↧
Time for Decisions by Irfan Siddiqui
↧
Downsizing By Shenawaz Farooqi

اصطلاح کا ترجمہ ہوجانا کافی نہیں‘ اس کی پشت پر موجود تصور اور اس کے محرکات کو سمجھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بغیر اصل معنی تک رسائی ممکن نہیں ہوتی۔
اب ذرا ’’ڈائون سائزنگ‘‘ پر غور کیجیے۔ اس کا اصل بامحاورہ ترجمہ ہے: برطرفی۔ملازمت کا خاتمہ عرف بے روزگاری۔
لیکن اس کا تاثر یہ ہے کہ کسی ادارے کے غیر ضروری یا اضافی بوجھ کو کم کیاجارہا ہے۔ یا اس کے غیر ضروری پھیلائو اور حجم کو دائرے میں لایا جارہا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کا وزن بڑھ جائے اور ڈاکٹر کہے کہ صاحب اپنا وزن کم کیجیے ورنہ آپ کو طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہوجائیں گی۔
ڈائون سائزنگ کسی ادارے کی گویا معاشی یا مالی صحت کی بحالی ہے۔
اب ذرا معانی کے فرق پر غور کیجیے۔ برطرفی‘ ملازمت کا خاتمہ یا بے روزگاری ایک ظالمانہ فعل محسوس ہوتا ہے اور ’’علاج‘‘ کو کوئی شخص ظالمانہ نہیں کہہ سکتا۔ چنانچہ ڈائون سائزنگ کی اصطلاح حقیقت اور اس کے معنی کو بدل کرتاثر کو کچھ سے کچھ بنادیتی ہے۔
لیکن اس اصطلاح کی پشت پرموجود اصل تصور کیا ہے؟
سرمایہ دار اور بالخصوص مغربی ملٹی نیشنلز کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع کو یقینی بنانا۔ منافع ڈائون سائزنگ کے بغیر بھی ہوگا لیکن کم۔ چنانچہ زیادہ سے زیادہ منافع کے لیے سینکڑوں یا ہزاروں یا لاکھوں خاندانوں کو غربت‘ عسرت اور فاقوں کے جہنم میں جلنا پڑے تو ’’بیچارے‘‘ ملٹی نیشنلز کیا کریں؟
انہوں نے تو سرمایہ کاری کی ہے اور زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ان کا حق ہے۔ اس میں کچھ بھی تو خلاف ِقانون نہیں۔ مگر ریاست اور وہ بھی اسلامی ریاست؟ اس کے تصور کے دائرے میں تو کتا بھی بھوک سے مرتا ہے تو اس کی ذمے داری کا بوجھ سربراہِ ریاست اپنے کاندھوں پر محسوس کرتا ہے۔ تو کیا اب اسلامی ریاست میں انسانوں کی اہمیت کتوں سے بھی کم ہے؟
21 ویں صدی اور 21 ویں صدی کی اسلامی ریاستیں زندہ باد۔ نجکاری زندہ باد۔ ڈائون سائزنگ زندہ باد۔ تو کیا مغربی ماہرین شعوری طور پر ایسی اصطلاحیں وضع کرتے ہیں جن میں پوشیدہ سفاکی اور ابلیسیت ظاہر نہ ہو؟
جدید مغربی تہذیب کے جدید منتروں میں سے ایک اور منتر ’’فری مارکیٹ‘‘ کی اصطلاح ہے۔
ظاہر ہے کہ آزاد منڈی میں مقابلہ بھی آزادانہ ہوتا ہے۔ تالیاں… لیکن ٹھیریے‘ یہ اصطلاح ایک ایسے بین الاقوامی منظرنامے میں استعمال ہورہی ہے جہاں دنیا کے 80 فیصد وسائل 20 فیصد آبادی میں مرتکز ہوگئے ہیں‘ یہ ترقی یافتہ دنیا کی آبادی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے 95 فیصد ذرائع اسی آبادی کے ہاتھ میں ہیں۔ بین الاقوامی سیاست‘ بین الاقوامی سفارت‘ فوجی طاقت غرضیکہ سب کچھ اسی آبادی کے پاس ہے۔ چنانچہ آزاد منڈی کی معیشت دراصل اولمپک چیمپئن اور لنگڑوں کے مابین دوڑ کا مقابلہ ہے۔ تو پھر اس میں آزاد منڈی کہاں ہے؟ اور نہیں ہے تو آزاد منڈی‘ آزاد منڈی کیوں جپ رہی ہے؟ جادو وہ جو سرچڑھ کر بولے۔
یہ جادو نہیں تو اور کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل گزشتہ 60 سال سے صرف پانچ بڑی طاقتوں کے لیے Security Council ہے ورنہ باقی تمام ممالک اور اقوام کے لیے اس کی حیثیت دائمی In Security Council کی ہے۔ مگر ساری دنیا روبوٹس کی طرح 60 سال سے سیکورٹی کونسل‘ سیکورٹی کونسل کررہی ہے۔
آخر حماقت‘ اندھے پن اور خودفریبی کی کوئی حد بھی ہے؟ یہ تو بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ سے بھی آگے کی بات ہے۔ رہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی… تو یہاں بہروں کے اجتماع سے گونگوں کے خطابات کے مقابلے ہوتے رہتے ہیں۔ مگر ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ذکر اتنے احترام سے کرتے ہیں جیسے یہ ہمارے لیے کوئی بہت ہی مقدس ادارہ ہو۔ بعض لوگوں کا بس چلے تو وہ جنرل اسمبلی کی سمت پائوں کرکے سوئیں بھی نہیں۔
مغرب اصطلاحوں کا یہ کھیل صدیوں سے کھیل رہا ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ حفظ ِماتقدم کے تحت دشمن پر حملے یا Preemptive Strike کی بے اصولی جارج بش کی ایجاد ہے۔ لیکن یہ غلط فہمی یا خوش فہمی یا نرا سرکٹا پن ہے۔
صلیبی جنگیں بجائے خود اسی تصور کے تحت شروع ہوئیں۔آپ کا کیا خیال ہے‘ کولمبس اور واسکوڈی گاما علمی تجسس کے زیراثر نئی دنیائیں تلاش کرتے پھر رہے تھے؟ جی نہیں‘ یہ یورپ کی نوآبادیاتی طاقتوں کا ہراول دستہ تھے اور یہ بحری راستوں پر ممکنہ غلاموں کی بستیاں سونگھتے پھر رہے تھے۔
آپ ذرا اقبال کی کلیات تو اٹھایئے۔ مغرب کی ایک اصطلاح ہے ’’آزادیٔ افکار‘‘۔ اقبال نے اس کا ترجمہ کیا ہے:
آزادیٔ افکار ہے ابلیس کی اولاد
مغرب کہتا ہے ’’جمہوریت‘‘…
اقبال فرماتے ہیں:
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
لیجیے بات ڈائون سائزنگ سے شروع ہوئی تھی اور ڈائون سائزنگ پر ہی ختم ہورہی ہے۔ جمہوریت اگر معیار یا Quality کو کمیت یا Quantity میں تبدیل کرنے کا عمل ہے تو یہ روحانی‘ اخلاقی اور دانش ورانہ ڈائون سائزنگ کے سوا کیا ہے؟
Downsizing By Shenawaz Farooqi
↧
↧
Operation Blue Star Golden Temple
مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ برطانیہ نے امرتسر کے گولڈن ٹمپل پر ’’بلو اسٹار آپریشن‘‘ کے نام سے کیے جانے والے فوجی حملے کی منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد میں بھارتی حکومت کی مدد کی تھی۔ اس آپریشن میں جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور اس کے عسکریت پسند سکھ ساتھیوں کا صفایا کر دیا گیا تھا۔ برطانیہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ بھارت کا نو آبادیاتی آقا ہونے کی وجہ سے وہ ہر مشکل گھڑی میں اس کے ساتھ ہے۔ اور زخموں پر مزید نمک چھڑکنے کے لیے برطانوی آرکائیو کی خفیہ دستاویزات کو اب عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے جس میں وہ تمام مواد شامل ہے جسے ’’آپریشن بلو اسٹار‘‘ کی 30 ویں سالگرہ کے موقع پر جاری کر دیا گیا ہے۔ اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے عسکریت پسندوں کے خوف کے باعث اس آپریشن کی منظوری دی تھی جنہوں نے کہ گولڈن ٹمپل کو اپنی پناہ گاہ بنا رکھا تھا۔ اس وقت کی برطانوی وزیراعظم مسز مارگریٹ تھیچر نے مسز گاندھی کو فوجی امداد کی پیشکش بھی کی تھی تا کہ وہ اپنے منصوبے پر عمل درآمد کر سکیں۔
میں نے یہ نتیجہ اس بنیاد پر اخذ کیا ہے کہ مسز تھیچر اور اندرا گاندھی میں ہر روز ٹیلی فون پر بات ہوتی تھی۔ میں لندن میں بھارت کا ہائی کمشنر تھا اور مسز تھیچر نے خود مجھے بتایا کہ وہ مسز گاندھی کے ساتھ برطانیہ اور انڈیا کے باہمی تعلقات پر تبادلہ خیال کرتی ہیں، موسم پر بات چیت نہیں کرتیں۔ اس موقع پر سکھ عسکریت پسندوں کا ذکر یقیناً ہوتا ہو گا (ایک دفعہ میں نے مسز تھیچر سے پوچھا کیا وہ وزیر اعظم راجیو گاندھی کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں تو انھوں نے بڑی تنک مزاجی سے جواب دیا کہ وہ ایک مختلف شخص ہے) بہر حال میں بھارتی فضائیہ کی اسپیشل ایڈ سروسز (SAS) کی اس آپریشن میں شمولیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ اگر یہ سچ ہوتا تو برطانیہ یا انڈیا کا میڈیا گزشتہ تیس سال میں یقیناً اس کو طشت ازبام کر چکا ہوتا۔ جیسے کہ سابق لیفٹیننٹ جنرل کے ایس برار نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ کارروائی کلی طور پر بھارتی فورسز نے کی تھی۔ ’’ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ برطانیہ سے کوئی یہاں آیا ہو اور ہمیں بتایا ہو کہ کارروائی کی منصوبہ بندی کس طرح کی جائے‘‘۔ بہر حال سچ کا پتہ اس وقت چل جائے گا جب برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے حکم پر کی جانے والی انکوائری مکمل ہو جائے گی۔
وہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ 1984ء میں مسز تھیچر کی حکومت کا اس آپریشن میں کیا کردار تھا، تا کہ اصل حقائق کھل کر سامنے آ سکیں۔ بھارت کے اندر اور بیرون ملک رہنے والے سکھ بہت پریشان ہیں کیونکہ برطانوی حکومت ایسے ظاہر کر رہی ہے جیسے وہ اس آپریشن پر خوش نہیں ہے۔ بے شک مسز گاندھی نے فوج کو گولڈن ٹمپل میں بھیجنے سے قبل بدحواس ہو کر مختلف لوگوں سے ان کی رائے لینے کی کوشش کی تھی کہ آپریشن کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ مسز گاندھی کے ایک مشیر آر کے دھاون میرے پاس بھی آئے تھے تا کہ دربار صاحب میں فوجی دستے داخل کرنے کے سوال پر میرا ردعمل جان سکیں۔ انھوں نے مجھے واضح طور پر بتایا کہ مسز گاندھی نے انھیں میرے پاس بھیجا ہے۔ میں نے کہا میں جانتا ہوں کہ وہ میرے پاس مسز گاندھی کی اجازت کے بغیر نہیں آ سکتے تھے کیونکہ موصوفہ میری تحریروں کی وجہ سے میرے ساتھ کتنی سخت ناراض ہیں۔ میں نے انھیں خبردار کیا کہ گولڈن ٹمپل میں فوج کو بھیجنے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ وہ سکھوں کے لیے اتنا ہی مقدس ہے جتنا کہ عیسائیوں کے لیے ویٹی کن۔ میں نے یہ بھی کہا اگر حکومت نے ایسا کر دیا تو سکھ اسے کبھی معاف نہیں کریں گے اور نہ کبھی فراموش کریں گے کیونکہ یہ ان کے مقدس ترین مقام کی بے حرمتی ہو گی۔
