Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 6213 articles
Browse latest View live

History of Pakistan and US Relations By Shenawaz Farooqi

$
0
0


ہمارا زمانہ فتنۂ الفاظ کا زمانہ ہے۔ چنانچہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد انفرادی زندگی سے بین الاقوامی زندگی تک الفاظ کے ذریعے ایک دوسرے کو دھوکا دینے میں لگی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں کہیں صرف الفاظ کفایت کررہے ہیں، کہیں اصطلاحیں اور کہیں نعرے… لیکن ان سب کی بنیاد الفاظ ہیں۔ لوگ کہتے ہیں چنگیز خان انسانی تاریخ کی بدترین شخصیت تھا، اس نے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو قتل کیا۔ کہنے والے غلط نہیں کہتے۔ چنگیز خان واقعتاً ایک شقی القلب انسان تھا۔ لیکن اُس کی خوبی یہ تھی کہ وہ الفاظ اور اصطلاحوں سے کھیلنے اور ان کے ذریعے اپنی شقاوت کو خوشنما بنانے والا شخص نہیں تھا۔ چنگیز خان نے کبھی نہیں کہا کہ وہ انسانی آزادی کا احترام کرتا ہے۔ اس نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ جمہوریت کا علَم بردار ہے۔ اس کو کبھی یہ کہتے نہیں سنا گیا کہ میری قومی زندگی میں انسانی حقوق کے تحفظ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن ساری مغربی دنیا بالخصوص امریکہ خود کو انسانی آزادی کا محافظ، انسانی حقوق کا علَم بردار اور جمہوریت کا چیمپئن بھی کہتا ہے اور دوسری قوموں کے خلاف سازشیں بھی کرتا ہے۔ امریکہ کی سابق وزیرخارجہ میڈلین البرائیٹ سے بی بی سی ورلڈ پر ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ عراق پر عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے وہاں دس سال میں 10 لاکھ افراد دوائوں اور غذا کی قلت سے ہلاک ہوگئے، ان افراد میں 5 لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہتی ہیں۔ البرائیٹ نے ایک لمحے توقف کیا اور پھر پورے وثوق کے ساتھ فرمایا:

“It is acceptable and worth it.”

یعنی دس لاکھ معصوم لوگوں کی ہلاکتیں ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں اور ان پر ہمیں کوئی شرمندگی نہیں۔ یہاں تک کہ ہم انہیں گھاٹے کا سودا بھی نہیں سمجھتے۔

دیکھا جائے تو ’’پاک امریکہ تعلقات‘‘ ایک بھاری بھرکم عنوان ہے لیکن ان تعلقات کے پردے میں سازشوں کی ایک تاریخ چھپی ہوئی ہے۔ المناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے دو ملکوں کے تعلقات کو آقا اور غلام کے تعلق میں ڈھال دیا ہے، اور نہ صرف یہ بلکہ اس سے بھی بڑا جرم یہ کیا ہے کہ انہوں نے غلامی کے اس تجربے کو ’’مدلل‘‘ بنانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ لیکن پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کو پاکستان کے خلاف امریکہ کی سازشوں کی تاریخ کہنے کا کیا جواز ہے؟

جنرل ایوب خان نے اگرچہ مارشل لا 1958ء میں لگایا مگر امریکہ کی خفیہ دستاویزات سامنے آنے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ 1954ء سے امریکہ کے رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ سیاست دان ملک کو تباہ کررہے ہیں اور فوج انہیں ہرگز ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ جنرل ایوب کے ان رابطوں سے ظاہر تھا کہ جرنیل ملک کے سیاسی اور جمہوری نظام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، اور وہ 1958ء میں ان سازشوں کو نتیجہ خیز بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ امریکہ جمہوریت کو اپنا آئیڈیل کہتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ پوری دنیا میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لیے کام کررہا ہے، لیکن اس کے باوجود اُس نے جنرل ایوب کو ان کے عزائم سے باز رکھنے کی معمولی سی کوشش بھی نہ کی۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا اور انہیں امریکہ کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اہم بات یہ تھی کہ جنرل ایوب نے پاکستان کے جن سول حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کیا تھا وہ کمیونسٹ یا امریکہ مخالف نہ تھے۔ وہ سب کے سب امریکہ کے حامی بلکہ ’’امریکہ پرست‘‘ تھے، لیکن اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان میں جمہوریت کی بقا اور اسے فوجی آمریت سے محفوظ بنانے کے لیے کچھ نہ کیا۔ حالانکہ 1958ء سرد جنگ کا زمانہ تھا اور کمیونزم کے خلاف جنگ کے سلسلے میں امریکہ کو اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ پاکستان جیسے بڑے ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرے۔ لیکن امریکہ نے جمہوریت کے خلاف سازش میں جنرل ایوب کا بھرپور ساتھ دیا۔ لیکن یہ ساتھ خود جنرل ایوب کے لیے اتنا شرمناک بنا کہ ان کی خودنوشت کے عنوان تک میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ ہم امریکہ کے دوست ہیں اس کے غلام نہیں۔

پاکستان کے خلاف امریکہ کی ایک اور بڑی سازش 1962ء میں سامنے آئی۔ اس سال چین بھارت جنگ ہوئی۔ اس جنگ کا دائرہ وسیع تھا اور چینی قیادت کو معلوم تھا کہ بھارت اس جنگ میں اپنی پوری جنگی قوت جھونکنے پر مجبور ہوجائے گا۔ چنانچہ چین نے پاکستان سے کہا کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھائے۔ کشمیر تقسیم برصغیر کے فارمولے کی رو سے پاکستان کا حصہ ہے، چنانچہ پاکستان طاقت استعمال کرے اور کشمیر پر قبضہ کرلے۔ مگر یہ بات امریکہ کو معلوم ہوگئی اور اس نے پاکستان کے حکمرانوں سے کہا کہ وہ بھارت کے خلاف کارروائی سے گریز کریں۔ امریکہ نے پاکستان کو یقین دلایا کہ اگر وہ اس موقع پر بھارت کے خلاف اقدام سے باز رہا تو چین بھارت جنگ کے بعد امریکہ مسئلہ کشمیر کو حل کرا دے گا۔ لیکن چین بھارت جنگ ختم ہوگئی اور امریکہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں کوئی کردار ادا نہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ جب پاکستان کو مذکورہ یقین دہانی کرا رہا تھا تو پاکستان امریکہ، اور بھارت سوویت یونین کے حلقہ اثر میں تھا اور پنڈت نہرو خود کو سوشلسٹ کہا کرتے تھے۔ لیکن امریکہ نے اس کے باوجود دوست کی پیٹھ میں خنجر گھونپا اور اپنے دشمن کے دوست کو تقویت فراہم کی۔

