Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 6213 articles
Browse latest View live

پاکستان میں کلچر کی سیاست......... شاہنواز فاروقی

$
0
0
 
   


پاکستان اسلام کے نام پر تخلیق ہوا تھا، اس لیے یہاں صرف اسلام کے نام پر سیاست ہونی چاہیے تھی۔ لیکن یہاں فوج کے نام پر سیاست ہوئی، سیکولرازم کے نام پر سیاست ہوئی، سوشلزم کے نام پر سیاست ہوئی، صوبے کے نام پر سیاست ہوئی، زبان کے نام پر سیاست ہوئی… یہاں تک کہ اس چیز کے نام پر سیاست ہوئی جسے عرفِ عام میں کلچر کہا جاتا ہے اور جس کو سب سے زیادہ غیر سیاسی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں کلچر کے نام پر سیاست کی پہلی اور سب سے بڑی مثال سابق مشرقی پاکستان ہے جہاں بنگالی زبان اور اس کے امتیاز کو کلچر کی سب سے بڑی علامت بنا کر پیش کیا گیا۔ کہا گیا کہ بنگالیوں کو اپنی زبان سے بڑی محبت ہے، اس لیے کہ بنگالی ٹیگور اور نذرالاسلام کی زبان ہے۔ اس سلسلے میں بنگالیوں کا تعصب اتنا بڑھا ہوا تھا کہ 1948ء میں جب قائداعظم نے کہا کہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف اور صرف اردو ہوگی تو بنگالیوں کے ایک چھوٹے سے طبقے نے ہی اس کے خلاف احتجاج کیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں اس بات تک پر غور نہ کیا کہ قائداعظم کی اپنی مادری زبان گجراتی ہے۔ وہ اردو رسم الخط میں اردو پڑھ سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی ساری تعلیم و تربیت انگریزی کی فضا میں ہوئی ہے۔

قائداعظم اس تعلیم و تربیت کے باعث انگریزی سے اتنے مانوس تھے کہ وہ اپنی اہلیہ تک سے انگریزی میں بات کرتے تھے۔ ان حقائق کے باوجود قائداعظم کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔ قائداعظم کی اردو سے یہ محبت شخصی معاملہ نہیں تھی۔ قائداعظم کو تین حقائق کا ادراک تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ عربی اور فارسی کے بعد مذہب اور ادب کا سب سے بڑا سرمایہ اردو کے پاس ہے۔

انہیں معلوم تھا کہ اردو برصغیر میں رابطے کی واحد زبان ہے۔ انہیں احساس تھا کہ اردو نے دو قومی نظریے کے بعد پاکستان کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگر بنگالیوں نے ان میں سے کسی بات کا ادراک نہ کیا۔ وہ بنگالی بنگالی کرتے رہے اور ان کی زبان کی جائز محبت زبان کی پوجا میں تبدیل ہوگئی۔ مگر جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو منظرنامہ یکسر تبدیل ہوگیا۔ آج بنگلہ دیش کی سرکاری زبان بنگالی نہیں انگریزی ہے اور بنگلہ دیش کے کروڑوں شہری بھارتی فلموںکے حوالے سے اردو کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسی کلچر پرستی ہے جو ’’بانیٔ ملک‘‘ کی بات نہیں سنتی مگر ’’مجبوری‘‘ اور ’’فلموں‘‘ کی بات سنتی ہے!

پاکستان میں کلچر کی سیاست کی ایک مثال الطاف حسین ہیں۔ الطاف حسین کی اصل شکایت معاشی تھی، مگر ان کی مفاد پرستی کی سیاست نے معاشی شکایت کو کلچر کی سیاست میں ڈھال دیا۔ اردو پورے برصغیر کی زبان تھی مگر الطاف حسین اسے صرف مہاجروں کی زبان بناکر کھڑے ہوگئے۔ کلچر کی سیاست نے انہیں کرتا پاجامہ پہنا کر کھڑا کردیا۔ مگر الطاف حسین کی اردو پرستی بھی جھوٹی تھی اور ان کا کرتا پاجامہ بھی ایک دھوکا تھا۔ الطاف حسین کا اصل مسئلہ ان کی اپنی شخصیت تھی۔ چنانچہ الطاف حسین کی سیاست سے پہلے مہاجر سمندر کی علامت تھے، الطاف حسین کی سیاست نے انہیں کنویں کی علامت بنادیا۔ اس علامت سے بوری بند لاشوں اور بھتہ خوری کا کلچر برآمد ہوا۔ اس سے ’’پُرتشدد ہڑتالوں کی ثقافت‘‘ نمودار ہوئی۔ اس سے ’’پاکستان بیزاری کی تہذیب‘‘ نے جنم لیا۔ اس سے الطاف حسین کی نام نہاد ’’جلاوطنی کے تمدن‘‘ نے سر ابھارا۔ اس سے ’’ٹیلی فونک خطاب کی ’’موسیقی‘‘ پیدا ہوئی۔ اس سے دوسری ثقافتوں کی نفرت کے آرٹ نے جنم لیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کلچر کی سیاست اسی کا نام ہے؟

پاکستان میں کلچر کی سیاست کی تازہ ترین علامت بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ انہوں نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو “Banistan” قرار دیا اور فرمایا کہ یہاں شادی کے عشائیوں سے لے کر یوٹیوب تک ہر چیز پر پابندی یا Ban لگا ہوا ہے۔ چیزوں کا Ban ہونا اگر بلاول کے نزدیک اتنی ہی بری بات ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ Banistan کا آغاز اُن کے نانا ذوالفقار علی بھٹو سے ہوا تھا۔ انہوں نے شراب کو Ban کیا۔ انہوں نے قادیانیوں کے خود کو مسلمان کہنے پر Ban لگایا۔ انہوں نے اتوار کی تعطیل پر Ban لگا کر جمعہ کی تعطیل بحال کی۔ ان کے سیاسی مفادات کا تقاضا ہوتا تو وہ شاید پتنگ اڑانے اور چائے پینے پر بھی Ban لگا دیتے۔ لیکن بلاول بھٹو کی تقریر کی اصل بات Banistan کا تصور نہیں۔ ان کی تقریر کی اصل بات کلچر کی سیاست ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ٹیلی وژن کے ایک اینکر نے آصف علی زرداری کے لباس کے ’’نمائشی پہلو‘‘ پر اعتراض کیا تھا تو آصف علی زرداری کی ثقافتی رگ پھڑک اٹھی تھی اور انہوں نے صوبہ سندھ میں سندھی ٹوپی کا دن منانے کا اعلان کیا تھا۔ بلاول بھٹو نے 15 دسمبر 2013ء کو کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنے والد کی روایت کو آگے بڑھایا اور اعلان کیا کہ فروری 2014ء کے پہلے دو ہفتوں میں سندھ میں سندھ کلچرل فیسٹول منایا جائے گا۔ اس موقع پر بلاول بھٹو نے سندھ کی ثقافت سے جس ’’تعلق‘‘ کا مظاہرہ کیا وہ ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکا ہے۔ بلاول بھٹو جب سندھ کے کلچر سے وابستگی کا اعلان کررہے تھے تو پینٹ شرٹ زیب تن کی ہوئی تھی۔ ان کی شرٹ پر ’’سپرمین‘‘ کی علامت بنی ہوئی تھی اور بلاول بھٹو انگریزی میں تقریر فرما رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ سندھ کے کلچر کی علامت شلوار قیمص، ٹوپی اور اجرک ہے یا پینٹ شرٹ؟ سندھ کے ہیرو شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست ہیں یا سپر مین؟ اور سندھ کی زبان سندھی ہے یا انگریزی؟ ہمیں بلاول بھٹو کے پینٹ شرٹ پہننے، سپر مین کی علامت کو سینے سے لگانے اور انگریزی بولنے پر اعتراض نہیں، لیکن سندھی کلچر سندھی کلچرکی رٹ لگانے والے کو کم از کم سندھ کے کلچر سے اتنی وابستگی کا مظاہرہ تو کرنا ہی چاہیے تھا کہ وہ سندھی کلچر کے حوالے سے برپا ہونے والی تقریب میں اپنی زبان اور لباس سے ’’سندھی‘‘ نظر آتے۔ لیکن بلاول بھٹو کا مسئلہ سندھی کلچر تھوڑی ہے۔ ان کا مسئلہ تو سندھی کلچر کے نام پر سیاست ہے۔

اس کا ایک ثبوت تقریب میں کی گئی بلاول بھٹو کی تقریر ہے۔ انہوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تاریخ یونانیوں اور رومیوں کی طرح باثروت ہے۔ ہم دریائے سندھ کی قابلِ فخر تہذیب کے امین ہیں۔ ہم اپنی ثقافت کو محفوظ کرنا اور فروغ دینا چاہتے ہیں تا کہ دنیا کے سامنے ہماری اصل شناخت واضح ہو، نہ کہ تاریخ کی وہ درآمد شدہ اور خیالی داستان جو ہمیں اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ غور کیا جائے تو بلاول بھٹو نے اپنی تقریر میں سندھ کے اسلامی ثقافتی ورثے اور تحریکِ پاکستان سے متعلق اس کے کردار کی دھجیاں اڑا کر اسے دریائے سندھ میں بہا دیا ہے۔ سندھ کی ثقافتی تاریخ کے چار حصے ہیں: سندھ موئن جودڑو کی تہذیب کا مرکز ہے۔ سندھ راجا داہر کی سرزمین رہا ہے۔ لیکن سندھ باب الاسلام ہے اور سندھ تحریک پاکستان کا ایک اہم مرکز ہے۔ اِس وقت سندھ کے اسکولوں میں باب الاسلام اور تحریکِ پاکستان کی تاریخ پڑھائی جارہی ہے۔ تو کیا بلاول بھٹو کے نزدیک یہی تاریخ درآمد شدہ، Fictions یا خیالی ہے؟ اگر ایسا ہے تو بلاول بھٹو کھل کر اعلان کریں کہ وہ موئن جودڑو اور راجا داہر کی تہذیب کے امین ہیں۔ باب الاسلام اور تحریک ِپاکستان کی تاریخ کے امین نہیں ہیں۔ خالص ثقافتی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو بلاول بھٹو کا بیان ہولناک ہے۔ کلچر ایک کُل یا whole ہے، اور جب کوئی کسی خطے کے کلچر کو ’’اپنا‘‘ کہتا ہے تو وہ اس کے کُل یا Whole کو اپنا کہتا ہے۔ اس اعتبار سے بلاول بھٹو کو کہنا چاہیے تھا کہ ہم ایک جانب موئن جوڈرو کی تہذیب کے امین ہیں اور دوسری جانب باب الاسلام کی تاریخ کے امین ہیں اور تیسری جانب ہم تحریکِ پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والے ثقافتی تجربے کے امین ہیں۔ مگرکلچر پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں صرف موئن جو دڑو یاد آیا اور وہ باب الاسلام اور قیام پاکستان کے بعد کی ثقافت کو بھول گئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہی ان کی ’’ثقافتی ایمانداری‘‘ ہے؟ کتنی عجیب بات ہے کہ موئن جو دڑو کی جو تہذیب سندھ کا مُردہ ماضی ہے وہ تو بلاول بھٹو کا ثقافتی ورثہ ہے، اور باب الاسلام کی جو تاریخ سندھ کا زندہ حال ہے وہ بلاول بھٹو کی تقریر میں جگہ پانے میں ناکام ہے، بلکہ وہ اسے ’’خیالی تاریخ‘‘ کہہ کر پکار رہے ہیں۔ بلاول نے سندھ کلچرل میلے میں بسنت اور ویلنٹائن ڈے منانے کا بھی اعلان کیا۔ سوال یہ ہے کہ سندھ کے کلچر میں بسنت اور ویلنٹائن ڈے کی جڑیں کہاں پیوست ہیں؟ بلاول بھٹو اہلِ سندھ کو یہ بھی بتا دیتے تو اچھا ہوتا۔

سندھ میں کلچرازم کے نعرے پر بینا شاہ نے روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں تبصرہ کرتے ہوئے کلچر پرستوں کو بجا طور پر یاد دلایا ہے کہ سندھی ثقافت کی علامتیں مثلاً ٹوپی اور اجرک Containers ہیں، بجائے خود Content نہیں۔ یعنی یہ چیز معنی کی ترسیل کا آلہ ہے، بجائے خود معنی نہیں۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ کلچر معنی سے زندہ رہتا ہے، معنی کی ترسیل کے آلے سے نہیں۔ مثال کے طور پر سندھی ٹوپی میں ماتھے کی جگہ پر موجود نشان دراصل مسجد کی محراب سے آیا ہے، اور مسجد کی محراب حرب سے ماخوذ ہے۔ یعنی سندھی ٹوپی کی محراب دراصل اسلام کے تصورِ جہاد کی علامت ہے۔ مگر یہ بات بلاول بھٹو کیا بڑے بڑے سندھی قوم پرستوں کو معلوم نہیں۔ اُن کے لیے تو سندھ کی ثقافت سیاست کا آلہ ہے اور بس۔ لیکن کلچر کی سیاست اِس وقت صرف سندھ تک محدود نہیں۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے حال ہی میں بھارتی پنجاب کا دورہ فرمایا ہے۔ اس دورے میں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی پنجاب کے درمیان زبان، کھانے پینے کے معاملات مشترک ہیں۔ حیرت ہے کہ میاں شہبازشریف کو دونوں ثقافتوں کی ’’بنیادی چیزوں کے امتیازات‘‘

