Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 6213 articles
Browse latest View live

مُک مُکا اور قدرت کا انصاف

$
0
0

فروری کی پہلی تاریخ کی شہ سرخیاں دیکھ کر قدرت کے نظم عدل اور انصاف پر یقین بڑھتا جارہا ہے اور انسانوں کے بنائے ہوئے انصاف کے قاعدے قوانین اور ان کے وعدے اور لکھ کر اور بول کر کئے ہوئے اعلانات نہ صرف کھوکھلے بلکہ جھوٹے اور کھلی دھوکہ دہی نظر آنے لگے ہیں۔ تین خبروں کی سرخیاں ہر اخبار پر چھائی ہوئی ہیں۔ ایک جنرل مشرف کا کیس اور اُن کی طرف بڑھتا ہوا انصاف کا ہاتھ۔ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی جنرل مشرف ہیں جو گھمنڈ اور غرور کا پیکر بنے ہر ایک کا مذاق اُڑاتے اور اپنی قوت اور طاقت کا بے دریغ استعمال کرتے اور بے قصوروں اور عام لوگوں کی زندگیاں اس طرح حرام کرتے تھے جیسے یہ ان کا پیدائشی حق ہے۔ آج وہ کسی کے قتل میں تو نہیں پکڑے گئے مگر ایک قانونی اور آئینی گرداب میں ضرور گھر گئے ہیں۔ جو اُن کو یاد دلارہا ہے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے جو دیر سے چلتی ہے مگر چلتی ضرور ہے۔ آج ان کے دور کے قیدی، چور اور ڈاکو گردانے جانے والے سیاستدان ملک پر حاکم ہیں اور اپنی من مانیاں کررہے ہیں اور مشرف اور ان کے فوجی ساتھی گردنیں اور جانیں بچائے یا گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں یا ملک سے باہر جاچکے ہیں۔ بوٹیاں نوچنے والے بڑے بڑے وکیل بالکل اسی طرح ٹوٹ کر مشرف کے لاکھوں کروڑوں روپے جیبوں میں ڈال رہے ہیں جس طرح لاکھوں ڈالر کسی وقت مشرف کے اور ان کے ساتھیوں کے بنک اکائونٹ میں خودبخود جمع ہوجاتے تھے۔ آج مشرف کے ساتھ کچھ لوگ کھڑے ہیں مگر وہ صرف اپنی جان، مال اور ساکھ بچانے کے چکر میں ہیں کیونکہ مشرف پھنسے تو وہ کیسے بچیں گے۔ میرے خیال میں یہ سارا سرکس حسین حقانی کے میمو کیس کی طرح ہی حل پذیر ہوگا، عدالت کی بھی ساکھ بچ جائے گی، مشرف پر الزام بھی ثابت ہوجائے گا مگر وہ ملک سے فرار بھی ہونے میں کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ ابھی پاکستان میں کوئی کسی کو سزا دینے کی پوزیشن ہی میں نہیں ہے، سب اس حمام میں بغیر کپڑوں کے کبڈی کھیل رہے ہیں اور ہر ایک اپنے آپ کو پاک پوتر اور دوسروں کو چور ڈاکو ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے، اس ملک کو ایک مینڈیلا کی ضرورت ہے جو خود اپنے لئے کچھ نہ چاہتا ہومگردوسروں کوصحیح راہ دکھا سکے۔ خیر دوسری بڑی شہ سرخی ڈاکٹر عمران فاروق کیس کے بارے میں تھی اوراس پر الطاف بھائی اورمتحدہ کا ردِعمل کچھ پریشان کن لگا۔ اگر برطانیہ والے ان کے ملک میں ایک قتل کی تحقیق کررہے ہیں اور مشتبہ لوگ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور کڑیاں ایک دوسرے سے مل رہی ہیں تو اس میںکسی بے گناہ اور معصوم شخص کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ الطاف بھائی پاکستان سے 22 سال پہلے یہ کہہ کر چلے گئے تھے کہ یہاں ان کی جان کو خطرہ ہے اب 22 سال بعد لندن میں وہ فرمارہے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہورہی ہے اور ان کی جان کو وہاں بھی خطرہ ہے۔ وہاں کے قانون تو قانون ہیں اور اگر کوئی ان قوانین کی گرفت میں آگیا تو بچنا مشکل ہے اگر آج الطاف بھائی باقی دوسرے لیڈروںکی طرح جیسے زرداری یا نواز شریف یا اور بہت سے لوگ جیسے دائود ابراہیم یا ایمن الظواہری یا اسامہ بن لادن یا ملا عمر یا ملا فضل اللہ اگر اپنے آپ کو پاکستان میں زیادہ محفوظ سمجھتے تھے یا ہیں، تو الطاف بھائی بھی آج پُرسکون نیند سوتے مگر برطانیہ کی شہریت لینے کے بعد وہ مجبور ہیں کہ وہاں کے قانون کی پابندی کریں اب اگر وہاں کی پولیس ان کے گھرجاسکتی ہے اور ان کی بیٹی کا لیپ ٹاپ لے جاتی ہے تو وہ یقین رکھیں جب فیصلہ ہوگا اور وہ بے قصور ٹھہریں گے تو یہ سب چیزیں ان کو اسی طرح واپس مل جائیں گی اور پاکستان کی طرح غائب نہیں ہوں گی۔

مگر الطاف بھائی نے شاید صحیح فیصلہ کرنے میں کچھ دیر کردی، جب ان کی حکومت تھی اور وہ مرکز اور صوبے پر ایک طرح سے قابض تھے اس وقت ہی ان کو اپنے ہزاروں لاکھوں چاہنے والوں کے درمیان آجانا چاہئے تھا۔ پاکستان میں ان کی حفاظت اتنی سخت ہوتی کہ کوئی چڑیا پَر نہیں مار سکتی جیسے زرداری صاحب نے پورے کراچی کا ایک حصہ اپنے قبضے میں کرلیا تھا اورکوئی پوچھنے والا نہیں تھا اور آج بھی نہیں۔ 90 کی رہائش گاہ تو ہمیشہ ہی الطاف بھائی کیلئے محفوظ تھی اور مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب وہ باہر سڑک پر بیٹھ کر ہمارے ساتھ گھنٹوں بحث کیا کرتے تھے یا وہ دن جب پہلی دفعہ میں نے 90 سے صحافیوں کا واک آئوٹ کروایا تھا اور وجہ بھی ڈاکٹر عمران فاروق ہی تھے۔ مگر جب ہم صحافی واک آئوٹ کرکے نکلے تو ہر ایک بھاگ رہا تھا کہ کہیں متحدہ کے ورکر گھیر کر واپس نہ لے جائیں۔ وہ کہانی پھر سہی مگر آج کے اخبار میں جو متحدہ کے مظاہرے کی خبریں اور تصویریں چھپی ہیں وہ ایک المیہ ہی لگتی ہیں۔ آخر متحدہ کو کراچی کس کا ہے، دکھانےکی کیا ضرورت پیش آگئی، یہ بات تو سب کو معلوم ہے۔ ایک TV کے پروگرام پر اتنا بڑا ردِعمل سمجھ سے باہر لگتا ہے،کہانی کچھ اور ہے یہ پیغام میرے مطابق BBC یا اسکاٹ لینڈ یارڈ کو نہیں دیا جارہابلکہ پاکستان کی اُن طاقتوں کو دیا جارہا ہے جو شایدڈاکٹر عمران کیس کے مشتبہ لوگوں کو اپنے سیف ہائوس میں رکھے ہوئے ہیں۔ پیغام یہ لگتا ہے کہ اگر ان لوگوں کو متحدہ کے خلاف استعمال کیا گیا تو کراچی والے بھی خاموش نہیں رہیں گے۔ یہ کیس لگتا ہے شطرنج کی بساط پر ایک ایسی مہرے کی چال بن گیا ہے جب شاہ کو پہلے وارننگ دے دی جاتی ہے کہ بچائو ورنہ مات ہونے کو ہے۔ اب اس شطرنج میں کس کو مات ہوتی ہے اور کون شاہ کو بچا کر لے جاتا ہے کہنا مشکل ہےمگر کانٹے کا مقابلہ ہے اور ہوسکتا ہے برطانیہ والے منہ دیکھتے رہ جائیں اور پاکستان میں سیف ہائوس چلانے والوں اور متحدہ میں سمجھوتہ ہوجائے اور ڈاکٹر عمران فاروق کا کیس لٹکتا ہی رہ جائے مگر قدرت کا نظام عدل اپنی جگہ چلتا رہتا ہے۔

آخری شہ سرخی اُس تصویر کے ساتھ تھی جس میں جناب نواز شریف اور جناب زرداری تھر کوئلے کی کانوں سے بجلی بنانے کا افتتاح کررہے تھے اور جو خیالات اور بھائی چارہ نظرآرہا تھا وہ قابل دید اور ناقابلِ یقین سا تھا۔کیا ستم ظریفی ہے کہ زرداری اور نواز شریف نے ہاتھ ملانا تھا بھی تو کوئلوں کی کان پر(ویسے کوئلوں کی دلالی بھی مشہور ہے ویسے اس کام میں منہ کالا ہونا کوئی نئی بات نہیں ) اور اب جس طرح اس کوئلے کے کاروبار میں دونوں لیڈر مل جل گئے ہیں، نظر آتا ہے پچھلے سارے گناہ معاف ہوگئے ہیں اور جو نواز شریف اور ان کے برادر شہباز صاحب زور و شور سے اعلان کیا کرتے تھے کہ علی بابا اور چالیس چوروں کو سڑکوں پر لٹکایا جائے گا وہ ماضی کی بات رہ گئی ہے کیونکہ اُس وقت انہیں حکومت نہیں ملی تھی۔ اب نواز شریف کو زرداری کی ضرورت شدت سے ہے کیونکہ اصلی حکومت انہوں نے اب شروع کی ہے اور تمام بڑے بڑے اور اہم عہدوں پر وہ اپنے مہرے بٹھارہے ہیں چاہے وہ لوگ عدالت سے مسترد شدہ ہی ہوں۔ ہر جگہ اپنے آدمی ہی لگائے اور لگ رہے ہیں ابھی ملک کے کھربوں کے اثاثے بیچنا ہیں۔ کھربوں کیلئے منصوبے لگانے ہیں اور اپنے سب دوستوں اور قریبی ساتھیوں کو بھی تو کچھ فائدہ دینا ہے۔ ایک کہانی جو تیار ہے جلد ہی سامنے لائوں گا کہ کس طرح اربوں کا ہیر پھیر کیا گیا اور ڈکار بھی کسی نے نہیں لی۔ نواز زرداری بھائی بھائی کا نعرہ اب ہر جگہ بجے گا۔ الطاف زرداری تو ہیں ہی بھائی بھائی۔


بشکریہ روزنامہ 'جنگ'


Reforms in Pakistan Government Sector

$
0
0

 Reforms in Pakistan Government Sector

Enhanced by Zemanta

Taliban and Pakistani Politicians by Saleem Safi

Face Book History

$
0
0

Facebook is an online social networking service. Its name comes from a colloquialism for the directory given to students at some American universities.[7] Facebook was founded on 4th February 2004 by Mark Zuckerberg with his college roommates and fellow Harvard University students Eduardo Saverin, Andrew McCollum, Dustin Moskovitz and Chris Hughes.[8] The founders had initially limited the website's membership to Harvard students, but later expanded it to colleges in the Boston area, the Ivy League, and Stanford University. It gradually added support for students at various other universities before it opened to high-school students, and eventually to anyone aged 13 and over. Facebook now allows anyone who claims to be at least 13 years old to become a registered user of the website.[9]

Users must register before using the site, after which they may create a personal profile, add other users as friends, exchange messages, and receive automatic notifications when they update their profile. Additionally, users may join common-interest user groups, organized by workplace, school or college, or other characteristics, and categorize their friends into lists such as "People From Work" or "Close Friends". As of September 2012, Facebook has over one billion active users,[10] of which 9% are fake.[11] Facebook (as of 2012) has about 180 petabytes of data per year and grows by over half a petabyte every 24 hours.[12]

In May 2005, Accel partners invested $12.7 million in Facebook, and Jim Breyer[13] added $1 million of his own money. A January 2009 Compete.com study ranked Facebook the most used social networking service by worldwide monthly active users.[14]Entertainment Weekly included the site on its end-of-the-decade "best-of" list, saying, "How on earth did we stalk our exes, remember our co-workers' birthdays, bug our friends, and play a rousing game of Scrabulous before Facebook?"[15] Facebook eventually filed for an initial public offering on February 1, 2012; it is headquartered in Menlo Park, California.[16] Facebook Inc. began selling stock to the public and trading on the NASDAQ on May 18, 2012.[17] Based on its 2012 income of US$5 billion, Facebook joined the Fortune 500 list for the first time on the list published in May 2013, being placed at position 462.[18] Facebook is considered the 5th most successful startup company of all time, by market capitalization, revenue, and growth.[19]

In 2012, Facebook was valued at $104 billion, and by January of 2014 its market capitalization had risen to over $134 billion.[20][21] At the end of January 2014, 1.23 billion users were active on the website every month, while on December 31, 2013, 945 million of this total were identified by the company as mobile users. The company celebrates its tenth anniversary in the week beginning February 3, 2014.[22]In a January 2014, during the week previous to the company's tenth anniversary, chief operating officer of Facebook, Sheryl Sandberg, clarified: "He [Mark] always said Facebook was started not just to be a company, but to fulfill a vision of connecting the world.

User profile

Users can create profiles with photos, lists of personal interests, contact information, and other personal information. Users can communicate with friends and other users through private or public messages and a chat feature. They can also create and join interest groups and "like pages" (called "fan pages" until April 19, 2010), some of which are maintained by organizations as a means of advertising.[141] Facebook has been prompted to add a "third gender", "other", or "intersex" tab in the gender option which contains only male and female.[142] Facebook refused and said that individuals can "opt out of showing their sex on their profile".[143] A 2012 Pew Internet and American Life study identified that between 20–30% of Facebook users are "power users" who frequently link, poke, post and tag themselves and others.[144] The user page is set up in a minimal fashion with blue as the main color. This was done because Zuckerberg is red-green colorblind.[145]

On June 13, 2009, Facebook introduced a "Usernames" feature, whereby pages can be linked with simpler URLs such as https://www.facebook.com/facebook instead of https://www.facebook.com/profile.php?id=20531316728.[146] Many new smartphones offer access to Facebook services through either their Web browsers or applications. An official Facebook application is available for the operating systems Android, iOS, and webOS. Nokia and Research In Motion both provide Facebook applications for their own mobile devices. More than 425 million active users access Facebook through mobile devices across 200 mobile operators in 60 countries.[147]

Comparison with Myspace

The media often compares Facebook to Myspace, but one significant difference between the two Web sites is the level of customization.[148] Another difference is Facebook's requirement that users give their true identity, a demand that MySpace does not make.[149] MySpace allows users to decorate their profiles using HTML and Cascading Style Sheets (CSS), while Facebook allows only plain text.[150] Facebook has a number of features with which users may interact. They include the Wall, a space on every user's profile page that allows friends to post messages for the user to see;[151]Pokes, which allows users to send a virtual "poke" to each other (a notification then tells a user that they have been poked);[152]Photos, where users can upload albums and photos;[153] and Status, which allows users to inform their friends of their whereabouts and actions.[154] Depending on privacy settings, anyone who can see a user's profile can also view that user's Wall. In July 2007, Facebook began allowing users to post attachments to the Wall, whereas the Wall was previously limited to textual content only.[151]

News Feed

On September 6, 2006, a News Feed was announced, which appears on every user's homepage and highlights information including profile changes, upcoming events, and birthdays of the user's friends.[155] This enabled spammers and other users to manipulate these features by creating illegitimate events or posting fake birthdays to attract attention to their profile or cause.[156] Initially, the News Feed caused dissatisfaction among Facebook users; some complained it was too cluttered and full of undesired information, others were concerned that it made it too easy for others to track individual activities (such as relationship status changes, events, and conversations with other users).[157]

In response, Zuckerberg issued an apology for the site's failure to include appropriate customizable privacy features. Since then, users have been able to control what types of information are shared automatically with friends. Users are now able to prevent user-set categories of friends from seeing updates about certain types of activities, including profile changes, Wall posts, and newly added friends.[158]On February 23, 2010, Facebook was granted a patent[159] on certain aspects of its News Feed. The patent covers News Feeds in which links are provided so that one user can participate in the same activity of another user.[160] The patent may encourage Facebook to pursue action against websites that violate its patent, which may potentially include websites such as Twitter.[161]

One of the most popular applications on Facebook is the Photos application, where users can upload albums and photos.[162] Facebook allows users to upload an unlimited number of photos, compared with other image hosting services such as Photobucket and Flickr, which apply limits to the number of photos that a user is allowed to upload. During the first years, Facebook users were limited to 60 photos per album. As of May 2009, this limit has been increased to 200 photos per album.[163][164][165][166]Privacy settings can be set for individual albums, limiting the groups of users that can see an album. For example, the privacy of an album can be set so that only the user's friends can see the album, while the privacy of another album can be set so that all Facebook users can see it. Another feature of the Photos application is the ability to "tag", or label, users in a photo. For instance, if a photo contains a user's friend, then the user can tag the friend in the photo. This sends a notification to the friend that they have been tagged, and provides them a link to see the photo.[167]

On June 7, 2012, Facebook launched its App Center to its users. It will help the users in finding games and other applications with ease.[168] Since the launch of the App Center, Facebook has seen 150M monthly users with 2.4 times the installation of apps.[169]The sorting and display of stories in a user's News Feed is governed by the algorithm EdgeRank.[170]

Facebook Notes

Facebook Notes was introduced on August 22, 2006, a blogging feature that allowed tags and embeddable images. Users were later able to import blogs from Xanga, LiveJournal, Blogger, and other blogging services.[42] During the week of April 7, 2008, Facebook released a Comet-based[171]instant messaging application called "Chat" to several networks,[172] which allows users to communicate with friends and is similar in functionality to desktop-based instant messengers. Facebook launched Gifts on February 8, 2007, which allows users to send virtual gifts to their friends that appear on the recipient's profile. Gifts cost $1.00 each to purchase, and a personalized message can be attached to each gift.[173][174] On May 14, 2007, Facebook launched Marketplace, which lets users post free classified ads.[175] Marketplace has been compared to Craigslist by CNET, which points out that the major difference between the two is that listings posted by a user on Marketplace are seen only by users in the same network as that user, whereas listings posted on Craigslist can be seen by anyone.[176]

On July 20, 2008, Facebook introduced "Facebook Beta", a significant redesign of its user interface on selected networks. The Mini-Feed and Wall were consolidated, profiles were separated into tabbed sections, and an effort was made to create a "cleaner" look.[177] After initially giving users a choice to switch, Facebook began migrating all users to the new version starting in September 2008.[178] On December 11, 2008, it was announced that Facebook was testing a simpler signup process.[179]

Messaging

A new Messaging platform, codenamed "Project Titan", was launched on November 15, 2010. Described as a "Gmail killer" by some publications, the system allows users to directly communicate with each other via Facebook using several different methods (including a special email address, text messaging, or through the Facebook website or mobile app)—no matter what method is used to deliver a message, they are contained within single threads in a unified inbox. As with other Facebook features, users can adjust from whom they can receive messages from—including just friends, friends of friends, or from anyone.[180][181]Aside from the Facebook website, Messages can also be accessed through the site's mobile apps, or a dedicated Facebook Messenger app.[182]

Voice calls

Since April 2011, Facebook users have had the ability to make live voice calls via Facebook Chat, allowing users to chat with others from all over the world. This feature, which is provided free through T-Mobile's new Bobsled service, lets the user add voice to the current Facebook Chat as well as leave voice messages on Facebook.[183]

Video calling

On July 6, 2011, Facebook launched its video calling services using Skype as its technology partner. It allows one-to-one calling using a SkypeRestAPI.

