↧
Where is Missing Malaysia Airlines flight MH370?
↧
Pakistan, 60 million unregistered mobile SIMs were blocked
پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے) کی ہدایت پر ملک بھر میں 60 لاکھ سے زائد
غیر رجسٹر موبائل فون سمز کو بلاک کردیا گیا۔
پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کی ہدایت پر موبائل فون آپریٹرز کی جانب سے 60 لاکھ سے زائد موبائل فون سمز بلاک کردی گئی ہیں، بند کی جانے والی تمام موبائل فون سمز نادرا کے وضع کردہ نظام سے پہلے جاری کی گئیں تھیں جب کہ پی ٹی اے کی جانب سے موبائل آپریٹرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ غیر قانونی سمز بلاک کرنے کے عمل مزید تیز کیا جائے۔
واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں تمام موبائل آپریٹرز کی جانب سے جاری کردہ 13 کروڑ سے زائد سمز استعمال کی جارہی ہیں تاہم غیر رجسٹرڈ سمز کے استعمال سے ملک میں جرائم اور دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
Pakistan, 60 million unregistered mobile SIMs were blocked
↧
↧
سعودی عرب کی با برکت امداد
شیخ سعدی کے کئی شعروں کی طرح یہ شعر بھی ہمارا ایک محاورہ بن گیا کہ
دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست
در پریشاں حالی و درماندگی
کہ دوست وہ ہوتا ہے جو کسی دوست کی اس کی پریشان حالی اور درماندگی میں مدد کرے۔ سعودی عرب ہمارا پرانا اور صحیح دوست ہے لیکن وہ ایک ایسی دنیا میں آباد ہے اور تیل کی وجہ سے اتنا امیر ہے کہ عالمی تعلقات سے الگ تھلک نہیں رہ سکتا خصوصاً امریکا کی بیرونی پالیسیاں اسے پریشان کرتی رہتی ہیں لیکن یہ ملک پاکستان کو نہیں بھولتا اپنی مجبوریوں کے باوجود اسے یاد رکھتا ہے، یہ ملک علاوہ جغرافیائی اہمیت کے مسلمانوں کے لیے اپنے مقدس مقامات کی وجہ سے ایک ایسا ملک ہے کہ اس کے دفاع کے لیے جان قربان کر دینا کسی مسلمان کا سب سے بڑا اعزاز اور خوش نصیبی ہے۔ چنانچہ سعودی عرب سے کوئی طاقت یا ملک کتنا بھی ناراض رہے وہ ایک حد سے آگے نہیں جا سکتا۔ وہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو ناراض اور فراموش نہیں کر سکتا۔ یہ مسلمان سعودی عرب کا دفاعی حصار ہیں اور کوئی ہمارے فوجیوں سے پوچھے تو ایک ایک سپاہی اس کی تصدیق کرے گا۔
اسلام جس قدر برصغیر میں ہے اتنا کسی دوسرے خطے میں نہیں ہے۔ پھر پاکستان تو بنا ہی اسلام کے نام پر ہے۔ پیغمبروں کی سرزمینوں پر آباد عرب تسلیم کرتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کو جس قدر برصغیر کے مسلمانوں نے سمجھا اتنا کسی دوسرے ملک میں نہیں سمجھا گیا۔ پاکستان کا وجود ہی اس کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ مسلمانوں نے یہ ملک اپنے وجود کے تحفظ کے لیے بنایا تا کہ اس میں ان کی تہذیب و ثقافت پھلے پھولے اور محفوظ رہے۔ سعودی عرب کو پاکستان اور اس خطے میں آباد مسلمانوں کے ان جذبات کا احساس ہے۔ آج پاکستان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ایک مضبوط ترین ملک ہے۔ عمر میں دنیا کے ہر مسلمان ملک سے چھوٹا مگر اسلامی شعور اور احساس میں سب سے بڑا ہے۔ ہمیں بے عمل اور گمراہ حکمرانوں نے بہت مارا ہے اور ہمارے اندر پوشیدہ اسلامی جوہر پر مسلسل ضربیں لگائی ہیں لیکن یہ جوہر ہمارے وجود کا حصہ ہے اسے نکال دیں تو پاکستان ایک غبارہ رہ جاتا ہے۔
بات مسلمانوں کے روحانی اور دنیاوی مرکز سعودی عرب اور پاکستان کے تعلق سے شروع ہوئی تھی جو جذبات میں ذرا دور نکل گئی۔ ہمارے پرلے درجے کے کرپٹ حکمرانوں نے جو کوئی نصف صدی سے ہمارے اوپر اپنی تمام تر بُری خواہشات کے مسلط ہیں ہمارے اس ملک کو اس کے لاتعداد وسائل کے باوجود ایک غریب ملک بنا دیا ہے۔ شہید حکیم سعید کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ رحمن میں جتنی نعمتوں کا ذکر کیا ہے مسلمانوں کے اور پاکستانیوں کے پاس اس سے زیادہ ہیں، وہ گنتی بھی کیا کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ کون کون سی نعمتیں زیادہ ہیں۔ تازہ مثال ہے تھر کے کوئلے کی جسے ہم اب نکال رہے ہیں اور جس سے ہم بجلی بنائیں گے۔ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے اس ملک میں کیا رکاوٹ تھی کہ بجلی کے لیے ہم نے اس سے پہلے یہ خزانہ نہیں کھولا یہ رکاوٹ ہمارے حکمران تھے جو جیسا بھی ہے اسے ایسا ہی چلنے دیں اور جو مال ہے وہ خود کھاتے رہیں۔ بیرونی ملکوں کے بینکوں میں جمع یہ اربوں ڈالر کیا ہمارے حکمرانوں کو ورثے میں ملے تھے۔ انھوں نے ملک کو برملا کھایا اور ملی بھگت کے ساتھ اسے ہضم کیا۔ یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ ہر پاکستانی ملک سے باہر جانے کو تیار ہے بلکہ بے چین ہے۔
ہماری اس غربت کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کے ہر مالیاتی ادارے کے سامنے ہمارے ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں۔ کسی دربار کے فقیر کی طرح ہم اپنا کشکول لیے پھرتے ہیں اور جب کوئی ہمیں قرض دے دیتا ہے تو ہم بے شرم اس کا جشن مناتے ہیں۔ ہمارا جو وزیر قرض لینے میں کامیاب ہوتا ہے وہ ہمارا کامیاب وزیر ہوتا ہے۔ جیسے ان دنوں کوئی ڈار صاحب ہیں۔ سعودی عرب سے ہماری یہ حالت دیکھی نہ گئی اور اس نے ہمیں اچھی طرح ٹٹول کر فی الحال کچھ رقم دے ڈالی جو اسے کسی نہ کسی صورت میں واپس مل جائے گی۔ اس برادرانہ قرض سے ہمارا کام چل گیا اور ہمارا ڈوبتا ہوا روپیہ سر باہر نکال کر تیرنے لگا البتہ ہمارے باغ و بہار شیخ رشید صاحب کو ڈبو گیا۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے دو چار ارب ڈالر کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔ اتنی رقم تو ہمارا کوئی پاکستانی سیٹھ بھی دے سکتا ہے اور کوئی اچھی حکومت قومی وسائل کو صحیح استعمال کر کے سال دو سال میں ان قرضوں سے نجات بھی پا سکتی ہے۔
آج اگر ہم غربت میں غوطے کھا رہے ہیں تو کل ہم بحال ہو کر ایک معمول کی زندگی بسر کر رہے ہوں گے اور یہ کچھ بعید نہیں ہے۔ ایک عالمی مالیاتی ادارے نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان کبھی ختم نہیں ہو سکتا، یہ ناکام ریاست نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس کھانے کو اناج بہت ہے اور پاکستانی بھوکے نہیں مر سکتے۔ جو قوم اپنے گھر میں پیٹ بھر سکتی ہے وہ ناکام کیسے کہلا سکتی ہے لیکن اپنے لیڈروں کے بارے میں کیا کہیں اب تو یہ خود ہی اپنے پردے چاک کر رہے ہیں۔ ان کے ایک ساتھی نے ان کی راتوں کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا ہے اور وہ بھی برملا۔ کیا پاکستان جیسے قرض دار ملک کے نمائندے اور حکمران ایسے ہونے چاہئیں جس دن ان کے دن اور راتیں ایک جیسی ہوں گی اس دن ہمارے دن روشن اور راتیں پر سکون ہو جائیں گی۔ سعودی عرب نے ہماری بر وقت مدد کی ہے شاید ہم نے بھی کسی شکل میں کچھ خدمت کی ہو لیکن ہم سر زمین حجاز کی خدمت کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے ان کی رحمت اور مغفرت کے طلب گار ہیں۔ ہمارا ہر سپاہی اور ہر پاکستانی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے اور سعودی عرب اس مدد کا شکریہ ادا کرتا ہے۔
ہمارا روپیہ بڑی حد تک بحال ہو گیا ہے۔ گویا اپنی زندگی پر ہمارا اعتماد بحال ہوا ہے۔ میں کوئی ماہر معاشیات نہیں ہوں، میں تو اپنی تنخواہ کا حساب بھی نہیں رکھ سکتا لیکن اتنا دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے کاروباری لوگ قدرے اطمینان میں آ گئے ہیں۔ سعودی امداد اپنی مالیت سے زیادہ ہمارے لیے برکت میں بڑی ہے۔
↧
Pakistan is beautiful — and it's mine
کرہ ارض پر موجود آزاد ممالک اور ریاستوں کا شمار کیا جائے تو چھوٹے بڑے ممالک کو ملا کر یہ تعداد 200 کے لگ بھگ بنتی ہے۔ ان میں سے ایک ملک جو آبادی کے اعتبار سے چھٹے اور رقبے کے لحاظ سے 34ویں نمبر پر ہے، اسے دنیا بھر کے دانشور عجوبہ قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ ملک بیک وقت خوش قسمت بھی ہے اور بدقسمت بھی۔ خوش قسمت اس لئے کہ قدرت نے اسے بیشمار وسائل اور نعمتوں سے نوازا ہے۔یہ ملک روس سے دس گنا چھوٹا ہے لیکن اس کا نہری نظام اس کے مقابلے میں دس گنا بڑا ہے۔
بہترین موسم، گرم پانیوں، معتدل آب و ہوا اور زرخیز زمین کے باعث یہ خطہ کاشتکاری کے لئے انتہائی موزوں سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس ملک کی 40 فیصد زرعی اراضی اب بھی کاشتکاری کے لئے بروئے کار نہیں لائی گئی اور جدید سہولتوں کے فقدان کے باعث فی ایکڑ پیداوار بھی بہت کم ہے، مگر اس کے باوجود یہ ملک دنیا بھر میں دیسی گھی کی پیداوار کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ بھینس کے دودھ اور چنے کے مراکز کا جائزہ لینے لگیں تو یہ ملک دوسرے نمبر پر نظر آتا ہے۔ بھنڈی سمیت بہت سی سبزیوں کی پیداوار کے اعتبار سے عالمی ماہرین کے تخمینوں کے مطابق یہ ملک تیسرے نمبرہے۔ اگر خوبانی ،کپاس اور گنا پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست بنانے لگیں تو اس ملک کا شمار چوتھے بڑے ملک کے طور پر ہوتا ہے۔ پیاز اور ٹماٹر کے ضمن میں اسے دنیا کا پانچواں بڑا ملک سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ ملک کھجور اور انواع و اقسام کی دالیں پیدا کرنے والے ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے اور پھلوں کے بادشاہ آم کی پیداوار میں ساتویں نمبر پر ہے۔ چاول اور گوبھی کی پیداوار کے حوالے سے یہ آٹھواں بڑا ملک ہے۔ ساگ، میتھی، پالک اور گندم کی فصل کا حساب لگایا جائے، تو یہ ان تمام ممالک پر سبقت لے جانے میں نویں نمبر پر ہے۔ اس طرح کینو اور مالٹے کی پیداوار کے لحاظ سے یہ دسواں بڑا ملک ہے۔ اس ملک میں ہر سال 24 ملین میٹرک ٹن گندم پیدا ہوتی ہے جو براعظم افریقہ کے تمام ممالک کی مجموعی پیداوار سے زیادہ ہے۔ گندم کے بعد دوسری بڑی غذائی جنس چاول ہے۔ دنیا بھر کے ممالک ہر سال 670 ملین میٹرک ٹن چاول اگاتے ہیں جس میں اس ملک کا حصہ تقریباً 7ملین میٹرک ٹن ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے معاملے میں یہ ملک نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ ہر سال 470000 ٹن فروٹ اور420000 ٹن سبزیاں بر آمد بھی کرتا ہے۔ یوں زرعی اجناس کی مجموعی پیداوار کے میدان میں اس ملک کا 25 واں نمبر ہے۔
یہ ملک صرف زرعی اعتبار سے ہی خوش قسمت نہیں بلکہ صنعتی پیداوار کے لحاظ سے بھی 55ویں نمبر پر ہے۔ اس کی ٹیکسٹائل مصنوعات یورپ تک فروخت ہوتی ہیں۔ معدنیات کے اعتبار سے بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ یہ ملک قسمت کا دھنی ہے۔ یہ کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے چوتھے، گیس کے ذخائر کے حوالے سے چھٹے جبکہ تانبے کے ذخائر کے لحاظ سے ساتویں نمبر پر ہے۔ اس ملک میں سونے کا صرف ایک بڑا ذخیرہ جو دریافت تو ہو چکا مگر ابھی تک پہاڑوں کے نیچے ہی دفن ہے،اس کی مالیت کا تخمینہ 300ارب ڈالر لگایا جاتا ہے۔ یہاں کوئلے کا صرف ایک ذخیرہ جو 9600 مربع کلومیٹر تک محیط ہے، یہاں 184بلین ٹن کوئلے کے ذخائر کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اس کی مالیت کا تخمینہ 25000ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہاں کوئلے سے 10 کروڑ بیرل ڈیزل تیار کیا جا سکتا ہے، 500 سال تک بلاتعطل سالانہ 50 ہزار میگا واٹ بجلی بنائی جا سکتی ہے یا پھر لاکھوں ٹن کھاد تیارکی جا سکتی ہے۔ خوش قسمتی کی داستان یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ اس ملک میں74 ملین ٹن ایلومونئم دستیاب ہے، 500 ملین ٹن تانبا موجود ہے، 46 ملین ٹن جست دریافت ہو چکا، 350 ملین ٹن جپسیم ڈھونڈا جا چکا ہے، فاسفیٹ کے ذخائر کی مقدار 22ملین ٹن ہے جبکہ لوہے کے ذخائر کی مقدار 600 ملین ٹن بتائی جاتی ہے۔
اگر آپ کمزور دل کے مالک نہیں تو میں آپ کو بتا ہی دوں کہ یہ خوش قسمت ملک کوئی اور نہیں، آپ کا پیارا پاکستان ہے، جہاں غربت کا ننگا ناچ ہم برسہا برس سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ ملک آٹھویں عالمی طاقت ہے،اس کے پاس دنیا کی چوتھی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی اور چھٹی طاقتور ترین فوج ہے مگر اس کے باوجود دہشت گرد کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں اور دہشت گردی نے پورے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اگر ان سب وسائل کے باوجود پاکستان میں گرمیاں شروع ہونے سے پہلے ہی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ سولہ گھنٹے یومیہ ہو جائے تو مجھے اس بات سے کیا غرض کہ کہاں کتنے ٹن کوئلے کے ذخائر موجو د ہیں؟ میر پور خاص ڈویژن کی ایک چھوٹی سی تحصیل کُنری سے جھڈو تک کا علاقہ جسے ریڈ چلی کاریڈور کہتے ہیں، یہاں سالانہ 2لاکھ ٹن سرخ مرچ پیدا ہوتی ہے اور اسے ایشیاء کی سب سے بڑی آڑھت کا درجہ حاصل ہے تو سندھی اس فخر کا کیا کریں ؟ بچوں کو کھانے کے بجائے یہ ایوارڈ تو نہیں کھلایا جا سکتا۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود تھر میں قحط سے بھوکوں مرتے انسانوں کو اس بات میں کیا دلچسپی کہ ریت کے نیچے دفن زمین میں بلیک گولڈ کی کتنی مقدار موجود ہے۔ دودھ کے لئے بلکتے اور ایڑیاں رگڑتے بچوں کو یہ لالی پاپ کیسے دیا جائے کہ ان کا ملک دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے اولین دس ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ جوہڑ سے جانوروں کے ساتھ پانی پیتے اور تعفن زدہ گوٹھوں کے کچے مکانوں میں سسک سسک کر جیتے سندھیوں کو اس سے کیا لینا دینا کہ موہنجودڑو میں تہذیب و ثقافت کے کیسے دفینے موجود ہیں۔ لاڑکانہ اور شہداد پور میں بنیادی سہولتوں سے محروم بدقسمت افراد کے اس بات میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے کہ ان کی دھرتی کس قدر خوش قسمت ہے۔ بلوچستان کے وہ دورافتادہ دیہات جہاں اس ترقی یافتہ دورمیں بھی کسی گھر میں سنگ و خشت کا عمل دخل نہیں، مٹی اور گارے سے ایستادہ گھروں میں مقیم ان پاکستانیوں کو میں کیسے سمجھائوں کہ یہاں کتنے ملین ٹن جپسم دریافت ہوئی ہے۔ جہاں زندگی کا کوئی مول نہیں،وہاں یہ بات کس قدر بے معنی لگتی ہے کہ تمہارے ہاں ریکوڈک کے علاقے میں سونے کے ذخائر کی مالیت بہت زیادہ ہے۔
