↧
Learn form your mistakes
↧
The advantages and disadvantages of English as a Global Language
↧
↧
چین اور امریکہ کی بڑھتی کشمکش
چین اور امریکہ کے درمیان معاشی و دفاعی کشمکش میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے علاوہ اس خطّہ جس میں ہم رہتے ہیں اور اس سے ذرا دور کے خطوں میں کیا ہورہا ہے۔ ہمارے قارئین کے علم میں آنا چاہئے کہ 5 دسمبر 2013ء کو امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے چینی صدر ژی جن پنگ سے بیجنگ میں کہا کہ وہ چینی ’’فضائی شناخت منطقہ‘‘ (ADIZ) کو تسلیم نہیں کرتا۔ چین کا کہنا ہے کہ اِس کے ایئر ڈیفنس زون میں داخل ہونے والے ہر جہاز کو اپنی شناخت کرانا چاہئے ورنہ اس کو دفاعی تحفظ کے اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ وہ گرا دیا جائے۔ امریکہ نے شناخت زون کو نہ تسلیم کرنے کا ایک مظاہرہ اپنے دو B-52 بمبار طیارے جو ایٹمی اسلحہ سے مسلح تھے اِس زون کے ایک جزیرہ سینکاکو/دیااویو میں بھیج کر کیا۔ چین کے فضائی دفاعی حدود میں دو B-52 بمبار بھیج کر چین کو اُسی طرح پیغام دینے کی کوشش کی ہے جیسی 1996ء میں بل کلنٹن نے تائیوان میں طیارے بھیج کر کی تھی۔ اس طرح سے پیغام بھیجنے کو آج کے دور میں ایک غیر ذمہ دارانہ عمل ہی کہا ج اسکتا ہے۔
امریکیوں نے ایک اور بیوقوفی کی کہ انہوں نے ایک اشتعال انگیز بیان بھی دیا کہ امریکہ نے سینکاکو کے علاقہ میں آپریشن کیا ہے اور چین کی طرف سے اِس کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ واضح رہے کہ حال ہی میں چین نے اِس فضائی دفاعی شناخت زون بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں B-52 بمبار طیارہ جو کہ ایٹمی اسلحہ سے لیس تھے بھیج کر امریکہ نے چین کا مذاق اڑایا اور اُس کو اشتعال دلایا۔ جسے بہرحال ذمہ دارانہ قدم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چین اِن بمبار طیاروں کو مار کر گرا سکتے تھے، تو کیا وہ امریکہ جو شام اور ایران پر حملہ نہیں کرسکا ہے وہ چین پر کیسے حملہ آور ہوسکتا تھا۔ وہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں بھی نہیں جاسکتا تھا کہ اس کو اب وہاں کم حمایت حاصل ہے اور جائے بھی تو اُس کو دو ویٹو سے ملاقات ہوسکتی تھی۔ اگر چینیوں نے امریکی بمبار طیاروں پر حملہ نہیں کیا تو اس کے قطعاً یہ معنی نہیں ہیں کہ امریکہ نے چین کو سبق سکھا دیا۔ یہ غلط ہے، چینی اِس کی امریکہ سے بھاری قیمت وصول کریں گے مگر اُن کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ امریکہ نے یہ بمبار بھیج کر صرف اپنی کائو بوائے ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو ڈپلومیسی کے آداب سے عاری اور صرف ڈرانے دھمکانے والے ایک غیر ذمہ دار شخص کا سا انداز ہے اگرچہ یہ معاملہ گفتگو کاری سے نمٹ سکتا تھا۔
چین کے اعلان شدہ ’’فضائی شناخت منطقہ‘‘ کی امریکی جہازوں کی خلاف ورزی کے بعد فضائی شناخت خطّہ کے دوسرے ممالک جاپان اور جنوربی کوریا نے بھی اِس خطّہ میں اپنے جہاز بھیجے۔ امریکی نائب صدر دسمبر 2013ء کے پہلے ہفتے سے چین میں موجود ہیں اور چین کے عزائم کو بہ نفس نفیس مل کر جائزہ لے رہے ہیں اور شاید چین کو انتباہ بھی کررہے ہیں کہ اُن کا ’’دفاعی شناخت کا خطّہ‘‘ عالمی امن کے لئے خطرہ ہے اور وہ جو کچھ بھی کرسکتے ہیں، کریں گے۔ چین نے اس خلاف ورزی پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہانگ لی نے 5 دسمبر 2013ء کو کہا کہ امریکہ کو اُن کے اعلان شدہ فضائی منطقہ کا احترام کرنا چاہئے۔ اُن کو اعلان شدہ فضائی منطقہ عالمی قوانین اور رواج کے عین مطابق ہے۔ چینی جزیرہ سینکاکو/ دیااویو پر جاپان نے زبردستی قبضہ کیا ہوا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اِس جزیرے پر جاپان اور چین کے درمیان مخاصمت عشروں سے جاری ہے تاہم دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا جو بندھن ہے اُس کی وجہ سے اِس معاملہ پر جنگ تک نوبت اب تک تو نہیں آئی اور شاید یہ تجارتی تعلقات جنگ کی راہ میں رکاوٹ بنے رہیں۔ واضح رہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان کشمکش روز بروز بڑھتی جارہی ہے، چھیڑچھاڑ بھی جاری ہے،جو پنجہ آزمائی کے مشابہہ قرار دی جاسکتی ہے۔ یہ سلسلہ اِس سال کے شروع سے دیکھنے میں آیا۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ کشمکش 2020ء تک چلے گی جب چین اپنے آپ کو ایک طاقتور ملک کے طور پر سامنے لائے گا۔ چین کی اِس پیشرفت کو روکنے کیلئے امریکہ نے بساط بچھانا شروع کردی ہے اور ایشیاء بحرالکاہل کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اپنی 60 فیصد بحریہ کو اِس خطّہ میں جمع کرلیا ہے۔ وہ اِس کا جواز یہ دیتا ہے کہ یہ اجتماع دراصل شمالی کوریا کے خلاف ہے مگر چینی اِس کو تسلیم نہیں کرتے، وہ جانتے ہیں کہ یہ اجتماع اصل میں اُن کے ملک کے ہی خلاف ہے۔
