↧
Muslim Achievements by Shahnawaz Farooqi
↧
Rising poverty in Cholistan
↧
↧
ایک کتاب جس کی تقریب رونمائی نہ ہو سکی
ملالہ کی کتاب ــ’’I Am Malala‘‘کچھ ماہ پہلے شائع ہو چکی۔ اُس کتاب میں کیا کچھ اسلام اور پاکستان کے خلاف لکھا گیا وہ بھی سب کے سامنے آچکا۔ سب سے اہم یہ کہ اس کتاب میں سلمان رشدی جیسے ملعون کی انتہائی شر انگیز اور اسلام دشمن کتاب (Satanic verses)کوآزادی رائے کے حق کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ ایسی کتاب کی پاکستان میں تقریب رونمائی کرنا اور وہ بھی پشاور جیسے علاقہ میں میری نظر میں کسی شرارت سے کم نہ تھی۔
صوبہ خیبر پختون خوا تو پہلے ہی سنگین دہشتگردی کا شکار ہے۔ ’’I Am Malala‘‘ جیسی متنازعہ کتاب کے لیے تقریب رونمائی منعقد کرنا اور وہ بھی ایک سرکاری تعلیمی ادارہ میں وہ کسی خطرہ سے کم نہ تھا۔اس تقریب کو سیکیورٹی فراہم کر کے محفوظ تو بنایا جا سکتا تھا مگریہ عمل اشتعال انگیز تھا کیوں کہ اس کی وجہ سے دہشتگردی میں بھی اضافہ ہو سکتا تھا۔
سوچنے کی بات تو یہ تھی کہ کیا ایسی کتاب کی پاکستان کے کسی بھی حصہ میں تقریب رونمائی کی جاسکتی تھی مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے اس کام کے لیے پشاور کو چن لیا۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے معاملہ کی نذاکت کو دیکھتے ہوئے اس تقریب کے انعقاد کو روک کر بہت اچھا فیصلہ کیا مگر میڈیا اس پر لال پیلا ہو گیا۔ ہر طرف شور شرابہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ سب نے تحریک انصاف کی حکومت کو خوب کوسا اور انہیں بُرا بھلا کہا۔ میڈیا کا یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ عمران خان کو بھی معذرت خوانہ رویہ اختیار ادا کرنا پڑا۔ وہ ایک مرتبہ پھر اپنی حکومت سے نالاں نظر آئے۔
مجھے نہیں معلوم کہ عمران خان نے ملالہ کی کتاب پڑھی بھی ہے یا نہیں مگر میڈیا میں شور شرابا کرنے والوں میں سے کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ دیکھنے اور سننے والوں کو یہ بتائے کہ اس کتاب میں کیا کچھ لکھا گیا، کس انداز میں ملعون سلمان رشدی کی کتاب آزادی رائے کے حق کے طور پر برداشت کرنے کاسبق پڑھایا گیا، کیا کچھ ناموس رسالت کے قانون کے بارے میں کہا گیا، عورتوں کی گواہی کے بارے میں کیا رائے زنی کی گئی، پاکستان کو کس انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس کتاب کو پڑھ کر مجھے تو بہت افسوس ہوا کہ ملالہ یوسف زئی کو اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال کر لیا گیا۔میں تو اس کتاب اور اس سے منسلک تنازعات پر پہلے ہی کچھ کالم لکھ چکا۔ مجھے تو اس بات کا یقین ہے یہ کتاب تو لکھی ہی مغرب کے لیے گئی تھی جس کا مقصد ہی مغرب کو خوش کرنا اور پاکستان اور اسلام کے بارے میں منفی پیغام دینا تھا۔
اس کتاب میں تو بار ہا پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کا ذکر کیا گیا مگر ایک بار بھی Prophet یا Holy Prophet کے ساتھ PBUH یا SAW نہیں لکھا گیا۔ ایسی کتاب کا ہمارے سے کیا تعلق۔ اس کتاب سے منسلک تنازعات جب چند ماہ قبل سامنے لائے گئے تو ملالہ کے والد نے حامد میر صاحب کو فون کر کے بتایا کہ وہ اس کتاب کے متنازعہ حصوں کو حدف کر دیں گے۔ اگر ایسا ہو تو بہت اچھا مگر جس کتاب کو میں نے پڑھا اور جس کو پاکستان مخالف کرسٹینا لیمب نے لکھا وہ اس قابل نہیں کہ اُسے ہمارے بچے پڑھیں۔ مگر میڈیا نے ویسے تو کتاب کے متنازعہ حصوں کے بارے میں عمومی طور پر عوام کواندھیرے میں رکھا مگر اس بات پر خوب شور مچایا کہ کتاب کی تقریب رونمائی کی خیبر پختونخوا حکومت نے اجازت کیوں نہ دی۔ میڈیا نے جس انداز میں اس معاملہ کو اٹھایا اور جیسے سیاستدانوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرا دیا گیا اُس سے یہ ممکن ہے کہ اب کچھ اور لوگ، کچھ اور تنظیمیں اور کچھ اور این جی اوز ملالہ کی کتاب کی رونمائی کی لیے پشاور اور کچھ دوسرے شہروں میں منعقد کرانے کی کوشش کریں۔ شرارت کے لیے یہ اچھا تماشہ ہو گا اور اس نوعیت کی تقاریب منعقد کرنے والوں کو بھی خوب مفت کی پبلسٹی ملے گی۔ ایسے میں ڈالرز اور امریکا و یورپ کے ویزے بھی ملنے کا خوب موقع ملے گا۔ باقی رہا عقیدہ، ایمان، اسلام اور پاکستان، اُس کی کسی کو کیا فکر۔ فکر ہے تو اُس نام نہاد حق آزادی رائے کی جس کو بنیاد بنا کر آئے دن مغرب اسلام دشمن مواد شائع کرتا ہے تا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو زبردست ٹھیس پہنچائی جائے۔ اور اس کے رد عمل میں اگر مسلمان احتجاج کریں تو انہیں شدت پسند اور عدم برداشت ہونے کے طعنہ دیے جائیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ "جنگ"
↧
Protection of Pakistan Ordinance and Balochistan
![]()
جاسوسی ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ اپنے پیاروں کی تلاش اور ان کی رہائی کیلئے دنیا کی تاریخ میں ایک بڑا لانگ مارچ کوئٹہ سے اسلام آباد دو ہزار میل مسافت پا پیادہ طے کرنے والے ماما قدیر اور ان کے ساتھی مرد و خواتین کے منہ پر موجودہ نواز شریف حکومت کی طرف سے متعارف کردہ پی پی او یعنی پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس (ترمیم شدہ) ایک طمانچہ ہے۔ اس آرڈیننس یا انتہائی ظالمانہ قانون میں لاپتہ لوگوں کی غیر قانونی و غیر آئینی نظربندی کو قانونی و آئینی بنانے اور اب تک ہونے والی ماورائے آئین و قانون بلکہ ماورائے عالمی قوانین و خلاف انسانیت جرم کے زمرے میں آنے والی گمشدگيوں اور ان کے ذمہ دار اداروں، اہلکاروں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ماورائے پاکستانی آئین و قوانین خواہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں اور خلاف انسانیت جرائم کے زمرے میں آنے والا یہ نام نہاد تحفظ پاکستان آرڈیننس ان گمشدہ پاکستانی شہریوں اور ان کی گمشدگی پر ان کی مائوں بہنوں کے آنسوئوں، مردہ جسموں اور مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں واپس ہونے والے بلوچوں و دیگر لاپتہ لوگوں پر ریاست کی سفاکی کا فسطائی قہقہہ ہے۔
ایک آمر کے پروردہ حکمرانوں سے آپ کیا توقع کرسکتے ہیں پاکستان کے لوگو! کیا آپ واقعی سنجیدگی اور یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ ظالمانہ قانون واقعی پاکستان کا تحفظ کر سکے گا یا اس کے شکار لوگوں کو پاکستان سے اور زیادہ بیزار و دور کردے گا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریٹائرڈ ہونے کی دیر تھی اور خود کو اسپتال میں دل کے درد میں داخل کرانے والا ایف سی کا ڈی جی بھی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے اٹھ آیا کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل آئین و قانون کی حدود میں نہیں ماورائے ائین و قانون ریاستی رٹ میں ہے۔ایف سی کے سربراہ کے ایسے بیان کے چوبیس گھنٹوں بعد ایوان صدر سے ریاستی و سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں لوگوں کی گمشدگيوں کے تحفظ کا آرڈیننس نافذ کردیا گیا۔ پاکستان کے شہریوں کو قانون و ریاست کے رکھوالوں کے ہاتھوں ڈاکوئوں کی طرح اغوا اور اغواکاروں کے تحفظ کو بدقسمتی سے پاکستان کے تحفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ملک کے بانی کے اصولوں اور افکار سے بھی مذاق ہے جنہوں نے کہا تھا ’’پاکستان کے اندر کسی بھی شخص کو عدالت قانون سے رجوع کئے بغیر ایک سیکنڈ کیلئے بھی نظربند یا قید نہیں رکھا جا سکتا‘‘۔
