس حصے میں بھی اپنا کام کرنے کے لیے پھر کسی ایجنٹ کی ضرورت ہے جو فی الوقت شاہ ایران کی جگہ بھارت ہے اور پاکستان کے لیے بھارت کیا ہے کسی پاکستانی کو یہ بات سمجھنے میں دقت نہیں ہوتی۔ ہمارے جیسے کمزور لالچی اور بے ضمیر پاکستانیوں کے سامنے امریکا کھڑا ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ دو قومی نظریہ تو بہت دور کی بات ہے حالات جتنی اجازت دیں گے یہ بنیادی باتیں عرض کرتے رہیں گے۔Two nation theory
↧
Interest and Prime Minister youth loan scheme by Ansar Abbasi
↧
Urdu writing software free download
اسلام علیکم و رحمتہ الله و برکاتہ
اردو لکھنا نہایت آسان ہے، میں آپ کو دو طریقے بتاتا ہوں ان میں سے جو آپ کو مناسب لگے آپ وہی استعمال کر سکتے ہیں
١) آپ ''پاک اردو انسٹالر''کو انسٹال کر لیں اس کے بعد آپ جہاں چاہیں اردو میں لکھ سکتے ہیں، انسٹالر یہاں سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں، یہاں استعمال کا طریقہ بھی دیا ہوا ہے اگر کوئی مسئلہ ہو تو آپ پوچھ سکتے ہیں.
http://www.mbilalm.com/urdu-installer.php
اس میں تھوڑا سا ٹائم شروع میں لگے گا ہاتھ بیٹھنے میں لیکن پھر آسان ہو جائے.
٢) دوسرا طریقہ ذرا شارٹ کٹ ہے، اور وہ یہ ہے کہ گوگل نے ایک ٹرانسلٹریشن سروس شروع کی ہے جس میں آپ اگر رومن میں لکھیں تو گوگل اسے اردو حروف میں تبدیل کر دیتا ہے مثلآ اگر میں اس کے اندر لکھوں
"kaisay"تو وہ خود بخود اسے "کیسے"میں تبدیل کر دے گا.
ٹرانسلٹریشن یہاں پر کی جا سکتی ہے، اس کے پہلے خانے میں زبان کو منتخب کر لیں یعنی اردو اور پھر لکھ کر دیکھیں
http://www.google.com/transliterate
-------------------------------------------------
'آئی فون'، 'آئی پیڈ'اور 'آئی پاڈ'کے صارفین
Urdu Writer
ڈاؤن لوڈ کریں
https://itunes.apple.com/pk/app/urdu-writer/id469339098?mt=8
http://www.qurtaba.net/urduwriter/
-----------------------------------------------
تو پھر اردو کو اردو حروف میں لکھنا شروع کیجیے. اور پھر اردو میں ہی لکھ کر کمنٹ کیجیے.
↧
↧
لاکھ ناداں ہوئے، کیا تجھ سے بھی ناداں ہونگے
ارشاد احمد عارف
آٹھ دس سال قبل میں ایک معاصر اخبار میں اداراتی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ 16؍ دسمبر کی مناسبت سے سقوط ڈھاکہ کے اسباب، واقعات اور ذمہ داروں کے حوالے سے اداریہ لکھا جس میں جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ شیخ مجیب الرحمٰن اور عوامی لیگ کے کردار پربھی روشنی ڈالی گئی تھی۔ صبح صبح بنگلہ دیش کے سفارت خانے سے ایک اعلیٰ عہدیدار کا فون آیا جو بنگ بندھو کے ذکر پر برہم تھے کہ اداریے میں ان کا ذکر منفی انداز میں کیا گیا۔ میں نے معذرت خواہانہ انداز اختیار کئے بغیر اپنا اور اپنے اخبار کا نقطہ نظر پیش کیا اور فون بند کر دیا۔
گزشتہ روز بنگلہ دیش کے دفتر خارجہ نے پاکستان کے ہائی کمشنر کو طلب کیا اور قومی اسمبلی کی وہ قرارداد واپس لینے کا مطالبہ ہوا جس میں عبدالقادر ملا شہید کی سزائے موت پر اظہار تشویش کیا گیا، احتجاج یا مذمت نہیں۔ تو مجھے یہ واقعہ یاد آیا اس روز بھارت نے نیویارک میں اپنے ایک سفارتی اہلکار کی گرفتاری پر شدید احتجاج کرتے ہوئے نئی دہلی میں تمام امریکی سفارتکاروں کے خصوصی پاسز منسوخ کر دیئے، حفاظتی سہولتیں ختم کر دیں اور بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کے علاوہ نریندر مودی اور راہول گاندھی نے دورے پر آئے امریکی وفد سے ملاقات منسوخ کر دی۔ ریاستیں اور معاشرے اپنے قومی مفادات اور وقار کے حوالے سے واقعی حساس ہوتی ہیں مگر ہم؟
بنگلہ دیش کے قیام میں ہماری سیاسی، فوجی اور معاشی پالیسیوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کے عمل دخل سے کوئی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کا التوا، عوامی لیگ کو انتقال اقتدار سے انکار اور فوجی ایکشن کے دوران گیہوں کے ساتھ گھن پس جانے کی پالیسی کا کوئی معقول جواز پیش کرنا مشکل ہے مگر اس حقیقت کا منکر بھی کوئی سنگدل اور ذہنی طور پر قلاش شخص ہو سکتا ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان بھارت کی زیر سرپرستی مکتی باہنی کی گوریلا وار، کھلم کھلا فوجی مداخلت اور امریکہ و سوویت یونین کی انڈر سٹینڈنگ کا نتیجہ تھا۔ مرکز کی بالادستی اور مشرقی پاکستان کے استحصال کی داستانیں اس سٹرٹیجی کا حصہ تھیں۔
1947ء میں مشرقی پاکستان کس قدر ترقی یافتہ اور خوشحال علاقہ تھا؟ ذوالفقار علی بھٹو نے اطالوی صحافی اوریانہ فلاس کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا ’’1947ء میں ڈھاکہ غلیظ کچی بستی تھی جہاں پختہ گلیاں تک نہ تھیں‘‘ ڈاکٹر پروفیسر سجاد حسین نے THE WASTE OF TIME میں لکھا ’’حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے اپنائی جانے والی صنعتی پالیسی کے نتیجے میں مشرقی بنگال کے مسلمانوں کو بھی نئی زندگی بسر کرنے کا موقع ملا۔ کچی مٹی سے لیپے ہوئے فرش کی جگہ ٹائلز نے لی، بانس اور گھاس پھونس کے بجائے سیمنٹ کا استعمال ہوا اور تنکوں کی چٹائی کی جگہ لکڑی اور دھات کے بنے میز کرسیوں نے لی۔ ‘‘