1971ء کی پاک بھارت جنگ میں امریکہ کی سازشوں کی نئی صورتیں سامنے آئیں۔ مشرقی پاکستان کا بحران پاکستان کا داخلی مسئلہ تھا اور بھارت کو اس بحران میں مداخلت کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔ لیکن بھارت نے مداخلت کی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ اس مرحلے پر پاکستان نے امریکہ سے مدد کی درخواست کی جسے یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ امریکہ پاکستان کی مدد صرف اس صورت میں کرسکتا ہے جب اسے کسی کمیونسٹ ملک سے خطرہ لاحق ہو۔ لیکن جب پاکستان کا اصرار بڑھا تو امریکہ نے اپنا ساتواں بحری بیڑا پاکستان کی مدد کے لیے روانہ کرنے کا اعلان کیا، لیکن پاکستان ٹوٹ گیا اور امریکہ کا بحری بیڑہ کبھی پاکستان نہ پہنچ سکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ بیڑہ کبھی پاکستان کے لیے روانہ ہوا ہی نہ تھا۔ لیکن امریکہ کا اس جنگ میں اس سے بھی بھیانک کردار اُس وقت سامنے آیا جب پاکستان نے برادر اسلامی ملک اردن سے امریکی ساختہ ایف 104 طیارے طلب کیے۔ اس درخواست کے جواب میں اردن کے شاہ حسین نے 5 دسمبر 1971ء کو امریکہ کو ایک خط لکھا جس میں پاکستان کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے امریکہ سے درخواست کی کہ وہ اردن کو ایف 104 طیارے پاکستان کو فراہم کرنے کی اجازت دے۔ لیکن امریکہ نے اردن کو ایسا کرنے کی اجازت نہ دی۔ حال ہی میں سامنے آنے والی امریکہ کی خفیہ دستاویزات کے مطابق جنرل یحییٰ نے اس صورت حال میں امریکہ سے کہا کہ اگر وہ خود پاکستان کی مدد نہیں کرسکتا تو اردن کو ہی اس کی مدد کرنے دے، لیکن امریکہ نے جنرل یحییٰ کی بات کو بھی درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ یہاں تک کہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ 1971ء میں پاکستان امریکہ کا قریب ترین اتحادی تھا۔ وہ نیٹو اور سینٹو کا رکن تھا۔ بلاشبہ بھارت کمیونسٹ ملک نہیں تھا لیکن وہ کمیونزم کی سب سے بڑی علامت سوویت یونین پر انحصار کرنے والا ملک تھا اور اس کی کمزوری خطے میں سوویت یونین کی کمزوری اور اس کی قوت سوویت یونین کی قوت تھی، لیکن اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے بحران میں نہ خود پاکستان کی مدد کی اور نہ اردن کو اس کی مدد کرنے دی۔ امریکہ کے اس طرزِعمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ قوانین کی بہت زیادہ پابندی کرنے والا ملک ہے۔ حالانکہ عملی صورت حال یہ ہے کہ امریکہ نے درجنوں جنگیں ایجاد کی ہیں۔ درجنوں حکومتوں کے تختے الٹے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو کسی جواز کے بغیر قتل کیا ہے۔

امریکہ پاکستان کا کتنا ’’گہرا دوست‘‘ اور قوانین کا کتنا زیادہ پابند ہے اس کا اندازہ 1980ء کی دہائی میں ہونے والے ایف۔16 طیاروں کی خریداری کے معاملے سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے 1980ء کی دہائی میں امریکہ سے ایف۔16 طیارے خریدنے کے لیے ایک تجارتی سمجھوتہ کیا اور ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم پیشگی کے طور پر ادا کی، لیکن امریکہ نے سمجھوتے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے طیارے دینے سے انکار کردیا۔ اس کا کہنا تھاکہ پاکستان نے پریسلر ترمیم کی خلاف ورزی کی ہے چنانچہ امریکہ پاکستان کو ایف۔ 16 طیارے نہیں دے سکتا۔ یہ زیادتی کی انتہا تھی، لیکن امریکہ نے اس انتہا پر بھی قناعت نہ کی۔ اس نے نہ صرف یہ کہ طیارے نہیں دیے بلکہ پاکستان کی رقم ادا کرنے سے بھی انکار کردیا۔ تجارتی سمجھوتوں کی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ کسی ملک نے نہ چیز دی ہو نہ خریداری کی رقم لوٹائی ہو۔ امریکہ پاکستان کی یہ رقم بارہ سال تک دبائے بیٹھا رہا اور پھر بالآخر اُس نے اس کے عوض پاکستان کو کھانے کا تیل فراہم کیا۔ سوال یہ ہے کہ یہی دوستی ہے تو دشمنی کس کو کہتے ہیں؟ لیکن امریکہ کی دشمنی اور سازشوں کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوگیا۔

نائن الیون کے بعد جنرل پرویزمشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کردیا۔ پاکستان کے جرنیلوں نے امریکہ کے لیے فوج کو اپنی ہی قوم کے خلاف کھڑا کردیا۔ اس صورت حال کے نتیجے میں پاکستان کے پانچ ہزار فوجی اور تیس ہزار سے زیادہ عام شہری لقمہ اجل بن گئے۔ پاکستان کو 10 برسوں میں 70 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ لیکن امریکہ کے لیے سب کچھ گنوا دینے والوں کے ہاتھ میں ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ چیک پوسٹ جیسے سانحات آئے جن میں امریکہ نے پاکستان کی آزادی اور خودمختاری ہی کو نہیں امریکہ کے لیے قربانیاں دینے والی فوج کو بھی براہِ راست نشانہ بنایا۔ ایسا کرکے امریکہ نے یہ بتایا کہ وہ پاک فوج کو اپنی اتحادی نہیں کرائے کی فوج سمجھتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ پاکستان کے خلاف امریکہ کی سازشوں کی تاریخ کیوں بن گئی ہے؟