نیز یہاں تحفظ پاکستان کے نام پر کسی بھی شخص کو ریاستی و سیکورٹی ادارے تین ماہ تک کسی بھی عدالت سے رجوع کئے بغیر قید رکھ سکتے ہیں اور اٹھائے جانے والے شخص کی قید کی جگہ خفیہ ہو گی۔ جیسے اب تک ہزاروں گمشدہ لوگوں کی برسوں سے گمشدگیوں کے مقامات اور گم کردہ ادارے معلوم ہوتے ہوئے بھی نامعلوم بتائےجاتے ہیں۔راتوں کو ان کی چیخیں کہیں چڑیا گھروں کے جانور بھی سنتے ہیں۔تحفظ پاکستان آرڈیننس ایسے بدنام زمانہ قوانین کا تسلسل ہے جب پاکستان ڈیفنس رولز یا ڈی پی ار ذوالفقار علی بھٹو سمیت پاکستان میں اس کے پیشروئوں اور اس سے قبل غیر منقسم ہندوستان میں برطانوی استعماری حکومت نے نافذ کئے تھے جن کے تحت خان عبدالغفار اور جی ایم سید سمیت وقت کی حکومتوں کے ہزاروں سیاسی مخالفین قید کئے جاتے رہے تھے۔
حبیب جالب کی نظمیں شوق کے ساتھ لیکن غلط انداز میں پڑھنے والے حکمران کبھی حبیب جالب کی ان سطروں کو بھی اپنے ضمیر کے ترازو میں تول لیتے:
تم سے پہلے جو یہاں ایک شخص تخت نشیں تھا
اس کو بھی خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا
اس سے قبل جب سے ملک بنا تو حکمرانوں نے چوراچکوں، غنڈوں، بدمعاشوں کو کم اور اپنے سیاسی مخالفین کو کبھی پبلک سیفٹی ایکٹ، تو کبھی کرائم کنٹرول ایکٹ، تو کبھی فرنٹیئر ایکٹ، تو کبھی کرمنل ٹرائبز ایکٹ، تو کبھی ڈیفنس آف پاکستان میں قید رکھا۔ برسبیل تذکرہ آزادی کے ابتدائی سالوں میں ہزاروں سالوں سے سندھ کے جم پل سیکڑوں معزز ہندو شہریوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربند رکھ کر ان کی آزادی فقط بھارت نقل مکانی کرنے پر عمل میں لائی گئی تھی۔ وہ درویش منش سادھو واسوانی بھی جس نے جناح صاحب کے فوت ہونے پر برت یعنی روزہ رکھا تھا اور قرآن کی تلاوت کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اسّی سال کی عمر سے زائد کے بزرگ ہندو شہری اور حیدرآباد دیال داس کلب کے صدر کو کسی ذاتی رنجش اور غلط سی آئی ڈی رپورٹوں پر ڈیفنس اف پاکستان رولز کے تحت نظربند رکھا۔ آپ فوجی آمر ضیاء کو کچھ بھی کہیں لیکن اس نے بغض معاویہ میں ہی سہی ڈیفنس آف پاکستان رولز ختم کرتے ہوئے سیکڑوں سیاسی قیدیوں کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔ آج اس کی باقیات نے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں بلوچوں سمیت دیکر گمشدگان کو غائب رکھا ہوا ہے۔ حال ہی میں مستونگ کے قریب دہشت گرد حملوں میں نیویارک میں رہنے والی نوجوان ہزارہ خاتون سماجی ورکر شازیہ کا پولیس والا بھائی بھی شامل تھا جو اپنے دوسرے ساتھی پولیس والوں کے ساتھ حملہ آور کے خلاف زائرین کی حفاظت کرتے قتل ہوا۔ یہ دکھی بہن کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کی نسل کشی سے بھاگ کر ترک وطن پر مجبور ہوئی۔
ان قاتل جتھوں پر تحفظ پاکستان آرڈیننس کا اطلاق کیا ہوا۔
یہ تو وہ حکمران ہیں جنہوں نے سندھ میں ٹنڈو بہاول میں وردی والوں کے ہاتھوں ہلاک کئے جانے والے نو ہاریوں کو بھارت کا ایجنٹ قرار دیا تھا- اب اغوا کئے جانے والوں میں جب اغوا ہوئے تو مائوں کے ساتھ شیر خوار بچوں کو بھی تحفظ پاکستان آرڈیننس کے نام پر غیر معینہ مدت تک زیر قید و تشدد رکھا جائے گا۔ ابھی پی پی او یا تحفظ پاکستان آرڈیننس جیسے قانون پر صدر ممنون حسین کے دستخطوں کی سیاہی ہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بلوچستان کے خضدار علاقے توتک جہاں اسٹیبلشمنٹ حامی مسلح جتھوں بمشمول شفیق مینگل گروپ کی دہشت قائم ہے وہاں سے اجتماعی قبر برآمد ہوئی ہے جہاں پندرہ کے قریب تاحال گمنام مسخ شدہ لاشوں کو ایک جگہ دفن کردیا گیا تھا۔ زیادہ تر قیاس آرائی یہ کی جارہی ہے کہ یہ اجتماعی قبر میں دفن کی گئی لاشیں گمشدہ بلوچ قوم پرستوں یا علیحدگی پسندوں کی ہوسکتی ہيں۔ اگرچہ آزاد ذرائع اس کی تصدیق نہیں کرتے لیکن سرکاری یا غیر سرکاری طور ، علاقے کے صحافی ( وہ علاقہ جہاں صحافی رپورٹنگ پر قتل کر دیئے جاتے ہیں پھر وہ سیکورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں ہوں کہ شدت پسند مسلح علیحدگی پسندوں یا اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ قاتل جتھوں کے ہاتھوں) اجتماعی قبر اور اس میں دفن کی گئی پندرہ لاشوں کی دریافت کے علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر کے حوالے سے بھی تصدیق کرتے ہیں۔ وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز والے ان برآمد ہونے والی پندرہ لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ اقوام متحدہ کے زیر انتظام کرانے کا مطالبہ کرتے سنے جاتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوا ہے جب بلوچستان میں بے بس ڈاکٹر مالک کی حکومت شورش زدہ صوبے میں اسٹیبلشمنٹ نواز مسلح جتھوں کو غیر مسلح کرنے کی باتیں کر رہی تھی۔
ظاہر ہے کہ اجتماعی قبروں میں بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں سے پاکستان کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ایسا ماضی میں کبھی ممکن ہوسکا نہ افغانستان میں ، نہ عراق و شام میں نہ ہی کشمیر اور کمبوڈیا میں جہاں بھی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی تھیں۔بلوچوں کی مسخ شدہ اجتماعی قبروں کی برآمدگی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو معاملے کی تحقیقات اور اس میں انسانی حقوق کے حوالے سے مداخلت کے مطالبے کی پٹیشن پر پاکستان کے دیگر صوبوں میں روشن خیال اور امن دوست لوگوں نے بھی دستخط کئے ہیں جن کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی اور زبانوں و خیالات سے ہے۔
’’جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان گیا‘‘ اگر حبیب جالب آج ہوتے تو پنجاب میں ماما قدیر کے پیدل مارچ میں ہمقدم ہوکر اپنی ایسی نظمیں پڑھ رہے ہوتے۔
لیکن تخت لاہور کی بےرحم اکثریت والی حکومت سے نام نہاد چھوٹے صوبوں اور قومیتوں کو انصاف کی توقع تاحال حسب ماضی عبث ثابت ہوئی ہے۔ وہ صرف زرداری کے ساتھ میوزیکل چیئر میں واری وٹے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ کتنے سندھی اور شیعہ عقیدے کے لوگ حکمران پارٹی کی قیادت میں شامل رہ گئے ہیں؟ کتنے ہزارے ہیں۔بلوچ اپنی سرزمین پر جلاوطن ہیں۔ جس کی ایک مثال ڈیرہ موڑ کشمور کے قریب بگٹی قبائل کے مرد عورتیں اور بچے سردی میں ٹھٹھرتے اپنے گھروں کو ڈیرہ بگٹی جانے کو بیتابی سے دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ یہاں کوئی طاہر القادری نہیں تو میڈیا کی بھی کوئی کوریج نہیں۔
حسن مجتبی
بشکریہ روزنامہ "جنگ
Protection of Pakistan Ordinance and Balochistan
↧
Rustam Shah Mohmand

↧
↧
Irfan Siddiqui
Irfan Siddiqui is the Urducolumnist, known to be the great supporter of former prime minister of Pakistan, Nawaz Sharif. He started writing his columns on Nawaiwaqt[1]. In July 2008, Irfan Siddiqui left Nawaiwaqt and joined Jang[2]. He has been found criticizing Pervez Musharraf and his regime in Pakistan, very bluntly. He was also unhappy with the late Benazir Bhutto and her Pakistan Peoples Party, and wrote the same in the columns. He is currently serving the Jang group of newspapers.