اس کے ساتھ امریکہ نے خطّہ کے تمام ممالک سے دفاعی معاہدے کرلئے ہیں اور اپنے بحری و فضائی بیڑے کو تعینات کردیا ہے۔ سنگاپور میں اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھائی ہے، فلپائن سے نیا دفاعی معاہدہ کیا ہے، فلپائن میں بھی بحری و فضائی افواج کی تعداد میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ انڈونیشیا، ملائیشیا، برونائی، ویتنام اور دیگر ممالک سے بھی ایسے ہی دفاعی معاملات کئے ہیں۔ آسٹریلیا میں نیا فوجی اڈہ قائم کر لیا ہے جو پہلے موجود نہیں تھا، جاپان میں تو وہ مقیم ہے، وہاں پر بھی فوجیوں کیلئے جدید سامانِ حرب جمع کیا جارہا ہے اور بھارت کو اِس بات پر راضی کیا جارہا ہے کہ وہ چین کو گھیرنے میں اُس کا ساتھ دے۔ چنانچہ بھارت نے ویتنام اور منگولیا سے معاہدات کئے ہیں اور براہموس میزائل وہاں لگا دیئے ہیں، جن کا رُخ چین کی طرف ہے۔ چین نے اِس طرح پاکستان کے ساتھ قربت کو بڑھایا ہے اور ایک نئے عالمی نظام کی بنیاد ڈالنے کے لئے وہ پاکستان کی مشکلات میں اُس کا ساتھی بن گیا ہے۔
پاکستان کو امریکہ اور بھارت سے خطرات درپیش ہیں، امریکہ نے افغانستان سے میزائل شیلڈ لگانے کا معاہدہ کرلیا ہے جس کی زد میں چین، روس، پاکستان اور ایران آتے ہیں، جس کو ایران نے رد کردیا ہے اور پاکستان کے وزیراعظم نے کابل جا کر حامد کرزئی سے کہا کہ امریکہ کے ساتھ معاہدہ پاکستان کے خلاف نہیں ہونا چاہئے۔ امریکہ، ایران جوہری معاہدہ کر کے شیشہ میں اتارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ پہلے ایران کو ساڑھے تین فیصد افزودگی کی اجازت دینے کو تیار نہیں تھا اب امریکہ اور پانچ دیگر ممالک نے ایران کو 5 فیصد یورینیم افزودگی کی اجازت دے دی ہے، جس سے خطّہ میں بھونچال آگیا ہے مگر یہ معاہدہ امریکہ کی اُس پالیسی کا حصہ ہے کہ وہ چین کو گھیرے اور اُس کے حمایتی پاکستان کو بھی خطّہ میں تنہا کرے۔ چین اور امریکہ میں کھینچاتانی کی وجہ سے نئے ہتھیاروں کی نمائش اور عالمی سمندر میں اُن ہتھیاروں کا استعمال اپنی طاقت اور صلاحیت کا اظہار کیا جارہا ہے تاکہ دوسرا ملک مرعوب ہو اور اُس کے مدمقابل نہ آئے۔ اسی بات سے پریشان ہو کر امریکی نائب صدر جوبائیڈن مشرق وسطیٰ کے تین ملکوں کے دورے پر ہیں۔ چین کا دورہ انہوں نے مکمل کرکے وہ5دسمبر 2013ء کو جنوبی کوریا کے دورے پر گئے اور اپنی حالت تیاری کا اظہار کریں گے تاہم یہ حقیقت ہے کہ چین کی پیش قدمی جاری ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہورہا ہے جس سے چین اور امریکہ کے درمیان کشمکش بھی بڑھ رہی ہے۔
نصرت مرزا
بشکریہ روزنامہ "جنگ"
↧
نواز شریف کا مسئلہ
اکثر لوگ بار بار پوچھتے ہیں اور کئی ٹاک شوز میں لوگ اس موضوع پر بحث بھی کررہے ہیں کہ نواز شریف کی حکومت میں اتنی افراتفری اور بدانتظامی کیوں ہے۔ کئی مضمون بھی لکھے جا چکے اور اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صرف ایک خاندان کی حکومت ہے باقی لوگ زیادہ سے زیادہ تماش بین ہیں یا تالی بجانے والوں میں شامل ہیں۔ اسمبلیاں بے توقیر اور بے اختیار ہیں، کابینہ صرف انگوٹھا لگانے کی مشین ہے اور شریف خاندان اور ایک یا دو بااختیار وزیر انتہائی جلدی میں ہیں۔