شاہنواز فاروقی

History of Pakistan and US Relations By Shenawaz Farooqi

Enhanced by Zemanta

History and Use of mobile phones

$
0
0


The history focuses on communication devices which connect wirelessly to the public switched telephone network. The transmission of speech by radio has a long and varied history going back to Reginald Fessenden's invention and shore-to-ship demonstration of radio telephony. The first mobile telephones were barely portable compared to today's compact hand-held devices. Along with the process of developing more portable technology, drastic changes have taken place in the networking of wireless communication and the prevalence of its use.
 The Second World War made military use of radio telephony links. Hand-held radio transceivers have been available since the 1940s. Mobile telephones for automobiles became available from some telephone companies in the 1940s. Early devices were bulky and consumed high power and the network supported only a few simultaneous conversations. Modern cellular networks allow automatic and pervasive use of mobile phones for voice and data communications.

In the United States, engineers from Bell Labs began work on a system to allow mobile users to place and receive telephone calls from automobiles, leading to the inauguration of mobile service on 17 June 1946 in St. Louis, Missouri. Shortly after, AT&T offered Mobile Telephone Service. A wide range of mostly incompatible mobile telephone services offered limited coverage area and only a few available channels in urban areas. The introduction of cellular technology, which allowed re-use of frequencies many times in small adjacent areas covered by relatively low powered transmitters, made widespread adoption of mobile telephones economically feasible.

In the USSR, Leonid Kupriyanovich, engineer from Moscow, in 1957-1961 developed and presented a number of experimental models of handheld mobile phone. The weight of one model, presented in 1961, was only 70 g and could fit on a palm.[verification needed] However in the USSR the decision at first to develop the system of automobile "Altai" phone was made ("Nauka i zhizn" magazine, 8, 1957 and 10, 1958, "Technika-molodezhi" magazine, 2, 1959, "Za rulem" magazine, 12, 1957, "Yuny technik" magazine, 7, 1957, 2, 1958 and 9, 1996, "Orlovskaya pravda" newspaper, 12, 1961).
In 1965, Bulgarian company "Radioelektronika" presented on Inforga-65 interrnational exhibition in Moscow the mobile automatic phone combined with a base station. Solutions of this phone were based on a system developed by Leonid Kupriyanovich. One base station, connected to one telephone wire line, could serve up to 15 customers. ("Nauka i zhizn" magazine, 8, 1965).

The advances in mobile telephony can be traced in successive generations from the early "0G" services like MTS and its successor Improved Mobile Telephone Service, to first generation (1G) analog cellular network, second generation (2G) digital cellular networks, third generation (3G) broadband data services to the current state of the art, fourth generation (4G) native-IP networks. Motorola was the first company to produce a handheld mobile phone. On 3 April 1973 Martin Cooper, a Motorola engineer and executive, made the first mobile telephone call from handheld subscriber equipment in front of reporters, placing a call to Dr. Joel S. Engel of Bell Labs.[5][6] The prototype handheld phone used by Dr. Martin Cooper weighed 1.1 kg and measured 23 cm long, 13 cm deep and 4.45 cm wide. The prototype offered a talk time of just 30 minutes and took 10 hours to re-charge.[7] Cooper has stated his vision for the handheld device was inspired by Captain James T. Kirk using his Communicator on the television show Star Trek.[8]

John F. Mitchell,[9][10][11] Motorola's chief of portable communication products and Martin Cooper's boss in 1973, played a key role in advancing the development of handheld mobile telephone equipment. Mitchell successfully pushed Motorola to develop wireless communication products that would be small enough to use anywhere and participated in the design of the cellular phone.[12][13]

Turkey Prime Minister Tayyip Erdogan Visit to Pakistan

$
0
0


Turkey Prime Minister Tayyip Erdogan Visit to Pakistan
Enhanced by Zemanta

Remember Qazi Hussain Ahmed by Bilal Ghuri

$
0
0



Remember Qazi Hussain Ahmed by Bilal Ghuri
Enhanced by Zemanta

Chaudhry Aslam Life and History

$
0
0

 
Starting his career as a sub-inspector (ASI) in 1984, Muhammad Aslam Khan, who is commonly known as Chaudhry Aslam, is now serving as the Senior Superintendent Police (SSP) of the Central Investigation Department (CID). He has served as a station house officer (SHO) at a number of police stations in the metropolis.
He originally hails from Hazara, but Chaudhry was added in front of his name due to his role in the Karachi operation. In 2010, Khan was appointed as a head of the Investigation Wing of the CID. Earlier, he was heading the Lyari Task Force (LTF) to uproot gangsters from Lyari.

During his service, he has been blamed for staging several fake encounters and has been called by his critics an “encounter specialist”. Once he was also suspended for allegedly killing a person in a fake encounter. However, in a previous interview with The News, he had strongly denied the allegations.

“I have never staged fake encounters in my career, nor have I been involved in extra-judicial killings. All encounters that I have been involved in have been in self-defence,” he said during the interview in August, 2009. “I have no idea why people in Lyari call me ‘Chaudhary Aslam’ or ‘Encounter Specialist’ even though most of the criminals I have arrested are alive and in prison.”

The suicide bombing of his residence was the third attack on Khan during his service. A couple of years ago, he was targeted near Punjab Chowarngi in Clifton. Four people, including an ASI, were gunned down by unidentified culprits in this attack.

During his tenure as the head of the LTF, he was targeted again. Khan was leading a police party searching for notorious gangster Rehman Dakait when armed men opened fire on the police. At least two constables died on the spot, while Khan remained unharmed.

Khan conducted raids against banned outfits, including Lashkar-e-Jhangvl (LJ) and Tehrik-e-Taliban Pakistan (TTP), Lyari’s warlord Rehman Dakait and other criminals operating in the city.