(باقی صفحہ 41پر)

تو یاد نہیں، البتہ ’’ثانوی چیزوں کی مماثلتیں‘‘ انہیں خوب نظر آرہی ہیں۔ میاں شہبازشریف اس دورے میں سکھوں کے ساتھ کتنے گھل مل گئے تھے اس کا اندازہ اخبار میں شائع ہونے والی اس تصویر سے ہوتا ہے جس میں وہ دو سکھ بزرگوں کے درمیان موجود ہیں۔ اس تصویر کے لیے بہتر کیپشن وضع کیا جائے تو وہ اس فقرے کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا:

’’اس تصویر میں شہباز شریف کون ہے؟‘‘

ایسی ہی ایک تصویر بلاول بھٹوکے حوالے سے بھی شائع ہوئی ہے۔ اس تصویر کے لیے مناسب ترین کیپشن یہ ہے:

’’اس تصویر میں سندھی کلچر کہاں ہے؟‘‘

Enhanced by Zemanta

Pakistan Education Policy by Dr. Mujahid Mansuri

$
0
0


Pakistan Education Policy by Dr. Mujahid Mansuri

Why learning the English language is the key to success by Yasir Pirzada

$
0
0


Why learning the English language is the key to success by Yasir Pirzada
Enhanced by Zemanta

بنگلہ دیش کا حال احوال

$
0
0
 

برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جب برصغیر کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے تو عوام برطانوی سامراج سے سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ معاشی آزادی کا بھی مطالبہ کرنے لگے۔ اسی لیے بنگال کے معروف سوشلسٹ رہنما سوبھاش چندر بوش نے انڈین نیشنل آرمی کی تشکیل دی۔ وہ ایک موقعے پر نیشنل کانگریس کے صدر منتخب ہوئے لیکن مذموم سازشوں کے ذریعے انھیں صدارت سے ہٹایا گیا۔ انھیں معاشی آزادی کی پاداش میں بنگال کے کھودی رام، بالا لوگون، باگھا جیتن اور پنجاب (فیصل آباد) کے بھگت سنگھ، راج گورو اور سکھ دیو کو پھانسی کے پھندے کو چومنا پڑا۔ جنوبی بھارت، بنگال اور پنجاب میں تو انقلابی سوشلسٹوں کا بول بالا تھا۔ جہازیوں کی ہڑتال نے انگریز حکمران اور ان کے آلہ کاروں کو عوام نے بے بس کردیا تھا۔ لیکن اس ہڑتال کو کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں نے ختم کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جس کے نتیجے میں ہندوستان کی تقسیم در تقسیم کرنے کا برطانوی سامراج کو مواقعے ملتے گئے۔ آج ہندوستان اور پاکستان کے عوام بھوک، افلاس، مہنگائی، بے روزگاری، بیماری اور غربت میں تڑپ رہے ہیں اور ارب پتیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ہر دور میں عوام کا گلا گھونٹا گیا، ان کی آواز کو دبایا گیا۔


جب 1952 میں بنگلہ زبان کو قومی زبان کے طور پر تسلیم کروانے کے لیے تحریک چلی، تو تحریک بڑھتی گئی۔ آخرکار 1954 میں حکومت پاکستان نے بنگلہ کو بھی قومی زبان کے طور پر تسلیم کرلیا اور کرنسی نوٹ پر بنگلہ زبان بھی درج ہوئی۔ اس سے قبل ایک سیاسی جماعت نے کہا تھا کہ چونکہ ہندی بائیں سے لکھی جاتی ہے اور بنگلہ بھی بائیں جانب سے لکھی جاتی ہے۔ اس لیے یہ زبان ہندوؤں کے قریب ہے۔ جب کہ اردو دائیں سے لکھی جاتی ہے اور عربی بھی دائیں جانب سے لکھی جاتی ہے اس لیے اردو ہمارے زیادہ قریب ہے۔ پھر 1954 سے بنگلہ زبان کو حکومت نے قومی زبان کے طور پر تسلیم کر لیا۔

1971 میں دو نشستوں کے علاوہ ساری نشستیں عوامی لیگ نے جیت لیں۔ نیپ اور بائیں بازو کی جماعتوں کے علاوہ کسی نے مبارک باد نہیں دی۔ مشرقی پاکستان کی آبادی 55 فیصد جب کہ مغربی پاکستان کی 45 فیصد تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنرل یحییٰ خان اقتدار عوامی لیگ کو منتقل کر دیتے اور شیخ مجیب سیدھے سیدھے پاکستان کے وزیر اعظم بن جاتے۔ 1971 میں بنگلہ دیش بننے کے بعد اس میں دو اتحاد بنے ایک فوج کشی کا حامی جس میں نظام اسلامی، پی ڈی پی اور مسلم لیگ وغیرہ اور دوسری جانب عوامی لیگ، نیپ، کمیونسٹ پارٹی، نیشنل سوشلسٹ پارٹی اور کریشک سرمیک لیگ وغیرہ۔

بعدازاں رجعتی اتحاد نے تنظیمیں یعنی ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دیں۔ دوسری طرف ’’جوکتو سنگرام پریشد‘‘ (یونائیٹڈ اسٹرگل کمیٹی) تشکیل دی گئی جس میں 8 شعبے تھے۔ یعنی خبر رساں، عسکری تربیت، سیاسی محاذ، ریلیف فنڈز اور مکتی باہنی (فریڈم فائٹر) شامل تھیں۔ آخر کار مکتی باہنی اتنی خود مختار، خود انحصار اور حقیقی عوامی نمایندہ بن گئی کہ بنگلہ دیش کا حکمران طبقہ خاص کر عوامی لیگ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی۔ مکتی باہنی میں جہاں بائیں بازو (کمیونسٹوں) کا غلبہ تھا انھوں نے اس لڑائی کو طبقاتی لڑائی میں تبدیل کرنا اور اس کی شکل کو عوامی سانچے میں ڈھالنا شروع کردیا تھا۔ مثال کے طور پر ضلع بوگرہ میں جہاں عوامی لیگ سے زیادہ کمیونسٹ حاوی تھے انھوں نے رات 1 بجے بوگرہ جیل کے مین گیٹ کھلوا کے جیل میں مقید 30 ہزار بہاری محنت کشوں کو آزاد کرایا۔ جس طرح مغربی پاکستان میں عام انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بیان دیا تھا جوکہ ’’فار ایسٹرن اکنامکسٹ‘‘ اخبار میں شایع ہوا کہ ’’امریکا نے پاکستان میں کمیونزم کو روکنے کے لیے 20 برس تک جو کچھ نہیں کر پایا ہم نے چند دنوں میں کر دکھایا‘‘۔

ایسا ہی بیان فرانسیسی اخبار ’’لاموترے‘‘ میں شیخ مجیب نے بھی دیا تھا کہ ’’مغربی پاکستان کے حکمران بہت نالائق ہیں، وہ کمیونزم کو نہیں روک پائے بلکہ میں نے روک کر دکھایا۔‘‘ واضح رہے کہ امریکا کا ساتواں بیڑا پاکستان کی مدد کرنے نہیں آیا تھا بلکہ وہ اس لیے آیا تھا کہ مکتی باہنی کو اگر انڈین فورسز قابو نہ کر پائیں تو امریکی فوج کرے گی۔ اس لیے بھی کہ مکتی باہنی یونائیٹڈ اسٹرگل کمیٹی جن میں حاوی عنصر عوامی لیگ تھی کے احکامات ماننے سے انکار کردیا تھا۔ اس نے ہر محلے اور گلیوں میں عوامی کمیٹیاں اور انجمنیں بنانا شروع کر دیا تھا اور مقامی لوگ اپنی ضروریات اور صلح صفائی خود کرنے لگے تھے۔ بینک، ٹریفک، زراعت کے شعبوں، تالابوں میں مچھلی کی کاشت، دھان کی کٹائی اور بٹائی مشترکہ بنیاد پر کرنے لگے، تعلیمی اداروں کو انجمنوں نے چلانا شروع کردیا، عوام کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی عبوری کمیٹیاں بنا لی تھیں۔

ہر محلے میں اسٹڈی سرکل شروع ہو چکا تھا۔ ان کاموں میں نیشنل سوشلسٹ پارٹی نے خاصی حد تک ان کا ساتھ دیا جب کہ عوامی لیگ، نیپ اور کمیونسٹ پارٹی خاص کر ماسکو نواز ان عوامل کو انارکزم کہہ کر رد کرتی رہی۔ کچھ کارکنوں نے کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں مظاہرے کیے جن میں عوامی لیگ کے کارکنان بھی شامل ہوتے تھے۔ مگر پولیس کی سخت کارروائی اور نگرانی کی وجہ سے یہ مظاہرے عوامی نہ بن پائے بلکہ سی پی کے کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان میں مشرقی پاکستان میں سب سے گھناؤنا کردار ایک مذہبی جماعت کا تھا۔ موجودہ حسینہ واجد کی حکومت نے جماعت اسلامی کے خلاف جو ایکشن لیا ہے وہ عوام کو ان کے حقیقی مسائل سے دور رکھنے کے لیے اور عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ایسا کیا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھوک، افلاس، مہنگائی اور مزدوروں پر ڈھائے جانے والے مظالم عروج پر ہیں۔ اس کے خلاف مزدوروں نے احتجاج بھی کرنا شروع کردیا تھا۔ خاص طور پر صنعتی عمارت میں آگ سے سیکڑوں مزدوروں کے مرنے کے بعد۔

جماعت اسلامی کے خلاف کیے جانے والے ایکشن سے مزدوروں کی جدوجہد میں رکاوٹ آئی ہے۔ ویسے تو پھانسی مسئلے کا حل نہیں۔ دنیا کے 100 ملکوں میں پھانسی کی سزا نہیں ہے جب کہ 100 ملکوں میں پھانسی کی سزا ہے۔ جن ملکوں میں پھانسی کی سزا نہیں ہے وہاں قتل و غارت گری بہت کم ہے اور جہاں پھانسی کی سزا ہے وہاں قتل و غارت گری زیادہ ہے۔ یورپ، آسٹریلیا اور جاپان میں پھانسی کی سزا نہیں ہے، اس کی جگہ پر عمر قید ہے اور امریکا، چین، بھارت، پاکستان، عالم عرب، ایران، افغانستان وغیرہ میں پھانسی کی سزا ہونے کے باوجود یہاں قتل زیادہ ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب سابق حکومت کے صدر زرداری نے پھانسی کی سزا کی جگہ عمر قید کا اعلان کیا تو اس کی مخالفت کی گئی اور اب بنگلہ دیش میں پھانسی کی مخالفت کی جا رہی ہے۔

ابھی حال ہی میں شمالی کوریا میں بھی وہاں کے سربراہ مملکت کم جون ان کے پھوپھا چانگ سانگ تیک کو حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں فوراً پھانسی دے دی گئی۔ مگر اس کی تفصیلات نہیں آئیں۔ سزا کا مطلب اگر کسی قاتل کو قتل کردیں تو دو قتل ہوگئے۔ بجائے قتل کرنے کے اس کے پیچھے نفسیات کا معالج اور جنرل پریکٹیسیشن کو مسلسل لگائے رکھا جائے جس میں اس کی وجوہات تک وہ پہنچ کر اسے اس راہ سے ہٹائے اور آیندہ دوسروں کو قتل نہ کرنے کی ترغیب دے۔ جب کہ سرمایہ دارانہ نظام میں پتیلی چور جیل سے رہائی کے بعد بھینس چور بن کر نکلتا ہے۔ بنگلہ دیش اور برصغیر اور ایشیا کے عوام کے مسائل کا واحد حل ایک ہموار سماج کی تشکیل ہے۔

جیساکہ پیرس کمیون، انقلاب فرانس، انقلاب روس اور انقلاب اسپین میں ہوا۔

زبیر رحمن

بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

Enhanced by Zemanta

میرا لیڈر زندہ باد

$
0
0

متوسط طبقے اور قیادت کے موضوع پر کالم کیا لکھ ڈالا مختلف جماعتوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔ تقریباً ہر سیاسی پارٹی کی طرف سے شکایت آئی کہ آپ نے ہماری اعلیٰ قیادت کے خلاف مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ سیاسی کارکنان اور اپنے لیڈر کے متوالوں کا مزاج اور بھی بگڑا ہوا تھا۔ بعض نے لعن طعن کی اور بعض نے ذاتی حملے۔ کچھ نے جملے کسے اور کچھ نے میری صحافت کی خوب مرمت کی اور کہا کہ میں کسی ایجنڈے پر کام کر رہا ہوں۔ مگر عمومی طور پر ردعمل مثبت رہا۔ اکثریت تک میرا بنیادی نکتہ پہنچ گیا۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے پڑھنے والے کس حد تک اس تجزیے سے متفق ہیں کہ ملک کو صحیح ڈگر پر لانے کے لیے ہمیں متوسط طبقے کو مضبوط کرنا ہو گا۔ مگر آراء اور تنقید کے اس ریلے نے کم از کم یہ بات تو ثابت کر دی پاکستان میں قیا دت کے معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے جو بھی اس موضوع پر قلم اٹھائے گا وہ بھڑوں کے چھتے کو چھیڑے گا۔