میں جنوبی پنجاب میں پھٹے پُرانے کپڑوں میں کپاس چُنتی خواتین کو کیسے بتائوں کہ ریشم کے تار بُنتی ملوں کا کپڑا ان کی پہنچ سے کیوں دور ہے۔ جہاں بکرے کا گوشت کھانے کے لئے عیدالاضحی کا انتظار کیا جاتا ہو، وہاں یہ بات کس قدر کھوکھلی محسوس ہوتی ہے کہ پاکستان سالانہ کتنے ٹن گوشت برآمد کرتا ہے اور اس سے کس قدر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے وہ غیور پاکستانی جو دس سے پندرہ روپے کی روٹی خریدتے ہیں ،انہیں اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پاکستان میں گندم کی پیداوار براعظم جنوبی امریکہ کے برابر ہے۔ یہ سوال ہم سب کے لئے سوہان روح ہے کہ ہماراملک بیک وقت خوش قسمت اور بدقسمت کیوں ہے؟کبھی اناج کا قحط، کبھی چینی کی قلت، کبھی پانی کی کمی سے سوکھتی فصلیں تو کبھی سیلاب میں ڈوبتے کھیت، کبھی پیٹرول اور گیس کی عدم دستیابی تو کبھی بجلی کی قلت۔اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو یہاں کسی شئے کی کوئی کمی نہیں،صرف قیادت کا شارٹ فال ہے۔ جس دن ہم اس شارٹ فال کو دور کرنے میں کامیاب ہو گئے اور رہزنوں کے روپ میں موجود رہبروں سے نجات مل گئی،سب الجھنیں سلجھ جائیں گی،سب دکھ ٹل جائیں گے اور ہم سب کے دن بدل جائیں گے۔
محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ "جنگ
Pakistan is beautiful — and it's mine "
↧
World's worst air accidents
دنیا میں بڑے بڑے حادثے فضائی حادثوں کی صورت میں سامنے آئے ہیں،جن میں کسی زی ہوش کا معجزے کی صورت میں بچ جانا بھی ناممکن ہی نظر آتا ہے۔ملائیشیا کا ایک مسافر طیارہ تاحال لاپتہ ہے۔ اس پر کْل 239 افراد سوار تھے۔جن کے بارے میں تاحال یہی کہا جارہا ہے کہ وہ سب اس حادثے کا شکار ہو چکے ہیں،جب تک ملبے کی نشاندہی نہیں ہو جاتی ان کے وارثین گرچہ تڑپتے اور سسکتے رہیں گے لیکن ایسے لواحقین یہ بھی جانتے ہیں کہ جب سے فضائی سفر شروع ہوئے ہیں ان جیسے کئی بدقسمت ہیں جو اپنوں کو آخری سفر کے لئے تیار بھی نہیں کرسکے۔آئیے دنیا کے بدترین فضائی حادثات پر ایک مختصر نظر ڈالی گئی ہے۔
3جون 2012ء: دانا ایئر کا MD-83 جیٹ طیارہ نائیجیریا کے سب سے بڑے شہر لاگوس کے رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہوا، جس کے نتیجے میں اس پر سوار تمام 153 افراد مارے گئے۔ 20 اپریل 2012ء: بھوجا ایئر کا بوئنگ 737 طیارہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے قریب خراب موسم کے دوران لینڈنگ کی کوشش کے دوران حادثے کا شکار ہوا۔ اس پر سوار 127 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ 9جنوری 2011ء: ایران ایئر کا بوئنگ 727 ملک کے شمال مغرب میں ٹوٹ کے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا، جس کی وجہ سے 77 افراد ہلاک ہوئے۔ 12 مئی 2010ء : افریقہ ایئر ویز کا طیارہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کی طرف جاتے ہوئے جنوبی افریقہ کے صحرا میں تباہ ہوا۔ اس حادثے میں کْل 103 افراد مارے گئے۔ 10 اپریل 2010ء: پولینڈ کے صدر کا طیارہ روس کے ایک مغربی شہر کے قریب حادثے کا شکار ہوا، جس کے نتیجے میں اعلیٰ حکام سمیت 96 افراد ہلاک ہوئے۔ 30 جون 2009ء: یمنیہ ایئر بس 310 طیارہ بحر ہند میں گر کر تباہ ہو گیا اور اس پر سوار 153 افراد ہلاک ہوئے۔ یکم جون 2009ء: ایئر فرانس کا طیارہ اے330 خراب موسم اور طوفان کی وجہ سے بحر اوقیانوس میں گر کر تباہ ہوا اور اس پر سوار 228 افراد مارے گئے۔
19 فروری 2003ء: ایران کے پاسداران انقلاب کا ایک فوجی طیارہ پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہوا، جس کے نتیجے میں 275 افراد ہلاک ہوئے۔ 25 مئی 2002ء: چائنا ایئر لائن کا بوئنگ 747 طیارہ ہوا ہی میں کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا اور آبنائے تائیوان میں آ گرا۔ اس پر سوار 225 مسافر مارے گئے تھے۔ 12 نومبر 2001ء: امریکن ایئر لائن کا طیارہ اے 300 جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ سے ٹیک آف کرنے کے فوری بعد حادثے کا شکار ہوا اور اس حادثے کے نتیجے میں 265 افراد مارے گئے۔ 31 اکتوبر 1999ء: مصر ایئر لائنز کا بوئنگ طیارہ 767 حادثے کا شکار ہوا اور وجہ شریک پائلٹ کی غلطی قرار دی گئی۔ جہاز پر سوار 217 افراد ہلاک ہوئے۔ دو ستمبر 1998ء : سوئس ایئر کا جہاز ایم ڈی 11 حادثے کا شکار ہوا اور 229 افراد مارے گئے۔ 16 فروری 1998ء : چائنا ایئر لائن کا جہاز تائیوان کے تائی پے ایئر پورٹ پر لینڈنگ کے دوران تباہ ہو گیا اور 203 مسافر ہلاک ہوئے۔ 12 نومبر 1996ء: سعودی بوئنگ 747 نئی دہلی کے قریب قازقستان کے کارگو ہوائی جہاز کے ساتھ ٹکرایا اور اس حادثے میں 349 افراد مارے گئے۔ 12 اگست 1985ء: جاپان ایئر لائن کا بوئنگ 747 طیارہ فنی خرابی کے باعث پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا اور اس کے نتیجے میں 520 افراد ہلاک ہوئے۔ اسے آج بھی دنیا کا بدترین سنگل فضائی حادثہ قرار دیا جاتا ہے۔ 19
اگست 1980ء: سعودی ٹری اسٹار نے ریاض میں ایمرجنسی لینڈنگ کی اور آگ کی لپیٹ میں آ گیا، جس کے نتیجے میں 301 افراد ہلاک ہوئے۔ یکم جنوری 1978ء: ایئر انڈیا کا طیارہ 747 ممبئی سے ٹیک آف کرنے کے بعد سمندر میں گر کر تباہ ہوا اور 213 مسافر مارے گئے۔ 27 مارچ 1977ء: جزائر کناری کے رن وے پر رائل ڈچ ایئر لائن کے 474 اور پین امریکن کے 747 طیاروں کے مابین ٹکر ہوئی۔ اس حادثے کے نتیجے میں 583 افراد ہلاک ہوئے اور اسے دو جہازوں کا بدترین حادثہ قرار دیا جاتا ہے۔
World's worst air accidents
↧
↧
بے بس قوم
ہم کیسی بے بس قوم ہیں جو آئین اور ملک سے غداری کے ملزمان کو سزا تو درکنار انہیں قانون کے کٹہرے میں بھی نہیں لا سکتی‘ ہمارے سیاسی قائدین غداری‘ کے ملزمان کا بے شرمی سے ساتھ دیتے ہیں اور اس کی وجہ قوم کا داغدار ماضی بتاتے ہیں اور اس داغدار ماضی کی وجہ ان کے اپنے ہی سیاسی آباؤ اجداد ہوتے ہیں‘ ہماری عدالتیں غیر مسلح وزراء اعظم کو تو پھانسی یا نااہلی کی سزا سنا دیتی ہیں مگر فوج کے سابق سربراہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے سے پہلے ملزم کی میڈیکل رپورٹیں طلب کرتیں ہیں ہم عوام اور سرکاری افسران جو ڈسپلن اور قواعد کے نام پر غداری کرنے والوں کے غیر آئینی احکامات پر عمل کرتے ہیں اور ایسی بغاوتوں کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے ‘ وہ کون سا دن ہوگا جب فوجی بغاوت کرنے والے جرنیل کو اس کا اپنا ہی ماتحت فوری گرفتار کرے گا۔
ایسے صحافی اور کالم نویس بھی ہیں جن کی قلم اور زبانیں اچھی نوکری اور روشن مستقبل کی خواہشات کی غلام ہوتی ہیں اور انہیں ملک کے مستقبل سے کوئی غرض نہیں ہوتی ہے یہ وہ اہل زبان ہیں جو اپنی چرب زبانی سے غداروں کو ہیرو ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔اب ایسے قومی کرداروں کے ہوتے ہوئے بھلا کوئی غداری کا ملزم ’’انصاف‘‘ کیسے پائے گا‘ یہ وہ کردار ہیں جنہوں نے آپس میں مل کر 66 سال تک پاکستانیوں کو بیوقوف بنایا۔ملک ٹوٹ گیا مگر کسی غدار کا احتساب نہ ہوا‘ قوم کے مورال کا بیڑہ غرق کر دیا گیا مگر بظاہر چند اداروں کا مورال بلند رکھا گیا ‘ ہمارے نظم و ضبط کے ٹھیکیدار ادارے بھی آئین سے غداری کے واقعات کو روکنے میں ناکام رہے آخر یہ کیسا مورال ہے کہ جو آئین سے بغاوت کرکے ہی بلند رکھا جا سکتا ہے اور پھر آئین سے غداری کے مرتکب ملزم کو بچا کر ہی ملک و قوم سے وفاداری نبھائی جا سکتی ہے اگر ہماری اپنی حکومت اور عدالتیں آئین سے سنگین غداری کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لا سکتی تو پھر یہ کام کونسی حکومت اور عدالت کرے گی۔جو فوجی آمر اپنے ادارے اور ملکی آئین سے غداری کرتے ہوئے حکومت پر قبضہ کرتے رہے آج ان کے احتساب سے ہمارے اداروں کے مورال پر اثر پڑنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے یہ وہ ادارے ہیں جو بروقت کارروائی کرکے اپنے سربراہوں کو غداری سے روکتے بھی نہیں‘ ہمارا بطور قوم المیہ ہی یہ ہے کہ ہمارے چند سیاستدان‘ عدالتیں اور میڈیا کے کچھ مفتی وقت بغاوت پھولوں کے ہار لے کر استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں ‘ خوب موجیں کرتے ہیں اور دس سال بعد اپنے بیانات ‘ فیصلوں اور تجزیوں کے ذریعے نمک حلالی میں مصروف ہو جاتے ہیں‘ یہ وہ کردار ہیں جو خدانخواستہ برے وقت میں سرحدوں پر بھی پھولوں کے ہار لے کر کھڑے ہوں گے اور مؤقف ہوگا کہ ہمارے سیاسی‘ عدالتی اور میڈیا کے ماضی کے تناظر میں یہاں پر سویلین کی بجائے جرنیل ہی تعینات کر دیا جائے (خدانخواستہ) یہ ڈنڈے کا ساتھ دینے والے تمام کردار کل بڑے ڈنڈے کا ساتھ دے رہے ہوں گے اور ملکی آزادی کی جنگ وہ لوگ لڑ رہے ہوں گے جو فوجی آمریت کے خلاف آواز اٹھاتے رہے اور مشکلات میں پڑے رہے‘ اگر ڈنڈے کی حکومت کی موجودہ صورتحال زیادہ دیر تک برقرار رہی تو پھر بڑے ڈنڈے سے لڑائی کے وقت جمہوریت پسند لوگ بھی ساتھ نہ ہوں گے۔نجانے کیوں میڈیا سے بندوق کی غیر مشروط حمایت کی توقع کی جاتی ہے اور اسے ملکی سلامتی سے جوڑا جاتا ہے مثال دی جاتی ہے ان امریکی صحافیوں کی جو افغانستان میں اپنی حکومت اور فوج کا ساتھ دیتے ہیں‘ اس کا جواب ایک ہی ہے کہ اگر ہماری فوج بھی بیرون ملک میں کہیں قابض ہو اور ہمارے عوام مقبوضہ علاقے کے دہشت گردوں کے نشانے پر ہوں تو شاید ہم جیسے صحافی بھی امریکی صحافیوں جیسی رپورٹنگ کریں‘ مگر ایسا نہیں ہے بلکہ تاریخ میں تو ہمارے ساتھ الٹ ہی ہوتا آیا ہے ہم کیا کریں؟
امریکی صحافیوں کو اپنے ملک میں فوجی بغاوت کا سامنا نہیں اور نہ ہی ان کا ملک کبھی ٹوٹا ہے نہ ہی ان کی عدالتیں اور ادارے اپنی سرزمین پر ڈنڈے اور بندوق کے قانون کے آگے سر جھکاتی ہیں۔ ہاں ان کے صحافی اور میڈیا والے ہمارے فوجی آمروں کو وقت گزرنے کے ساتھ آمر اور ڈکٹیٹر لکھنا بھول جاتے ہیں اور انہیں بطور سیاست دان تسلیم کر لیتے ہیں یہ کوئی ایسی اچھی صحافتی روایت یا مثال نہیں جو پاکستانی صحافی بھی اپنائیں‘ مشرف کے ٹرائل میں میڈیا کے کردار پر بہت تنقید سامنے آئی ہے کہاں جاتا ہے کہ یہ ’’میڈیا ٹرائل‘‘ ہو رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ ایک آمر کا ٹرائل تو ہم کر نہیں پا رہے اوپر سے میڈیا ٹرائل بھی نہ کریں تو پھر کیا کریں‘ ویسے بھی دن دھاڑے آئین توڑنے والے غداری کے ملزم کے بارے میں میڈیا ایسا کیا رپورٹ کرے جس سے وہ معصوم ثابت ہو جائے‘ ایک ایسی خصوصی عدالت جسے قانون میں سزائے موت دینے کا اختیار ہے اگر وہ وارنٹ گرفتاری بھی جاری کرنے میں تاخیر کر رہی ہے تو پھر کیا سمجھا جائے؟ کیا ایسی عدالت جرم ثابت ہونے پر ’’سزائے موت‘‘ سنانے کی جسارت کر پائے گی؟ ایسی عدالتوں کے ہومیوپیتھک احکامات مریض کا علاج تو نہیں کرتے مگر قوم کا وقت اور پیسہ ضرور ضائع کرتے ہیں ان حالات میں ’’میڈیا ٹرائل‘‘ تو نہیں تاہم ’’میڈیا کے لئے ٹرائل‘‘ کا تاثر ضرور ملتا ہے یوں لگتا ہے کہ سب کچھ محض میڈیا کے لئے ہی کیا جا رہا ہے اور اس دوران ملزم کو دباؤ میں ڈال کر اس سے واپس نہ آنے کا وعدہ لیا جائے گا۔
اس تناظر میں خصوصی عدالت کی کارروائی بھی میموکمیشن کی کارروائی کا ایکشن ریپلے لگتی ہے جس کے کردار بھی وہی ہیں اور شاید انجام بھی وہی ہو‘ یعنی ایک طرف فوج دوسری طرف حکومت اور مرکزی ملزم عدالت کی اجازت سے ملک سے باہر ‘ اس کے بعد کوئی اور نیا ڈرامہ شروع ہوگا اور پھر سے ٹکٹ بکیں گے اور پھر مستقبل میں یہ دلیل سامنے آئے گی کہ اگر مشرف کا ٹرائل نہیں ہوا تو اب کیوں؟ اس وقت بلاول بھٹو ‘ حمزہ شہباز‘ مریم نواز‘ یا مونس الہٰی کچھ ایسے ہی بیانات دے رہے ہوں گے جیسے کہ ان کے آباؤ اجداد نے دیئے تھے ہم نہیں ہوں گے مگر ہماری بے بسی نسل در نسل چلے گی۔
↧
پاکستان کو بامِ عروج پر لے جانے کا راستہ
وقت کا بالکل خاموش(noise less) دریا تیزی سے بہہ رہا ہے۔ دن ، مہینے سال اور حتیٰ کہ صدیاں برق رفتاری کے ساتھ گزرتی چلی جاتی ہیں۔ بچے پیدا ہوتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے بلوغت کو پہنچتے ہیں بوڑھے ہوتے ہیں اور اس جہان فانی سے کوچ کرجاتے ہیں پیچھے ایک اور کھیپ تیزی سے اُن کا تعاقب کر رہی ہوتی ہے اس طرح اللہ کی تخلیق کی ہوئی ساری مخلوق کے چہرے پچھلے اربوں سال سے بدل رہے ہیں ۔اس نسل میں ہم جیسے زندہ انسانوں کا کردار واقعی پل دو پل کی کہانی ہے۔ آج کی دنیا میں تقریباً 70 سال پر محیط موجودہ انسانوں کی اوسط عمر مائیکرو سکینڈز سے بھی کم تر ہے۔فارس کی بین الاقوامی طاقت کا ایک وقت طوطی بولتا تھا۔ پھر سلطنت عثمانیہ پوری دنیا پر چھائی رہی ، انگریزوں کا تو گلوب کے اتنے بڑے حصے پر قبضہ تھا کہ اُن کی سلطنت میں سورج کو غروب ہونے کیلئے کوئی بھی حصہ میسر نہ تھا۔ اب امریکہ بادشاہ بپھر ہوئے ایک مست گھوڑے کی طرح دندنارہا ہے جس کی راسیں سویٹ یونین کی وفات کے بعد اچانک ٹوٹ گئیں لیکن اب چینی سائنس کافی گُڑ کھلا کر اس گھوڑے کو کچھ حد تک رام کرنے میں کامیاب ہورہا ہے، بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ اب ایشین صدی کی ابتدا ہوچکی ہے اگلے چار پانچ عشروں میں اب چین سب سے بڑی بین الاقوامی طاقت بن کر ابھرے گا اور چونکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر کمالِ راز والِ۔ اگلے دو یا تین سو سال میں صرف اللہ کی ذات ہی جانتی ہے کہ دنیا کا نقشہ کیا ہوگا۔