Following

On September 14, 2011, Facebook added the ability for users to provide a "Subscribe" button on their page, which allows users to subscribe to public postings by the user without needing to add them as a friend.[184] In conjunction, Facebook also introduced a system in February 2012 to verify the identity of certain accounts. Unlike a similar system used by Twitter, verified accounts do not display a special verification badge, but are given a higher priority in a user's "Subscription Suggestions".[185]In December 2012, Facebook announced that due to user confusion surrounding its function, the Subscribe button would be re-labeled as a "Follow" button—making it more similar to other social networks with similar functions.[186]

Privacy

To allay concerns about privacy, Facebook enables users to choose their own privacy settings and choose who can see specific parts of their profile.[187] The website is free to users, and generates revenue from advertising, such as banner ads.[188] Facebook requires a user's name and profile picture (if applicable) to be accessible by everyone. Users can control who sees other information they have shared, as well as who can find them in searches, through their privacy settings.[189]According to comScore, an internet marketing research company, Facebook collects as much data from its visitors as Google and Microsoft, but considerably less than Yahoo!.[190] In 2010, the security team began expanding its efforts to reduce the risks to users'privacy,[191] but privacy concerns remain.[192] On November 6, 2007, Facebook launched Facebook Beacon, which was an ultimately failed attempt advertise to friends of users using the knowledge of what purchases friends made. As of March 2012, Facebook's usage of its user data is under close scrutiny.[193]

Since 2010 the National Security Agency has been taking Facebook profile information from users to discover who their allies, friends, and colleagues are.[194]In August 2013 High-Tech Bridge published a study showing that links included in Facebook messaging service messages were being accessed by Facebook for its own purposes.[195] In January 2014 two users filed a lawsuit against Facebook alleging that their privacy had been violated by this practice.[196]

FTC settlement

On November 29, 2011, Facebook agreed to settle US Federal Trade Commission charges that it deceived consumers by failing to keep privacy promises.[197]

Technical aspects

Facebook is built in PHP which is compiled with HipHop for PHP, a 'source code transformer' built by Facebook engineers that turns PHP into C++.[198] The deployment of HipHop reportedly reduced average CPU consumption on Facebook servers by 50%.[199]Facebook is developed as one monolithic application. According to an interview in 2012 with Chuck Rossi, a build engineer at Facebook, Facebook compiles into a 1.5 GB binary blob which is then distributed to the servers using a custom BitTorrent-based release system. Rossi stated that it takes approximately 15 minutes to build and 15 minutes to release to the servers. The build and release process is zero downtime and new changes to Facebook are rolled out daily.[199]Facebook used a combination platform based on HBase to store data across distributed machines. Using a tailing architecture, new events are stored in log files, and the logs are tailed. The system rolls these events up and writes them into storage. The User Interface then pulls the data out and displays it to users. Facebook handles requests as AJAX behavior. These requests are written to a log file using Scribe (developed by Facebook).[200]

Data is read from these log files using Ptail, an internally built tool to aggregate data from multiple Scribe stores. It tails the log files and pulls data out (thus the name). Ptail data is separated out into three streams so they can eventually be sent to their own clusters in different data centers (Plugin impression, News feed impressions, Actions (plugin + news feed)). Puma is used to manage periods of high data flow (Input/Output or IO). Data is processed in batches to lessen the amount of times needed to read and write under high demand periods (A hot article will generate a lot of impressions and news feed impressions which will cause huge data skews). Batches are taken every 1.5 seconds, limited by memory used when creating a hash table.[200]
After this, data is output in PHP format (compiled with HipHop for PHP). The backend is written in Java and Thrift is used as the messaging format so PHP programs can query Java services. Caching solutions are used to make the web pages display more quickly. The more and longer data is cached the less realtime it is. The data is then sent to MapReduce servers so it can be queried via Hive. This also serves as a backup plan as the data can be recovered from Hive. Raw logs are removed after a period of time.[200]

Like button

The like button is a social networking feature, allowing users to express their appreciation of content such as status updates, comments, photos, and advertisements. It is also a social plug-in of the Facebook Platform – launched on April 21, 2010[201][202] – that enables participating Internet websites to display a similar like button. Following the termination by the sheriff of Hampton, Virginia, US of employees who liked the Facebook page of an adversary, a federal appeals court in Virginia handed down a decision that the US Constitution protects the rights of US citizens to like any Facebook page of their choosing. US Circuit Judge William Traxler likened the practice to displaying a "political sign in one’s front yard."[203]

Lawsuit

Patents relating to the "Like" button and other social features held by deceased Dutch programmer Joannes Jozef Everardus van Der Meer are subject of a lawsuit brought against Facebook by Rembrandt Social Media.[78][204] Rembrandt is represented by the Fish & Richardson Law Firm that stated "We believe Rembrandt's patents represent an important foundation of social media as we know it, and we expect a judge and jury to reach the same conclusion based on the evidence." As of April 2, 2013, further information about the case is unknown in the public sphere.[205]

Reception

According to comScore, Facebook is the leading social networking site based on monthly unique visitors, having overtaken main competitor MySpace in April 2008.[206] ComScore reports that Facebook attracted 130 million unique visitors in May 2010, an increase of 8.6 million people.[207] According to Alexa, the website's ranking among all websites increased from 60th to 7th in worldwide traffic, from September 2006 to September 2007, and is currently 2nd.[208]Quantcast ranks the website 2nd in the U.S. in traffic,[209] and Compete.com ranks it 2nd in the U.S.[210] The website is the most popular for uploading photos, with 50 billion uploaded cumulatively.[211] In 2010, Sophos's "Security Threat Report 2010" polled over 500 firms, 60% of which responded that they believed that Facebook was the social network that posed the biggest threat to security, well ahead of MySpace, Twitter, and LinkedIn.[191]

Facebook is the most popular social networking site in several English-speaking countries, including Canada,[212] the United Kingdom,[213] and the United States.[214][215][216][217] However, Facebook still receives limited adoption in countries such as Japan, where domestically created social networks are still largely preferred.[218] In regional Internet markets, Facebook penetration is highest in North America (69 percent), followed by Middle East-Africa (67 percent), Latin America (58 percent), Europe (57 percent), and Asia-Pacific (17 percent).[219] Some of the top competitors were listed in 2007 by Mashable.[220]

The website has won awards such as placement into the "Top 100 Classic Websites" by PC Magazine in 2007,[221] and winning the "People's Voice Award" from the Webby Awards in 2008.[222] In a 2006 study conducted by Student Monitor, a New Jersey-based company specializing in research concerning the college student market, Facebook was named the second most popular thing among undergraduates, tied with beer and only ranked lower than the iPod.[223]On March 2010, Judge Richard Seeborg issued an order approving the class settlement in Lane v. Facebook, Inc.,[224] the class action lawsuit arising out of Facebook's Beacon program.

In 2010, Facebook won the Crunchie"Best Overall Startup Or Product" for the third year in a row[225] and was recognized as one of the "Hottest Silicon Valley Companies" by Lead411.[226] However, in a July 2010 survey performed by the American Customer Satisfaction Index, Facebook received a score of 64 out of 100, placing it in the bottom 5% of all private-sector companies in terms of customer satisfaction, alongside industries such as the IRS e-file system, airlines, and cable companies. The reasons why Facebook scored so poorly include privacy problems, frequent changes to the website's interface, the results returned by the News Feed, and spam.[227]
Enhanced by Zemanta

10 Years of Face Book

$
0
0



10 Years of Face Book

 

Time periodKey developments at Facebook
January 2004-September 2006Facebook gradually enlarges the set of people who are allowed to register, starting from Harvard University only in January 2004, then gradually expanding to more US universities, then moving to international student networks, and finally switching to open registration in September 2006: anybody who is at least 13 and has a valid email address can sign up.
September 2006 onwardEven as Facebook's userbase keeps increasing, the eligibility requirements for Facebook remain largely the same. At some point, Facebook starts allowing people to register with either an email address or a mobile phone, thereby making it possible for people who do not have email addresses to register.

Product and accessibility

Time periodKey developments at Facebook
2005 onward, but largely concentrated September 2006 - September 2009Facebook develops some of the core social infrastructure that would come to define the user experience for many years to come, starting with photos and the ability to tag friends in them (October and December 2005), Facebook's News Feed (September 2006), and them proceeding to Facebook Platform in May 2007, an attempt to get developers to create applications for use within Facebook. The ability to @-tag friends in posts and comments is introduced in September 2009.
Concentrated 2009-2011Facebook works on becoming the "social layer" of the web, with the (now deprecated) name Facebook Connect, that allows Facebook's like buttons to be displayed on external websites, and also allows them to use Facebook for logins.
Concentrated 2012 onward, with some early moves in 2010 and 2011Facebook shifts attention to mobile phones. At the low end of the market, this includes initiatives such as Facebook Zero and Facebook for SIM. At the high end, this includes development and improvement of iOS and Android apps, as well as initiatives such as Facebook Home and Facebook Paper (the latter, in January 2014, is the first product of Facebook Creative Labs, Facebook's in-house initiative for small teams to work on standalone mobile apps). Facebook also acquires a number of mobile-focused companies, such as Instagram, and fails to acquire Snapchat.
Late 2011 onwardFacebook reimagines some of its core infrastructure, replacing the profile and wall with the new Timeline, and replacing search with Facebook Graph Search. A plan to significantly redesign the News Feed, announced March 2013, is abandoned a few months later.
2013 onwardFacebook moves more aggressively into Twitter territory: it launches support for hashtags and hashtag-based search, and also introduces trending topics.
Enhanced by Zemanta

Talibanization by Javed Chaudhry

$
0
0

یہ لاہور کے ایک صاحب کی کہانی ہے‘ یہ صاحب جوتوں کی بڑی فیکٹری میں کام کرتے تھے‘ فیکٹری میں تین ہزار ملازم تھے‘ فیکٹری دن رات چلتی تھی‘ لاکھوں کی تعداد میں جوتے بنتے تھے‘ یہ صاحب عام ورکر کی حیثیت سے کمپنی میں آئے‘ ترقی کی اور چار سال میں سپروائزر بن گئے‘ کمپنی نے کالونی میں مکان بھی دے دیا‘ گاڑی انھوں نے پیسے جمع کر کے خرید لی‘ بچے کمپنی کے اسکول میں پڑھنے لگے‘ یہ صاحب زندگی سے بہت خوش تھے‘ یہ بیس سال تک فیکٹری میں کام کرتے رہے‘ ان کی تنخواہ میں بیس برسوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا‘ یہ بچوں کے مستقبل کے بارے میں مطمئن تھے‘ یہ سمجھتے تھے‘ بچوں کی تعلیم مکمل ہو جائے گی تو یہ انھیں فیکٹری میں ملازم کرا دیں گے لیکن پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘ کمپنی نے اچانک پیداوار کم کر دی‘ یہ کمپنی سال میں جاگرز کے دس لاکھ جوڑ ے بناتی تھی‘ کمپنی نے سب سے پہلے جاگرز کی پیداوار بند کی‘ یہ چین سے جاگرز امپورٹ کرنے لگی۔

چینی جاگرز سستے بھی تھے اور کوالٹی میں بھی بہتر تھے‘ یہ کمپنی 14 لاکھ فارمل اور ان فارمل جوتے بناتی تھی‘ یہ جوتے چین‘ تھائی لینڈ اور سنگا پور سے آنے لگے چنانچہ ان کی پیداوار بھی بند ہو گئی‘ خواتین اور بچوں کے اسکول شوز بھی چند ماہ میں بند ہو گئے اور آخر میں کینوس شوز کی تیاری بھی روک دی گئی‘ فیکٹری میں اب صرف سلیپر‘ پلاسٹک کی چپلیں اور قینچی چپل بن رہی تھی‘ پیداوار میں اس کمی کا سب سے پہلا اور بڑا اثر ملازمین پر ہوا‘ کمپنی نے اڑھائی ہزار ملازمین فارغ کر دیے‘ مشینیں بکنے لگیں‘ گودام کرائے پر دے دیے گئے‘ کالونی کے زیادہ تر مکان خالی کرا لیے گئے‘ بچوں کے پانچ اسکولوں میں سے تین بند کر دیے گئے‘ شہر کے مضافات میں ہاؤسنگ سوسائٹیاں بننے لگیں‘ زمینیں مہنگی ہو گئیں۔

کمپنی نے فیکٹری کا ایک حصہ بیچ دیا‘ یہ حصہ پانچ ارب روپے میں بک گیا‘ کمپنی کو پیسے کی لت لگ گئی‘ اس نے ملک بھر میں فرنچائز دینا شروع کیں‘ لوگوں نے کروڑوں روپے زر ضمانت دے دیے‘ کمپنی نے یہ رقم اور پراپرٹی سے حاصل ہونے والی رقم ملک سے باہر شفٹ کر دی‘ کاروبار کی نوعیت بدل گئی‘ کمپنی دکانداروں سے آرڈر لیتی‘ یہ آرڈرز چین کی جفت ساز فیکٹریوں کو لکھوا دیے جاتے‘ چینی کمپنیاں جوتوں پر ان کے نام کے سٹیکر چپکاتیں اور یہ جوتے براہ راست ان دکانوں پر ڈیلیور ہو جاتے اور یوں ماضی کی سب سے بڑی جوتا ساز کمپنی ملک کی سب سے بڑی جوتوں کی کاروباری فرم بن گئی‘ جوتے بنانے والے جوتوں کے تاجر بن گئے‘ کمپنی کے منافع میں چار گنا اضافہ ہوا‘ یہ ملازمین‘ مشینوں اور بجلی کے جھنجٹ سے بھی آزاد ہو گئی‘ مالکان پہلے بھی ملک سے باہر تھے‘ یہ آج بھی ملک سے باہر ہیں اور یہ شاید مستقبل میں بھی ملک سے باہر رہیں گے۔

یہ کمپنی کے مالکان کے لیے ایک آئیڈیل صورتحال تھی لیکن وہ صاحب جو بیس سال سے اس کمپنی میں کام کر رہے تھے‘ جن کے پاس کمپنی کا مکان تھا‘ جن کے بچے فیکٹری کے اسکول میں پڑھتے تھے اور جنہوں نے پلاننگ کر رکھی تھی یہ اپنے بچوں کو چپ چاپ اس کمپنی میں ملازم کرا دیں گے اور یوں یہ ایک خوش حال زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہو جائیں گے‘ کمپنی کی اس آئیڈیل صورتحال نے اس صاحب کو برباد کر دیا‘ کمپنی نے انھیں 45 سال کی عمر میں فارغ کر دیا‘ مکان بھی واپس لے لیا گیا اور بچوں سے اسکول بھی چھین لیا گیا اور یہاں سے اس ملک کی کہانی شروع ہو گئی۔