بھارتی حکمرانوں، پریس اور قوم پرستی کے خمار میں مبتلا بنگالی سیاستدانوں بالخصوص شیخ مجیب الرحمٰن اور تاج الدین نے جس طرح کا پروپیگنڈہ سونار بنگلہ کے استحصال اور لوٹ مار کے حوالے سے کیا اسی طرح کی مہم 3مارچ سے 25مارچ کے دوران مکتی باہنی، عوامی لیگی باغیوں اور بھارتی گوریلوں کے وحشیانہ مظالم کا نشانہ بننے والے بنگالی اور غیربنگالی پاکستانیوں اور پاک فوج کے خلاف چلائی گئی جس میں نام نہاد عالمی برادری اور پریس نے کھل کر ریاست کے خلاف لڑنے والوں کا ساتھ دیا اور آج تک بہت سے لوگ اس سے مسحور ہیں۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بھارتی آرمی چیف فیلڈ مارشل مانک شا نے THE PIONEER کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ ’’دراصل مکتی باہنی پاکستانی فوجیوں کے خلاف انتقامی کارروائی میں مصروف تھی مگر پھر بھی وہ ہمارے مقابلے میں غاروں میں نہیں بیٹھے بلکہ محاصروں میں ہونے کے باوجود قہر، غضب اور شدت کے ساتھ لڑے۔ ہم نے پاکستان آرمی کے خلاف لوٹ مار، آبروریزی اور غیر انسانی تشدد کا پروپیگنڈا اس قدر بڑھا چڑھا کر کیا کہ ان کی انسانی شخصیت تباہ ہو کر رہ گئی، ان کا حوصلہ پست ہو گیا پھر بھی پاکستانی فوج نو ماہ تک بے جگری سے نبرد آزما رہی۔ ‘‘
دنیا کا طے شدہ اصول ہے کہ کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں، ناکامی یتیم اور بے آسرا ہوتی ہے۔ اندرا گاندھی اور مجیب الرحمٰن کو کامیابی ملی اور یحییٰ خانی ٹولے کی غلطی پالیسیوں کی سزا پاکستان کو ناکامی اور سرنڈر کی صورت میں ملی جس پر ہر پاکستانی آج تک شرمندہ ہے۔ اسی شرمندگی کے زیر اثر جنرل پرویز مشرف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے ڈھاکہ جا کر سر عام معافی مانگی مگر حسینہ واجد اور ان کے ساتھیوں کا دل نہیں پسیجا، آتش انتقام سرد نہیں ہوئی اور علیحدگی پسندوں کے مقامی ہمدردوں کی تشفی بھی نہیں ہوئی۔ تبھی بار بار پاکستان سے معافی کا مطالبہ ہوتا ہے مگر بنگلہ دیش کے موجودہ حکمرانوں اور 1971 میں محب وطن پاکستانی بنگالیوں، بہاریوں اور مغربی پاکستانیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے مکتی باہنی، مجیب باہنی اور دیگر قوم پرست غنڈوں، قاتلوں سے نہیں جو ایک یونیورسٹی کے طلبہ، میڈیکل کالج کی طالبات اور رجمنٹل سنٹر میں فوجیوں کو نہ صرف چن چن کر فائرنگ کا نشانہ بناتے رہے بلکہ آبرو ریزی کے بعد خواتین کی الف ننگی لاشوں پر تیل چھڑک کر آگ بھی لگاتے رہے۔ ایک پاکستانی فوجی میجر یہ منظر دیکھ کر ذہنی توازن کھو بیٹھا۔ فوجی ایکشن تو ان مظالم اور غیر انسانی کارروائیوں کے بعد ہوا اور اس کی تائید قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘ کہہ کر کی۔
قومی اسمبلی کی جس ہومیو پیتھک قرارداد پر بنگلہ دیش بر افروختہ ہے اس کی مخالفت ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے کی۔ ایم کیو ایم کی مخالفت قابل فہم ہے۔ الطاف بھائی تقسیم برصغیر کو غلط قرار دے چکے ہیں اور کہا یہ کہ ’’اگر وہ 1946 میں ہوتے تو تقسیم کے خلاف ووٹ دیتے‘‘۔ مگر پیپلز پارٹی کو کیا ہوا جس کے باوا آدم نے مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کا دفاع ان الفاظ میں کیا ’’یہ بات درست ہے کہ مشرقی پاکستان میں ایسے حالات پیدا کئے جا چکے تھے کہ ایک خونریز کارروائی کا جواز بن چکا تھا۔ مارچ 1971میں پاکستان کے اتحاد کا انحصار علیحدگی پسندوں کو کچلنے پر تھا۔ ٹکا خان نے جو کیا ایک فوجی کی حیثیت سے کیا۔ ‘‘ اسی ٹکا خان کو قائد عوام نے پاکستان کا آرمی چیف بنایا جسے عوامی لیگ کے علاوہ اس کے حمایتی عالمی پریس نے ’’بنگال کے قصاب‘‘ کا خطاب دیا۔
پیپلز پارٹی کے ایم این اے عبدالستار بچانی اور نفیسہ شاہ کی طرف سے عبدالقادر ملا کی سزا کو عدالتی کارروائی کا نتیجہ قرار دینا بھی خوب ہے؟ ایک ایسی عدالت جسے دنیا بھر میں ناقص، مشکوک، متنازع قرار دیا گیا۔ مگر قائد عوام کے بارے میں پیپلز پارٹی کا کیا خیال ہے جسے 1973کے آئین کے تحت کام کرنے والی اعلیٰ عدالتوں نے سزا دی۔ ان میں سے کوئی جج پی سی او زدہ تھا نہ ضیاء الحق کا مقرر کردہ۔
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ
ہم نے پاکستان کے وفاداروں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا اور سفارتی نزاکتوں کا خیال کرتے ہوئے عبدالقادر ملا کی پھانسی پر خاموش رہے۔ اور بنگلہ دیش نے بھی بھارت کی طرح ہمیں غریب کی جوار سمجھ لیا ہے؟ مشکوک عدالتی کارروائی پر کچھ نہ بولے مگر بنگلہ دیش حکومت نے ہماری آزاد، خودمختار قومی اسمبلی کی قرارداد پر احتجاج کیا اور واپس لینے کا مطالبہ کیا ۔ کیا یہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں؟
بشکریہ روزنامہ "جنگ"
↧
انسانی عظمت کی دشمن ۔ حسینہ واجد
![]()