قارئین وقت کے اس تیز دھارے میں جو گھڑیاں ہماری زندگی سے منسوب ہیں،اُن کو ہمیں اپنے عقیدے کے مطابق بہت اچھی طرح گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔اس میں اہم تو اللہ کے حقوق ہیں جن کو پورا کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے اس کے بعد انسانوں کے حقوق ہیں جو اللہ کی نگاہ میں افضل ترین ہیں یہ سب اللہ کے احکامات اور اسلامی تعلیمات ہمیں بہتر انسان بنانے کیلئے ہیں۔ نبی کریم کا سیرت و کردار ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناح کو جب کسی نے صلاح دی کہ آپ کیوں نہیں مغل بادشاہ اکبر کا وہ دین لاگو کرتے جس سے ہر مذہبی مکتب فکر خوش رہے تو قائداعظم نے فرمایا کہ میرے پاس جب تیرہ سو سالہ پرانی دینی رہنمائی موجود ہے تو میں اکبر بادشاہ کے چند سو سال پہلے کے دین الٰہی کو کیوں اپناﺅں۔ قائداعظم ساری انسانی خطاﺅں کے باوجود مضبوط ایمان والے پکے عقیدے کے مالک تھے۔1300 سال پہلے کے دین کا حوالہ میثاق مدینہ اور نبی کریم کے آخری خطبے کی طرف اشارہ تھا جس میں نبی کریم نے مسلمان، یہودی اور عیسائی سب کے ریاستی حقوق میں برابری کا نہ صرف درس دیا بلکہ کئی عدالتی فیصلے مسلمان مدعی کے خلاف اور یہودی مدعا علیہ کے حق میں دئیے چونکہ انصاف کا تقاضہ یہی تھا۔ نبی کریم نے اپنے آخری خطبے میں فرمایااے مومنو ں یا اے مسلمانوں نہیں کہا بلکہ نو دفعہ اے لوگوں کہہ کر مخاطب کیا۔ چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا رب العالمین ہے اور دین اسلام صرف ایک مذہب نہیں بلکہ طرزِ حیات ہے جو ساری کائنات کیلئے ہے۔نبی کریم نے فرمایا کہ جس طرح آپ کے دل میں حج کے دن اس ماہ اور اس شہر کی فضلیت ہے بالکل اسی ایک مسلمان کی جان کا احترام لازم ہے اور قرآن کریم میں تو یہ بھی کہا گیا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔اس لئے لوگوں کو دھماکوں سے اڑانے والے ، گلے کاٹنے والے، بستیوں میں لوگوں کو جلانے والے اور ڈرون حملوں سے بے گناہ لوگوں کی جانیں لینے والے سب انسانیت کے قاتل ہیں۔ یہ سلسلہ اب 2014 میں بند ہوناچاہئے۔ملک کے اندر یا باہر چینیوں، ایرانیوں، ہندوﺅں، عیسائیوں یا ہم وطن مسلمانوں پر حملے کرنے والے اور فرقہ واریت، لسانیت اور صوبائیت کو ہوا دینے والے نبی کریم کے آخری خطبے کے اس پیغام کو پڑھیں۔
” ساری انسانیت کی ابتدا حضرت آدم اور حوا سے ہوئی اس لئے عرب کی غیر عرب یا غیر عرب کی عرب پر اور کالے کی گورے اور گورے کی کالے پر کوئی فوقت نہیں۔ انسانوں میں فضلیت کا معیار صرف کردار کی پاکیزگی اور اعمال کی خوبصورتی ہے “۔
قارئین اپنے گریبان میں جب ہم دیکھتے ہیں تو بہت ساری کمزوریاں، ہمیں گھورتی ہیں انکو پہچاننا ان پر قابو ڈالنا یا پھر قابو ڈالنے کا مصمم ارادہ کرنا ہی ایک بہت بڑا جہاد ہے۔اس جہاد میں کامیابی صرف ہماری ذات کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی فلاح کیلئے بہتر ہوگی چونکہ اچھے افراد ہی اچھے معاشرے کی اصل روح ہوتے ہیں۔ذاتی اصلاح اللہ کی نگاہ میں بھی افضل ہے فرمایا جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔آئیے ہم عہد کریں کہ 2014ءمیں ہم گزرے ہوئے سالوں کی نسبت اپنے آپ کو بہتر انسان بنانے کی سعی کرینگے۔
2013 کے سال میں بھی بہت سارے بے گناہ لوگوں کا خون بہتا رہا۔ کراچی ہویا بلوچستان یا قبائلی پٹی، انسانوں کا انسانوں کے ہاتھ قتال ہوا۔2013 کی اچھی بات پُر امن قومی انتخابات تھے۔ افواج پاکستان سیاست سے دو ررہی، انتخابات میں بہترین کارکردگی دکھائی۔ بلوچستان میں زلزلے سے متاثرین کی مدد کی جس میں چھ فوجی شہید بھی کردئیے گئے۔فوج کی مدد سے گوادر میں انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کوئٹہ میں پچاس ڈاکٹر سالانہ تیار کرنے والا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اور بلوچستان میں انسٹی ٹیوٹ آف میرین سائنسز چل رہے ہیں جس میں۔ کوئٹہ، کراچی، لاہور، پشاور، گوجرانوالہ اور بہاولپور میں فوج کے بلوچ طلبا کیلئے بورڈنگ ہاﺅسز تیار کئے ہیں جن میں 678 بلوچ طلبا رہ رہے ہیں ان کے کھانے پینے اور رہائش کے سارے اخراجات فوج اٹھاتی ہے یہ شاید بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت 4183 بلوچ طلبا کی پورے پاکستان میں مفت تعلیم کا بندوبست بھی افواج پاکستان نے کیا ہے اس میں Chama lang کوئلے کی کانوں کے متاثرین بھی شامل ہیں۔ جہاں تک FATA کا تعلق ہے پچھلے سال مرکزی وزیر خواجہ آصف نے گومل زیم ڈیم کے پاور ہاﺅس کا افتتاح کیا جو فوج کی مدد سے تیار ہوا۔ FWO نے انڈس ہائی وے کو افغانستان کی سرکولر روڈ سے ملانے والی 714 کلو میٹر لمبی سڑک بھی مکمل کرلی ہے۔اس کے علاوہ ٹانک مکین (108 کلو میٹر) ٹانک۔ وانا(101کلو میٹر) اور ٹانک۔ جنڈولہ سڑکوں پر فوج کی مدد سے کام جاری ہے۔اس کے علاوہ وانا اور گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج فوج کی مدد سے زیر تعمیر ہے۔ائیر فورس نے 2013 میں JF 17 تھنڈر کا پچاسواں جہاز تیار کرلیا۔ ہم ہر سال 16 سے 25 جہاز تیار کیا کرینگے نو ممالک ان کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ڈرون(براک) کی تیاری بھی ملکی سائنسدانوں کی بڑی کامیابی ہے۔
میاں نواز شریف کی حکومت نے پچھلے ماہ ملکی پالیسیوں کا قبلہ درست کرنے کیلئے جدوجہد میں صرف کئے جو ایک بہت بڑا کام ہے اب تیزی سے آگے کا سفر شروع ہوناچاہئے۔موجودہ حکومت کو 2014 میں جن چھ اہم معاملات پر توجہ دینی چاہئے ان میں معیشت، داخلی امن، خارجہ پالیسی، ملکی دفاع، جمہوری اداروں کی مضبوطی اور قانون کی حکمرانی شامل ہیں۔ کالم کی محدود آغوش میں ان سارے امور کی تفصیلات شامل کرنا ممکن نہیں لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ ان سب پر موجودہ حکومت کام شروع کرچکی ہے۔خارجہ امور میں علاقائی اتحاد کی بات چل رہی ہے۔ داخلی حالات کو بہتر کرنے کیلئے مسلح گروہوں سے مذاکرات کا عمل شروع ہوچکا ہے۔معیشت پر وزیر خزانہ کی مدلل پریس کانفرنس نے بہت سے قائدین کو چپ کروادیا ہے۔قومی سلامتی کے امور میں افواج پاکستان کی قیادت برابر کی شریک ہے۔جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے ہر چھوٹی بڑی پارٹی کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ عدلیہ آزاد۔ اب قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف کے نظام کو بہتر کرنے کیلئے ماتحت عدلیہ میں بہت ساری اصلاحات متوقع ہیں ۔امید ہے حکومت 2014 میں عدل کے نظام کو بہتر کرنے اور تعلیم کے نظام کو موثر بنانے پر اپنی پوری قوت لگائے گی چونکہ پاکستان کو بام عروج پر لے جانے کا سب سے چھوٹا اور بہترین سیدھا راستہ قانون کی حکمرانی اور تعلیم کے فروغ میں پنہاں ہے۔
↧
ملائیشیا کا لاپتہ طیارہ آخر گیا کہاں؟
ٹیکنالوجی کے اس جدید ترین دور میں جہاں دنیا کو گلوبل ولیج سے تشبیہہ دی جاتی ہے وہاں ملائیشیا کے لاپتہ ہونے والے طیارے کا 10 دن گزر جانے کے باوجود کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ اطلاعات کے مطابق ملائیشین حکام نے طیارے کی تلاش کے لیے پاکستان سمیت 25 ممالک سے رابطہ کرکے ان سے ریڈار اور سیٹلائٹ پر موجود مواد شیئر کرنے کی درخواست کی ہے۔ ملائیشیا کے وزیر ٹرانسپورٹ حسام الدین کا کہنا تھا کہ ایم ایچ 370 کی تلاش کے لیے 25 ممالک سے رابطہ کیاگیا ہے جن میں پاکستان، قازقستان، ازبکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکا، چین اور فرانس سے مزید سیٹلائٹ ڈیٹا فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ ادھر ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے کہا ہے کہ ملائیشیا نے صرف پاکستان سے نہیں دیگر ممالک سے بھی ریڈار کی معلومات لینے کی درخواست کی ہے، طیارے کے حوالے سے پاکستانی ریڈار پر کوئی مواد(ڈیٹا) موجود نہیں، اگر ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی اطلاع آئے گی تو ضرور شیئر کریں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ طیارے کے ساتھ ہونے والے ممکنہ حادثے کی افواہیں اور برمودا ٹرائی اینگل جیسی افسانوی کہانیاں جو مختلف پلیٹ فارم پر گردشیں کررہی تھیں اب دم توڑتی جارہی ہیں اور یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ بعض عناصر کی جانب سے طیارے کو اغوا کرلیا گیا ہے، تاہم اس سلسلے میں بھی تحفظات عیاں ہیں اور ممکنہ اغوا کے ہونے یا نہ ہونے سے متعلق بحث جاری ہے۔ ادھر طیارے کی تلاش کے لیے آپریشن بھی تاحال جاری ہے اور طیارے کا مواصلاتی نظام دانستہ بند کیے جانے کی تحقیقات بھی شروع کردی گئی ہے۔
دوسری جانب ملائیشین طیارے کے دونوں پائلٹوں کے گھروں کی تلاشی لی گئی۔ ایک پائلٹ ظاہری احمد شاہ کے گھر سے ملنے والے سیمیلٹر کا معائنہ بھی کیا گیا، تاہم وزیر ٹرانسپورٹ کا کہنا ہے کہ اس تلاش و معائنے سے کوئی نتیجہ اخذ نہ کیا جائے۔ جاپان اور بھارت نے اپنے علاقوں میں طیارے کی تلاش ختم کردی ہے۔ بھارتی فوج کے ترجمان نے بتایا کہ ملائیشیا کی حکومت کی جانب سے تلاش کے لیے نئے علاقے کی معلومات سامنے آنے کے بعد یہ کارروائیاں ایک بار پھر شروع کردی جائیںگی، جب کہ چین نے لاپتہ مسافر طیارے کے معاملے پر ملائیشیا کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ملائیشین حکومت نے طیارے کی تلاش کے لیے قیمتی وقت اور وسائل کو ضایع کردیا۔ ملائیشین وزیراعظم نجیب رزاق کی پریس کانفرنس کے ردعمل میں چینی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے کہا کہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس قدر اہم معلومات اتنی دیر سے جاری کی گئیں، بیان میں کہا گیا ہے کہ ان معلومات کی عدم موجودگی کی وجہ سے شکوک و شبہات اور افواہوں میں اضافہ ہوا اور ان لوگوں کا غم اور بڑھ گیا جن کے اہلخانہ اس سانحے میں متاثر ہوئے ہیں۔ دوسری طرف برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ القاعدہ کے برطانوی دہشت گرد کے مطابق طیارے کو اغوا کیا گیا۔ نائن الیون کی طرز پر کوالالمپور کے پیٹروناز ٹاورز کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طیارے کے ممکنہ اغوا کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تاہم جہاز کا سراغ لگنے تک وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ 10 روز گزر جانے کے باوجود کسی حتمی اطلاع کا نہ ملنا طیارہ مسافروں کے لواحقین کے لیے بھی کرب کا باعث بن رہا ہے۔ ممکنہ حادثے یا اغوا کو زیر نظر رکھتے ہوئے ملائیشین حکومت کو طیارے کی تلاش پر مختلف جہتوں میں پیش رفت کرنی چاہیے اور دیگر ممالک کو بھی انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے ملائیشیا کا ساتھ دینا چاہیے۔بتایا جاتا ہے کہ فضائی تاریخ میں اب تک 160 مسافر طیارے پراسرار طور پر دوران پرواز لاپتا ہوچکے ہیں۔
Search zone for missing Malaysia Airlines flight
↧
انصاف کی صورتحال
![]()
آمنہ کا تعلق مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کے گاؤں لنڈی پتافی سے تھا‘ آمنہ کی عمر 22 سال تھی‘ اس کے تین جرم تھے‘ اس کا پہلا جرم سماجی کمزوری تھا‘ یہ کمزور خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور آپ اگر سماجی لحاظ سے کمزور ہیں تو اس ملک میں آپ کے 75 فیصد انسانی حقوق پیدا ہوتے ہی سلب ہو جاتے ہیں‘ اس کا دوسرا جرم خوبصورتی تھا‘ یہ جسمانی لحاظ سے خوبصورت بچی تھی اور آپ اگر خاتون ہیں اورخوبصورت بھی ہیں تو آپ جان لیں آپ اس ملک میں محفوظ نہیں ہیں‘ آپ بیری کا وہ درخت ہیں جس پر دن رات پتھر پڑیں گے‘ ہمارے ملک میں بچیاں اس وقت زیادہ غیر محفوظ ہو جاتی ہیں جب یہ خوبصورت بھی ہوں اور ان کا خاندان بھی کمزور ہو اور آمنہ میں یہ دونوں خامیاں موجود تھیں اور آمنہ کا تیسرا جرم اس کا پاکستان میں پیدا ہو نا بھی تھا‘ ہمارے ملک میں سب کچھ ہے‘ نہیں ہے تو انصاف نہیں‘ ہم مانیں یا نہ مانیں ہمارے ملک میں آج بھی حکمران وقت چیف جسٹس ہوتے ہیں‘ فیصلہ بڑا ہو یا چھوٹا یہ فیصلہ بہرحال یہ لوگ ہی کرتے ہیں۔
خدا کی پناہ جس ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کو اس جرم میں پھانسی پر چڑھا دیا جائے کہ یہ عین اس دور میں ملک کے سب سے بڑے لیڈر تھے جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا تھا اور میاں نواز شریف کے پورے خاندان کو اس لیے جیلوں میں پھینک دیا جائے اور ملک سے زبردستی جلا وطن کر دیا جائے کہ تین جرنیلوں نے اقتدار پر قابض ہونے کا فیصلہ کر لیا تھااور یہ جرنیل جب اقتدار پر قابض ہو جائیں تو سپریم کورٹ نہ صرف ان کی انا کی توثیق کر دے بلکہ انھیں ملکی آئین میں ترامیم کا اختیار بھی دے دے لہٰذا جس ملک میں انصاف کی صورتحال یہ ہو‘ جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگا دیا جاتا ہوں‘ میاں نواز شریف کو خاندان سمیت جدہ پھینک دیا جاتا ہو اور جس میں ماتحت جنرل پرویز مشرف ایوان صدر آئے اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر رفیق احمد تارڑ کو کرائے کی گاڑی میں بٹھا کر لاہور روانہ کر دے اور اپنے آپ کو صدر ڈکلیر کر دے‘ اس ملک میں آمنہ جیسی بچیوں کا پیدا ہونا جرم نہیں تو کیا ہے؟ اور آمنہ اس جرم کی سزا وار بھی تھی‘ مجرم آمنہ علاقے کے بااثر خاندان کے ایک سپوت نادر حسین بھنڈ کوپسند آ گئی‘ اس نے رشتہ مانگا‘ آمنہ کے والدین نے انکار کر دیا‘ ہمارے ملک میں انکار سننے کی روایت موجود نہیں اور یہ انکار اگر کسی نوجوان بچی کے غریب والدین کی طرف سے ہو تو یہ ناقابل معافی جرم بھی ہوتا ہے‘ نادر بھنڈ مائینڈ کر گیا چنانچہ اس نے 5 جنوری 2014ء کو آمنہ کو اٹھا لیا‘ یہ پانچ لوگ تھے‘ ان پانچ لوگوں نے آمنہ کے ساتھ وہ کیا جو یہ لوگ کر سکتے تھے‘ آمنہ کو درندگی کا نشانہ بنا کر باہر پھینک دیا گیا۔
یہ بچی صرف ’’مجرم‘‘ نہیں تھی‘ یہ بے وقوف بھی تھی اور ظالم بھی۔ آپ اس کی بے وقوفی ملاحظہ کیجیے‘ یہ انصاف لینے کے لیے اپنی ماں کے ساتھ تھانے چلی گئی‘ ایسے مقدمے تھانوں کے لیے صرف مقدمے نہیں ہوتے‘ یہ سونے کی کان ہوتے ہیں‘ ایف آئی آر درج ہوتی ہے‘ ملزم گرفتار ہوتے ہیں‘ ملزموں سے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں‘ میڈیکل رپورٹ کے نام پر ڈاکٹروں کو بھی نوازا جاتا ہے‘ کیس عدالتوں میں جاتے ہیں تو وکیلوں کا جمعہ بازار لگ جاتا ہے‘ مظلوم کو انصاف تک پہنچنے کے لیے وکیل کرنا پڑتا ہے‘ متاثرہ خاتون کو بار بار عدالت طلب کیا جاتا ہے‘ اس سے درجنوں لوگوں کی موجودگی میں پوچھا جاتا ہے‘ بی بی بتا‘ ان میں سے کون کون تھا‘ کس نے کیا کیا‘ تمہیں اچھا لگا یا برا‘ شروع میں برا لگا‘ پھر اچھا لگا اور آخر میں بہت برا‘ مقدمہ جوں جوں آگے بڑھتا جاتا ہے‘ ڈاکٹر‘ تفتیشی اور وکیل امیر ہوتے جاتے ہیں‘ انصاف کے اندھے عمل کے دوران متاثرہ خاتون عزت‘ توقیر‘ ذہنی توازن اور روحانی قوت تمام اثاثوں سے محروم ہو جاتی ہے‘ یہ کیس بھی تھانہ بیٹ میر ہزار خان کے عملے کے لیے رزق کا ذریعہ بن گیا‘ ملزم گرفتار ہوئے‘ ملزموں سے ستر ہزار روپے وصول کیے گئے‘ ’’جرم‘‘ کے آثار ختم کیے گئے‘ ’’مجرم آمنہ‘‘ کے بیانات میں سے تضادات تلاش کیے گئے اور آخر میں پولیس نے ملزمان کو بے گناہ قرار دے دیا‘ آمنہ اور اس کی ماں کو بلیک میلر کا ٹائیٹل دے دیا گیا۔
