Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 6213 articles
Browse latest View live

23 school children killed in accident in Nawabshah

$
0
0


23 school children killed in accident in Nawabshah

Chaudhry Aslam an Honest officer by Ishtiaq Baig

$
0
0



Chaudhry Aslam an Honest officer by Ishtiaq Baig
Enhanced by Zemanta

Pakistan privatization program By Dr. Shahid Hassan

$
0
0


Pakistan privatization program By Dr. Shahid Hassan
Enhanced by Zemanta

The Golden Temple - Amritsar

$
0
0













The Golden Temple - Homage to Amritsar
Enhanced by Zemanta

Load-shedding and over-billing in Pakistan

$
0
0

Energy crisis and Load shedding in Pakistan
Enhanced by Zemanta

End of Ariel Sharon

زہر آلود خیالات کی سیاست

$
0
0

فی زمانہ محبت اور جنگ ہی میں نہیں، سیاست میں بھی سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے۔ کہنے والے بڑے زور و شور سے کہتے ہیں: محبت، جنگ اور سیاست میں سب چلتا ہے۔ ان فقروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دور میں محبت، جنگ اور سیاست میں سے کسی کی کوئی اخلاقی بنیاد نہیں۔ ان تمام دائروں میں ’’کامیابی‘‘ ہی سب کچھ ہے۔ حالانکہ تجزیہ کیا جائے تو محبت انسانی وجود کی بنیاد ہے، اور اگر محبت زہرآلود ہوگئی تو انسان کا پورا وجود اور اس کی پوری زندگی زہرناک ہوگئی۔ جنگ کا تعلق بھی براہِ راست انسانی زندگی سے ہے، چنانچہ جنگ اگر زہر آلود خیالات کی نذر ہوجائے تو لاکھوں کروڑوں انسانوں کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے۔ سیاست اپنی اصل میں زندگی کی تعمیر کا نام ہے، لیکن جب سیاست میں سب کچھ روا ہوجاتا ہے تو سیاست زندگی کی تخریب بن جاتی ہے۔ پاکستان کی سیاست اس دعوے کا ایک بڑا ثبوت ہے۔

پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد کا حاصل تھا، اور قیام پاکستان سے پہلے نہ فوج کا ادارہ موجود تھا اور نہ اس ادارے کا پاکستان کی تخلیق میں کوئی کردار تھا، لیکن پاکستانی فوج کے جرنیلوں نے قومی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی اقتدار پر قبضے کا منصوبہ بنانا شروع کردیا تھا۔ جنرل ایوب نے اگرچہ مارشل لا 1958ء میں لگایا مگر حال ہی میں سامنے آنے والی امریکہ کی بعض دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ایوب خان نہ صرف یہ کہ 1954ء سے امریکہ سے رابطے میں تھے بلکہ وہ امریکہ کو دو باتیں تواتر کے ساتھ بتا رہے تھے۔ ایک یہ کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کررہے ہیں ،اور دوسری بات یہ کہ فوج پاکستان کی محافظ ہے اور وہ سیاست دانوں کو ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ یہ ایک زہر آلود فکر تھی اور اس کی کوئی اخلاقی، تاریخی اور سیاسی بنیاد نہ تھی۔ جرنیل سیاست دانوں کے مقابلے پر متقیوں کا گروہ نہیں تھا، نہ ہی پاکستان کی تاریخ میں اس کا کوئی کردار تھا اور نہ ہی ملک کے آئین اور قوم نے جرنیلوں کو اس طرح سوچنے کی اجازت دی ہوئی تھی۔ جنرل ایوب کے پاس صرف زہرآلود فکر ہی نہ تھی، اُن کے پاس طاقت بھی تھی، چنانچہ ان کی فکر صرف فکر نہ رہی، اس نے بہت جلد عمل کی صورت اختیار کرلی اور 1958ء میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا طلوع ہوگیا۔ جنرل ایوب کے مارشل لا نے کئی ہولناک کام کیے۔ اس نے پہلا ہولناک کام یہ کیا کہ فوج کو فوج نہ رہنے دیا، اسے ملک کی سب سے منظم اور طاقت ور سیاسی جماعت بنادیا۔ جنرل ایوب کے مارشل لا نے مزید مارشل لائوں کی راہ ہموار کردی۔ جنرل ایوب کے اقتدار پر قبضے نے سیاست دانوں کو دائمی نااہلی میں مبتلا کردیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جنرل ایوب سیاسی جماعتوں کی برائیاں کرتے ہوئے اقتدار میں آئے تھے لیکن پھر خود انہوں نے ’’مسلم لیگ کنونشن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے بنیادی جمہوریت کا تجربہ کیا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ جنرل ایوب جس سیاسی عدم استحکام کی آڑ میٰں اقتدار پر قابض ہوئے تھے وہ عدم استحکام ان کے آخری دور میں زیادہ شدت سے ظاہر ہوا اور وہ اس کے نتیجے میں اقتدار سے علیحدگی پر مجبور ہوئے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ مارشل لا ملک و قوم کی ضرورت نہ تھا، وہ صرف جنرل ایوب کی ضرورت تھا، چنانچہ انہوںنے مارشل لا کو ملک و قوم کی ضرورت باور کرانے کے لیے ایک ایسا تجزیہ تخلیق کیا جس کا قومی مفادات سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔

جنرل ایوب دس سال اقتدارمیںرہنے کے بعد رخصت ہوگئے لیکن ان کا اقتدار آنے والے جرنیلوں کے لیے ایک مثال بن گیا۔ چنانچہ 1977ء میں سیاسی ماحول گرم ہوا تو جنرل ضیاء الحق نے سیاسی عدم استحکام کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی فرمایا کہ اگر وہ مداخلت نہ کرتے تو ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی۔ جنرل ایوب کی طرح جنرل ضیاء بھی سیاسی جاعتوں پر لعن طعن کرتے ہوئے اقتدار میں آئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے غیر جماعتی انتخابات کی راہ ہموار کی۔ لیکن غیر جماعتی انتخابات سے جنرل ضیاء کی جونیجو لیگ برآمد ہوئی۔ جنرل ضیاء ’’سیاست بازی‘‘ کے سخت خلاف تھے مگر انہوں نے کراچی میں جماعت اسلامی اور دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگانے کے لیے ایم کیو ایم تخلیق کی۔ جنرل پرویزمشرف بھی سیاسی رہنمائوںکی ناکامی کا رونا روتے ہوئے اقتدار میں آئے۔ جنرل پرویز مشرف کی بھی کوئی سیاسی جماعت نہ تھی مگر انہوںنے بھی (ق) لیگ تخلیق کی۔ اہم بات یہ ہے کہ جنرل ایوب کی طرح جنرل ضیاء اور جنرل پرویزمشرف سے بھی ملک کا سیاسی عدم استحکام دور ہوا اور نہ کوئی اہم قومی مسئلہ حل ہوا۔ جنرل ایوب کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل پرویزمشرف نے ایک انٹرویو میں جنرل ایوب کو اپنا آئیڈیل قرار دیا۔ جنرل ضیاء الحق لبرل اور سیکولر ہوتے تو وہ بھی جنرل ایوب ہی کو اپنا ہیرو قرار دیتے۔

زہرآلود خیالات کی سیاست کی ایک مثال کالا باغ ڈیم ہے۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ اگرچہ جنرل ایوب کے زمانے میں زیربحث آیا، مگر اس کی موجودگی حقیقی معنوں میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں آشکار ہوئی۔ اُس وقت تک کالا باغ ڈیم محض ایک فنی اور مالیاتی مسئلہ تھا، سیاسی مسئلہ نہ تھا۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کی سیاست نے کالا باغ ڈیم کو سیاسی مسئلہ بنا دیا۔ سندھ اور سابق صوبہ سرحد میں اس حوالے سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ بلاشبہ اس سلسلے میں صوبوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا کو بھی دخل تھا مگر یہ بات جنرل ضیاء الحق کے علم میں تھی۔ لیکن انہوں نے اس حقیقت کا ادراک کیے بغیر کالا باغ ڈیم کا نعرہ لگایا جس سے قومی وحدت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔

جنرل پرویزمشرف نے بھی ایک مرحلے پر کالا باغ ڈیم کا پرچم بلند کیا۔ انہوں نے سندھ کا خصوصی دورہ کیا۔ سندھ کے دانش وروں اور سیاست دانوں سے رابطہ کیا، لیکن وہ کالا باغ ڈیم کا مقدمہ کامیابی کے ساتھ پیش نہ کرسکے۔ لیکن جنرل ضیاء اور جنرل پرویزمشرف نے کالا باغ ڈیم کا پرچم بلند کیا ہی کیوں؟ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ پنجاب میں مقبول ہے اور کالا باغ ڈیم پر گفتگو سے حکمرانوں کو پنجاب میں پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جنرل ضیاء اور جنرل پرویزمشرف نے کالا باغ ڈیم پر گفتگو تو بہت کی مگر وہ اس جانب ایک قدم بھی پیش قدمی نہ کرسکے۔ یعنی کالا باغ ڈیم حقیقت تو نہ بن سکا مگر اس حوالے سے صوبوں کے درمیان تلخیاں ضرور پیدا ہوگئیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سے پاکستان کو فائدہ ہوا یا نقصان؟