بڑی چوری اور ڈاکے ابھی شروع نہیں ہوئے مگر سوائے گھر والوں کے کسی پر بھروسہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ زرداری صاحب نے تو پھر 70-60 ارب سالانہ کا انتظام فرزانہ راجہ کے حوالے کر دیا تھا جن کا کام صرف لوگوں میں پیسے بانٹنا ہی تھا۔ وہ اربوں کس کے کام آئے۔ ایک ہزار روپے کسی کو دینے کا مطلب شہری زبان میں ایک پیزا مہینے میں کھانے کی تفریح لیکن وہ بے نظیر کے نام پر اربوں لٹانے والے کیا بتائیں گے کہ کس خاندان کے حالات بہتر ہوئے اور کتنے۔ 70-60ارب سالانہ میں سے کتنے صحیح حقداروں کو بانٹے گئے اور کتنے لوگوں کی جیب میں گئے۔ شاید اسی لئے اب فرزانہ راجہ کہیں گوشہ تنہائی میں آرام سے دن گزار رہی ہیں کہ ان کا کام تو ہوگیا مگر اب نواز شریف صاحب نے ان سے بڑھ کر 100 ارب لوگوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ اپنی ہی صاحبزادی کو دے دیا ہے۔ اس حکومت میں کتنے بڑے بڑے اداروں کے پڑھے لکھے اور تجربہ کار افراد اور ماہرین ہیں جن کے پاس بیک جنبش قلم 100 ارب کا خزانہ صرف لوگوں میں تقسیم کرنے کے لئے موجود ہے۔ تو نواز شریف کی حکومت جلدی میں اس لئے ہے کہ صبح صبح ہی ناشتے میں اچھے قسم کے پراٹھے اور حلوے مانڈے کھا لئے جائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی ناراض ہو جائے یا کوئی جج الٹا سیدھا فیصلہ سنا دے، کسی پرانے یا نئے کیس میں یا کوئی سیاسی پارٹی لشکر لے کر جسے نواز شریف لانگ مارچ کے نام سے خوب پہچانتے ہیں اسلام آباد پر گھیرائو کے لئے آدھمکے۔ اگر یہ سب بھی نہ ہوا تو کہیں 11 مئی کے انتخابات کا پول نہ کھل جائے اور یہ ثابت ہو گیا کہ الیکشن کمیشن نے جناب فخرو بھائی کی قیادت میں ملک اور قوم کے ساتھ ایک گھنائونا فراڈ کیا اور بقول نثار علی خان کے ہر حلقے میں اگر 60 سے 70 ہزار ووٹوں کی تصدیق ہی ممکن نہ ہوئی تو کہیں مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ زور نہ پکڑ جائے۔
بات تو ابھی سے شروع ہوگئی ہے اور ابھی لوگ صرف دبے دبے لفظوں میں اشارتاً کچھ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ بات فوراً آگے بڑھ سکتی ہے۔ ان سارے پریشان کن معاملات کے درمیان نواز شریف کچھ اس طرح گھرتے چلے جا رہے ہیں کہ راستہ نظر نہیں آ رہا اور کیونکہ کسی پر بھروسہ کرنے کی صلاحیت نہیں یا ہمت نہیں، حکومت کی افراتفری اور پریشانی سب کو نظر آنے لگی ہے۔ اگر سب کچھ کسی طرح قابو میں رکھ بھی لیا جاتا ہے اور جن کو بوتل کے اندر ہی رکھا جاتا ہے تو بھی ایک اور بڑی بوتل والا جن تو لنگوٹ کس کر کشتی، بھنگڑا یا کبڈی کے لئے تیار ہی ہے اور وہ ہے بلدیاتی انتخابات۔
اب میاں صاحب جانتے ہیں کہ اگر بلدیاتی اداروں پر تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں کا ایسا قبضہ ہوگیا کہ ان کی ن لیگ ن غنہ ہی نظر آنے لگی تو پھر میاں صاحب کی پوری سیاست ہی دھڑام سے نیچے آ گرے گی، ان کے مئی 11 کے انتخابات میں فتوحات کو اس شدت سے چیلنج کیا جائے گا کہ نادرا یا الیکشن کمیشن مجبور ہو کر اعلان کر دیں کہ واقعی وہ الیکشن ان کے بس سے باہر تھے اور پہلے سے بٹھائے گئے لوگ وہ کام کر گئے جو قوم اور جمہوریت کے ساتھ بڑا ہاتھ کر گیا۔ میں اور کئی لوگ شروع سے ہی کہہ اور لکھ رہے تھے کہ فخرو بھائی صرف ایک شو پیس ہیں اور ان کا نام اس آخری عمر میں بے دردی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے اور وہ بھی اس جھانسے میں آ گئے اور زرداری کی چال میں پھنس گئے۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ جب کسی بھی شخص کو چاہے وہ کسی شعبے یا پیشے سے تعلق رکھتا ہو حکومت کرنے اور طاقت کے اس نشے کی بھنک لگ جائے اور چاہے تھوڑا سا ہی سہی موقع مل جائے تو پھر کسک جاتی نہیں۔
فخرو بھائی ایک معزز جج کے طور ریٹائرہوئے مگر جب وہ ایک دفعہ گورنر بن گئے اور سیاسی عہدہ لے لیا تو یہ شراب منہ کو تو لگ گئی۔ اسی پیپلزپارٹی نے انہیں دوبارہ گھسیٹ لیا اور اس دفعہ فخرو بھائی پھنس گئے اور اپنی بنی بنائی اور سالہاسال میں کمائی عزت کو دائو پر لگا گئے۔ آج کل اور بھی کئی ایسی مثالیں ہیں اور کئی پیشوں سے ان کا تعلق ہے۔ کچھ صحافت سے بھی وابستہ ہیں۔ میں نے تو ہمیشہ یہ لکھا اور کہا ہے اگر کوئی صحافی ایک دفعہ سیاسی یا انتظامی عہدہ قبول کر لیتا ہے تو وہ پھر دوبارہ اپنی صحافتی غیر جانبداری اور ساکھ واپس نہیں لا سکتا۔ اب غور کر لیں جتنے سفیر، وزیر اور اعلیٰ عہدوں پر صحافی لگے وہ جب نکالے جاتے ہیں تو واپس صحافت میں آ کر دوسری نوکری کی تلاش میں لگ جاتے ہیں اور جب وہ نہیں ملتی تو ان کی تحریروں اور تقرریوں میں تلخی اور بے ایمانی صاف نظر آنے لگتی ہے۔ جو سیاست میں مستقل چلا جائے وہ تو قابل معافی ہو سکتا ہے لیکن جو ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر چھلانگیں لگاتا رہے وہ بس کرائے کا ٹٹو ہی بن جاتا ہے۔ تو فخرو بھائی اپنی ساری کمائی ہوئی عزت کیش کر چکے مگر ابھی آخری موقع ہے کہ وہ کچھ بچی ہوئی عزت اور نام بچا لیں اور سچ بول کر ساری اصلی کہانی سب کو سنا کر اپنا نام ان لوگوں میں لکھوا لیں جو استعمال تو ہوئے مگر پھر حق انصاف ادا کیا اور اپنی عزت اور ساکھ بچا گئے۔