میرے انتباہ کے باوجود وہ فوجی کارروائی سے باز نہ آئیں۔ گیانی ذیل سنگھ اس زمانے میں ملک کے صدر تھے۔ میری ان سے اکثر ملاقات رہتی تھی۔ وہ مجھے اپنے دل کی بات بتا دیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں گیانی ذیل سنگھ اور اندرا گاندھی میں بہت دوریاں پیدا ہو گئی تھیں۔ اس حد تک کہ مسز گاندھی نے ان کی طرف کوئی سرکاری کاغذ تک نہ بھیجا اور نہ ہی کبھی وزارتی کابینہ کی کارروائی کی رپورٹ بھیجی حالانکہ ایسا کرنا غیر آئینی تھا لیکن موصوفہ آئین کی خلاف ورزی سے قطعاً نہ ہچکچاتی تھیں۔ انھوں نے صدر کا جنوبی افریقہ کا خیرسگالی دورہ بھی منسوخ کر دیا۔ بہر حال صدر کو یہ یقین دہانی ضرور کروائی کہ گولڈن ٹمپل میں فوج کشی نہیں کی جائے گی۔ آئینی طور پر صدر فوج کے سربراہ تھے۔ انھوں نے کئی مرتبہ کہا تھا کہ جس طرح سے اندرا سکھوں کے معاملے سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے وہ اسے پسند نہیں کرتے لیکن مسز گاندھی کی یقین دہانی پر کہ گولڈن ٹمپل کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی صدر گیانی مطمئن ہو گئے۔ اندر کمار گجرال نے وزیر اعظم بننے سے پہلے اکالی سکھوں کے ساتھ افہام و تفہیم پیدا کرنے کی خاطر ایک ’’پنجاب گروپ‘‘ تشکیل دیا تھا جس کا میں خود بھی رکن تھا۔ لیکن اندرا گاندھی کی حکومت نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا۔
اس وقت کے وزیر خزانہ نرسمہا راؤ نے ہمیں دعوت دی کہ اکالی سکھوں کے ساتھ سمجھوتے کے لیے ہماری مدد کریں۔ اس کو یہ احساس نہیں تھا کہ اب اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ حکومت اس سے پہلے ہی فوجی آپریشن کا فیصلہ کر چکی تھی۔ یہ فوج کے گولڈن ٹمپل میں داخلے سے ایک ہفتہ قبل کی بات ہے۔ اس فوجی آپریشن کی قیادت کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل برار نے مجھے بتایا کہ اس آپریشن کو اس کے وقوع سے دو ہفتے قبل مکمل کرنے کا حکم دیا جا چکا تھا۔ یہ آپریشن زیادہ طویل نہ تھا اگرچہ فوج کو ٹینک بھی استعمال کرنے پڑے تھے کیونکہ عسکریت پسندوں کی طرف سے مزاحمت بہت سخت تھی۔ اس سلسلے میں مسز گاندھی سے مشورہ کیا گیا کیونکہ انھوں نے بطور خاص ٹینک استعمال کرنے کی ممانعت کر دی تھی۔ سکھوں نے اس واقعے پر خوب ہنگامہ کیا۔ دھاون ایک بار پھر میرے گھر مجھ سے یہ پوچھنے کے لیے آئے کہ سکھوں کے غیظ و غضب کو فرو کرنے کے لیے انھیں کیا کرنا چاہیے۔ میں نے انھیں بتایا کہ ان کے اس آپریشن نے خالصتان کی بنیاد رکھ دی ہے۔ دھاون بولے کہ مسز گاندھی نے کہا ہے کہ کلدیپ کے پاس ضرور کوئی نہ کوئی حل ہو گا۔ تاہم میری نصیحت یہ تھی کہ فوجی دستوں کو ٹمپل کمپلیکس سے فی الفور نکل جانا چاہیے اور اکالی سکھوں کے تخت کی مرمت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
میں نے انھیں بتایا کہ جہاں تک میں ان لوگوں کو جانتا تھا یہ تباہ شدہ عمارت کی از خود تعمیر نو کر لیں گے اور حکومت کی اس سلسلے میں کوئی اعانت قبول نہیں کریں گے۔ حکومت نے فوجی دستوں کو واپس بلا لیا لیکن اکالی تخت کی مرمت کا کام بھی کروا دیا۔ سکھوں نے حکومت کی طرف سے کی جانے والی تعمیر نو کو مسمار کر دیا اور اکالی تخت کو رضا کاروں کے تعاون سے دوبارہ تعمیر کیا۔ صدر ذیل سنگھ سب سے ناخوش شخص تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے ایک نشرئیے میں صبر و تحمل اور درگزر کی تلقین بھی کی لیکن ساتھ یہ بات واضح کر دیا کہ مسز گاندھی کی حکومت نے سکھ کمیونٹی کا ناقابل تلافی نقصان کیا ہے اور ان کے جذبات کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ وہ انڈین ائر لائن کے طیارے میں بیٹھ کر امرتسر پہنچے کیونکہ وی آئی پی طیارہ مسز گاندھی کے استعمال میں تھا۔ مجھے اس بات کا علم نہیں کہ آیا انھوں نے حکومت کے اس اقدام کی تحریری طور پر مذمت کی تھی یا اپنی بے بسی اور توہین کی کہانی کسی کو سنائی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ مسز اندرا گاندھی کو بھنڈرانوالہ کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے کوئی اور طریقہ تلاش کرنا چاہیے تھا۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ اور کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کی طرف سے سکھ کمیونٹی سے معذرت کرنا اس برادری کے لیے کافی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ [ترجمہ:مظہر منہاس]
کلدیپ نائر
بشکریہ روزنامہ 'ایکسپریس
Operation Blue Star Golden Temple Golden Temple'
↧
مولانا سمیع الحق کا ’’مذاکراتی مشن‘‘

مولانا سمیع الحق نے طالبان کے ساتھ ’’مذاکرات‘‘ سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے تو مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دے دیا تھا لیکن وزیر اعظم نوازشریف نے مولانا کو ملاقات کا وقت ہی نہیں دیا جس سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ دوسری طرف طالبان سے مذاکرات کے زبردست حامی اور کسی بھی نوع کے فوجی آپریشن کے شدید مخالف عمران خان نے کہا ہے کہ ہم فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ طالبان کے خلاف آپریشن کا کوئی فیصلہ ہوچکا ہے تو ہمیں اعتماد میں لیا جائے۔ بیانات کی ان پھلجڑیوں کے دوران دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز پولیس اہلکاروں سمیت چودہ افراد اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔
مولانا سمیع الحق کی وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ایک ملاقات تو ضرور ہوئی لیکن ’’ملاقات‘‘ کے اس عنوان کے تحت رقم ہونے والی ساری داستان صرف مولانا ہی کے کنج لب سے پھوٹی۔ حکومت کی طرف سے ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا کہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے حضرت کو کوئی خصوصی مشن سونپا گیا ہے تاہم مولانا نے ملاقات کے فوراً بعد اخباری نمائندوں کو آگاہ کیا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ تراشنے پر مامور ہوئے ہیں۔ حکومت نے اس کی تردید نہ کی۔ حکومت کے اتحادی مولانا فضل الرحمٰن نے اسے اپنی سبکی خیال کیا کیوں کہ طالبان کے حوالے سے وہ خود کو زیادہ موثر خیال کرتے ہیں۔ اگلے ہی دن وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کرکے صورت حال کی وضاحت کردی۔
مولانا سمیع الحق کی وزیر اعظم سے ملاقات 31؍ دسمبر کو ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کو نہیں بتایا کہ طالبان کے کم و بیش پینسٹھ گروپس میں سے ان کی ملاقات کن لوگوں سے ہوئی؟رابطے کے دوران طالبان نے مذاکرات کے لئے کیا پیشگی شرائط عائد کیں؟ باضابطہ مذاکراتی عمل کے لئے حکومت سے کیا مطالبہ کیا جارہا تھا؟ اس طرح کے مشن عام طور پر خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ ثالثی کا کردار ادا کرنے والا شخص اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ ٹھوس پیشرفت سے پہلے بات گلی محلوں کا موضوع نہ بنے۔ مولانا نے اس احتیاط کو ملحوظ خاطر نہ رکھا۔ فوری طور پر پورے جلال و جمال کے ساتھ میڈیا کے سامنے آئے اور قوم کو مژدہ سنایا کہ اس سنگین بحران کے حل کے لئے بالآخر وزیراعظم کی نگاہ انتخاب ان پر پڑی ہے اور اب وہ تیشہ ٔفرہاد لے کر جوئے شیر بہا لانے کو نکل رہے ہیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ سیاست ، رقابت کا کھیل ہے۔ سیاسی اہداف و مقاصد رکھنے والا علماء کے درمیان ہم آہنگی کم کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ ان کی انا خاصی سخت جان ہوتی ہے۔ اسی انا نے جمعیت علمائے اسلام کے کئی ٹکڑے کر رکھے ہیں۔ مولانا کے حصے کی جمعیت ان کے نام کی مناسبت سے جمعیت علمائے (س) کہلاتی ہے۔ اگر حضرت کو واقعی یہ اہم مشن سونپا گیا تھا اور وہ خلوص دل کے ساتھ کوئی خدمت بجا لانا چاہتے تھے تو شرط اول یہی تھی کہ وہ میڈیا کی چکاچوند سے دور، ذوق تصویر و تشہیر سے بے نیاز ہو کر اللہ کی خوشنودی، پاکستان کی سلامتی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اس کارخیر میں لگ جاتے۔ دنیا کو خبر اس وقت ہوتی جب اس گھنے جنگل سے کوئی راستہ تلاش کرلیا جاتا، سنجیدہ مذاکرات کی بساط بچھ جاتی اور دلوں میں امید ویقین کے چراغ روشن ہوجاتے۔ تب میڈیا تحقیق کرتا اور پوری قوم سراغ لگاتی کہ یہ کارنامہ کس مرد کار کے ہنر کا اعجاز ہے۔کھوج لگانے والوں کے قدم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی دہلیز تک پہنچتے۔ وہ سب حضرت کے حجرۂ خاص کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور حضرت سرجھکا کر شرمائے لجائے انداز میں کہتے… اس میں میرا کوئی کمال نہیں ، سب اللہ کا کرم ہے‘‘۔ لیکن سیاست خود نمائی اور چہرہ کشائی مانگتی ہے۔ سو مولانا نے جوئے شیر کیلئے سنگلاخ پہاڑوں پہ پہلی کدال چلانے سے پہلے قوم کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا کہ انہیں وزیراعظم نے شرف ملاقات عطا کیا ہے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کا کارمحال ان کے کندھوں پہ ڈال دیا گیا ہے۔