یہ صاحب فیکٹری سے نکلے اور عبرت کی نشانی بن گئے‘ کرائے پر مکان لیا‘ کمپنی سے ملنے والی رقم کاروبار میں لگائی‘ کاروبار ناکام ہوا‘ سرمایہ ڈوب گیا‘ بچے ڈگریاں لے کر ملازمت کے لیے نکلے لیکن ملک کے زیادہ تر ادارے جوتوں کی کمپنی جیسی صورتحال کا شکار تھے‘ ملک کے تمام اداروں میں ڈاؤن سائزنگ چل رہی تھی‘ فیکٹریاں بند ہو رہی تھیں‘ زمینیں بک رہی تھیں اور کارخانے اجڑ رہے تھے‘ بچے نوکری کی تلاش میں نکلے‘ بے روزگاری دیکھی تو ایک جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ گیا‘ یہ لوگ ڈاکہ مارنے کے لیے کسی کے گھر میں داخل ہوئے‘ گھر کا مالک مسلح تھا‘ اس نے فائر کھول دیا‘ فائرنگ میں ان صاحب کا جوان بیٹا مارا گیا‘ دوسرا بیٹا ایک مذہبی گروپ میں شامل ہوگیا‘ یہ گروپ دوسرے گروپ سے لڑا‘ دونوں طرف سے فائرنگ ہوئی‘ دوسرے گروپ کا ایک جوان مارا گیا‘ پرچہ ہوا‘ یہ نوجوان فاٹا بھاگ گیا اور وہاں کسی متحارب گروپ کا حصہ بن گیا اور پیچھے رہ گئے یہ صاحب اور ان کی دو جوان بچیاں۔ یہ بچیوں کی حفاظت کے لیے دن رات جاگتے رہتے ہیں‘ ان جگ راتوں نے انھیں دائمی بیمار بنا دیا ہے‘ یہ خیراتی اسپتالوں میں دھکے کھاتے ہیں اور بچیوں کے رشتوں کا انتظار کرتے ہیں مگر غربت اور جوان بیٹوں کا ماضی رشتوں کا راستہ بدل دیتا ہے‘ یہ صاحب آج کل ہر ملنے والے سے پوچھتے ہیں ’’میں کیا کروں‘‘ ان کی جوان بچیاں بھی اپنے رشتے داروں سے یہی پوچھتی ہیں‘ بچیوں کا یہ سوال خطرناک بھی ہے اور بداخلاقی کا پہلا جواز بھی کیونکہ بے روزگار اور بیمار والدین کی جوان بچیاں جب یہ سوال پوچھنے لگیں تو معاشرے کو اپنے دامن میں آگ محسوس ہونی چاہیے‘ معاشرے کو دامن میں گرمائش اور حدت کا احساس ہونا چاہیے۔یہ کسی ایک صاحب یا کسی ایک خاندان کی کہانی نہیں۔

یہ پاکستان کے ہر دوسرے تیسرے خاندان کی داستان ہے‘ ملک کی آبادی کا 45 فیصد حصہ اس وقت اٹھارہ سال سے کم عمر ہے‘ ہزاروں بچے روزانہ شناختی کارڈ کی عمر تک پہنچ رہے ہیں‘ ہمارے ملک کو ہر سال 15 لاکھ نئی نوکریوں کی ضرورت پڑتی ہے لیکن نئی نوکریاں تو دور پاکستان میں ہر سال 5 لاکھ نوکریاں کم ہو رہی ہیں‘ ہم فرض کرتے ہیں‘ ملک میں روز گار کے ایک کروڑ ذرایع ہیں‘ اگلے سال تک ان ذرایع میں پندرہ لاکھ نوکریوں کا اضافہ ہونا چاہیے لیکن یہ نوکریاں اگلے سال تک 95 لاکھ رہ جاتی ہیں اور یہ سلسلہ پچھلے بیس سال سے جاری ہے چنانچہ آپ اس کے اثرات کا اندازہ خود لگا لیجیے‘ ملک میں اس وقت ایک کروڑ 45 لاکھ پڑھے لکھے بے روزگار بھی موجود ہیں۔

یہ صورتحال گمبھیر ہے لیکن اس صورتحال کو تین عناصر مزید گمبھیر بنا رہے ہیں‘ ہمارے ہمسائے چین‘ ایران‘ بھارت‘ ترکی‘ سری لنکا اور برما امن‘ صنعت‘ سستی لیبر فورس اور مہارت کی وجہ سے پیداوار میں ہم سے بہت آگے نکل گئے ہیں‘ ہم نے اپنی صنعت کی حفاظت نہیں کی‘ ہم سماجی لحاظ سے سرمایہ کاری اور کاروبار کے خلاف ہیں‘ ہمارے ملک میں آج بھی کاروباری طبقے کو برا سمجھا جاتا ہے‘ لوگ سیلف میڈ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اور انھیں بے انتہا تنگ بھی کیا جاتا ہے چنانچہ ہمارے سرمایہ کار ملک سے باہر جا رہے ہیں‘ فیکٹریاں بند ہورہی ہیں‘ ملک سستی اور غیر ملکی مصنوعات کی منڈی بن گیا ہے‘ اس کے نتیجے میں ہماری ورکنگ کلاس بے روزگار ہو رہی ہے‘ ہمارے ملک میں آسان تعلیم کا ایک سیلاب آ گیا‘ حکومت نے پرائیویٹ یونیورسٹیوں‘ میڈیکل کالجز اور آئی ٹی انسٹی ٹیوٹ کی اندھی اجازت دے دی‘ یہ تعلیمی ادارے دھڑا دھڑ ڈگریاں بانٹنے لگے‘ ان اداروں کی وجہ سے ملک میں جاہل پڑھے لکھوں کی ایک کلاس پیدا ہو گئی‘ ان لوگوں کی جیب میں ڈگری ہے لیکن یہ مہارت اور علم دونوں سے فارغ ہیں۔

یہ جعلی پڑھے لکھے لوگ ملک کے لیے کینسر بن چکے ہیں کیونکہ یہ اعلیٰ عہدے چاہتے ہیں مگر ان کے پاس ان عہدوں کے لیے مہارت موجود نہیں‘ ان میں چند نالائق رشوت اور سفارش کی بنیاد پر نوکریاں بھی حاصل کر لیتے ہیں‘ یہ نالائق اہل اور پڑھے لکھے لوگوں کو اپنے اداروں میں گھسنے نہیں دیتے یوں مزید مسائل پیدا ہو جاتے ہیں‘ جینوئن لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں جس کی وجہ سے برین ڈرین ہو رہا ہے‘ ملک کو انجینئرز‘ ڈاکٹروں اور ایگزیکٹو کے بجائے کارندوں‘ کمپوڈرز اور ورکرز کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے‘ ایک ڈاکٹر کے نیچے 14 لوگوں کا اسٹاف ہونا چاہیے مگر ملک میں بدقسمتی سے ماتحتوں کی تربیت اور مہارت کے لیے سرے سے کام نہیں ہوا ‘ ملک کے کروڑوں نوجوان بیروزگار ہیں مگر آپ کو پورے شہر میں اچھا ڈرائیور‘ اچھا کک‘ اچھا کلرک‘ اچھا آپریٹر‘ اچھا پلمبر‘ اچھا پینٹر اور اچھا مستری نہیں ملتا‘ آپ فریج ٹھیک کرانے کے لیے مکینک بلاتے ہیں اور وہ آپ کا اے سی خراب کر جاتا ہے‘ ٹونٹی بدلنے والا آپ کے پورے گھر کی وائرنگ اڑا جائے گا اور رہی سہی کسر مصنوعی اور غیرپیداواری مارکیٹ نے پوری کر دی‘ ملک میں رئیل اسٹیٹ کی شکل میں ایک مصنوعی اکانومی پیدا ہوئی‘ اس اکانومی نے لوگوں کو راتوں رات اربوں پتی بنا دیا‘ یہ لوگ دولت کو ہینڈل کرنا نہیں جانتے تھے چنانچہ انھوں نے دولت کا بے دریغ اور اندھا استعمال شروع کر دیا‘ دولت کے اس اندھے استعمال نے اخلاقیات کے سارے دھاگے توڑ دیے یوں ملک میں دو خطرناک طبقے پیدا ہو گئے‘ ایک طبقے نے جرم کوروزگار بنا لیا‘ یہ لوگ کسی بھی شخص کو روکتے ہیں‘ اس کو پستول دکھاتے ہیں اور وہ اپنا پرس اور موبائل ان کے حوالے کرتا ہے‘ لٹنے والا تھانے جانے کے بجائے چپ چاپ گھر چلا جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے وہ تھانے جا کر اپنی قمیض سے بھی محروم ہو جائے گا‘ دوسرے طبقے نے نظریات کو روزگار بنا لیا‘ یہ دونوں گولی مارتے ہیں اور نظام آنکھیں بند کر لیتا ہے۔

حکومت طالبان سے مذاکرات کر رہی ہے‘ یہ ہی اصل حل ہے اور اللہ کرے حکومت اس میں کامیاب بھی ہو جائے لیکن سوال یہ ہے‘ اگرطالبان اور دوسری تنظیمیں مرکزی دھارے میں شامل ہو گئیں تو کیا ہمارے مسئلے ختم ہو جائیں گے‘ جی نہیں کیونکہ وہ کوکھ اپنی جگہ قائم رہے گی جس سے یہ سارے مسائل جنم لے رہے ہیں‘ملک میں بچے روز جوان ہو رہے ہیں مگر ان جوان بچوں کے لیے روزگار کے ذرایع پیدا نہیں ہو رہے‘ مصنوعی معیشت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘ مہارت کم ہو رہی ہے اور معاشرے میں جرائم اور ظلم کے خلا ف لڑنے کی قوت میں کمی واقع ہو رہی ہے لہٰذا پھر کیا ہو گا؟ ہم طالبان سے نبٹ لیں گے مگر ان کی جگہ نئے لوگ آ جائیں گے اور وہ لوگ بھی پستول کا سہارا لے کر ہم سب کو اسی طرح آگے لگا لیں گے‘ طالبان ختم ہو جائیں گے لیکن طالبانائزیشن کا سلسلہ چلتا رہے گا کیونکہ ہم آج بھی کنوئیں کو بوکوں کے ذریعے پاک کرنے کی کوشش کر رہیں‘ ہم مسئلے کا کتا نہیں نکال رہے۔

Talibanization by Javed Chaudhry

Enhanced by Zemanta

موئن جو دڑو پر مت رو

$
0
0

میں واقعی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ موئن جو دڑو میں سندھ کلچرل فیسٹیول کی افتتاحی تقریب میں لائٹ اینڈ لیزر شو کے لیے الیکٹرک ٹاورز نصب کرنے اور ثقافتی پرفارمنس کے لیے ایک بڑا سا اسٹیج پانچ ہزار برس قدیم آثار کے عین درمیان بنانے اور اس کے روبرو پانچ سو وی آئی پیز کو بٹھانے اور ان کی حفاظت پر مامور دو ہزار پولیس والوں کو یہاں وہاں کھڑا کرنے سے ایسی کیا قیامت برپا ہوگئی کہ یونیسکو سے لے کے خود ساختہ سول سوسائٹی اور قوم پرستوں تک سب چیخ پڑے۔ آپ آج جا کے دیکھئے آثار ویسے کے ویسے ہی پڑے ہیں۔ گمان ہی نہیں ہوتا کہ یہاں یکم فروری کی شام کوئی رنگارنگ تقریب برپا ہوئی تھی۔

موئن جو دڑو کے درمیان ہونے والی اس تقریب سے آثارِ قدیمہ کی پامالی پر تنقید ایسے ہے جیسے کوئی گنجا گھنے بالوں کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہو۔جیسے باسی کڑھی میں خامخواہ ابال آجائے۔جیسے کوئی تمباکو نوش صحت مند زندگی کے راز بیان کرے۔

حفاظت اس شے کی ہوتی ہے جسے اپنا سمجھا جائے۔ اٹھارہ کروڑ میں کتنے ہیں جو اندر سے سمجھتے ہوں کہ موئن جو دڑو، ہڑپہ ، مہر گڑھ ، ٹیکسلا کے آثار ، مکلی اور چوکنڈی جیسے تاریخی قبرستان اور افغانوں اور مغلوں سے لے کے تالپوروں تک کے قلعے ایسے ہی اہم اور متبرک ہیں جیسے ہمارے پرکھوں کی قبریں ، جیسے اولیا کے مزارات ، جیسے تاریخی مساجد ، جیسے ہمارے نانا ، دادا اور پردادا کی تصاویر اور ان کی تسبیحیں اور ان کے برتن اور ان کی باتیں۔۔۔۔

کیا ہمیں یہ نہیں بتایا اور پڑھایا گیا کہ قبل از اسلام کی ہرنشانی باطل ہے۔تو پھر باطل نشانیوں کا احترام اور دیکھ بھال اور اس سے اپنائیت کے کیا معنی ؟

مگر آپ میں سے کچھ ضرور کہیں گے کہ نہیں ایسا نہیں۔یہ آثار ، عمارات اور نشانیاں ہمارے خاندانی شجروں جیسے ہیں جو ہمیں نسل در نسل بتاتے ہیں کہ ہم کون تھے ، کیوں تھے ، کہاں سے آئے اور کہاں جارہے ہیں۔ہمارے پرکھوں نے کیا کیا اور ہم کیا کررہے ہیں۔

اگر واقعی ایسا ہے تو پھر یہ فرمائیں کہ کتنے سول سوسائٹی بازوں نے ملتان کے دو ہزار سال پرانے سورج مندر کو بائیس برس پہلے منہدم کرنے والوں کا ہاتھ روکا۔بلکہ جن صاحب (پیپلز پارٹی کے مرحوم سینیٹر ملک صلاح الدین ڈوگر)کی قیادت میں یہ کارِ ثواب ہوا انھیں بلدیاتی و قومی انتخابات میں اس ثقافتی جہاد کا صلہ ووٹوں کی بارش کی شکل میں ملا۔

آپ میں سے کتنے جانتے ہیں کہ وادیِ سندھ کی تہذیب کے نمایندہ ہڑپہ، جام پور کے دلو رائے ٹھیڑ اور چولستان کے پتن منارے کے آثار پر فصلیں دستک دینے لگی ہیں۔ٹیکسلا میں گندھارا تہذیب کے نمایندہ سدکپ شہر کے آثار کو جھاڑیوں سے بچانے کے لیے ہر سال ان جھاڑیوں کو آثارِ قدیمہ کے محافظ اہل کار آگ لگا دیتے ہیں۔چکوال کے نزدیک مہا بھارت کے زمانے کے کٹاس راج مندر ناقدرے موسموں کے رحم و کرم پر ہیں اور وہ جھیل سکڑ کے ایک چوتھائی رہ گئی ہے جو شیو دیوتا کے آنسوؤں سے وجود میں آئی جو انھوں نے اپنی بیوی ستی کی موت پر بہائے تھے۔۔مگر ان مندروں اور جھیل سے کچھ فاصلے پر کچھ عرصہ قائم ہونے والے سیمنٹ کے کارخانے نے زیرِ زمین پانی چوس لیا ہے۔اسلام آباد میں مارگلہ پہاڑی سلسلے میں ہوٹلنگ اور کمرشلائزیشن کے راکھشس نے ہزاروں برس پرانے دو غاروں کا محاصرہ کرلیا ہے جن کی دیواروں پر ہمارے آبا و اجداد نے مصوری کی۔

مانا کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے کے ورثے سے بعد کی نسلوں کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔مگر خود مسلم ورثے کے ساتھ کیا ہوا ؟؟ پشاور کا بالا حصار قلعہ فرنٹیر کور کا صدر دفتر ہے۔اکبرِ اعظم کا اٹک قلعہ کمانڈو نگرانی میں ہے۔اور جب دور بدلتا ہے تو اس ملک کے آصف زرداریوں اور نواز شریفوں کو بھی یہاں بلا ٹکٹ مہمان رکھا جاتا ہے۔جہلم کے قریب شیرشاہ سوری کے قلعہ رہتاس کے دروازوں اور اندرونی تعمیر کو بارش اور نمی کھائے جارہی ہے۔

لاہور کے ماتھے کا جھومر مغل فورٹ اور مغل فورٹ کا دل شیش محل۔جہاں چند برس پہلے تک غیرملکی مہمانوں کو ضیافتیں دی جاتی رہیں۔اسی فورٹ کا تاریخی دیوانِ خاص کچھ عرصے پہلے تک نجی تقریبات کے لیے دان ہوتا رہا۔پیسے اور تعلق کی طاقت سے مسلح ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات یہاں شوٹ ہوتے رہے۔مگر ایسے مواقع پر محکمہ آثارِ قدیمہ اکثر نوادرات و آثار کے تحفظ کے ایکٹ مجریہ انیس سو پچھہتر کو بغل میں دبا کر ضروری کام سے کہیں چلا جاتا ہے۔اور اسی قلعے کے ایک حصے کو بوقتِ ضرورت سیاسی قیدیوں کے عقوبت خانے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہ وہ دور ہوتا ہے جب قیدی اور قلعہ اپنی حالتِ زار پر گلے مل کے چیختے ہیں۔

اور سب سے خوبصورت ریاست بہاولپور کے وہ قلعے اور محلات کس حالت میں ہیں۔قلعہ دراوڑ باہر سے تندرست اور اندر سے ملبے کا ڈھیر۔اطالوی طرزِ تعمیر کا مظہر صادق گڑھ پیلس جہاں پچھلی صدی کی ہندوستانی و یورپی اشرافیہ کا کون سا نمایندہ مدعو نہیں ہوا آج مکمل طور پر بھوتوں کے قبضے میں ہے۔ شاہی ورثا نے اپنی دولت اپنے ہی ہاتھوں ایسے لوٹی کہ دروازے اور جالیاں تک اکھاڑ لیں۔اور جن عباسی محلات کو فوج نے گود لے لیا وہ میس کی شکل میں رات کو جھلمل کرتے ہیں۔