16دسمبر 1971ء کو سقوطِ مشرقی پاکستان ہوا اور بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمٰن نے پُراسرار حالات میں اسلام آباد سے لندن جاتے وقت سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مسٹر ذوالفقار علی بھٹو سے وعدہ کیا کہ وہ اُن تمام لوگوں کو معاف کر دیں گے جنہوں نے پاکستان کی بقا کے لیے جنگ لڑی تھی، چنانچہ بنگلہ دیش پہنچنے کے چند ہی روز بعد عام معافی کا اعلان کر دیا تھا اور ہزاروں بنگالی اورغیر بنگالی جیلوں سے رہا کر دیے گئے تھے۔ جون 1972ء میں معاہدۂ شملہ ہوا جس میں یہ طے پایا کہ جنگی قیدیوں کے مسلمہ حقوق کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا اور اُن پر مقدمات نہیں چلائے جائیں گے ،تاہم شیخ مجیب الرحمٰن 195جنگی قیدیوں پر مقدمہ چلانے پر اصرار کرتے رہے ،مگر جب 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد کا اعلان ہوا ،تو مختلف سربراہوں نے شیخ صاحب کو اِس امر پر قائل کر لیا کہ وہ کسی پاکستانی فوجی پر مقدمہ چلائیں گے نہ پاکستان سے اثاثوں کی ادائیگی کا مسئلہ اُٹھائیں گے۔ اُنہیں یاسر عرفات ڈھاکہ سے لاہور لے کر آئے تھے اور معاہدوں کے ساتھ ایک نئے باب کا آغاز ہوا تھا جن میں شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ شاہ فیصل اور یاسر عرفات بھی شامل تھے۔
شیخ مجیب الرحمٰن تیزی سے بھارت کے نرغے میں آتے گئے۔وہ جن لادینی قوتوں کی حمایت سے دسمبر 1970کے انتخابات میں غنڈہ گردی کے ذریعے زبردست کامیابی حاصل کر پائے تھے ، اُنہوں نے بنگلہ دیش کا اسلامی تشخص مکمل طور پر ختم کرنے پر اصرار کیا جس کو بھارت کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔چنانچہ شیخ صاحب نے دستور میں بنیادی ترامیم کیں اور اُس میں سے ’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم‘‘ کے مقدس الفاظ حذف کیے اور فسطائی نظام نافذ کر دیا۔ اُن کا دورِ حکمرانی اسلامی مزاج اور جمہوری شناخت رکھنے والے شہریوں اور بنگلہ دیشی فوج کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا گیا اور 15؍اگست 1975ء کے فوجی انقلاب میں بنگلہ بندھو اور اُن کے اہلِ خانہ گھر کے اندر بیدردی سے قتل کر دیے گئے اور اُن کی لاشیں تین روز تک گلتی سڑتی رہیں۔
دراصل شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنے عوام کی گہری نفسیات کو سمجھنے میں بڑی ٹھوکر کھائی تھی جو اسلام سے گہرا جذباتی لگاؤ رکھتے تھے اور برصغیر کی جنگ ِآزادی میں سرگرم حصہ لیتے رہے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ 30دسمبر 1906ء میں ڈھاکہ میں قائم ہوئی تھی اور 1940ء کے عظیم الشان اجتماع میں قراردادِ لاہور جناب اے کے فضل الحق نے پیش کی جو بنگال کے وزیراعظم تھے۔ وہاں کے عوام اِن تحریکوں میں پیش پیش رہے جو اسلامی کلچر اور اسلامی عقائد کے تحفظ اور فروغ کے لیے برصغیر میں وقفے وقفے سے اُٹھتی رہیں تھیں۔اسلامی سربراہ کانفرنس میں بنگلہ دیش کو تسلیم کر لینے کے بعد وہ لوگ جو 1971ء میں بھارتی فوج کے خلاف سینہ سپر ہوئے تھے اور مکتی باہنی کی بربریت کے سامنے ڈٹے رہے تھے ، وہ قومی دھارے میں آ گئے اور بنگلہ دیش کے جمہوری اور اقتصادی ارتقاء میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ تمام عناصر جو مسلم تشخص کا تحفظ چاہتے تھے ، وہ جماعت اسلامی کے گرد جمع ہوتے گئے اور بنگلہ دیش میں اسلامی حمیت عوامی طاقت کے ساتھ بیدار ہوئی ہے۔ پچھلی دفعہ حسینہ واجد اپنے والد کی طرح انتخابی دہشت گردی کے ذریعے اقتدار میں آگئیں، مگر اُنہیں جلد احساس ہو گیا کہ بنگلہ قومیت کی عصبیت کو جگائے بغیر اُن کے لیے اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنا اور آئندہ اقتدار میں آنا محال ہو جائے گا ،چنانچہ اُنہوں نے پاکستان کا ساتھ دینے والوں پر مقدمات چلانے کا نعرہ لگایا اور 2010ء میں جنگی جرائم کا بین الاقوامی ٹریبونل بھی تشکیل دے ڈالا۔ یہ اقدام اِس معاہدے کے سراسر خلاف تھا جو اسلامی سربراہوں کی وساطت سے بھٹو اور مجیب کے درمیان طے پایا تھا جس میں یہ ضمانت دی گئی تھی کہ جنگی جرائم کے نام پر مقدمات نہیں چلائے جائیں گے۔
یہ اقدام بین الاقوامی قانون کے بھی خلاف تھا جس کی رُو سے ڈومیسٹک لاء کے ذریعے جنگی جرائم کا بین الاقوامی ٹربیونل قائم نہیں کیا جا سکتا ٗ مگر حسینہ واجد کی حکومت انتقام لینے پر تلی ہوئی تھی اور اِس نے انصاف کے تمام تر تقاضے بری طرح پامال کیے۔ ہفت روزہ اکانومسٹ نے دسمبر 2013ء کے شمارے میں نام نہاد انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل کے چیئرمین محمد نظام الحق کا ایک جملہ نقل کیا ہے جو حسینہ واجد کی ذہنیت کی قلعی کھول دیتا ہے کہ ’’حکومت مکمل طور پر پاگل ہو چکی ہے ،وہ فوری فیصلے کے لیے جنونی انداز میں دباؤ ڈال رہی ہے اور 16دسمبر 2013تک فیصلہ چاہتی ہے‘‘۔