31؍ دسمبر 2013ء سے ، دستکش ہونے کے دن 22؍جنوری 2014ء تک کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ مولانا کی مصروفیات کیا رہیں۔ وہ اکوڑہ خٹک کے حجرہ عالی سے کتنی بار نکلے، کہاں کہاں کا سفر کیا، کس کس سے ملاقات کی اور کتنی برف پگھلانے میں کامیاب ہوئے۔ تین ہفتوں کے دوران مولانا نے طالبان سے کوئی اپیل نہ کی کہ چونکہ معاملات کے سدھار کی ذمہ داری اب ان کے کندھوں پہ ڈال دی گئی ہے لہٰذا وہ کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کریں جو امن کی خواہش پر منفی اثرات ڈالے۔ جنوری کے تین ہفتوں کے دوران دہشت گردی کی ایک زبردست لہر اٹھی۔ بنوں اور راولپنڈی کی وارداتوں نے قوم کو ہلا کے رکھ دیا۔ امن اور خیرسگالی کا پیامبر ہونے کے ناتے مولانا کو چاہئے تھا کہ ان وارداتوں کی کھل کر مذمت کرتے۔ طالبان سے مخاطب ہوکر کہتے کہ ’’میرے بچو! یہ تم کیا کررہے ہو، اب امن کا سفید پرچم میرے ہاتھ میں ہے۔ میری لاج رکھو اور مذاکراتی عمل کو مخلصانہ کوششوں کو سبوتاژ نہ کرو‘‘۔وزیراعظم کی طرف سے ملاقات کا وقت نہ ملنے پر تو وہ اتنے برہم ہوئے کہ مذاکراتی مشن ہی سے دستکش ہوگئے لیکن دہشت گردی کی پے درپے وارداتوں کو انہوں نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا اور اظہار خفگی تک نہ کیا۔ اصولاً تو ان ہلاکت آفریں وارداتوں پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہیں طالبان سے کہنا چاہئے تھا کہ اگر تم لوگ اپنا ہاتھ نہیں روک سکتے تو میں اس مشن سے دستبردار ہورہا ہوں۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ وزیراعظم کا ملاقات کیلئے وقت نہ نکالنا (بقول مولانا سمیع الحق) ان سنگین وارداتوں سے بھی بڑا گناہ نکلا جو چند دنوں میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت تقریباً ڈیڑھ سو افراد کا لہو پی گئیں۔
مولانا نے یہ بھی نہیں بتایا کہ مذاکراتی عمل شروع کرنے کے حوالے سے کیا ایسی ٹھوس پیشرفت ہوئی تھی جسے وہ اپنی کامیابی سے تعبیر کررہے ہیں؟ طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش پر مبنی عمومی بیانات ایک عرصے سے آرہے ہیں۔ جس دن بنوں کا المیہ پش آیا، اس دن بھی طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد اور اعظم طارق کے انٹرویوز کے اقتباسات جاری ہوئے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ ’’ہم نے باوقار، سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات سے نہ پہلے کبھی انکار کیا تھا اور نہ اس مذاکراتی عمل کی افادیت سے مستقبل میں انکار کرتے ہیں‘‘۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان نیک خواہشات کے اظہار کے باوجود بموں کے دھماکے، خودکش حملے اور ہلاکت آفریں کارروائیاں جاری ہیں، جن کی ذمہ داری بھی قبول کی جارہی ہے۔
دہشت گردی کی بہت بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد ایک ایسا مرحلہ آن پہنچا ہے جس میں قوم کو اپنے عزم راسخ کا اظہار کرنا ہوگا۔ عمران خان نے درست کہا کہ اگر آپریشن کا فیصلہ کرلیا گیا ہے تو سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ ان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ قوم اپنی فوج کے ساتھ ہے۔ حب الوطنی کا تقاضا یہی ہے کہ کم از کم دہشت گردی کے معاملے کو سیاست یا شخصی مفاد کی آنکھ سے نہ دیکھا جائے۔ اس معاملے میں حکومت اور اپوزیشن کا امتیاز بھی ختم ہو جانا چاہئے۔ فوج سے مشاورت کے بعد حکومت اگر کسی نتیجے پر پہنچتی ہے تو اسے کم از کم ان بڑی جماعتوں کو ضرور اعتماد میں لینا چاہئے جو پارلیمان میں قابل ذکر عوامی نمائندگی رکھتی ہیں۔
اگر یہ مناسب خیال کیا جاتا ہے کہ مذاکراتی عمل کے لئے تمام جماعتوں کے اشتراک سے ایک اور پرعزم کوشش کی جائے تو ٹھیک اور اگر یہ طے پاتا ہے کہ ریاست کی رٹ قائم کرنے اور مسلسل پھیلتی دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے طاقت کا استعمال ہی کارگر آپشن ہے تو اس پر اتفاق رائے کرلینا چاہئے۔ مولانا سمیع الحق سمیت علمائے کرام کو بھی اب نیمے دروں نیمے بروں کی آشوب سے نکل کر واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرنا ہوگا۔
عرفان صدیقی
بشکریہ روزنامہ 'جنگ
Maulana Samiul Haq
↧
Waziristan Operation
↧
↧
Reality of Jamat-e-Islami
↧
یہ یرموک کیمپ ہے،مکین کو یاد نہیں آخری کھانا کب کھایا تھا
شامی صدر بشارالاسد کی وفادار فورسز دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع فلسطینی مہاجرین کے کیمپ یرموک تک انسانی امداد بہہنچانے کی اجازت نہیں دے رہی ہیں جس کے نتیجے میں وہاں بھوک اور ننگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور اس کیمپ کے ایک مکین کو تو یہ تک یاد نہیں رہا کہ اس نے آخری مرتبہ کب کھانا کھایا تھا۔
شامی فورسز کے محاصرے کا شکار یرموک کیمپ میں بھوک سے متاثرہ ایک شخص کی ویڈیو اسی ہفتے منظرعام پر آئی ہے۔مسلسل بھوک کی وجہ سے اس کی ہڈیاں نکل آئی ہیں۔یہ فوٹیج صرف ستائیس سیکنڈز کی ہے لیکن اس سے فلسطینی مہاجر کیمپ کے مکینوں کو درپیش مصائب اور مشکلات کی سنگینی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اس شخص سے کیمرے والا سوال کرتا ہے کہ اس نے آخری مرتبہ کب کھانا کھایا تھا تو وہ مختصر جواب دیتا ہے:''وہ اس کو یاد نہیں کرسکتا''۔بھوک کا شکار فلسطینیوں کی تصاویر سوشل میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آنے کے بعد دنیا حیرت زدہ رہ گئی ہے کہ کس طرح شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران فلسطینی مہاجرین کو جیتے جی بھوک سے مارا جارہا ہے۔خواتین اور بچے خاص طور پر کم خوراکی کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جارہے ہیں۔
شامی کارکنان نے جنیوا میں جاری امن مذاکرات میں شریک حزب اختلاف کے وفد سے کہا ہے کہ وہ اس ویڈیو کو دوسری تصاویر کے ساتھ عالمی رہ نماؤں کو دکھائے۔واضح رہے کہ صدر بشارالاسد کی وفادار فورسز نے گذشتہ کئی ماہ سے یرموک کیمپ کا محاصرہ کررکھا ہے۔اس کیمپ میں قریباً پینتالیس ہزار افراد رہ رہے ہیں لیکن انھیں خوراک اور ادویہ تک رسائی نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے امدادی کارکنان نے اسی ہفتے یرموک کے مکینوں تک خوراک کے چار سو کارٹن پہنچانے کے لیے فوج سے مذاکرات کیے تھے لیکن وہ اپنی اس کوشش میں ناکام رہے تھے۔ان امدادی کارکنان کے مطابق شامی فوجیوں نے کیمپ کے اندر امدادی سامان لے جانے کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ یہ سامان باغی جنگجوؤں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔
Yarmouk camp resident 'can't remember' last time he ate
↧
Pakistan is suffering from political confusion By Saleem Safi
↧
Suiside Attack on Education
↧
↧
Remember Khan Abdul Wali Khan By Ajmal Khattak
↧
Dark Cloud by Dr. Abdul Qadeer Khan
↧
Crimes of our Nation by Ansar Abbasi
↧
My Humble Request to ... Pakistan Media
↧
↧
GM Syed
جی ایم سید کے مداح دو قسم کے رہے ہیں۔ ایک وہ جو جی ایم سید کی تحریروں اور تقریریوں سے ان کے افکار و خیالات کے مداح بنے …اور ایک وہ جو جی ایم سید کی مکمل سیاسی زندگی کا مطالعہ کرکے اور ان کے ماضی کے ساتھ حال کا تجزیہ کرکے ان کے سیاسی افکار و خیالات سے بالا ہوکر ان کی سچائی اور صاف گوئی کے ناتے ان کے مداح بنے۔
میرا شمار بھی جی ایم سید کے ان مداحوں میں ہوتا ہے جو ان کے صاف ستھرے شخصی کردار، سچے اور کھرے سیاست دان کی حیثیت سے طویل سفر اور کڑواہٹ کی حد تک بیباکی سے دل کی بات بے خطر کہنے والے شخص کے طور پر انہیں منفرد سمجھتے تھے۔
یوں بھی ایک صحافی اور وقائع نگار کی حیثیت سے مجھ پر لازم تھا کہ میں ان کے سیاسی افکار کا حامی یا مخالف بنے بغیر ان کی بات پڑھنے والوں تک پہنچادوں۔
جی ایم سید کے خیالات جاننے اور انہیں قریب سے سننے کا موقع مجھے صحافت کے آغاز ہی سے ملا۔ 4 مارچ 1972ء کو بسنت ہال حیدرآباد کے جلسے میں جی ایم سید اسٹیج پر تشریف فرما تھے اور میں اسٹیج کے کنارے ان کے قریب بیٹھ کر تقاریر لکھ رہا تھا، جب صدر کے رٹز ہوٹل میں اسی شب جی ایم سید نے وزیراعلیٰ بلوچستان عطاء اللہ مینگل کو عشائیہ دیا تو یہاں بھی مجھے شرکت اور تقاریر کو رپورٹ کرنے کا موقع ملا… پھر غالباً اگست 1972ء کے دوران جی ایم سید اور دیگر قوم پرست سیاست دانوں نے جب بھرگڑی ہاؤس ہیرآباد میں جلسے سے خطاب کیا تو میں نے اس کی رپورٹ بھی لکھی۔ اسی طرح میں نے 1973ء اور اس کے بعد مختلف اہم تقریبات اور واقعات کی رپورٹنگ بھی کی۔