اب نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر پچھلے انتخاب متنازع ہو جاتے ہیں اور سسٹم کو بدل کر بلدیاتی انتخابات کرانے پڑتے ہیں تو پھر ان کے پاس بالکل بھی وقت نہیں ہے۔ نواز شریف اورباقی سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ اب شریف خاندان کی آخری اننگ ہے کیونکہ چوتھی بار تو میاں صاحب نے وزیراعظم بننا نہیں اور زرداری صاحب کی طرح ان کو کوئی خیرات میں پورے پانچ سال دے گا بھی نہیں کیونکہ ان کے ساتھ کوئی بے نظیر کی شہادت کی طرح کا واقعہ تو ہوا نہیں تو پھر وہ کریں تو کیا کریں۔ ایک طرف وہ جلدی جلدی بڑے بڑے منصوبے شروع کر کے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ معاشی حالات قابو میں آ جائیں مگر دوسری طرف ان کے انتخاب پر اور اب ان کی کارکردگی پر جو سوالات کھڑے ہو رہے ہیں وہ پریشان کن ہیں۔ طالبان نے بھی ان پر اب بھروسہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔ عمران خان ناتجربہ کار سہی خاص کر میاں صاحب کے مقابلے میں مگر وہ اتنی تیزی سے نیچے نہیں جا رہے کیونکہ ان کے پاس ابھی پوری حکومت اور اختیار تو ہے نہیں۔ لگتا یوں ہے کہ میاں صاحب نے جو اندازہ لگایا تھا کہ نئے آرمی چیف اور چیف جسٹس کے آنے کے بعد وہ کھل کرکھیل سکیں گے، وہ بھی غلط ثابت ہو رہاہے تو میاں صاحب وقت کم ہے اور مقابلہ سخت، بلدیاتی انتخاب تو کرانے ہوں گے اور اگرعمران کا ڈر ہے تو عمران تو ہو گا۔
شاہین صہبائی
بشکریہ روزنامہ"جنگ"
↧
حکمرانوں، ججو ہمیں بچالو - انصار عباسی
↧
↧
Lawari top in winter
↧
Mikhail Kalashnikov, designer of the AK-47, dies
↧
چند نشریاتی زنخوں کی مردانگی
![]()
گذشتہ ہفتے ایک ٹی وی چینل پر سماجی برائیوں کو بے نقاب کرنے کے نام پر ایک پروگرام دیکھ کے دل اور دماغ شاد باد ہوگیا۔ چینل کی چھاپہ مار ٹیم نے پاکستانی معاشرے کے سب سے کمزور، استحصال زدہ اور اسفل ترین سمجھے جانے والے طبقے یعنی خواجہ سراؤں اور ان کے ہمراہ رہنے والے لڑکوں پر اپنی مردانگی نکالی تاکہ چھت پھاڑ ریٹنگ مل سکے۔
اب تک مجھے زعم تھا کہ تاریخ ، جغرافیے اور سماجی و طبقاتی و نفسیاتی مسائل سے واجبی سا واقف ہوں۔ لیکن اس پروگرام نے مجھے اپنی ذاتی جہالت کا بھرپور احساس دلانے میں خاصی مدد دی۔ مثلاً یہ معلوم ہوا کہ ہم جنس پرستی کو یہود و نصاریٰ نے ایک سازش کے تحت مسلمانوں سے متعارف کرایا اور یہ کہ یہود و نصاریٰ کا تعلق لوط علیہ سلام کی قوم سے ہے۔(اب تک میرا خیال تھا کہ یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام اور عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کی امت ہیں)۔
مجھے اس پروگرام کی مدد سے یہ بھی پتہ چلا کہ ایڈز کی بیماری ہم جنس پرستوں کو ہی ہوتی ہے۔اب تک میرا خیال تھا کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ شخص کا خون اگر کسی گھریلو عورت یا چار سال کے بچے کو بھی بغیر اسکریننگ کے چڑھا دیا جائے تو وہ بھی ایڈز میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور اس دنیا میں لاکھوں مرد ، عورتیں اور بچے ہیں جو ہم جنس پرستی میں مبتلا ہوئے بغیر ایڈز میں مبتلا ہو گئے۔
س پروگرام نے یہ بھی بتایا کہ ہیپاٹائٹس بھی ہم جنس پرستی کا شاخسانہ ہے۔اس طبی انکشاف کے بعد میرا تو ہر ایک کو یہی دردمندانہ مشورہ ہے کہ جو جو بھی ہیپاٹائٹس کا شکار ہے وہ سچی سچی یاد کرے کہ اسے دراصل یہ بیماری کس سے اور کن حالات میں لگی اور پھر گڑ گڑا کے اپنے کردہ ناکردہ گناہوں کی معافی مانگے۔ البتہ پروگرام کی میزبان نے یہ نہیں بتایا کہ ہیپاٹائٹس کی تمام اقسام ہم جنس پرستی کا شاخسانہ ہیں یا کوئی ایک آدھ قسم بغیر ہم جنسی کے بھی لگ سکتی ہے ؟ ویسے پاکستان میں لگ بھگ بیس فیصد آبادی ہیپاٹائٹس کی کسی نا کسی قسم کے نرغے میں ہے۔ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ پروگرام کی تحقیقی روشنی میں ایڈز سے متاثر پچاس ہزار سے زائد مریضوں کے علاوہ پاکستان کی بیس فیصد آبادی ہم جنس پرستی کی زد میں ہے ؟ اور بقول میزبان یہ دونوں بیماریاں بھی ایک بین القوامی سازش کے تحت پاکستان میں پھیلائی جا رہی ہیں