سندھ میں تالپور دور کا شائد ہی کوئی قلعہ ہو جو نوحہ گر نہ ہو۔حیدرآباد کا پکا قلعہ موٹی دیواروں کے پیچھے ایک مفلوک الحال کچی بستی سے زیادہ کیا ہے ؟حیدرآباد کا کچا قلعہ سیم زدگی کی مسلسل حرمزدگی سے نبرد آزما ہے۔نوکوٹ کے قلعے میں سورج چڑھے آس پاس کے بچے کھیلتے ہیں۔ہاں ایک نیلے رنگ کا بورڈ ضرور دیوار میں جڑا ہوا ہے جس پر محکمہ آثارِ قدیمہ سندھ نامی کسی ادارے کی جانب سے قلعے میں توڑ پھوڑ کرنے والوں کو تادیبی کارروائی سے ڈرانے کی کوشش کی گئی ہے۔مگر مشکل یہ ہے کہ شام کے بعد اس قلعے میں بسیرا کرنے والے کتے بلیاں تحریر نہیں پڑھ سکتے۔عمر کوٹ کا قلعہ اور بھنبور کے آثار کہ جن کے تحفظ کا بجٹ انسانوں کی جیبوں میں اور حفاظت خدا کے ذمے ہے۔جمڑاؤ کینال کے آس پاس ریاست خیرپور کے زمانے کے جو پولیس قلعے بنائے گئے، ان کی چوکھٹیں تک چور لے گئے اور جو لکڑی اکھڑ نہیں پائی اسے جلا ڈالا۔

اور یہ جو ہر مہینے دو مہینے بعد بندرگاہ یا کسی ایرپورٹ پر قدیم مجسمے اور نوادارت پکڑے جانے کی خبر چھپتی ہے یہ کیا ہے ؟ اور جب پولیس کو ان نوادارت کی عارضی کسٹڈی دی جاتی ہے تو جتنے مجسمے حوالے کیے جاتے ہیں کیا وہ اتنے ہی اور اسی حالت میں واپس ملتے ہیں ؟ اور یہ جو وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب اور گندھارا پیریڈ کے مجسمے اور نوادارات یہاں سے وہاں تک کے عجائب گھروں کے کمروں اور گوداموں میں پڑے ہیں۔ ان کی آمد ، موجودگی اور غائب ہونے کا ریکارڈ کتنے عرصے بعد اور کون اپ ٹو ڈیٹ کرتا ہے۔ان میں سے کتنے اصلی بچے ہیں اور کتنے اصلی نہیں ہیں۔کتنے نجی عجائب گھروں میں کون سے نوادرات کہاں کہاں سے آئے ہیں ؟

اچھی بات ہے کہ حکومتِ سندھ نے وفاقی حکومت سے موئن جو دڑو کی علامت ڈانسنگ گرل کو انڈیا سے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ ڈانسنگ گرل آ بھی گئی تو اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تہذیب و ثقافت کی جدید تشریح کے کس خانے میں رکھا جائے گا ؟؟؟

جب جرمن نازیوں نے پیرس کا محاصرہ کرلیا تو انھوں نے شہریوں کو یقین دہانی کرائی کہ آپ کے ورثے کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔لہذا جب ہم پیرس میں داخل ہوں تو مزاحمت نہ کرنا۔نازیوں نے اپنا وعدہ نبھایا اور پیرس کو جوں کا توں رہنے دیا۔نازیوں نے جن جن ممالک پر قبضہ کیا ان کی آبادیوں پر وہ تمام مظالم کیے جو قابض قوتیں کرتی ہیں۔مگر پینٹنگز کے ذخیرے تباہ نہیں کیے بلکہ انھیں احتیاط کے ساتھ برلن منتقل کردیا۔جب اتحادیوں نے برلن پر قبضہ کیا تو شہر کھنڈر بن چکا تھا مگر مقبوضہ پینٹنگز کا بیشتر ذخیرہ تہہ خانوں میں محفوظ تھا۔۔۔

اقبال کا دل تو اپنے آبا کی کتابیں لندن میں دیکھ کر بہت تلملایا۔لیکن خدا کا شکر ہے کہ انگریز برِصغیر کا جتنا ثقافتی و تاریخی خزانہ لوٹ کے لے جا سکتا تھا لے گیا۔ورنہ یہ سب کب کا غتربود ہوچکا ہوتا۔اگر یہ بات کسی کو بری لگتی ہے تو لگے۔مگر پھر اپنے بچوں کو یہ کہہ کر سمندرپار نہ بھیجے کہ ہم تو جیسے کیسے جی رہے ہیں تم تو اپنا مستقبل خراب نہ کرو۔

ارے ہاں۔۔۔جو لوگ سندھ فیسٹیول کے نام پر موئن جودڑو کے آثار کی پامالی و بے حرمتی پر آٹھ آٹھ آنسو رو رہے ہیں ،کیا وہ اگلی عید الفطر پر ان آثار میں ون ویلنگ کرنے والے سیکڑوں مقامی من چلوں کو روک پائیں گے۔سنا ہے کئی نوجوان شرط لگا کر موٹرسائیکل بدہسٹ اسٹوپا کی بلندی تک بھی لے جاتے ہیں۔

وسعت اللہ خان   

 

Enhanced by Zemanta

Kashmir: The Case for Freedom by Babar Awan

$
0
0


Add caption
 Kashmir: The Case for Freedom by Babar Awan


Kashmir Solidarity Day

Kashmir Heaven on Earth

برطانوی صحافی اور ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ مریم ریڈلے کراچی میں نامور دینی ادارے جامعہ بنوریہ العالمیہ کے دورے کے موقع پر

$
0
0

Whose Shariah? Which Shariah? By Ansar Abbasi

$
0
0

Whose Shariah? Which Shariah? By Ansar Abbasi

حبیب جالب… میرا شاعر

$
0
0

حبیب جالبؔ بلاشبہ ہمارے ادبی سرمائے میں درخشاں ستارے کی مانند پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہیں اور رہیں گے، وہ ایک قلندر صفت انسان تھے انھوں نے شاید ہی کبھی اپنے لیے کسی شے کی فرمائش اور خواہش کی باوجود اس کے کہ اس ’’عوامی شاعر‘‘ کے گھر میں فاقوں کا راج بھی رہا۔ وہ حقیقتاً خودداری کی انتہا پر فائز تھے۔ جالبؔ کا دور آمریت کے گھٹا ٹوپ اندھیاروں کا دور تھا۔ وہ سچ و حق پر مکر و فریب کے حاوی ہونے کا دور تھا۔ وہ غریب کو جوتی پر رکھنے کا دور تھا۔ بعض اہل علم و ادب زندگی جیسی عارضی و فانی llusion Iکا خیال کرتے ہوئے اپنے اہل و عیال کی خوشیوں کے لیے اپنے ضمیر تک کو بیچ دیتے ہیں محض چند کوڑیوں کے عوض اور پیلی صحافت کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن ان کے جسموں پر پھر نہ تو لہو گردش کرتا ہے اور نہ ہی روح نام کی کوئی شے باقی رہتی ہے، جالبؔ ایک مقدس روح ہیں، تھے اور رہیں گے وہ نہ تو آمروں کے کہنے پر چلے اور نہ ہی ان کے سامنے کٹھ پتلی بنے، انھوں نے لکھا اور بے تکان لکھا ان کی شاعری ایوان بالا میں موجود کالے چشمے لگائے روحوں سے عاری لوگوں اور کھیتوں میں خون پسینہ بہاتے ہاریوں نے سمجھی وہ بلاشبہ عوامی شاعر ہیں۔ وہ ایک نڈر، بے باک، نہ بکنے والے ذی ہوش انسان تھے۔ شعرا بک سکتے ہیں لیکن جالبؔ عالم کسمپرسی کے عالم میں بھی صرف دینا جانتے تھے۔ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو آکسیجن کی جگہ سلفورک ایسڈ کی بو پھیپھڑوں میں آنے لگتی ہے، سوچ پر آمریت کے کمند پڑ جاتے ہیں۔

جالبؔ جمہوریت کے داعی تھے اور جب تک ان کی زندگی نے ایفا کی وہ جمہوری اقدار کو نمو پاتے دیکھنا چاہتے تھے۔ جالبؔ صاحب کے بھائی سعید پرویز کی کتاب گھر کی گواہی پڑھ کر میری آنکھوں سے اس قدر اشک رواں ہوئے جیسے میں تخت دار پر جلاد کے ہاتھ پیر پکڑے اپنی زندگی کی فریاد کر رہا ہوں، فریاد دو صورتوں میں کی جاتی ہے جب آپ کا ضمیر زر پانے کے لیے بے تاب ہو اور دوسرے جب آپ کی زندگی کسی کے ہاتھ میں ہو۔ جالبؔ کی شاعری محض ایک مخصوص وقت کی شاعری ہے، لیکن من حیث المجموعی جالبؔ نے اپنی شاعری سے اپنی شعلہ بیان تقریروں سے پاکستان کے لاعلم لوگوں کو ان کے حقوق بتانے شروع کیے جس پر ’’بڑے لوگ‘‘ ناراض ہوئے ان کی باتوں میں ایسی قوت تھی کہ لوگوں کا جم غفیر موجود ہوتا۔ انھوں نے آمریت کا مکروہ چہرہ پاکستان کی عوام کو دکھایا ایک عام انسان یعنی میں اور آپ مصائب و الم، قید و بند کی صعوبتوں میں گرفتار ہو جائیں اور ہمارے پاس صرف یہی آپشن موجود ہو کہ یا تو آپ ناکردہ گناہ تسلیم کر لیں یا مرنے کو تیار ہو جائیں تو ہم میں سے بیشتر پہلے آپشن پر آمادہ ہو جائیں گے لیکن جالبؔ کے معاملے میں ایسا کوئی آپشن موجود نہیں۔

شاعر شعلہ نوا میں غالباً پاکستان یا جہاں جہاں اردو اور اس کے چاہنے والے موجود ہیں اس کے علاوہ دیگر زبانوں کے معروف ادیبوں نے بھی جالبؔ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ’’کون‘‘ کس کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے بالخصوص اس سیم و زر کی اٹی دنیا میں۔ وجہ صاف ہے، حبیب جالبؔ جیسے پائے کے شاعر کو خراج عقیدت پیش کیا ہی جانا چاہیے۔ میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ ہمارے عہد کے شاید ہی کسی اور شاعر نے اپنی شعلہ نوائی سے سرزمین پاکستان کی عوام کو جالبؔ کی طرح متاثر کیا ہو۔ جالبؔ نے جمہوری اداروں اور جمہوری تحریکوں کو اپنے خون جگر سے آبیار کیا ہے، جالبؔ صرف حد پاکستان ہی کے شاعر نہیں ہیں جہاں جہاں استحصالی، جابرانہ، آمرانہ سوچ ہے وہاں وہاں جالبؔ کی شعلہ نوائی ہے۔ ان کو بین الاقوامیت اور جفاکشوں سے دلی لگاؤ ہے، ہر جفاکش، مزدور، استحصالی قوتوں کی چکی میں پسا آدمی جالبؔ کی شاعری کے ذریعے شعور و آگہی کی منازل طے کر رہا ہے، اور شاعر کا کام بھی یہی ہونا چاہیے کہ وہ اپنے قارئین کو صحیح اور غلط کے مابین حد فاضل کھینچنے میں مدد فراہم کرے، میں نے اب تک جالبؔ کا جو بھی کلام پڑھا مجھے بلاشبہ ان کی شاعری بھی اور ان کا قد بھی ہمالیہ کی طرح بلند و بانگ نظر آیا۔ ایورسٹ پر تو آپ پہنچ سکتے ہیں لیکن جالبؔ کی شعری سوچ تک نہیں۔

جالبؔ کی شعری زبان ایک ایسے شاعر کی زبان ہے جو سیاسی جدوجہد کے عین ہنگام میں محاذ پر موجود دکھائی دیتی ہے، جس میں چوائس جیسے Introvert اندروں بیں اور Ivory Tower میں رہنے والے عینیت پسند نے کی تھی۔ پاکستان میں آج کل جو ہو رہا ہے جب سے میں دیکھ رہا ہوں شاید میری نسل بھی وہی ہوتا دیکھے تبدیلی تو کجا چیزیں اور قانون ہٹ دھرم ہیں، لیکن ایک حد ہوتی ہے۔ جالبؔ کا ایک قطعہ یہاں اپنے قارئین کے لیے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:

محبت گولیوں سے بو رہے ہو‘

وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے‘

یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

الفاظ کی بے ساختگی تو دیکھیے ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے کلاس روم میں بیٹھے بچوں کو پڑھا رہے ہوں۔ ہاں جالبؔ نے قوم کو پڑھایا بھی ہے لیکن عوامی گریڈ حاصل کرنے والی قوم کو۔ چی گویرا (Che Guevara) کی طرح جالبؔ اور جالبؔ کی طرح (Che Guevara) کی سچی اور کھری شاعری کے بارے میں اس تعریف کو درخور اعتنا سمجھیں کہ سماجوں کے انقلابات کے لیے کام کرنے والوں کی شاعری کا خطیبانہ لہجہ اور آمرانہ حکومت کی بندوق کی نال سے نکلنے والی گولی کے درمیان چنداں فرق نہیں ہوتا کیا خوب بات ہے زبان وہ کام کر جاتی ہے جو گولی سے نہیں ہو سکتا۔ جالبؔ کی شاعری میدان جنگ کے شاعر کی شاعری ہے۔ (Poetry of War) ایک عام آدمی بھی جالبؔ کو اتنا ہی سمجھتا اور جانتا ہے جتنا ایک بیوروکریٹ (اگر وہ پڑھا لکھا ہے تو)۔

تودوروف (Todoroff) نے کہا تھا شاعری زبان کے اندر ہوتی ہے بلکہ پورا ادب ہی زبان کے اندر ہوتا ہے ہو سکتا ہے ساختیات کے وکلا تودوروف کے اس بیان پر بغلیں بجائیں لیکن جالبؔ کی شاعری کا قد اور اس کی شاعری کی ساری خوبی اس زبان پر تکیہ کرنے میں مضمر ہے جسے ادبی اشرافیہ بہ ہمہ وجوہ جن میں ایک وجہ اشرافیہ کی پسندیدہ زبان کی فوقیت کا یقین بھی ہے) امرا کی بچی ہوئی پلیٹوں سے ایک غریب پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے،

جو صدائیں سن رہا ہوں مجھے بس انھی کا غم ہے

تمہیں شعر کی پڑی ہے مجھے آدمی کا غم ہے

میں ہوں شاعر زمانہ مرا اور ہے فسانہ

تمہیں فکر اپنے گھر کی مجھے ہر گلی کا غم ہے

تاریخ کے اوراق پلٹیے تو آپ کو ادب میں ہونے والی انارکی کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ بعض الل ٹپ طرز کے شعرا کو ایوان بالا تک رسائی ہونے کے سبب ہر چیز سے نواز دیا گیا لیکن جالبؔ نے زندگی میں اور بعد از مرگ ان کی بیوہ نے کبھی کسی سے ایک پیسے کی فرمائش نہیں کی۔ یہ بات جالبؔ جیسا آدمی ہی کر سکتا تھا۔ نظیرؔ اکبر آبادی کو عوامی مقبولیت میں بڑھاوا شاید محمد حسین آزادؔ کو ناگوار گزرا، اس لیے انھوں نے نظیرؔ کو ان شعرا کی فہرست سے نکال باہر کیا یہ نہ تو اچھی روایت ہے اور بحیثیت مسلمان ایک گری ہوئی کم ظرفی ہے، کیا جالبؔ کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، خود جالبؔ کہتے ہیں:

اپنوں نے وہ رنج دیے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں

دیکھ کر اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں

ہم کب تک دشمن بنائیں گے

$
0
0

آپ کو 26 نومبر 2008ء کی وہ شام یاد ہو گی جب بھارتی شہر ممبئی کے آٹھ مقامات پر حملے شروع ہوئے‘ یہ حملے دس نوجوانوں نے کیے اور یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہا‘ حملوں میں بھارت کے 166 افراد ہلاک اور تین سو زخمی ہو گئے‘ آپ کو یہ بھی یاد ہو گا‘ بھارتی میڈیا نے ان حملوں کی ذمے داری پاکستان پر ڈال دی تھی‘ بھارتی میڈیا منہ سے نفرت کے شعلے اگلنے لگا اور یوں پاکستانی میڈیا سامنے آنے پر مجبور ہو گیا‘ ممبئی پولیس نے حملوں کے آخری دن دعویٰ کیا ’’ ہم نے پاکستانی حملہ آور اجمل قصاب گرفتار کر لیا ہے‘‘ اس دعوے کے ساتھ ہی وہ کہانی شروع ہو گئی جس نے بھارت اور پاکستان کے درمیان نفرتوں اور غلط فہمیوں کے نئے بیج بو دیے‘ ممبئی پولیس نے اجمل قصاب اور ان کے ساتھیوں کے خلاف 12 ایف آئی آر درج کیں‘ 12 افسروں کو تفتیش کی ذمے داری سونپی گئی‘ اجمل قصاب نے واقعے کے 2 ماہ 21 دن بعد مجسٹریٹ کے سامنے اقبال جرم کیا‘ 15 اپریل2009ء کو عدالتی کارروائی شروع ہوئی اور اجمل قصاب عدالت میں پہنچ کر اعترافی بیان سے منحرف ہو گیا‘ اس نے دعویٰ کیا ’’میں بالی ووڈ میں ایکٹر بننے کے لیے بھارت آیا تھا‘ پولیس نے مجھے اس واقعے سے بیس دن قبل جو ہو کے علاقے سے گرفتار کیا‘ یہ واقعہ ہوا تو پولیس نے مجھ پر تشدد کر کے یہ اعترافی بیان لے لیا‘‘.