تاہم جی ایم سید سے مثالی تعلق 1984ء میں استوار ہوا۔ جب مارچ1984ء سے مشہور رسالے ’’تکبیر‘‘ کا آغاز ہونے جا رہا تھا تو اس کے منیجنگ ایڈیٹر محمد صلاح الدین نے اس خواش کے ساتھ مجھے ذمہ داری سونپی کہ میں ابتدائی شماروں کے لیے ہی کوئی ایسی رپورٹ لکھوں جس سے پورے ملک میں ’’تکبیر‘‘ کا چرچا ہونے لگے۔ انہوں نے رسالے کے اجراء سے ایک ماہ قبل ہی مجھے انگیج کرلیا تھا۔ محمد صلاح الدین کی جانب سے اعتماد کے ساتھ یہ ذمہ داری دینے پر میں کئی روز فکرمند رہا۔ سیاسی شخصیات سے انٹرویو کرنا اگرچہ میرا پسندیدہ شعبہ تھا اور اُس زمانے میں جی ایم سید ایسی شخصیت تھے جن سے ایک اچھے انٹرویو میں کامیابی کا مطلب رسالے کی کامیابی تھا، مگر سوال یہ تھا کہ جی ایم سید سے کیسے ملوں اور انہیں بات چیت پر کیسے رضامند کروں۔ بہت سے اندیشے تھے اور ناکامی کا خوف بھی، اس کے باوجود میں ہمت کرکے سن جا پہنچا اور 8 فروری 1984ء کو میں نے تمام دن کی مشقت کے بعد جی ایم سید سے اتنی گفتگو کرلی کہ چھپے تو ملک بھر کی توجہ حاصل کرلے۔ دیوارِ برلن جیسی اجنبیت حائل ہونے کے باوجود یہ ایک صحافی کا تاریخ ساز سیاستدان سے ایسا اچھوتا انٹرویو تھا جس نے برسوں کی محبت، شفقت اور شناسائی کی بنیاد رکھی۔
یہ انٹرویو ’’تکبیر‘‘ میں چھپا تو ’’جنگ‘‘ سمیت کئی بڑے اردو اخبارات کے صفحہ اول کی خبر بنا، اور نہ صرف ’’تکبیر‘‘ نے ایک ہی جست میں مہینوں اور برسوں کی شہرت کا فاصلہ طے کر لیا بلکہ خود میںنے چشم زدن میں جی ایم سید کا وہ اعتماد اور اعتبار حاصل کر لیا جسے عشروں سے کوئی صحافی،خصوصاًاردو اخبار یا رسالے کا صحافی حاصل نہیں کر سکا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ جب ’’تکبیر‘‘ میں جی ایم سید کا انٹرویو چھپا تو جئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سندھ یونیورسٹی میں سرکردہ لیڈر سن گئے اور سائیں سے پوچھا کہ ایک اردو رسالے میں آپ کا انٹرویو چھپا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے؟ …تو سائیں نے کہا: ہاں میں نے انٹرویو دیا ہے اور یہ لڑکا پہلا اردو بولنے والا صحافی ہے جس نے سب کچھ وہی لکھا ہے جو میں نے کہا تھا، اس نے کوئی ہیرپھیر نہیں کی۔ اس تصدیقی سند کے بعد JSSFنے اس انٹرویو کو سندھی میں ترجمہ کراکر گاڑی کھاتہ حیدرآباد کے ایک پریس سے بڑی تعداد میں پمفلٹ کی صورت چھپوایا اور تقسیم کیا۔
جی ایم سید نے 8فروری 1984ء کے انٹرویو میں سچائی کا ایسا خوبصورت اظہار کیا تھا جس کی سرشاری میں آج تک محسوس کرتا ہوں کہ یہ تاریخ سے ہم کلام ہونے کا شرف تھا جو مجھے حاصل ہوا۔ اس انٹرویو میں جی ایم سید نے قو م پرستی کے نئے رجحانات کے پس منظر میں بہت سی بنیادی باتوں کے ساتھ یہ تاریخی حقیقت بھی بیان کی تھی کہ ’’مذہب تبدیل ہوسکتا ہے، وطن تبدیل نہیں ہو سکتا۔‘‘
سب جانتے ہیں کہ 1984ء کے بعد ہی سندھ میں مہاجر قوم پرستی کے حوالے سے ایک نئی ہلچل کا آغاز ہوا اور اس زمانے میں کچھ ایسا ہی فکری سیاسی انتشار پیدا ہوچکا تھا جیسا کہ اِن دنوں پورے سندھ بلکہ پاکستان میں آکاس بیل کی طرح پھیلا ہوا ہے۔
دسمبر2007ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل اور اس کے نتیجے میں آصف علی زرداری کی غیر متوقع حیران کن حکمرانی سے اب 2014ء میں میاں نوازشریف کی فیملی لمیٹڈ حکومت تک ہم جس بے سمت، بے مقصد سیاست کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اس کی جڑیں بہت دور تک جاتی ہیں، خصوصاً 1970ء کے انتخابات اور اس کے نتائج سے جنم لینے واقعات کو آج کے حالات سے جدا کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔
اسی فکری سیاسی انتشار نے1984ء سے1987ء کے دوران جب ملک پر غلبہ حاصل کیا ہوا تھا اور صاحبِ دانش لوگ مستقبل کے حوالے سے پریشان رہا کرتے تھے تو میرے ایک دوست نے جنہیں معلوم تھا کہ جی ایم سید مجھ پر اعتماد کرتے ہیں، بار بار اصرار کیا کہ کسی دن جی ایم سید کے پاس چل کر پوچھیں کہ کیا ہونے والا ہے اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟ ان کے نزدیک اُس وقت صرف جی ایم سید ہی ایسے سیاست دان تھے جو کسی لالچ کے بغیر بلا خوف سچائی سے بتا سکتے تھے کہ ہماری بقاء کا راستہ کیا ہے۔ چونکہ وہ بھی میری طرح جی ایم سید کی سچی اورکھری باتوں کے سبب ان کے مداح تھے، لہٰذا وہی اپریل 1987ء میں میرے اس سفر کا محرک اور ذریعہ بنے جس کے نتیجے میں تمام دن کی طویل گفتگو کے بعد میری کتاب ’’جی ایم سید کی کہانی‘‘ تخلیق ہوئی۔
موجودہ پاکستان کے فکری سیاسی انتشار کا مایوس کن تاریک پہلو یہ ہے کہ آج سندھ میں کوئی جی ایم سید جیسا جہاندیدہ، تجربہ کار اور دور اندیش شخص موجود نہیں ہے جس سے صرف ایک انٹرویو (فروری1984ئ) کی بنیاد پر کوئی ظہیر احمد سن کا سفر کرکے اور مستقبل کا پتا پوچھنے کے لیے گفتگو کے نشیب و فراز کے ساتھ اُس وادی میں دور تک اُتر جائے جہاں لفظوں کے جھروکے سے قوموں کے عروج و زوال کی درد بھری داستان صاف سنائی دیتی ہے۔
میری کتاب ’’جی ایم سید کی کہانی‘‘ کے پیش لفظ کا پہلا جملہ ہی یہ تھا ’’جی ایم سید سے آپ کو ایک لاکھ مرتبہ اختلاف ہوگا لیکن کیا آپ اس بات سے انکار کرسکیں گے کہ جی ایم سید نصف صدی سے زیادہ عرصے کی ہماری تاریخ کا گمشدہ باب ہیں۔‘‘
مجھے فخر ہے کہ میں نے یہ گمشدہ باب دریافت کرکے اپنی قومی سیاسی تاریخ کی سمت کو درست کرنے کی سعی کی، اور یہ سعی یا کوشش میرے قریباً نصف صدی کے صحافتی کیریئر کا سب سے قابلِ ذکر ایونٹ ہے۔ جب میری یہ کتاب چھپ رہی تھی تو ایک بار 23 اگست 1987ء کو میں جی ایم سید کی عیادت کے لیے جناح ہسپتال کراچی گیا۔ پھر جب وہ حیدر منزل آگئے تو21 ستمبر1987ء کو میں نے حیدر منزل جاکر پھر ان کی خیریت پوچھی اور ان کی بے پناہ محبت کا حق دار بنا اور دوپہر کے کھانے میں شریک ہوا۔ یہ ون ٹو ون ملاقات تھی۔
جب میری کتاب چھپ گئی تو اتفاقاً جی ایم سید کا حیدرآباد آنا ہوا۔ یہ 19اکتوبر 1987ء کا دن تھا جب میں نے شہاب الدین شاہ کے گھر پر سائیں کو اپنی کتاب پیش کرکے ایک کتاب پر اُن کے آٹو گراف لیے۔ یہ تاریخی نسخہ اب تک میرے پاس محفوظ ہے۔
1988ء کے انتخابات کے بعد سندھ میں فکری سیاسی انتشار یکلخت بڑھ گیا تھا اور آج کی طرح اُس وقت بھی سندھ کو تقسیم کرنے کی باتیں کی جا رہی تھیں۔
اسی انتشار کے دوران 23 جولائی 1989ء کی شام میں نے
باقی صفحہ 41 پر
حیدرمنزل کراچی میں جی ایم سید سے ملاقات کی اور حالات پر ان کی رائے لی۔ اس نشست میں جی ایم سید نے دورانِ گفتگو کمال کا یہ جملہ بولا تھا: ’’مہاجروں نے کمیونٹی آف کرمنلز پیدا کردی ہے‘‘ …شاید یہ بات جسے دو عشروں نے ہر لحاظ سے سچ ثابت کر دکھایا ہے، جی ایم سید جیسا بے خوف، دور اندیش اور صاف گو شخص ہی کہہ سکتا تھا۔ جی ایم سید نے اس دوران یہ بھی کہا تھا: ’’ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ یہاں شہروں میں بیٹھ کر چند آدمی سندھ کی تقسیم کی بات کریں… اگر کریں گے تو ہم لڑیں گے، ضرور لڑیں گے۔‘‘ میں نے جی ایم سید کی دونوں باتوں کو رسالے کے ٹائٹل پر سرخی میں شائع کیا تھا کہ یہ ایک سچے اور کھرے سیاست دان کو ایک صحافی کے معمولی خراج تحسین کا انداز تھا۔
چند برس پہلے میرے ایک سندھی دوست نے جو بینک میں افسر تھے، مجھ سے سوال کیا کہ آپ نے جی ایم سید اور ذوالفقار علی بھٹوکو قریب سے دیکھا، سنا اور پرکھا ہے، آپ کی نظر میں کون بہتر تھا؟ میں نے ایک لمحہ تاخیر کے بغیر جی ایم سید کا نام لیا تو اس نے خوشگوار حیرت کے ساتھ وجہ پوچھی۔
میرا جواب یہ تھا کہ جی ایم سید خود ان کے بقول آئیڈیلسٹ تھے۔ آئیڈیلسٹ اپنے افکار کے مطابق سیاسی اور سماجی معاشرے کی تمنا کرتا ہے۔ بدکرداری، بے ایمانی، ناانصافی، حق تلفی، دھونس اور جبر سے نفرت کرتا ہے۔ جلتا کڑھتا ہے، ناکام رہتا ہے، اپنا نقصان کرلیتا ہے، مگر اپنے وطن اور اپنی دھرتی کو مایوس نہیں کرتا اور اقتدار کے لیے اس کے حصے بخرے کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ جبکہ پریکٹیکل پالیٹیشن ہوسِ اقتدار میں ’’اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ کی بات کرکے ملک کے دو ٹکڑے کردیتا ہے۔ اپنی دھاک بٹھانے کے لیے بلوچستان کی منتخب حکومت برطرف کرکے فوج کشی کراتا ہے، سیاسی مخالفت پر سانگھڑ میں چھ حُروں کو قتل کرا دیتا ہے، انجینئرنگ یونیورسٹی جامشورو کے لیکچرار اشوک کمار کو اپنے حامی طالب علم لیڈروں کے کہنے پر غائب کرا دیتا ہے اور اس کی ماں بیٹے کی راہ تکتے ہوئے پاگل ہوجاتی ہے، پریکٹیکل پالیٹیشن فخر ایشیا بننے کے لیے حیدرآباد جیل میں عدالت لگاکر مخالف سیاستدانوں کو غدار بنانے کی فیکٹری کھول دیتا ہے۔ ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت سیاسی مخالفین کی زباں بندی، اخبارات کی بندش، صحافیوں کی گرفتاری، فیڈرل سیکورٹی فورس کے نام سے گسٹاپو کا قیام جمہوریت کے لازمی جز قرار پاتے ہیں۔ پھر بھی کامیابی پریکٹیکل پالیٹیشن کو ملتی ہے اور اسے ہی کامیاب قرار دے کر پورا ملک کسی رجواڑے کی طرح عشروں کے لیے اس کے خاندان اور اس کے خاندانی مالشیئوں کے نام لکھ دیا جاتا ہے۔
شاید اسی طرح آج کے جانشین پریکٹیکل پالیٹیشن ہوسِ اقتدار میں ملک کی طرح سندھ کے دو ٹکڑے قبول کرکے بھی کامیاب اور جمہوریت نواز کہلائیں۔
مگر ان کی بدقسمتی سے پاکستان کی قسمت سندھ کی قسمت سے وابستہ ہوچکی ہے، اب وحدتِ سندھ کے بغیر وحدتِ پاکستان کا تصور محال ہے، لہٰذا میرا یقین ہے کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر موجودہ دور کے آئیڈیلسٹ جی ایم سید ناکام نہیں ہوں گے اور وحدتِ سندھ کے حوالے سے ضرور کامیاب ٹھیریں گے۔
اب 1970ء کی طرح ’’اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ والے پریکٹیکل پالیٹیشن 2014ء میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