پولیس کی نظر میں آمنہ بلیک میلر تھی‘یہ ایک ایسی بلیک میلر بھی جو باعزت خاندانوں کی عزت اچھالنا چاہتی تھی‘ عدالت نے 13 مارچ کو باعزت نادر حسین بھنڈ کو باعزت بری کر دیا‘ نادر بھنڈ کے دوستوں نے عدالت کے سامنے مٹھائی تقسیم کی‘ ڈھول بجائے اور یہ لوگ نعرے لگاتے ہوئے واپس آ گئے‘ آمنہ اس عظیم اور بروقت انصاف کی تاب نہ لا سکی‘ یہ اپنی ماں کے ساتھ تھانے پہنچی‘ ایس ایچ او اور تفتیشی آفیسر کے بارے میں پوچھا‘ یہ دونوں تھانے میں موجود نہیں تھے‘ آمنہ تھانے سے باہر آئی‘ اس نے اپنے اوپر تیل چھڑکا اور خود کو آگ لگا لی‘ لوگوں نے آگ بجھانے کی کوشش کی لیکن آگ اگر صرف باہر ہوتی تو یہ شاید بجھ بھی جاتی‘ آمنہ تو باہر اور اندر دونوں طرف سے جل رہی تھی چنانچہ آگ نہ بجھی‘ یہ بچی اگلے دن نشتر اسپتال ملتان میں انتقال کر گئی۔
میں نے عرض کیا ناں یہ بچی مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ بے وقوف بھی تھی اور ظالم بھی۔ یہ اگر بے وقوف نہ ہوتی تو یہ کبھی تھانے نہ جاتی‘ یہ اس ملک کے نظام کو اسی دن سمجھ جاتی جس دن یہ دن دھاڑے اغوا ہوئی تھی اور اس کے ساتھ جب پانچ لوگوں نے زیادتی کی‘ اسے معلوم ہو جانا چاہیے تھا‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف نام کی کوئی چیز موجود نہیں‘ آمنہ کو چاہیے تھا‘ یہ اس ظلم کو چپ چاپ پی جاتی‘ یہ اپنی بے عزتی کے ساتھ سمجھوتہ کرتی اور چپ چاپ گھر بیٹھ جاتی لیکن یہ کیونکہ بے وقوف تھی اور یہ غباروں کے جوتے پہن کر کانٹوں پر چل پڑی تھی اور پھر اس کے ساتھ وہی ہوا جو ایسے بے وقوفوں کے ساتھ ہوتا ہے‘ یہ بچی صرف بے وقوف ہوتی تو شاید مجھے کوئی پروا نہ ہوتی‘ ملک میں ایسی کروڑوں آمنائیں ہیں جو پیدا ہی دکھ سمیٹنے اور مرنے کے لیے ہوتی ہیں مگر یہ بچی ظالم بھی تھی اور مجھے اس کے ظالم ہونے پر اعتراض ہے۔
آمنہ نے خود کو تھانے کے سامنے آگ لگا کر ملک میں انصاف کا متبادل نظام متعارف کروا دیا‘ اس نے ملک کی تمام آمناؤں کو بتا دیا‘ آپ اگر انصاف چاہتی ہیں تو آپ کو اپنے جسم پر تیل چھڑکنا ہوگا‘ ماچس جلانی ہوگی اور سیکڑوں ہزاروں لوگوں کے سامنے خود کو آگ لگانی ہو گی‘ تم اگر یہ کر لو گی تو میڈیا بھی تمہارے دروازے پر آ جائے گا‘ چیف جسٹس بھی سوموٹو ایکشن لے لیں گے‘ وزیراعلیٰ بھی تمہارے گھر پہنچے گا‘ آئی جی بھی لوگوں کے سامنے خفت اٹھائے گا‘ آر پی او بھی معطل ہو گا‘ ایس ایچ او اور تفتیشی بھی گرفتار ہو گا‘ ملزمان کو جیل میں بھی ڈالا جائے گا‘ فرانزک لیبارٹری بھی چل پڑے گی‘ گواہ بھی مل جائیں گے‘ ڈاکٹر بھی اصل رپورٹ لے کر حاضر ہو جائے گا‘ ماں کو پانچ لاکھ روپے اور بھائی کو نوکری بھی مل جائے گی اور ملک کے بڑے صحافی اور اینکر بھی تمہارا نام لیں گے‘ آمنہ ظالم تھی‘ یہ ملک کو انصاف کا متبادل نظام دے گئی‘ یہ 18 کروڑ مظلوم پاکستانیوں کو بتا گئی تم اگر انصاف چاہتے ہو‘ شہرت چاہتے ہو‘ ماں کی مالی امداد کرانا چاہتے ہو‘ پولیس کا احتساب کرانا چاہتے ہو‘ ڈاکٹر سے اصل میڈیکل سرٹیفکیٹ لینا چاہتے ہو‘ چیف جسٹس کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہو‘ چیف منسٹر کو مظلوم کے دروازے پر دیکھنا چاہتے ہو‘ بھائی کی نوکری کا بندوبست کرانا چاہتے ہو اور دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہو جتوئی بھی ایک تحصیل ہے اور اس تحصیل میں لنڈی پتافی نام کا ایک گاؤں بھی ہے تو پھر تمہیں ایک موم بتی‘ ایک شمع جلانا ہوگی‘ اپنے بدن کی موم بتی‘اپنے جسم کی شمع جلانا ہوگی‘ تم خود کو مشعل بنا لو‘ تم اپنی مظلومیت کے دھاگے کو آگ لگا ؤ اور انسانیت کی موم کو دنیا کے سامنے پگھل جانے دو‘ پورا ملک تمہاری طرف متوجہ ہو جائے گا‘ تمہارے بدن کی آگ نظام کی نیند اڑا دے گی اور آمنہ‘ ظالم آمنہ نے یہ کیا‘ اس نے سمجھوتوں کے کیچڑ میں لپٹے معاشرے کے ہاتھ میں بدن کی مشعل پکڑا دی اور اب میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری اورعمران خان اور الطاف بھائی اور مولانا فضل الرحمن اور چوہدری شجاعت حسین اور جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اور پارلیمنٹ شریف تمام ادارے تمام لوگ مشعلیں گننا شروع کردیں‘ ایک آمنہ کے بعد دوسری آمنہ اور دوسری آمنہ کے بعد سیکڑوں ہزاروں آمناؤں کے لیے چیک تیار کر لیں اور ہیلی کاپٹروں میں پٹرول ڈلوا لیں کیونکہ جسموں کی مشعلیں تیل سے تر ہو چکی ہیں‘ ہماری ہر گلی میں ایک آمنہ بیٹھی ہے اور اس آمنہ کے ہاتھ میں جتوئی کی آمنہ نے اپنے جسم کی مشعل پکڑا دی ہے۔
↧
↧
اتفاقاً انسان ہونے کا کتنا انتقام لیں گے
جانور بھی اسی طرح پیدا ہوئے جیسے انسان۔ اسی نے پیدا کیا جس نے انسانوں کو۔ ابتدا میں جس کا جہاں بس چلتا دوسرے کو شکار کر لیتا یا خود ہو جاتا۔ لیکن انسان میں دیگر جانداروں کی نسبت خود کو ڈھالنے اور سیکھنے کی صلاحیت چونکہ زیادہ تھی لہذا وہ باقی جانداروں سے آگے نکل گیا اور اس نے لگ بھگ دس ہزار برس قبل کچھ جانداروں کو سدھانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ جیسے گھوڑا ، گدھا، مرغی ، گائے ، بکری ، کتا، بندر، کبوتر، طوطا، مینا وغیرہ اور پھر ہر ایک کی مخصوص صلاحتیوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا جس میں بنیادی فوائد بار برداری ، خوراک اور چمڑے وغیرہ کا حصول تھا۔ پھر ان جانوروں کو سدھانے کا جواز بھی پیدا ہو گیا۔ مثلاً یہ کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے بجائے محض جبلت کے سہارے رہنے کے سبب جانور بھی درختوں ، پانی اور آگ کی طرح ایک قدرتی دولت ہوتے ہیں جو انسانوں کے فائدے کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ سولہویں صدی کے مشہور فرانسسیی فلسفی رینے ڈیکارت کا بھی یہ خیال تھا کہ جانور بالکل گھڑی کی طرح مکینکیل ہوتے ہیں انھیں دکھ درد کا احساس نہیں ہوتا۔
ہر مذہب نے کچھ جانوروں کے گوشت کے استعمال کی اجازت دی اور کچھ کا گوشت ممنوع قرار دیا۔ ہر مذہب نے ضرورت کے سوا جانوروں کو قید کرنے اور بغرضِ تفریح تکلیف و ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا اور پالتو جانوروں سے مہربانی کا سلوک اختیار کرنے کی تاکید کی اور اس مہربانی کے اجر کا مژدہ بھی سنایا اور پھر سائنسی طور پر یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ہر جاندار زندگی کے دائرے کا اہم اور لازمی جزو ہے۔ اگر کوئی ایک حیاتیاتی نسل خطرے میں پڑتی ہے تو پورا سرکل آف لائف کمزور ہو کر بالاخر ٹوٹ پھوٹ بھی سکتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ عیسائی یورپ میں تجارتی انقلاب آنے تک بلی کو شیطان کا روپ مان کر اسے جگہ جگہ بھوسے کے ساتھ باندھ کر زندہ جلادیا جاتا تھا۔ چنانچہ جب بلیاں کم ہو گئیں تو چوہے بڑھ گئے اور چوہوں کے ذریعے چودھویں اور پندھرویں صدی میں جو طاعون پھیلا اس سے یورپ کی ایک تہائی آبادی لقمہِ اجل بن گئی۔اس کے بعد کسی نے بلی کو شیطان کی خالہ نہیں کہا۔
رومن بادشاہ تو عوام کی توجہ روزمرہ مسائل اور اپنی نااہلی سے ہٹانے کے لیے انھیں جانوروں کی لڑائی کے تماشے میں مصروف رکھتے تھے لیکن جدید ، روشن خیال، پڑھی لکھی خدا ترس دنیا میں آج جانوروں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کے ہوتے ہوئے رومن دور فرشتوں کا زمانہ لگتا ہے۔ سن انیس سو اڑتیس میں امریکا میں فوڈ، ڈرگ اینڈ کاسمیٹکس ایکٹ کے تحت مصنوعات کو انسانی استعمال سے قبل جانوروں پر آزمانے کا عمل لازمی قرار پایا۔ چنانچہ صرف امریکی لیبارٹریز میں سالانہ لگ بھگ ستر ملین چوہے ، کتے ، بلیاں ، خرگوش ، بندر ، پرندے وغیرہ تحقیق و ترقی کے نام پر اذیت ناکی اور ہلاکت کا شکار ہوتے ہیں۔ خرگوشوں کی آنکھوں میں متعدد کاسمیٹکس مصنوعات تجرباتی طور پر داخل کر کے انھیں اندھا کیا جاتا ہے۔ اسے ڈریز ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔ اور پھر انھیں ناکارہ قرار دے کر مار دیا جاتا ہے۔ چین فر کا سب سے بڑا عالمی ایکسپورٹر ہے۔ فیشن انڈسٹری کی بھوک مٹانے کی خاطر سالانہ ساڑھے تین ملین جانور صرف اس لیے مار دیے جاتے ہیں کہ ان کے نرم بال فر کی مصنوعات میں استعمال ہوسکیں۔ مثلاً چالیس انچ کا ایک فر کوٹ بنانے میں اوسطاً پنتیس خرگوشوں ، یا بیس لومڑیوں یا آٹھ سیلز کی کھال درکار ہوتی ہے۔
قراقلی ٹوپی بنانے کے لیے جونرم فر مٹیریل چاہیے وہ بھیڑ کے اس بچے کی کھال سے ہی مل سکتا ہے جسے پیدا ہونے سے پہلے ماں کا پیٹ چاک کر کے نکالا جاتا ہے۔ حالانکہ فی زمانہ سنتھیٹک میٹیریل سے بھی اتنے ہی گرم کپڑے اور دیگر مصنوعات بن سکتی ہیں اور بن بھی رہی ہیں۔ فر کو تو جانے دیں جانوروں کی تو کھال بھی ان کے لیے مصیبت ہے۔صرف دو ہزار دو سے دو ہزار پانچ کے دوران جوتے ، پرس ، بیلٹس، جیکٹس وغیرہ بنانے کے لیے یورپی یونین میں چونتیس لاکھ بڑی چھپکلیوں ، تیس لاکھ مگرمچھوں اور چونتیس لاکھ سانپوں کی کھالیں امپورٹ کی گئیں۔اگر ہاتھی کے دانت اور گینڈے کے سینگ نہ ہوتے تو آج ان کی نسل اپنی بقا کی جنگ نہ لڑ رہی ہوتی۔
گائے کا دودھ یقیناً اہم انسانی غذا ہے۔ لیکن اب سے تیس برس پہلے تک گائے کی اوسط عمر بیس سے پچیس برس ہوا کرتی تھی۔ اب اسے چار سے پانچ برس ہی زندہ رکھا جاتا ہے کیونکہ اس کا دودھ بڑھانے کے لیے مسلسل ہارمونل انجکشن دیے جاتے ہیں اور مصنوعی طریقوں سے لگاتار حاملہ رکھا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا ہوسکیں۔ یوں وہ کچھ ہی عرصے میں سوائے ہلاکت کے کسی کام کی نہیں رہتی۔ مگر بھارت جہاں گائے ہلاک کرنا جرم ہے وہاں صرف چند لاکھ گائیوں کے لیے گؤشالہ کی سہولت ہے۔ دیگر کروڑوں بھک مری یا آلودہ الم غلم کھا کے خود ہی سورگباشی ہو جاتی ہیں۔
مرغی عالمی سطح پر گوشت کی ساٹھ فیصد مانگ پوری کرتی ہے۔لیکن بیس فیصد مرغیاں گندگی اور پنجروں میں گنجائش سے زیادہ ٹھونسے جانے اور ٹرانسپورٹیشن کے دوران ہی مرجاتی ہیں۔انڈے دینے والی مرغیوں کا گوشت عام طور سے کمتر سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ جب وہ بانجھ ہوجاتی ہیں تو انھیں ہزاروں کی تعداد میں زندہ دفن کردیا جاتا ہے۔شارک کے بازوؤں کا ( شارک فن) سوپ ایک مہنگی سوغات ہے اور ایک اچھے ریسٹورنٹ میں دو سو ڈالر فی باؤل تک قیمت وصول کی جاتی ہے۔لیکن شارک کے بازو کاٹ کر باقی شارک کو سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بغیر بازوں کے وہ تیرنے سے معذور ہوجاتی ہے اور سمندر کی تہہ میں اترتی چلی جاتی ہے۔شمالی بحر اوقیانوس میں جزائر فیرو میں ہر موسمِ گرما میں ایک ہزار پائلٹ وھیل مچھلیوں کو گھیر کر کنارے تک لایا جاتا ہے اور انھیں تیز دھار آلات سے ہلاک کیا جاتا ہے۔جس سے تا حدِ نظر پانی سرخ ہوجاتا ہے۔ مچھلیوں کے قتلِ عام کا یہ قدیم میلہ آج تک جاری ہے۔ لگ بھگ دو سو ٹن وزنی بلیو وھیل دنیا کا سب سے بڑا جانور ہے۔ اب سے سو برس پہلے تک کرہِ ارض کے سمندروں میں دو لاکھ بلو وہیلز تھیں۔مگر آگ لگے ان کی چربی کو کہ آج دس ہزار سے بھی کم رہگئی ہیں۔
اکیزوکوری ایک خاص جاپانی ڈش ہے۔ باورچی شیشے کے واٹر ٹینک میں سے گاہک کی مرضی کے مطابق زندہ مچھلی نکال کر اس کی کھال اتارتا ہے اور پھر اس کے ٹکڑے کچھ اس مہارت سے کرتا ہے کہ دل دھڑکتا رہے اور سر میں جان باقی رہے اور پھر ان ٹکڑوں کو جوڑ کر قاب میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔منہ کھولتی بند کرتی مچھلی آہستہ آہستہ مرتی ہے۔تب تک اس کا گرم نرم گوشت چوپ سٹکس کے ذریعے گاہک کے معدے میں اتر چکا ہوتا ہے۔ین یانگ فش چینی ڈش ہے۔ زندہ مچھلی کو اس طرح تلا جاتا ہے کہ سر میں آخر تک جان باقی رہے۔ جیاؤ لو رو ( آبی گدھے کا گوشت ) بھی ایک مہنگی چینی ڈش ہے۔ زندہ گدھے کی تھوڑی سی کھال اتار کر کچے گوشت پر مسلسل ابلا ہوا پانی ڈالتے ہیں اور جب وہ پک جاتا ہے تو اتنا پارچہ اتار کر گاہک کو پیش کردیا جاتا ہے۔ انڈونیشیا کے جزیرہ نارتھ سالویزی کی ٹومو ہون مارکیٹ میں بندر ، چمگادڑ ، بلی، کتے، سور، چوہے، اژدھے زندہ روسٹ کر کے لٹکا دیے جاتے ہیں۔اور ان کے ہم جولی دیگر جانور پنجروں میں بند سامنے سامنے اپنی باری گن رہے ہوتے ہیں۔
بل فائٹنگ کے کھیل میں ہر سال لگ بھگ چالیس ہزار بھینسے مر جاتے ہیں۔ ایک بھینسہ جس کے جسم میں بل فائٹر کے کئی فاتحانہ نیزے گڑے ہوں مرنے میں ایک گھنٹہ لگاتا ہے۔ اسپین کے مدینسیلی قصبے میں ہر سال نومبر میں ٹورو جبیلو ( جلتا ہوا بھینسا ) کا تہوار منایا جاتا ہے۔ جنگلی بھینسے کے نوکیلے سینگوں پر ڈامر کی تہہ لیپ کر اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔بھینسا شعلوں کی شدت سے بچنے کے لیے دیواروں سے ٹکریں مارتا ہوا گلیوں اور سڑکوں پر تماشائیوں کی تالیوں اور شور میں دیوانہ وار بھاگتا رہتا ہے اور جلتا ڈامر ٹپک ٹپک کر اسے گردن تک جھلسا دیتا ہے اور پھر وہ چار سے پانچ گھنٹے میں سسک سسک کے مرجاتا ہے۔ جب گرے ہاؤنڈز کتے دوڑ میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہتے تو انھیں گولی ماردی جاتی ہے۔ یوں ہر سال لگ بھگ پچاس ہزار گرے ہاؤنڈز انسانی تفریح کی قیمت اپنی جان سے چکاتے ہیں۔ یہی سلوک ناکارہ گھوڑوں کے ساتھ ہوتا ہے۔سن اسی کے عشرے میں ہیونزگیٹ نامی فلم میں ایک منظر فلمانے کی خاطر زندہ گھوڑا ڈائنامائیٹ سے اڑا دیا گیا۔ جانوروں کو ان جنگوں میں استعمال کیا جاتا ہے جن سے ان کا دور کا بھی لینا دینا نہیں۔ مثلاً ڈولفنز سے سمندر میں بچھی بارودی سرنگیں تلاش کرائی جاتی ہیں۔ سی لائنز دشمن کے زیرِ آب غوطہ خور تلاش کرتے ہیں۔ کتے بم سونگھتے پھرتے ہیں۔ بارودی سرنگوں سے اٹے میدانوں پر سے پالتو جانور گذارے جاتے ہیں تاکہ وہ میدان انسانوں کے لیے محفوظ ہو جائیں۔ کیمیاوی ہتھیاروں اور ان کے توڑ کے تجربات جانوروں پر کیے جاتے ہیں۔ دھماکوں کے اثرات اور چھوٹے ہتھیاروں کی فائر پاور جانوروں پر آزمائی جاتی ہے۔ جن جن ممالک میں بچوں کو مسلح تنازعات میں جھونکا جاتا ہے ان کی معصومیت اور قدرتی جھجک مٹانے کے لیے ان کے ہاتھوں جانوروں کی سفاکانہ طریقے سے ہلاکت سے عسکری تربیت شروع ہوتی ہے۔ جیسے مرغی پکڑ کر اس کی گردن ہاتھوں سے الگ کر دینا یا ٹانگیں پکڑ کر پھاڑ دینا وغیرہ۔