TTP Ameer Qari Saeed Anwar was arrested during one of the raids conducted by the police under SSP Khan’s supervision. The police also arrested Saeed’s deputy, a man named Akhtar Zaman in the same raid.

The TTP leaders had arrived in Karachi to avenge the death of Baitullah Mehsud and were planning to attack the Karachi Oil Terminal. The police had recovered seven suicide jackets, weighing around 28 kilograme each, and also seized heavy quantity of T&T blocks and 250 detonators.

Waseem Baroodi, a key member of the LJ, was also arrested by Khan. Baroodi was said to be a mastermind of sectarian violence in the city.
Enhanced by Zemanta

The Islamic University of al-Madinah al-Munawarah

$
0
0
The Islamic University of al-Madinah al-Munawarah  was founded by the government of Saudi Arabia by a royal decree in 1961 AD (1381 AH) in the Islamic holy city of Medina.[2

Academics

University students may study Sharia, Qur'an, Dawah/Usul al-din, Hadith, and Arabic.[3] The university offers Bachelor of Arts degrees and also Master's and Doctorate Degrees.[4] Studies at the College of Sharia Islamic law were the first to start when the university opened.

Alumni

Enhanced by Zemanta

Bangladesh elections not credible

$
0
0


 Bangladesh elections not credible


Enhanced by Zemanta

Amazing Frozen Niagara Falls


Altaf Hussain Seven Points By Irfan Siddiqui

$
0
0


Altaf Hussain Seven Points By Irfan Siddiqui
Enhanced by Zemanta

بھیڑیں، بھیڑیے اور گِدھ .........طلعت حسین

$
0
0

طالبان اپنی دھن کے پکے ہیں۔ وہ وہی کرتے ہیں جو کہتے ہیں۔ انھوں نے چوہدری اسلم کو نشانے پر رکھا ہوا تھا، موقعہ ملتے ہی اُسکو قتل کر دیا۔ اُن کی دوسری کاروائیاں بھی جاری ہیں۔ ہنگو میں اگر نویں جماعت کے طالب علم اعتزاز نے غیر معمولی بہادری اور جانثاری کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو آج اس ملک کی سر زمین پر چوہدری اسلم اُس کے ساتھی پولیس والوں کے علاوہ چند اساتذہ اور بچوں کی قبریں بھی بنی ہوتیں۔ مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ ہماری ریاست، حکومت اور سیاسی قیادت کیا کرنا چاہتی ہے۔ کل پرسوں کسی صاحب نے میرے تنقیدی کالموں کے جواب میں جل کر یہ کہہ دیا کہ میں اس ملک میں بات چیت کے ذریعے امن کا حامی نہیں ہوں، آپریشن کے نام پر مزید خون خرابہ چاہتا ہوں۔ اگرچہ جاہلوں سے الجھنے کا شیوہ نہیں ہے مگر پھر بھی ریکارڈ کی درستگی کے لیے میں یہ بتاتا چلوں کہ میں بات چیت کے حامیوں میں سے ہوں، اس عمل کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے بہترین ثمرات کا متمنی اور منتظر خاص ہوں۔ میں یہ بھی بتا دوں کہ میں آپریشن کے حق میں ہوں۔

ریاست کی طرف سے قانون شکن عناصر کی بیخ کنی ایک آئینی ذمے داری ہے۔ آئین میں ہی فوج کی طلبی اور جدید اسلحے کے استعمال کے ذریعے امن قائم کرنے کی گنجائش مہیا کی گئی ہے۔ ریاستیں ایدھی فاونڈیشن کی طرح نہیں چلائی جاتیں۔ ان کے ادارے اللہ واسطے کام نہیں کرتے۔ ان کو تنخوائیں دعا و سلام کے لیے نہیں دی جاتیں۔ میں جس چیز کے خلاف ہوں وہ ابہام، الجھن، الجھاؤ اور افراتفری ہے جو بات چیت کے نام پر اس ملک میں پھیلائی گئی ہے۔ نہ بات چیت کرنے والے بات چیت کر ر ہے ہیں۔ اور نہ اُن کو تنقید کا نشانہ بنانے والے کوئی قدم اُٹھا رہے ہیں۔ نہ ہی ریاست طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ اس گومگوں کی کیفیت میں اعتزاز جیسے بچے اپنے آپ کو قربان کر کے کسی نہ کسی طریقے سے امن قائم کرنے کی اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ باقی لوگ جو اس قسم کی بہادری کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں چپ چاپ مار ے جا رہے ہیں۔ میں اس کیفیت پر اعتراض کرتا ہوں۔ یہ دوغلا پن دل کو چھری کی طرح کاٹتا ہے۔ یہ لفظوں کی سیاست، ٹوئٹر کے ذریعے شیر بننے کی عادت اور ٹی وی انٹرویو کے توسط سر پر جہاد کا تاج دکھانے کا طریقہ روح کو اضطراب میں مبتلا کر تا ہے۔

چوہدری اسلم کے قتل پر ردعمل میر ے اعتراض کو مزید واضح کرتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بیان دے کر جان چھڑالی۔ تحریک طالبان مہمند ایجنسی نے ذمے داری قبول کر کے وفاقی حکومت کو ایک مرتبہ پھر یاد دلوایا کہ یہ معاملہ صوبائی نہیں وفاقی ہے۔ فاٹا مرکز کے تابع ہے وہاں سے ہونے والی یلغار مرکزی حکومت کی ذمے داری بنتی ہے۔ مگر چونکہ نواز شریف حکومت نے اس معاملہ پر خاموشی اور سکتے کو پالیسی میں تبدیل کر دیا ہے لہذا تحریک طالبان کی یاد دہانی کے باوجود وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ نہ ہی دانش مند وزیر داخلہ نے ہمیں یہ بتانے کی مہربانی کی کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا عمل کہاں تک پہنچا، موجود بھی ہے کہ نہیں۔ سندھ حکومت نے چونکہ دہشت گردی کو صوبے کی قسمت کا حصہ سمجھ کر قبول کر لیا ہے تو اُن کی طرف سے کیا رد عمل آنا تھا۔