ظہیر احمد
↧
مذاکرات ہی واحد حل ہے
ہمارے معاشرے میں دو طرح کے انتہا پسند ہیں ،ایک وہ جو بد سے زیادہ بدنام ہیں اور عموماً مذہبی انتہاپسند کے نام سے جانے جاتے ہیں جبکہ انتہا پسندوں کی دوسری قسم کا تعلق لبرل فاشزم سے ہے۔ لبرل بہت حساس ہوتے ہیں ،اگر کہیں کوئی کتا بھی تکلیف میں ہو تو ان سے برداشت نہیں ہوتا یہ اور بات ہے کہ اپنے مخالفین کو کتے کی موت مرتا دیکھ کر بھی ان کی انسانیت نہیں جاگتی۔ ان کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ فوج بلوچستان میں آپریشن کرے تو آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں لیکن وزیرستان میں جیٹ طیاروں سے بمباری ہو تو پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ طالبان کو ’’اپنے لوگ‘‘ کہ کر مذاکرات کی بات کی جائے تو یہ لبرل فاشسٹ رِٹ آف دی گورنمٹ کی رَٹ لگائے رکھتے ہیں لیکن کراچی میں بھتہ مافیا کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے تو انسانی حقوق کا درس شروع ہو جاتا ہے۔ جس طرح لال مسجد اور سوات آپریشن کی راہ ہموار کی گئی تھی ،ویسے ہی اب وزیرستان فتح کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ ان کے دلائل کی عمارت سطحی نوعیت کے پانچ دلائل پر کھڑی ہے جو کچھ یوں ہیں:
1۔امن مذاکرات ان سے ہو سکتے ہیں جو امن کے خواہاں ہوں،جو گن پوائنٹ پر ایجنڈا نافذ کرنا چاہیں ان سے کیسی بات چیت؟کاش ایسے مشیر امریکہ کو بھی میسر آتے تاکہ وہ طالبان سے مذاکرات کی غلطی نہ کرتا۔ کولمبیا کی حکومت کو ایسے دوراندیش دانشور دستیاب ہوتے تو وہ ان باغیوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر ہرگز نہ بیٹھتی جو بندوق کی نوک پر اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کیلئے مسلح جدوجہد کر رہے تھے۔ جب بنگالیوں نے اپنے مطالبات کے حق میں بندوق اُٹھائی تب بھی یہی کہا گیا کہ ہم ان مٹھی بھر شرپسندوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنیں گے لیکن جب فوج ڈھاکہ میں داخل ہوئی تو آپریشن پر اُکسانے والے ہی انسانی حقوق کی پامالی کا شور مچانے لگے اور آج تک فوج کو معاف کرنے پر آمادہ نہیں۔
2۔ طالبان جمہوریت کو کفر سمجھتے ہیں، پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے، ہمارے عدالتی نظام پر یقین نہیں رکھتے تو ایسے باغیوں کو طاقت سے کیوں نہ کچلا جائے؟آئرلینڈ کے مسلح باغی برطانیہ کی حاکمیت تسلیم نہیں کرتے تھے مگر انگریزوں نے مذاکراتی عمل شروع کرتے وقت یہ نہیں کہا کہ پہلے ہمارے آئین کو تسلیم کرو پھر بات چیت ہو گی۔ کشمیری مجاہدین جو بھارتی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں ،بھارتی حکومت ان کے ساتھ پس پردہ کئی بار مذاکرات کر چکی ہے مگر ان کے آئین نے کبھی برا نہیں منایا۔ جب دہشت گرد کسی عمارت پر قبضہ کر لیتے ہیں ،کسی ہوائی جہاز کو یرغمال بنا لیتے ہیں تو ان سے بات چیت شروع کرنے سے پہلے ہرگز یہ نہیں پوچھا جاتا کہ تم ہماری ریاست اور آئین کو تسلیم کرتے ہو یا نہیں ۔ایک سکندر نے اسلام آباد کو کئی گھنٹے یرغمال بنائے رکھا تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ بات چیت شروع کرنے سے پہلے یہ تو پوچھو اسے جمہوریت پر یقین ہے یا نہیں۔
3۔ طالبان کی بات پر کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے۔جب طالبان کسی واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ اس طرح کی ای میل یا ٹیلی فون کال تو کوئی بھی کر سکتا ہے تو انہیں یہ بات سخت ناگوار محسوس ہوتی ہے اور سوال کرنے والوں کو طالبان کا حمایتی قرار دے دیا جاتا ہے مگر جب یہی طالبان کسی چرچ یا پولیو ٹیم پر حملے کی تردید کرتے ہیں تو کل تک ان کے اعترافی بیان کو قرآن و حدیث کا درجہ دینے والے یہ نام نہاد لبرل فوراً پینترا بدل لیتے ہیں۔ تب یہ تاویل پیش کی جاتی ہے کہ مجرم اپنا گناہ قبول نہ کرے تو کیا اس کی بات سچ تسلیم کر لی جائے؟ بھلا ایسے لوگوں پر کیسے اعتبار کیا جاسکتا ہے۔چند روز قبل میرے ساتھ گفتگو کے دوران طالبان کے سابق مرکزی ترجمان سجاد مہمند المعروف احسان اللہ احسان نے پولیو ٹیموں پر حملوں سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور میں نے ان کا موقف فیس بک پر بیان کیا تو کئی افراد نے یہی اعتراض اٹھایا۔ میرا سوال یہ ہے کہ تردیدی بیانات مشکوک اور ناقابل بھروسہ ہیں تو اعترافی بیانات کوکیوں من و عن تسلیم کر لیا جاتا ہے؟
4۔ طالبان کا قلع قمع کرتے وقت اگر عام افراد بھی مرتے ہیں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور جنگ میں گندم کے ساتھ گھن بھی پس جاتاہے۔بہت خوب،آپ طالبان کو نیست و نابود کرنے کے لئے بے گناہ قبائلیوں پر بم گرائیں تو ٹھیک ،اگر وہ بم دھماکوں میں عام افراد کو نشانہ بنائیں تو بہت سفاک اور ظالم۔ یہ ہاتھیوں کی وہ لڑائی ہے جس میں گھاس کی طرح دونوں طرف عوام ہی کچلے جائیں گے۔ فوجی آپریشن کے دوران تھوڑے بہت طالبان کے ساتھ بے گناہ قبائلی مریں گے تو خودکش حملہ آور شہروں میں آ کر دھماکے کریں گے اور بے قصور لوگ مارے جائیں گے۔یوں اس آپریشن کا بھی وہی حشر ہو گا جو اس سے پہلے کی جانے والی کارروائیوں کا ہوا۔
5۔ فوجی آپریشن کی حمایت کرنے والوں کی آخری منطق یہ ہے کہ مذاکرات کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور اب ماسوائے اس کے کوئی راستہ نہیں بچا کہ باغیوں کو کچل دیا جائے۔ مذاکرات کے نام پر حکومت نے جو سرکس سجائی تھی اس کی حقیقت تو مولانا سمیع الحق نے آشکار کر دی۔ یہ اسی طرح کا بھونڈا مذاق تھا جو اکبر بگٹی اور غازی عبدالرشید کے ساتھ کیا گیا۔ باقی رہا ان باغیوں کو طاقت کے بل بوتے پر کچلنے کا سوال تو ماضی قریب میں مسلح جدوجہد کو فوجی آپریشن کے ذریعے ختم کرنے کی ایک ہی مثال ہے اور وہ ہے سری لنکا کی جہاں تامل باغیوں کو بندوق کے ذریعے جھکنے پر مجبور کر دیاگیا مگر26سالہ لڑائی کے بعد سری لنکا کے شہریوں کو یہ فتح نصیب ہوئی۔ اس دوران وزیر دفاع سمیت کئی حکومتی شخصیات قتل ہوئیں ،کئی جرنیل مارے گئے، 25000فوجی جوان اور افسرجان سے گئے، بچے کھچے باغیوں نے اس وقت تک ہتھیار نہیں ڈالے جب تک ان کے سپہ سالار سمیت 27000ہزار جنگجو مارے نہیں گئے، معیشت تباہ ہو گئی اور کم از کم 200 ارب ڈالر کا خسارہ ہوا تب کہیں جا کر یہ لڑائی ختم ہوئی۔اگر ہماری قوم، ہماری سیاسی قیادت اور فوج اس قدر طویل جنگ لڑنے کی استقامت رکھتی ہے اور ہر قسم کی قربانیاں دینے کو تیار ہے تو جی بسم اللہ،آگے بڑھیں اور اس بغاوت کا سر کچل دیں لیکن بُرا نہ مانیں تو ماضی میں کی گئی فوجی کارروائیوں کی بیلنس شیٹ چیک کر لیں۔اگر ہم چار فوجی آپریشنوں کے ذریعے بلوچستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور حکومتی رٹ بحال ہو چکی ہے تو امید کی جانی چاہئے کہ وزیرستان میں بھی اس آپریشن کے نتیجے میں امن قائم ہو جائے گا۔
ہمارے کمانڈو جرنیل پرویز مشرف جو کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں،سب سے پہلے انہوں نے قبائلی علاقوں میں فوج داخل کی اور آپریشن کیا مگر بھاری جانی و مالی نقصان کے نتیجے میں یہ آپریشن ادھورا چھوڑ کر طالبان سے امن معاہدہ کرنا پڑا اور کور کمانڈر پشاور نے اسی نیک محمد کو ہار پہنائے جس نے فوجی جوانوں کو ذبح کیا تھا۔ان کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو پہلے وزیرستان اور پھر سوات میں طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا گیا ۔وزیر داخلہ رحمٰن ملک اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے قوم کو خوشخبری دی کی ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے لیکن قوم نے محسوس کیا کہ دہشت گرد کمر ٹوٹنے کے بعد پہلے سے زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں۔پہلے تو ان کی کارروائیاں پشاور تک محدود تھیں مگر کمر ٹوٹنے کے بعد وہ رینگتے رینگتے اسلام آباد آ گئے اور ایک دن جی ایچ کیو پر قبضہ کر لیا۔یہ قبضہ چھڑانے کے لئے ہماری حکومت کو جیل میں قید کالعدم جماعت کے رہنما کو ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر جی ایچ کیو لے جانا پڑا تاکہ وہ یرغمالیوں کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کر سکیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک بار پھر ان کی کمر توڑنے کی کوشش میں ہمارا رہا سہا بھرم ٹوٹ جائے۔
محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ "جنگ"
↧
حدیبیہ یا ویتنام