کہا جاتا ہے کہ جانور چونکہ بے زبان ہوتے ہیں لہذا ان کی ہلاکت سے انسانی نفسیات پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا اور ایسے واقعات انسانی شعور میں زیادہ عرصے نہیں رہتے۔ لیکن ایف بی آئی کے مطابق چھتیس فیصد جنسی قاتلوں کے پروفائلز سے ظاہر ہوا کہ وہ بچپن میں جانوروں پر تشدد کے شوقین تھے اور اس شوق نے ان میں جو بے حسی پیدا کی وہ بڑھتے بڑھتے انسانوں کے متشدد شکار تک لے آئی۔ نہیں نہیں ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہم تو اس خدا کے ماننے والے ہیں جو کہتا ہے کہ جانور بھی میری مخلوق ہیں اور اپنی اپنی زبان میں میری حمد و ثنا کرتے ہیں۔ جس نے اصحابِ کف کے کتے کے لیے بھی اجر کا اعلان کیا۔ جس نے غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ بھی حرام قرار دیا۔ ہم تو اس نبی کے پیروکار ہیں جس کی بلی مغیرہ چادر پر سو جاتی تو آپ چادر چھوڑ کے آہستگی سے چلے جاتے تھے تاکہ نیند نہ ٹوٹے۔ آپ نے سختی سے منع کیا کہ جانور کو داغنا ، آپس میں لڑانا اور تفریحاً ان کی شکلیں مسخ کرنا قابلِ نفرین و لعنت ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ جس نے ایک چڑیا کو بلاوجہ مارا اسے یومِ قیامت جواب دینا ہے۔ آپ ایسے رقیق القلب کہ ایک پیاسے پلے کو کنوئیں سے پانی پلانے والی عورت کو اجرِ عظیم کی نوید سنائی۔ آپ ہی کے ایک خلیفہِ راشد سے منسوب ہے کہ فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو اس کی ذمے داری خلیفہِ وقت پر ہے۔
احادیث کی بات ہو تو ہم حضرت ابو ہریرہ ( بلیوں کا باپ ) کا حوالہ دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کے نام بڑے فخر سے شاہین احمد ، باز محمد ، شیر علی ، کلبِ صادق وغیرہ رکھتے ہیں۔ مگر یہ بھی ہے کہ آنکھیں خود پھیرتے ہیں اور الزام طوطا چشمی کو دیتے ہیں۔مکار خود ہیں پر بدنام لومڑی ہے۔ سفاکی اندر موجود ہے مگر مثال بھیڑئیے کی۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر احسان فراموشی آپ کریں اور بدنام ہو آستین کا سانپ۔نقالی کی داد خود وصول کریں اور نام لگائیں بندر کا۔ حرام خود کھائیں اور حوالہ دیں خنزیر کا۔۔
کیا ہمیں روزانہ لوہے کے پنجروں میں ٹھنسی مرغیاں ، موٹرسائیکل کے پیچھے دوہرے کرکے بندھے بکرے ، ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کا سفر کرنے والے ٹرکوں میں معلق چارپائیوں میں ٹانگیں پھنسائے بکرے اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی کھڑی بھینسیں، وزن کے زور پر ہوا میں معلق پیٹے جانے والے گدھے ، گلے میں رسی ڈال کر کھینچے جانے والے ڈنڈے کے خوف سے ناچتے بندر ، چڑیا گھر کے کنکریٹ سے پنجے کھرچ کر زخمی ہونے والے شیر ، نتھنوں میں نکیل ڈالے کرتب دکھانے پر مجبور ریچھ ، لاکھوں روپے کی شرط پر لہو لہان لڑائی کے منہ نچے کتے اور ایک دوسرے کی گردن نوچنے اور آنکھیں پھوڑنے والے مرغ دکھائی نہیں دیتے۔سوچئے اگر آپ ان میں سے کسی جانور کی شکل میں جنمے جاتے تو آپ کے ساتھ کیا ہوتا ؟ ایک ہی کرہِ ارض پر ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود اتفاقاً انسان ہونے کا آخر ہم ان بے زبانوں سے اور کتنا انتقام لیں گے ؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"
↧
American Muslims, Islam and Pakistan?
گزشتہ روز لاہور میں دارالعلوم جامعہ نعیمیہ میں منعقدہ مفتی محمد حسین نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی سیمینار کے سالانہ اجتماع میں مجھے پاکستان کی ممتاز میڈیا شخصیات، سیاسی قائدین اور مذہبی اسکالرز اور مقررین کے خیالات کو سننے کا موقع ملا۔ ایک ہی اسٹیج سے مختلف مکاتب فکر کے مقررین کے خیالات سے آگہی کا موقع ملا۔ افکار و خیالات کے اشتراک، اختلاف بلکہ بعض امور پر تضاد کے لحاظ سے اعتدال سے لیکر راسخ العقیدہ مذہبی اور بعض جوش و جذبے والے عقابی جذبات و خیالات بھی سننے کو ملے۔ صرف چار منٹ کی تخصیص کے ساتھ مجھے ’’امریکہ میں اسلام‘‘ کے بارے میں کچھ کہنے کا حکم ملا۔ پاکستان میں لفظ امریکہ اور اس کی پالیسیوں کے بارے میں ’’حساسیت‘‘ بلکہ جذبات کے ماحول میں امریکہ کے جمہوری، مذہبی رواداری ،برداشت اور ملٹی کلچرل اور ملٹی ریلیجس معاشرے کے مثبت تجربات بیان کرنا قدرے مشکل نظر آرہا تھا مگر اس اجتماع کے شرکاء کی واضح اکثریت نے میری مختصر گزارشات کو تحمل سے سنا ۔وقت کی کمی کے باعث اس موضوع کے ساتھ انصاف کرنے، اپنے مشاہدات و تجربات اور رائے کو مکمل انداز میں بیان کرنے کیلئے مزید گزارشات اس کالم کی شکل میں پیش کر رہا ہوں، تبصرہ، تنقید، تجزیہ و تجاویز سے قارئین آگاہ فرمائیں۔
اسلام کے بارے میں امریکہ کی پالیسیوں اور اقدامات کے بارے میں کوئی نظریہ اور رائے قائم کرنے سے قبل عصر حاضر کے زمینی حقائق، امریکہ کے معاشرت اور آبادی کی ساخت و ضروریات ،مسلم دنیا کے حکمرانوں کے رویّے اور اقتدار کو طول دینے کے تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ اس طرح ہیں امریکہ کی کل آبادی 315 ملین کے لگ بھگ ہے جس میں مسلمانوں کی آبادی کا حتمی تعین ممکن نہیں کیونکہ امریکی مردم شماری میں مذہب کا کوئی خانہ موجود نہیں ہے۔
بعض عیسائی مذہبی تنظیموں کا کہنا ہے کہ امریکہ میں صرف دو ملین مسلمان آباد ہیں جبکہ مسلم تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ امریکہ میں 8 تا 10 ملین مسلمان رہتے ہیں بعض حلقے مسلمانوں کی آبادی 6 تا 8 ملین بتاتے ہیں۔ اگر امریکہ کی مسلم آبادی کو 8 ملین بھی تسلیم کر لیں تو 315 ملین آبادی میں صرف 8 ملین آبادی کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے پھر بھی 8 ملین کی مسلم آبادی میں ایسے عقائد کے لوگ بھی شامل ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن اکثریت کے حامل مسلمان انہیں دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ اس آبادی میں دریائے نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کے پہاڑی علاقوں، انڈونیشیا اور آسٹریلیا سے لیکر افریقہ ،لاطینی امریکہ تک کے ممالک سے مختلف زبان و ثقافت، بودو باش ،روایات اور شہریت کے ساتھ امریکہ آ کر آباد ہونے والے مسلمان شامل ہیں لہٰذا امریکی معاشرے کی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سوچ رویّے اور ردعمل کے بارے میں ان تمام عوامل اور امریکی آبادی میں مسلم آبادی کے تناسب کو پیش نظر رکھنا لازمی ضرورت ہے۔
امریکہ کی مساجد اور امام بارگاہیں اس حقیقت کا عملی نمونہ پیش کر رہی ہیں کہ مساجد میں نماز جمعہ اور دیگر نمازوں کی ادائیگی کے وقت سنی مساجد میں نماز ادا کرنے والے حنفی کے ساتھ شافعی، مالکی اور حنبلی اور ان کے ساتھ ہی شیعہ مسلک کا نمازی کھڑا ہو کر ایک ہی صف میں نماز ادا کرتے ہیں اور سلام پھیرنے کے بعد اکثر نمازی اپنے سیدھے ہاتھ بیٹھے نمازی کے ساتھ ہاتھ ملا کر سلامتی کی دعا دیکر مسکراہٹ کے ساتھ اٹھتے ہیں ، ہر نمازی ایک ہی مسجد میں اپنے اپنے مسلک کے مطابق نماز ادا کرتا، ہاتھ پھیلا کر سر پر ہاتھ رکھ کر مختلف افریقی اور ایشیائی انداز میں دعا مانگتے نظر آتے ہیں۔ کیا پاکستان کی مساجد میں یہ مناظر اور یہ ہم آہنگی نظر آتی ہیں؟ کیا ہم اخوت اسلامی اور ایک دوسرے کیلئے خیر سگالی کے یہ نمونے اپنی عبادت گاہوں میں پیش کر پا رہے ہیں؟
امریکہ صرف نیویارک، شکاگو ،لاس اینجلس، میامی اور ہیوسٹن جیسے بڑے شہروں کا نام نہیں بلکہ الباما سے لیکر ویومنگ تک 50چھوٹی بڑی ریاستوں اور دیگر علاقوں کا نام ہے جس کی بیشتر آبادی چھوٹے شہروں، زرعی علاقوں میں آباد، عیسائیت کی پیروکار ہے متعدد ریاستوں میں آبادی پر مذہبی عقائد اور مذہبی رہنمائوں کا اثر خوب خوب ہے۔ آئینی طور پر سیکولر امریکہ کے بعض علاقوں کی سیاست میں وہاں کے چرچ رہنمائوں کا اثر ایک اٹل حقیقت ہے۔ امریکہ کی صدارتی انتخابی مہم سے لیکر سینٹ ایوان نمائندگان، ریاستی اسمبلیوں اور مقامی انتظامیہ کے انتخابات میں مقامی سطح سے لیکر قومی سطح تک کے انتخابات میں قیادت کا انتخاب ان علاقوں سے بھی ہوتا ہے۔ امریکہ میں موجود مسلمان قیادت نے نہ تو امریکہ کے ان اندرونی علاقوں میں مسلمانوں اور اسلام کی سافٹ اور مثبت امیج پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی اسلام اور عیسائیت کے دو الہامی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان کوئی بین العقائد ہم آہنگی اور مشترک اقدار کے ساتھ بقائے باہمی کے لئے کسی ڈائیلاگ کا آغاز کیا۔ اکثریتی آبادی سے اپنے حقوق کے تحفظ و احترام کیلئے ڈائیلاگ اقلیت کی ضرورت ہوتا ہے۔ کیا آج مسلم ممالک کے حکمرانوں اور امریکہ میں مسلم قیادت کے رہنمائوں نے امریکہ جیسی عالمی سپر پاور سے ایسے کسی ڈائیلاگ کا آغاز کیا؟ پاکستان جو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے اس میں کتنے علماء اور اسکالر ایسے ہیں جو امریکہ میں مسلمان اقلیت کے مذہب اسلام اور اکثریتی مذہب عیسائیت کے درمیان مشترکہ اصولوں اور بقائے باہمی اور تعلقات میں بہتری کے لئے ڈائیلاگ اور کام سرانجام دے سکتے ہیں؟
امریکہ کی 315 ملین آبادی میں اکثریت کو اسلام کی تعلیمات اور اصولوں سے کوئی آگہی نہیں البتہ طالبان، دہشت گردی اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے سانحہ کے حوالے سے ایک ہولناک امیج سے آگاہی ہے۔ امریکہ کی عیسائی اکثریت کو صلیبی جنگوں کے تناظر سے نکال کر دور حاضر کے تناظر میں غیر مسلموں کے سامنے اسلام کا وہ سافٹ اور اعلیٰ اخلاقی امیج پیش کرنے کی ضرورت ہے جو خلیفہ عمرؓ اور ان کے غلام کے درمیان مہربانی اور مساوات کا ثبوت دے۔ غیر مسلموں کی حفاظت نہ کرنے میں ان سے حاصل کردہ جزیہ بھی ٹیکس بھی واپس کرنے کا ریکارڈ پیش کرے۔ عورتوں کیلئے احترام اور عملی مساوات ،صلہ رحمی، غیر مسلموں سے لین دین اور معاشرتی رابطوں اور تعلقات کا احترام بیان کرے امریکہ کی مسلمان قیادت، مسلم ممالک کے اسکالروں اور حکمرانوں نے اس میدان میں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق کسی عمل کا آغاز کیا ہے؟ یہ امریکہ کے مسلم دانشوروں اور کمزور ترقی یافتہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کا فریضہ ہے کہ وہ عالمی سپر پاور کی ملٹری مشین کے غضب اور غیر مسلموں کے شر سے بچنے کیلئے ڈائیلاگ اور تعلق کے ذریعہ سے کام کریں۔
موجودہ مسلم دنیا کے حکمران اپنے اقتدار کی طوالت کیلئے تو ہر مطالبہ اور حکم مان کر غیر مسلم طاقتوں اور سرپرستوں کے آگے جھک جاتے ہیں مگر اپنے عوام کے حقیقی مفاد ،عقائد جذبات اور موقف کی ترجمانی کرنے کے بجائے انہیں پس پشت ڈال کر سودے بازی کر کے زندگی گزار رہے ہیں وہ امریکی عوام سے ڈائیلاگ کے بجائے امریکی حکومت اور اس کے اداروں سے رابطوں کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں جبکہ امریکی حکومت کی قیادت کی سوچ فکر اور اقدام کی جڑ بنیاد جمہوری اور عوامی انتخابات اور رائے عامہ میں پوشیدہ ہے۔ جب ہم نے موجودہ عہد کے حالات اور تقاضوں کے مطابق اپنے لئے کچھ نہیں کیا تو پھر یاد رکھئے کہ ہر دور اور علاقے کی برتر طاقت والی قوم نے کمزور اقوام سے اپنے مطالبے پورے کرانے کے لئے کام کیا ہے۔
سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد ردعمل میں امریکہ میں مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کے لئے عوامی اور سرکاری سطح پر مشکلات اور امتیازی سلوک کا ضرور تلخ تجربہ ہوا۔ بعض مشتبہ مسلمانوں کی گرفتاریاں، مساجد کی نگرانی اور دیگر واقعات پیش آئے کیونکہ سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں مسلمان ناموں اور وضع قطع والے افراد تھے۔ اسلام سے ناواقف امریکی اکثریت نے اسے اپنی تہذیب پر مسلم حملہ تصور کیا ۔ وقتی طور پر امریکہ میں داخلی سطح پر مسلمانوں کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا لیکن مسلمان آبادیوں اور شہریوں کو امریکی غیر مسلم پولیس نے ہی تحفظ فراہم کیا۔
آج بھی امریکہ بھر میں مسلمان ان کی عبادت گاہوں، رہائش گاہوں اور کاروبار کی حفاظت ،تسلسل غیر مسلم امریکی معاشرے اور اس کے حکومتی اداروں نے ہی فراہم کر رکھی ہے۔ مجھے امریکہ میں40سال کے قیام کے دوران اپنے مسلمان نام، پاکستانی رنگت اور دیگر غیر امریکی عوامل کے باوجود مقامی حکومت سے لیکر امریکی حکومت، سینٹ ایوان نمائندگان ، وہائٹ ہائوس ،پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی کوریج، امریکہ کی انتخابی سیاست ،پارٹیوں کے کنونشن اور گورے کالے اور دیگر نسل کے امریکی رہنمائوں کی بطور صحافی انٹرویوز اور کوریج کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ یا مشکل پیش نہیں آئی۔ نسلی اور مذہبی امتیاز کے کچھ واقعات ہر معاشرے میں ہوتے ہیں مگر جمہوری غیر مسلم امریکہ میں ہم امریکی مسلمان معاشی طور پر بہت سوں سے بہتر اور قانون کے تابع تحفظ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے میں کہ جب پاکستان، مسلم ممالک اور ان کے معاشرے انتشار ،تصادم اور عدم رواداری کا شکار ہو کر تشدد کا نشانہ بنانے میں مصروف ہیں تو اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے امریکہ پر الزامات اور نفرت کے جذبات کا اظہار کرنا درست نہیں۔ غیر مسلم امریکہ میں آباد مسلمان بہتر حالات میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ مسلم ممالک ان کے حکمران ، مذہبی و معاشرتی رہنما خود اسلام اور مسلمانوں کے سافٹ امیج ابھارنے اور اسلام کے نام پر تشدد و دہشت گردی کا تاثر زائل کرنے کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں تو پھر غیر مسلم ممالک اور معاشروں سے کیسا گلہ؟
عظیم ایم میاں
بشکریہ روزنامہ "جنگ
AmericanMuslims,Islam andPakistan?