اِس جملے کی روشنی میں ڈھاکہ انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل کے فیصلے مسلمہ بین الاقوامی قانون اور انصاف کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے کہ اِن میں جھوٹے گواہ اور استغاثے پیش کیے گئے اور دفاع میں پیش کیے جانے والے گواہوں کو ٹریبونل میں آنے ہی نہیں دیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد نیور مبرگ میں انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل قائم کیا گیا تھا جس میں 23سیاسی اور عسکری شخصیتوں پر مقدمات چلائے گئے تھے اور قانونی تقاضوں کا خاصا خیال رکھا گیا تھا ، لیکن امریکہ کی سپریم کورٹ نے اُسے مسلمہ قانونی ضابطوں کے صریح منافی قرار دیا تھا۔بھارت اور حسینہ واجد کو بنگلہ دیش ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہوا ،تو وہ بربریت پر اُتر آئے ہیں۔ نام نہاد کرائم ٹریبونل پاکستان کے ساتھ وفا کی جنگ لڑنے والوں کو مختلف سزائیں سنا چکا ہے۔ دی نیوز اور سنگرام کے ایڈیٹر ، نیشنل پریس کلب کے دو بار منتخب ہونے والے وائس پریذیڈنٹ ،پارلیمنٹ میں دوبار منتخب ہونے والے رکن اور جماعت اسلامی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل جناب عبدالقادر ملا کو اِسی ٹریبونل نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ حکومت نے آئین میں تبدیلی کر کے اِس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی اور جج صاحبان نے فائل کھولے بغیر اُنہیں موت کی سزا سنا دی جس کی نظیر کسی قانون میں نہیں ملتی۔ اُنہیں 16دسمبر سے چند روز پہلے دس بجے شب پھانسی دے دی گئی۔ وہ مقتل کی طرف بڑی سج دھج سے گئے تھے اوریوں عبدالقادر عودہ سے لے کر عبدالقادر ملا کی پوری تاریخِ عزیمت چمک اُٹھی ہے اور مجھے اپنا یہ شعر یاد آگیا ہے
سزا کی طرز نئی ڈالیے کہ دیوانے
مقامِ دار و رسن سے گزر بھی آئے ہیں
تاریخ اُنہیں شہیدِ پاکستان کے نام سے ہمیشہ یاد رکھے گی۔ حسینہ واجد جس راستے پر چل نکلی ہیں ،وہ اُن کی تباہی اور خودکشی کا راستہ ہے اور بنگلہ دیش کے مسلم تشخص، اُس کی اقتصادی اور سیاسی طاقت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنی کوتاہ نظری سے پاکستان سے محبت کرنے والے عوام کے جذبات بری طرح گھائل کر دیے ہیں ،البتہ قومی اسمبلی میں کثرتِ رائے سے منظور ہونے والی قرارداد نے کسی قدر تلافی کر دی ہے اور بہت سے چہرے بے نقاب کر ڈالے ہیں۔ حسینہ واجد کے ہمراہ اُنہیں بھی ضرور ایک عبرت ناک سزا سے گزرنا ہو گا۔ اِس مرحلے میں اربابِ فکر و نظر کو عالمی ضمیر کی آواز کو بے حد توانا اور نتیجہ خیز بنانا ہو گا۔لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے عبدالقادر ملا کی شہادت کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں اُن کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی ہے اور بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ گہری یکجہتی کا ثبوت دیا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی اِس واقعے نے ایک زبردست تحریکِ مزاحمت پیدا کر دی ہے۔ مشرق سے میں اسلام کی عظمت کا سورج طلوع ہوتے دیکھ رہا ہوں۔
الطاف حسین قریشی
بشکریہ روزنامہ "جنگ"
↧
بھارتی سفارتکار خاتون اور ریمنڈ ڈیوس
اپنے مالی اور فوجی وسائل کے بل بوتے پر ان دنوں دُنیا کی واحد سپر طاقت بنے امریکا کی رعونت تو اب ایک جانی پہچانی حقیقت بن چکی ہے۔ بھارت مگر اس حوالے سے بڑھکیں لگاتا ذرا عجیب سا لگ رہا ہے۔ مجھے یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ آبادی کے اعتبار سے دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس نے من موہن سنگھ کی رہنمائی میں خود کو بڑی تیزی سے نئے عالمی اقتصادی نظام کا حصہ بھی بنا لیا۔ دُنیا بھر کے سوچنے سمجھنے والوں کا ایک بڑا حصہ مستقبل کے تناظر میں چین اور بھارت کو دو ابھرتی ہوئی قوتوں کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ اس پسِ منظر میں کچھ بھارتیوں کو یہ اعتماد بھی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت کا علمبردار ہوتے ہوئے امریکا شاید اسے چین کا ایک بہتر متبادل بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ سب مگر امکانات ہیں جن تک پہنچنے کے لیے ایک طویل سفر درکار ہے۔ فی الحال تو بھارت اپنی اتنی بڑی آبادی اور تیزی سے ترقی پاتی معیشت کے ہوتے ہوئے بھی ایک غریب ملک ہے جسے عالمی منظر پر اپنے حقیقی حد تک سے زیادہ بڑا نظر آنے کی کوششیں نہیں کرنا چاہیے۔
بھارتی اشرافیہ کی مجبوری مگر یہ ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو کی قیادت میں اس نے خود کو ایک ایسی ’’ایمپائر‘‘ کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا جو اشوکا اور اکبر اعظم ہی نہیں لارڈ کرزن کے بنائے ’’برٹش انڈیا‘‘ سے منسلک ’’عظمتوں‘‘ کی وارث بھی ہے۔ خود کو صرف ایک ملک نہیں بلکہ Empire کے طور پر دُنیا کے سامنے لانے کے لیے نہرو نے اپنی وزارتِ خارجہ پر خاص توجہ دی۔ اس وزارت سے متعلقہ لوگوں میں وہ ساری عادات کوٹ کوٹ کر بھرنے کی کوشش کی جو تاریخی حوالوں سے بڑی سلطنتوں سے متعلقہ سفارتکاروں سے منسوب کی جاتی تھیں۔ امریکا اور بھارت کے درمیان اِن دنوں سفارتی محاذ پر جو قضیہ چل رہا ہے وہ درحقیقت ان ہی عادتوں اور روایتوں کا شاخسانہ ہے۔