( شائد اسی لیے اس سازش کا دندان شکن جواب پاکستان سے پولیو ایکسپورٹ کر کے دیا جا رہا ہے )۔۔۔۔
معروف سماجی کارکن انصار برنی کی انسانی خدمات کا میں شروع سے معترف ہوں لیکن اس پروگرام میں ان کی زبان سے یہ سن کے تو میں ان کا پورا پورا مرید ہو گیا کہ یہ جو شام گئے اہم شاہراہوں کے کنارے اور ناکوں پر خواجہ سرا اور زنخے گاہک کی تلاش میں منڈلاتے رہتے ہیں کہیں یہ غیرملکی ایجنٹ نا ہوں جو ہماری نقل و حرکت پر نگاہ رکھ رہے ہوں اور اہم خبریں دہشت گردوں تک پہنچا رہے ہوں؟
پروگرام کی میزبان سڑک کے کنارے ٹہلنے والے خواجہ سراؤں کے روپ میں گھومنے والے مردوں کو پکڑ پکڑ کے پوچھ رہی تھیں تم مرد ہو کہ خواجہ سرا ؟ جب وہ کہتا تھا کہ خواجہ سرا تو میزبان کہتی تھیں تم جھوٹ بول رہے ہو ؟ ( معلوم نہیں انھیں کیسے اندازہ ہو جاتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ؟؟)۔ ایک انکشاف انھوں نے یہ بھی کیا کہ کوئی بھی ان لوگوں کا حلیہ اور چال ڈھال دیکھ کے بتا سکتا ہے کہ یہ گے ( ہم جنس پرست ) ہیں یا نہیں۔ میزبان محترمہ پورے پروگرام میں یہ طے نہیں کر پائیں کہ وہ کسے گے سمجھیں اور کسے خواجہ سرا کہیں۔۔البتہ وہ یہ پروگرام کس قدر پیشہ ورانہ ذمے داری ، غیرجانبداری اور آگہی کے جذبے سے کررہی تھیں اس کا اندازہ ان کے سوالات سے بخوبی ٹپک رہا تھا۔ مثلاً تم نے اپنے منہ پر یہ لعنت کب سے ملی ہوئی ہے ؟ جن کے ساتھ تم جاتے ہو وہ کتنے بے غیرت ہیں ؟ اچھا یہ بتاؤ مرد اور مرد کے تعلق میں کیا مزا ہے ؟
ایک کچی بستی میں یہ محترمہ کیمرہ کریو اور پولیس سمیت رات تین بجے ایک دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے ناظرین کو بتانے لگیں کہ ’’ اب تک تو جو اندر ہیں انھوں نے کپڑے پہن لیے ہوں گے۔ یو نو وٹ آئی مین‘‘۔گھر کا دروازہ کھلتے ہی محترمہ کا ہکا بکا مکینوں سے پہلا سوال تھا کہ سچ سچ بتائیں آپ میں سے مرد کون ہے اور ہیجڑہ کون کون ؟ اگر مرد ہیں تو پھر کارروائی ہو گی اور اگر ہیجڑے ہیں تو ہم معذرت کرکے چلے جائیں گے۔انھوں نے الماریاں کھول کے فوٹو البم نکال لیے اور دیوار پر دو علیحدہ علیحدہ لوگوں کی لگی ہوئی تصاویر کی بنیاد پر یہ فیصلہ بھی سنایا کہ یہ دراصل دونوں مرد ہیں جنہوں نے آپس میں شادی کی ہوئی ہے۔ محترمہ ناظرین سے یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ مجھے دراصل آپ کو یہ سمجھانا ہے کہ عقل کے ناخن کیا ہوتے ہیں ؟
اسی بستی میں ایک اور گھر میں کودا گیا۔ وہاں ایک خواجہ سرا اور ایک نفسیاتی مریض رہ رہے تھے۔انھوں نے اس ڈاکٹر کا نام بھی بتایا جس کے وہ زیرِ علاج تھے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھیں گھر والوں نے نکال دیا ہے اور یہ خواجہ سرا ان کا دوست ہے اور اس نے انھیں اپنے گھر میں دو سال سے رکھا ہوا ہے۔ لیکن محترمہ میزبان نے اعلان کیا کہ دراصل یہ نفسیاتی مریض ہونے کا ڈرامہ کررہا ہے، اصل میں یہ خواجہ سرا کا بوائے فرینڈ ہے۔
بعد ازاں علاقے کے ایس ایچ او صاحب ان سب گھروں سے پکڑے گئے آنکھیں ملتے ’’ ملزموں ’’ کو جانے کن کن قانونی دفعات کے تحت یا بغیر پولیس وین میں بٹھا کر تھانے لے آئے۔ کیمرے نے ملزموں پر ایس ایچ او کی لعنت ملامت ریکارڈ کی ’’ یہ سب خبیث انسان ہیں، ان کی روح ہی ایسی ہے وغیرہ وغیرہ‘‘۔اس کے بعد پولیس والے ان ’’خبیث انسانوں ‘‘کو مارتے ہوئے کمرے سے باہر لے گئے۔معصوم ایس ایچ او نے چینل کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اس علاقے میں اتنی ’’ گھناؤنی برائی’’ کی نشاندہی کی اور انشااللہ اب ہم اس علاقے سے ان برائیوں کا صفایا کردیں گے۔پروگرام کی میزبان نے ایس ایچ او صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ آپ کی مدد کے بغیر ہم اس گھناؤنے کام کے کرداروں کی رپورٹنگ کر ہی نہیں سکتے تھے۔
مجھے یہ تو علم نہیں کہ اس پروگرام میں اصلی کردار کتنے تھے اور ایکٹر کتنے۔ لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ جب ایک خواجہ سرا یا لڑکا کہہ رہا تھا کہ معاشرہ ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتا تو یہ بات پوری سننے سے میزبان کو دلچسپی کیوں نہیں تھی۔ یا جب ایک کردار نے کہا کہ میرا رجحان بچپن سے ہی گڈے گڑیوں سے کھیلنے اور اپنی بہنوں کے کپڑے پہننے اور میک اپ کی طرف تھا اور گھر والے عجیب انداز میں دیکھتے تھے۔یا جب ایک کردار نے یہ کہا کہ بے روزگاری کے ہاتھوں اس کے پاس دو راستے تھے یا تو ڈکیتیاں شروع کردے یا پھر خواجہ سرا کا روپ دھار لے ؟ ان انسانی زاویوں پر ان کرداروں کے چہروں سے زبردستی نقاب کھینچنے اور دھینگا مشتی کرنے ، گالیاں اور دھمکیاں دینے والی چینل ٹیم کی آنکھ کیوں نہیں گئی۔