↧
Japan's new immigration law
جاپان دنیا کے ان چند ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے جو تیسری دنیا کے ممالک میں بسنے والے افراد کے لئے انتہائی کشش رکھتا ہے، جس کی سالانہ فی کس آمدنی چالیس ہزار ڈالر سے زائد ہے جبکہ بہترین آب و ہوا، انسانی حقوق کی پاسداری، شریف النفس اور غیر ملکیوں سے محبت کرنے والے عوام ،جبکہ روزگار کے وافر ذرائع میسر ہونے کے سبب جاپان رہائش، ملازمت اور کاروبار کے لئے بہترین ملک ہے لیکن اتنی سب خصوصیات کے باوجود جاپان پہنچنا اور یہاں سیٹل ہونا ایک انتہائی مشکل أمر ہے تاہم اس کے باوجود ایک اندازے کے مطابق اس وقت جاپان میں بیس لاکھ غیر ملکی آباد ہیں، جو خوشحال زندگی گزار رہے ہیں تاہم اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کی میزبانی کرنا اور ان کو وہ تمام وسائل فراہم کرنا جو ایک عام جاپانی کو میسر ہیں کے لئے جاپانی حکومت نے بہترین انتظامات کیے ہیں، ان انتظامات میں سب سے اہم غیر ملکی شہریوں کا ریکارڈ مرتب کرنا، ان کے ویزوں اور رہائش کے مسائل حل کرنا اور بہت بڑی تعداد میں غیر ملکی شہریوں کو مستقل اقامت کا ویزہ فراہم کرنا اور ہزاروں کی تعداد میں جاپانی شہریت کے خواہشمند غیر ملکیوں کو میرٹ پر جاپانی شہریت فراہم کرنے کے لئے جاپانی حکومت نے ایک وزارت قائم کر رکھی ہے جسے منسٹر آف جسٹس کہا جاتا ہے جس کے کنٹرول میں امیگریشن کا محکمہ بھی آتا ہے ، جاپانی حکومت غیر ملکیوں کی سہولتیں کو مدنظر رکھتے ہوئے امیگریشن کے نظام میں گاہے بگاہے تبدیلیاں بھی کرتی رہتی ہے۔
حال ہی میں جاپان میں کام کرنے والے غیر ملکی شہریوں کے ویزے اور ان کے حوالے سے تمام معلومات کو ایک مکمل ریکارڈ میں رکھنے کے لئے جاپانی حکومت نے امیگریشن قوانین میں کئی اہم تبدیلیاں بھی کی ہیں جن میں جاپان میں تین سال کے ویزے کی حتمی مدت میں اضافہ کر کے پانچ سال تک کر دیا گیا ہے جبکہ اب تک عارضی قیام کے ویزوں اور جاپان کا مستقل ویزہ رکھنے والوں کو ماضی میں ری انٹری پرمٹ کی ضرورت ہوتی تھی، تاہم نئے امیگریشن قوانین کے تحت اب ایک سال کی مدت تک جاپان سے باہر جانے والوں کو ری انٹری پرمٹ کی ضرورت نہیں رہی ہے، جبکہ تین سال اور پانچ سال کا ویزہ رکھنے والے افراد سمیت مستقل رہائش کا ویزہ رکھنے والے افراد کو اگر وہ چاہیں تو تین سال سے پانچ سال تک کی ری انٹری پرمٹ کی سہولت بھی فراہم کی جاسکے گی تاہم وہ لوگ جو تین ماہ سے کم مدت کیلئے سیاحتی مقاصد کے لئے جاپان آئے ہوں انہیں یہ سہولت میسر نہ ہو گی۔
جاپان کے امیگریشن نظام میں ایک اور اہم تبدیلی ماضی میں جاری ہونے والے ایلین کارڈ کو بھی اب تبدیل کر کے رہائشی کارڈ کا اجراء کیا گیا ہے۔ ماضی میں غیر ملکیوں کو فراہم کئے جانے والے ایلین رجسٹریشن کارڈ پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بھی کافی اعتراض اٹھائے گئے تھے جس میں حکومت جاپان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایلین کارڈ کا نام غیرملکیوں کو نسلی بنیاد پر کمتر ظاہر کرنے کے مترادف ہے جسے فوری طور پر ختم کیا جانا چاہئے لہٰذا جاپانی حکومت نے غیر ملکیوں کی آسانی کے لئے سابقہ ایلین کارڈ کا نظام جس کے نام سے انسان عجیب سا محسوس کرتا تھا اسے ختم کر کے رہائشی کارڈ کا اجراء شروع کر دیا ہے جو درمیانی اور طویل مدت کے رہائشیوں کے لئے مخصوص ہوں گے جس پر جاپان آمد کی تاریخ ، رہائشی درجہ، تاریخ تجدید ، رہائش کی مدت یعنی ویزے کا اندراج ، نام، تاریخ پیدائش، شہریت، پیشہ اور پتہ وغیرہ درج ہو گا۔ رہائشی کارڈ کو جعلسازی سے محفوظ رکھنے کے لئے اس میں IC چپ نسب کی جائے گی جس میں کارڈ پر درج تمام معلومات یا اندراج کے کچھ حصے مخفی طور پر ریکارڈ کئے جائیں گے۔ اس کارڈ کے لئے خصوصی تصویر درکار ہو گی، جس میں چہرہ تھوڑی تک واضح نظر آئے ، بغیر ٹوپی اور بغیر کسی پس منظر اور تین ماہ پرانی تصویر ہی قبول کی جائے گی ۔
جاپان میں مستقل رہائش کے حامل سولہ سال سے زائد عمر کے لوگوں کے لئے مذکورہ کارڈ سات سال تک کارآمد ہو گا جبکہ سولہ سال سے کم عمر لوگوں کے لئے ان کی سولہویں سالگرہ تک کارآمد ہو گا۔
اب جب کہ نئے رہائشی کارڈ تقریباً تمام غیر ملکی شہریوں کے لئے جاری ہو چکے ہیں لہٰذا ماضی میں جاری کئے جانے والے ایلین کارڈ منسوخ کئے جا چکے ہیں ، نئے کارڈ کے اجراء کے لئے مقامی امیگریشن دفاتر سے رجوع کیا جا سکے گا تاہم نئے آنے والے وہ غیر ملکی جو درمیانی وطویل مدت کے ویزے کے زمرے میں آتے ہوں انہیں ایئرپورٹ پر ہی ان کے پاسپورٹ پر لگائی جانے والی آمد کی مہر لگاتے وقت ہی رہائشی کارڈ جاری کر دیا جائے گا ، یہ سہولتیں شروع میں صرف ٹوکیو ،ناریتا ، ٹوکیو ہانیدا ،چوب اور کھانسائی ہوائی اڈوں تک محدود ہوں گی۔ مذکورہ بالا ہوائی اڈوں کے علاوہ پہنچنے والے غیر ملکی اپنے پاسپورٹ پر ثبت کی گئی آمد کی مہر اپنے رہائشی شہر کے سٹی آفس میں دکھا کر رہائشی کارڈ حاصل کر سکیں گے۔
جاپان میں نافذ کئے جانے والے نئے نظام کے تحت جاپان میں رہائشی ویزے کی اقسام اور مدت میں تبدیلی کی جائے گی۔ موجود رہائشی ویزہ جس میں اعلی مہارت ، انسانیت کی بنیادوں پر، بین الاقوامی کاروبار اور ملازمت کے ویزے شامل ہیں (جن میں ثقافتی، سیاحتی فروغ اور تکینکی مہارت کی تربیت لینے والے اس زمرے میں نہیں آتے) کے لئے موجودہ مدت کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ تین سال ہے جسے نئے نظام کے تحت کم سے کم تین ماہ اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال کر دیا گیا ہے جبکہ غیر ملکی طلباء و طالبات، جاپانی شہریوں اور غیر ملکی مستقل رہائشی ویزہ رکھنے والوں کے بیوی بچوں کیلئے غیر ملکی طلباء وطالبات کیلئے پانچ قسم کی مدتیں ہیں(چھ ماہ، ایک سال، ایک سال تین ماہ، دو سال، اور دوسال تین ماہ) جس میں کم سے کم مدت چھ ماہ ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ مدت دوسال تین ماہ ہے۔ نئے نظام کے تحت مدت کی اس اقسام میں مزید پانچ مدتوں کا اضافہ کیا جائے گا (تین ماہ، تین سال ، تین سال تین ماہ، چارسال اور چار سال تین ماہ)جس میں کم سے کم مدت تین ماہ اور زیادہ سے زیادہ مدت چار سال تین ماہ کر دی جائے گی لہٰذا نئے نظام کے تحت غیر ملکی طلبہ کیلئے دس قسم کی مدتیں نافذالعمل ہون گی جبکہ ویزے کی تیسری قسم کے زمرے میں آنے والے وہ لوگ ہیں جو جاپانی شہریوں اور غیر ملکی مستقل رہائشی ویزہ رکھنے والوں کے بچے ، بیوی یا شوہر کی حیثیت رکھتے ہیں، ایسے لوگوں کے لئے موجودہ ویزے کی کم سے کم مدت ایک سال اور تین سال ہے جبکہ نئے نظام کے بعد ان کے ویزے کی مدت کم سے کم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال کر دی جائے گی ، اس نئے نظام کے اطلاق کے بعد کسی بھی جاپانی شہری یا جاپان کے کسی مستقل رہائش کے حامل غیر ملکی کی بیوی یا شوہر خاص وجوہات کے بغیر اگر چھ ماہ سے زائد کا عرصہ ایک ساتھ رہتے ہوئے نہ پائے گئے تو ان کا ویزہ منسوخ کیا جاسکتا ہے ،جس سے جاپان میں ویزے کے حصول کے لئے پیپر میرج کے رحجان کی بھی حوصلہ شکنی ہو سکے گی۔
بشکریہ روزنامہ "جنگ
Japan's newimmigration law
↧
PAKISTAN: International Women's Day
↧
↧
Tharparkar
Tharparkar is the only fertile desert in the world. The region derives its names from Thar and Parkar. The name Thar is from Thul, the general term for sand region or sand ridges and Parkar literary means “to cross over”. The region was earlier known as Thar and Parkar, later they became one word.
Historical background

Geographical features
There is no stream of fresh water in the region. However, in Nagarparkar there are two perennial springs, namely Anchlesar and Sardhro. as well as temporary streams called Bhatuyani River and Gordhro River which flow during the rainy season. There are some hilly tracks called Parkar. The Granite Marble has been found there. “Karoonjhar Mountain” is near to Nagarparkar. There are no lakes, glaciers, plains in the district. This district is mainly a desert area.
Topography
The Thar Region forms part of the bigger desert of the same name that sprawl over a vast area of Pakistan and India from Cholistan to Nagarparkar in Pakistan and from the south of the Haryana down to Rajasthan in India. The area is mostly deserted and consists of barren tract of the sand dunes covered with thorny bushes. The ridges are irregular and roughly paralleled that thy often closed shattered valleys which they raise to a height to some 46 meters. When there is rain these valleys are moist enough admit cultivation and when not cultivated they yield luxuriant crops of rank grass. But the extra ordinary salinity of the subsoil land consequent shortage of portable water renders many tracks quite picturesque salt lakes which rarely a day up.
The only hills are in Nagarparkar, on the Northern edge of the Runn of Kutchh belongs to quite a different geological series. It consist Granite rocks. Probably an outlying mass of the crystalline rocks of the Arravelli range. The arravelli series belongs to Archean system which constitutes the oldest rocks of the earth crust. This is a small area quite different from the desert. The tack is flat a level expect close to Nagarparkar itself. The principle range Karoonjhar is 19 km in length and attains a height of 305 m. smaller hills rise in the east, which is covered with sars jungle and pasturage and gives rise to two springs named Anchlesar and Sardhro as well as temporary streams called Bhatyani and Gordhro after the rain.