ٹھنڈے دل سے پورے معاملے کا جائزہ لیں تو بات صرف اتنی ہے کہ بھارت کی نیویارک میں متعین کی ہوئی ایک ڈپٹی قونصل جنرل تھیں۔ دیویانی ان کا نام ہے۔ وہ نیویارک جاتے ہوئے اپنے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کے کام کاج کے لیے ایک نوکرانی بھی ساتھ لے گئیں۔ اس نوکرانی کے لیے امریکا کا ویزہ حاصل کرنے کے لیے حلفاََ یہ بیان دیا گیا کہ اس نوکرانی کو امریکا میں اپنے قیام کے دوران وہاں کے قانون کے مطابق ہر ماہ کم از کم 4,500 ڈالر دیے جائیں گے۔ نیویارک آ جانے کے بعد البتہ اس نوکرانی کو ہر ماہ صرف 573 ڈالر ملے۔ پتہ نہیں کیسے وہ بالآخر پولیس تک پہنچ گئی اور وہاں کی حکومت نے دیویانی کو گرفتار کر لیا۔
اپنے ایک ’’سفارتکار‘‘ کی محض گرفتاری پر شاید بھارت اتنا چراغ پا نہ ہوتا۔ نئی دہلی والوں کو زیادہ غصہ اس بات پر بھی آیا کہ ان کی ’’سفارت کار‘‘ کو گرفتاری کے بعد ہتھکڑی لگا کر تھانے لے جایا گیا۔ وہاں اسے حوالات میں ڈالنے سے پہلے اس کے سارے کپڑے اتروائے گئے اور پھر اسے منشیات کے عادی مجرموں سے بھرے ایک Cell میں ڈال دیا گیا۔ بھارت کا اصرار ہے کہ ایک مستند سفارت کار ہوتے ہوئے دیویانی کو ان تمام مراحل سے گزارنے کی ضرورت نہ تھی۔ مختلف عالمی معاہدوں میں طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے ان تمام ذلتّوں سے استثنیٰ حاصل تھا۔ امریکی Diplomatic Immunity کی ایسی تعبیر کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ بضد ہیں کہ سفارت کاروں کو صرف اپنے سرکاری فرائض کے حوالے سے کوئی استثنیٰ ملتا ہے۔ اپنی ذاتی حیثیت میںکسی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی سفارت کار استثنیٰ کے حق کو استعمال نہیں کر سکتا۔ نظر بظاہر دیویانی نے اپنی ذاتی حیثیت میں دو امریکی قوانین کی واضح خلاف ورزی کی ہے۔ ایک قانون کو توڑنے کی زیادہ سے زیادہ سزا دس سال ہے اور دوسرے کی پانچ سال ہے۔
اس کالم کے لکھتے وقت بھی امریکی اپنی بات پر ڈٹے نظر آ رہے تھے۔ جواباََ بھارت میں بہت زیادہ غصہ نظر آ رہا ہے۔ وہاں کے ایک سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا تو اس حد تک چلے گئے ہیں کہ اگر مقامی قوانین کا احترام سفارت کاروں کے لیے بھی از حد ضروری ہے تو امریکا کے کئی مستند سفارت کاروں کو اس بنیاد پر فوراَ گرفتار کیا جا سکتا ہے کہ انھوں اپنے ہی ہم جنسوں سے شادی کر رکھی ہے جو بھارتی قوانین کے مطابق ایک سنگین فوجداری جرم ہے۔
دیویانی کی گرفتاری کے بعد سے بھارتی میڈیا میں جو شور و غل برپا ہے اس کے ہوتے ہوئے بھی مجھے یہ دعویٰ کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ جلد ہی اس قضیے کا کوئی حل نکل آئے گا اور دونوں ممالک کی حکومتیں اس واقعے کو بھول کر معمول کے تعلقات کی سطح پر واپس آ جائیں گی۔ اصل بات جو اس قضیے میں بے دردی سے نظرانداز ہو رہی ہے وہ بھارت اور اس جیسے ملکوں کی اشرافیہ کا وہ سلوک ہے جو وہ اپنے گھریلو ملازمین سے روا رکھتے ہیں۔ اپنے گھروں میں کام کرنے والی نوکرانیوں کو ہم لوگ زر خرید باندیوں کی صورت رکھتے ہیں اور ان کی حالتِ زار کا خوش حال متوسط طبقے کے بڑے ڈرائنگ روموں میں بیٹھے ’’اصول اور انسان پسند‘‘ بنے لوگ کبھی ذکر ہی نہیں کرتے۔ اس قضیے میں بھی ذکر صرف دیویانی اور اس کے سفارتی استثنیٰ کا ہو رہا ہے۔ اس نوکرانی کا نام بھی میرے جیسے لوگوں کو معلوم نہیں جسے 500 ڈالر ماہانہ دے کر نیویارک میں دن رات مشقت کرنے کا پابند بنا دیا گیا تھا۔
پاکستانیوں کو اس قصے میں ریمنڈ ڈیوس یاد آ گیا ہے جس کو صدر اوبامہ نے اپنی زبان سے ایک سفارت کار قرار دے کر اس کے لیے Immunity مانگی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے انسانی حقوق کا چیمپئن بنے ایک طاقتور ملک کا سربراہ انتہائی سفاکی سے یہ بات بھول گیا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس نے دو بے گناہ نوجوانوں کو انتہائی بے دردی سے دن دیہاڑے قتل کیا تھا۔ اس کا یہ فعل ہرگز ان اعمال میں شمار نہیں ہوتا تھا جو ایک سفارت کار کے ’’سرکاری کام‘‘ میں سرانجام دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب ریمنڈ ڈیوس کو عبرت ناک سزا دینے کے مطالبے ہو رہے تھے تو میں اصرار کرتا رہا کہ بالآخر وہ خیرخیریت سے اپنے ملک واپس لوٹ جائے گا۔ آخر کار ہوا بھی یہی۔ مگر اس وقت ہمیں اپنی اس وقت کی حکومت کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ اس نے صدر اوبامہ کے ایک واضح بیان اور دعوے کے باوجود ریمنڈ ڈیوس کو ’’سفارت کار‘‘ تسلیم نہیں کیا تھا۔ اسے ایک عام قاتل کی حیثیت میں کئی دن تک گرفتار رکھا گیا اور ڈیوس کو رہائی اسی وقت نصیب ہوئی جب اس نے اسلامی قوانین کا سہارا لیتے ہوئے اپنے جرم کا اعتراف کرنے کے بعد مقتولوں کے ورثا کو خون بہا کے نام پر خطیر رقوم ادا کر دیں۔ ماضی کی حکومت کے ساتھ اپنی اندھی نفرت کے سبب ہمارے میڈیا نے اس بڑے ہی اہم پہلو کو کبھی واضح طور پر بیان ہی نہیں کیا۔
نصرت جاوید
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
↧
قابل رحم پولیس
امریکی صدر اوباما کی تشخیص ہے کہ پاکستان کو اندر سے خطرہ ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے ان کی موجودگی میں اعلان کیا کہ ہمیں اندر سے خطرہ ہے اور پہلے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کی ذمہ دار افواج پاکستان کے سابق سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی باربار فرما چکے ہیں کہ پاکستان کو باہر سے کم اور اندر سے زیادہ خطرہ ہے۔