قائم علی شاہ پانچ سال پہلے والی منجمند حالت میں ویسے ہی موجود ہیں جیسے پہلے تھے یعنی ایسے کہ موجودگی کا احساس بھی نہ ہو۔ جن شہروں سے بوریاں بھر بھر کر لاشیں نکلتی ہوں اور وہ اپنی سیاسی پوجا پاٹ کو ترک نہ کریں، اُنہوں نے حکومتیں کیا چلانی ہیں۔ کیا پھرتیاں دکھانی ہیں۔ نکمے مار کھانے کے بعد بھی نکمے رہتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہو گیا کہ ٹوئٹر ٹائیگر بلاول نے چوہدری اسلم کو مرنے کے فورا بعد اپنا لیا۔ اُن کو شاید کسی نے یہ بتا دیا ہے کہ وہ جتنی لاشیں اکھٹی کریں گے اُن کی سیاست اُتنی ہی معتبر ہو جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف نے ایک تگڑی پریس ریلیز جاری کی جس میں واضح انداز میں مندرجہ ذیل نکات بیان کیے گئے۔

سندھ حکومت کی شدید مذمت، سیاسی کاہلی اور باہمی لڑائی جھگڑے پھیلتی ہوئی دہشت گردی کی بنیاد، دہشت گردوں اور قانون شکنوں کے خلا ف شدید کارروائی کا مطالبہ، شہید ہو جانے والے پولیس والوں کو بہترین خراج عقیدت، اس واقعہ کی وجہ سے کراچی میں ہونے والے آپریشن کی ناکامی کی نشاندہی۔ اس پریس ریلیز میں جو چیزیں نہیں کہی گئیں وہ بھی اُتنی ہی اہم ہیں جتنی بیان شدہ۔ مثلا اس میں تحریک طالبان مہمند ایجنسی کی طرف سے واقعہ کی ذمے داری قبول کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا لہذا حملہ آوروں پر ایک لفظ بھی موجود نہیں۔ یہ عمران خان کے بیان کا خاصہ ہے وہ ایسے واقعات میں ہمیشہ نشانہ بننے والوں یا اُن کو بچانے والوں کے حوالے سے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اس پریس ریلیز میں اس حملے کا تعلق امریکا کے ڈرون حملوں سے بھی نہیں جوڑا گیا۔ اور نہ ہی مقامی طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے امن قائم کرنے کی ضرورت کا ذکر کیا۔ عمران خان کا یہ بیان اُن تمام بیانات سے مختلف ہے جو وہ خیبرپختو نخوا پر ہونے والے حملوں پر دیتے ر ہے ہیں۔

مثلا اپنے صوبائی وزیر کے قتل کے موقعے پر انھوں نے کل جماعتی اعلامیے پر عمل درآمد نہ ہونے کو اس واقعہ کی بنیادی وجہ قرار دیا۔ پولیو ورکز کے قتل پر طالبان سے اپیل کی تھی کہ مارنے سے اجتناب کریں اور مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں۔ قصہ خوانی اور چرچ حملوں پر یہ موقف اختیار کیا کہ کون جانتا ہے کہ طالبان ہی ان کے پیچھے ہیں یا کوئی در پردہ قوتیں جو مذاکرات کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ خیبر پختونخوا میں ہونے والے کسی واقعہ پر انھوں نے پرویز خٹک کی حکومت پر نکتہ چینی نہیں کی اور نہ ہی صوبے میں کسی تیز و تند آپریشن کا مطالبہ کیا۔ سندھ اور خیبر پختونخوا میں حملے ایک ہی جیسے ہیں ان کارروائیوں کی ذمے داری قبول کرنے والا ایک ہی گروپ ہے۔ مگر عمران خان کی پالیسی، تجزیہ اور موقف متضاد حد تک مختلف ہے۔ ظاہر ہے وہ اپنی حکومت کی کوتاہیاں کیوں مانیں گے۔ اپنی دہی کو کھٹا کون کہتا ہے۔ غلطی ہمیشہ دوسروں کی ہوتی ہے۔

یہ وہ تضادات، ایہام، ابہام اور کاغذی کارروائیوں پر اکتفا ہے جس نے اس ملک کو تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ اوپر سے سیاسی تعصب اس حد تک پھیل چکا ہے کہ کوئی قومی مفاد اور منطق کی بات سمجھنے پر راضی نہیں ہوتا۔ ملک جائے بھاڑ میں، لیڈروں کی پگ سلامت رہے۔ سیاسی درباروں میں جھک جھک کر سلام کرنے کی عادت ایسی اپنا لی ہے کہ کوئی سر اٹھا کر حقیقت کا سامنا کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ یہ ٹیڑھی کمروں والے زمین پر ماتھے رکھے ہوئے مٹی کے بتوں کے سامنے دو زانوں ہیں مگر اس ملک کو آسمان تک پہنچانے کو خواب دیکھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے بونے کبڑوں کے سامنے ہی قد آور محسوس ہو گے۔ یہ وہ حالت ہے جس نے اس سر زمین کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکا ہو ا ہے۔ ریاست، حکومت اور سیاسی جماعتیں نہ مذاکرات کے لیے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور نہ قانونی چارہ جوئی کے لیے کسی عزم کا مسلسل اظہار کرتی ہے۔ اس وقت یہ سب نہ تو بھیڑیں نہ بھیڑیے، نہ امن کی فاختہ ہے نہ اعتماد سے اڑنے والا عقاب۔ گِدھ ہے لوگوں کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں تا کہ بیانات کی چونچوں سے ماس اکھٹا کر کے سیاست کا پیٹ بھر سکیں۔ چوہدری اسلم اور اعتزاز نے دو دن کا دسترخوان مہیا کر دیا ہے اگلی مرتبہ کوئی اور جان سے جائے گا اور یہ سب شان سے کھائیں گے۔

طلعت حسین

بشکریہ روزنامہ 'ایکسپریس

Chaudhry Aslam Killing by Tilat Hussain'