پولیس نے فہیم ارشد انصاری اور صباح الدین دو بھارتی شہریوں کو اجمل قصاب کا ساتھی ڈکلیئر کر کے عدالت میں پیش کیا‘ فہیم پر الزام تھا اس نے ہاتھ سے ممبئی کے نقشے بنائے اور یہ نقشے صباح الدین نے نیپال کے ذریعے اجمل قصاب کے استاد ذکی الرحمن لکھوی کو بھجوائے‘ پولیس عدالت میں ان دونوں کو مجرم ثابت نہ کر سکی چنانچہ یہ دونوں باعزت بری ہو گئے‘ اجمل قصاب کا مقدمہ 332 دن چلا‘ چارج شیٹ 14280 صفحات پر مشتمل تھی‘ گواہوں کی فہرست میں 2202 لوگ شامل تھے‘ 657 گواہوں کو عدالت میں پیش کیا گیا‘ عدالت نے 110 سماعتیں کیں‘ اجمل قصاب کو ذاتی وکیل کی اجازت نہیں ملی‘ اسے سرکاری وکیل سے بھی ملاقات نہیں کرنے دی گئی ‘ گواہوں پر جرح بھی نہیں ہوئی ‘ اجمل قصاب نے فیصلے کے خلاف اپیلیں کیں مگر تمام اپیلیں خارج ہو گئیں اور یوں اسے 21 نومبر 2012ء کی صبح سات بجے پونا جیل میں پھانسی دے دی گئی‘ اسے جیل ہی میں دفن کر دیا گیا۔

اجمل قصاب دنیا سے رخصت ہو گیا لیکن اپنے پیچھے سوالات کی نہ ختم ہونے والی لکیریں چھوڑ گیا مثلاً دنیا کی کوئی عدالت 110 سماعتوں میں 657 گواہوں کی گواہیاں ریکارڈ نہیں کر سکتی‘ اجمل قصاب کے معاملے میں یہ معجزہ کیسے رونما ہوا؟ بھارت کے عدالتی نظام نے 1993ء کے ممبئی حملوں کا فیصلہ 2007ء میں کیا لیکن اجمل قصاب کا فیصلہ 332 دنوں میں کر دیا گیا‘ یہ بھارتی تاریخ کا دوسرا تیز ترین فیصلہ تھا‘ یہ کیسے ممکن ہوا؟ اجمل قصاب کا اعترافی بیان بھی تضادات کا مجموعہ تھا‘ یہ دو جماعت پاس لیکن اس کا بیان انتہائی پڑھے لکھے نوجوان جیسا تھا‘ پاکستان کے کسی بھی حصے میں قصابوں کو قصاب نہیں کہا جاتا‘ یہ قریشی کہلاتے ہیں یا قصائی‘ اجمل پھر قصاب کیسے ہوگیا؟

اجمل قصاب نے اعترافی بیان میں اپنے پورے خاندان چچاؤں‘ تایا اور پھوپھیوں کے ایڈریس‘ نمبر اور ان کے بچوں کی تفصیل لکھوائی‘ اس نے ان کے ٹیلی فون نمبر تک لکھوا دیے‘ یہ کسی ان پڑھ نوجوان کے بس کی بات نہیں‘ پاکستانی خالہ کو موسی نہیں کہتے لیکن اجمل نے خالہ کو موسی لکھوایا‘ لاہور کا کوئی شخص داتا دربار کو علی ہجویری درگاہ نہیں کہتا مگر اجمل نے اسے علی ہجویری درگاہ لکھوایا‘ اجمل کے بیان میں ’’لاہور کا مزدوروں کا اڈہ‘‘ درج ہے‘ لاہور میں ایسا کوئی مقام نہیں‘ وہ ٹریننگ کے دوران بار بار حافظ سعید اور لکھوی صاحب سے ملاقات کا ذکر کرتا ہے‘ یہ بھی بعید از قیاس ہے‘ دنیا کا کوئی لیڈر کسی ادنیٰ کارکن سے اس طرح نہیں ملتا‘ یہ اعترافی بیان میں مریدکے اور مانسہرہ کے سفر کو بارہ گھنٹے قرار دیتا ہے‘ یہ لاہور سے مظفر آباد کے سفر کو 17 گھنٹے کہتا ہے‘ یہ بھی غلط ہے‘ ہم سب پاکستانی کشمیر کو آزاد کشمیر کہتے ہیں لیکن اجمل قصاب اسے پاکستانی مقبوضہ کشمیر لکھواتا ہے‘ دو جماعت پاس نوجوان سیٹلائٹ فون‘ جی پی ایس اور نقشے سمجھنے کا بھی ایکسپرٹ ہے‘ ہم ٹورسٹس کو سیاح کہتے ہیں مگر اجمل نے اسے درویشی سیلانی لکھوایا‘ پاکستان کیا پورے عالم اسلام میں رمضان عید نہیں ہوتی‘ مسلمان عیدالفطر کو چھوٹی عید اور عیدالاضحی کو بڑی عید کہتے ہیں لیکن اجمل نے چھوٹی عید کو رمضان عید قرار دیا اور ہم پاکستان میں میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل دونوں کو صرف جنرل کہتے ہیں مگر اجمل اپنے بیان میں میجر جنرل کو میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل کو لیفٹیننٹ جنرل لکھواتا ہے‘ یہ کیسے ممکن ہے؟

یہ سارے سوال جواب چاہتے ہیں مگر بھارت کے کسی سمجھ دار اور غیرجانبدار شخص نے یہ جواب تلاش نہیں کیے‘ آپ انھیں بھی چھوڑ دیجیے‘ بھارت اس ڈیوڈ ہیڈلے کو کہاں رکھے گا جس نے 18 مارچ 2010 ء کوشکاگو کی عدالت میں اعتراف کیا تھا ’’ ممبئی حملوں میں میرا ہاتھ تھا‘‘ ڈیوڈ ہیڈلے ایف بی آئی اور سی آئی اے کا ڈبل ایجنٹ تھا اور بھارت اپنے سینئر بیورو کریٹ وی آر وی ایس منی اور سی بی آئی کے سینئر عہدیدار استیش ورما کے ان حلفی بیانات کا کیا جواب دے گا جس میں ان لوگوں نے انکشاف کیا ’’ 2001ء کے پارلیمنٹ اور 2008ء کے ممبئی حملے بھارت نے خود کرائے تھے‘‘ بھارت ان سوالوں کے جواب کب اور کہاں دے گا؟۔

یہ اجمل قصاب کے مقدمے کا ایک پہلو تھا‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے‘ اجمل قصاب نے بھارت میں17 فروری 2009ء کو اعترافی بیان دیا لیکن پاکستان نے اس اعترافی بیان سے پانچ دن قبل12 فروری کو حافظ سعید‘ ذکی الرحمن لکھوی‘ حماد امین صادق‘ مظہر اقبال‘ شاہد جمیل ریاض‘ عبدالواجد،محمد جمیل اور یونس انجم کے خلاف مقدمہ درج کر دیا‘ یہ لوگ گرفتار بھی ہو گئے‘ یہ مقدمہ پچھلے پانچ برسوں سے زیر التواء ہے اور اس کی واحد وجہ بھارتی رویہ ہے‘ یہ جرم کیونکہ بھارتی سرزمین پر ہوا تھا چنانچہ ثبوت پیش کرنے کی ذمے داری بھی بھارت کی تھی‘ عینی شاہدین اور گواہ بھی بھارت میں تھے ‘ پاکستان کی عدالتوں اور وکلاء کو گواہوں اور ثبوتوں تک رسائی بھی بھارت نے دینی تھی مگر بھارت نے پانچ برسوں میں یہ رسائی‘ یہ ثبوت نہیں دیے‘ پاکستانی وکلاء حافظ سعید اور ذکی الرحمن لکھوی پر الزام لگانے والے فہیم ارشد انصاری اور اجمل قصاب سے ملنا چاہتے تھے‘ بھارت نے اجازت نہیں دی‘ پاکستان نے بھارتی مجسٹریٹ اور تفتیشی افسر کو پاکستانی عدالت میں پیش کرنے کی درخواست کی‘ بھارت نے انکار کر دیا‘ پاکستانی عدالت نے استغاثہ اور صفائی کے وکلاء کو گواہوں کے بیان ریکارڈ کرنے کے لیے بھارت بھجوانے کا حکم دیا مگر بھارت سے اجازت نہ ملی‘ بھارت نے اصرار کے بعد 2012ء میں پاکستانی عدالتی کمیشن کو صرف چار گواہیاں ریکارڈ کرنے کی اجازت دی لیکن جب ان سے گواہوں پر جرح کا حق مانگا گیا تو بھارتی عدالت نے صاف انکار کر دیا‘ یوں ڈیڈ لاک ہو گیا‘ سفارتی کوششیں شروع ہوئیں تو پاکستانی وکلاء کو جرح کا حق دے دیا گیا مگر عدالتی کمیشن کے بھارت پہنچنے سے پہلے اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی یوں جرح کا سرے سے امکان ختم ہو گیا‘۔

اجمل قصاب کو کسی آزاد شخص‘ ادارے یا این جی او سے ملاقات نہیں کرنے دی گئی‘ بھارت نے انصار برنی تک کو ملاقات کا موقع نہیں دیا‘ حافظ سعید اور لکھوی صاحب پر فہیم ارشد انصاری اور صباح الدین نے الزام لگایا تھا‘ یہ دونوں بری ہو چکے ہیں لیکن الزام ابھی تک قائم ہے‘ مقدمے کے دوران دعویٰ کیا گیا‘ حملہ آوروں کے حافظ سعید اور لکھوی صاحب سے ٹیلی فونک رابطے تھے مگر تمام فرانزک رپورٹس نے اس الزام کو رد کر دیا‘ رپورٹس کے مطابق حملہ آور امریکی اور بھارتی نمبروں پر رابطے میں تھے‘ کسی فون کے ذریعے کسی پاکستانی نمبر پر رابطہ نہیں ہوا‘ ملزمان کو ای میل بھی ماسکو سے بھجوائی گئی تھی‘ بھارت آج تک حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا‘ پاکستانی عدالتی کمیشن اور تفتیشی افسروں تک کو بھارت جانے اور تفتیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی‘ پاکستان کو مطلوب معلومات بھی فراہم نہیں کی گئیں لیکن اس کے باوجود بھارت کی طرف سے حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سزا کا مطالبہ جاری ہے‘ بھارت اس معاملے میں اس قدر پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ میاں نواز شریف 23 اکتوبر 2013ء کو صدر اوبامہ سے ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس گئے تو صدر اوبامہ نے ڈرون حملوں پر بات چیت کے بجائے جماعت الدعوۃ کا کیس کھول لیا اور ممبئی اٹیکس پر گفتگو شروع کر دی‘ ہمارے وزیراعظم امریکی صدر کے دباؤ میں آ گئے اور انھوں نے باہر نکل کر پاکستانی میڈیا سے فرما دیا ’’ ہمیں بھی اپنے ہاؤس کو ان آرڈر کرنا چاہیے‘‘ ہمارے وزیراعظم کو کسی نے اصل صورتحال بتائی ہی نہیں تھی چنانچہ جب امریکی صدر نے میاں نواز شریف کے سامنے جماعت الدعوۃ کا ایشو اٹھایا تو یہ پریشر میں آ گئے۔

حافظ سعید پاکستانیوں کے لیے محترم ہیں‘ یہ کشمیری ہیں‘ یہ کشمیر کی تحریک میں انتہائی فعال رہے‘حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے بے انتہا قربانیاں دیں‘ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اس شہ رگ کی بقا کے لیے میاں نواز شریف سے لے کرعام شہری تک ہر شخص ‘ ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے اور یہ قربانی اگر جرم ہے تو پھر ہم سب مجرم بھی ہیں اور ہمیں اپنے اس جرم پر فخر بھی ہے‘ میاں نواز شریف اور حافظ سعید دونوں کا کاز ایک ہے‘ میاں نواز شریف نے کل آزاد کشمیر کی اسمبلی میں کھڑے ہو کر جن خیالات کا اظہار کیا‘ حافظ سعید اور ان کے ساتھی برسوں سے ان خیالات پر عمل کر رہے ہیں‘ حافظ سعید صاحب اور ان کی جماعت پاکستان کی چند بڑی فلاحی تنظیموں میں بھی شمار ہوتی ہے‘ یہ زلزلوں سے لے کر سیلابوں تک ملک کی ہر مشکل میں دامے،درمے اور سخنے شریک ہوتی ہے‘ آپ آواران کے زلزلے کو لے لیجئے 24 ستمبر 2013ء کو سندھ اور بلوچستان کے مختلف شہروں میں شدید زلزلہ آیا‘ اس زلزلے میں بلوچستان کے دو اضلاع گوادر اور آواران متاثر ہوئے‘ ریاستی ادارے آواران نہیں پہنچ سکے لیکن حافظ سعید کے ساتھی وہاں پہنچے بھی اور انھوں نے وہاں متاثرین کی مدد بھی کی لیکن ہم نے ان کی خدمات اور قربانیوں کے اعتراف کے بجائے ان پر مقدمے قائم کر رکھے ہیں‘۔

آج بھی ذکی الرحمن لکھوی صاحب سمیت چھ لوگ جیلوں میں پڑے ہیں‘ یہ لوگ اس بھارت کے ناحق دباؤ کی وجہ سے جیلوں میں ہیں جسے ہم آج بھی دشمن سمجھتے ہیں‘ جسے ہم بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کا ذمے دار قرار دیتے ہیں اور جسے ہم خودکش حملوں کا ماسٹرمائنڈ بھی کہتے ہیں۔چلیے ہم ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں‘ یہ تمام الزام درست ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے ان الزامات کو ثابت کس نے کرنا ہے؟ کیا یہ بھارت کی ذمے داری نہیں؟ اگر ہاں تو کیا یہ اپنی ذمے داری نبھا رہا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہم حافظ سعید صاحب اور ان کے ساتھیوں کو کس جرم کی سزا دے رہے ہیں؟ ہم آخر کب تک محب وطن لوگوں کو اپنا دشمن بناتے رہیں گے؟ ہم کب تک ریاست کے دوستوں کا دل توڑتے رہیں گے؟ کیا ہمیں یہ فیصلہ کرنے کے لیے بھی کوئی مذاکراتی کمیٹی بنانا پڑے گی؟

جاوید چوہدری 

Imam Haram and Pakistan


امن مذاکرات کا پُل صراط

$
0
0

طالبان سے مذاکرات کا مرحلہ کبھی انتہائی قریب اور کبھی بہت دور نظر آ رہا ہے۔ حکومت نے ایک جبکہ طالبان نے دو مذاکراتی کمیٹیاں بنا دی ہیں جن میں مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ابراہیم خاں کے سوا کوئی سیاست دان اور طالبان کی کوئی اہم شخصیت شامل نہیں، تاہم غالب امکان یہی ہے کہ جب یہ مذاکراتی کمیٹیاں آپس میں بات چیت کریں گی، تو معاملات کو سمجھنے اور اُنہیں سلجھانے کی پوری کوشش کریں گی۔ مذاکرات میں کامیابی کے لیے رازداری، سفارت کاری، زباں بندی اور فائر بندی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ اِس سے بھی زیادہ اہم بات خلوصِ نیت اور سیاسی استقامت ہو گی۔ حکومت کے اخلاص اور عزم کایہ احساس مجھے وزیراعظم نواز شریف کی ڈیڑھ گھنٹے پر محیط گفتگو کے دوران ہوا جو وہ الحمرا کے کمیٹی روم میں کالم نگاروں سے بڑی بے تکلفی سے کر رہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت کی اوّلین ترجیح اور پوری کوشش یہی ہے کہ خون بہائے بغیر اپنے وطن میں امن قائم رکھا جائے اور مذاکرات کے ذریعے ایک ایسا ماحول تیار ہوتا جائے جس میں دلیل ، قانون اور انصاف کی حکمرانی یقینی ہو۔ اُن کی آواز سے گہری دردمندی اور آنکھوں سے بے پایاں دوراندیشی ٹپک رہی تھی۔اُنہوں نے بتایا کہ مذاکرات کی خواہش کا اظہار میں نے گزشتہ ستمبر میں پوری امریکی قیادت سے بہت کھل کر کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے عوام اور ہماری فوج امن کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں اور پاکستان بالآخر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عفریت کو شکست دینے میں کامیاب رہے گا۔