اس پروگرام میں نا صرف اچانک اور رات کے پچھلے پہر بلا اجازت گھروں میں گھسا گیا اور سب کرداروں کی شکلیں دکھائی گئیں بلکہ ان کے نام بھی انھی کی زبانی اگلوائے گئے اور پھر انھیں تھانے بھی لے جایا گیا اور ان کے ساتھ بازاری زبان بھی استعمال ہوئی۔ اگر کوئی جنونی ان میں سے کسی کردار کو ایک مشن سمجھ کے کل کلاں قتل کردے تو اس کا ذ مہ دار کون ہو گا؟
تو کیا اب مجھے اجازت ہے کہ میں بھی اس مقدس سماج سدھار مشن میں حصہ لینے کا اعلان کروں اور اپنی شکاری کیمرہ ٹیم کے ساتھ اس پروگرام کی میزبان کے گھر میں صبح چار بجے کود جاؤں اور ان سے ان کے جنسی رجحانات پر سوالات کی بوچھاڑ کر دوں اور یہ بھی پوچھ لوں کہ سچ سچ بتائیں کہ آپ گے ہیں یا لیزبئین ؟ اگر آپ ’’ نارمل ’’ ہیں تو میں آپ کے گھر میں گھسنے کی معذرت کرتا ہوں اور اگر آپ گے یا لیزبیئن ہیں تو میں آپ کو تھانے لے جانا چاہوں گا؟
کیا یہی سرفروش ٹیم صبح تین بجے اشرافیہ کے کسی علاقے یا کنٹونمنٹ میں ہونے والی کسی گے لیزبئین پارٹی میں گھسنے کی جرات کرسکتی ہے ؟ کیا یہی ٹیم اپنے ہی چینل میں موجود کسی ساتھی یا اپنے کسی گے یا لیزبین رشتے دار کے اعترافات ریکارڈ کر کے نشر کرنے یا کم ازکم ان کے ساتھ اس موضوع پر کوئی اکیڈمک ڈسکشن ریکارڈ کرنے میں بھی کوئی دلچسپی رکھتی ہے؟ کیا جو میڈیائی مجاہد ان موضوعات پر ہاتھ ڈال رہے ہیں انھیں اس موضوع کے سائنسی ، سماجی ، طبی پہلوؤں اور نتائج و عواقب کی کوئی شد بد ہے؟
چلیے اگر واقعی یہ کوئی مقدس مشن اور اس وقت معاشرے کا سب سے سنگین مسئلہ ہے تو پھر اوپر سے شروع کرتے ہیں اورسیاست،بیورو کریسی،جرنیلی، تجارت و صنعت اور کارپوریٹ دنیا میں موجود’’جنسی ایب نارملوں’’کا احتسابی تعاقب شروع کرتے ہیں۔لیکن آپ بھی جانتے ہیں کہ آپ کی ٹانگوں اور زبان میں اتنا دم نہیں۔آپ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔
آپ کی اخلاقیات بس اپنے خانساماں کی چوری پکڑنے سے شروع ہوتی ہے اور ایک فقیر کو ہٹا کٹا ہو کے بھیک مانگنے کا طعنہ دینے پے رک جاتی ہے۔ لہٰذا اگر معاشرے کے ادھ موئے اور پہلے ہی سے راندہ ِ درگاہ طبقات کی چلتی پھرتی لاشوں پر درے مار کے چند نشریاتی زنخوں کو اپنی کھوئی ہوئی مردانگی بشکلِ ریٹنگ واپس مل سکتی ہے تو پھر میں ایسے تمام شوز کے حق میں ہوں ؟لگے رہو منا بھائی۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"
↧
سالا کیریکٹر ڈھیلا ہے
وہ اچھے بھلے چلتے نظام کا تختہ الٹ کر میرے ہی اوپر بیٹھ جائے تو نظریہ ضرورت۔میں فیڈریشن کو کنفیڈریشن بنانے کی بات کروں تو ملک دشمن ۔
وہ اپنی پالیسیوں سے ملک توڑ دے تو صرف نااہل شرابی۔پھر بھی قومی پرچم میں لپٹ کر دفن ہونے کا مستحق۔میں ہزاروں جنگی قیدی چھڑوانے اور ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے بعد بھی پھانسی چڑھ جاؤں تو میرے جنازے میں کسی کا شامل ہونا بھی جرم۔وہ بھارت سے تین دریا تیرے، تین دریا میرے کا معاہدہ کرلے تو حقیقت پسند۔میں بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں چلتے دریا پر بننے والے ڈیمز رکوانے کا مقدمہ ہار جاؤں تو نا اہل اور مشکوک ۔وہ اگر کہے کہ کیا ہوا بھارت نے سیاچن قبضہ کرلیا وہاں تو گھاس کا تنکہ نہیں اگتا تو اس کا بیان محض ایک شگفتہ تبصرہ۔

میں اگر کہوں کہ ممبئی حملوں میں پاکستانی عناصر ملوث تھے تو کان پکڑوا کر نوکری سے باہر۔وہ اگر مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر حل کرنے کا فارمولا پیش کرے تو مدبر۔میں اگر بھارت کو تجارتی لحاظ سے موسٹ فیورڈ نیشن کا درجہ دینے کا فیصلہ کروں تو اگلے ہی لمحے اپنے ہی الفاظ واپس نگلنے پر مجبور۔وہ اگر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی وکالت کرے تو حقیقت پسند۔میں اگر بھارت سے سافٹ بارڈر اور ویزا پابندیاں ختم کرنے کی بات کروں تو حب الوطنی مشکوک۔۔۔اس کے اگر بیرونِ ملک اکاؤنٹس ہوں تو کوئی بات نہیں۔اس حمام میں کون ننگا نہیں۔۔۔میرے اگر بیرونِ ملک لاکھوں ڈالر کے اکاؤنٹ ہوں تو میں لٹیرا اور کرپٹ۔وہ اگر آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے آزادانہ آڈٹ کروانے سے انکاری ہو تو اسے قومی سلامتی کے مفاد میں انکار کی اجازت۔۔۔میں اگر آڈیٹر جنرل سے آڈٹ کروانے سے انکار کردوں تو میری داڑھی میں تنکہ۔وہ اگر مجھے اغوا کرلے اور پھر کہیں لاش پڑی ملے تو شششششش۔۔۔بولنا مت۔۔۔