ایسا کیوں ہے؟ ہم اپنے من پسند کے سیاسی لیڈروں سے اس قدر گہرا تعلق کیسے بنا سکتے ہیں کہ اُن کو دیوتا سمجھ کر پوجنا شروع کر دیتے ہیں؟ امام سمجھتے ہیں اور اُن کی خدمت کو اپنا ایمان مانتے ہیں۔ عقلی دلیل اور تاریخی حقائق کو کنویں میں پھینک دیتے ہیں اور بدترین چہرے پر تعریف کے ایسے سہرے باندھتے ہیں کہ جیسے نو بہنوں کا اکلوتا بھائی دولہا بنایا جاتا ہے۔ اس مجنوں پن کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ ایک کا تعلق اس قومی خواہش سے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل فوری طور پر ایسے ہو جائے کہ ہمیں بھی حیران کر دے۔ اقوام کی ترقی کی طویل اور تکلیف دہ تاریخ پڑ ھتے ہوئے ہم کوفت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور جلدی جلدی سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ کوئی مسیحا کہیں سے نمو دار ہو اور ہمیں پرخار راستوں سے بچا کر منزل کے سامنے لا کھڑا کرے۔ اس خواہش کے تابع دیوانے گلی سے گزرنے والے ہر اس شخص کی طر ف متوجہ ہو جاتے ہیں جو بلند آواز لگا کر مٹی کو سونا بنا نے کے دعوے کرتا ہوا گھر میں گھس جاتا اور پھر عورتوں کے زیورات ہتھیا کر رفو چکر ہو جاتا ہے۔

سیاست کے میدان میں موجود بڑے شطرنج باز ہماری اس کمزوری کو اچھی طرح بھانپ چکے ہیں۔ اُن کو معلوم ہے کہ صرف صحیح نعرہ لگا نے کی ضرورت ہے ایک وارفتہ ہجوم لبیک کہتا ہوا حاضر ہو جائے گا۔ اُن کو یہ خطرہ بھی نہیں ہوتا کہ توقعات اور خواہشات کی گٹھٹریاں سر پر اٹھا ئے یہ لوگ کہیں اُن سے یہ سوال بھی نہ پو چھ لیں کہ اُن سے کیے ہوئے وعدے کتنے قابل عمل اور کتنے احمقوں کی جنت کے نظارے ہیں۔ ہجوم کی نفسیات میںچھان بین نہیں ہوتی۔ وہ ٹٹولنے کی حس سے عاری ہوتا ہے۔ وہ یا تو مار دینے کا سوچتا ہے یا مر جا نے کا۔ جس نے ہجوم کی اس جبلت کو سمجھ لیا اُس کے لیے لیڈر بن جانا اُتنا ہی آسان ہے کہ جتنا اُس کے پیچھے چلنے والوں کے لیے یہ سمجھنا کہ اُن کو نخلستان کی طرف لے جانے والے دراصل اُن کو صحرا کے ریتلے بگولوں میں ایسے گم کر رہے ہیں کہ وہ اپنی سمت ہی بھول جائیں گے۔ ہجو م میں سے کوئی خود سے آواز بلند نہیں کرتا کہ اس کارواں کو چلانے والوں کی اصل قابلیت کیا ہے؟ لہذا نوسربازوں کی چاندی ہوئے رہتی ہے۔ وہ وعدے پر وعدے کیے جاتے ہیں اور ہر طرف سے داد ملتی رہتی ہے۔

لیڈروں پر اندھا اعتماد اور اُن کو حقیقت کے پیرائے سے نکال کر جناتی مخلوق میں تبدیل کر کے پیش کرنے کی یہ عادت اُس بے چارگی اور بے بسی کی ہی دلیل ہے۔ جو برسوں سے نظام کے ہاتھوں مارے ہوئے شہریوں پر طاری ہے۔ زندگی اس قدر مشکل بنا دی گئی ہے کہ ٹھیک سے سانس لینا بھی دوبھر ہو چکا ہے۔ غربت،افلاس، بھوک، بیماری اور ظلم قوم کی اکثریت کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔ لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے اپنے جسم کے اعضاء کاٹنے کو تیار ہیں۔ نسبتاً بہتر حالت میں رہنے والوں کے حالات بھی ابتر ہیں۔ پچاس ڈگری کے درجہ حرارت میں 18 گھنٹے 12 افرادِ خانہ کے ساتھ دس ضرب دس کے کمر ے میں ایک دن گزارنے سے ہی دماغ پگھل جاتا ہے۔ اگر یہ یا اس جیسا دوسرا کو ئی ظلم اگر روزمرہ کی گزر اوقات کا حصہ ہی بن جائے تو بڑے بڑے ہاتھ جوڑ کر یہ کہیں گے ’’خدارا ہمیں بچا لو‘‘ خلق خدا کی یہ بپتا قدرتی نہیں بلکہ مصنوعی ہے۔ اس نظام میں طاقت ور طبقے نے انتہائی عقل مندی کے ساتھ اس قوم کے بڑے حصے کو آلہ تنفس پر رکھا ہو ا ہے جہا ں سے ایک سانس آتا ہے اور ایک جاتا ہے۔ ایک ایسی حالت جس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بر ی طرح متاثر ہو جاتی ہے۔

اور مریض مکمل طور پر آکسیجن مہیا کرنے والوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ ضروریات کی اس دائمی کمی کو پہلے پیدا کیا جا تا ہے اور پھر اس کو پو را کر نے کی منصوبہ بندی بنا کر مسیحا کی نشست سنبھالی جاتی ہے۔ پہلے خنجر پیٹھ میں گھونپتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ نکالتے ہوئے اپنے نام کا ورد کرنے کا مطالبہ بھی کر تے ہیں۔ اب جو مر رہا ہو گا وہ کیا نہ کر ے گا؟ ورد بھی کر ے گا۔ تسبیح بھی پڑھے گا۔ سجدہ ادا کر ے گا۔ مگر شاید اس ملک میں لیڈران کی بہتات اور ان کے ماننے والوں کے دیوانے پن کی سب سے بڑی وجہ مطالبہ نہ کر نے کی عا دت ہے۔ کتابوں میں درج تاریخ سے بڑا استاد اور کوئی نہیں ہے مگر سیکھنے والے بہت کم ہیں۔ ٹی وی کی اسکرینوں سے نمودار ہو نے والی گمراہ کن تصویرو ں نے سیاسی تعلیم کو مصنوعی قربت کے زاوئے سے عام تو کر دیا ہے۔


گر اس کی بنیاد انتہائی کمزور ہے نعر ے، تسلیاں، دعوے، ایک دوسرے پر لفظی حملوں کے اس تماشے نے ان تمام اسباق کو ہمارے ذہنوں سے دور کر دیا ہے جو ہم مطالعے کے ذریعے حاصل کر سکتے تھے۔ ایک جلسے میں دور سے کھڑے ہو کر نعر ے لگا نے والے خو د کو تجزیہ نگار سمجھنے لگ گئے ہیں۔ اُ ن کو اس سے کو ئی غرض نہیں کہ اُن کے مندر میں کھڑا بت کتنا بے وقعت اور جعلی ہے۔ و ہ تو بس پوجا پاٹ میں لگے ہو ئے ہیں۔ بت کدوں کے نقلی خداوں کے لیے اس سے زیادہ سازگار ماحول اور کیا ہو گا۔ نہ ان کو ٹوٹنے کا خدشہ ہے اور نہ کوئی توڑ نے والا ہے۔ ان پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں مگر نذرانے د ینے والے بہت ہیں۔ کیا بہترین کا روبار ہے۔ بہت خوبصورت ملک ہے۔ کتنی اچھی قوم ہے۔ لیڈر اصل میں کیسے ہیں اور کیسے ہونے چاہئیں اس کے لیے اگلے کالم کا انتظار کیجیے۔

طلعت حسین

بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

Enhanced by Zemanta

BNGLADESH: Sheikh Haseena Wajid supporters beating women

$
0
0

BNGLADESH: Sheikh Haseena Wajid supporters beating womenThousands take to the streets of Dhaka as Bangladesh election storm grows...Fresh political violence broke out in the Bangladeshi capital on Sunday as thousands of protesters turned out on the streets of Dhaka to oppose forthcoming elections.




Enhanced by Zemanta

’میں ڈرون اڑایا کرتی تھی‘

$
0
0

ڈرون

پروگرام پر کام کرنے والی امریکی فضائیہ کی ایک اہلکار ہیدر لائن بو کو اس پروگرام کے اثرات کے بارے میں کچھ خدشات ہیں۔ ان خدشات کا اظہار انھوں نے حال ہی میں برطانوی اخبار دا گارڈین میں ایک مضمون لکھ کر کیا۔ مندرجہ ذیل اس مضمون کا ترجمہ ہم اپنے قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں۔

جنگی ٹیکنالوجی کے حوالے سے گذشتہ دہائی کی سب سے بڑی جدت شاید ڈرون طیارے تھے

میں جب بھی سیاستدانوں کو پریڈیٹر یا ریپر پروگرام جیسے ڈرون پروگراموں کا دفاع کرتے ہوئے سنتی ہوں، تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان سے چند سوالات پوچھوں۔ سب سے پہلے میں ان سے پوچھوں گی کہ ’آپ نے ایک ہیل فائر میزائل سے کتنی خواتین اور ان کے بچوں کو زندہ جلتے ہوئے دیکھا ہے؟‘ پھر پوچھوں گی کہ ’آپ نے کتنے مردوں کو ٹانگیں کٹنے کے بعد لہولہان حالت میں ایک کھیت کو اپنے ہاتھوں پر چلتے ہوئے پار کرتے دیکھا ہے؟‘ بلکہ شاید سیدھا یہی پوچھ لوں گی کہ ’آپ نے کتنے فوجیوں کو افغانستان میں سڑک کے کنارے مرتے ہوئے دیکھا ہے جب ہمارے انتہائی درست ڈرون نے ان کے راستے کی خود ساختہ بارودی سرنگوں کا پتہ چلانے میں ناکام رہے؟‘

ان سیاستدانوں میں سے چند ہی کو کچھ اندازہ بھی ہے کہ اس پروگرام میں حقیقتاً ہوتا کیا ہے۔ دوسری جانب میں نے اپنی آنکھوں سے بہت ایسے بہت سے بھیانک منظر دیکھے ہیں۔

اسی بارے میں 

میں نے اپنی آنکھوں سے کچھ ایسے فوجیوں کو افغانستان میں سڑک کے کنارے مرتے دیکھا ہے جن کے میں نام تک جانتی تھی۔ میں نے درجنوں افغان مردوں کو خالی کھیتوں میں مرتے دیکھا ہے جب ان کے گھر والے قریب ہی ان کے گھروں میں ان کی واپسی کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔

امریکی اور برطانوی فوج کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک ماہرانہ پروگرام ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ پھر بھی وہ اس کے بارے میں غلط معلومات دیتے ہیں۔ عام شہریوں کی ہلاکت کے بارے میں اعداد و شمار کو یا تو پوشیدہ رکھا جاتا ہے یا پھر یہ بہت تھوڑی بتائی جاتی ہیں اور ڈرون طیاروں کی صلاحیات پر رپورٹوں کو گھمایا پھرایا جاتا ہے۔ ہمارے دفاعی نمائندے چاہے ہمیں جو بھی بتائیں، حقیقت یہ ہے کہ ایسے واقعات نہ تو کبھی کبھار کی کہانی ہے اور نہ ہی عام شہریوں کی ہلاکت کی شرح میں کوئی فرق پڑا ہے۔

پاکستان میں بھی ڈرون حملوں کی مخالفت کی جاتی ہے

جو بات عوام کو سمجھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ بہترین روشنی اور تھوڑے بادلوں والے دن بھی ڈرون سے ملنے والی ویڈیو اتنی صاف نہیں ہوتی کہ آپ یہ معلوم کر سکیں کہ اس کے کیمروں سے نظر آنے والا شخص ہتھیار اٹھائے ہوئے ہے یا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انٹیلی جنس کے بہترین تجزیہ کاروں کے لیے بھی بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ بتا سکیں کہ ہدف کے ہاتھوں میں ہتھیار ہے یا نہیں۔ ویڈیو اس قدر ’دانے دار‘ ہوتی ہے کہ ہمیں اکثر یہی سمجھ نہیں آتی تھی کہ کسی کے ہاتھ میں ہتھیار ہے کہ بیلچہ؟

میں اور میرے ساتھی ڈرون آپریٹر یہی سوچتے رہ جاتے تھے کہ ’ہم درست لوگوں کو مار بھی رہے ہیں یا نہیں، کہیں ہم غلط لوگوں کو خطرے میں تو نہیں ڈال رہے، کہیں ہم بری تصویر یا غلط زاویے سے ویڈیو کی وجہ سے کسی عام شہری کی زندگی تباہ تو نہیں کر رہے۔‘

"آپ نے ایک ہیل فائر میزائل سے کتنی خواتین اور ان کے بچوں کو زندہ جلتے ہوئے دیکھا ہے؟‘ پھر پوچھوں گی کہ ’آپ نے کتنے مردوں کو ٹانگیں کٹنے کے بعد لہولہان حالت میں ایک کھیت کو اپنے ہاتھوں پر چلتے ہوئے پار کرتے دیکھا ہے؟‘ "