↧
Pakistan Disabled Peoples by Wusatullah Khan
آج ذرا خود پر غور کیجے گا جب آپ گھر سے نکلیں اور آپ کو کوئی صاحب وہیل چیئر پر بیٹھے نظر آئیں یا کالا چشمہ پہنے سفید چھڑی ہلاتے فٹ پاتھ پے ملیں یا اسی فٹ پاتھ پر دونوں پیر گھسٹتے دکھائی دیں، ہم میں سے بیشتر ان لوگوں کے لیے ایک لمحاتی ہمدردی محسوس کرتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ ہماری طرح کے ان نارمل دماغ و دل کے لوگوں کو ہماری ہمدردی سے زیادہ ہماری توجہ کی ضرورت ہے۔یہ بیمار نہیں کہ آپ ان پر عیادت بھری نگاہ ڈالیں۔یہ ناکام نہیں کہ آپ ان پر ترس کھائیں۔یہ نکھٹو نہیں ، بھکاری نہیں۔یہ بھی ایک خوبصورت اور پرسکون زندگی چاہتے ہیں مگر ہم آپ جیسے نام نہاد جسمانی نارمل لوگوں کی ہمدردی و ترس ان کے لیے سب سے بڑا تازیانہ بن جاتا ہے۔آخر ہم ان کے ہم قدم اور شانہ بشانہ ایک نارمل رویے کے ساتھ کیوں نہیں چل سکتے۔
اس وقت اس دنیا کے ہر سو میں سے پندرہ لوگ کسی نا کسی جسمانی یا زہنی کمی میں مبتلا ہیں اور ان میں سے ستر تا اسی فیصد ترقی پذیر دنیا میں رہتے ہیں۔پاکستان میں اگرچہ جسمانی و ذہنی کمی کے شکار لوگوں کا کوئی سائنسی سروے موجود نہیں لیکن انیس سو اٹھانوے کی آخری مردم شماری کے مطابق ملک میں پونے تین ملین معذور افراد تھے اور اس تناسب سے اندازہ ہے کہ گذشتہ سولہ برس میں ان کی تعداد پانچ ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔اور یہ تعداد ناروے ، نیوزی لینڈ ، لبنان اور کویت جیسے کسی بھی ملک کی آبادی سے زیادہ ہے۔
لیکن ناروے ، نیوزی لینڈ ، لبنان اور کویت سمیت بیشتر امیر یا متوسط ممالک میں معذوری بوجھ سمجھے جانے کے بجائے رفتہ رفتہ محض ایک جسمانی کمی کے درجے تک لائی جاچکی ہے۔ ان ممالک میں روزگار کے اکثر شعبوں میں کوئی بھی جسمانی کمی کا شکار اپنے صلاحتیوں کے حساب سے کوئی بھی کام منتخب کرنے میں آزاد ہے۔فٹ پاتھوں سے لے کر عمارتوں ، بسوں ، ٹرینوں کے ریمپس تک ایسے بنائے گئے ہیں کہ جسمانی معذوروں کو مدد کے لیے ادھر ادھر نہ دیکھنا پڑے۔ان کے لیے پبلک پرائیویٹ پارکنگ ایریاز میں جگہیں مختص ہونا ایک عام سی بات ہے۔وہ اپنے استعمال کے لیے ڈیوٹی فری آلات اور گاڑیاں امپورٹ کرسکتے ہیں۔ان کے اوقاتِ کار لچک دار رکھے گئے ہیں اور سرکاری و نجی طبی و سماجی ادارے ان کی بھرپور معاونت سے کبھی نہیں ہچکچاتے چنانچہ ان معاشروں میں شائد ہی کوئی ایسا زن و مرد ہو جو محض کسی جسمانی کمی کے سبب زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہو۔گویا ان معاشروں نے ان کی کمی کو اپنی توجہ سے اپنے اندر جذب کرلیا ہے۔
مگر ہم جیسے معاشروں میں کہانی خود ترسی سے شروع ہوتی ہے اور خدا ترسی پر ختم ہوجاتی ہے۔جس طرح ذہنی مسائل کے سلجھاؤ کے لیے ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا عیب کی بات سمجھی جاتی ہے اور ایسے مشورے کو ’’ اوئے میں کوئی پاغل ہاں ’’ کہہ کر مسترد کردیا جاتا ہے اسی طرح ذہنی یا جسمانی کمی کے شکار بچوں اور بڑوں کے بارے میں بھی یہ سوچ کر بغیر سوچے سمجھے انااللہ پڑھ لی جاتی ہے کہ صبر سے کام لو اللہ کو یہی منظور تھا۔حالانکہ اگر صرف بھکاریوں کی ہی تعداد کو گنا جائے تو ہٹے کٹے بھکاری جسمانی و ذہنی کمی کے شکار حاجت مندوں سے کئی گنا زیادہ پائے جاتے ہیں۔اگر کمی کے شکار شخص کو ذرا سا بھی سماجی دھکا مل جائے تو بہت سے معذور اس دنیا کو نام نہاد اچھے بھلوں کے لیے اور خوبصورت بنا سکتے ہیں۔
آخر اشاروں کی زبان کو ترقی دینے والی ہیلن کیلر بھی تو نابینا اور بہری تھی۔کیمبرج میں بیٹھا ہوا دنیا کا سب سے بڑا ماہر فلکیات و فزکس سٹیونز ہاکنز اپنے پورے مفلوج جسم کے ساتھ سوائے دماغ کے اور کیا ہے۔کیا پولیو میکسیکو کے فریڈا کاہلو کو ایک بڑا مصور بننے سے روک سکا ؟ بہرے موسیقار بیتھوون نے اس دنیا کو کیسی کیسی جادوئی دھنوں سے بھر دیا کہ آج تک مغربی موسیقی بیتھوون سے بچ کر نہیں نکل پائی۔ سدھا چندرن کی جب ایک حادثے میں دونوں ٹانگیں کٹ گئیں تب اسے پتہ چلا کہ ہندوستان کی سب سے بڑی رقاصہ بننے کا راستہ تو اب کھلا ہے۔
جنرل ضیا الحق کے بارے میں آپ بھلے جو بھی رائے رکھیں مگر وہ پاکستان کے شائد پہلے اور اب تک کے آخری حکمراں ہیں جنہوں نے معذوروں ، آہستہ رو اور خصوصی تعلیم کے ضرورت مند بچوں کے لیے قانون سازی بھی کی اور ادارہ سازی میں بھی دلچسپی ظاہر کی۔انھیں اپنی لاڈلی بیٹی زین سے یہ سبق ملا کہ ہم قدم نا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ قدم ہی نہیں بڑھایا جاسکتا۔کہنے کو پاکستان میں معذور افراد کی فلاح سے متعلق قانون انیس سو اکیاسی سے نافذ ہے اور اس کے تحت سرکاری و نجی اداروں میں دو فیصد ملازمتی کوٹہ جسمانی کمی کے شکار لوگوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔تاہم کوئی سال ایسا نہیں جاتا کہ معذور افراد کی مختلف انجمنوں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے نہ آتا ہو کہ دو فیصد کوٹے پر عمل درآمد کیا جائے۔
یہ بھی ڈھنڈورا ہے کہ اسلام آباد ، لاہور اور کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت بھی ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ سرکاری اسپتالوں میں تو غیر معذوروں کے لیے بھی بظاہر مفت علاج کی سہولت ہے۔ویسے بھی ساٹھ فیصد سے زائد معذور افراد دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اور یہ کہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے متاثرین بھی کیا مفت علاج کے لیے اسلام آباد ، لاہور یا کراچی جائیں ؟ معذور افراد کے لیے ڈیوٹی فری گاڑیوں کی امپورٹ ہوسکتی ہے لیکن کیا اس سے بھی زیادہ اہم اشیا یعنی وہیل چییرز ، ٹرائی سائکلز اور مصنوعی اعضا بھی ڈیوٹی فری منگوائے جاسکتے ہیں ؟ یہ کوئی نہیں بتاتا۔
سرکاری بیت المال کے پاس کروڑوں روپے موجود ہیں اور اس کا دعویٰ ہے کہ جس خاندان میں دو معذور افراد ہوں اس خاندان کو پچیس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔لیکن اگر کسی خاندان میں صرف ایک معذور پایا جائے تو وہ کیا کرے اور کہاں جائے ؟ یہ بھی کوئی نہیں بتاتا۔
پبلک سروس کمیشن کے تحت اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے امتحانات ( مقابلے کا امتحان ) میں معذور افراد کے لیے کامرس، اکاؤنٹس ، ریونیو اور انفارمیشن کے شعبے کھلے ہیں۔خصوصی تعلیم کی وزارت انیس سو چھیاسی سے کام کررہی ہے اور اس کے تحت خصوصی تعلیم کے چھیالیس مراکز بھی فعال ہیںمگر وہاں بریل کتابوں ، مددگار تعلیمی آلات اور ماہر اساتذہ کی کمی کا رونا ہے۔پبلک لائبریریوں میں بھی بریل کتابوں کے نام پر ایک آدھ الماری موجود ہوتی ہے مگر اس پر اکثر زنگ آلود تالہ ہی دیکھا گیا ہے۔
جسمانی کمی کے شکار بچوں کی آدھی سے زیادہ تعداد نارمل اسکولوں میں بھی پڑھ سکتی ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر کے اسکول کمرشل وجوہات کی بنا پر معذور بچوں کو اپنے ہاں داخلہ دینے کی بہت قرینے سے حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔اگر کمی کے شکار بچے نارمل اسکولوں میں داخل ہو بھی جائیں تو ان کے ساتھ کلاس فیلوز حتیٰ کہ اساتذہ تک انھیں ایک خصوصی مخلوق کے طور پر دیکھتے اور برتتے ہیں۔اس رویے کے سبب جسمانی کمی کے شکار بچوں کی نارمل صلاحتیں بھی متاثر ہوجاتی ہیں۔
ایک جانب شائد ہی کسی کا دھیان جاتا ہو اور وہ ہے انٹلکچوئل ڈس ایبلٹی۔اس کا شکار بچہ دیکھنے میں تو بالکل نارمل لگتا ہے لیکن ناکافی غذائیت کے سبب اس کی ذہنی و جسمانی نشوونما ایک نارمل بچے کے مقابلے میں آدھی رھ جاتی ہے۔ لگ بھگ اٹھائیس فیصد پاکستانی بچے انٹلکچوئل ڈس ایبلٹی کا شکار ہیں لیکن ان پر الگ سے توجہ دینے کے بجائے ان پر پھسڈی ، نکمے ، کام چور اور کند ذہن کا لیبل لگا کے ان کے اپنے ہی گھر اور سماج والے نادانستہ طور پر خود سے الگ تھلگ کرتے چلے جاتے ہیں۔
اگرچہ فٹ پاتھوں ، رہائشی و کمرشل عمارات اور ٹرانسپورٹ کو بغیر کسی اضافی بجٹ کے ڈس ایبل فرینڈلی بنایا جاسکتا ہے۔بس تعمیراتی ٹھیکیدار کو بتانے اور پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں اور ٹرین کی بوگیوں کو خریدتے وقت کمپنی کو یہ سہولتیں نصب کرنے کی ہدایات دینے کی ضرورت ہے۔لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہم جسمانی کمی کے شکار لوگوں اور ان کے مسائل کو محسوس کرسکیں۔مگر ہمیں تو کوئی اپنے علاوہ نظر ہی نہیں آتا۔تو پھر نابینا کون ہوا ؟
معذوروں کی مدد تو خیر ہم سے کیا ہوگی۔ہم تو ان ممالک میں شامل ہیں جہاں معذور سازی ہوتی ہے۔یقین نہ آئے تو پولیو کی ویکسینیشن کرنے والے رضاکاروں کی ہلاکتوں کی خبریں پڑھ لیا کریں۔
Pakistan Disabled Peoples by Wusatullah Khan
↧
تھر کے بھوکے پیاسے سندھی
![]()
قحط، زلزلہ یا سیلاب نہیں ہوتا کہ اچانک آجائے، ناگہانی وار کرے،لمحوں میں بستیوں اور آبادیوں کو اپنی ہلاکت آفرینی سے ملیامیٹ کردے، قحط تو ایسی کربناک آفت کا نام ہے جوآہستہ آہستہ دبے قدموں، بڑی دھیرج سے وسیع وعریض علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے کر موت سے ہمکنار کرتی ہے، زمانہ قدیم میں قحط کا شکار بے بسی اور بے کسی سے دم توڑتے تھے کہ انھیں موت سے بچانے والے ہاتھ بہت دور ہوتے تھے، دشوار گذار اور طویل فاصلے، امدادی ٹیموں کے لیے موت کی اس جولان گاہ تک فوری رسائی کو مشکل اور بعض حالات میں ناممکن بنا دیا کرتے تھے پھر انسانیت سسک سسک کر دم توڑتی تھی۔ گدھ زندہ انسانوں کے دم نکلنے کے منتظر ارد گرد منڈلاتے رہتے لیکن زندہ انسانوں کو نوچنے سے گریزاں ہوتے کہ فطرت نے ان کو یہی سکھایاتھا ۔ یہ اشرف المخلوقات حضرت انسان ہے جو کسی صورت ترس نہیں کھاتا۔ دم توڑتا، جاں بلب یا پیاس کا شکار مظلوم ،یہ سب کو اپنی اغراض کا ترنوالا بنا لیتا ہے۔
مواصلات کے اس جدید دور میں قحط سے موت کا تصور ناپید ہوچکا ہے کہ دم توڑتی انسانیت کو پلک جھپکتے میں اشیائے خورد نوش پہنچائی جا سکتی ہیں۔ ہوائی جہازوں سے لے کر دیوہیکل کنٹینروں کے ذریعے متاثرہ علاقوں تک امداد کی فوری فراہمی نے قحط کو پسپا کرکے رکھ دیا ہے لیکن اسی دور جدید میں ہمارے تھر میں انسانیت سسک سسک کردم توڑ رہی ہے جہاں بچے بھوک سے زیادہ پیاس سے مررہے ہیں یا ناقابل استعمال آلودہ پانی ان کے لیے زہر قاتل بن رہا ہے۔ ناکافی غذا ،ادویات اور معالجوں کی عدم دستیابی نے اس سانحے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ خشک سالی اور قحط کے بارے میں فطرت انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے مظاہر قدرت کو واضح کرنا شروع کردیتی ہے۔ ان علاقوں میں خشک سالی کے پہلے مرحلے میں جنگلی حیات ناپید ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ مختلف بیماریاں چرند پرند اور انسانوں پر دھاوا بول دیتی ہیں۔ تھر میں گذشتہ کئی برسوں سے ڈھور ڈنگر مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ تھر کے مورتو ساری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔گذشتہ سالوں میں جب بے شمار مور اچانک اور یک لخت مرنے لگے تو کسی پر اسرار وائرس کے حملے کا چرچاہوا تھا ، انھی دنوں اس کالم نگار کے دوست ماہر جنگلی حیات نے خبردار کیا تھا کہ تھر میں خشک سالی کا طویل دور شروع ہونے والا ہے جس کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔
خشک سالی کا منطقی انجام قحط کی صورت میں متشکل ہوتا ہے جس کے لیے ذخائر خوراک اور صاف پانی کی فراہمی منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ زوال کا شکار ہمارے سماج میں اب سر پڑی نمٹانے کی عادت راسخ ہوچکی ہے، اس لیے فطرت کی بار بار واضح تنبیہ کے باوجود کسی حکمت کار نے اس کی پروا نہیں کی، کوئی اقدام نہیں کیا سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، تھر میں زندگی اور موت کا کھیل تو گذشتہ کئی سال سے جاری ہے۔ وبائیں پھیلتی رہیں ، لوگ پانی کی بوند بوند کو ترستے رہے اور ہم میلے ٹھیلوں میں مصروف رہے۔ سندھ کی ثقافت کی ترویج کے نام پر جب موہنجوداڑو کے کھنڈرات پر جشن رنگ ونورمنایا جا رہا تھا عین اسی وقت تھر کے وسیع و عریض ویرانوں میں بکھرے ہوئے بے نوا انسانوں پر، گھاس پھونس کی جھونپڑیوں اور مٹیالی خاکستر گوٹھوں پر موت کے سائے پھیل رہے تھے لیکن سندھ دھرتی کے بیٹے بھوک اور پیاس سے سسک سسک کر دم توڑ رہے تھے جب کہ موہنجوداڑوکے کھنڈرات سے لے کر کراچی کے ساحلوں تک رنگ وبو کا ایک ہنگام برپا تھا، سندھ کی عظمت کے قصے کہانیاں تھیں، داستان گو بزم آراء تھے، لوک گلوکار زرق برق لباس پہنے محو رقص تھے چہار سو شہنائیاں گونج رہی تھیں لیکن چند قدم کے فاصلے پر اسی سندھ دھرتی کے بیٹے بھوک اور پیاس سے دم توڑ رہے تھے۔
’’مرسوں‘مرسوں سندھ ناں ڈیسوں‘‘کے نعرے لگانے والے ،بات بہ بات ٹیوٹر(Twitter) پر عقل و دانش کی پھل جھڑیاں چھوڑنے والے سب غائب ہیں، بے حس حکمرانوں نے موت کے کھیل کو اَناکی جنگ بنادیا ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پنجاب اور مرکز کی امداد لینے سے انکار اور فوج کو تھر کے بجائے وزیرستان بھجوانے کے مشورے دیے جارہے ہیں، تھر کے بے نواؤں کی ’مزاج پرسی‘کے دیے جانے والے حکمرانوں کے لیے سرکٹ ہاؤس میں شاہانہ دعوتوں کا اہتمام ہورہا ہے۔ ایک طرف سندھ کے بیٹے پانی کو ترس رہے ہیں جب کہ ان کے منتخب نمایندے کوفتوں، مچھلی اور بریانی اڑارہے ہیں۔ چند ہفتے پہلے تھر کا مخدوم زادہ ڈپٹی کمشنر غریب تھریوں کو گلاب اُگانے اور اپنی معیشت بہتر بنانے کے مشورے دے رہا تھا۔وہ جن کے پھول جیسے بچے ناکافی خوراک، بھوک پیاس سے جان بلب ہوں۔ وہ گلاب اگائیں گے؟ کاش اس مخدوم زادے نے اپنے دادا اور عظیم سندھی دانشور، مخدوم طالب المولیٰ کی ایک ،آدھ رُباعی ہی پڑھ لی ہوتی جو تادم آخر سندھ اور سندھیوں کے عشق میں مبتلا رہے۔
بعدازمرگ شورشرابا اور واویلا چہ معنی دارد؟ وزیراعظم نواز شریف نے متاثرین تھر کے لیے ایک ارب روپے کی خطیر رقم کا اعلان کیا ہے لیکن اس طرح کیا وہ سیکڑوں پھولوں جیسے بچے واپس آجائیں گے جن کی ماؤں کی گودیں ہماری بے حسی کی وجہ سے اجڑ چکی ہیں۔ یہ کوئی آفت ناگہانی نہیں تھی، ظاہر وباہر المناک حقیقت تھی جو گذشتہ کئیبرسوں سے ہمارے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ ہمیں خبردار کررہی تھی لیکن ہم توشترمرغ ہیں کہ مصیبت دیکھتے ہی ریت میں سردبالیتے ہیں، اس طرح کی خوش فہمی سے اَجل بھی کبھی ٹلا کرتی ہے، یہ اور بات ہے کہ نشانہ ہم نہیں، بے بس اور بے کس تھر والے تھے جن کا زمانوں سے رہنما ،تہجد گذار ارباب غلام رحیم نجانے کہاں روپوش ہے جس کی پہلی منزل لاہور یا دبئی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کے نیم شبی کے نالے اور رکوع وسجود بارگاہ الٰہی میں کیسے باریاب ہوسکتے ہیں کہ میرے آقاومولاؐکے ایک غلامؓفرمایا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتابھی پیاس سے مر گیا تو اس کا جواب دہ عمرؓہوگا۔