↧
ICC's controversial Test cricket proposal "Big Three" and Pakistan
↧
برما کے واقعات کی تحقیق ضروری ہے
برما (میانمار) میں ایک عرصے سے بدھوں اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان خونریز فسادات کا سلسلہ جاری ہے جس میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اس سلسلے کے فسادات کا نیا سلسلہ جنوری کے تیسرے ہفتے میں شروع ہوا ہے۔ برما کی ریاست رخائین میں دونوں گروہوں کے درمیان فسادات میں 30 مسلمان شہید ہونے کی خبریں شایع ہوئی ہیں، ان ہی تازہ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ برما کی ریاست رخائین میں پولیس اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان جھڑپ ہوئی، یہ جھڑپ اس وقت ہوئی جب روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے، اس جھڑپ کے بعد بدھ شدت پسندوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کیے، جن میں 30 مسلمانوں کے قتل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ انسانی حقوق کی ایک امریکی تنظیم کے مطابق پچھلے دو سال میں بدھ انتہا پسندوں نے 25 ہزار روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا، بے شمار خواتین کی عصمت برباد کی اور عبادت گاہوں کو نذرآتش کیا۔ رپورٹ کے مطابق 50 ہزار سے زیادہ مسلمان برما سے، بنگلہ دیش، بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور انڈونیشیا ہجرت کر چکے ہیں۔ اس خبر میں یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ مذکورہ بالا ملکوں نے ان روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
ہمارے قدامت پسند اکابرین کو یہ شکایت رہی ہے کہ روشن خیال لکھاری پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر ہونیوالے مظالم پر تو قلم اٹھاتے ہیں لیکن برما میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم انھیں نظر نہیں آتے۔ اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری دائیں بازوں کی قیادت کو جن لکھاریوں سے شکایت ہے ان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بلا امتیاز مذہب و ملت ہر اس مظلوم کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں جو زیادتیوں کا شکار ہوتا ہے، وہ مظلوم کو صرف اس کے عقائد کے حوالے سے ہی نہیں دیکھتے بلکہ اسے اشرف المخلوقات یعنی انسان ہونے کے حوالے سے بھی دیکھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی مظلوم کو اگر محض اس کے عقائد کے حوالے سے دیکھ کر اس کی حمایت یا مخالفت کی جائے تو اس سے دانستہ یا نادانستہ طور پر نفرتوں اور تعصبات میں اضافہ ہونے کا خطرہ رہتا ہے اور روشن خیال لکھاری اپنی فطرت میں نفرتوں، تعصبات کا دشمن محبت اور بھائی چارے کا دوست اور پرچارک ہوتا ہے، یہی اس کی پہچان اور خصوصیت ہے۔ برما میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات اگرچہ لگاتار ہو رہے ہیں لیکن اس حوالے سے اطلاعات بھی مل رہی ہیں۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا انکشاف جس امریکی تنظیم نے کیا ہے ہو سکتا ہے وہ اپنی رپورٹ میں حق بجانب ہو لیکن اسے ایک وسیع تر تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
کیونکہ امریکی سامراج کے معروف خفیہ ادارے جب بھی ضرورت سمجھتے ہیں تشدد پسندوں کی خدمات اپنے مکروہ مقاصد کے لیے حاصل کر لیتے ہیں اور ان خدمات کے حصول کے لیے ڈالروں کو پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ عراق میں جب تک صدام حسین کی حکومت قائم تھی عراق فرقہ وارانہ قتل و غارت گری سے محفوظ تھا، جب امریکا نے عراق پر قبضہ کیا تو عراق فرقہ وارانہ قتل و غارت کا مرکز بن گیا۔ آج پورا عراق قتل و غارت میں گردن تک دھنسا ہوا ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت امریکا اور اس کے حواریوں کو پسند نہ تھی کیونکہ شام ایران کا ایک قریبی اور قابل اعتماد دوست تھا، اس لیے شام میں جھگڑوں کو ہوا دی گئی۔ اب جب امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں تو شام میں بھی حالات کچھ بہتر ہو رہے ہیں۔
ان حقائق کے پس منظر میں برما میں ہونے والے فسادات کا تحقیقی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر بدھ جیسی امن پسند قوم تشدد پر کیوں اتر آئی ہے؟ بدھا کی تعلیمات امن اور بھائی چارے پر مشتمل ہیں، بدھ بھکشو گھر گھر امن و آشتی کا پیغام پھیلانے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، گھر گھر بھیک مانگ کر گزارہ کرنے والی یہ قوم آخر اس قدر متشدد کیوں ہو گئی ہے؟ایسا لگتا ہے کہ یہاں بھی امریکا کا کار فرما ہے اور اس نے بودھوں میں اپنے ایجنٹ شامل کر دیے ہیں۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ برما کے بعض علاقے سخت تشدد کی زد میں ہیں اور تشدد کے یہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف خونریز لڑائیاں بھی لڑتے ہیں اور روایت کے مطابق کمزور فریق کو زیادہ نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے، لیکن اس حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ اس تشدد کے محرکات کیا ہیں؟ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم محض اس خوف سے کہ کسی فریق کی حمایت سے تشدد کی آگ اور بھڑکے گی سچ اور مظلوم کی حمایت سے دست کش ہو جائیں۔
بات صرف نیت کی ہے، اگر ہم ان متحارب فریقین میں اعتماد کی بحالی، نفرتوں کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمارا رویہ غیر جانبدارانہ اور آگ بجھانے والا ہونا چاہیے۔ اس کے برخلاف اگر ہم آنکھ بند کر کے ظالموں کے خلاف لڑائی کی تلقین کرتے ہیں تو پھر خون خرابے میں اضافہ تو ہو سکتا ہے کمی نہیں ہو سکتی۔ رجعت پسندی اور ترقی پسندی میں یہی بنیادی فرق ہے کہ رجعت پسندی دانستہ یا نادانستہ آگ بھڑکانے کا سبب بنتی ہے اور ترقی پسندی آگ بجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ہندوستان میں مسلمان ایک بڑی اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہندوستان میں بدھ بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں، اگر برما کے واقعات کو نمک مرچ لگا کر ہندوستان میں پھیلایا جاتا ہے تو کیا اس امکان کو جھٹلایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں بھی مسلمانوں اور بدھوں کے درمیان محاذ آرائی کا سلسلہ شروع ہو جائے؟ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو جو کچھ برما میں ہو رہا ہے ہندوستان میں اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا؟