Declining Standards of Education in Pakistan

$
0
0


Declining Standards of Education in Pakistan
Enhanced by Zemanta

ایسے فن کار دنیا میں اور کہاں کہاں دستیاب ہیں بھلا ؟

$
0
0

معلوم نہیں آپ میں سے کتنوں نے امریکی فلم ساز مائیکل مور کی سن 2004 میں ریلیز ہونے والی دستاویزی فلم ’فارن ہائٹ نائن الیون‘ دیکھی ہے۔

اس میں ایک منظر یہ بھی ہے کہ مائیکل مور امریکی کانگریس کے باہر کھڑا ہوجاتا ہے اور اندر سے نکلنے والے ہر رکن سے بس ایک سوال پوچھتا ہے ۔کیا آپ کا کوئی بیٹا عراق میں لڑ رہا ہے ؟

پاکستان میں جماعتِ اسلامی سمیت متعدد مذہبی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں کی اولاد افغانستان اور کشمیر میں جا کے لڑی اور کچھ کے بچے اس وقت بھی طالبان کے ہمراہ ہیں لیکن میرا سوال پاکستان کی قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 1174 منتخب اراکین سے ہے کہ کیا آپ کا کوئی بیٹا یا بیٹی فوج ، نیم فوجی اداروں یا پولیس میں ہوتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کام آیا یا اپاہج ہوا؟

چلیں بس یہی بتا دیں کہ سنہ 2002 کی اسمبلیوں کے جن ارکان نے مشرف حکومت کی ’وار آن ٹیرر‘ حکمتِ عملی کی حمایت کی یا سنہ 2008 کی جن اسمبلیوں نے اس حکمتِ عملی کو کاما اور فل سٹاپ بدلے بغیر جاری رکھا یا سنہ 2013 کی اسمبلیوں میں موجود جماعتوں نے طالبان سے ’پہلے مذاکرات پھر کچھ اور‘ کے فارمولے کی متفق علیہ حمایت کی ان میں سے کس کس کے بچے یا بھائی بہن وغیرہ کسی خودکش حملے، دھماکے یا ٹارگٹ کلنگ میں کام آئے؟ یہ سوال اس پس منظر میں ہے کہ اب تک لگ بھگ 50 ہزار پاکستانی شہری کثیر الجہتی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔

ریاست کی بالادستی

ان میں سے ایک چوتھائی پیسے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں غیر سیاسی میرٹ کی بنیاد پر ریکروٹمنٹ ، کاؤنٹر ٹیرر ازم کے پیشہ ورانہ تربیتی نظام، معیاری حفاظتی، مواصلاتی و عسکری و فرونزک آلات کی مناسب فراہمی و ٹریننگ، سائنٹفک انٹیلی جنس کے فروغ ، متعلقہ اداروں کے مابین حسد و پیشہ ورانہ چپقلش سے پاک تعاون کے موثر ڈھانچے کے قیام ، عملی زندگی میں کام آنے والی تعلیم ، بلا امتیاز روزگار اور تیز رفتار و شفاف عدالتی انصاف یقینی بنانے جیسے اقدامات پر لگ جاتے تو آج ریاست کی بالادستی کا تصور ٹکے ٹوکری نہ بِک رہا ہوتا۔

جی ہاں آپ بے نظیر بھٹو کا نام لیں گے، بشیر بلور سمیت عوامی نیشنل پارٹی کے متعدد ارکانِ اسمبلی، کارکنوں اور میاں افتخار حسین کے بیٹے کا ذکر کریں گے۔ تحریکِ انصاف کے تین ارکانِ اسمبلی کے جاں بحق ہونے کا بھی حوالہ دیں گے مگر میرا سوال ہے کہ نائن الیون سے اب تک پاکستان میں تین مرتبہ بننے والی اسمبلیوں میں کل ملا کے جو 3422 سینیٹرز اور ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ان میں سے کتنوں کے عزیز از جان خون کے رشتوں تک دہشت گردی کی تپش پہنچی ؟ 50 ہزار میں سے 15، 25 یا 50 بس۔

اچھا تو پھر ان 50 ہزار مرنے والوں کے کتنے لواحقین اس کے حق میں ہیں کہ جس انداز کی دہشت گردی ہو رہی ہے وہ صرف مذاکرات سے ہی دور ہوسکتی ہے ۔کیا ان میں سے کچھ لواحقین نے کبھی کہیں جلوس نکالا یا جلسہ کیا یا دھرنا دیا کہ بس بہت ہوگیا مذاکرات کرو اگر وہ نہیں کرتے تب بھی کرو۔ دوطرفہ نہیں تو یکطرفہ ہی کرلو۔سامنے نہیں آتے تو سائے سے ہی کرلو۔

دہشت گردی کی دلدل سے نکلنے کی اگر یہی گیدڑ سنگھی ہے تو غیر مشروط مذاکرات کی پیش کش تو نائن الیون سے اب تک ملنے والی 26 ارب ڈالر کی امریکی امداد لیے بغیر بہت پہلے بھی ہو سکتی تھی کہ جس میں سے 17 ارب ڈالر سے زائد کی امداد اسلحے، تربیت اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے کرائے کی شکل میں ملی۔

سات ارب روپے کا غیر معیاری اسلحہ

خیبر پختونخوا کی پولیس کے لیے تین برس پہلے سات ارب روپے کا غیر معیاری اسلحہ اور آلات خریدے جاتے ہیں اور ان میں سے پونے دو ارب روپے کے لگ بھگ بے غیرتی کے دھاگے سے سلی جیبوں میں چلے جاتے ہیں مگر زور اس پر ہے کہ پیسے واپس کردو تو جان چھوٹ جائے گی۔