ہیدر لائنباغ ڈرون پروگرام کے حامی سیاستدانوں سے یہ سوال کرنا چاہتی ہیں

عوام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان ڈرون طیاروں کو انسان چلا رہے ہیں اور انسان ہی ان سے ملنے والی معلومات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ مجھے یہ معلوم ہے کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ایک تھی۔ دنیا میں کوئی بھی چیز آپ کو کسی میدانِ جنگ کے اوپر روانہ ڈرون طیاروں سے نگرانی کرتے رہنے کے لیے تیار نہیں کر سکتی۔ ان طیاروں کے حامی کہتے ہیں کہ جو فوجی ڈرون طیارے چلاتے ہیں اس کا ان پر اثر نہیں پڑتا کیونکہ وہ کبھی بھی براہِ راست خطرے سے دوچار نہیں ہوتے۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ میں کبھی افغانستان نہیں گئی، مگر میں نے اس جنگ کو تفصیلاً کئی کئی دن تک اپنی سکرین پر دیکھا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ جب آپ کسی کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے۔ لفظ بھیانک بھی اس کو پوری طرح سے ادا نہیں کر سکتا۔ اور جب آپ اسے بار بار دیکھتے ہیں جیسے کوئی چھوٹی سی ویڈیو آپ کے ذہن میں ہی کھب کر رہ گئی ہو اور بار بار چلتی جائے تو وہ ایسا نفسیاتی صدمہ پہنچاتی ہے جو میری دعا ہے کہ کسی کو نہ پہنچے۔

ڈرون چلانے والے فوجی اپنے کام کی خوفناک یادوں کے متاثرین ہی نہیں بلکہ انھیں ہمیشہ یہ شک بھی ستاتا رہتا ہے کہ ان کے نشان زد کیے گئے افراد سچ میں دہشت گرد تھے بھی یا نہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں ڈرون طیارے حفاظت کے لیے نہیں بلکہ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں: ہیدر لائنباغ

ظاہر ہے کہ ہمیں تربیت دی جاتی ہے کہ ہم ایسے جذبات کو محسوس نہ کریں اور ہم ان جذبات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ فوج کی جانب سے فراہم کیے گئے ذہنی امراض کے ہسپتالوں میں جا کر مدد حاصل کرتے ہیں، لیکن ہم اپنے کام کی خفیہ نوعیت کے باعث بہت کم لوگوں سے اس سلسلے میں بات کر سکتے ہیں۔

مجھے یہ دلچسپ لگتا ہے کہ اس شعبے میں کام کرنے والوں کے بارے میں خودکشی کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے جاتے اور نہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ ڈرون طیارے اڑانے والوں میں سے کتنے لوگوں کو بےخوابی، اضطراب اور افسردگی کے علاج کے لیے بہت زیادہ ادویات دی جاتی ہیں۔

حال ہی میں گارڈین نے برطانوی سیکریٹری آف سٹیٹ برائے دفاع کی ایک کمنٹری شائع کی۔ میری خواہش ہے کہ میں ان سے اپنے ان دو دوستوں کے بارے میں پوچھ سکوں جنہوں نے فوجی ملازمت چھوٹنے کے ایک سال کے اندر ہی خودکشی کر لی۔

مشرقِ وسطیٰ میں ڈرون طیارے حفاظت کے لیے نہیں بلکہ ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں اور جب تک ہمارے عوام اس سے بے خبر رہیں گے، انسانی زندگی کی توقیر کو لاحق یہ خطرہ برقرار رہے گا۔

Enhanced by Zemanta

پاکستان: شدید سردی، کئی دہائیوں کے ریکارڈ ٹوٹ گئے

$
0
0

پاکستان کے اکثر علاقے شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں اور کئی شہروں میں کئی دہائیوں کے قائم سردی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔

محکمۂ موسمیات نے سردی کی موجودہ لہر آئندہ تین سے چار روز تک برقرار رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ملک میں سب سے کم درجہ حرارت صوبہ بلوچستان کے شہر قلات میں ریکارڈ کیا گیا جہاں درجہ حرارت منفی 16 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔

اس کے علاوہ درجۂ حرارت کوئٹہ اور سکردو میں منفی 12، دالبندین میں منفی نو اور پاراچنار اور مری میں منفی آٹھ ڈگری تک پہنچ گیا۔

محکمہ موسمیات کے مطابق کوئٹہ میں اتنی زیادہ سردی آخری بار نو دسمبر 1974 میں پڑی تھی۔

صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں پیر کی شب درجہ حرارت چار ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

دوسری جانب صوبہ پنجاب میں بھی شدید سردی ہے اور لاہور شہر میں درجہ حرارت نقطۂ انجماد تک پہنچ گیا۔ پنجاب کے دوسرے شہروں کی طرح ملتان میں دو، جبکہ گجرات میں درجہ حرارت منفی ایک سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

 واضح رہے کہ 1984 میں اسلام آباد میں کم سے کم درجہ حرارت منفی 2.8 ریکارڈ کیا گیا تھا۔ تاہم اس سے پہلے یہاں سب سے کم درجہ حرارت 1967 میں منفی 3.9 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں درجہ حرارت منفی تین ڈگری سنٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جو گذشتہ 46 سالوں میں سرد ترین ہے۔

واضح رہے کہ 1984 میں اسلام آباد میں کم سے کم درجہ حرارت منفی 2.8 ریکارڈ کیا گیا تھا۔ تاہم اس سے پہلے یہاں سب سے کم درجہ حرارت 1967 میں منفی 3.9 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا۔

محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد حنیف کا کہنا ہے کہ منگل کو ملک بھر میں سردی کی شدت میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

دریں اثنا شمالی وزیرستان کے علاقے میرانشاہ میں پانچ سال بعد پہلی برفباری ہوئی۔

کوئٹہ کا درجہ حرارات منفی 14 سینٹی گریڈ تک جاپہنچا جس کے باعث ندی نالوں میں بہننے والا پانی بھی منجمد ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ نلکوں میں بھی پانی جم گیا ہے جس سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

Enhanced by Zemanta

Why Muslims Shouldn't Celebrate New Year's ...By Ansar Abbasi

Pervez Musharraf Trial and Pakistan Army

$
0
0


Pervez Musharraf Trial and Pakistan Army
Enhanced by Zemanta

How to use Facebook in Urdu Language.......

$
0
0

اردو میں فیس بک

لیجئے جناب فیس بک ٹرانسلیشن ٹیم کی جانب سے دنیا کی مشہور ترین سوشل نیٹورکنگ ویب سائیٹ کے اردو ترجمے کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ یعنی اب فیس بک اردو زبان میں بھی دستیاب ہے۔ گوکہ ٹوئٹر اور گوگل پلس کے مقابلے میں فیس بک کو اردو زبان شامل کرنے کا خیال کافی دیر سے آیا لیکن بھلا ہو ان تمام رضاکاروں کا جنہوں نے ہزاروں الفاظ اور جملوں کا درست اردو ترجمہ کیا۔

اگر آپ بھی فیس بک کو اپنی قومی زبان میں دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ کار بہت آسان ہے، آپ اکاؤنٹ سیٹنگز میں جائیں اور وہاں پر سب سے نیچے زبان کا انتخاب کریں اور Save Changes کا بٹن دبائیں۔

شروع شروع میں تھوڑا عجیب لگے گا لیکن جب تھوڑے دن استعمال کریں گے تو عادت پڑ جائے گی

آسانی سے اردو لکھنے کے لئے گوگل انپٹ ٹولز استعمال کر لیں جو یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے

 http://www.google.com.pk/inputtools/windows

 How to use Facebook in Urdu Language

Enhanced by Zemanta

Pervez Musharraf trial by Saleem Safi

$
0
0

جنرل پرویز مشرف نے ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ سنگین جرم یعنی آئین شکنی کا ارتکاب کیا۔ رہی سیاسی اور انتظامی حماقتیں تو ان میں تو وہ کب کے سینچری مکمل کرچکے ہیں۔ یہ سلسلہ کارگل سے شروع ہوتا ہے اور مسلم لیگ (ق) یا ایم ایم اے کو بنانے سے ہوتا ہوا ان کی وطن واپسی کی حماقت تک جاپہنچتا ہے۔ وہ زندہ رہے تو نہ جانے اور کیا گل کھلائیں گے ۔ یوں آئیڈیلزم کو بنیاد بنا کر اگر خالص آئینی اور قانونی حوالوں سے دیکھا جائے تو وہ سنگین سزا کے مستحق ہیں لیکن اگر ایسا عملاً ممکن نہ ہو اور اس کے نتیجے میں نظام اور ملک کو شدید نقصان بلکہ حادثات کا خطرہ ہو تو پھر کیا صرف چند انائوں کی تسکین کے لئے ان کے خلاف مقدمہ کا یہ ڈرامہ جاری رکھنا چاہئے؟۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو والا معاملہ جب بھی ہوگا تو اس کا نتیجہ خطرناک نکلے گا۔ اگر واقعی پاکستان میں سیاسی قیادت بلند اخلاقی معیارات کی حامل بن چکی ہے، اگر تو واقعی پاکستان میں دیگر ادارے اس قدر مضبوط ہوچکے ہیں کہ وہ فوج کی ہمسری کرسکیں ، اگر تو واقعی عدلیہ اور میڈیا کا کردارمثالی بن چکا ہے یا پھر اگر واقعی میاں نواز شریف صاحب بے خطر کودپڑا آتش نمرود میں عشق کے فلسفے پر عمل پیرا ہوکر ممولے کو شہباز سے لڑانے کا عزم کرچکے ہیں تو پھر یابسم اللہ۔ بارہ اکتوبر 1999ء سے آغاز کردیجئے۔ پھر بارہ اکتوبر کی بنیاد پر اس اقدام میں شریک تمام جرنیلوں، اس کی حمایت کرنے والے سیاستدانوں اور جسٹس افتخار چوہدری سمیت پی سی او کے تحت حلف اٹھانے اور اس اقدام کو جواز فراہم کرنے والوں کے خلاف بھی آئین شکنی کے مقدمات چلائے جائیں ۔ جس ملک میں مقدمہ اس چیف جسٹس کی ہدایت پر چلایا جارہا ہوجنھوں نے خود بارہ اکتوبر کی آئین شکنی کو جائز قرار دے کر پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا ہو۔ مطالبہ کرنے والی تحریک انصاف یا پھر پیپلز پارٹی ہوں جنھوں نے بارہ اکتوبر کے اقدام کو ویلکم کیا تھا۔ نعرہ زن اے این پی ہو جن کے لیڈر اجمل خٹک کو پرویز مشرف کے ماتھے میں روشنی کی کرن نظر آئی تھی۔ شور ان مذہبی جماعتوں نے مچائے رکھا ہو جو پرویز مشرف کے منصوبے کے تحت ایم ایم اے کا حصہ بنیں اور جنھوں نے سترویں آئینی ترمیم کے ذریعے ان کے ناجائز اقدامات کو آئین کا حصہ بنا ڈالا جبکہ ملک کا وزیراعظم وہ شخص ہے جنہیں سیاست کا راستہ جنرل جیلانی نے دکھایا ہو بلکہ عدالتوں سے سزا پانے کے بعد سعودی عرب کی مداخلت سے بیرون ملک جاچکا ہو اور جنھوں نے تحریری طور پر دس سال تک سیاست اور ملک سے باہر رہنے کا وعدہ کیا ہو، اس ملک میں ایک سابق آرمی چیف پھانسی چڑھ جائیں گے ۔ یہ سوچ حماقت نہیں تو اور کیا ہے ؟ بموں کی برآمدگی سے لے کر اے ایف آئی سی میں پرویز مشرف کے گرد عسکری اداروں کے حصار کے بعد بھی کیا کسی شک کی گنجائش ہے کہ فوج ساتھ نہیں ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ تین سابق لیفٹیننٹ جنرلوں کو بدعنوانی کے کیسز میں بلایا گیا لیکن آئی ایس پی آر کی ایک پریس ریلیز سے ہرطرف خاموشی چھا گئی۔ پھر آخر فوج اپنے سابق سربراہ کے معاملے پر کیسے لاتعلق رہے گی ؟ مدعا ہر گز یہ نہیں کہ فوج کے اس ردعمل کو میں درست سمجھتا ہوں بلکہ صرف زمینی حقائق کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔

گزشتہ روز ایک محفل میں فوج کے سابق پانچ جرنیل صاحبان ، جن میں بعض ذاتی طور پر پرویز مشرف کے شدید مخالف بھی ہیں، شریک تھے۔ چھ سات سیاسی رہنما بھی وہاں تشریف فرماتھے ۔ کسی نے پرویز مشرف کے معاملے پر فوج کی سوچ کے بارے میں استفسار کیا تو سب جرنیل صاحبان کا اتفاق تھا کہ فوج میں شدید بے چینی ہے ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ فوجی حلقوں میں بھی یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ صرف پرویز مشرف کو کیوں ذلیل کیا جارہا ہے اور باقی سیاسی اور غیرسیاسی شریک کاروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جارہی؟۔ وہ کہہ رہے تھے کہ پرویز مشرف کیس کی آڑ میں میڈیا پر جس انداز میں فوج کے بارے میں بحث ہورہی ہے ، اس کی وجہ سے بھی فوج کی صفوں میں شدید بے چینی ہے کیونکہ اس بحث اور تنقید کی زد میں وہ فوجی یا اس کا کمانڈر بھی آرہا ہے جو سیاچن سے لے کر وزیرستان تک قربانی دے رہا ہے۔ سب اس خدشے کا اظہار کررہے تھے کہ سلسلہ نہ رکا تو وہی کچھ ہوگا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے اور اب کے بار ایسا ہوا تو بہت تباہ کن اور خونی ہوگا۔ پرویز مشرف کے لئے پریشان ایک ریٹائرڈ فوجی کو آئین اور قانون کی طرف متوجہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ کیا سابق منصف اعلیٰ کا بیٹا مجرم نہیں تھا لیکن تمام جج اور وکیل ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ پھر ہم اپنے سابق چیف کے ساتھ کھڑے کیوں نہ ہوں۔ یہ سب حقائق اپنی جگہ لیکن اگر مجھے یقین ہوتا کہ پرویز مشرف کو واقعی سزا مل جائے گی اور یہ سزا مستقبل کے لئے فوجی مداخلت کا راستہ روک لے گی تو میں بھی اس پنگے بازی کی حمایت کرتا ۔ لیکن ہم سب کو معلوم ہے کہ کچھ بھی ہوجائے ، ایک عرب ملک سے آنے والی ایک ٹیلی فون کال سے وہ عزت و احترام کے ساتھ وہاں روانہ ہوجائیں گے۔ وجہ صاف ظاہر ہے ۔ اس وقت وہ میاں نوازشریف وزیراعظم پاکستان ہیں جنھیں اسی پرویز مشرف کے چنگل سے اور موت کے منہ سے یہی حکمران نکال کر لے گئے تھے۔ اب یہی حکمران کیا پرویز مشرف کو نہیں بچائیں گے اور کیا میاں نوازشریف ان کے اس احسان کا بدلہ نہیں چکائیں گے ؟۔ جب منطقی انجام یہی ہونا ہے تو پھر قوم کو اس فضول بخار میں مبتلا کرنے کی کیا تک ہے؟

کیا بہتر نہ ہوتا کہ حکومت اپنی توجہ گڈگورننس کی طرف مبذول کرتی اور ڈیلیوری کے ذریعے قوم کو اپنا ہمنوا بنا کر مستقبل میں فوجی مداخلت کا راستہ روکتی اور آخر میں ایک واقعہ جو لطیفے سے کم نہیں، ۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں معیشت سے متعلق اسحٰق ڈار صاحب کی بریفنگ میں ہمیں بلایا گیا تھا۔ ایک طرف وفاقی کابینہ بیٹھی تھی اور دوسری طرف ہم بیٹھے تھے۔ کسی نے وزیراعظم کی طرف سوال داغ دیا کہ "بلے"کے گلے میں گھنٹی کون ڈالے گا۔ وہ مسکرا دئے اور چپ ہوگئے ۔ میں حامد میر صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا۔ سامنے وزراء کی فہرست پر نظر دوڑائی تو ان میں نمایاں امیر مقام نظر آ رہے تھے ۔ پھر جنرل عبدالقادر بلوچ پر نظر پڑی۔ ان کے ساتھ تین نومبر کی ایمرجنسی کے وقت کے وزیر قانون زاہد حامد صاحب بیٹھے تھے ۔ دوسری طرف مشرف دور کی کابینہ کے وزیر ریاض پیرزادہ نوازشریف کی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے تشریف فرما تھے۔ وزراء کی قطار کے ایک سرے پر امتیاز شیخ اور دوسرے سرے پر پیر پگاڑا صاحب کے بھائی تشریف فرما تھے۔ میں نے حامد میر صاحب سے کہا کہ میاں صاحب سے کہہ دو کہ اپنی کابینہ کے ان اراکین کی کمیٹی بنا کر انہیں بلے کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی ذمہ داری دے دیں کیونکہ یہ سب پرویز مشرف کے ساتھ کام کرچکے ہیں اور ان کی کمزوریوں اور مجبوریوں سے بخوبی واقف ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ذاتی زندگی میں تو بڑے حقیقت پسند ہوتے ہیں اور جب کوئی ہمارے ذاتی کردار کے حوالے سے سوال اٹھاتا ہے تو ہم مجبوریوں، مصلحتوں اور حکمتوں کا درس دیتے ہیں لیکن قومی معاملات میں ہم آئیڈیلسٹ بن جاتے ہیں۔ ہم راتوں رات پاکستان کو برطانیہ بنانے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔

مگس کو باغ میں جانے نہیں دیجئو

کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

سلیم صافی

بشکریہ روزنامہ "جنگ

Pervez Musharraf trial by Saleem Safi"

Enhanced by Zemanta

حیرت انگیز حیاتیات........By Dr. Attaur Rahman

$
0
0

شعبہ حیاتیات میں حقیقتاً بڑی حیرت انگیز دریافتیں ظہور پذیر ہو رہی ہیں ۔پودوں اور جانوروں کی زندگی سے منسلک تمام معلومات ان کے DNA میں درج ہوتی ہیں۔ DNA خلیے کے اہم مرکوزے (nucleus) میں موجود ہوتا ہے اور چار بنیادی عناصر سے مل کر بنتا ہے۔ تقریباً 3 کھرب بنیادی عنصر ایک دوہری لڑی میں ایک مخصوص ترتیب سے مرتّب ہو تے ہیں اور یہی ترتیب کسی بھی جاندارکی خصوصیات بیان کرتی ہے۔ تصوّر کریں کہ ایک بہت لمبا چار رنگوں(چار بنیادی عنصر) کے موتیوں سے آپس میں لپٹی ہوئی دو لڑیوں کا ہار ہے۔ ہماری جلد اور آنکھوں کی رنگت، ہمارا قد، ہمارے دل و دماغ کی ساخت حتیٰ کہ ہمارے جسم کے ایک ایک عضو کی خصوصیات انہی چار عناصر کی مختلف تراتیب پر منحصر ہیں۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے انسانی جرثومے کی ساخت کے بارے میں 2003 ء میں اعلان کیا۔ یہ امریکی شعبہ توانائی اور ادارہ صحت کے بین ا لاقوامی پروجیکٹ US Department of Energy and the National Institute of Health کی تیرہ سالہ کاوشو ں (1990 ء تا 14 اپریل2003 ) کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا جس کی بدولت انسانی DNA میں موجود تقریباً 3 کھرب ــ ،حروف، کی ترتیب معلوم کر لی گئی۔ اس دریافت میں 1کھرب ڈالر اور کافی سالوں کی محنت شامل تھی۔ آج ہم یہی ترتیب صرف چند دنوں میں اور محض 5,000 ڈالر میں معلوم کر سکتے ہیں ۔ بلکہ مزید نئی ٹیکنالوجیز دریافت ہو رہی ہیں جن کی بدولت صرف 15منٹ میں اور 100 ڈالر سے بھی کم خرچ میں یہ ترتیب معلوم کی جا سکے گی۔

20 مئی 2010 کو Craig Venter اور ان کے ساتھیوں نے اعلان کیا کہ وہ ایک زندہ خلیہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو مکمّل طور پر مصنوعی ہے۔ انہوں نے کمپیوٹر کے ذریعے DNA کی مصنوعی ساخت ترتیب دی پھر اس ساخت کو لیبارٹری میں استعمال کرتے ہوئے لاکھوں nucleic acids کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے DNAتیّار کر لیا اور جب اسے خالی خلیے میں ڈالا گیا تو اس مصنوعی جینوم نے فوری اپنی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے خلیے کی لاکھوں کی تعداد میں کاپیاں بنانا شروع کردیں۔تولیدی صلاحیت کی مو جودگی ہی زندگی کی علامت ہے۔اب جبکہ سائنسدان مصنوعی جینوم بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو اگلا قدم یہ ہوگا کہ ان ننّھے خلیوں کو ننّھے کارندوں اور انجینئر وں کے بطور استعمال کیا جائے تاکہ وہ حیاتیاتی ایندھن ، ادویات و ضرورت کے مطابق اینزائم تیّار کر سکیں۔ یعنی ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔

جینیات میں بڑھتی ہوئی آگاہی کے ساتھ سائنسدانوں نے عمر رسیدگی کے عمل کو بتدریج آہستہ کرنے کے لئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ گزشتہ 60 سالوں میں بہتر حفظانِ صحت اورادویات کی بہم دستیابی کی وجہ سے لوگوں کی اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے البتہ یہ حد ملک در ملک مختلف ہے۔مثال کے طور پر جاپان کے لوگوں کی اوسط عمر 82 سال جبکہ افریقی ممالک میں یہ حد 50 سال سے بھی کم ہے۔

کیا ہم کسی طرح عمر رسیدگی کے عمل کو آہستہ یا پھر روک سکتے ہیں؟ یادوسرے لفظوں میں دراز ی عمر کے لئے کچھ کر سکتے ہیں؟

یہ سوال بہت سے حیات دان، جینیات دان، ادویائی اور حیاتی کیمیا دان کی توجّہ کا مرکز بن گیا۔ ایک اوسط انسانی جسم کے تقریباً 50سے 70 کھرب خلیوں کی ساخت میں پہلے سے موجود طے شدہ پروگرام کے تحت ر وزانہ مر جاتے ہیں (apoptosis) اور اس سے کہیں زیادہ نئے خلیے اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ 8 سے 14 سال کے بچّوں میں تقریباً 20-30 کھرب خلیے روزانہ مر جاتے ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ خلیے ان کی جگہ لے لیتے ہیں اس طرح ان کی نشونما ہوتی ہے حتیٰ کہ ایک سال میں تبدیل ہونے والے خلیوں کی تعداد ابچّے کے وزن کے مساوی ہو جاتی ہے۔ اس وقت ہم خلیوں میں موجود ان کیمیائی اشاروں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے تحت خلیے فطری افزائش روک دیتے ہیں۔ خلیوں کے مرنے کے عمل میں مناسب مداخلت کے ذریعے ہم ان خلیوں کو زیادہ عرصے تک زندہ رکھ سکتے ہیں۔اور اس طرح عمریں لمبی کر سکتے ہیں۔ عمر رسیدگی کے عمل کو روکنے کے لئے نئی ادویات دریافت کی جا رہی ہیں تاکہ ہم صحتمند دراز عمر گزار سکیں۔

ادویاتی کیمیا (Medicicnal Chemistry) حیاتی کیمیا (biochemistry) اور جینیات (genomics) میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آگاہی نے سائنسدانوں میں عمر رسیدگی کے عمل میں کارفرما عوامل کو سمجھنے اور حیاتیاتی گھڑی کی اہمیت سمجھنے میں بہت مدد دی ہے۔ یہ آگاہی بیکٹیریا، مکڑی، کیڑے مکوڑے، چوہے، اور دیگر جانوروں پر تحقیق کے ذریعے بھی بڑھ رہی ہے۔کیونکہ ان حشرات الارض کے خلیوں کی زند گی، ان کی نشونما اور خاتمے کے عوامل انسانوں اور دیگر جانوروں سے کافی مماثلت رکھتے ہیں۔ لہٰذا کافی مر کّبات دریافت کر لئے گئے ہیں جو نہ صرف عمر رسیدگی کے عمل کو آہستہ کر سکتے ہیں بلکہ اس کو عمل کو الٹ کر بوڑھے کو دوبارہ جوان کر سکتے ہیں۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول میں David Sinclair اور ان کے ساتھی پودوں میں پایا جانے والا ایک ایسا مرکب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو واقعی عمر بڑھنے کے عمل کو روکتا ہے۔ جب اس مرکب کو بوڑھے چوہوں پر استعمال کیا گیا تو وہ حیرت انگیز طور پر دو بارہ جوان ہوگئے۔ بلکہ اس مرکب کو کھانے کے بعد بوڑھے چوہوں میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کی شریانیں صاف شفّاف ہوگئیں، دل زیادہ صحتمند اور مضبوط ہو گیا یہ سب ایک اینزائمSIRT1 کے متحرک ہونے کی وجہ سے ہوا جو کہ عمرسے متعلق بیماریوں کے علاج کے لئے کا فی مفید مانا جاتا ہے۔

Salk Institute for Biological Studies اور جامعہ کیلیفورنیا کے محققین نے ابھی حال ہی میں یہ دریافت کیا ہے کہ اگر پھلوں والی مکّھی کی آنت کے خلیوں میں موجود اس جین (dPGC-1) میں کچھ ردّ وبدل کی جائے تو ان مکھّیوں کی اوسط عمر میں50% اضافہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا جنیاتی ردّ وبدل کیڑوں کی عمر درازکر سکتا ہے۔ یہی جین انسانوں میں بھی موجود ہوتا ہے۔ 2011ء میں سوئیڈش سائنسدان نے ایک ایسا اینزائم دریافت کیا تھا جو کہ انسانوں میں خوراک کی طلب کو کم کرتا ہے اورکم خوراک خوری انسانوں کی طویل العمری کا سبب ہے۔

آکسیجن، انسانی حیات کا اہم ترین عنصر بھی عمر رسیدگی کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ آ کسیجن کا متحرک عنصر (oxygen radicals) DNA پر حملہ کرتا ہے اور اسے توڑتاہے اسی لئے anti-oxidants جیسا کہ وٹامن سی کو اس میں موجود متحرک آکسیجن کی وجہ سے صحت کے لئے مفید سمجھا جاتاہے۔