یہ ایسی نازک اور حساس باتیں ہیں جن پر غور کرنے کی عموماً ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی لیکن یہ چنگاریاں عموماً شعلوں میں بدل جاتی ہیں اور ہم صرف ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔امریکا میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی جس تنظیم نے فسادات کے حوالے سے جو اعداد و شمار میڈیا کو فراہم کیے ہیں کیا یہ اعداد و شمار نہ صرف علاقائی مسلمانوں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں اشتعال پھیلانے کا سبب نہیں بن سکتے۔ حقائق کو نہ جھٹلایا جا سکتا ہے نہ انھیں نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن بعض حقائق اس قدر نازک اور حساس ہوتے ہیں کہ انھیں طشت ازبام کرنے کا مطلب آگ کو ہوا دینا ہوتا ہے۔ انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش وغیرہ مسلم ملک ہیں۔ اسی انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق ان مسلم ملکوں نے روہنگیا برمی مسلمانوں کو پناہ دینے سے انکار کیا ہے۔ ظاہر ہے اس خبر کو پڑھنے کے بعد افسوس کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان مسلم ملکوں نے ان مظلوم مسلمانوں کو پناہ دینے سے کیوں انکار کیا ہے؟ سوال یہ نہیں ہے کہ مظلوم کی حمایت صرف اس لیے ترک کی جائے کہ اس سے فساد خلق کا اندیشہ ہے بلکہ سوال حقیقت حال کے پوری طرح ادراک کا ہے کہ آخر بدھوں اور مسلمانوں میں اس خونریزی کا اصل سبب کیا ہے؟ او آئی سی اور اقوام متحدہ کو ایک مشترکہ وفد برما بھیج کر حقیقت حال کی پوری تخلیق کرانا چاہیے اور اگر ان واقعات میں صرف بدھ قصور وار ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ یہی ایک بہتر اور مثبت راستہ ہے۔
ظہیر اختر بیدری
بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"
↧
فسانے کیا کیا
امریکہ اور مغربی طاقتوں کے حکمران اپنے عوام سے جھوٹ بولنے اور اُنہیں فریب دینے کی جرأت نہیں کرتے ٗ کیونکہ اِن جرائم کی سزائیں بڑی سخت ہیں۔امریکی صدر نکسن کے بارے میں جب تفتیش کے دوران یہ راز کھلتا گیا کہ واٹر گیٹ کی عمارت میں اُس نے ڈیموکریٹک پارٹی کے اجلاس کی کارروائی کی خفیہ رپورٹ حاصل کرنے کا حکم دیا تھا ٗ تو اِس دانشور صدر کو عزت بچانے کیلئے استعفیٰ دینا پڑا۔ اِسی طرح صدر بل کلنٹن جنسی اسکینڈل میں جھوٹ بولنے پر سینیٹ میں مواخذے سے بال بال بچے تھے ٗ لیکن اِس کڑے احتساب کی روایت صرف داخلی سیاست اور حکمرانی تک محدود ہے جبکہ دوسری قوموں کیساتھ اِن حکمرانوں کا طرزِ عمل بالعموم جھوٹ ٗ فریب اور زہریلے پروپیگنڈے پر مبنی ہوتا ہے۔
جب امریکہ نے عراق پر حملہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا ٗ تو صدر صدام حسین کیخلاف پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اُس نے انسانیت کی خوفناک تباہی کے کیمیائی ہتھیار بنا رکھے ہیں۔ اِس ضمن میں برطانوی سراغ رسانوں کی ایک رپورٹ بھی سیکورٹی کونسل میں پیش کی گئی۔ اتحادی فوجوں نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ٗ مگر اُنہیں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کہیں نہ ملے۔ بعد میں اعتراف بھی کر لیا گیا کہ رپورٹ بے بنیاد اور غلط مفروضوں پر مشتمل تھی۔ مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ کا یہ معمول بن گیا ہے کہ جس ریاست کے خلاف طاقت استعمال کرنا مقصود ہو ٗ پہلے اُس کے خلاف منفی مہم چلتی ہے اور ایک خاص فضا پیدا کرنے کے بعد فوجیں اُتار دی جاتی ہیں۔ افغانستان میں بھی یہی کچھ ہوا۔
نائن الیون میں جن بلند و بالا عمارتوں سے طیارے ٹکرائے ٗ اُن کو اُڑانے والوں میں افغانستان اور پاکستان کے باشندے شامل نہیں تھے ٗ مگر سب سے زیادہ سزا اِن دو ملکوں ہی کو دی گئی ہے۔ پاکستان کو دھمکی ملی تھی کہ اگر اُس نے امریکی مطالبات مان لینے سے انکار کیا ٗ تو اُسے پتھر کے زمانے میں بھیج دیا جائے گا۔امریکی قیادت کے ذہنوں میں وقفے وقفے سے عجیب و غریب لہریں اُٹھتی رہتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ اِس پر این پی ٹی کا بھوت سوار تھا کہ ایٹمی پھیلائو روکنے کے معاہدے پر سب ممالک دستخط کریں۔بعدازاں سی ٹی بی ٹی کا بڑا چرچا ہوا۔ پاکستان میں بھی کچھ عناصر سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کیلئے اپنی حکومت پر دباؤ ڈال رہے تھے۔ اِس موقع پر لاہور کے ایک تھنک ٹینک پائنا کے تحت قومی سیمینار منعقد ہوا جس میں اتفاقِ رائے سے یہ قرارداد منظور کی گئی کہ پہلے امریکہ اِس معاہدے پر دستخط کرے ٗ تب پاکستان اِس کے مضمرات پر غور کرے گا۔
اِس قرارداد کے بعد امریکی دباؤ میں کمی آتی گئی اور آج وہ معاہدہ قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ دراصل اُس نے یہ روش اپنائے رکھی ہے کہ جو ملک اُسے پسند نہ ہو ٗ اُس کے خلاف یہ الزام لگا دیا جائے کہ وہ ایٹمی آلودگی پھیلانے کا ذمے دار ہے۔ ایک زمانے میں یہ الزام شمالی کوریا اور لیبیا پر بھی لگایا جاتا رہا۔ اِس کی پالیسی یہ ہے کہ کوئی اسلامی ملک ایٹمی صلاحیت حاصل نہ کر سکے اور اگر وہ اِس راستے پر چلنے کی کوشش کرے ٗ تو اُس پر اقتصادی پابندیاں لگا دی جائیں اور اُسے سیاسی طور پر تنہا کر دیا جائے۔ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کیلئے بڑی جاں گسل آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے اور آج اُسے ایک اور زہریلے پروپیگنڈے کا سامنا ہے۔ حال ہی میں مائیکل کوگل مین تواتر سے اِس خیال کا پرچار کر رہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جانے کا بڑا امکان ہے جو پاکستان کے حساس ایئر بیس پر حملے کر سکیں گے۔ اصل حقائق سے آنکھیں چرانے والے یہ صاحب اِس نوعیت کا پروپیگنڈا بھی کر رہے ہیں کہ پاکستان بھارت کے خلاف میدانِ جنگ میں استعمال کرنے کے لیے چھوٹے سائز کے ٹیکنیکل نیو کلیئر ہتھیار تیار کر رہا ہے جن سے خوفناک حادثات کا شدید خطرہ ہے۔ یہ پروپیگنڈا روزبروز تیز ہوتا جا رہا ہے جس کا مقصد پاکستان کو دباؤ میں رکھنا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر جو کور ایشو کی حیثیت رکھتا ہے ٗ اِس پر ایٹمی تصادم کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مائیکل کوگل مین کو ’’ایٹمی تصادم‘‘ کے زہریلے پروپیگنڈے کو ہوا دینے کے بجائے مثبت انداز میں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی خواہشات اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پُرامن طریقے سے حل ہو جاتا ہے ٗ تو ایٹمی تصادم کا امکان یکسر ختم ہو جائے گا۔ اِس دیرینہ مسئلے کے منصفانہ حل کے لیے بھارتی اور مغربی میڈیا کے علاوہ سیاست دانوں کو بھی سنجیدہ کوششیں بروئے کار لانی چاہئیں۔