زہرآلود خیالات کی سیاست کی ایک مثال الطاف حسین ہیں۔ انہوں نے سیاست شروع کی تھی تو فرمایا تھا کہ وہ کوٹہ سسٹم ختم کرائیں گے۔ مشرقی پاکستان میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لائیں گے اور مہاجر کلچر کا تحفظ کریں گے۔ مگر وہ چند برسوں ہی میں اپنی سیاست کی تینوں بنیادوں کو بھول گئے۔ البتہ اس عرصے میں انہوں نے مہاجروں کو پٹھانوں سے لڑایا، پنجابیوں سے لڑایا، سندھیوں سے لڑایا، یہاں تک کہ مہاجروں کو مہاجروں کے خلاف صف آراء کیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ کوٹہ سسٹم کے مخالف بھی ہیں اور انہوں نے سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کرنے والی پیپلزپارٹی کے ساتھ پندرہ سال تک اقتدار کے مزے بھی لوٹے ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ ترین واردات الطاف حسین کا یہ اعلان ہے کہ یا تو ہمارے حقوق دو یا سندھ کو تقسیم کرو۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر سندھ کو تقسیم نہ کیا گیا تو پاکستان سے علیحدگی کی صورت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ الطاف حسین کے اس بیان پر ہنگامہ برپا ہوا تو الطاف حسین نے ’’سندھ ون اور سندھ ٹو‘‘ کی بات شروع کردی۔ سوال کرنے والے سوال کررہے ہیں کہ ایم کیو ایم گزشتہ پانچ سال تک صوبے کے اقتدار میں شریک تھی مگر اسے اس دوران وسائل کی منصفانہ تقسیم کا خیال آیا نہ اس کی جانب سے سندھ ون اور سندھ ٹو کا نعرہ بلند ہوا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ الطاف حسین نے اس مرحلے پر یہ نعرے بلند ہی کیوں کیے؟ اس سلسلے میں ایک سے زیادہ توجیہات موجود ہیں۔ ایک توجیہہ یہ ہے کہ پاکستان کی تردید الطاف حسین کی نفسیات اور ذہنی ساخت کا حصہ ہے اور وہ بھارت میں کھڑے ہوکر صاف الفاظ میں کہہ چکے ہیںکہ اگر وہ قیام پاکستان کے وقت موجود ہوتے تو قیام پاکستان کے خلاف ووٹ دیتے۔ الطاف حسین کے مذکورہ بیانات کی دوسری توجیہہ یہ ہے کہ الطاف حسین کے خلاف برطانیہ میں کوئی کارروائی ہونے والی ہے اور الطاف حسین اس سے قبل اپنے حلقے میں اپنی مقبولیت کو مستحکم کررہے ہیں۔ تیسری توجیہہ یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایم کیو ایم کراچی اور حیدرآباد میں انتہائی غیر مقبول ہوچکی ہے، چنانچہ الطاف حسین نے گڑے مُردے اکھاڑ کر ایم کیو ایم کی سیاسی بنیاد کو مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیاسی حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو تیسری توجیہہ الطاف حسین کے بیانات کی زیادہ بہتر وضاحت کرتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ الطاف حسین نے اپنی تنظیم کے معمولی سے فائدے کے لیے دیہی اور شہری سندھ کے درمیان آویزش اور نفرت کو ہوا دی اور پاکستان کی سلامتی تک پر حملہ کردیا۔ الطاف حسین مفادات کی سیاست کے اسیر ہیں، وہ ایک بات کہہ کر بھول جائیں گے لیکن اُن کی زبان سے نکلنے والے الفاظ لاکھوں اذہان میں زہر گھولتے رہیں گے۔

سیاست قومی خدمت اور ابلاغ کا عمل ہے، اور ابلاغ کا عمل اپنی نہاد میں مثبت ہے۔ مگر ہمارے ملک میں سیاست ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات کی غلام بن گئی ہے اور اکثر سیاسی جماعتوں اور سیاسی و فوجی رہنمائوں کا مسئلہ سستی شہرت ہے خواہ اس کے لیے انہیں منفی ابلاغ کی انتہائی صورت ہی کیوں نہ اختیار کرنی پڑے۔ بقول شاعر ؎

ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نہ ہو گا


شاہنواز فاروقی

Enhanced by Zemanta

We are Muslims, Don't divide By Ansar Abbasi

$
0
0

We are Muslim, Don't divide By Ansar Abbasi
Enhanced by Zemanta

Dr. Nawaz Sharif and ordinary Pakistani people

$
0
0


Dr. Nawaz Sharif and ordinary people by Dr. Mujahid Mansoori

Karachi Targeted Operation

My Pakistan by Dr. Abdul Qadeer Khan

$
0
0

 My Pakistan by Dr. Abdul Qadeer Khan

Enhanced by Zemanta

Nakam Aashiq by Ansar Abbasi

Real Problems of Pervez Musharraf by Saleem Safi

$
0
0


Real Problems of Pervez Musharraf by Saleem Safi
Enhanced by Zemanta

International Concerns and Challenges By Dr. Maleeha Lodhi

$
0
0

 International concerns and challenges By Dr. Maleeha Lodhi

Asghar Nadeem Syed

$
0
0

Asghar Nadeem Syed’s domain of writing spans television plays, poetry, essays, short stories and newspaper column. He has been teaching for the last 33 years, and as Associate Professor at GCU in the Urdu department for 8 years now. Among his most popular works are the television serials Hawaian, Chand Grehen, Piyas, Nijat and Ghulam Gardish.
He is also a teacher and have extensively read literature on very wide canvas poetry, novel, criticism, history and drama.He also learn from history, culture, fine arts and so many other things. He use the mediums of poetry, drama, essay, short story and newspaper columns.
Enhanced by Zemanta

’کٹی پہاڑی‘، گولیوں کی تڑ تڑاہٹ میں شاعری کے کھلتے پھول

$
0
0
  

  پاکستان کا ساحلی شہر کراچی معاشی حب ہے، اپنی پہچان آپ ہے۔۔ لیکن دہشت گردی کی وارداتوں اور لاقانونیت کے سبب اس کے کچھ علاقے اپنے نام سے ہی دہشت گردی کی علامت لگنے لگے ہیں۔ مثلاً، کٹی پہاڑی۔

مافیا، منشیات اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کے حوالے سے بار بار خبروں میں آنے والا ’کٹی پہاڑی‘ کا علاقہ دراصل دو مختلف قسم کے علاقوں اور دو مختلف رہن سہن اور ثقافتی پس منظر رکھنے والے لوگوں کی ’سرحدی چیک پوسٹ‘ ہے۔ یہاں لاکھ برائیاں سہی۔ لیکن، ایک اچھا اور منفرد و مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ اپنی نوعیت کے دلفریب شاعروں، ادب نوازوں، مصوروں، خطاب اور غیر سرکاری تنظیموں کے سرگرم کارکنوں کا مسکن ہے۔

جی ہاں۔۔ یہاں رہنے اور محنت مزدوری کرنے والے جفا کشوں میں سے بہت سے افراد ایسے ہیں جو مزاحیہ شاعری کرتے ہیں اور ان کی شاعری اتنی پر لطف اور بر محل ہوتی ہے کہ انتخابات کے موقع پر سیاستدان ان کے ٹیلنٹ سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔

عبدالوکیل شاہ پشتو اسپیکنگ ہیں۔، رکشہ چلاتے ہیں اور فارغ وقت میں مزاحیہ شاعری بھی کرتے ہیں۔ انگریزی اخبار ’ایکسپریس ٹری بیون‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو کے دوران عبدالوکیل نے بتایا کہ ان کی شاعرانہ صلاحیت خداداد ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں ’اردگرد کے کشیدہ اور خوفزدہ ماحول کی سنگینی کو کم کرنے کے لئے انہوں نے مزاحیہ شاعری کا سہارا لیا ہے۔‘

عبدالوکیل کا کہنا ہے کہ ’انتخابات کے دوران مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے مخالفین پر ’وار‘ کرنے کے لئے ہتھیار کے بجائے ان کی مزاحیہ شاعری کا سہارا لیتی ہیں۔‘

شاہ نے فخر یہ انداز میں بتایا، ’الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ایک امیدوار نے باقاعدہ معاوضے پر میری خدمات حاصل کیں۔ اس معاوضے کے عوض انہوں نے ایسے انتخابی نعرے اور گانے لکھ کر دیئے جو مخالفین کے دانت کھٹے کرنے کے لئے کافی تھے۔ ان کے مقابلے میں اسی علاقے کے ایک اور شاعر کو عوامی نیشنل پارٹی نے اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا۔‘