جمیل الرّحمٰن مرکز برائے جنیاتی تحقیق (Jamil-ur-Rahman Centre for Genomics Research )جامعہ کراچی میں میرے ذاتی عطئیے سے قائم کیا گیا ہے جہاں جدید و تیز رفتار جرثومے کی ترتیب جانچنے والا آلہ (sequencer) اور دیگر آلات برآمد کئے گئے ہیں اور آبادی کے مختلف گروپوں کی جینیات بناوٹ پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ biosaline زراعت پر بھی کام کیا جائے گا تاکہ تمام خوردنی فصلیں مثلاً گندم، مکئی اور چاول وغیرہ کو تھوڑی ردّوبدل کے بعد سمندری پانی میں اگایا جا سکے۔ اگلے30سالوں میں خوراک اور پانی تک رسائی دنیا کے لئے سب سے بڑا واحد چیلنج بن کر سامنے آئے گی کیونکہ اس بڑھتے ہوئے کرّہ ارض کے درجہِ حرارت کے نہایت خطرناک نتائج قحط اور خشک سالی کی صورت میں سامنے آئیں گے۔ پاکستان کو ان چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے سائنسی تحقیق کے ذریعے تیّار ہونا پڑے گا۔

ڈاکٹر عطاء الرحمان

بشکریہ روزنامہ "جنگ 

Dr. Attaur Rahman

"

Enhanced by Zemanta

Pervez Musharraf Corruption Exposed by Ansar Abbasi

$
0
0
 Pervez Musharraf Corruption Exposed by Ansar Abbasi


Enhanced by Zemanta

برطانیہ الطاف حسین کا حامی کیوں؟

$
0
0


اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ برطانیہ کے ایم کیو ایم کے سربراہ کو ملک میں مستقل رہائش اختیار کرنے اور لندن میں ان کی سرگرمیوں کو نظر انداز کی وجہ ایم کیو ایم کا وہ تعاون ہے جو وہ برطانوی انٹیلجنس ایجنسیوں کو مہیا کرتی ہے۔

گارڈین کی رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ کراچی شاید دنیا کا وہ واحد شہر ہے جہاں امریکہ نے برطانیہ کو انٹیلجنس کے حصول میں ’لیڈ رول‘ کی اجازت دے رکھی ہے۔

گارڈین کے مطابق کراچی میں امریکہ کا قونصل خانہ اب ایکٹو انٹیلجنس حاصل نہیں کرتا ہے اور یہ کام برطانیہ کےحوالے ہے۔ کراچی کی انٹیلجنس کے حوالے سے برطانیہ کا سب سے بڑا اثاثہ ایم کیو ایم ہی ہے۔

سازش نہیں پالیسی ہے

"برطانوی وزارت داخلہ کےایک اہلکار نےاخبار کو بتایا کہ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کا لندن میں قیام کسی برطانوی سازش کا حصہ نہیں ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ صحیح ہے کہ یہ سازش نہیں ہے بلکہ ایک پالیسی ہے۔"

رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم کے تعاون کی وجہ سے برطانیہ کو کراچی کی انٹیلیجنس کا حصول کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ برطانیہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس ایسا شخص موجود ہیں جس کی جماعت کے نمائندے پاکستان کی وفاقی کابینہ میں بھی موجود ہوتے ہیں۔

برطانوی وزارت داخلہ کےایک اہلکار نےاخبار کو بتایا کہ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کا لندن میں قیام کسی برطانوی سازش کا حصہ نہیں ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ صحیح ہے کہ یہ سازش نہیں ہے بلکہ ایک پالیسی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ماضی میں پاکستان کی کئی حکومتوں نے لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے رہنما کو پاکستان حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن برطانیہ نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے ایک مرتبہ برطانوی حکومت سے کہا تھا کہ ان کو کیسا لگے گا کہ اگر کوئی شخص پاکستان میں بیٹھ کر برطانیہ میں لوگوں کو تشدد پر اکسائے۔

تحریک انصاف کےحامیوں نے برطانوی پولیس کو الطاف حسین کے بارے میں بارہ ہزار شکایت درج کرائی ہیں

پاکستانی سیاستدان عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ایم کیو ایم کی سب سے بڑی مخالف جماعت بن کر ابھری ہے۔ کراچی میں تحریک انصاف کی ایک اہم رہنما کے قتل کے بعد عمران خان کے حامیوں نے برطانوی پولیس کو بارہ ہزار شکایت درج کرائی ہیں جس کے بعد برطانوی پولیس نے لندن میں الطاف حسین کی سرگرمیوں کی تحقیقات شروع کی ہیں۔

لندن کی پولیس یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کیا الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر کراچی میں لوگوں کو تشدد پر اکساتے ہیں۔ برطانوی پولیس کو ایک انتہائی بڑے مواد کی چھان بین کرنی ہے۔

رپورٹ کے مطابق الطاف حسین کے لندن میں قیام کے دوران دو بار برطانوی عدالتیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ ایم کیو ایم اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کا سہارا لیتی ہے۔

دو ہزار دس میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک پولیس افسر نے برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ اسے کراچی میں ایم کیو ایم سے خطرہ ہے۔

برطانوی جج لارڈ باناٹائن نے اس پولیس افسر کو سیاسی پناہ دینے حکم جاری کیا۔ جج نے تسلیم کیا کہ ایم کیو ایم نے دو سو ایسے پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے جنہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا تھا۔

برطانوی پولیس اب لندن میں ایم کیو ایم کے ایک رہنما عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کر رہی ہے۔ میٹرو پولیٹن پولیس کے بارہ افسران مکمل طور پر اس مقدمے پر مامور ہیں اور اب تک سینکڑوں لوگوں کے بیانات قلمبند کر چکے ہیں۔

ایم کیو ایم کے بھارت سے روابط

"قتل کی تحقیقات کے دوران برطانوی پولیس کو عمران فاروق کے گھر سے ایسے کاغذات بھی ملے ہیں جو پاکستان میں گرفتار ہونے والے ایم کیوایم کے کارکنوں کے ایسے بیانات کی تائید کرتے ہیں کہ انہیں بھارت میں دہشتگردی کی تربیت ملتی ہے"

گارڈین رپورٹ

رپورٹ کے مطابق قتل کی تحقیقات کے دوران برطانوی پولیس کو عمران فاروق کے گھر سے ایسے کاغذات بھی ملے ہیں جو پاکستان میں گرفتار ہونے والے ایم کیوایم کے کارکنوں کے ایسے بیانات کی تائید کرتے ہیں کہ انہیں بھارت میں دہشت گردی کی تربیت ملتی ہے

گارڈین نے بھارت سے ایم کیو ایم کے ساتھ اپنے تعلقات سے متعلق جاننا چاہا لیکن بھارت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔

میٹرو پولیٹن پولیس نے لندن میں ایم کیو ایم کے دفاتر پر چھاپے کے دوران 150,000 پونڈ اور مشرقی لندن کے علاقے مل ہل میں الطاف حسین کی رہائش سے0 250,00 پونڈ برآمد کیے۔ پولیس یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ اتنی بڑی رقم وہاں کیسے پہنچی۔

رپورٹ کے مطابق الطاف حسین کےخلاف تحقیقات انتہائی پیچدہ معاملہ ہے۔ پاکستانی ریاست میں کچھ عناصر ایم کیو ایم کا تحفظ چاہتے جبکہ ملک کی بڑی انٹیلجنس ایجنسی آئی ایس آئی اس کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتی ہے۔

الطاف حسین کو مستقل سکونت دینے کا فیصلہ ایک ’دفتری غلطی‘ کا نتیجہ تھا: رپورٹ

البتہ پاکستان میں حالیہ انتخابات کے نتائج سے ایم کیو ایم کمزور ہوئی ہے اس بات کا کم لیکن امکان موجود ہے کہ نواز شریف حکومت ایم کیو ایم کا تحفظ میں پچھلی حکومتوں سے کم دلچسپی کا مظاہرہ کرے گی۔

برطانوی پولیس نےحالیہ ہفتوں میں الطاف حسین کےخلاف جو کارروائیاں کی ہیں ان میں ان کےگھر اور دفاتر پر چھاپوں کےعلاوہ ان کے بھانجے اشتیاق احمد کو گرفتار کرنا ہے۔ اشتیاق احمد کو کس الزام پر گرفتار کیاگیا تھا اس کے بارے میں برطانوی پولیس کچھ بتانے کے لیے تیار نہیں۔ اشتیاق احمد کو ستمبر تک ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے۔

ہوم آفس کی غلطی

"پاکستانی سمجھتے ہیں کہ برطانوی حکومت الطاف حسین کی حامی ہے۔ وہ اس سلسلے میں الطاف حسین کو برطانیہ میں مستقل سکونت کا حوالہ دیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایک برطانوی اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر تسلیم کیا کہ 1999 میں الطاف حسین کو مستقل سکونت دینے کا فیصلہ ایک ’دفتری غلطی‘ کا نتیجہ تھا۔"

گارڈین رپورٹ

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پاکستانی سمجھتے ہیں کہ برطانوی حکومت الطاف حسین کی حامی ہے۔ وہ اس سلسلے میں الطاف حسین کو برطانیہ میں مستقل سکونت کا حوالہ دیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایک برطانوی اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر تسلیم کیا کہ 1999 میں الطاف حسین کو مستقل سکونت دینے کا فیصلہ ایک ’دفتری غلطی‘ کا نتیجہ تھا۔

رپورٹ کے مطابق ہوم آفس نے کئی بار پوچھنے کے باوجود اس ’دفتری غلطی‘ کی وضاحت نہیں کی۔

پاکستانی الطاف حسین کے اس خفیہ خط کا بھی حوالہ دیتے ہیں جو انہوں نے نائن الیون کے واقعے کے دو ہفتوں بعد برطانوی حکومت کو لکھا تھا۔ اس خط میں الطاف حسین نے برطانوی حکومت کے لیے افغانستان اور پاکستان میں انٹیلیجنس اکھٹےکرنے کے لیے اپنے تعاون کا یقین دلایا۔الطاف حسین نےبرطانوی حکومت کو یقین دلایا کہ وہ پانچ دنوں کے نوٹس پر لاکھوں لوگوں کو دہشتگردی کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے اکھٹے کر سکتے ہیں۔

برطانوی حکومت ماضی میں ایسے کسی خط کی تردید کرتی رہی ہے لیکن اب اسے تسلیم کر لیا ہے۔

Enhanced by Zemanta


بنگلہ دیش: عوامی ليگ کی جیت پر سوالیہ نشان

$
0
0

پانچ جنوری کو دسویں عام انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے جارہے ہیں تاہم پورا انتخابی عمل اپنے آپ میں ہی مشکلات سے دوچار ہے۔

ملک کی اہم اپوزیشن پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ( بی این پی ) اور اس کی اتحادی جماعتوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے کیونکہ حکمراں جماعت بنگلہ دیش عوامی لیگ ( بي اے ایل ) نے انتخابی عمل کے دوران ایک غیر جانبدار حکومت کی تشکیل میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔

حزب اختلاف کا مطالبہ ہے کہ انتخابات سے پہلے وزیر اعظم شیخ حسینہ استعفی دیں اور ایک غیر جانبدار نگراں حکومت قائم کریں۔

دوسری جانب حکومت نے یہ مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات آئینی طور پر ضروری ہیں اور یہ پانچ جنوری کو ہی ہوں گے۔

بنگلہ دیش میں جمہوری عمل اس لیے خطرے میں ہے کیونکہ اپوزیشن کی غیر موجودگی میں حکمراں عوامی لیگ زبردست اکثریت سے فتح یاب ہو سکتی ہے۔

دریں اثنا امریکہ اور یورپی یونین نے اپنے مبصرین بھیجنے سے انکار کر دیا ہے اور اس فیصلے سے ان خدشات کو اور تقویت ملی ہے۔

انتخابات کے دن تشدد پر قابو رکھنا بھی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ دارالحکومت ڈھاکہ سمیت ملک کے کئی حصوں میں دونوں پارٹیوں کے کارکنوں کے درمیان گذشتہ کچھ ہفتوں کے دوران پرتشدد تصادم ہوئے ہیں۔

بنگلہ دیش حالیہ دنوں پرتشدد واقعات کا شکار رہا

روایتی طور پر بنگلہ دیش میں انتخابات کے دوران ایک غیر جانبدار نگراں حکومت ہوتی تھی تاکہ انتخابی عمل میں غیر جانبداری برقرار رکھی جا سکے لیکن عوامی لیگ حکومت نے آئین میں ترمیم کے ذریعے کل جماعتی حکومت کے تحت انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

سابق وزیر اعظم اور بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا کہتی ہیں کہ حکمراں پارٹی کی حکومت انتخابی عمل کی غیر جانبداری پر اثرانداز ہوگی۔

اپوزیشن کی غیر موجودگی میں 300 میں سے 154 سیٹوں پر عوامی لیگ اور اس کے اتحادی بلامقابلہ منتخب ہوسکتے ہیں۔

تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ اس سے ملک میں مزید انتشار پیدا ہوگا کیونکہ حزب اختلاف اپنی مخالفت جاری رکھیں گے۔

وزیر اعظم شیخ حسینہ اور بی این پی لیڈر خالدہ ضیا سخت ترین سیاسی حریف ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں میں دونوں باری باری حکومت اور اپوزیشن میں رہی ہیں۔