حدیبیہ مکہ مکرمہ سے 12 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گائوں تھا‘ یہ گائوں ایک کنوئیں کے گرد آباد تھا‘ یہ کنواں حدیبیہ کہلاتا تھا اور یہ گائوں بھی اس کنوئیں کی مناسبت سے حدیبیہ ہو گیا‘ حدیبیہ ایک گمنام گائوں تھا اور یہ گائوں شاید آج تک دنیا کے کروڑوں دیہات کی طرح گم نام رہتا مگر 1385 سال قبل ہمارے رسول ؐ کی نعلین شریفین نے اس گائوں کی زمین کو چھو لیا اور صرف ایک لمس کے صدقے یہ گائوں دنیا کے سب سے بڑے سفارتی اصول کا قبلہ بن گیا اور آج دنیا کے کسی بھی کونے میں دو متحارب فریقین کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے تو وہ نسل‘ مذہب‘ زبان اور فرقے سے بالاتر ہو کر اس معاہدے کو ’’حدیبیہ اکارڈ‘‘ قرار دے دیتے ہیں‘1385 سال قبل ہونے والا یہ معاہدہ محض معاہدہ نہیں تھا‘ یہ دنیا میں جدید سفارت کاری کی بنیاد بھی تھا‘ یہ معاہدہ دو گروہوں یا دو انسانوں کے درمیان بھی نہیں تھا‘ یہ معاہدہ اللہ‘ اس کے رسولؐ اور ان کفار کے درمیان تھا جن کا غرور مٹی میں مل چکا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی انا کا شملہ بلند رکھنا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی انا کو مزید ایک سال کی مہلت دے دی اور اس مہلت نے ثابت کر دیا‘ آپ اگر کامیابی کے قریب پہنچ چکے ہیں تو آپ کبھی لڑنے کی غلطی نہ کریں‘ آپ چند قدم پیچھے ہٹ جائیں‘ آپ کی یہ پسپائی آپ کو دائمی فتح کی طرف لے جائے گی لیکن آپ نے اگر اس کے برعکس فیصلہ کیاتو آپ کے تمام دشمن ایک بار پھر اکٹھے ہو جائیں گے اور ان کا یہ اجتماع آپ کی فتح کو دور لے جائے گا۔
نبی اکرمؐ پندرہ سو صحابہؓ کے ساتھ یکم ذیقعد چھ ہجری کو عمرے کے لیے روانہ ہوئے‘ قربانی کے ستر اونٹ بھی اس قافلے میں شامل تھے‘ قافلے نے مدینہ سے نکل کر ذوالحلیفہ نامی گائوں میں احرام باندھ لیے مگر قریش نے اعلان کر دیا‘ ہم مدنی قافلے کو مکہ کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیں گے‘ قریش نے مسلمانوں کو روکنے کے لیے پہلے بدیل بن ورقا کو حدیبیہ بھجوایا‘ وہ قائل ہو کر واپس چلا گیا‘ قریش نے پھر حلیس بن علقمہ کو بھجوایا‘ وہ بھی قائل ہوا اور واپس چلا گیا‘ قریش نے پھر عروہ بن مسعود ثقفی کو بھجوایا‘ وہ بھی مسلمانوں کے ارادے سے متفق ہو گیا‘ پھر نبی اکرمؐ نے حضرت عثمانؓ کو اپنا سفیر بنا کر مکہ بھجوایا لیکن قریش اپنی ضد کا جھنڈا سرنگوں کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے‘ قریش نے آخر میں سہیل بن عمرو کو مسلمانوں سے تفصیلی مذاکرات اور معاہدہ کی ذمے داری سونپ دی‘ رسول اللہ ﷺ معاہدے کے لیے تیار ہو گئے‘ معاہدے کے دوران سہیل بن عمرو کا رویہ انتہائی توہین آمیز اور معاہدے کی شرائط مسلمانوں کے وقار سے انتہائی منافی تھیں مگر اللہ کے نبیؐ کی پیشانی پر شکن تک نہ آئی‘ معاہدے کی شرائط حضرت علیؓ تحریر فرما رہے تھے‘ حضرت علیؓ نے معاہدے کے اوپر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی۔
سہیل بن عمرو فوراً بولا’’ ہم تمہارے رحمن کو نہیں مانتے‘ آپ معاہدے کو با سمک اللھم سے شروع کریں گے‘‘ رسول اللہ ﷺ نے یہ شرط مان لی‘ حضرت علیؓ نے تحریر کیا ’’ یہ صلح نامہ جو محمدالر رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن عمرو سے کیا‘‘ سہیل بن عمرو تیز آواز میں بولا’’ ہم اگر محمدؐ کو رسول مانتے تو آپ لوگوں سے کبھی لڑائی نہ کرتے‘ لکھو جو محمدؐ بن عبداللہ نے سہیل بن عمرو سے کیا‘‘ رسول ا للہ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا ’’آپ رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کاٹ کر محمدؐ بن عبداللہ تحریر کر دیں‘‘ حضرت علی ؓ نے عرض کیا ’’ میں یہ گستاخی نہیں کر سکتا‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا‘ آپ اس جگہ انگلی رکھ دو‘ جہاں میرا نام تحریر ہے‘‘ حضرت علیؓ نے اپنی انگشت شہادت اس جگہ رکھ دی‘ نبی اکرمؐ نے حضرت علیؓ کے ہاتھ سے قلم لیا اور اپنے دست مبارک سے رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کاٹ دیے‘ اس کے بعد حضرت علیؓ نے محمد بن عبداللہ کے الفاظ تحریر کر دیے‘ اس کے بعد سہیل بن عمرو نے معاہدے کی آٹھ شرائط لکھوائیں‘ میں جب بھی یہ شرائط پڑھتا ہوں‘ میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ‘یہ شرائط مسلمانوں کے لیے اس قدر توہین آمیز تھیں کہ حضرت عمرؓ جیسے شخص بول پڑے ’’ یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں‘ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں اور کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ بے شک ہم ہیں لیکن میں کسی بھی طرح اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا‘‘۔ معاہدہ ہو گیا تو نبی اکرمؐ نے رفقاء کے ساتھ نماز ادا کی‘ قربانی کے اونٹ ذبح کیے‘ سر کے بال منڈوائے اور خانہ کعبہ کا طواف کیے بغیر احرام کھول دیے اور یوں قافلہ عمرہ کے بغیر مدینہ واپس آ گیا۔
یہ معاہدہ تین لحاظ سے حیران کن تھا‘ ایک نبی اکرمؐ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کٹوا دیا اور اپنے دست مبارک سے رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کاٹ دیے اور یہ وہ بنیادی اصول تھا جس پر مسلمانوں اور کفار میں جنگ چل رہی تھی‘ مسلمانوں نے اگر اتنی ہی لچک دکھانی تھی تو یہ لوگ یہ لچک مکہ میں رہ کر بھی دکھا سکتے تھے اور یوں ہجرت اور جنگوں کی ضرورت نہ پڑتی‘ کوئی مسلمان بسم اللہ الرحمن الرحیم کو کاٹنا اور رسول اللہ ﷺ کے اسم مبارک پر قلم پھیرنے کی جرأت نہیں کر سکتا ‘ حضرت علیؓ نے بھی نبی اکرمؐ کے حکم کے باوجود یہ جسارت نہیں کی‘ نبی اکرم ؐپھر اس حد تک کیوں چلے گئے؟ یہ منطق آج کے دنیاوی ذہن نہیں سمجھ سکتے۔ دو‘ آپ سچے بھی ہوں‘ تگڑے بھی ہوں اور آپ یہ بھی جانتے ہوں‘ آپ کا دشمن کمزور ہو چکا ہے‘ یہ شہر سے باہر نکل کر لڑنے کی ہمت نہیں رکھتا لیکن آپ اس کے باوجود ایسی شرائط پر معاہدہ کر لیں کہ آپ کے قریب ترین ساتھی بھی یہ پوچھنے پر مجبور ہو جائیں ’’کیا آپؐ اللہ کے رسول نہیں ہیں‘ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں اور کیا یہ مشرک نہیں ہیں‘‘ نبی اکرم ؐ اپنے صحابہؓ کو اس حد تک کیوں لے گئے؟
اس نقطے کو بھی کوئی عام انسان نہیں سمجھ سکتا اور تین‘ آپ مشرکین سے معاہدے کی وجہ سے طواف کے بغیر احرام کھول دیں اور حدیبیہ میں جانور ذبحہ کرنے پر مجبور ہو جائیں‘نبی اکرمؐ نے اسلام کی اتنی بڑی روایت کیوں توڑ دی؟ یہ منطق بھی آج کا ذہن نہیں سمجھ سکتا لیکن قربان جائیں رسول اللہ ﷺ کی فراست پر کہ یہ معاہدہ صرف ایک سال بعد ایسا ٹرننگ پوانٹ ثابت ہوا جس نے مکہ کو پکے ہوئے پھل کی طرح مسلمانوں کی جھولی میں گرا دیا اور وہ مسلمان جو ایک سال پہلے تک اس معاہدے کو شک کی نظروں سے دیکھ رہے تھے وہ کعبہ کے اندر سے بت اٹھا رہے تھے اور ان بتوں کو کعبہ کی دہلیز پر مار مار کر توڑ رہے تھے اور یوں اس ایک معاہدے نے دنیا کی پوری سفارتی تاریخ بدل دی‘ اس معاہدے نے دنیا کو بتا دیا‘ آپ کو اگر بڑی فتح‘ بڑے امن اور بڑے کاز کے لیے کوئی ایسا معاہدہ بھی کرنا پڑے جس پر آپ کے اپنے ساتھیوں کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں اور وہ آپ کا دامن پکڑ کر یہ پوچھنے پر مجبور ہو جائیں ’’ کیا ہم سچے نہیں ہیں‘ کیا یہ لوگ ہمارے بچوں کے قاتل اور فسادی نہیں ہیں اور کیا ہم ان سے لڑنے کی ہمت اور استطاعت نہیں رکھتے‘‘ تو بھی آپ یہ معاہدہ کر گزریں اور آپ کو اس معاہدے کے لیے خواہ مخالفوں کی کوئی بھی شرط ماننا پڑے‘ آپ مان جائیں کیونکہ فتح بہرحال حدیبیہ میں بیٹھے لوگوں ہی کو نصیب ہوتی ہے۔
آپ معاہدہ حدیبیہ کی روشنی میں طالبان کے ایشو کو دیکھئے‘ طالبان پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے‘ پاکستان کا آئین ہماری کمزوری ہے‘ ہم اس پر کمپرومائز نہیں کر سکتے مگر میرا مشورہ ہے‘ آپ ان کی یہ شرط مان جائیں کیونکہ یہ شرط بسم اللہ الرحمن الرحیم یا محمد الرسول اللہ ﷺ کے نام سے بڑی نہیں‘ یہ لوگ ہمارے بچوں‘ معصوم شہریوں کے قاتل بھی ہیں لیکن آپ اس کے باوجود بڑے امن کے لیے ان کے ساتھ معاہدہ کرلیں کیونکہ یہ قاتل ہونے کے باوجود رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کے قاتلوں سے بڑے نہیں ہیں‘ آپؐ نے حدیبیہ کا معاہدہ کرتے ہوئے اپنی صاحبزادیوں پر تشدد کرنے والوں‘ حضرت امیر حمزہؓ کے قاتلوں اور ہجرت پر مجبور کرنے والوں کو بھی فراموش کر دیا تھا‘ آپ ان کے ساتھ میز پر بیٹھ جائیں‘ ہو سکتا ہے لوگ اس کو ریاست کی پسپائی قرار دیں لیکن آپ کی پسپائی طواف کے بغیر احرام کھولنے سے بڑی پسپائی تو نہیں ہوگی اور احرام بھی کن کن ہستیوں نے کھولا‘ آپ ذرا تصور کیجیے‘ آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔
ہم لوگ کتنے ہی پارسا‘ نیک اور عظیم ہو جائیں مگر ہماری پارسائی حدیبیہ کے قافلے میں شامل کسی ایک شخص کے پائوں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہو سکتی اور ہماری ریاست کو اگر طالبان کے ساتھ ان کی مرضی کا معاہدہ بھی کرنا پڑے تو کر جائیے کیونکہ ہماری ریاست نبی اکرمؐ کی ریاست سے بڑی اور معتبر نہیں ہو سکتی‘ آپ ایک بار جھک کر دیکھ لیجیے‘ یہ معاملات حل ہو جائیں گے کیونکہ ریاست اس وقت درجنوں مسائل کا شکار ہے‘ ہمیں اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے اور ہم نے اگر اس نازک وقت میں ان لوگوں کے ساتھ بھی جنگ چھیڑ لی تو ہمارے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا‘ ہمارے زخم بڑھ جائیں گے‘ ہمیں اپنے قدم جمانے کے لیے‘ اپنے معاشی مسائل کے خاتمے کے لیے اور قوم کو اکٹھا کرنے کے لیے تین سال کا عرصہ درکار ہے‘ ہم اگر ان کے ساتھ معاہدہ کر کے یہ تین سال حاصل کر لیتے ہیں تو ہم کامیاب ہو جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں یہ جنگ پاکستان کی گلیوں میں منتقل ہو جائے گی‘ اس کو نئے کمانڈر مل جائیں گے اور یہ کمانڈر ہمیں منزل سے دور لے جائیں گے‘ دور بہت دور۔