پیپلز پارٹی کے ایک کارکن دل محمد کا کہنا ہے ’کٹی پہاڑی کے شاعروں کی خدمات حاصل کرنا اور ان کے کام کو دنیا کے سامنے لانا علاقے کا بہتر امیج بنانے کا سبب بنتا ہے۔ ہتھیاروں کی جگہ مزاحیہ شاعری لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ہم علاقے میں امن لانا اور ہتھیاروں سے نجات چاہتے ہیں۔‘

کٹی پہاڑی پر مختلف برادریوں اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رہائش پذیر ہیں۔ پہاڑ گنج، دیر کالونی، کوہستانی چوک اور عمر فاروق کالونی وہ علاقے ہیں جو یونین کونسل 21 میں آتے ہیں اور ان علاقوں میں رہنے والوں کی اکثریت پٹھان ہے، جبکہ سرائیکی، کرسچین اور گلگتی بھی کٹی پہاڑی کی آبادی کا حصہ ہیں۔

کٹی پہاڑی کے رہائشی امین اسپن اس نئے رجحان پر بہت خوش ہیں۔ ان کے بقول، ’طنز و مزاح کے ذریعے معاشرے کی برائیوں کو اجاگر کرنا بہت اچھا ہے۔ یہاں رہنے والے شاعر عام لوگ ہیں جو اپنی روزی روٹی دوسرے کام کرکے کماتے ہیں اور الیکشن کے دنوں میں اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔‘

Enhanced by Zemanta

دنیا 85 امیر افراد کی دولت نصف دنیا کے برابر، رپورٹ

$
0
0
 

  انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک بین الاقوامی تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ دنیا کے 85 امیر ترین افراد کی دولت دنیا کی نصف غریب آبادی کی دولت کے برابر ہے۔

برطانوی تنظیم 'آکسفام'نے دنیا میں عدم مساوات کے موضوع پر جاری کی جانے والی اپنی تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ دنیا کے امیر ترین افراد اپنی دولت میں اضافے کے لیے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں جس کا بالواسطہ نقصان کم آمدنی والے افراد کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امیر طبقہ ٹیکس بچاتا ہے اور اپنی دولت کو حکام کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے اور اس میں مزید اضافے کے لیے ہر ممکن جتن کرتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی معاملات میں عدم شفافیت، ٹیکسوں کی چوری اور فلاحِ عامہ کے منصوبوں میں سرمایہ کاری نہ کرکے مال دار طبقہ نہ صرف اپنی مالی اور سیاسی حیثیت مستحکم کرتا ہے بلکہ اس دولت کی اگلی نسلوں تک منتقلی بھی یقینی بناتا ہے۔

'آکسفام'نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران میں بھارت میں ارب پتی افراد کی تعداد میں 10 گنا اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق یورپ میں حکومتوں کے بچت اقدامات سے مالدار طبقے کو کوئی خاص فرق نہیں پڑ رہا اور ان اقدامات سے زیادہ تر متوسط اور غریب طبقے متاثر ہورہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افریقی ممالک میں سرگرم بین الاقوامی کمپنیاں اور کارپوریشنز ٹیکسوں سے بچنے کے لیے اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتی ہیں جس کے باعث ان ملکوں میں غربت کا مقابلہ کرنے کے لیے دستیاب وسائل مہیا نہیں ہوپارہے۔

برطانوی تنظیم نے اپنی یہ رپورٹ سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں رواں ہفتے ہونے والے 'ورلڈ اکنامک فورم'کے ایک اہم اجلاس سے قبل جاری کی ہے جس میں دنیا میں دولت کی عدم مساوی تقسیم پر بات ہوگی۔

'آکسفام'نے اپنی رپورٹ میں اجلاس میں شرکت کے لیے ڈیووس جمع ہونے والی کاروباری شخصیات اور سیاسی رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ مختلف حکومتوں کی جانب سے متوسط اور غریب طبقوں کی فلاح کے لیے بنائے جانے والے منصوبوں کی حمایت کریں۔

تنظیم نے مالدار تاجروں اور کاروباری افراد سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے، ٹیکسوں کی بروقت اور منصفانہ ادائیگی اور دولت چھپانے کے اقدامات ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

Middle East, US Departure from Afghanistan and Pakistan

$
0
0

 Middle East, US Departure from Afghanistan and Pakistan

Waziristan - Chatto's Land

Reality of Bilawal Zardari by Ansar Abbasi

$
0
0

Reality of Bilawal Zardari by Ansar Abbasi
Enhanced by Zemanta
Viewing all 6213 articles
Browse latest View live