میں اگر کسی کو اغوا کر کے قتل کر دوں تو عدالتی سمن میرے آگے اور پولیس میرے پیچھے۔وہ اگر بیمار ہو تو بس علیل، کام کی زیادتی کے سبب تھکن کا شکار۔۔۔میں اگر بیمار تو کم ازکم جسمانی مفلوج یا ذہنی مریض یا پھر مفرور۔۔۔وہ اگر چپکے سے کسی ملک کو اپنی فضائی و زمینی حدود کے استعمال کی اجازت دے دے، فوجی اڈے بھی دے دے، اپنے شہریوں کو مارنے کا لائسنس بھی دے دے تو یہ سب اہم قومی مفاد میں وقت کا تقاضہ۔مگر میرے حوالے سے اگر کوئی بےنام پرچہ کسی اخبار میں چھپ جائے تو میں ٹرائیل کا حقدار اور فیصلہ ہونے سے پہلے ہی غدار، کتا، کمینہ، زلیل، نیچ، گھٹیا۔۔۔جسے دیکھو یہاں وہ حسن کی بارش میں گیلا ہے۔میں کروں تو سالا کیریکٹر ڈھیلا ہے۔۔۔
Wusat Ullah Khan
↧
↧
Quied-e- Azam Mohammed Ali Jinnah Day - 25 December
↧
The Lal Haveli Rawalpindi


Sheikh Rasheed used to be a minor bookseller in this area at the time, his place of business being just a few meters from the front entrance. It is said that his infatuation with the grand building and its owner led him to buy the building later on in his life when he had the means to do so.
↧
Raiwind Markaz
Raiwind Markaz is a building Complex (consisting main Mosque, Madrissa Arabia, and residential areas) in Raiwind, Lahore, Pakistan which is the home of the religious movement Tablighi Jamaat in Pakistan.
Annual Gathering (Ijtema)
It is hosted in the Ijitimah Gah near to the Markaz (5 km from Markaz). It is the biggest gathering of the Muslim after Hajj. Muslim all around the world came to this place for the Ijitimah. The other fact about the Ijitimah is that it is well planned and managed by the Raiwind Markaz Because of large number of people participation now it is divided into two parts every Part is of three days on the last last day Special Prayer is held. There is no restriction for foreigners to came in any part of the Raiwind Markaz Ijtima.
↧
حجاب اتروانے کیلئے
فرانس اور بلجیم کے بعد اب ہالینڈ میں بھی برقعہ پر پابندی لگا دی گئی ہے، ہالینڈ کی حکومت نے برقعہ نقاب، حجاب یا جلباب سمیت چہرہ ڈھکنے والے لباس یا پورے چہرے کو چھپانے والے اسکارف یا ہیلمٹ کے پہننے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ ہالینڈ کی وزیرداخلہ لزبتھ سپیس کا کہنا ہے کہ کابینہ کا یہ فیصلہ ہے کہ برقعہ، نقاب حجاب وغیرہ جن سے چہرہ نظر نہ آئے، کے پہننے پر مکمل پابندی ہو گی انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ یہ پابندی صرف برقعہ یا دیگر اسلامی ملبوسات پر نہیں بلکہ یہ پابندی چہرہ چھپانے والی ہر چیز پر ہوگی۔ ان کے پہننے پر زیادہ سے زیادہ 380 یورو (یا 439ڈالر) جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ وزیر داخلہ لزبتھ سپیس نے کہا ہے کہ یہ بات اہم ہے کہ کھلی سوسائٹی میں لوگ بغیر کسی بندھن رکاوٹ یا پردے کے ایک دوسرے سے ملیں۔ ستمبر 2011ء میں پابندی کی تجویز ریاستی کونسل کو بھیجی گئی تھی جس نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ بہرحال ہنوز پوری طرح اس قانون کے نفاذ میں مہینوں لگ سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے اس کی منظوری ملنا باقی ہے۔ مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو یہاں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اس سے قبل فرانس اور بیلجیم برقعہ، حجاب، نقاب یا جو بھی کہہ لیں پر پابندی عائد کر چکے ہیں باقی ملکوں میں پردہ، برقعہ حجاب اور نقاب کس حال میں ہے، آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