موجودہ سیاسی منظر نامے کے تحت انتخابات کے بعد ان کی مخالفت اپنی انتہا کو پہنچ سکتی ہے۔

سابق صدر حسین محمد ارشاد اور ان کی جٹيا پارٹی (جے پی) ان انتخابات میں ایک اہم حریف کے طور پر ابھری ہیں۔ بی اے ایل اور بی این پی کے بعد جے پی پارلیمنٹ میں تیسری سب سے بڑی پارٹی ہے۔

انتخابات کے دوران امن و امان بحال رکھنا حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہوگا

دراصل 1991 میں جمہوریت کی بحالی کے بعد ہی اس کی موجودگی قابل ذکر رہی ہے۔

بنگلہ دیش میں سیاسی استحکام ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ انتخابی مہم کے دوران ہڑتال اور تشدد کے واقعات جاری ہیں۔ بے روزگاري، غربت، بدعنوانی، مہنگائی، صنعتی حادثات اور انسانی حقوق کی پامالی دوسرے بڑے مسائل ہیں۔

دا ایشیا فاؤنڈیشن کے ستمبر 2013 کے سروے کے مطابق 75 فی صد ووٹر چاہتے ہیں کہ انتخابات کے دوران ایک غیر جانبدار نگراں حکومت رہے۔ سیاسی تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ کتنے لوگ ووٹ کے لیے باہر نکلتے ہیں۔

اسلام پسند پارٹی جماعت اسلامی پر لگنے والی پابندی انتخابات کا ایک علیحدہ مسئلہ ہے۔ جماعت کے سیینیئر لیڈر عبدالقادر ملّا کو سنہ 1971 کی جدوجہد آزادی میں مجرم پائے جانے کے بعد 13 دسمبر کو پھانسی دی گئی۔ یہ سزا ملک کی مختصر تاہم پرخون تاریخ کا ایک بڑا واقہ ثابت ہوئی۔

ان کی موت کی سزا پر سخت رد عمل سامنے آیا اور ملک میں بڑے پیمانے پر پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔

امریکہ، یورپی یونین اور روس نے اپنے مبصرین کو بنگلہ دیش بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس سے ملک کی شبیہ اور اس کے خارجہ تعلقات کو نقصان پہنچا ہے۔

کئی غیر ملکی مبصرین انتخابات کی تنقید کر رہے ہیں کیونکہ 154 نشستوں پر بلا مقابلہ جیت سے بی اے ایل کو واضح اکثریت حاصل ہو جائے گیا اور یہ نتیجہ عوام کے جذبات کی ترجمانی تو نہیں اور اسے شاید بین الاقوامی برادری بھی آسانی سے ہضم نہیں کر پائے۔

تجزیہ نگار ان انتخابات پر بھارت کے رد عمل پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں کیونکہ روایتی طور پر حکمراں عوامی لیگ سے بھارت کے اچھے تعلقات رہے ہیں۔

Bangladesh Elections

 

Enhanced by Zemanta

برہمن، سید اور جنرل اور جنرل اگر سید بھی ہو تو؟

$
0
0

جنوری دو ہزار چودہ کو اگر بھٹو ہوتے تو چھیاسی برس کے ہوتے۔ لیکن یہ شاید میری خواہش ہے۔ کیونکہ آج تک پاکستان میں جتنے بھی گورنر جنرل یا صدر بنے ان میں سوائے فضل الہی چوہدری (بیاسی سال) اور غلام اسحاق خان (اکیانوے سال ) کسی نے بھی اسّی کا ہندسہ پار نہیں کیا جبکہ وزیرِ اعظم تو ایک بھی ایسا نہیں گذرا جس نے اسّی واں برس دیکھا ہو۔

مگر بھٹو صاحب آج بطورِ خاص یوں یاد آئے کہ جب وہ کال کوٹھڑی میں تھے تو انہیں دانتوں کی شدید تکلیف ہوتی رہی۔ تاہم ضیا حکومت نے جیل کے ہسپتال میں ہی ان کا علاج جاری رکھا اور ان کے ذاتی ڈینٹسٹ ڈاکٹر ظفر نیازی کو کبھی زحمت نہیں دی جبکہ کمبائنڈ ملٹری ہسپتال بھی اڈیالہ سے ایک پتھر کی مار پے تھا۔

واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر نواب محمد احمد خان کے قتل میں بھٹو صاحب شاید اس سے کم ملوث تھے جتنے پرویز مشرف اکبر بگٹی کے قتل یا جامعہ حفصہ کی کاروائی میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔ مگر بھٹو کی ضمانت نہیں ہوسکی اور مسعود محمود کی سلطانی گواہی نے بھٹو کو تختہِ دار تک لے جانے کا جواز بھی فراہم کردیا۔

لیکن جب سے اصلی گواہوں کے غائب یا منحرف ہونے کا فیشن ہوا ہے کوئی کسی مقدمے میں سلطانی گواہ بننے کو بھی تیار نہیں۔ بلکہ گواہ کیا فی زمانہ تو بہت سے وکیل تک کسی انفرادی، اجتماعی یا ادارتی دباؤ کی تاب نہیں لا سکتے اور اپنے وکالت نامے خود ہی منسوخ کر لیتے ہیں۔

کون پسند کرے گا ۔۔۔

بھلا کون پسند کرے گا کہ کسی کو انصاف دلاتے دلاتے خود ہی اپنے بیڈروم کے پنکھے سے جھول جائے یا تفتیش کرتے کرتے پھولے پیٹ کے ساتھ کسی نہر کے پل کے نیچے کسی جھاڑی میں اٹکا پایا جائے یا اتفاقاً اپنا ہی ریوالور اس طرح چل جائے کہ گولی اپنی ہی کنپٹی پھاڑتی نکل جائے۔

بلکہ وکیل کیا متعدد جج بھی تاریخوں پر تاریخیں ڈالتے چلے جاتے ہیں تاکہ ان کا تبادلہ ہوجائے یا وہ چھٹی لے لیں یا پھر ترقی پا کر مقدمہ کسی اور کے حوالے کرجائیں۔ بلکہ جج ہی کیا خود کئی انویسٹی گیٹرز اپنی ہی تفتیش کے نتائج سے خوفزدہ ہو کر مجرم کے قدموں کے نشانات کا رخ دروازے تک پہنچنے سے ذرا پہلے ہی احتیاطاً جنگل کی طرف موڑ دیتے ہیں۔

بھلا کون پسند کرے گا کہ کسی کو انصاف دلاتے دلاتے خود ہی اپنے بیڈروم کے پنکھے سے جھول جائے یا تفتیش کرتے کرتے پھولے پیٹ کے ساتھ کسی نہر کے پل کے نیچے کسی جھاڑی میں اٹکا پایا جائے یا اتفاقاً اپنا ہی ریوالور اس طرح چل جائے کہ گولی اپنی ہی کنپٹی پھاڑتی نکل جائے۔

یا مرنے کے بعد چوتھی منزل سے کود جائے۔آج کل تو عزرائیل بھی نقاب پوش ہو کر نائن ایم ایم پستول لگا کے موٹرسائیکل پرگھومتا ہے۔ چنانچہ فی زمانہ جو یہ کہتا ہے کہ کاغذ پر بندوق کی نال سے دستخط نہیں ہوسکتے ذرا سامنے آ کر تو کہے۔

چار اپریل انیس سو اناسی تک جنتا کو تین طرح کے دھماکہ خیز مواد رٹے ہوئے تھے۔ یعنی ڈائنامائیٹ، آر ڈی ایکس اور پلاسٹک ایکسپلوسیو۔ آج تو اللہ جانے کتنے قسم کے پھاڑو موادات و مفسدات مہیا ہیں۔ حتیٰ کہ فرینڈلی آئی ای ڈیز ( امپروائزڈ ایکسپلوسیو ڈیوائس) بھی آ گئے ہیں جو پھٹتے وٹتے نہیں صرف ڈرانے ورانے کے کام آتے ہیں۔ (ملزم سمجھنے والوں کو ڈرانے اور ملزم کو ورانے کے لیے)

ایسے ماحول میں ایسے میڈیائی پنڈتوں کو دیکھ سن کے بڑا اچھا لگتا ہے جو معصوم معصوم سوالات سے باسکٹ بال کھیل رہے ہیں۔ مثلاً کیا مشرف صاحب کے باڈی گارڈز ایم بی بی ایس بھی تھے جنہوں نے سینے میں درد اٹھتے ہی ہارٹ اٹیک بھانپ لیا اور ہنگامی طبی امداد کے لیے اچھی بھلی عدالت جاتی گاڑی کا رخ دو منٹ کے فاصلے پر واقع پولی کلینک یا آٹھ منٹ دور پمز ہسپتال کی جانب موڑنے کے بجائے پچیس منٹ کی ممکنہ جان لیوا مسافت پر قائم آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرف کر دیا۔ حالانکہ دل کے دورے کے بعد مریض کی زندگی کے لیے ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔

یہ سوال اس وقت پوچھنا چاہیے تھا

یہ سوال کہ صرف مشرف ہی کیوں؟ انہوں نے اکیلے تو سب کچھ نہیں کیا۔ باقی شریکِ گناہ کہاں ہیں؟

مگر یہ سوال تو اس وقت بھی پوچھنا چاہیے تھا جب جوہری بم ساز ڈاکٹر قدیر سے ٹی وی پر کہلوایا گیا تھا کہ وہ تنِ تنہا جوہری مواد کی سمگلنگ میں ملوث ہیں لہٰذا اکیلے ہی شرمندہ ہیں، لہٰذا اکیلے ہی معافی مانگتے ہیں۔

یا یہ سوال کہ صرف مشرف ہی کیوں؟ انہوں نے اکیلے تو سب کچھ نہیں کیا۔ باقی شریکِ گناہ کہاں ہیں؟

مگر یہ سوال تو اس وقت بھی پوچھنا چاہیے تھا جب جوہری بم ساز ڈاکٹر قدیر سے ٹی وی پر کہلوایا گیا تھا کہ وہ تنِ تنہا جوہری مواد کی سمگلنگ میں ملوث ہیں لہٰذا اکیلے ہی شرمندہ ہیں، لہٰذا اکیلے ہی معافی مانگتے ہیں۔

آسان اردو میں اس کا ترجمہ یوں ہوگا کہ فوج کی نگرانی میں جاری جوہری پروگرام کے ناظمِ اعلیٰ سے لے کر کہوٹہ کے گیٹ پر اونگھنے والے سنتری تک کسی کو کبھی بھنک نہیں ہوئی کہ میں سینکڑوں سینٹری فیوج اور حساس نقشے بش کوٹ اور پتلون کی جیبوں میں اڑس کے اڑنے والے قالین پر بیٹھ کر پیونگ یانگ، تہران اور دوبئی آریا ہوں جاریا ہوں، جا ریا ہوں آریا ہوں۔

ڈاکٹر قدیر تو تنِ تنہا جوہری ہوڈینی بن سکتے ہیں مگر کمانڈو مشرف ایک معمولی سا آئین بھی اکیلے نہیں توڑ سکتے؟ واہ سائیں واہ۔

یا یہ دلیل کہ بارہ اکتوبر ننانوے کو حاضر سروس چیف آف آرمی سٹاف نے ٹیک اوور کیا اور تین نومبر دو ہزار سات کی ایمرجنسی اور آئین کی جزوی معطلی بھی چیف آف آرمی سٹاف کا کام تھا لہٰذا ان پر کسی سول عدالت میں مقدمہ نہیں چل سکتا بلکہ کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔

بات یہ ہے کہ اگر کورٹ مارشل اتنا ہی آسان ہوتا تو جنرل یحییٰ خان اور جنرل نیازی کا بھی ہوجاتا۔

برہمن، سید اور جنرل اور جنرل اگر سید بھی ہو تو؟؟؟ بات کہیں سے کہیں نکل جائے گی چنانچہ مٹ

وسعت اللہ خان

 

Enhanced by Zemanta

Dream of Pakistan By Dr. Abdul Qadeer Khan

$
0
0


Dream of Pakistan By Dr. Abdul Qadeer Khan
Enhanced by Zemanta

Qazi Hussain Ahmed and Shahbaz Sharif by Ansar Abbasi

$
0
0

Qazi Hussain Ahmed and Shahbaz Sharif by Ansar Abbasi
Enhanced by Zemanta

اردو زبان کا مقدمہ

$
0
0

 ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے صوبے کے پورے نظام تعلیم کو انگلش میڈیم بنادیا ہے اور پنجاب میں اِس سال سے پہلی جماعت کے طلبہ بھی انگریزی میں تعلیم حاصل کریں گے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ صوبے میں چینی زبان کی تعلیم کا اہتمام کرے گی اور بہت جلد صوبے کے طلبہ پر انگریزی، اردو اور سندھی کے ساتھ چینی زبان کا بوجھ بھی ڈال دیا جائے گا۔

دنیا پر نہ کبھی گونگوں نے حکومت کی ہے، نہ انھوں نے ترقی کے میدان میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہے۔ ورنہ ہمارے حکمران قوم سے کہتے کہ اب تجھے گونگوں کی زبان سیکھنی ہوگی۔ اس صورتِ حال کو دیکھا جائے تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ میاں شہبازشریف اور سید قائم علی شاہ جیسے لوگ ایک سطح پر لسانی عسرت اور دوسری سطح پر ایسے لسانی فاقے کا شکار ہیں جو قوموں کو ہلاک کرسکتا ہے۔