اگر ان میں سے ایک چوتھائی پیسے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں غیر سیاسی میرٹ کی بنیاد پر ریکروٹمنٹ ، کاؤنٹر ٹیرر ازم کے پیشہ ورانہ تربیتی نظام، معیاری حفاظتی، مواصلاتی و عسکری و فرونزک آلات کی مناسب فراہمی و ٹریننگ، سائنٹفک انٹیلی جنس کے فروغ ، متعلقہ اداروں کے مابین حسد و پیشہ ورانہ چپقلش سے پاک تعاون کے موثر ڈھانچے کے قیام ، عملی زندگی میں کام آنے والی تعلیم ، بلا امتیاز روزگار اور تیز رفتار و شفاف عدالتی انصاف یقینی بنانے جیسے اقدامات پر لگ جاتے تو آج ریاست کی بالادستی کا تصور ٹکے ٹوکری نہ بِک رہا ہوتا۔ اس قدر امداد اور پونے چار لاکھ پاکستانی پولیس کے پاس 15 ہزار بلٹ پروف جیکٹس تک نہیں۔

خیبر پختونخوا کی پولیس کے لیے تین برس پہلے سات ارب روپے کا غیر معیاری اسلحہ اور آلات خریدے جاتے ہیں اور ان میں سے پونے دو ارب روپے کے لگ بھگ بے غیرتی کے دھاگے سے سلی جیبوں میں چلے جاتے ہیں مگر زور اس پر ہے کہ پیسے واپس کردو تو جان چھوٹ جائے گی۔

حکومتِ سندھ اپنی پولیس کے لیے اسی سے زائد بلٹ پروف بکتربند گاڑیاں ایک مقامی ادارے سے خریدتی ہے اور ان میں سے 13 گاڑیوں میں آپریشن کے دوران کلاشنکوف کی گولیاں آر پار ہو کر اندر بیٹھے سپاہیوں کو لاشوں میں بدل دیتی ہیں۔ کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں۔

چار سال پہلے نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی بنانے کا اعلان ہوتا ہے۔ تین برس اس کی قانون سازی میں لگ جاتے ہیں مگر میں نثار علی پر نثار تا دمِ تحریر یہی نہیں معلوم کہ اتھارٹی کی اتھارٹی کیا ہے اور اس نے اس دوران میں کون کون سی توپ چلائی ہے ؟

کوئی تو بتائے کہ جس نیشنل سیکورٹی پالیسی کا نقارہ پیٹا جا رہا ہے اس کی تفصیلات چھوڑ خلاصہ ہی کسی نے دیکھا ہو ؟

جن طرم خانوں کو مضبوط سیاسی ارادے کے گارے اور فولادی عزم کی اینٹوں سے فرنٹ لائن اٹھانی ہے وہ تو کالے شیشوں والی فرضی نمبر پلیٹ کی بم پروف گاڑیوں پر شانتی، دھیرج، صبر اور برداشت لکھوا کے سفر کر رہے ہیں اور خودکش بمبار سے لپٹنے کا فی سبیل اللہ کام 15 سالہ حسن اعتزاز نے اپنے ذمے لے لیا ہے یا پھر بغیر بلٹ پروف جیکٹ سپاہی بارودی جیکٹ کا سامنا کر رہا ہے۔

حضورانِ والاجات و صفات بس خراجِ تحسین جاری کرنے اور نہ کارکردگی کے پاجامے میں کارکردگی کا نیفہ چپکانے پر مامور ہیں۔

عام شہریوں کے لیے حب الوطنی کا راگ، طالبان سے ہاتھ زرا ہولا رکھنے کی فریاد اور امریکہ کو یہ ٹھمکا کہ ’مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے۔‘

ایسے فن کار دنیا میں اور کہاں کہاں دستیاب ہیں بھلا ؟

چوہدری کے چوہدری

$
0
0

یرو، بہادر، دلیر، شیر، شان سے جیا، شان سے مرا، ایک ہاتھ میں سگریٹ، دوسرے میں پستول۔ بیوی بھی دلیر، باپ اِنتہائی صدمے کی حالت میں بھی پُروقار، شہید ہونے والا چوہدری اسلم صحافیوں کا بھی یار اِس لیے ہر طرح کی فوٹیج موجود، دلوں کو گرما دینے والے ڈائیلاگ۔ کسی وردی والے کی موت پر اِتنی داد و تحسین نہیں ہوئی جتنی چوہدری اسلم کے لیے ہوئی۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ چوہدری اسلم کو کسی نے وردی میں نہیں دیکھا یا کم از کم کسی کے پاس سے وردی والا فوٹو نہیں نکلا۔

خوف سے یا احترام سے اسلم کو چوہدری اسلم کہنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس شہر میں اُس سے بڑے اصلی اور وڈے چوہدری موجود ہیں۔

دو سال پہلے چوہدری اسلم بھی اِن بڑے چوہدریوں کے درمیان ڈیفنس کے علاقے میں رہتا تھا۔ ایک صبح اُس کے گھر پر ایسا دھماکہ ہوا جو پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر کے بھی ڈیفنس کے علاقے میں نہیں ہوا۔ محافظ مارے گئے، پاس سے گزرتے ہوئے راہ گیر لقمۂ اجل بنے لیکن چوہدری اسلم اور ان کا خاندان محفوظ رہے۔

کیا اس ہیبت ناک حملے کے بعد ڈیفنس کے محلے دار پُرسہ دینے پہنچے؟ کیا اس علاقے کے بڑے چوہدری اور شرفا اکٹھے ہوکر اس کے گھر گئے اور کہا کہ تم ہمارے محافظ ہو ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ہم مل کر یہ گھر دوبارہ تعمیر کریں گے۔

نہیں! سب ہمسایوں کا ایک ہی مطالبہ تھا اس شخص کو اس محلے سے باہر نکالو۔ اِتنا خطرناک آدمی شرفا کے محلے میں کیسے رہ رہا ہے۔

 "ہمارے اصل چوہدریوں نے دہشت گردی اپنے ڈرائنگ روم میں صرف ٹی وی پر دیکھی ہے اُنہوں نے جب یہ دیکھا کہ ڈھائی سو کلو گرام بارود ان کے ہمسائے کے گھر کے ساتھ کیا کرتا ہے تو سب یک زبان ہو کر بولے نکالو اس کو یہاں سے"