بیلجم میں برقعہ پرپابندی سے متعلق قانون پر عمل درآمد 27جولائی سے شروع ہو چکا ہے جبکہ اپریل میں فرانس نے بھی حجاب پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر ڈیڑھ سو یورو کا جرمانہ عائد کردیا ہے ایسے افراد جو خواتین کو چہرہ ڈھانپنے پر مجبور کریں گے انہیں30 ہزار یورو جرمانہ اور دوسال تک سزا سنائی جائے گی۔ یاد رہے کہ فرانس میں65 لاکھ کے لگ بھگ مسلمان بستے ہیں جو یورپ کے کسی بھی ملک سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ مغربی یورپ میں ہالینڈ، بلجیم اور فرانس کے علاوہ اٹلی اور سوئٹزر لینڈ میں بھی برقعہ پر پابندی عائد ہونے کے آخری مراحل میں ہے۔ سوئٹزر لینڈ یورپ کا پانچواں ملک ہوگا جہاں جلد برقعہ پر پابندی عائد کردی جائے گی کہ وہاں کی پارلیمنٹ میں دائیں بازو کی شدت پسند جماعت نے برقعہ پر پابندی کی قرارداد پیش کردی ہے جس کی تائید میں 102 ووٹ ملے ہیں جبکہ 77 ارکان پارلیمنٹ نے اس قرارداد کی مخالفت کی ہے۔ اٹلی کی ایک پارلیمانی کمیٹی نے ایک ایسے مسودے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ملک میں خواتین کے نقاب پہننے پر پابندی عائد کردی جائے گی۔ اس بل کو حکومتی اتحاد کی حمایت حاصل ہے اور جلد ہی وہ اس بل پر ووٹنگ کرے گی اس بل کے مطابق اٹلی میں کسی بھی ایسے برقعہ، حجاب یا نقاب پر پابندی عائد کردی جائے گی جس سے چہرہ چھپتا ہو۔ اگراطالوی پارلیمنٹ نے یہ بل منظور کر لیا (جس کے 85 فیصد چانسز ہیں) تو پردہ کرنے پر ڈیڑھ سو سے تین سو یورو جرمانہ اور کمیونٹی سروس کی سزا دی جا سکے گی۔
یورپ سے دور آسٹریلیا کی ریاست نیو سائوتھ ویلز میں برقعہ پوش خواتین کے لئے لازمی ہو گیا ہے کہ وہ پولیس کے حکم دینے پر اپنے چہرے سے نقاب ہٹائیں، پولیس کسی بھی باپردہ خاتون کو کہہ سکتی ہے (آپ اسے حکم مانیں یا گزارش) نقاب، پردہ، ہیلمٹ یا دوسری مذہبی پوشش کو ہٹا کر اپنی شناخت کرائیں، چہرہ سے نقاب نہ ہٹانے پر 220 آسٹریلین ڈالر جرمانہ اور ایک سال کی سزا ہو سکتی ہے تاہم اگرکسی کو کھلے عام اپنی شناخت ظاہر کرنے پر اعتراض ہے تو وہ تخلیہ میں اپنی شناخت ظاہر کر سکتے ہیں لیکن چہرہ سے نقاب ہٹانا ضروری قرار دے دیا گیا ہے۔ آسٹریلیائی ریاست وکٹوریہ نے بھی نیو سائوتھ ویلز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک نیا قانون نافذ کیا ہے جو ہو بہو نیو سائوتھ ویلز کے قانون سے ملتا جلتا ہے یعنی پولیس کو برقعہ پوش مسلم خواتین کو چہرے سے نقاب اٹھانے کا حکم، خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔
آسٹریلیا کے پڑوسی ملک نیوزی لینڈ میں بھی چہرہ کا نقاب اور حجاب تنازع کا سبب بنا ہوا ہے جہاں سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی طالبہ کو ایک پُرہجوم بس سے اتار دیا گیا تھا کہ بس کے ڈرائیور نے اس کے نقاب پر اعتراض کیا تھا بس سے اتارنے کے بعد جوہر سعود الشوبتی نامی یہ طالبہ سڑک پر ہی زار و قطار رونے لگی اس واقعے سے دو روز قبل اسی کمپنی این زیڈ بس سروس کے ایک ڈرائیور نے ایک پاکستانی عورت کو چہرہ سے نقاب ہٹانے کا ’’حکم‘‘ دیا تھا۔ پے در پے اس نوعیت کے واقعات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ اس کیلئے کسی کالج کی ڈگری کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ایک مثبت امر یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ برقعہ یا نقاب اسلامی عقیدہ کا ایک حصہ ہے اور مسلم خواتین کو اس کا حق حاصل ہے۔ فریقین کو ایک دوسرے کے عقائد اور مذاہب کا احترام لازم ہے لیکن وزیراعظم نے اس بات کی بھی وضاحت کردی ہے کہ بعض حالات میں اور بعض مقامات پر سیکورٹی اسباب کی بنا پر برقعہ اتارنا یا چہرہ سے نقاب ہٹانا ازحد ضروری ہو جاتا ہے۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ شناخت اور پہچان کی تجارت نہیں ہو سکتی اور دنیا میں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ بے وقوف پرُیقین اور عقلمند شک و شبہ میں گھرے رہتے ہیں۔
اسد مفتی، ایمسٹرڈیم
بشکریہ روزنامہ "جنگ"
↧
↧
Poor Pakistani Nation - Rich Pakistani politicians
↧
Our first Identity is only Muslim by Ansar Abbasi
↧
Sheikh Hasina Wajid Real Mir Jaffar
↧
Professor Ghafoor Ahmed: One of the finest and honest leaders in Pakistan
↧
↧
Benazir Bhutto Last Moments Before Assassinated
↧
Pakistan Government Wrong Decisions by Riaz Ahmed
↧
Pakistan Richest Politicians and Poor Nation by Irshad Arif
↧