الحمرا آرٹ کونسل کے بیدار مغز چیئرمین اور صاحبِ طرز کالم نگار جناب عطاء الحق قاسمی نے اِس تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے امکانات، خدشات اور ممکنہ نتائج پر خیال آرائی ہوتی رہی۔ ایک صاحب نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت طالبان کے ٹریپ میں آ گئی ہے جو نئی صف بندی کے لیے وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر میں کسی بھی ملک نے اپنے باغیوں اور عوام کے قاتلوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے اور اُنہیں ریاستی طاقت سے شکست دی گئی ہے۔ یہ طالبان جو ہمارے آئین ، ہماری جمہوریت اور ہماری عدالتوں کو نہیں مانتے اور اپنی خود ساختہ شریعت کے نام پر لوگوں کی گردنیں کاٹ دیتے ہیں، اُن سے کیا بات چیت ہو سکتی ہے؟ اِس پر وزیراعظم نے کہا کہ تاریخ میں جنگ و جدل کا خاتمہ آخرکار مذاکرات کی میز ہی پر ہوا ہے اور ہمارے لیے یہی بہتر ہو گا کہ امن مذاکرات بہت بڑے خون خرابے سے پہلے کر لیے جائیں اور اُن کی کامیابی کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ اُنہوں نے انکشاف کیا کہ ہماری پارٹی کے کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ قومی اسمبلی میں صرف اتنا اعلان ہی کافی ہے کہ ہم طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش قبول کرتے ہیں اور مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کے ناموں کا اعلان بعد میں کیا جائے ٗ مگر میں نے قومی اسمبلی کے اندر ہی اُن کا اعلان کرنا ضروری سمجھا۔ غالباً وہ یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ اُن کے نزدیک قومی اسمبلی ہی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ اُنہوں نے کسی قدر اطمینان بخش لہجے میں کہا کہ طالبان کی طرف سے مثبت اشارے مل رہے ہیں اور یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ بتدریج معاملات میں بہتری آئے گی اور افہام و تفہیم کا عمل ثمرآور ثابت ہو گا۔ اُن کی تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں کے علاوہ اہلِ قلم اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا سے اپیل تھی کہ وہ ایسی باتیں پھیلانے سے مکمل اجتناب کریں جن سے امن مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ اُنہوں نے اِس امر پر زور دیا کہ پاکستان کے اندر قیامِ امن کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دیں، چنانچہ میں بھارت سے روابط معمول پر لانے کے لیے ایک عرصے سے کوشش کرتا آیا ہوں۔ ہم دونوں ممالک اپنے دفاع پر اتنا زیادہ خرچ کر رہے ہیں کہ سوشل سیکٹر کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں۔ دونوں طرف کی قیادتوں کو اپنی روش کو بدلنا ، دفاعی اخراجات میں کمی لانا اور سرحد پار دہشت گردی پر قابو پانا ہو گا۔ میری امریکہ میں بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملاقات ہوئی ،تو میں نے اُنہیں بتایا کہ ہمارے پاس بھارت کی طرف سے پاکستان میں دراندازی کے ثبوت موجود ہیں اور بدلے ہوئے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اچھے ہمسائیوں کی طرح رہنے کا عہد کریں۔

جناب وزیراعظم نے اپنے اِس ایقان کا اظہار کیا کہ ایک پُرامن، مضبوط، متحد اور آزاد افغانستان، پاکستان اور اِس خطے کے مفاد میں ہے۔ وہاں کے باشندوں کے مابین مصالحت کی فضا پیدا کرنے میں ہم ایک مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اُن کی باتوں کے دوران مجھے جناب محمود خاں اچکزئی کی وہ تقریر یاد آتی رہی جو اُنہوں نے ’’مرکزِ فکر وعمل‘‘ کے زیر اہتمام افغانستان پر ایک عظیم الشان دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں کی تھی اور کہا تھا کہ اگر پاکستان اور ایران، افغانستان کے ساتھ یہ معاہدہ طے کر لیں کہ وہ اُس کی آزادی اور خودمختاری تسلیم کرتے ہیں ، تو افغانستان میں اِسی سال مارچ کے مہینے تک امن قائم ہو سکتا ہے۔ جناب وزیراعظم کی بصیرت افروز باتوں سے مجھے اِس اعتماد کی دولت حاصل ہوئی کہ جو برسرِ اقتدار لوگ ہیں ،وہ جاں فشانی اور بلند نگاہی سے کام کر رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب شہبازشریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملے اور طالبان سے مذاکرات کے اسٹرٹیجک پہلوؤں پر بڑی تفصیل سے تبادلۂ خیال کیا۔ انتظامات کو آخری شکل دینے کے لیے وزیراعظم سے تفصیلی ملاقات کی۔ اِس کے بعد جنرل راحیل شریف سعودی عرب روانہ ہو گئے جس کے حکمران اور امامِ کعبہ پاکستان میں انتہا پسندی کے خاتمے اور طالبان کو راہِ راست پر لانے میں ایک مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

پچھلے دنوں تھنک ٹینک پائنا کے تحت ’’انسدادِ دہشت گردی کی ترجیحات‘‘ کے عنوان سے قومی سیمینار منعقد ہوا جس میں مذاکراتی عمل کے نازک پہلوؤں پر خیال افروز گفتگو ہوئی۔ پروفیسر ابراہیم خاں جن کوبعد میں طالبان کی طرف سے مذاکراتی کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا ہے ،اُنہوں نے ایک فقرے میں پوری صورتِ حال کا یہ تجزیہ پیش کیا کہ ’’ہم طالبان کی خاطر فوج سے لڑ سکتے ہیں نہ فوج کی خاطر طالبان سے ٹکر لے سکتے ہیں‘‘۔ اُن کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں بہت بڑی تباہی آ سکتی ہے۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور جو تین مرتبہ برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے تھے، 9/11 کے بعد برطانیہ اور یورپ میں پیدا ہونے والی نفسیات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ اُنہوں نے آئرش ریپبلکن آرمی کی شکست کا تجزیہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ برطانوی حکومت نے گاجر اور چھڑی دونوں استعمال کیے تھے۔ اُن کے خیال میں طالبان بڑے ہوشیار اور بڑے شاطر ہیں۔ اِس لیے حکومت کو بہت غوروخوض کے بعد ایک جامع حکمتِ عملی وضع کرنی چاہیے۔خواجہ سعد رفیق جو فکری پختگی سے آراستہ ہونےکے علاوہ مردِ میدان بھی ہیں اور ریلوے کو انقلابی تبدیلیوں سے آشنا بھی کر رہے ہیں، اُنہوں نے امن مذاکرات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک صبر آزما مرحلہ ہے اِس میں دونوں طرف سے غیر معمولی قوتِ برداشت کا ثبوت دینا ہو گا۔ اِس عمل میں بڑے مشکل مقام آئیں گے اور مذاکرات کا رشتہ بار بار ٹوٹتا محسوس ہو گا ،مگر عوام اور فوج کی حمایت سے یہ پُل صراط عبور کیا جا سکتا ہے۔ انٹیلی جنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر مسعود شریف خٹک جو 1994ء کے کراچی آپریشن کے منصوبہ ساز تھے ٗ اُنہوں نے بتایا کہ شہری شورشوں پر فقط سول آرمڈ فورسز ہی قابو پا سکتی ہیں جن کی اعلیٰ تربیت اور نہایت برق رفتار انٹیلی جنس شیئرنگ کے انتظامات ہونے چاہئیں۔ سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد خاں نے اپنے تجربات اور مطالعے کی بنیاد پر یہ مشورہ دیا کہ انتہا پسندی کی اصلاح اور دہشت گردی کا خاتمہ ناگزیر ہے اور واضح کیا کہ نیشنل سیکورٹی پالیسی ہر ملک میں خفیہ رکھی جاتی ہے۔ اِس حوالے سے سید منور حسن کا یہ بیان بھی قابلِ غور ہے کہ ’’فضائی بمباری سے امن قائم ہوتا ہے نہ خودکش حملوں سے شریعت نافذ کی جا سکتی ہے‘‘۔ ہمیں اُمید ہے کہ وزیراعظم اِس پُل صراط سے قوم کو گزارنے میں قائدانہ کردار ادا کریں گے۔


بشکریہ روزنامہ 'جنگ'

خنجر کی خاموشی اور آستین کے لہو کی گواہی

$
0
0


الظاف حسین ہمارا قومی سرمایہ ہیں۔ الطاف حسین اپنے گوناں گوں اوصاف کے اعتبار سے ایک نادۂِ روزگار شخصیت اور وکھری ٹائپ کے سیاست دان ہیں ۔قیامِ پاکستان کے بعد کراچی پاکستان کا دارالحکومت ہی نہیں تھا، بلکہ لاہور کے بعد اسے ملک کے دوسرے بڑے علمی اور ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل تھی ۔ نامور شعراء، معروف ادیبوں، متبحّر دینی عُلماء، معتبر اور راست فکر محققین اور دانشوروں اور ماہرینِ تعلیم، بلند پایہ خطیبوں اور مقررین، فنونِ لطیفہ کے منفرد ماہرین، انتظامی اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال افراد،ہُنر مند اہلِ فن، متفرق نظریات کی معتدل مزاج سیاسی شخصیات کی ایک کہکشاں تھی جو کراچی کے آسماں پر جلوہ گر ہوئی۔ سیاسی اور نظریاتی اختلافات ہر زمانے میں رہے لیکن ان کی وجہ سے رواداری، مہر و مروّت اور وضع داری، سماجی رشتوں اور ذاتی تعلقات کی محکم فضا کبھی مسموم نہ ہوئی تھی۔ شائستگی، وقار، رکھ رکھاؤ، معقولیت اور دلیل اس تہذیب کے خاص نقوش تھے۔ علمی، ادبی اور فکری سرگرمیاں زوروں پررہیں۔ان سرگرمیوں میں مہاجر بزرگ سب سے نمایاں اور ان کا کردار سب سے زیادہ تابناک تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے اوپر پاکستانیت کا رنگ چڑھایا اور اسی کو اپنی پہچان بنایا۔ وہ یہ بھول ہی گئے تھے کہ وہ مہاجر بن کر اس سر زمین میں داخل ہوئے تھے۔آج بھی کئی سیاسی اور دینی جماعتوں کی قیادت اور اگلی صف کے رہنماؤں میں مہاجر پیش پیش ہیں۔وہ اپنا تعارف مہاجر کے طور پر کرانا اپنے ہجرت کر کے پاکستان کو اپنا وطن بنانے کے عمل کی توہین سمجھتے ہیں۔معاشی جدوجہد کرنے والوں کو کراچی نے بلا امتیازِ رنگ و نسل اور بلا تعصبِ شہر و دیہات اور صوبہ و علاقہ بڑے وافر مواقع دیے۔سندھی، پٹھان، پنجابی، بلوچ، کشمیری، ایرانی، بنگالی، غرض ہر جگہ کے لوگ یہاں امن اور آسودگی کے ماحول میں بے خطر رہتے تھے۔کہا جاتا تھا کہ کراچی کی مٹی میں ہاتھ ڈالا جائے تو سونا ہاتھ آتا ہے۔ یوں گویا کراچی میں ایک خاص مثبت اور صحت مند کلچر پروان چڑھا تھا۔ اس کلچر کو پہلا دھچکا پچھلی صدی کی ساتویں دہائی کے آخری سالوں میں اس وقت لگا جب پیپلز پارٹی کے بانی لیڈر مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست میں مخالفین کے تمسخر اور تحقیر و تذلیل اور اذیّت و ایذا رسانی کی منفی روایت ڈالی۔ اس روایت کے اثرات سندھ سے نکل کر سارے پاکستان میں پھیل گئے اور اس نے ان تعصبات کو انتہا تک پہنچا دیا جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنے۔

بھٹو اگرچہ سیاست میں تو بہت پہلے سے تھے۔ ایّوب خان کے دورِ آمریت میں ان کے نمایاں ترین حامیوں اور کابینہ کے اہم وزراء میں سے تھے۔ لیکن جس منفی سیاسی روایت کا اوپر ذکر ہوا ہے اسے اصل فروغ اس وقت ملا جب انہوں نے ایوب خان سے راہیں جُدا کر کے اپنی الگ پارٹی بنائی اور ایک نئے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ اس کے اثرات سیاست ہی پر نہیں زندگی کے ہر شعبے پر پڑے۔ مرحوم بھٹو کے اس سفر اور جناب الطاف حسین کے مطلعِ سیاست پر نمودار ہونے میں کم و بیش دس سال کی مسافت ہے۔دونوں کی اٹھان مارشل لاء کی فضاؤں میں ہوئی۔ المیہ یہ ہے کہ دونوں نے کچھ تعصبات کا زہراپنی سیاست کی رگوں میں داخل کیا۔الطاف حسین ترقی پسند نظریات، جدید فکر اور روشن خیالات کے جدید طبع رہنما ہیں۔ شعلہ طبعی اور آتش بیانی ان کی نشانی ٹھہری۔غیض و غضب ان کا شعار اور قہر سامانی ان کا کردار۔ بولیں تو صاعقہ اور چپ ہوں تو ننگی تار میں دوڑتی برقی رو۔اٹھیں تو شعلہ اور بیٹھیں تودہکتا ہوا انگارا۔چلیں تو آندھی اور تھمیں تو غبار۔ان کا ہربیان ایک آتش فشاں اور ان کا مزاج تلوّن کی باہم ٹکراتی لہروں کاطوفان۔ کبھی ٹھنڈی آگ اور کبھی کھولتا پانی۔ ان کی دوستی وبال اور ان کی دشمنی عذاب۔سیاسی زندگی کا زیادہ عرصہ شریکِ اقتدار رہے مگر سدا اپنے حلیفوں سے شاکی اور بیزار۔ کبھی حکومت کے اندر، کبھی حکومت سے باہر۔ ا ن کے غدّار موت کے حقدار، ان کے وفادار بے اعتبار و شرمسار۔ ان کی پارٹی میں بڑے با صلاحیت اور پڑھے لکھے نوجوان آئے مگر ان کی صلاحیتیں ایک اَنا کے ہاں رہن پڑ گئیں۔یہاں دوسری سوچ کے پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ان نوجوانوں کی ساری ذہانت و فطانت الطاف حسین کی سوچ کے دفاع اور ان کے موقف کو بر حق ثابت کرنے میں کھپ جاتی ہے ۔ان کوہر حال میں الطاف بھائی کے اطاعت گزار اور ہر بات میں ان سے متفق و مؤید ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ہزاروں میل سے ٹیلی فونی خطاب کے دوران میں بھی زبان ہی بند نہیں، سانس بھی رکے ہوئے، ایسے جیسے لکڑی کے کندے اور پتھر کی مورتیاں ہیں کہ نہ معلوم کب فون کے تاروں میں جلال کے کوندے دوڑنے لگیں اور کب کسی کے سر پر سرِ عام جوتے برسانے کا حکم صادرہو جائے۔ اس مشق کا دنیا مشاہدہ کر چکی ہے۔

ہونے کو تو الطاف بھائی کی پارٹی ’متحدہ قومی موومنٹ‘ ہے لیکن وہ ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کے خول سے نکل نہیں پاتے ۔ پھر ایک اور المیہ یہ ہے کہ کراچی میں لہو اور لاشے ایم کیو ایم کے جلو میں آئے اور ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔جناب الطاف حسین اور سندھ کے طویل المیعاد گورنر عشرت العباد سمیت اس کی اگلی صف کا شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جس پر خون کا کوئی دعویٰ نہ ہو۔ مہاجروں کے نام پر وجود میں آنے والی اس جماعت کی تشکیل کے بعد کراچی میں نہ مہاجروں نے امن دیکھا اور نہ دوسرے نسلی گروہوں نے سکھ کا سانس لیا۔مزید یہ کہ مہاجروں کی نئی نسل جتنی خوار اور مستقبل برباد اور بگاڑ اور فساد کا شکار ایم کیو ایم کے بننے کے بعد ہوئی اس سے قبل اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ نوجوانوں کے ہاتھ سے کتاب چھنی اور کلاشنکوف آ گئی۔علم کی برکات گئیں اور کراچی پر بارود کی نحوست چھاگئی۔ دانش و فکر کی کھیتی ویران ہوئی تو دہشت گردی کی خار دار جھاڑیاں اگ آئیں۔ دہشت گردی کا نشانہ بن کر جتنے مہاجر خورد و کلاں رزقِ خاک بنے ،اب وہ شاید شمار سے بھی باہر ہیں۔ا ختلاف یہاں ایسا گناہ ہے جس کی سزا موت سے کم نہیں ہے۔اس تنظیم کے بانی چیئر مین عظیم احمد طارق کے قتل ہوئے ، اسی ’گناہ‘ کے اشارے ملے تھے۔الطاف بھائی اپنی جان کو خطرے میں محسوس کر کے لندن میں جا براجے اورعیش سے رہنے لگے۔اب اچانک واویلا شروع ہو گیاہے کہ وہاں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف بہت بڑی سازش تیار کر رہی ہے۔ملکی اسٹیبلشمنٹ کی پہنچ سے وہ باہر ہیں۔ عالمی اشٹیبلشمنٹ دنیا میں لِبرلزم اور سیکولرزم کو غالب دیکھنا چاہی ہے ، الطاف بھائی میں یہ صفات بدرجۂِ اتم موجود۔وہ القاعدہ اور طالبان دشمن ، یہ اس دشمنی میں ان سے چار ہاتھ آگے۔ ہوا یہ کہ ایم کیو ایم کے سنگ چلنے والی لہو اور لاشوں کی لکیر دراز ہو کر لندن تک پھیل گئی ہے۔ تین سال قبل وہاں ان کا ایک اور جلاوطن ساتھی اور ایم کیو ایم کا ایک اور بانی رہنماڈاکٹر عمران فاروق پر اسرار طور پر قتل کر دیا گیا تھا۔ تفتیش چیونٹی کی رفتار سے چلتی رہی۔ظالم کھوجی کھروں کے پیچھے چلتا ہوا آگے بڑھا توکھرے آخرالطاف بھائی کے دروازے پر جا رکے۔اب معاملہ ان دو نوجوانوں پر اٹکا ہوا ہے جو ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل سے کچھ ہی عرصہ قبل تعلیم کے ویزے پر لندن گئے اور قتل کے بعد اچانک غائب ہو گئے تھے۔ جب رحمان ملک وزیرِ داخلہ تھے تب پاکستانی میڈیا میں ان نوجوانوں کے براستہ کولمبو واپس آنے اور کراچی ائر پورٹ پر گرفتار ہونے کی خبریں نشر ہوئی تھیں۔ ہماری حکومتِ پاکستان سے یہ گزارش ہے کہ الطاف حسین کے ہمدردی کا تقاضا ہے کہ وہ نوجوان برطانیہ کے حوالے کر دیے جائیں۔ اس وقت الطاف بھائی کی سب سے بڑی مدد یہی ہے۔ کیا بعید کہ وہ نوجوان الطاف بھائی کے اس کیس میں ملوّث ہونے سے انکاری ہو جائیں ۔ہمارا قومی دامن بھی اس بد نما داغ سے بچ جائے کہ پاکستان کا اتنا مقبول لیڈر اتنا پست فکر ہو سکتا ہے کہ اپنے ہی ایک ساتھی کے قتل جیسی گھناؤنی سازش کرنے کی حرکت کر بیٹھے ۔ہاں چلیں زبانِ خنجر ابھی چپ سہی لیکن اگر آستین کا لہو ہی بول اٹھے تو ہم اس شرمساری سے کیسے بچ سکتے ہیں۔