سیاسی رہنمائوں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ اندر کا خطرہ سنگین ہے لیکن تماشہ یہ ہے کہ اندرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کی ذمہ دار پولیس فورس کو مضبوط نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ وہ خود طرح طرح کے خطرات سے دوچار کردی گئی ہے ۔ اس کی ساکھ ‘ کارکردگی اور وجود کو خطرات لاحق ہیں۔ یہ خطرہ نظام سے ہے ‘ دیگر اداروں سے ہے ۔ پالیسی سازوں سے ہے۔
حکمرانوں سے ہے اور سب سے بڑھ کر وزرائے اعلیٰ سے ہے ۔ جن میں سرفہرست ماشاء اللہ وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کے ڈی ایم جی کے مشیر ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملک میں پولیس ہی اندرونی سلامتی کی ذمہ دار ہوتی ہے ‘ سیکورٹی کی مد میں سب سے زیادہ خرچ بھی اس پر کیا جاتا ہے ۔قانون کے نفاذ کے حوالے سے سپریم اتھارٹی کی حیثیت بھی اسے حاصل ہوتی ہے اور قوانین بھی اس کی سہولت کو مدنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں ۔ برطانیہ کی مثال لے لیجئے ۔ الطاف حسین صاحب کے معاملے پر آپ برطانیہ کے وزیراعظم سے سوال کریں یا پھر ایم آئی سکس کے سربراہ سے ‘ دونوں اپنی بے بسی اور لاعلمی کا اظہار کرکے یہی جواب دیں گے کہ ہماری پولیس خودمختار ہے۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے کی ذمہ دار پولیس ہے لیکن یہاں قانون کی نہیں اشخاص کی حکمرانی ہے ۔
وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا کہا ہوا ہی قانون سمجھا جاتا ہے ۔ یہ حکمرانی نیچے تک چلی جاتی ہے اور تھانے کی سطح پر جو بااثر اور بااختیار ہے ‘ قانون کی بجائے اس کی حکمرانی ہوتی ہے ۔ آئی جی سے لے کر عام سپاہی تک‘ اپنی ملازمت اور ترقی و تنزلی کے لئے چونکہ ان بااختیار افراد کے رحم وکرم پر ہیں ‘ اس لئے پولیس کو قانون کی نہیں بلکہ ان کی مرضی و منشاء کی رکھوالی کرنی پڑتی ہے ۔
گویا قانون کی قوت نافذہ عملاً پولیس کے پاس نہیں بلکہ بااثر اور حکمران افراد یا طبقات کے پاس ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں قانون کے نفاذ کے حوالے سے پولیس ہی کو سپریم ادارہ سمجھاجاتا ہے ۔ خفیہ ادارے ہوں یا فوج ‘ ملکی سرحدوں کے اندر وہ پولیس کی مدد کے پابند ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ سب ادارے پولیس کو تو حکم دے سکتے ہیں لیکن پولیس ان کو حکم نہیں دے سکتی ۔ وسائل کی کمی کا یہ حال ہے کہ پشاور کے بم ڈسپوزل اسکواڈ کے اہلکاروں کے پاس بلٹ پروف گاڑی تک نہیں ۔ وہ بنیادی آلات اور اوزار سے لیس نہیں ہیں لیکن اس کے مقابلے میں اس ملک میں ہزاروں ایرے غیرے بلٹ پروف گاڑیاں لئے پھرتے ہیں ۔ بلوچستان پولیس کے اہلکار مجھے پیغامات بھیج رہے ہیں کہ ان کے سپاہی کی تنخواہ پنجاب کے کلاس فور کے ملازم سے کم ہے ۔ تھانوں کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ ٹریننگ کو ٹریننگ کہنا اس لفظ کی توہین ہے ۔ اسلام آباد جیسے شہر میں پولیس جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ نہیں کرسکتی۔
مناسب ڈیٹا بیس موجود ہے اور نہ اس تک پولیس کی رسائی ہے ۔ ناکے پر پولیس بیٹھی ہوتی ہے لیکن اس کے پاس کوئی کمپیوٹرائزڈ نظام نہیں کہ وہ یہ جان سکے کہ کس کی گاڑی گزر رہی ہے ۔ یہ تو وہ مسائل ہیں جن سے ہماری پولیس نائن الیون سے پہلے بھی دوچار تھی لیکن پچھلے دس سالوں میں اس کی ڈیوٹی کی نوعیت میں زمین و آسمان کا فرق واقع ہوا ہے۔ پہلے کسی ناکے پر موجود پولیس والے کی ذمہ داری صرف گاڑی کو چیک کرنا اور تلاشی لینا ہوا کرتی تھی لیکن اب اسے یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ گاڑی قریب آتے ہوئے پھٹ پڑے گی۔
پہلے اسے شہریوں کو تحفظ دینا پڑتا تھا لیکن اب اسے اپنے تحفظ کا مسئلہ بھی درپیش ہے لیکن ان نئے چیلنجوں کے تناظر میں اس کے نہ تو اختیارات بڑھائے گئے‘ نہ وسائل اور نہ تربیت کی جدید سہولتیں فراہم کی گئیں۔ سندھ میں وہ جن جرائم پیشہ افراد کے خلاف میدان میں اتاری گئی ہے‘ انہی کے سرپرست حکمران بنے پھرتے ہیں اور پھر یہی پولیس ان جرائم پیشہ افراد کے ان سرپرستوں کی رحم وکرم پر ہے۔
بلوچستان میں پولیس کو جن لوگوں کے مقابلے کے لئے تعینات کیا گیا ہے‘ انہی لوگوں کے بھائی ‘ بھتیجے ‘ چچا ‘ ماموں یا سیاسی ہمسفر حکمران ہیں یا پھر وی وی آئی پی سہولتوںسے مستفید ہورہے ہیں ۔ خیبرپختونخوا میں یہ پولیس جن عناصر سے برسرپیکار ہیں‘ وہاں ان کے چیف ایگزیکیٹو ان کو بھائی اور اپنا قرار دے رہے ہیں ۔ پنجاب میں نوعیت مختلف ہے لیکن یہاں پولیس کو حکمرانوں کا ذاتی ملازم سمجھا جا رہا ہے۔ یہاں کے حکمران پولیس کے جسم سے اس کے دو تین موثر حصے کاٹنا چاہتے ہیں۔
کائونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ کی مثال لے لیجئے۔ اس کی کارکردگی باقی پولیس اور دیگر صوبوں کے اسی نوع کے اداروں سے بہتر رہی ۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ باقی صوبے اس کے نقش قدم پر چلتے اور پنجاب کے اندر بھی پولیس کے باقی شعبوں کو انہی خطوط پر استوار کردیا جاتا لیکن اسے پولیس سے کاٹ کر اب ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سپرد کیا جارہا ہے ۔ اسی طرح ایلیٹ فورس کا کنٹرول بھی پولیس فورس سے باہر منتقل کیا جارہا ہے جبکہ اسپیشل برانچ کو بھی پولیس سے چھیننے کی کوشش ہورہی ہے ۔ یہ ایسا ہے کہ جیسے پنجاب مسلم لیگ (جس کی کارکردگی دیگر صوبوں کی مسلم لیگوں سے بہتر ہے)کا کنٹرول میاں نوازشریف مخدوم جاوید ہاشمی کو دے دیں ‘ مسلم لیگ (ن) کے جو چند باصلاحیت لوگ ہیں‘ ان کو اپنی جماعت سے کچھ دنوں کے لئے پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کے حوالے کر دیں اور پھر توقع کریں کہ اب ان کی جماعت پورے ملک میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرلے گی۔
نہ جانے ہمارے حکمرانوں کو یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ کوئی بھی فورس حکم تو ہر اتھارٹی کا مانتی ہے لیکن جان وہ صرف اس اتھارٹی کے حکم پر دیتی ہے جو ان کے ساتھ میدان میں موجود ہو۔ ہوم سیکرٹری ہو یا وزیراعلیٰ ‘ وہ فورس کے ساتھ میدان میں موجود نہیں ہوتا ۔ اگر صفت غیور جیسے لوگوں کے پاس کمانڈ ہوگا تو اس کا سپاہی حکم ماننے کے ساتھ ساتھ جان بھی دے گا۔ سوال یہ ہے کہ آج فوج پاکستان میں واحد منظم اور طاقتور ادارے کی حیثیت کیوں حاصل کرگئی ہے ؟۔ جواب یہ ہے کہ اس کو بیرونی مداخلت سے پاک کر دیا گیا ہے ۔ وزیراعظم تک اس کی تقرریوں اور تبادلوں میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ اس کی ٹریننگ اور ترقی و تنزلی کا اپنا نظام ہے ۔ اس لئے وہ پاکستان جیسے ملک میں بھی ایک مضبوط ادارے کے طور پر کھڑی ہوگئی۔ سوال یہ ہے کہ ہم پولیس کو یہ اندرونی خودمختاری کیوں نہیں دیتے؟ ہمارے حکمران نہ جانے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جس پولیس کو آج وہ ذاتی ملازم بنانا چاہتے ہیں‘ وہ کل ان کے مخالف کے حکمران بن جانے کی صورت میں اس کی بھی ذاتی ملازم اور اس کی مخالف ہوگی۔ پاکستان کو اگر اندر سے خطرہ ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ اندرونی سلامتی کی ذمہ دار پولیس کو زیادہ سے زیادہ فنڈدئیے جائیں ۔ اس کو زیادہ سے زیادہ اور جدید وسائل سے لیس کیا جائے ۔ اس کو ادارہ جاتی خودمختاری دی جائے اور اس کے اندر میرٹ اور کارکردگی کی بنیاد پر سزا و جزا کا نظام قائم کیا جائے۔ نہیں تو ہزار نیشنل سیکورٹی پالیسیاں بنائیں‘ یہ ملک محفوظ نہیں ہو سکتا ۔
سلیم صافی
بشکریہ روزنامہ "جنگ"
↧
↧
The new era for Jamiat
The age of the Cold War was very useful for Muslim World from ideological perspective. It is because the ideological boundaries were clear and prescribed. The recognition of enemy was apparent and all forms of confrontation with it were also knowable. Although all and sundry Muslim intellectuals including Maulana Maudoodi (RA) strictly criticized both Socialism and Communism, yet Communism was considered as a great danger as being very palpable. It is the reason why this criticism lavished all its focus and attention towards the danger of Communism. The benefit commencing from this criticism was that the aggression of Communism toward Muslim societies stopped and armies were provided against it on every front.
You can say it was merit or demerit of Communist Philosophy that it insisted on clear concepts, that is why there was much attraction in it and the resistance against it also got intensity. For instance, Communism was of the stronger and clearer opinion against religion and its religious ethics. It was the reason to organize resistance against it in the Muslim world was not much difficult. Majority of the Muslim Ummah did never agree to listen anything against Almighty and the religion. Nevertheless, the concept of Communism in this regard was so easy that even a common Muslim could understand it easily.
It was the reason why on the direction of Maulana Maudoodi (RA), the foundation of Islami Jamiat Talaba was laid down in the educational institutions of Pakistan. No sooner did Jamiat begin its work, the lines of Communism thrilled, they accepted defeat. From ideologically point of view, this era was very useful and the best one for Jamiat. When the history of Pakistan is written, this greater benefaction of Jamiat would also be included in this history and it would be admired and acknowledged that Jamiat saved millions of educated youth from being secular. Islami Jamiat Talaba gave them a clear objective or aim of life that prescribed their direction after they completed their studies.