بھارت اور پاکستان مئی 1998ء میں ایٹمی طاقت بنے تھے ٗ اُس وقت سے برصغیر میں امن قائم چلا آ رہا ہے۔ بھارت نے 2001ء میں پارلیمنٹ پر دہشت گردوں کے حملے کو جواز بنا کر پاکستان کی سرحدوں پر اپنی فوجیں جدید اسلحے کے ساتھ دس ماہ تک لگائے رکھیں ٗ مگر اُسے جنگ آزمائی کا حوصلہ نہ ہوا۔ اِسی طرح ممبئی پر دہشت گردوں کے خوفناک حملوں کے بعدوہ پاکستان پر فضائی حملوں کی تیاری کر چکا تھا ٗ مگر اُسے ایٹمی جنگ چھڑ جانے کے خوف سے اپنے قدم پیچھے لے جانا پڑے۔ بعد میں ہونے والی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اِن دونوں حملوں میں بھارتی باشندے اور سی آئی اے کے کارپرداز ایجنٹ ملوث تھے۔ اِن واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت امن کی محافظ اور اچھے تعلقات کی ضامن ہے۔ اِس کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور اِس کا کنٹرول اور کمانڈ سسٹم نہایت عرق ریزی اور سالہا سال کے تجربات کے بعد تیار کیا گیا ہے۔ غیر جانب دار ماہرین کی نظر میں وہ بھارت کے سسٹم سے بہت بہتر اور قابلِ اعتماد ہے۔ اِن حقائق کی روشنی میں پاکستان کے عوام و خواص امریکی پروپیگنڈے کو یکسر مسترد کرتے ہیں جو بدنیتی ٗ مذموم عزائم اور مغرب کے حکمرانوں کی اسلام دشمنی پر مبنی ہے۔ پاکستان کم سے کم ڈیٹرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ایک ذمے دار اور دنیا کی برادری میں ایک اہم ریاست کی حیثیت سے اپنی ذمے داریوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ اِس نے آج تک ایٹمی پھیلاؤ کی کسی سرگرمی اور کوشش میں حصہ نہیں لیا اور بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کی پوری پوری پاسداری کی ہے۔
مغرب پاکستان میں طالبان کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور اِس اندیشے کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ وہ ایٹمی اثاثوں پر قابض ہو جائیں گے ٗ مگر ایسا ممکن نہیں ٗ کیونکہ اُن کی حفاظت کے انتظامات بڑے پختہ اور ناقابلِ تسخیر ہیں ٗ البتہ وہ ایٹم بم جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے ٗ وہ مسئلہ کشمیر ہے ٗ کیونکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں چھ لاکھ فوج 66برسوں سے تعینات کر رکھی ہے جو انسانی آزادیوں کو پامال کرتی اور کشمیریوں کے جذبۂ حریت کو کچلتی رہتی ہے۔ اکیسویں صدی میں اور دنیا کی نام نہاد عظیم جمہوریت کے دامن میںجس بربریت کے مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں ٗ اُن کے ردِعمل میں اہلِ کشمیر بھارت کے یومِ جمہوریہ کو سیاہ دن کے طور پر مناتے اور اپنی برحق جدوجہد جاری رکھنے کا عزم دہراتے ہیں۔ پوری دنیا کو اِس نازک ترین مسئلے کے پُرامن حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا اور ایٹمی تصادم کے گرد ایک حصار کھینچنا ہو گا۔ پاکستان تو بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا اور مذاکرات کے ذریعے تنازعات حل کرنا چاہتا ہے ٗ مگر اِس کے رویے پر تکبر اور بالادستی کی ہوس حاوی ہے اور وہ سرحد پار دہشت گردی کے افسانے تراشتا رہتا ہے جو بلبلوں کی طرح تحلیل ہو رہے ہیں۔
الطاف حسین قریشی
بشکریہ روزنامہ "جنگ"
↧
↧
The Role of the Mosque by Dr. Safdar Mehmood
↧
Peace Talks with Taliban by Saleem Safi
↧
Chinese New Year Celebrations in Pictures
↧
Kabaddi
Kabaddi is a wrestling sport from India. Two teams occupy opposite halves of a small swimming pool or field and take turns sending a "raider" into the other half, to win points by tackling members of the opposing team; then the raider tries to return to his own half. The raider must not cross the lobby unless he touches any of his opponents. If he does so then he will be declared as "out". There is also a bonus line which ensure extra points for the raider if he manages to touch it and return to his side of the field successfully.
The word Kabaddi is derived from a Tamil word meaning "holding of hand", which is indeed the crucial aspect of play. It is the national game of Bangladesh, and the state game of Tamil Nadu, Karnataka, Punjab and Andhra Pradesh in India.
In the international team version of kabaddi, two teams of seven members each occupy opposite halves of a field of 10 m × 13 m in case of men and 8 m × 12 m in case of women.[1] Each has three supplementary players held in reserve. The game is played with 20-minute halves and a five-minute halftime break during which the teams exchange sides. Teams take turns sending a "raider" to the opposite team's half, where the goal is to tag or wrestle ("confine") members of the opposite team before returning to the home half. Tagged members are "out" and temporarily sent off the field. The goal of the defenders is to stop the raider from returning to the home side before taking a breath. If any of the seven players cross the lobby without touching the raider he will be declared as "out".
The raider is sent off the field if:
- the raider crosses a boundary line.
- a part of the raider's body touches the ground outside the boundary (except during a struggle with an opposing team member).
Each time when a player is "out", the opposing team earns a point. A team scores a bonus of two points, called a "lona", if the entire opposing team is declared "out". At the end of the game, the team with the most points wins. Matches are categorised based on age and weight. Six officials supervise a match: one referee, two umpires, a scorer and two assistant scorers.
↧
↧
بیس کروڑ پاکستانیوں کے لیے ’سزائے موت‘
بنگلہ دیش نے جو بیس کروڑ پاکستانیوں کے لیے اب تک مشرقی پاکستان ہے اس کی حکومت نے اپنے ہاں مقیم کچھ لوگوں کے لیے سزائے موت کا فیصلہ دیا ہے۔ اس سے قبل وہ عبدالقادر ملا کو یہ سزا دے بھی چکے ہیں‘ جرم تھا اور ہے متحدہ پاکستان کی حمایت۔ پاکستانیوں کو یہ سزائیں چونکہ بھارت کے حکم پر دی جا رہی ہیں اس لیے ان پر عمل بھی فوراً کیا جاتا ہے اور واپسی رپورٹ بھیج دی جاتی ہے کہ حکم حاکم کی تعمیل کر دی گئی ہے۔ اطلاعاً عرض ہے‘ بھارت کو جس قدر پاکستان کِھلتا ہے اور اس کے سینے کا کانٹا بنا ہوا ہے۔ اسی طرح ہر پاکستانی اور پاکستان کا نام لینے والا کہیں بھی ہو وہ گردن زدنی ہے محاورتاً نہیں حقیقتاً۔ بنگلہ دیش کی حد تک بھارت کامیاب ہے کیونکہ یہ ملک بھارت کی قطعاً ناجائز فوجی مداخلت سے قائم ہوا ہے۔ درست کہ اس کا میدان ہم پاکستانیوں نے خود تیار کیا تھا اور اس کے عوض ایک ملک اور وزارت عظمیٰ حاصل کی تھی لیکن اس میدان کو فتح بھارتی فوجوں نے کیا اور شکست کے اوزار بھارتی جرنیلوں نے وصول کیے۔
ایک بے حمیت پاکستانی جرنیل سے اور بے ضمیر پاکستانی حکمرانوں کی ٹولی اور اس کے ساتھی اور کارندے پاکستانی سیاستدانوں سے۔