بشکریہ روزنامہ 'نئی بات'

گمشدہ افراد کی لاشیں

$
0
0

نوٹک بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار کے نزدیک ایک غیر آباد علاقہ ہے۔16 جنوری کو اس علاقے میں جانے والے چرواہے کو زمین میں دبی ہوئی ایک لاش کے اعضاء نظر آئے۔ اس نے لوگوں کو اطلاع دی، معاملہ حکام تک پہنچ گیا، یہ افواہیں پھیل گئیں کہ گزشتہ چند سال کے دوران اغواء ہونے والے سیاسی کارکنوں کو قتل کر کے دفن کر دیا گیا ہے۔ فیس بک پر رائے دینے والے کارکنوں نے 130 لاشوں کی دستیابی کا دعویٰ کیا، بلوچستان کی حکومت نے 13 لاشوں کے ملنے کی تصدیق کی۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر ان لاشوں کے ملنے کی خبریں شایع ہوئیں مگر وفاقی حکومت نے اس بارے میں توجہ نہیں دی۔ لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے تحریک چلانے والے ایک کارکن نصیر اﷲ بلوچ نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کر دی۔

چیف جسٹس تصدق جیلانی نے ازخود اختیار Suomoto کے تحت معاملے کی سنگینی کا نوٹس لیا تو ڈپٹی کمشنر خضدار کو سپریم کورٹ میں پیش ہونا پڑا اور سرکاری طور پر یہ بات تسلیم کی گئی کہ 17 جنوری کو چرواہوں کی اطلاع پر نوٹک کے علاقے میں کھدائی کے دوران 13 لاشیں برآمد کی گئیں۔ بلوچستان حکومت نے ان لاشوں کے بارے میں تحقیقات کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک جج پر مشتمل ٹریبونل قائم کیا ہے۔ نصیر اﷲ بلوچ کا کہنا ہے کہ 3 لاشوں کی شناخت ہو چکی ہے اور یہ وہ بدقسمت سیاسی کارکن ہیں جن کا تعلق آواران سے تھا اور وہ گزشتہ سال لاپتہ ہوئے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملات پر تحقیق کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ 2000ء سے ریاستی اہلکاروں نے سیاسی کارکنوں کو حراست میں لینا شروع کیا تھا، ان لوگوں کو خفیہ سیف ہاؤس میں برسوں قید رکھا جاتا تھا، ان میں سے کچھ لوگ رہا ہوئے، جن میں سے کچھ ذہنی طور پر مفلوج ہوئے، کچھ نے سیاست چھوڑ دی، کچھ ایجنسیوں کے مخبر بن گئے، باقی اغوا ہونے والے افراد کا پتہ نہیں چل سکا۔

2008ء میں پیپلز پارٹی کی وفاق اور بلوچستان میں حکومتوں کے بننے کے بعد بہت سے لاپتہ افراد رہا ہوئے۔ جب دوسرے صوبوں سے آ کر آباد ہونے والے اساتذہ، صحافیوں، انجینئروں، پولیس اور انتظامی افسروں، ڈاکٹروں، حجاموں، دکانداروں کو ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک کیا جانے لگا تو پھر لاپتہ ہونے والے افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنا شروع ہوئیں۔جنرل پرویز مشرف کے حامیوں میں شمار ہونے والے ایک سردار کے بیٹے کی سربراہی میں لشکر اسلام نامی تنظیم قائم کی گئی، اس تنظیم نے ہزارہ برادری کے لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ دوسری طرف قوم پرست کارکنوں کو اغواء کر کے قتل کیا جانے لگا۔ نوٹک کے علاقے میں بھی اس تنظیم کا کیمپ تھا۔ گزشتہ مہینے جب مستونگ میں ہزارہ برادری کے زائرین کی بس کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا اور بہت سے زائرین شہید ہوئے تو ہزارہ برادری نے کوئٹہ میں دھرنا دیا۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح کمیٹی قائم ہوئی، اس کمیٹی نے ان کیمپوں کی نشاندہی کی۔ کسی ذریعے نے نوٹک میں قائم کیمپ کے نگرانوں کو بتا دیا، یہ کیمپ منتقل ہوا مگر لاشیں چھوڑ گیا۔ سیاسی کارکنوں کا اغوا اور پھر ان کا قتل ایک بھیانک صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔ جب اسلام آباد میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئی تو وزیر اعظم نواز شریف نے سیاسی تضادات کے خاتمے کا فیصلہ کیا، نیشنل پارٹی اور ملی یکجہتی پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دی، اس طرح تاریخ میں پہلی دفعہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مالک بلوچ وزیر اعلیٰ بنے۔

ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی واضح کیا کہ پورے بلوچستان پر صوبائی حکومت کی بالادستی سے ہی صوبے میں امن و امان قائم ہو سکتا ہے اور سیاسی تنازعات حل ہو سکتے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے قائد میر حاصل بزنجو نے یہ واضح اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت کی پہلی ترجیح لاپتہ افراد کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنا ہے، مگر ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت کو ہر طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال سیکیورٹی فورسزنے کالجوں اور کوچنگ سینٹروں پر چھاپے مارے اور ملک دشمن کتابوں کی برآمد کا دعویٰ کیا، ان میں سے بیشتر کتابیں مشہور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کی ہیں جو سماج کے ارتقاء، تاریخ کے مختلف ادوار اور روشن خیالی کی تحریکوں سے متعلق ہیں، اس طرح مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو، نیلسن منڈیلا وغیرہ کی سوانح عمری تھیں، یہ کتابیں ملک کی تمام جامعات کے نصاب میں شامل ہیں۔ یہ ساری کارروائی صوبائی حکومت کی اجازت کے بغیر ہوئی، صوبائی حکومت کی منظوری کے بغیر نوجوانوں کو مطالعے کی سزا دینے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح لاپتہ افراد کے معاملے پر صوبائی حکومت کے احکامات کی پابندی کرنے پر کوئی وفاقی ادارہ تیار نہیں۔

دوسری طرف بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگانے والے بم دھماکوں اور ہتھیاروں کے استعمال سے صوبائی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سینیٹر حاصل بزنجو ایک مثبت سوچ رکھنے والے سیاستدان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے واضح احکامات جاری کیے ہیں کہ لاپتہ افراد کو ماورائے عدالت ہلاک نہیں کیا جائے گا، مگر جب تک تمام لاپتہ افراد رہا نہیں ہوجاتے اس وقت تک صورتحال معمول پر نہیں آئے گی۔ بلوچستان حکومت نے نوٹک میں ملنے والی لاشوں کے معاملات کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل ٹریبونل کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ بعض قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری مسلسل لاپتہ افراد کے معاملے کے حل کی کوشش کرتے رہے مگر خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا، یوں ایک جج پر مشتمل ٹریبونل کو بااثر ادارے کسی صورت اہمیت نہیں دیں گے اور ایک دفعہ پھر امتحان وزیر اعظم نواز شریف کا ہے، وہ مقتدر حلقوں کو اس بات پر تیار کریں کہ تمام لاپتہ افراد حکومت بلوچستان کے حوالے کیے جائیں اور پورے بلوچستان پر صوبائی حکومت کی عملداری ہو تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ گمشدہ سیاسی کارکنوں کے قتل کے مستقبل میں خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ اس جانب سنجیدگی سے توجہ دی جائے۔

یہ ہے شریعت

$
0
0

والدہ نے سات دن دودھ پِلایا، آٹھویں دن دشمن اسلام ابو لہب کی کنیز ثوبیہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا، ثوبیہ نے دودھ بھی پلایا اور دیکھ بھال بھی کی، یہ چند دن کی دیکھ بھال تھی، یہ چند دن کا دودھ تھا لیکن ہمارے رسولؐ نے اس احسان کو پوری زندگی یاد رکھا، مکہ کا دور تھا تو ثوبیہ کو میری ماں میری ماں کہہ کر پکارتے تھے، ان سے حسن سلوک بھی فرماتے تھے، ان کی مالی معاونت بھی کرتے تھے، مدنی دور آیا تو مدینہ سے ابولہب کی کنیز ثوبیہ کے لیے کپڑے اور رقم بھجواتے تھے، یہ ہے شریعت۔

حضرت حلیمہ سعدیہ رضاعی ماں تھیں، یہ ملاقات کے لیے آئیں، دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور میری ماں، میری ماں پکارتے ہوئے ان کی طرف دوڑ پڑے، وہ قریب آئیں تو اپنے سر سے وہ چادر اتار کر زمین پر بچھا دی جسے ہم کائنات کی قیمتی ترین متاع سمجھتے ہیں، اپنی رضاعی ماں کو اس پر بٹھایا، غور سے ان کی بات سنی اور ان کی تمام حاجتیں پوری فرما دیں، یہ بھی ذہن میں رہے، حضرت حلیمہ سعدیہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، وہ اپنے پرانے مذہب پر قائم رہی تھیں، فتح مکہ کے وقت حضرت حلیمہ کی بہن خدمت میں حاضر ہوئی، ماں کے بارے میں پوچھا، بتایا گیا، وہ انتقال فرما چکی ہیں، رسول اللہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، روتے جاتے تھے اور حضرت حلیمہ کو یاد کرتے جاتے تھے، رضاعی خالہ کو لباس، سواری اور ایک سو درہم عنایت کیے، رضاعی بہن شیما غزوہ حنین کے قیدیوں میں شریک تھی، پتہ چلا تو انھیں بلایا، اپنی چادر بچھا کر بٹھایا، اپنے ہاں قیام کی دعوت دی، حضرت شیما نے اپنے قبیلے میں واپس جانے کی خواہش ظاہر کی، رضاعی بہن کو غلام، لونڈی اور بکریاں دے کر رخصت کر دیا، یہ بعد ازاں اسلام لے آئیں، یہ ہے شریعت۔

جنگ بدر کے قیدیوں میں پڑھے لکھے کفار بھی شامل تھے، ان کافروں کو مسلمانوں کو پڑھانے، لکھانے اور سکھانے کے عوض رہا کیا گیا، حضرت زید بن ثابتؓ کو عبرانی سیکھنے کا حکم دیا‘ آپؓ نے عبرانی زبان سیکھی اور یہ اس زبان میں یہودیوں سے خط و کتابت کرتے رہے، کافروں کا ایک شاعر تھا، سہیل بن عمرو۔ یہ رسول اللہ کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں بھی کرتا تھا اور توہین آمیز شعر بھی کہتا تھا، یہ جنگ بدر میں گرفتار ہوا، سہیل بن عمرو کو بارگاہ رسالت میں پیش کیا گیا، حضرت عمرؓ نے تجویز دی، میں اس کے دو نچلے دانت نکال دیتا ہوں‘ یہ اس کے بعد شعر نہیں پڑھ سکے گا، تڑپ کر فرمایا ’’ میں اگر اس کے اعضاء بگاڑوں گا تو اللہ میرے اعضاء بگاڑ دے گا‘‘ سہیل بن عمرو نے نرمی کا دریا بہتے دیکھا تو عرض کیا ’’ مجھے فدیہ کے بغیر رہا کر دیا جائے گا‘‘ اس سے پوچھا گیا ’’کیوں؟‘‘ سہیل بن عمرو نے جواب دیا ’’ میری پانچ بیٹیاں ہیں، میرے علاوہ ان کا کوئی سہارا نہیں‘‘ رسول اللہ نے سہیل بن عمرو کو اسی وقت رہا کر دیا، یہاں آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے، سہیل بن عمرو شاعر بھی تھا اور گستاخ رسول بھی لیکن رحمت اللعالمینؐ کی غیرت نے گوارہ نہ کیا، یہ پانچ بچیوں کے کفیل کو قید میں رکھیں یا پھر اس کے دو دانت توڑ دیں‘ یہ ہے شریعت۔

غزوہ خندق کا واقعہ ملاحظہ کیجیے‘ عمرو بن عبدود مشرک بھی تھا، ظالم بھی اور کفار کی طرف سے مدینہ پر حملہ آور بھی ۔ جنگ کے دوران عمرو بن عبدود مارا گیا، اس کی لاش تڑپ کر خندق میں گر گئی، کفار اس کی لاش نکالنا چاہتے تھے لیکن انھیں خطرہ تھا، مسلمان ان پر تیر برسا دیں گے، کفار نے اپنا سفیر بھجوایا، سفیر نے لاش نکالنے کے عوض دس ہزار دینار دینے کی پیش کش کی، رحمت اللعالمینؐ نے فرمایا ’’میں مردہ فروش نہیں ہوں، ہم لاشوں کا سودا نہیں کرتے، یہ ہمارے لیے جائز نہیں‘‘ کفار کو عمرو بن عبدود کی لاش اٹھانے کی اجازت دے دی، خیبر کا قلعہ فتح ہوا تو یہودیوں کی عبادت گاہوں میں تورات کے نسخے پڑے تھے، تورات کے سارے نسخے اکٹھے کروائے اور نہایت ادب کے ساتھ یہ نسخے یہودیوں کو پہنچا دیے اور خیبر سے واپسی پر فجر کی نماز کے لیے جگانے کی ذمے داری حضرت بلالؓ کو سونپی گئی، حضرت بلالؓ کی آنکھ لگ گئی، سورج نکل آیا تو قافلے کی آنکھ کھلی، رسول اللہ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا ’’بلال آپ نے یہ کیا کیا‘‘ حضرت بلالؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ جس ذات نے آپؐ کو سلایا، اس نے مجھے بھی سلا دیا‘‘ تبسم فرمایا اور حکم دیا ’’تم اذان دو‘‘ اذان دی گئی، آپؐ نے نماز ادا کروائی اور پھر فرمایا ’’تم جب نماز بھول جاؤ تو پھر جس وقت یاد آئے اسی وقت پڑھ لو‘‘ یہ ہے شریعت۔

حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سفر کر رہے تھے، کفار جنگ بدر کے لیے مکہ سے نکلے، کفار نے راستے میں حضرت حذیفہؓ کو گرفتار کر لیا، آپ سے پوچھا گیا، آپ کہاں جا رہے ہیں، حضرت حذیفہؓ نے عرض کیا ’’مدینہ‘‘ کفار نے ان سے کہا ’’ آپ اگر وعدہ کرو، آپ جنگ میں شریک نہیں ہو گے تو ہم آپ کو چھوڑ دیتے ہیں‘‘ حضرت حذیفہؓ نے وعدہ کر لیا، یہ اس کے بعد سیدھے مسلمانوں کے لشکر میں پہنچ گئے‘ مسلمانوں کو اس وقت مجاہدین کی ضرورت بھی تھی، جانوروں کی بھی اور ہتھیاروں کی بھی لیکن جب حضرت حذیفہ ؓ کے وعدے کے بارے میں علم ہوا تو مدینہ بھجوا دیا گیا اور فرمایا ’’ہم کافروں سے معاہدے پورے کرتے ہیں اور ان کے مقابلے میں صرف اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہیں‘‘ نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ منورہ آیا، رسول اللہ نے عیسائی پادریوں کو نہ صرف ان کے روایتی لباس میں قبول فرمایا بلکہ انھیں مسجد نبویؐ میں بھی ٹھہرایا اور انھیں ان کے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت بھی تھی‘ یہ عیسائی وفد جتنا عرصہ مدینہ میں رہا، یہ مسجد نبویؐ میں مقیم رہا اور مشرق کی طرف منہ کر کے عبادت کرتا رہا۔

ایک مسلمان نے کسی اہل کتاب کو قتل کر دیا، آپؐ نے مسلمان کے خلاف فیصلہ دیا اور یہ مسلمان قتل کے جرم میں قتل کر دیا گیا، حضرت سعد بن عبادہؓ نے فتح مکہ کے وقت مدنی ریاست کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا، یہ مکہ میں داخل ہوتے وقت جذباتی ہو گئے اور انھوں نے حضرت ابو سفیانؓ سے فرمایا ’’آج لڑائی کا دن ہے، آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا‘‘ رحمت اللعالمینؐ نے سنا تو ناراض ہو گئے، ان کے ہاتھ سے جھنڈا لیا، ان کے بیٹے قیسؓ کے سپرد کیا اور فرمایا ’’نہیں آج لڑائی نہیں، رحمت اور معاف کرنے کا دن ہے‘‘۔ مدینہ میں تھے تو مکہ میں قحط پڑ گیا، مدینہ سے رقم جمع کی، خوراک اور کپڑے اکٹھے کیے اور یہ سامان مکہ بھجوا دیا اور ساتھ ہی اپنے اتحادی قبائل کو ہدایت کی ’’مکہ کے لوگوں پر برا وقت ہے، آپ لوگ ان سے تجارت ختم نہ کریں‘‘۔ مدینہ کے یہودی اکثر مسلمانوں سے یہ بحث چھیڑ دیتے تھے ’’نبی اکرم فضیلت میں بلند ہیں یا حضرت موسیٰ ؑ ‘‘ یہ معاملہ جب بھی دربار رسالت میں پیش ہوتا، رسول اللہ مسلمانوں سے فرماتے ’’آپ لوگ اس بحث سے پرہیز کیا کریں‘‘۔