ہم نے آج فیصلہ کرنا ہے‘ ہم نے حدیبیہ کی طرف جانا ہے یا پھر معاہدہ ویتنام کی طرف‘ ہم نے انا کا شملہ نیچے کرنا ہے یا پھر ویتنام کی طرح لاشیں اٹھانی ہیں‘ فیصلہ آپ نے کرنا ہے‘ بہرحال آپ ہی نے۔
جاوید چودھری
بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"
↧
اسٹرٹیجک ڈائیلاگ۔ کیا ملا؟
ایک بڑے تعطل کے بعد پاک،امریکہ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کا آغاز پھر واشنگٹن میں ہو چکا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ذیلی ورکنگ گروپوں کے سیکورٹی، معاشی تعاون، انرجی اور دیگر امور پر مذاکرات جاری ہیں لیکن اس ڈائیلاگ کے بارے میں امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے بیانات کے ساتھ ہی ساتھ پاک،امریکہ مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہو چکا ہے اور سرتاج عزیز واشنگٹن میں پاکستانی میڈیا سے پریس کانفرنس کی صورت میں اس ڈائیلاگ کے زیر بحث مرحلہ کی کامیابی کا اعلان بھی فرما چکے ہیں کہ انہوں نے امریکیوں کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ دشمن کون ہے اور پاک،امریکی طویل مدتی مفادات مشترک ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر افغان آپس میں معاملات کو طے کر لیں تو ان کا فیصلہ ہم قبول کر لیں گے۔ اتحادی فوج کی واپسی کے بعد خلاء پیدا ہو گا۔ افغان سیکورٹی افواج دہشت گردی پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔
مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے پاکستانی وقت کے مطابق 28؍جنوری کو علی الصبح جو پریس کانفرنس منعقد کی اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو پہلے سے امریکہ اور پاکستان کی حکومتوں، عوام اور دنیا کے علم میں نہ ہو۔ وہی روایتی موقف، روایتی الفاظ اور مفہوم جو اس سے قبل بھی بیانات اور اعلانات کا حصہ رہا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ یہ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ ہے جو طویل مدتی امور پر جاری مذاکرات کا حصہ ہے جو کئی سال کے تعطل کے بعد پھر بحال ہوا ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان کی بقا کو لاحق خطرات، دہشت گردی اور عدم استحکام اور امریکی انخلاء کے بعد کی صورتحال کے بارے میں کسی ٹھوس تعاون، مشترکہ عمل اور مسائل کا ذکر اور پاکستانی نقطۂ نظر اور مفادات کا ذکر کہاں ہے؟ مشترکہ اعلامیہ اور دونوں طرف کے بیانات سے متعدد جواب طلب سوالات سامنے آتے ہیں جن کا جواب پاکستان کو درپیش موجودہ سنگین صورتحال کے تناظر میں انتہائی ضروری ہے۔
مشترکہ اعلان میں افغانستان کی حکومت کی جانب سے امن کیلئے مفاہمت اور طالبان سے مذاکرات و مفاہمت کے عمل میں تعاون و حمایت کی ذمہ داری پاکستان پر تو ڈالی گئی لیکن پاکستان کی طالبان سے مذاکرات کے ذریعہ امن و مفاہمت کے بارے میں افغانیوں اور دیگر قوتوں پر نہ ایسی کوئی ذمہ داری ڈالی گئی اور نہ ہی کوئی ذکر بھی کیا گیا حالانکہ پاکستان کے خلاف سرگرم طالبان کی نقل و حرکت، افغان علاقوں میں سکونت اور افغان معاونت و حمایت بھی ایک حقیقت ہے۔ طالبان سے مذاکرات کے علاوہ ان کے خلاف جس ملٹری آپریشن کے امکانات پاکستانی سیاست، فوج اور عام شہری کیلئے اہم موضوع گفتگو بنا ہوا ہے اس بارے میں بھی امریکی خاموشی نظر آتی ہے۔ کیا افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن و مفاہمت میں پاکستانی تعاون سے پاکستان اور پاکستانی طالبان کے درمیان خودبخود امن آ جائے گا؟ یا پھر افغانستان میں امن اور پاکستان کی طرف طالبان کی یورش بڑھ جائے گی؟ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ افغانستان کی جنگ میں امریکہ کے اتحادی پاکستان نے بارہ سال تک اپنا سب کچھ دائو پر لگا کر امریکہ کا ساتھ دیا اور آج خود تباہی، دہشت گردی کا شکار ہے۔ اب اگر پاکستان طالبان کے خلاف ملٹری آپریشن کرے تو امریکہ کو اپنا ڈرونز طیاروں کا نظام پاکستان کی حمایت میں پاکستانی آپریشن کی ضروریات اور فوجی حکمت عملی کے مطابق امریکہ استعمال کر کے ساتھ دے لیکن نہ تو پاکستان نے ایسا کوئی مطالبہ کیا اور نہ ہی امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ممکنہ ملٹری آپریشن کی کامیابی کیلئے کوئی پیشکش کی ہے۔ صرف زبانی تعریف سے پاکستان کی بقا کو لاحق خطرات دور نہیں ہوں گے۔ آخر دہشت گردی کا خاتمہ امریکہ اور پاکستان دونوں کا مشترکہ مفاد اور مقصد ہے اور پاکستانی فوج کے ممکنہ ملٹری آپریشن میں اتحادی امریکہ اپنے اس جدید اور مہلک ہتھیار کو پاکستانی فوج کی مدد اور ضرورت کیلئے استعمال کر سکتا ہے۔ مگر ایسا مطالبہ کرنے کی نہ تو ہمارے قائدین میں ہمت ہے اور نہ ہی امریکہ ڈرونز کو پاکستان کی حمایت و ضرورت کیلئے سپورٹ کے طور پر استعمال کرنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔ اب دہشت گردی کے خلاف پاکستان کو اپنی بقا کی جنگ خود ہی اپنے طور پر لڑنا ہو گی۔
امریکہ سے زبانی حمایت اور کچھ کولیشن سپورٹ فنڈ کے ڈالرز مل جائیں گے۔ مشترکہ اعلان میں پُرامن پاک،افغان بارڈر کا ذکر ضرور ہے مگر اس کے لئے امریکی تعاون کا کوئی ذکر نہیں۔ افغانستان کی قیادت میں امن و مفاہمت کی کوششوں میں تو پاکستان کو تعاون کا ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا ہے لیکن پاکستان کی قیادت میں اپنی سرزمین پر امن و مفاہمت کیلئے افغانستان اور بھارت پر کوئی ذمہ داری یا تعاون کا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ اگلے ماہ منعقد ہونے والی ڈیفنس ریسورنگ کانفرنس میں سیکورٹی امداد اور دیگر مسائل کے زیر بحث آنے کا ذکر تو ہے مگر اس بارے میں بھی کوئی واضح بات نہیں ہے۔ پاکستان کے شہروں میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، ہلاکتیں اور تباہی کا زور بڑھ رہا ہے لیکن پاک،امریکہ ڈائیلاگ میں مصروف ہمارے نمائندے نہ تو پاکستان طالبان مذاکرات اور نہ ہی ممکنہ پاکستان ملٹری آپریشن میں اتحادی امریکہ سے حمایت اور عملی تعاون طلب کرتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی امریکہ کی طرف سے اس بارے میں کوئی اظہار ہے۔ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے پاک،امریکہ مشترکہ اعلان کے اجراء کے بعد پریس کانفرنس میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ طالبان سے پاکستان کے مذاکرات یا ملٹری آپریشن کے بارے میں عوامی دبائو کے بارے میں انہوں نے کوئی ذکر نہیں کیا بلکہ ان کی پریس کانفرنس کا لب لباب یہ ہے کہ ’’اگر‘‘ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعتماد کی کمی (TRUST DIFICIT) ختم ہو جائے۔ ’’اگر‘‘ ہمسایہ ممالک مداخلت نہ کریں ’’اگر‘‘ افغانستان میں طالبان اور حکومت آپس میں معاملات طے کر لیں تو ہم قبول کر لیں گے۔ ’’اگر‘‘ امریکہ، پاک، بھارت تعلقات کو بہتر بنانے میں دونوں ممالک کے ساتھ یکساں سلوک (EVEN HANDED) کرے۔ ’’اگر‘‘ امریکہ ہمارے سیکورٹی خدشات کو دور کرے تو پھر افغانستان میں امن اور خطے کی صورتحال بہتر ہو جائے گی لیکن سرتاج عزیز صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ اتنے سارے ’’اگر‘‘ پورے کرنے کیلئے امریکیوں نے کیا جواب دیا ہے اور کس عمل کی یقین دہانی کرائی ہے؟ گفتگو کو صرف تعمیری، مفید اور زبانی ستائش و حمایت پاکستان کے گلی محلوں میں ہونے والی دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کافی نہیں۔ پاکستان کے مراعات یافتہ طبقے کی رہائش گاہوں کے گرد سڑکیں اور علاقے بند کر کے حفاظتی دیواریں بنا دینے اور بھاری سیکورٹی کے قافلوں میں بلٹ پروف کاروں میں نقل و حرکت کرنے سے امن قائم نہیں ہو گا۔ بم دھماکوں اور سڑکوں پر دہشت گردی اور لوٹ مار کا شکار ہونے والے نہتے عوام تباہی اور موت کا شکار ہو رہے ہیں جن کے بارے میں پاک،امریکہ ڈائیلاگ اور مشترکہ اعلان کسی فوری عمل، ٹھوس اقدام اور تعاون کی ضمانت سے خالی ہے۔ تسلسل (بشمول کئی سالہ تعطل) سے جاری اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کا طویل مدت کا فریم ورک سر آنکھوں پر، لیکن اپنے آغاز سے اب تک اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے انعقاد نے عملاً پاکستان کے مفاد کیلئے کیا کچھ حاصل کیا ہے؟ سلالہ کا حملہ اور دیگر امور پر پاک،امریکی کشیدگی، امداد کی کٹوتی و معطلی، ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ اور دیگر عوامل پاک،امریکہ تعلقات کو کشیدگی میں دھکیلتے رہے اور کشیدگی سے بچنے کا کوئی نظام یا پلیٹ فارم نہیں بن سکا۔ ہمارے مشیر امور خارجہ اور ان کے وفد پاکستان کیا لے کر لوٹ رہے ہیں؟ وہ پارلیمنٹ اور پاکستانی عوام کو کیا خوشخبری سنائیں گے؟