The ideological struggle of that period was so deeper that not only colleges and universities were its centers, the general sphere of politics, the labor world and the world of literature and civilization were also in the grip of that struggle. It was the reason why the educational or practical life of the youth of Jamiat was a series of that ideological life of colleges and universities. Ideologically, there was no distance between the two lives, no discrimination was ever there. It was a revolutionary struggle in a true meaning. It is also fact that Jamiat was also not free of the people having loaves and fishes, different interests, but those elements had no value. Jamiat like a flowing river whose a little water sometimes became dirty, but this situation did not last long. No sooner, did General Zia-ul-Haqq come than the some very horrible and dangerous changes commenced in the Pakistani Society. It is our misfortune that still we have not made an analysis of General Zia-ul-Haq s personality, his 10 years rule and his effects of Islamization. General Zia- ul-Haq s Islamization was merely nominal. All his claims to be Islamic based on hypocrisy. As a fact, the claimant of Islam i.e. General Zia-ul-Haq made his first attack on Islami Jamiat Talaba. It was not an accident. Jamiat had won an enormous victory in students unions elections in all over the country particularly in Punjab. General Zia-ul-Haq deemed this victory of Jamiat as a danger to his rule, power so he banned the students politics forever. Nevertheless, this decision was not a technical or administrative type. In fact, it was a preplan to avert the spirit of Pakistani society. It was a plan to non-politicalize the society. A non-political society is a motionless, deadly silent and senseless one its spirit. In this society, individual life gets superiority over collective life. All our Generals have put over society on this way, but Gneral Zia-ul-Haq s matter was the most deteriorated and worsened one. Firstly, he was a General and Islamic minded above it. Even though, he used Islam for his an axe to grind. Islam was like such a curtain for him behind which he achieved his objectives. He thought that his attack on Islam was a kind of service to it.
Islami Jamiat Talaba strictly resisted the ban on students politics. Thousands of people of Jamiat were put behind the bars; they bore the suppression, torture and expulsion from educational institutions. Doubtless, this ban was only for Jamiat, but was not a temporary ban as proved the later situation. Nevertheless, Jamiat did make the instantaneously resistance actively and boldly, but it could not make a proper framework for constant resistance. Temporary caused to form diplomacy.
Genral Zia-ul-Haq pushed the ideologically sinking society towards personal, individual, class wise, lingual, and toward provincial fight back, and differences. The educational institutions were also affected by this situation. As a result, the psyche of the present generation coming out of the institutions is Careerism . It has no objective other than personal interests. In addition, the rapidly changing international scenario has given a helping hand to it. The end of Soviet Union, defeat of Communism, ending of Cold War, even the Western intellectuals announced for the end of history, too played a key role in it. Although it is a wrong announcement, there is found a partial truth in it and our lives are demonstrating its evidence. It seems as if the ideological ideas were of no value and place in our life. It is a general condition of our society and Islami Jamiat Talaba is also not secluded from it. If General Zia-ul-Haq was alive today, he would have been taken aback to see that Jamiat exists with the grace of Almighty Allah (SWT) and is fresh, active and striving for promoting Islamic culture in the country whom he had conspired to eradicate. Whereas Jamiat has demonstrated and struggled during the twenty years of ban, is remarkable, notable and matchless. No student organization has been able to sustain its existence other than Jamiat. If any party or group exists, its existence is local and symbolic. Jamiat is a ray of hope, pleasure and satisfaction for the country and the nation. However, it seems as if Jamiatis deem their remaining existence one and the all, nevertheless, as ideological and revolutionist organization gives no concern to its survival.
Doubtless, Jamiat has strong existence and is a great asset of this country, but it seems that for the last ten to fifteen years, it has adopted a shape of such a large institution that has provided a big number of its manpower to multinationals. It is also a fact, the evil of careerism that has clustered round the whole society, has also broken into the lines of Jamiat. The people who during their university period used to teach us to lead a revolutionary life, today a greater number of theirs, are seen to be careerists. They look at careerism and we look at them. Although, these people could not make us revolutionists because there was hardly a chance for us to be so, yet these people themselves abandoned the path of revolution and are engaged in improving their standard of life. The ideological movements can never ignore the economical problem of their affected people. It is a basic and very important issue and if an ideological organization that has roots with Islam, then this becomes a more significant question needs to be answered actively. Here it is not a question of earning ten thousand or one lakh rupee monthly, if anyone is capable of earning one lakh rupee at monthly basis, he must do so, but this act ought not to be a result of continuing Rate Race in the society. Secondly, your priorities should not be changed with it. Thirdly, will you be ready to give the sacrifice of your standard of life if your Deen, organization and nation demand you so.?
Jamiat has been struggling politically and ideologically in a very non-political atmosphere of the educational institutions of the country since the last twenty years. It is a very difficult struggle in tougher conditions and Jamaiat s leadership and colleagues must be paid tributes, regards and affection for it. Nevertheless, this role of Jamiat is not according to the objective conditions and challenges. Now, a newer planning needs to be formulated to cope with the situation. It is very sorrowful that during the era of Communism, a large number of people used to see ideological struggle with their own eyes, but today they even do not have any feeling for ideological confrontation.
Nevertheless, today there is a more dangerous, intense and horrible ideological confrontation existing everywhere. The main purpose of this thrash about is that it has not only affected a single society but is going to gulp down the whole world. We are fortunate enough that probably 40 % of our society consists of young people and the activity of communication to this class is not much difficult but this communication needs to be formulated on the cultural and ideological basis. Jamiat is capable of playing its best role of this concern at country level. If Jamiat does not play this role, the country and the nation would face a great loss. The strategy for it is already available and additionally it can be made a proper, stronger strategy. However, a new struggle needs a new condition. The fight against Communism was easier because Communism was not found in our souls but the Western civilization has its roots in our lives and we lay its dozens of spheres. They are part of our concept on life since a long time. It is the reason the struggle against it is not so easy. We have to perform this tough job beautifully.
Jamiat s role in this regard ought to be peerlessly and as a role model. Our society needs practical examples badly today than it ever needed so. Will Jamiat play this role? This question if answered depends on many concerns of our life.
↧
Amazing Winter in Naran
↧
War Destruction in Aleppo Syria
↧