ثماثہ بن اثال نے رسول اللہ کو قتل کرنے کا اعلان کر رکھا تھا‘ یہ گرفتار ہو گیا، اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، اس نے انکار کر دیا، یہ تین دن قید میں رہا، اسے تین دن دعوت دی جاتی رہی، یہ مذہب بدلنے پر تیار نہ ہوا تو اسے چھوڑ دیا گیا، اس نے راستے میں غسل کیا، نیا لباس پہنا، واپس آیا اور دست مبارک پر بیعت کر لی۔ ابو العاص بن ربیع رحمت اللعالمین ؐکے داماد تھے، رسول اللہ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ ان کے عقد میں تھیں، یہ کافر تھے، یہ تجارتی قافلے کے ساتھ شام سے واپس مکہ جا رہے تھے، مسلمانوں نے قافلے کا مال چھین لیا، یہ فرار ہو کر مدینہ آگئے اور حضرت زینبؓ کے گھر پناہ لے لی، صاحبزادی مشورے کے لیے بارگاہ رسالت میں پیش ہو گئیں‘ رسول اللہ نے فرمایا ’’ابوالعاص کی رہائش کا اچھا بندوبست کرو مگر وہ تمہارے قریب نہ آئے کیونکہ تم اس کے لیے حلال نہیں ہو‘‘ حضرت زینبؓ نے عرض کیا ’’ابوالعاص اپنا مال واپس لینے آیا ہے‘‘ مال چھیننے والوں کو بلایا اور فرمایا گیا ’’یہ مال غنیمت ہے اور تم اس کے حق دار ہو لیکن اگر تم مہربانی کر کے ابوالعاص کا مال واپس کر دو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اجر دے گا‘‘ صحابہؓ نے مال فوراً واپس کر دیا، آپ ملاحظہ کیجیے، حضرت زینبؓ قبول اسلام کی وجہ سے مشرک خاوند کے لیے حلال نہیں تھیں لیکن رسول اللہ نے داماد کو صاحبزادی کے گھر سے نہیں نکالا، یہ ہے شریعت۔

حضرت عائشہ ؓنے ایک دن رسول اللہ سے پوچھا ’’ زندگی کا مشکل ترین دن کون سا تھا‘‘ فرمایا، وہ دن جب میں طائف گیا اور عبدیالیل نے شہر کے بچے جمع کر کے مجھ پر پتھر برسائے، میں اس دن کی سختی نہیں بھول سکتا، عبدیالیل طائف کا سردار تھا، اس نے رسول اللہ پر اتنا ظلم کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی جلال میں آ گئی‘ حضرت جبرائیل امین تشریف لائے اور عرض کیا، اگر اجازت دیں تو ہم اس پورے شہر کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیں، یہ سیرت کا اس نوعیت کا واحد واقعہ تھا کہ جبرائیل امین نے گستاخی رسول پر کسی بستی کو تباہ کرنے کی پیش کش کی ہو اور عبدیالیل اس ظلم کی وجہ تھا، عبد یالیل ایک بار طائف کے لوگوں کا وفد لے کر مدینہ منورہ آیا، رسول اللہ نے مسجد نبویؐ میں اس کا خیمہ لگایا اور عبد یالیل جتنے دن مدینہ میں رہا، رسول اللہ ہر روز نماز عشاء کے بعد اس کے پاس جاتے‘ اس کا حال احوال پوچھتے، اس کے ساتھ گفتگو کرتے اور اس کی دل جوئی کرتے۔

عبداللہ بن ابی منافق اعظم تھا، یہ فوت ہوا تو اس کی تدفین کے لیے اپنا کرتہ مبارک بھی دیا‘ اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی اور یہ بھی فرمایا، میری ستر دعاؤں سے اگر اس کی مغفرت ہوسکتی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ بار اس کے لیے دعا کرتا‘‘ یہ ہے شریعت۔ مدینہ کی حدود میں آپ کی حیات میں نو مسجدیں تعمیر ہوئیں، آپؐ نے فرمایا ’’تم اگر کہیں مسجد دیکھو یا اذان کی آواز سنو تو وہاں کسی شخص کو قتل نہ کرو‘‘ یہ ہے شریعت۔

ایک صحابیؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں‘‘ جواب دیا ’’غصہ نہ کرو‘‘ وہ بار بار پوچھتا رہا، آپؐ ہر بار جواب دیتے ’’غصہ نہ کرو‘‘ یہ ہے شریعت اور اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں فرمایا ’’ پیغمبرؐ اللہ کی بڑی رحمت ہیں، آپ لوگوں کے لیے بڑے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں، آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپ کے گرد و پیش سے چھٹ جاتے‘‘ اور یہ ہے شریعت لیکن ہم لوگ نہ جانے کون سی شریعت تلاش کر رہے ہیں، ہم کس شریعت کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیا کوئی صاحب علم میری رہنمائی کرسکتا ہے؟۔


بشکریہ روزنامہ 'ایکسپریس'

Higher Education in Pakistan

$
0
0
 

ایک زمانہ تھا جب سیاہ گاؤن میں ملبوس جامعہ کراچی کے طلبا و طالبات کو لوگ رشک کی نظروں سے دیکھتے تھے اور طلبا و طالبات سے بھری شہر میں دوڑتی ہوئی جامعہ کراچی کی بسیں ایک باوقار علمی سماں باندھتی تھیں مگر آج وہ مناظر خواب محسوس ہوتے ہیں۔ اب نہ وہ سیاہ گاؤن نظر آتے ہیں اور نہ وہ رشک بھری نگاہیں البتہ شہر میں کہیں کڈز (Kids) یونیورسٹی کا بورڈ ہمیں پریشان کرتا ہے تو کہیں چھوٹے چھوٹے اسکولوں پر آویزاں کیمپس ون (Campus I) اور کیمپس ٹو (Campus II) کے بورڈ ہمیں حیران کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس شہر کراچی میں نئی قائم ہونے والی یونیورسٹیوں کی بھرمار نے لوگوں کے ذہنوں سے یونیورسٹی کا مفہوم ہی بدل ڈالا

ملک میں اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کا فروغ یقینا قابل تعریف اور خوش آیند ہے مگر تعلیم کی کوئی بھی سطح ہو اس میں اگر معیار اور ملکی ضروریات کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے تو نتائج زیادہ موثر اور مثبت نہیں ہوتے۔

1947 میں پاکستان جن علاقوں پر قائم ہوا اس وقت یہاں پر صرف دو یونیورسٹیاں تھیں۔ بعدازاں سندھ یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی یکے بعد دیگرے قائم ہوئیں۔ بلوچستان یونیورسٹی 1970 کے بعد قائم ہوئی (بلوچستان کو 1969 میں صوبے کا درجہ ملا)۔ 70 کی دہائی میں ملتان اور بھاولپور میں بھی یونیورسٹی قائم کردی گئی اور کراچی کے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کو بھی یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا یہ تمام یونیورسٹیاں سرکاری ہیں ان کی عمارتیں اور محل وقوع یونیورسٹی کے شایان شان ہے جب یہ قائم ہوئیں تو ان کا اپنا یونیورسٹی کا معیار بھی رکھا گیا۔

قیام پاکستان کے بعد نجی شعبے نے بھی ملک میں تعلیم کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا اور پرائمری سطح سے لے کر ڈگری کالج تک تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ان میں بعض لوگوں کی خدمات بڑی بے لوث تھیں جو اپنے اداروں کو یونیورسٹی کی سطح تک لے جانا چاہتے تھے۔ ان میں ڈاکٹر محمود حسین کا نام اس ضمن میں قابل ذکر ہے جنھوں نے کراچی میں آبادی سے دور ملیر کے ایک پرفضا مقام پر ایک بہت وسیع و عریض رقبے پر جامعہ ملیہ کالج بالکل یونیورسٹی کی طرز پر قائم کیا۔ ڈاکٹر محمود حسین اسے یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے اور اس کی بنیاد انھوں نے جامعہ ملیہ یونیورسٹی دہلی اور علی گڑھ یونیورسٹی کی طرز پر رکھی۔

جامعہ ملیہ دہلی ان کے بھائی ڈاکٹر ذاکر حسین نے قائم کی تھی جو بعدازاں بھارت کے صدر بھی ہوئے۔ ڈاکٹر محمود حسین کا جامعہ ملیہ کالج نہ صرف سائنس آرٹس اور کامرس کا ڈگری کالج ہے بلکہ اس میں بہت سارے تعلیمی اداروں کی علیحدہ علیحدہ عمارتیں قائم کی گئیں جو ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہیں۔ ان میں پرائمری اسکول، سیکنڈری اسکول، پی ٹی، سی ٹی اور بی ایڈ کالج (اساتذہ کی تربیت کے ادارے) ٹیکنیکل تعلیم کا اسکول، وسیع دو منزلہ لائبریری، کالج آڈیٹوریم، طلبا کے لیے ہاسٹل اور اساتذہ کے رہائشی مکانات شامل ہیں۔ جامعہ ملیہ کالج نے تعلیم کا اعلیٰ معیار پیش کیا۔ 1970 کی دہائی میں نجی شعبے کے تعلیمی، مالیاتی اور صنعتی ادارے جب قومی یا سرکاری ملکیت میں لے لیے گئے تو تعلیم کے میدان میں نجی شعبے کی حوصلہ شکنی ہوئی اور ان کے مالکان کو صدمہ پہنچا۔

1970 کی دہائی کے بعد ہم نے یہ دیکھا کہ پاکستان میں تعلیم کا معیار بہتر ہونے کی بجائے گرتا جا رہا ہے۔ خصوصاً اعلیٰ تعلیم میں اس سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آتی اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں بلاشبہ اضافہ ہوا ہے مگر اس میدان میں ہمیں تعداد سے زیادہ معیار کی ضرورت ہے۔ 1990 کی دہائی میں نجی شعبے میں یونیورسٹیاں قائم کرنے کا سلسلہ چل نکلا اور اب تک مختلف علمی میدانوں میں نجی شعبے کی کافی یونیورسٹیاں قائم ہوچکی ہیں جب کہ کچھ سرکاری کالجوں کو بھی یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ ان نئی قائم ہونے والی یونیورسٹیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان میں سے اکثر یونیورسٹی کی تعریف اور معیار پر پوری نہیں اترتیں۔اعلیٰ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے اور معاشرے کا سماجی ماحول بھی اس سے بہتر ہوتا ہے۔ مگر ملک میں محض یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھا کر اعلیٰ تعلیم کا فروغ نہیں ہوسکتا کیونکہ اعلیٰ تعلیم اگر معیاری نہ ہو تو معاشرے کے لیے مثبت اور موثر نہیں ہوتی۔

یہاں ہم مختصراً ان اقدامات پر روشنی ڈالیں گے جو ہمارے ملک میں یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کو زیادہ سے زیادہ موثر اور دوررس بنانے میں مدد دیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ ہمارے ملک میں کن کن شعبہ علمی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹیوں کی ضرورت ہے یا ان کی کمی ہے تاکہ صرف ان ہی شعبہ علمی میں نئی یونیورسٹی بنانے کی اجازت دی جائے۔ پھر یہ کہ کیا نئی یونیورسٹی قائم کرنے کا درخواست دہندہ متعلقہ یونیورسٹی کی تمام مطلوبہ ضروریات پوری کر رہا ہے یا نہیں ۔ نئی قائم ہونے والی یونیورسٹی کا محل وقوع اعلیٰ تعلیم کے لیے مطلوبہ علمی ماحول مہیا کرنے کے قابل ہے یا نہیں اس ضمن میں ہائر ایجوکیشن کمیشن اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔

اعلیٰ تعلیم صرف ان طالبعلموں کو دی جانی چاہیے جو حقیقی معنوں میں اعلیٰ تعلیم کے طلبگار ہیں اس ضمن میں طلبا کو یونیورسٹی کے کسی بھی شعبے میں داخلہ دینے سے قبل ان کے رجحان کا امتحان (Aptitude Test) ضرور لیا جائے۔ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی بھرتی خالصتاً قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر کی جائے اور روابط اور تعلقات کی بنیاد پر بھرتیوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

آج کل تجارتی بنیادوں پر تعلیم نہ صرف نجی یونیورسٹیوں میں دی جا رہی ہے بلکہ سرکاری یونیورسٹیاں بھی اس سمت میں کچھ کام کر رہی ہیں۔ نجی شعبے کی مدد سے سرکاری یونیورسٹیوں میں نئے شعبے یا عمارتیں بنائی جا رہی ہیں اس ضمن میں بیرونی ممالک کو بھی اپنے شعبے یہاں کی یونیورسٹیوں میں کھولنے کی اجازت مل گئی ہے۔ یہاں اس بات پر نظر رکھنے کی سخت ضرورت ہے کہ اگر پاکستان کے باہر سے کوئی بیرون ملک پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں اپنا کوئی بھی شعبہ قائم کرتا ہے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس متعلقہ شعبے کی ہمارے ملک میں تعلیم اور تدریس پاکستان کی نظریاتی اساس اور مذہب سے متصادم نہ ہو۔ پھر ہمارے ملک میں نجی شعبے کی کچھ یونیورسٹیوں نے اپنا الحاق بیرون ملک کی یونیورسٹیوں سے بھی کر رکھا ہے ان کے ہاں جو سلیبس اور کتب پڑھائی جا رہی ہیں ان کی جانچ پڑتال بھی اس ضمن میں ضروری ہے۔

   طلبا کو صحیح معنوں میں اور حقیقی تعلیمی ماحول فراہم کرنا آج وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ ان کا عمل ہی مجموعی طور پر معاشرے میں مثبت یا منفی اثرات کو جنم دیتا ہے۔

ہمارا ملک پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں آبادی کا بڑا حصہ دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں ابھی تک ناخواندگی ختم نہیں ہوئی ہے اور بہت سارے علاقے پرائمری تعلیم کی سہولیات سے محروم ہیں۔ ہمارے بڑے شہروں میں بھی ناخواندہ افراد کی اچھی خاصی تعداد رہتی ہے اور بے شمار غریب بچے ابھی تک ابتدائی تعلیم سے بھی محروم ہیں چنانچہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے ساتھ ہماری ترجیحات میں اولین کوشش یہ ہونی چاہیے کہ پاکستان سو (100) فیصد ناخواندگی کی شرح حاصل کرلے اور پاکستان کا ہر شہری کم ازکم بنیادی اور پرائمری تعلیم سے بہرہ مند ہوسکے اس ضمن میں ہمارے سرکاری اور نجی دونوں شعبے مل کر کام کرسکتے ہیں۔ ملک میں اعلیٰ تعلیم کو زیادہ سے زیادہ بہتر اور موثر کرنے کے لیے یہ امر بھی ازبس ضروری ہے کہ پاکستان کی پوری آبادی تعلیم سے بہر مند ہو۔

اعلیٰ تعلیم کے ضمن میں مختلف شعبہ علمی میں ہمارے پاس ابھی تک ایسے تحقیقی مواد کی سخت قلت ہے جسے ہمارے اپنے ملک کے محققین اور پروفیسرز یا اساتذہ نے متعلقہ علم پر موجود ابتدائی اور بنیادی حقائق کی بنیاد پر تحریر کیا ہو اور جس میں پاکستانیت جھلکتی ہو۔ ہمارے طالبعلم دوسرے ممالک کے طلبا سے ذہنی اور عقلی صلاحیتوں میں کسی طرح بھی کم تر نہیں ہیں۔ ہمارے اعلیٰ تعلیم کے ادارے طلبا میں پھیلی ہوئی مایوسی اور کم مائیگی کو ختم کرکے ان میں زیادہ سے زیادہ خود اعتمادی اور حب الوطنی کے جذبات بہتر طور پر پیدا کرسکتے ہیں چنانچہ اس سلسلے میں ہمیں امید ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے سرکاری اور نجی شعبوں کی یونیورسٹیاں اپنی تدریسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنے متعلقہ عملی شعبوں میں تحقیقی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیں گی تاکہ غیر ملکی تحقیقات اور کتابوں پر ہمارا زیادہ انحصار ختم ہوسکے اور ہمارے ملک میں بھی ہر شعبے میں نئی ایجادات کے دروازے کھلیں۔

آخر میں ہم دعا گو ہیں کہ ہماری یونیورسٹیاں خواہ سرکاری شعبے میں ہوں یا نجی شعبے میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں زیادہ سے زیادہ موثر کردار ادا کریں اور یہاں سے فارغ التحصیل طلبا و طالبات کی اکثریت محض ڈگری یافتہ نہ ہو بلکہ حقیقی معنوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو۔

ڈاکٹر شہلا کاظمی  

Higher Education in Pakistan

 

Enhanced by Zemanta
Viewing all 6213 articles
Browse latest View live