جہاں تک میاں شہبازشریف کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں لوگ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے صوبے پر انگریزی امریکہ کے اشارے پر مسلط کی ہے جو ملک کے سب سے بڑے اور ’’حکمران صوبے‘‘ کے عوام کو تہذیبی خلا سے دوچار کرکے پاکستان پر وہ نسل مسلط کرنا چاہتا ہے جس کا اس کے مذہب، تہذیب، تاریخ اور لسانی ورثے سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ہمارے ملک میں غیرملکی سازش کا نظریہ بہت مقبول ہے اور اس کے مقبول ہونے کے تاریخی اسباب ہیں، لیکن سازش خفیہ ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی سازش سے کہیں زیادہ منصوبے، پالیسی اور حکمت ِعملی سے کام لے رہے ہیں۔

پنجاب میں انگریزی کا تازہ ترین تسلط بھی سازش سے زیادہ امریکہ کی پالیسی اور حکمت عملی ہے اور میاں شہبازشریف امریکہ کی پالیسی کے تناظر میں ’’مقامی لارڈ میکالے‘‘ بن کر ابھرے ہیں۔ لارڈ میکالے ہندوستان کے لوگوں کو ان کی تہذیب سے کاٹ کر انھیں انگریزی کا دائمی غلام بنانا چاہتا تھا اور اس کی تعلیمی حکمت عملی بدنیتی پر مبنی تھی۔ لیکن میاں شہبازشریف جو کچھ کررہے ہیں ’’نیک نیتی‘‘ سے کررہے ہیں، اس لیے وہ لارڈ میکالے سے ہزار گنا زیادہ خطرناک اور قابلِ مذمت ہیں، اس لیے کہ انھوں نے ’’سازش‘‘ کو ’’پالیسی‘‘ بنادیا ہے۔ سید قائم علی شاہ کا مسئلہ سازش سے زیادہ کم فہمی سے متعلق ہے۔ انھیں معلوم ہی نہیں کہ چینی زبان میں چین ترقی کرسکتا ہے، پاکستان نہیں۔ پاکستان اگر ترقی کرسکتا ہے تو صرف اردو، سندھی، پنجابی، پشتو یا بلوچی میں۔ اس لیے کہ زبان کا تعلق کسی قوم کی تہذیب، اس کے انفرادی اور اجتماعی شعور اور لاشعور سے ہوتا ہے۔ اور انگریزی اور چینی نہ ہماری تہذیب میں جڑیں رکھتی ہیں اور نہ ہی وہ ہمارے انفرادی اور اجتماعی شعور اور لاشعور کا حصہ ہیں۔

پاکستان میں زبان کی اہمیت اور اس کے بحران پر گفتگو کرتے ہوئے بانیٔ پاکستان قائداعطم محمد علی جناح کا حوالہ دینا ناگزیر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قائداعظم نے 1949ء میں فرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان صرف اردو ہوگی۔ اہم بات یہ ہے کہ قائداعظم نے یہ بات مشرقی پاکستان میں کہی تھی جہاں بنگلہ زبان کا تعصب شدید تھا۔ لیکن بدقسمتی سے قائداعظم کے لسانی مؤقف کو سیاسی تناظر میں دیکھا اور بیان کیا جاتا ہے، حالانکہ قائداعظم کے لسانی مؤقف کا تہذیبی اور لسانی پہلو سیاسی پہلو سے ہزار گنا اہم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو قائداعظم کی مادری زبان نہیں تھی، تعلیمی زبان نہیں تھی، اظہار کی زبان نہیں تھی، اور نہ ہی قائداعظم اردو میں سوچتے تھے۔ ان کی مادری زبان گجراتی تھی، تعلیم کی زبان انگریزی تھی۔ قائداعظم گفتگو بھی انگریزی میں کرتے تھے اور سوچتے بھی انگریزی ہی میں تھے۔ چنانچہ اس تناظر میں دیکھا جائے تو انھیں انگریزی کو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان بنانا چاہیے تھا۔ ہمارے سیکولر اور لبرل حضرات کا اصرار ہے کہ قائداعظم پاکستان کو جدید اور سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو انگریزی ہی کو قائداعظم کا انتخاب ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ انگریزی ’’جدید‘‘ تھی، اور اردو جدید لوگوں کے نزدیک ایک ’’پسماندہ‘‘ زبان تھی۔ مگر قائداعظم اردو کی حمایت میں تقریباً مجاہد، یا سیکولر لوگوں کی اصطلاح میں ’’Millitant‘‘ بن کر کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے اپنے انفرادی ذوق کو ملت کے اجتماعی ذوق پر قربان کردیا۔ لیکن میاں شہبازشریف قائداعظم سے بھی بڑے رہنما اور ان سے بھی بڑے انگریزی دان بن کر ابھرے ہیں، اور جو بات گویا قائداعظم کو بھی نہ سوجھی وہ میاں شہبازشریف کو سوجھ گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قائداعظم نے انگریزی کے بجائے اردو کا مقدمہ کیوں لڑا؟ کیا وہ یو پی اور سی پی کے کسی ’’لسانی‘‘ تعصب میں مبتلا تھے؟ کیا وہ پاکستان بنتے ہی بنگالیوں کو ناراض کرنا چاہتے تھے؟ کیا وہ چاہتے تھے کہ قوم جدید نہ بنے؟

ایسا نہیں ہے۔ قائداعظم نے اردو کا مقدمہ ’’میرٹ‘‘ کی بنیاد پر لڑا۔ انھیں معلوم تھا کہ اردو نے گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں عربی اور فارسی سے زیادہ بڑا مذہبی ادب پیدا کیا ہے۔ اردو میں بڑے مفسر پیدا ہوئے ہیں۔ اردو نے علم حدیث کے دائرے میں بڑا کام پیش کیا ہے۔ اردو نے سیرت کے موضوع پر سیرت کے تقاضوں کا حق ادا کرنے کی شاندار کوشش کی ہے۔ اردو نے فقہ کی عظیم الشان روایت کو زندہ رکھا اور اسے ایک حد تک آگے بڑھایا ہے۔ اردو نے شاعری کی عظیم الشان روایت پیدا کی ہے۔ اردو نے برصغیر کیکسی بھی دوسری زبان سے بڑھ کر ترجمے کی روایت کو اپنایا ہے۔ اردو نے تمام اہم علوم و فنون میں اظہار کے سانچے پیدا کیے ہیں۔ اردو کی وسیع المشربی کا یہ عالم ہے کہ اس نے دنیا کی کسی بھی زبان سے سیکھنے سے انکار نہیں کیا۔ اردو دِلّی میں پیدا ہوئی یا یوپی میں یا پنجاب میں… اس بارے میں وثوق سے کچھ بھی کہنا دشوار ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اردو پورے برصغیر کی زبان ہے اور اس نے یہ اہمیت انگریزی کی طرح نوآبادیاتی تجربے سے حاصل نہیں کی، اس نے یہ مقام سرکار اور دربار کی سرپرستی سے حاصل نہیں کیا، بلکہ اردو کی حیثیت اس کے مزاج اور اس کی تخلیقی و تہذیبی قوت کا حاصل ہے۔ اس قوت نے پورے برصغیر کے مسلمانوں ہی کو نہیں ہندوئوں کو بھی گہرائی سے متاثر کیا ہے۔ اس سلسلے میں منشی پریم چند، رگھوپتی سہائے، فراق اور راجندر سنگھ بیدی کی مثال پیش کردینا ہی کافی ہے۔ پریم چند اردو افسانے کے بنیاد گزار ہیں۔ فراقؔ اردو کے تین بڑے نقادوں میں سے ایک ہیں اور ان کی غزل جدید غزل کی سب سے توانا آواز ہے۔ رہے راجندر سنگھ بیدی تو وہ بلاشبہ اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار ہیں۔ اردو کی قوت کا ایک مظہر یہ ہے کہ بھارت میں سنیما کی پوری روایت اردو پر کھڑی ہے۔ چنانچہ قائداعظم کو معلوم تھا کہ پاکستانی قوم کو اردو سے کاٹنا اس کو اس کی مذہبی، تہذیبی اور تاریخی روایت سے کاٹ دینا ہے۔

دیکھا جائے تو میاں شہبازشریف قائداعظم کے ’’کارکن‘‘ بننے کے بھی لائق نہیں، مگر وہ لسانی محاذ پر قائداعظم کے ’’استاد‘‘ بن کر کھڑے ہوگئے ہیں، حالانکہ انھیں زبان کے بارے میں الف ب بھی معلوم نہیں۔ انھیں کچھ اور کیا یہ تک معلوم نہیں کہ پڑھنے کی زبان پڑھنے سے آتی ہے، لکھنے کی زبان لکھنے سے آتی ہے، بولنے کی زبان بولنے سے آتی ہے اور سوچنے کی زبان سوچنے سے آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے نصاب کے سوا اور کہاں انگریزی پڑھیں گے؟ اور اگر نہیں پڑھیں گے تو ان کی پڑھنے کی زبان کیسے بہتر ہوگی؟ سوال یہ ہے کہ ہمارے انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم اسکول کے کام اور امتحانات کی کاپیوں کے سوا اور کہاں انگریزی لکھیں گے؟ اور اگر نہیں لکھیں گے تو انھیں لکھنے کی زبان کیسے آئے گی؟ اور اگر ہمارے یہ طالب علم کلاس روم کے سوا کہیں انگریزی نہیں بولیں گے تو انھیں بولنے کی زبان کہاں سے آئے گی؟ اور اگر ہمارے یہ طالب علم کلاس کے سوا کہیں بھی انگریزی میں نہیں سوچیں گے تو ان کی سوچنے کی زبان کس طرح ترقی کرے گی؟ اور اگر یہ سب کچھ نہیں ہوگا تو قوم کو انگریزی میڈیم بنانے کا کیا فائدہ ہے؟ اس طرح پنجاب کی نئی نسلیں اپنی مذہبی اور تہذیبی میراث اور قومی نفسیات سے بھی محروم ہوجائیں گی اور وہ ’’ترقی‘‘ بھی نہیں کرسکیں گی، یہاں تک کہ وہ بیچاری ’’جدید‘‘ بھی نہیں کہلا سکیں گی۔ اس اعتبار سے سوال یہ ہے کہ میاں شہبازشریف پنجاب سے محبت کررہے ہیں یا اس کے خلاف سازش کررہے ہیں؟

بعض لوگ کہتے ہیں کہ انگریزی معلومات اور علم کی زبان ہے، اور وہ غلط نہیںکہتے۔ لیکن جو لوگ یہ بات کہتے ہیں انھیں یہ معلوم نہیں کہ کسی قوم میں تخلیق کی صلاحیت، معلومات یا علم کو دماغ میں جمع کرنے یا Accumulate Assimilate کرنے سے پیدا ہوتی ہے، اور معلومات اور علم کا انجذاب اس زبان میں ہوسکتا ہے جو قوم کی تہذیبی زبان ہو، جو اس کے مجموعی ماحول میں موجود ہو، اور جس سے وہ شعوری طور پر ہی نہیں لاشعوری طور پر بھی اثرات قبول کررہی ہو۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں ایسی زبان یا تو اردو ہے یا پھر پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ میاں شہبازشریف اگر پنجاب کو ’’پنجابی میڈیم‘‘ اور قائم علی شاہ سندھ کو ’’سندھی میڈیم‘‘ بنادیں گے تو وہ اپنے صوبے کے لوگوں کو زیادہ تخلیقی بنائیں گے۔ اس لیے کہ یہ زبانیں کم از کم ہمارے صوبوں کے ماحول کا حصہ ہیں۔ انگریزی سے ہمارے تعلق کی ایک مثال خود اقبال کی شخصیت ہے۔ اقبال پانچ چھ زبانیں جانتے تھے۔ انھوں نے اردو اور فارسی میں شاعری کی اور انگریزی میں ’’خطبات‘‘ لکھی۔ خطبات بھی ظاہر ہے کہ اقبال ہی کی تصنیف ہے، اس لیے اس کی فکری اور تخلیقی سطح بھی بلند ہے، لیکن اس کے باوجود خطبات کی سطح اقبال کی اردو اور فارسی شاعری کا پاسنگ بھی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزی اقبال کی تہذیبی زبان نہیں ہے۔ اس کے برعکس اردو اور فارسی دونوں اقبال کی تہذیبی زبانیں ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر اقبال کا معاملہ یہ ہے تو انگریزی کے سلسلے میں عام لوگوں کا قصہ کیا ہوگا! اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم انگریزی کو دیس نکالا دے دیں۔ مسلمان دنیا کی کسی بھی زبان کے خلاف نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں زبانوں کو اپنی نشانی کہا ہے۔ چنانچہ ہمیں پوری پاکستانی قوم کو انگریزی سکھانی چاہیے اور بہترین انگریزی سکھانی چاہیے، لیکن صرف اس لیے کہ وہ انگریزی کا عام کیا علمی متن بھی پڑھ اور سمجھ سکیں اور ضرورت کے تحت انگریزی میں تھوڑی بہت گفتگو کر سکیں۔

شاہنواز فاروقی

Enhanced by Zemanta
Viewing all 6213 articles
Browse latest View live