دنیا نے ہماری اس قومی بے حسی کو تسلیم کیا اور پاکستان کا یہ مشرقی حصہ آج دنیا کا ایک آزاد ملک تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی قوم خود ہی بے حس ہوجائے اور قومی حمیت ترک کر دے تو دنیا کو کیا پڑی کہ اس کو غیرت مند بناتی پھرے اور اسے غیرت مند تسلیم کرے۔ خصوصاً پاکستان کی وراثت کی دعوے دار حکومت جب یہ کہے کہ یہ ’بنگلہ دیش‘ کا اندرونی معاملہ ہے تو اس پر صف ماتم ہی بچھائی جا سکتی ہے۔ ہماری اس تاریخی بے حسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمیں مسلسل ایسے حکمران ملے ہیں جن کی حکومت میں ان کے ملک پر کھلم کھلا فضائی حملے ہوتے ہیں۔ پاکستانی مرتے ہیں اور ہم احتجاج بھی نہیں کرتے کیونکہ جس ملک کو ہم اپنے ہموطنوں سمیت فروخت کر چکے ہوں اس ملک سے ہم کس منہ سے احتجاج کر سکتے ہیں۔ ہماری اسی بے حسی زندگی کا ہی یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے وہ ہمارے گھروں میں گھس آتا ہے اور ہم اس کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کرتے ہیں۔
دروازے کھولنے کا اعلان کرتے ہیں اور راستوں پر جھاڑو دے کر اپنے مہمان کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یاد ہے کہ بچپن میں ہمارے اسکول کے معائنے کے لیے انسپکٹر صاحب نے آنا تھا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے ہمارے اسکول کے برآمدے کی پیشانی پر ایک فارسی شعر لکھا جس کا مطلب تھا کہ آپ کی آمد ہماری آبادی کا سبب ہے۔ اے آمدنت باعث آبادیٔ ما۔ بھارت کو ہم عام پاکستانیوں کی دلجوئی سے کیا مطلب وہ تو ہماری دل جلانے والی باتیں ہی کرے گا اور ہم تمام پاکستانیوں کو گردن زدنی قرار دے گا۔ جب سے بنگلہ دیش نے بھی کبھی پاکستان کا نام لینے والوں اور اسے متحد رکھنے کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو سزائے موت سے کم کسی سزا کا مستحق نہ سمجھا ہو تو ہم اس کی ان کارروائیوں پر کیا احتجاج کر سکتے ہیں جن کے پس منظر میں ہمارے پاکستان کو متحد رکھنے والا جرم کارفرما ہو۔
اپنے وطن عزیز کی خود اپنی ذات کے بارے میں اس کی بے بسی کو دیکھ کر مجھے بھارت کے ان چھوٹے پڑوسیوں کی بات یاد آتی ہے کہ جب کسی دورے میں ہم سری لنکا نیپال وغیرہ جاتے اور وہاں کے شہریوں سے گپ شپ ہوتی تو وہ باتوں باتوں میں ایک بات بلا تکلف کہہ دیتے کہ ہم اپنے تحفظ کے لیے پاکستان سے امید رکھتے ہیں کیونکہ وہ بھارت کا دوست نہیں ہے اور اس سے ٹکرانے کی ہمت بھی رکھتا ہے۔ اس لیے جب بھارت ہمارے خلاف کوئی کارروائی کرے گا تو پاکستان ہماری مدد کرے گا۔ تب ان دنوں ہم پاکستانی یہ سن کر بہت خوش ہوتے اور اس خطے میں اپنے آپ کو ایک طاقت سمجھتے۔ ایک موقع آیا کہ ہم نے بھارت کی تخریب کاری کے خلاف سری لنکا کی مدد کی۔ وہاں تامل باغیوں نے تباہی مچا رکھی تھی لیکن بودھ مت کے پیرو کار سری لنکا والوں کے پاس ایک برائے نام سی فوج تھی۔
انھی دنوں صدر ضیاء الحق کے ہمراہ وہاں جانے کا اتفاق ہوا اور صدر صاحب نے ہمیں بتایا کہ میں نے سری لنکا والوں کی فوج کو اسلحہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کی فوجی تربیت کا بندوبست بھی کیا ہے۔ بڑی مشکل سے انھیں فوج کے قیام پر آمادہ کیا ہے چنانچہ پاکستان کے تعاون سے سری لنکا کو ان بھارتی تامل باغیوں سے نجات مل گئی۔ برصغیر کے اس خوبصورت جزیرے والوں کو پاکستان کی مہربانی یاد ہے۔ مشرقی پاکستان میں جنگ کے دوران جب بھارت کے اوپر سے ہمارے جہاز پرواز نہیں کرسکتے تھے تو وہ ایک لمبا چکر لگا کر سری لنکا کے راستے سے جایا کرتے تھے۔ سری لنکا نے بھارت کی پروا نہیں کی تھی کیونکہ پاکستان اس کے ساتھ تھا۔ اب میں سوچتا ہوں کہ برصغیر کے ان چھوٹے بھارتی پڑوسیوں کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا تو وہ ایسی کوئی بات اب نہیں کریں گے کیونکہ جو ملک اپنی حفاظت نہیں کر سکتا اور بھارت کی خوشنودی میں لگا ہوا ہے وہ بھارت کے کسی ستم رسیدہ چھوٹے ملک کی کیا مدد کرے گا۔
میں نے طالبان سے مذاکرات کے لیے راستہ کھلا چھوڑ کر اپنی چار رکنی کمیٹی کے لیے آسانیاں پیدا کرنی شروع کر دی ہیں اور اب یہ موضوع فی الحال ترک کر دیا ہے لیکن ایک میں کس باغ کی مولی ہوں یہ کام تو ہمارے اونچے درجے کے کالم نویسوں کی مدد سے ہی ہو سکتا ہے کہ وہ طالبان پر ذرا ہاتھ ہولا رکھیں اور کوشش کریں کہ ہماری یہ کمیٹی اگر بذات خود بھی وہاں جائے تو خیریت سے واپس آ جائے۔ طالبان نے ایک جواب تو اب دیا ہے کہ مذاکرات کریں یا جنگ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کر دیں لیکن مذاکرات اگر ہوتے ہیں تو خدا کرے ان میں سے امن کا کوئی راستہ نکل آئے بہر کیف اب یہ موضوع میری قلم فرسانی سے خارج ہے ایسے جب میں نے دوسرے موضوعات پر سوچا تو اندازہ ہوا کہ اصل موضوعات تو ہمارے اندرونی ہیں۔ بے روز گاری بد امنی اور گرانی وغیرہ اصل موضوعات ہیں کہ ان کے نتائج ہم عوام بھگت رہے ہیں۔ اب یہ باتیں ہوتی ہی رہیں گی فی الحال مذاکراتی کمیٹی کے حق میں دعائے خیر۔ اور ہاں ایک بات پس تحریر کہ ایک بچی کے بارے میں علاج کے لیے مالی امداد کی اپیل کی تھی ۔مشرق وسطیٰ سے تین چار پاکستانیوں نے تمام اخراجات اٹھانے کی پیش کی ہے اور جزوی طور پر تو لاتعداد لوگوں نے امداد کی خواہش کی ہے لیکن فون نہیں مل رہے جو نمبر دیے ہیں وہ شاید ناکافی ہیں۔ آیندہ بھی فون نمبر ایسے دیا کریں جو جواب دیا کریں۔
عبدالقادر حسن
بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"
↧
Chhipa ambulance driver sacrifice his life for injured people
↧
Peace Talks and Realities by Dr. Safdar Mehmood
↧
Peace Talks and Challenges By Dr. Mujahid Mansoori
↧
↧
تشدد کی فضا، رائے عامہ اور لائحہ عمل
آج پاکستان میں یہ بحث عروج پر ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کیے جائیں یا فوجی آپریشن کا راستہ اختیار کیا جائے؟ کیا مذاکرات کامیاب ہوں گے یا ناکام؟ہم یہاں پر ائے عامہ کے جائزوں کی بنیاد پر نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
گیلپ نے ۰۸۹۱ء سے ۰۱۰۲ء تک کا ۰۳ برس کا ایک جائزہ پاکستان میں جرائم اور خصوصیت سے دہشت گردی کے بارے میں پیش کیا ہے۔
جس میں عوام کی نگاہ میں دہشت گردی کی سب سے بڑی ذمہ داری بھارتی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں پر ہے، یعنی ۲۳ فی صد اور ۱۳ فی صد۔ گویا ۳۶فی صد کی نگاہ میں اس بدامنی، تشدد اور دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ سب سے بڑا محرک ہے۔ دہشت گردوں کو براہِ راست ذمہ دار ٹھیرانے والے ۶۲ فی صد ہیں۔ ۹۰۰۲ء میں طالبان کا نام لینے والے صرف ایک فی صد تھے۔ بعد کے متعدد جائزوں میں ’گیلپ‘ اور ’پیو‘ (PEW) دونوں ہی کے جائزوں میں طالبان کی تائید میں نمایاں کمی آئی ہے اور طالبان کی کارروائیوں کی مذمت کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ’پیو‘ کے ۱۱۰۲ء کے سروے میں ۳۲ فی صد نے طالبان سے خطرہ محسوس کیا اور اور گیلپ کے ایک سروے کے مطابق دسمبر ۹۰۰۲ء میں طالبان کے حوالے سے منفی تصور ۲۷ فی صد تک بڑھ گیا۔ عام انسانوں کی ہلاکت اور مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں، اسکولوں اور مدرسوں پر حملوں کے ردعمل میں طالبان کے بارے میں منفی رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ البتہ گیلپ کے سروے کی روشنی میں دہشت گردی کے متعین واقعات کے بارے میں، طالبان یا ان کے نام پر ذمہ داری قبول کیے جانے کے اعلانات کے باوجو د عوام کا تصور بڑا حیران کن ہے۔ مثلاً پشاور/بنوں کے ۹۰۰۲ء کے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری کے سلسلے میں عوام کا ردعمل یہ تھا:
۱۔ یہ واقعات انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کا ردعمل ہیں ۴۴ فی صد
۲۔ ان واقعات میں غیرملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۲۴ فی صد
۳۔ معلوم نہیں۴۱ فی صد
واضح رہے یہ دونوں واقعات خودکش حملوں کا نتیجہ تھے۔
اسی طرح ۹۰۰۲ء میں راولپنڈی جی ایچ کیو (پاکستانی مسلح افواج کے مرکز) پر کیے جانے والے حملے کے بارے میں کہ: ’’ذمہ دار کون ہے؟‘‘ عوامی راے یہ تھی:
بھارت: ۹۱ فی صد طالبان: ۵۲ فی صد امریکا: ۶۱ فی صد
فارن ایجنسی: ۷۲ فی صد لوکل ایجنسی: ۲ فی صد سیاسی جماعتیں: ایک فی صد
ہم نے یہ چند مثالیں عوامی جذبات، احساسات اور ان کی سوچ کے رُخ کو سمجھنے کے لیے دی ہیں۔ عوام کے ذہن کو سمجھنے کے لیے ایک سروے کی طرف مزید اشارہ کرنا ضروری ہے۔ یہ گیلپ کا سروے دسمبر ۳۱۰۲ء میں امیرجماعت سیّدمنور حسن صاحب اور مولانا فضل الرحمن صاحب کی جانب سے بیت اللہ محسود کے امریکی ڈرون کا نشانہ بنائے جانے کے واقعے پر ردعمل سے متعلق تھا۔
سوال: ’’حال ہی میں سیّدمنورحسن اور مولانا فضل الرحمن نے کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا ہے۔ آپ اس بیان کی کس حد تک حمایت یا مخالفت کرتے ہیں؟‘‘
بہت زیادہ حمایت: ۴۱ فی صد بہت زیادہ مخالفت: ۹۲ فی صد
کسی حد تک حمایت: ۵۲’’کسی حد تک مخالفت: ۹۲‘‘
مجموعی حمایت: ۹۳ ’’مجموعی مخالفت: ۸۵ ‘‘
معلوم نہیں: ۰۱
قابلِ غور بات یہ ہے کہ مئی ۳۱۰۲ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماے اسلام (ف) کو مجموعی طور پر ۵ فی صد ووٹ ملے اور دونوں قا ئدین کے بیانات کے بعد میڈیا پر ان کی مخالفت میں ایک طوفان برپا تھا، لیکن آبادی کے تقریباً ۰۴ فی صد نے ان کی راے سے اتفاق کا اظہار کیا۔ (گیلپ انٹرنیشنل، ۹دسمبر ۳۱۰۲ء)
یہاں پر ہمارا مقصد کسی قانونی، فقہی یا سیاسی پہلو کو زیربحث لانا نہیں ہے، صرف توجہ کو اس طرف مبذول کرانا ہے کہ ملک کے عوام طالبان اور طالبان کے نام پر جو کچھ کیا یا کہا جارہا ہے اسے اس کے ظاہری خدوخال پر نہیں لیتے، بلکہ پورے مسئلے، یعنی دہشت گردی اور اس میں امریکا کے کردار کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ ان دو عالمی جائزوں سے مختلف پہلوؤں کو سامنے لانے سے ہمارا مقصد اصل مسئلے کے جملہ پہلوؤں کی طرف توجہ کو مبذول کرانا ہے۔ ان معروضات کی روشنی میں، پالیسی سازی کے لیے چند نہایت اہم پہلو سامنے آتے ہیں، جن کی ہم نشان دہی کرنا چاہتے ہیں:
۱۔ پالیسی سازی میں اصل اہمیت ملک اور قوم کے مقاصد، اس کے مفادات اور اس کے عوام کی سوچ، خواہش اور عزائم کی ہونی چاہیے۔ جو پالیسی بیرونی دباؤ، عصبیت یا جذبات کی روشنی میں بنائی جائے گی، وہ مفید اور مناسب نہیں ہوگی۔
۲۔ اصل مسئلہ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ‘ ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے کا اس سے گہرا تعلق ہے۔ بلاشبہہ دوسری انواع کی دہشت گردیاں بھی ہیں اور ان کے لیے بھی مؤثر حکمت عملی اور پروگرام درکار ہیں، لیکن مرکزی اہمیت بہرحال امریکا کی اس جنگ اور اس میں ہمارے کردار سے منسوب ہے۔
پاکستانی عوام، پاکستان کو امریکا کی اس جنگ سے نکالنے اور ایک آزاد خارجہ پالیسی بنانے کے حق میں ہیں۔ مئی ۳۱۰۲ء کے انتخابات میں انھوں نے اُن جماعتوں پر اعتماد نہیں کیا، جو اس جنگ میں پاکستان کی شرکت کی ذمہ دار تھیں اور ان جماعتوں کو اعتماد کا ووٹ دیا جو آزاد خارجہ پالیسی کی داعی اور اس جنگ سے نکلنے اور سیاسی حل کی خواہش مند تھیں۔ عوام کا یہ موقف ۱۰۰۲ء سے واضح تسلسل رکھتا ہے۔ اصل مسئلہ پالیسی کے اہداف اور مقاصد کے بارے میں ابہام کا نہیں ہے، حکومت اور اس کے اداروں کی طرف سے قومی پالیسی پر عمل نہ کرنے کا ہے۔
۳۔ پاکستان میں پائی جانے والی دہشت گردی کی کم از کم پانچ بڑی شکلیں ہیں جن میں ہر ایک کی نوعیت، اسباب اور اہداف کو سمجھنا اور اس کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بنانا ضروری ہے:
پہلی اور سب سے اہم شکل وہ ہے جس کا تعلق امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘، افغانستان پر فوج کشی، افغانستان میں امریکی استعمار کی مزاحمت، اور پاکستان کے اس جنگ میں امریکا کے حلیف اور مددگار بننے سے رُونما ہوئی ہے۔ لیکن جب ہماری فوج کو اس جنگ میں جھونک دیا گیا، تو افسوس ناک ردعمل بھی رُونما ہوا، جو بڑھتے بڑھتے خود ایک فتنہ بن گیا۔ باجوڑ اور اسلام آباد میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ بھی اس خونیں سلسلے کے سنگ میل بن گئے۔ پھر مسجد اور مدرسہ، سرکاری دفاتر اور افواج کے مورچے، حتیٰ کہ بازار اور گھربار سب نشانہ بننے لگے اور معصوم انسانوں کا لہو ارزاں ہوکر بہنے لگا۔ بچے، عورتیں، مسافر، مریض، کوئی بھی اس خون آشامی کی زد سے نہ بچ سکا۔
شریعت، قانون، اخلاق، روایات کون سی حد ہے جو اس میں پامال نہیں کی گئی اور بدقسمتی سے ہرفریق کی طرف سے یہ ظلم روا رکھا گیا۔ معصوم انسانوں کی ہلاکت اور قومی وسائل کی تباہی، جس کے ہاتھوں بھی ہوئی، قابلِ مذمت ہے۔ لیکن انتقام در انتقام مسئلے کا حل نہیں، بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد میں مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش ہی اس عذاب سے نکلنے کا راستہ ہے۔ امریکا خود افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کی راہیں تلاش کررہا ہے اور اب تو اسی کے مقرر کردہ افغان صدر حامد کرزئی تک نے کہہ دیا ہے کہ: ’’امریکا طالبان سے مذاکرات کرے اور پاکستان اس کی معاونت کرے، اس کے بغیر افغانستان میں امن نہیں آسکتا‘‘، یعنی اس سلسلے میں سطحی جذباتیت حالات کو بگاڑ تو سکتی ہے، اصلاح کی طرف نہیں لاسکتی۔ (جاری ہے)
پروفیسر خورشید احمد
بشکریہ روزنامہ 'نئی بات'
↧
Poor People, Big Achievements
↧
کیا عمران خان مشکل میں پھنس گئے؟