چوہدری اسلم کے تباہ ہونے والے گھر کے قریب کراچی کے چند مہنگے ترین سکول واقع ہیں جہاں ہمارے بڑے چوہدریوں کے بچے اعلیٰ اور نفیس تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ دھماکہ سکول کھلنے سے آدھ گھنٹہ پہلے ہوا۔ بعض کلاس روموں کے فرش کھڑکیوں اور دروازوں کے ٹوٹے ہوئے شیشوں سے بھرے ہوئے تھے۔ امکان غالب ہے کہ اگر یہ دھماکہ آدھ گھنٹے بعد ہوتا تو ڈیفنس میں اتنے ننھے شہید ہوتے کہ سوچ کر ہی والدین کا دل ڈوب جاتا ہے۔

کیونکہ ہمارے اصل چوہدریوں نے دہشت گردی اپنے ڈرائنگ روم میں صرف ٹی وی پر دیکھی ہے اُنہوں نے جب یہ دیکھا کہ ڈھائی سو کلو گرام بارود ان کے ہمسائے کے گھر کے ساتھ کیا کرتا ہے تو سب یک زبان ہو کر بولے نکالو اس کو یہاں سے۔

سکول کے مالکوں اور محلے داروں کا ایک ہی مطالبہ تھا اتنے خطرناک آدمی کو ہمارے درمیان نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ نے علاقے کے گرد گیٹ لگانے کی بات کی کچھ اپنی بِپتا لے کر عدالت پہنچ گے۔

ہمارے شہر کے بڑے چوہدریوں کا رویہ چوہدری اسلم کی طرف ویسا ہی تھا جیسا بڑے چوہدریوں نے شہر میں اپنی دھاک بٹھانے کے لیے ایک بدمعاش پال رکھا ہوتا ہے اور کبھی کبھی اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اُسے چوہدری صاحب کہہ کر مخاطب کر لیتے ہیں۔

ہم نے چوہدری اسلم سے کبھی نہیں پوچھا کہ بندہ گرفتار کرنے سے پہلے مارا تھا یا ہتھکڑی لگانے کے بعد؟ ناخن کھینچنے سے پہلے تسلی کر لی تھی کہ بندہ صحیح پکڑا ہے؟ کوئی وارنٹ لے کر نکلے تھے یا بس موڈ خراب تھا اس لیے بندہ پھڑکا دیا؟

"چوہدری اسلم جیسے ہیرو اُسی معاشرے کو درکار ہوتے ہیں جہاں بڑے چوہدری دن کی روشنی میں کہتے ہیں طالبان کا کوئی وجود ہی نہیں پھر رات کو کہتے ہیں پکڑو سالوں کو، مارو اِنہیں۔ بس ہم تک اِن کی چیخیں نہ پہنچیں۔"

چوہدری صاحب جو کرنا ہے رات کے اندھیرے میں کرو، انٹرویو دینے کا شوق ہے دیتے رہو بس ہمارے علاقے میں دھماکہ نہیں ہونا چاہیے بچوں کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے۔

ہاں کبھی کبھار ہاتھ سے نکلنے لگتا تھا تو یہ ضرور کہتے تھے کہ ’ارے یہ تو ڈی ایس پی تھا اسے ایس پی کس نے بنا دیا۔ یہ تو پہلے ہی اوقات اور وردی دونوں سے باہر ہے ، کوئی اس کو لگام تو ڈالے۔‘

چوہدری اسلم جیسے ہیرو اُسی معاشرے کو درکار ہوتے ہیں جہاں بڑے چوہدری دن کی روشنی میں کہتے ہیں طالبان کا کوئی وجود ہی نہیں پھر رات کو کہتے ہیں ’پکڑو سالوں کو، مارو اِنہیں۔ بس ہم تک اِن کی چیخیں نہ پہنچیں۔‘

چوہدری اسلم کی شہادت کے بعد البتہ یہ انکشاف ہوا کہ بڑے چوہدری اور چھوٹے چوہدری کی خواہش اصل میں ایک ہی ہوتی ہے۔ ڈیفنس کے بڑے چوہدریوں نے چوہدری اسلم سے اِس لیے جان چھڑائی تا کہ ان کے بچے اپنی مہنگی اور نفیس تعلیم پُرسکون ماحول میں حاصل کر سکیں۔

اپنے آخری سفر پر نکلنے سے چند منٹ پہلے تک چوہدری اسلم بھی یہ سوچ رہا تھا کہ اپنے بچوں کو ٹیوشن پر چھوڑ آئے۔

محمد حنیف

Hijab in Pakistan by Ansar Abbasi

$
0
0

Hijab in Pakistan by Ansar Abbasi
Enhanced by Zemanta

Social welfare organizations in Pakistan By Dr. Abdul Qadeer Khan

$
0
0

 Social welfare organizations in Pakistan By Dr. Abdul Qadeer Khan

Enhanced by Zemanta

Abdul Sattar Afghani

$
0
0

Abdul Sattar Afghani  July 1930, Karachi[1][2] to 2006) was a politician from Karachi, Pakistan. He was twice elected mayor of Karachi[2] and once a member of the National Assembly of Pakistan (MNA).

Political career

Mayor of Karachi

He was first elected mayor in 1979, serving until 1983.[1][2] He was then reelected the same year and served until 1987.[1][2]

National Assembly

Afghani finally managed to win a seat in the National Assembly in 2002 from Karachi (NA 250, Karachi XII).[1]

Family

Afghani married at the age of 17 and had four sons and three daughters.[1]

Death

Afghani died in November 2006 at the Aga Khan University Hospital, Karachi.[2] He was buried in the Mewashah Graveyard in Lyari.[2]
Enhanced by Zemanta

Pervez Musharraf's trial and Realities by Saleem Safi

$
0
0

 Pervez Musharraf's trial and Realities by Saleem Safi

Enhanced by Zemanta

Pakistan Corrupt Political System by Dr. Mujahid Mansoori

$
0
0

 Pakistan Corrupt Political System by Dr. Mujahid Mansoori

Enhanced by Zemanta

Rights by Shenawaz Farooqi

Privatization in Pakistan by Dr. Lal Khan

$
0
0

Privatization in Pakistan by Dr. Lal Khan
Enhanced by Zemanta
Viewing all 6213 articles
Browse latest View live