پاکستانی فوج کیلئے ملٹری آپریشن کی صورت میں کتنا اور کیا ہمت افزاء پیغام یا عملی سپورٹ لے کر لوٹے ہیں؟ موجودہ پاکستانی حکمرانوں کی راہ میں مشرف اور زرداری دور حکومت کے عاقبت نا اندیش اقدامات اور حکمت عملی کی غلطیاں بھی مشکلات کا باعث ضرور تھیں لیکن تخلیقی ڈپلومیسی اور پاک،امریکہ تعلقات میں اعتماد کی کمی کو دور کرنے اور اپنی حقیقت حال پر امریکیوں سے مربوط اور واضح انداز میں مذاکرات کرنا تو موجودہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے ورنہ آنے والے وقت میں پاکستان کو لاحق خطرات دہشت گردی اور تباہی سے ’’اگر‘‘ سے مشروط پریس کانفرنس اور اعلانات ہمارے مسائل حل نہیں کر سکیں گے۔ عوام، فوج، حکمراں، پارلیمنٹ اور دیگر ادارے اختلاف رائے اور مسائل پر سخت اختلافی موقف کا شکار ہو رہے ہیں۔ مشرف کے مقدمہ سے لے کر معیشت، امن و امان کے معاملات پر ہم تیزی سے بٹ رہے ہیں۔ پاک،امریکہ مشترکہ اعلان میں محض ستائش اور اعتماد کا اظہار کافی نہیں۔
عظیم ایم میاں
بشکریہ روزنامہ "جنگ"
↧
↧
خاموشی جرم ہے
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پر پاکستانی عوام کی جانب سے کسی قسم کے ردِعمل کا اظہار نہ کرنا (اگرچہ چند ایک حلقوں کی جانب سے ردِعمل کا اظہار کیا گیا لیکن یہ ردِعمل پاکستانی قوم کے شایانِ شان نہ تھا) میرے لئے ناقابل فہم ہے۔
میں گزشتہ بائیس سال سے ترکی میں قیام پذیر ہوں اور اس دوران ترکی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور ان واقعات پر ترک عوام کے شدید ردِعمل کو اپنی نگاہوں سے دیکھ چکا ہوں۔ ترکی میں ایک دور وہ بھی تھا جب روزانہ ہی فوج اور پولیس کے اہلکاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ تقریباً چالیس سال جاری رہنے والی دہشت گردی جس میں چالیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں آخر کار قابو پا لیا گیا۔ ترکی میں طویل عرصے جاری دہشت گردی کی وجہ سے کئی ایک سیاسی جماعتیں اقتدار سے محروم ہو گئیں اور کئی ایک سیاسی جماعتیں اس پرقابو پانے کی وجہ سےعوام کی آنکھوں کا تارا بن کر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ اس کی ایک مثال مرحوم وزیراعظم بلنت ایجوت حکومت کی ہے۔ بلنت ایجوت حکومت ایک دور میں جب عوام میں اپنی ساکھ کھونے کے قریب تھی تو اس دوران ترکی کی دہشت گرد تنظم PKK کے سرغنہ عبداللہ اوجالان کو گرفتار کئے جانے پر مرحوم بلنت ایجوت کو عوام میں زبردست پذیرائی حاصل ہو گئی اور ان کی جماعت اگلے الیکشن میں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ برسراقتدار آ گئی۔ اسی طرح جسٹس اینڈڈیولپمنٹ پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد اس جماعت کو بھی ملک میں جاری دہشت گردی کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک موقع پر دہشت گردوں کے حملے کا نشانہ بننے والے فوجیوں کی نمازِ جنازہ ادا کی جا رہی تھی تو عوام اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکےاور انہوں نے نماز ِجنازہ کی ادائیگی کے فوراً بعد اس جنازے میں شریک کئی ایک وزراء اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کا گھیراؤ کرلیا جس پر ان وزراء اور اسپیکر اسمبلی کو مسجد میں پناہ لینا پڑی۔ عوام کے اس شدید ردِعمل نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور حکومت نے اپنی تمام تر توجہ دہشت گردی پرقابو پانے کی جانب مرکوز کردی اور آخر کار دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیابی بھی حاصل کی۔ میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستانی عوام دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے اس ردِعمل کا اظہار کیوں نہیں کر پا رہے ہیں جس کا اظہار وقت کا اور وطن کا تقاضا ہے۔
پاکستانی عوام دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے صرف حکومت، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماوں پر ہی کیوں نگاہیں لگائے ہوئے ہیں؟ کیا یہ ان کی اپنی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ خود آگے بڑھیں اور سیاسی رہنماوں کو دہشت گردی کے خلاف ایکشن لینے پر مجبور کریں؟ آج اگر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا تو اس کی سب سے بڑی وجہ عوام کی جانب سے ان واقعات پر خاموشی اختیار کیا جانا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں وہاں کے عوام اپنی اپنی حکومت اور ریاست کا کھل کر ساتھ دیتے ہیں۔ ترکی کے علاوہ اسپین جہاں پر طویل عرصے دہشت گردی جاری رہی اس دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے لاکھوں کی تعداد میں عوام نے سڑکوں پر نکل کر دہشت گردی کے خلاف مظاہرہ کیا اور حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف سخت ایکشن لینے پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں کافی حد تک دہشت گردی پر قابو پالیا گیا۔ اب اسی قسم کا فیصلہ پاکستان کے عوام کو اپنے مستقبل کے لئے کرنا ہے۔وہ کب تک روز جیتے اور روز مرتے رہیں گے؟ ان کے خوف نے ان دہشت گردوں کے حوصلے بلند کررکھے ہیں اور دہشت گردوں نے اب تک پچاس ہزار سے زائد افراد کو ہلاک کردیا ہے۔ ان دہشت گردوں نے کسی عبادت گاہ، مسجد ، اسکول اورحتیٰ کہ جنازہ گاہ تک کو نہیں چھوڑا ہے ۔ عوام انہی حملوں کی وجہ سے شدید خوف میں مبتلا ہوچکے ہیں لیکن ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ "گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے"۔ اگر انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف اٹھتے ہوئے ریاست کے ہاتھ مضبوط نہ کئے اور حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور نہ کیا تو پھر وہ اپنی اور ملک کی بقا کو خطرے میں ڈالنے کا براہ راست حصہ بن جائیں گے۔
حکومت جو اس وقت دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے( وزیرستان میں ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے اور جس سے دہشت گردوں کو شدید نقصان بھی پہنچا ہے اور اسی وجہ سے طالبان حکومت سے مذاکرات شروع کرنے پر مجبور بھی ہوئے ہیں) اس آپریشن کو متعدد سیاستدانوں کے بیانات اور عوام کو خوف میں مبتلا کرنے کی پروا کئے بغیر جاری رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کے عوام کی بھاری اکثریت بھی اس فوجی کارروائی کے حق میں اور اب جبکہ ان کے حوصلے بلند ہیں اور فوج کی پشت پناہی کرنے کے لئے تیار ہیں کو پست قدمی پر مجبور نہ کریں۔طالبان جو پاکستان پر امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کو یا پھر براہ راست امریکہ اور مغربی ممالک کو اپنا نشانہ کیوں نہیں بناتے ہیں؟ کیا ان کا زور صرف نہتے پاکستانی مسلمانوں پر ہی چلتا ہے؟ اگر ان کو امریکہ اور مغربی ممالک سے اتنی نفرت ہے تو وہ خود کیوں امریکی اسلحہ اور مغربی ممالک کے تیار کردہ ٹیلی فون، کمپیوٹر اور دیگر سازو سامان استعمال کرتے ہیں؟ ان کو سب سے پہلے ان ہتھیاروں کو اپنے اوپر استعمال کرتے ہوئے دنیا کو اپنے قول و فعل میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہ ہونے سے آگاہ کر دینا چاہئے۔
آخر میں عمران خان سے ایک سوال۔ کیا آپ کبھی میچ کھیلے بغیر مخالف ٹیم کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے نتیجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ تو پھر ان دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات پر اصرار کیوں؟ اگر آپ نے ان کو ایک دفعہ گھر کےاندر آنے کا موقع دے دیا تو پھر آپ اپنے گھر سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ میرا اگلا سوال ان تمام مذہبی جماعتوں کے رہنماوں سے ہے جو شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کر رہی ہیں اور وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے فوجیوں کی شہادت پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہی ہیں۔ کیا آپ دنیا میں ایسے کسی اسلامی ملک کا نام بتاسکتے ہیں جہاں پر دہشت گردوں کو شہید کا رتبہ دیا جاتا ہو؟ خانہ کعبہ کے امام تک خودکش حملہ کرنے والوں کو "حرام کی موت مرنے" (کیونکہ اسلام میں خودکشی کرنا یا کسی کو خودکشی پراکسانا حرام ہے) کا فتویٰ دے چکے ہیں تو پھر یہ کیوں دہشت گردوں کو شہید قرار دیتے ہوئے ان کے حوصلے بلند کرتے ہیں؟وزیراعظم نوازشریف سے درخواست ہے کہ وہ بھی ترک وزیراعظم ایردوان کی طرح ملک میں مکمل طور پر دہشت گردی کا صفایا کرتے ہوئے اسے ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے دہشت گردوں کے خلاف جس طرح اب کھل کر بیان دینا شروع کردیئے ہیں اس سے ان کے قد کاٹھ میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔کاش کہ ان کی پارٹی اپنے دور اقتدار میں ان کی طرح بہادری کا مظاہرہ کرتی۔ایم کیو ایم جو بڑے بڑے جلسے کرنے میں بڑی ایکسپرٹ ہے ایک بار صرف پاکستان کے لئے پورے پاکستان (خیبر سے کراچی تک) میں صرف پاکستانی پرچموں ( کسی بھی پارٹی کو اپنا پرچم اٹھانے یا نمائش کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے) پر مشتمل ملین مارچ کا بندوبست کرے تاکہ دہشت گردوں کے خلاف یکجہتی کا مظاہرہ کیا جا سکے اور عوام کے کس قدر بہادر ہونے کا ثبوت فراہم کیا جا سکے۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ "جنگ"
↧
. بے راہ روی کے اسباب اور علاج.......... Allama Ibtisam Elahi Zaheer
↧
Smart Phones in Pakistan
↧