پاکستانی طالبان کی قیادت نے عمران خان کو مشکل میں نہیں ڈالا بلکہ اپنے آپ کو مشکل میں ڈالا ہے۔ طالبان کی طرف سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے کمیٹی میں عمران خان کا نام شامل کرنا واقعی ایک دھماکہ ہے۔ چند دن پہلے جب وزیر اعظم نواز شریف نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے چار رکنی کمیٹی کا اعلان کیا تو ایک بڑا اعتراض یہ سامنے آیا کہ اس کمیٹی میں علماء اور سیاستدانوں کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ اب طالبان کی طرف سے پانچ رکنی کمیٹی کا اعلان سامنے آیا ہے تو کہا جارہا ہے کہ طالبان نے اپنی کمیٹی میں علماء اور سیاستدانوں کو کیوں شامل کردیا ہے؟ عام خیال یہ ہے کہ عمران خان بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ کچھ لوگ انہیں پہلے ہی طالبان خان کہتے تھے اب تو طالبان نے بھی انہیں اپنا مذاکرات کار بنالیا ہے اور تصدیق کردی ہے کہ عمران خان اندر سے طالبان ہیں۔ میری ناقص رائے بالکل مختلف ہے، طالبان کی طرف سے عمران خان کو اپنی مذاکراتی ٹیم میں شامل کیا جاتا یا نہ کیا جاتا لیکن عمران خان کے مخالفین اپنے الزامات سے کبھی باز نہ آئے۔ طالبان نے ایک کلین شیو سیاستدان کو اپنی مذاکراتی ٹیم میں شامل کیا ہے جس پر مولانا فضل الرحمن نے الزام لگایا تھا کہ وہ یہودیوں کا ایجنٹ ہے۔ عمران خان پر اعتماد کا اظہار کرکے طالبان نے یہ پیغام دیا ہے کہ جن پاکستانیوں نے داڑھیاں نہیں رکھیں ہم ان کے خلاف نہیں ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق طالبان کے اندر کچھ لوگوں نے عمران خان کے نام پر اعتراض کیا اور کہا کہ اس کی شکل شرعی تقاضوں کے مطابق نہیں ہے لیکن اکثریت کی رائے یہ تھی کہ ہم نے عمران خان کے ذریعہ شریعت نافذ نہیں کرانی بلکہ امن مذاکرات کرنے ہیں۔ عمران خان نے ہمیشہ فوجی آپریشن کی بجائے مذاکرات کی حمایت کی ہے لہٰذا عمران خان کے ذریعے مذاکرات میں کوئی حرج نہیں۔ یہ پہلو بھی بہت اہم ہے کہ عمران خان آئین اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے ماضی میں کئی مرتبہ یہ کہا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات آئین کے اندر رہ کر کئے جائیں۔ طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں عمران خان کے علاوہ مولانا سمیع الحق، پروفیسر ابراہیم خان اور مفتی کفایت اللہ بھی آئین اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔
طالبان کی پانچ رکنی مذاکراتی ٹیم میں سے چار ارکان جمہوریت کے ذریعہ تبدیلی لانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنی مذاکراتی ٹیم میں شامل کرکے مجھے تو یہی پیغام ملا ہے کہ طالبان جمہوریت کے خلاف نہیں ہیں۔ نیتوں کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے لیکن میری رائے میں طالبان نے اپنی مذاکراتی ٹیم کے ذریعہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرلیا ہے۔ میرے لئے یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں شامل پانچوں ارکان نے ہمیشہ خود کش حملوں میں بے گناہ انسانوں کی اموات پر افسوس کا اظہار کیا اور خود کش حملوں کی مذمت کی۔ ان پانچ افراد کو اپنی مذاکراتی ٹیم میں شامل کرکے طالبان کی طرف سے یہ پیغام بھی آیا ہے کہ خود کش حملوں کی مذمت کرنے والے ان کے لئے واجب القتل نہیں۔ طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں لال مسجد اسلام آباد کے خطیب مولانا عبدالعزیز بھی شامل ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ جب تک حکومت ملک میں نفاذ شریعت کا وعدہ نہیں کرتی وہ مذاکراتی ٹیم میں شا مل نہیں ہونگے۔ مولانا صاحب سے گزارش ہے کہ پہلے مذاکراتی ٹیم میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کردیں اور پھر اپنے ساتھی مذاکرات کاروں کے ساتھ بیٹھ کر ایک ایجنڈا طے کریں اور اس میں جو بھی مناسب مطالبہ شامل کرنا ہے شامل کرلیں۔ یاد رکھیئے پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور قائد اعظمؒ محمد علی جناح پاکستان کے مسلمانوں کو واقعی ایک ایسا نظام دینا چاہتے تھے جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہو۔ قائد اعظمؒ نے اسٹیٹ بینک کو یہ ہدایات بھی جاری کردی تھیں کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری شروع کی جائے لیکن قائد اعظمؒ کے انتقال کے بعد ہم نے ان کو بھلا دیا۔ قائد اعظمؒ جو بھی تھے اور جیسے بھی تھے لیکن ایک کلین شیو مسلمان تھے جس پر مولانا حسرت موہانیؒ سے لے کر مولانا شبیر احمد عثمانیؒ تک سینکڑوں ہزاروں علماء نے اپنے ا عتماد کا اظہار کیا۔ قائد اعظمؒ نے پاکستان بندوق کے زور پر نہیں بنایا بلکہ سیاسی و جمہوری جدوجہد کے ذریعہ پاکستان بنایا۔ قائد ا عظم کے پاکستان میں بندوق کے زور پر شریعت نافذ نہیں ہوسکتی اس لئے نفاذ شریعت کے مطالبے کے ذریعے امن کی کوششوں کو مشکلات میں نہ ڈالا جائے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے اپنی مذاکراتی ٹیم میں چار سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو شامل کرکے دراصل سیاست کی ہے۔ ان چاروں میں سے کسی ایک نے بھی مذاکراتی ٹیم میں شامل ہونے سے انکار کردیا تو طالبان کہیں گے ہم تو مذاکرات کے لئے سنجیدہ تھے لیکن سیاستدانوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ میری رائے میں حکومت کی مذاکراتی ٹیم بھی ٹھیک ہے اور طالبان کی بھی ٹھیک ہے۔ حکومت کی ٹیم میں رستم شاہ مہمند تحریک انصاف کے نمائندے ہیں۔ طالبان کی ٹیم میں عمران خان تحریک انصاف کے نمائندے ہیں۔ حکومت کی ٹیم میں میجر ریٹائرڈ عامر یہ کہتے ہیں کہ میرا تعلق ایک دینی گھرانے سے ہے میں مولوی بھی ہوں اور فوجی بھی ہوں۔ پاکستان میں پرویز مشرف نے جو آگ لگائی اس میں مولوی بھی مررہا ہے اور فوجی بھی مررہا ہے، اس لئے میں یہ جنگ ختم کرانا چاہتا ہوں۔ میجر ریٹائرڈعامر نے2007ء میں بھی سوات کے علاقے کوزہ بانڈے جاکر مسلم خان کے گھر میں مولانا فضل اللہ سے مذاکرات کئے اور انہیں اپنے ایف ایم ریڈیو پر تشدد کی مذمت کے لئے کہا۔ مولانا فضل اللہ نے اپنے ا یف ایم ریڈیو پر تشدد کی مذمت کردی لیکن مشرف حکومت نے مذاکرات ختم کردئیے اور یوں سوات کو آگ اور خون کے کھیل جھونک میں دیاگیا۔
مجھے کئی صحافی دوستوں نے کہا کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ میرا جواب یہ تھا کہ اگر یہ چاروں پاکستان کے آئین اور جمہوریت کے ساتھ ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ اب طالبان کی ٹیم سامنے آئی ہے تو اس کے اکثر ارکان بھی آئین اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ دونوں اطراف کبھی بھی کہیں بھی مل بیٹھ کر مذاکرات شروع کرسکتی ہیں۔ یہ ایک سنہری موقع ہے، عمران خان، مولانا سمیع الحق، پروفیسر ابراہیم، مفتی کفایت اللہ اور مولانا عبدالعزیز آگے بڑھیں۔ حکومتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات شروع کردیں، کوئی عالمی طاقت اور کوئی خفیہ ادارہ ان مذاکرات میں اپنا ایجنڈہ مسلط نہیں کرسکتا۔ یہ دونوں ٹیمیں جو بھی طے کریں گی حکومت کو اس پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ مشکل میں عمران خان نہیں پھنسے، مشکل میں طالبان اور حکومت پھنس گئی اگر مذاکرات شروع ہوگئے تو دونوں اطراف کی ٹیمیں سیز فائر کے مطالبے سے ابتداء کریں گی۔ پھر طالبان کو بھی اپنی کارروائیاں بند کرنی پڑیں گی اور حکومت کو اپنی کارروائیاں بند کرنی ہونگی۔ ہوسکتا ہے کہ کسی مرحلےپر طالبان اور حکومت مل کر امریکہ سے مطالبہ کریں کہ ڈرون حملے بند کرو۔ مشکل میں تو امریکہ پھنس جائے گا۔ اس وقت تو پورا پاکستان مشکل میں پھنسا ہوا ہے لیکن مشکل سے نکلنے کا موقع پیدا ہوچکا ہے۔ عمران خان آگے بڑھیں اور مذاکراتی عمل شروع کرکے ایک نئی تاریخ بنادیں۔
حامد میر
بشکریہ روزنامہ 'جنگ'
↧