رہی سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی تو ان کا اللہ حافظ ہے۔ غریبوں کے حقوق اور ان کے غم میں کھلنے والی سول سوسائٹی ہویا انقلاب، انقلاب کا رٹا لگانے والی نام نہاد جمہوری جماعتیں کوئی بھی تھر نہیں پہنچا، بوسینا سے فلسطین تک مسلمانوں کے دکھ میں تڑپنے والے صالحین بھی حکمت اورحماقت کے گورکھ دھندے کو سلجھانے میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ غربت کو کاروبار بنانے والے شائستہ کلام دانشور ہوں یا شاعر مصیبت کی اس گھڑی میں سب غائب ہیں۔ اے کاش جمہوریت حقیقی معنوں میں بروئے کار ہوتی ،بلدیاتی ادارے موجودہوتے تو قوم کو اس مصیبت کا چند ماہ پہلے پتہ چل جاتا لیکن ہم تو مربوط اور مسبوط انداز میں ایک نظام کے تحت کام کرنے کے بجائے آفت ٹوٹنے کے بعد ہنگامی بنیادوں پر ’کارروائی‘ کے عادی ہوچکے ہیں۔
↧
یہ صحرا موت کا صحرا ہے
شیکسپیر نے اپنے کسی ڈرامے میں کردار کی زبان سے یہ کہلوایا ہے کہ ایک انسان جو نابینا ہو، وہ بھی دیکھ سکتا ہے کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ کنگ لیئر کا یہ جملہ آج بہت یاد آیا۔ تھر کے نیم جاں لوگوں سے ہمدردی کے لیے جانے والے ہمارے وزیر اعلیٰ اور ان کے ہمراہیوں نے تھکن اور صدمے سے نڈھال ہوکر مٹھی سرکٹ ہاؤس میں کمر ٹکائی۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن تھا کہ ان کے لیے عشائیے کا اہتمام نہ کیا جاتا۔ دروغ برگردن صحافیان، سب کی تواضع تلی ہوئی مچھلی، چکن تکے، بریانی، ملائی بوٹی، کوفتے اور روغنی روٹی سے کی گئی ہے۔ درجہ دوم کے لوگوں کے لیے بریانی کی دیگیں تھیں جو اس قدر خشوع و خضوع سے کھائی گئیں کہ جو لوگ اس بریانی سے حسب خواہش انصاف نہ کرسکے وہ کفِ افسوس مل کر رہ گئے۔ اس عشائیے کی تفصیل جان کر مجھے بے نظیر بھٹو یاد آئیں۔ وہ 70 کلفٹن میں جب اپنے کارکنوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھتیں تو دال، چاول، نان اور ایک سبزی کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔ جو وہ خود کھاتیں، وہی اپنے جاں نثاروں کو بھی کھلاتیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اگر بے نظیر بھٹو کسی ایسے اجتماعی سانحے میں پرسہ کرنے اور چارہ جوئی کے لیے گئی ہوتیں تو وزیروں، مشیروں اور افسروں کے اس ہجوم میں کیا ان کے سامنے بھی یہ دسترخوان چننے کی کسی نے مجال کی ہوتی؟ ایسے لمحوں میں وہ اس لیے یاد آتی ہیں کہ وہ مدبر تھیں، رہنما تھیں، ان کے بعد آنے والے شاید وہ لوگ ہیں جو سندھ کے دیہی علاقوں سے ووٹ لینا اپنا پیدائشی حق اور وہاں کے رہنے والوں کا پیدائشی فرض سمجھتے ہیں۔
اس وقت سندھ حکومت کے ذمے داروں کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں پڑنے والے قحط اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ وہ اسے میڈیا بہ طور خاص الیکٹرانک میڈیا کی ذمے داری قرار دے رہے ہیں۔ اس مرحلے پر یہ کیسے جان لیا کہ اس سنگین صورت حال میں صوبائی حکومت کی ذمے داری کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سابق صدر زرداری صاحب نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے اختیارات کی جو تقسیم کی ہے اس نے ملک کی تمام صوبائی حکومتوں کو بہت زیادہ بااختیار بنادیا ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ مقامی بیورو کریسی اور صوبائی دارالحکومت میں موجود متعلقہ افسران اور وزیروں نے حالات کی سنگینی کا احساس کیوں نہ کیا اور اس بحران سے نمٹنے میں اتنی دیر کیوں لگادی۔ تھرپارکر اور اس سے متصل اضلاع میں پیپلز پارٹی کے سرگرم عہدیداروں نے اس الم ناک انسانی مسئلے پر نگاہ کیوں نہ رکھی اور علاقے کے افسران پر دباؤ کیوں نہیں بنایا کہ وہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے دن رات ایک کردیں۔ یہ ذمے داری ان سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی بھی تھی جو اس علاقے میں بڑے بڑے جلسے کرتی ہیں۔ کیا ان جماعتوں کو اس علاقے کے غریبوں کی ضرورت صرف اس وقت ہوتی ہے جب ووٹ لینے کا موسم آتا ہے۔
یہ ایک اچھی بات ہے کہ وفاقی حکومت نے صوبائی معاملات میں عدم مداخلت کا رویہ اپنا رکھا ہے لیکن تھرپارکر کے اس الم ناک سانحے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ صوبوں میں سر اٹھانے والے وہ معاملات اور مسائل جو بہت بڑے انسانی المیے میں تبدیل ہوسکتے ہیں، ان کے بارے میں وفاقی حکومت کو زیادہ حساس رویہ اختیار کرنا چاہیے اور ان کے بارے میں ہنگامی اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہمارے تھرپارکر اور ہندوستانی تھر کے درمیان ریت کے بگولے چکراتے ہیں اور کبھی کبھی سرحدی حد بندیوں سے بھی کھلواڑ کرتے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جس پر خفیہ ایجنسیوں کی گہری نظر رہتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ لوگ دو سوال اٹھا رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ خشک سالی کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں تھا اور نہ قحط کوئی ناگہانی آفت تھی، اس بارے میں ان ایجنسیوں سے بھول چوک کیسے ہوئی؟ دوسرا سوال یہ کیا جارہا ہے کہ پاکستانی اور ہندوستانی تھر ایک جیسے مسائل کا شکار ہوتے ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ ہندوستانی تھر میں رہنے والے ان مسائل سے دوچار نہیں ہوئے اور نہ وہاں اس طرح اموات ہوئیں۔ اس کا یہ مطلب تو نکلتا ہے کہ سرحد کے دوسری طرف وہاں کی مقامی حکومت کی معاملات پر گرفت بہت بہتر تھی۔ بارش وہاں بھی نہیں ہوئی۔ اناج کی قلت وہاں بھی ہوئی لیکن انھوں نے اسے قحط میں بدلنے نہیں دیا۔ ہم صبح شام ہندوستان پر انگلی اٹھاتے ہیں کیا ان معاملات میں ہمیں ہندوستان سے کچھ سیکھنا نہیں چاہیے؟
اور اب کچھ احتساب اپنا بھی۔ ہم جو اخبارات اور ٹیلی ویژن سے وابستہ ہیں، ہم نے تھر کے معاملات پر اس وقت تک توجہ کیوں نہیں دی جب تک یہ بحران الم ناک انسانی المیے میں تبدیل نہیں ہوگیا۔ ان دنوں معاملہ، بریکنگ نیوز اور ریٹنگ کا ہے، جب طالبان، وینا ملک اور میرا بی بی بریکنگ نیوز کی مرکز نگاہ ہوں اس وقت کسی نے یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ ذرا کسی اور طرف بھی نگاہ اٹھاکر دیکھے۔ میں اپنے آپ سے سوال کرتی ہوں کہ جب میں نگر پارکر، تھر پارکر، مٹھی اور دوسری سرحدی بستیوں کا سفر کرچکی ہوں، وہاں کے قہر ناک موسموں کو قریب سے دیکھا ہے، وہاں کی سیاسی صورت حال پر افسانے بھی لکھے ہیں تو کیا مجھے معلوم نہیں تھا کہ تھر میں خشک سالی سے مور ایسے حسین پرندے اور پھول جیسے بچے کیوں اور کیسے ختم ہوجاتے ہیں۔ کیا یہ میری ذمے داری نہیں تھی کہ میں اس بارے میں وقت سے پہلے لکھوں اور افسر شاہی کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کروں؟
ہم لکھنے والے عموماً جمہوریت کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن یہ بات ماننے کی ہے کہ اگر ملک میں اس وقت جمہوریت نہ ہوتی میڈیا آزاد نہ ہوتا تو اس سانحے اور اس کی شدت کو یوں نہ پیش کیا جاتا۔ دیرسے سہی حکمران اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں تھرپارکر کی طرف یوں دوڑ نہ لگاتیں اور وہاں کے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی طرف توجہ نہ دیتیں۔ انھیں معلوم ہے کہ اب کوئی آمران کی سرپرستی کے لیے نہیں آئے گا اور انھیں ووٹ لینے کے لیے ان ہی کے سامنے جھولی پھیلانی ہونگی جنھیں انھوں نے اس ابتلا میں تنہا چھوڑ دیا تھا۔ چپکے سے ہی سہی ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ تھر کے لوگوں کو نظر انداز کرنے کا ایک سبب کہیں یہ تو نہیں کہ وہ ہندو ہیں اور ہندو بھی وہ جوکولہی، بھیل اور باگڑی ہیں۔ یقیناً ایسی بات نہیں ہوگی لیکن پھر بھی اس بارے میں ہمیں سوچنا تو چاہیے۔ تھر کے بعد چولستان میں بھی ایک ایسا ہی انسانی المیہ جنم لینے والا ہے تو کیا ہمیں اس بارے میں ابھی سے کچھ نہیں سوچنا چاہیے؟ کیا لازم ہے کہ اپنی نااہلیوں کے سبب ہم ایک بار پھر دنیا میں رسوا اور خود اپنی نگاہوں میں ذلیل ہوں؟
ان دنوں ہم نے جان سے گزرتے ہوئے بہت سے بچوں کی تصویریں دیکھی ہیں۔ اولاد کی نبضوں کے ڈوبنے کے ساتھ ان کی ماؤں کی آنکھوں میں دم توڑتے ہوئے خواب دیکھے ہیں۔ ایسے میں ابن انشا کی ایک طویل نظم کی چند سطریں نظر سے گزاریئے کہ یہ سطریں جگر شق کرتی ہیں:
یہ بچہ کیسا بچہ ہے… یہ بچہ کالا کالا سا…یہ کالا سا مٹیالا سا…یہ بچہ بھوکا بھوکا سا… یہ بچہ سوکھا سوکھا سا… یہ بچہ کس کا بچہ ہے… یہ بچہ کیسا بچہ ہے… جو ریت پہ تنہا بیٹھا ہے… ناں اس کے پیٹ میں روٹی ہے… ناں اس کے تن پر کپڑا ہے… ناں اس کے سر پر ٹوپی ہے… ناں اس کے پیر میں جوتا ہے… ناں اس کے پاس کھلونوں میں… کوئی بھالو ہے، کوئی گھوڑا ہے… ناں اس کا جی بہلانے کو…کوئی لوری ہے، کوئی جھولا ہے…ناں اس کی جیب میں دھیلا ہے… ناں اس کے ہاتھ میں پیسا ہے…ناں اس کے امی ابو ہیں…ناں اس کی آپا خالا ہے… یہ سارے جگ میں تنہا ہے… یہ بچہ کیسا بچہ ہے… یہ صحرا کیسا صحرا ہے… ناں اس صحرا میں بادل ہے… ناں اس صحرا میں برکھا ہے… ناں اس صحرا میں بالی ہے…ناں اس صحرا میں خوشہ ہے… ناں اس صحرا میں سبزہ ہے… ناں اس صحرا میں سایا ہے… یہ صحرا بھوک کا صحرا ہے… یہ صحرا موت کا صحرا ہے…یہ بچہ کیسے بیٹھا ہے… یہ بچہ کب سے بیٹھا ہے… یہ بچہ کیا کچھ پوچھتا ہے… یہ بچہ کیا کچھ کہتا ہے… یہ دنیا کیسی دنیا ہے… یہ دنیا کس کی دنیا ہے… اس دنیا کے کچھ ٹکڑوں میں… کہیں پھول کھلے کہیں سبزہ ہے… کہیں بادل گھر گھر آتے ہیں… کہیں چشمہ ہے، کہیں دریا ہے…کہیں اونچے محل اٹاریاں ہیں… کہیں محفل ہے، کہیں میلا ہے… کہیں کپڑوں کے بازار سجے… یہ ریشم ہے، یہ دیبا ہے… کہیں غلے کے انبار لگے… سب گیہوں دھان مہیا ہے… کہیں دولت کے صندوق بھرے… ہاں تانبا، سونا، روپا ہے… تم جو مانگو سو حاضر ہے… تم جو چاہو سو ملتا ہے… اس بھوک کے دکھ کی دنیا میں… یہ کیسا سکھ کا سپنا ہے؟… وہ کس دھرتی کے ٹکڑے ہیں؟…یہ کس دنیا کا حصہ ہے؟…ہم جس آدم کے بیٹے ہیں …یہ اس آدم کا بیٹا ہے… یہ آدم ایک ہی آدم ہے… وہ گورا ہے یا کالا ہے… یہ دھرتی ایک ہی دھرتی ہے… یہ دنیا ایک ہی دنیا ہے… سب اک داتا کے بندے ہیں… سب بندوں کا ایک ہی داتا ہے… کچھ پورب پچھم فرق نہیں…اس دھرتی پر حق سب کا ہے۔
↧
↧
پوری قوم تھر والوں کی قاتل ہے
ذکر تھر کے ریگستان میں پاکستانی بچوں کی کَس مپرسی کی حالت میں موت کا ہے لیکن پوری قوم کے لیے اس شرمناک سانحے کا ذکر پہلے کہاں سے شروع کیا جائے سمجھ میں نہیں آ رہا اور یہ سمجھ میں آنے والی بات بھی نہیں ہے۔ تھر کے اس قحط زدہ علاقے سے باہر کا پاکستان تھر کے مقابلے میں ایک خوشحال پاکستان ہے مگر اس خوشحال پاکستان کو اپنے جسم کے ایک حصے کی خبر نہیں۔ یہ کیسا پاکستان ہے جس کے بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور باقی کا پورا پاکستان خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے حتیٰ کہ تھر جیسا چولستان نامی ایک اور ریگستان ایسی موت سے محفوظ ہے۔ وزیر اعظم جب تھر پہنچے تو انھوں نے حکم دیا کہ صوبائی وزیر اعلیٰ اپنی انتظامیہ کے ان افراد کو سزا دیں جو اس سانحہ کے ذمے دار ہیں۔ قریب ہی گندم کے ڈھیر لگے ہوئے تھے جو ان بھوکے پاکستانیوں تک نہیں پہنچائے گئے لیکن وزیر اعظم کی سادگی یا سیاسی مجبوری کہ انھوں نے اس سانحے کے اصلی ذمے دار سے کہا کہ وہ اس سانحہ کے مجرموں کو سزا دے یعنی وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا والا مضمون بلکہ آگے چلیے کہ اس سانحہ کی ذمے داری آخر میں خود وزیر اعظم تک پہنچتی ہے کہ وہ پورے ملک کے، بشمول تھر پارکر کے، سب کے حکمران اعلیٰ ہیں اور ہر اچھی بری بات کے ذمے دار بھی۔ ایک ایسے ہی اعلیٰ ترین حکمران کا ایسی ہی صورت حال میں ایک واقعہ جو میں حال ہی میں کہیں پڑھا ہے۔
سخت ترین قحط تھا۔ تاریخ میں اس قحط کا ذکر تفصیل کے ساتھ ملتا ہے اور ساتھ ہی اس قحط زدہ ملک کے حاکم اعلیٰ کا بھی۔ یہ حاکم اعلیٰ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ شہر کی گلی سے گزر رہے تھے کہ انھیں کونے میں دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھی ہوئی ایک بچی دکھائی دی۔ بھوک بچی کے چہرے مہرے سے عیاں تھی۔ یہ دیکھ کر حکمران نے پریشان ہو کر اپنے ساتھی سے پوچھا کہ اس بچی کے گھر والے کہاں ہیں، ان سے کہو کہ اس کو اپنے پاس رکھیں۔ یہ سن کر اس حاکم اعلیٰ کے ساتھی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور اس نے اپنی اشک آلود نظروں سے حاکم اعلیٰ کی طرف دیکھ کر کہا کہ آپ نے پہچانا نہیں، یہ آپ کی پیاری پوتی ہے جسے میں نے کئی بار آپ کی گود میں مچلتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ سن کر حاکم اعلیٰ کو سب یاد آ گیا اور اس کی آنکھیں بھی اپنے ساتھی کی طرح لبریز ہو گئیں لیکن وہ بڑی ہمت کر کے قدم سنبھال کر رکھتے ہوئے آگے چل دیا کیونکہ قحط اس کے ملک کے ہر فرد اور بچے کے لیے برابر تھا۔ یہ امیر المومنین عمر بن خطاب تھا جس کے گھر میں قحط پورے ملک کے گھروں سے زیادہ تھا۔
اب آپ یاد کیجیے کہ آپ نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کی اس علاقے میں آمد کے موقع پر دوپہر کو بوفے لنچ کا اہتمام کیا گیا۔ بے حد مرغن غذاؤں سے میز بھر گئے اور سرکاری خوراک پر مزے اڑانے والے ان سجی ہوئی مہکتی چیزوں کے گرد پلیٹیں ہاتھوں میں لیے گپیں لڑاتے رہے۔ نہیں معلوم ان میزوں کے کسی پائے کے نیچے کسی معصوم بھوکے بچے کی میت دبی ہوئی ہو یا ان خوش خوراک لوگوں کے پاؤں تلے کسی بچے کی روح چیخ رہی ہو۔ یہ سب اللہ جانتا ہے اور اس کے اپنے الفاظ میں اس کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے جب ایسی آسمانی آفتیں نازل ہوتی ہیں جیسی بارش کے نہ ہونے سے قحط کی طرح تو حکمران اس کے ذمے دار نہیں ہوتے یہ سب ان سے بالاتر ہوتا ہے۔ یہ قدرت کی خوشی نا خوشی کا معاملہ ہوتا ہے لیکن قدرت انسانوں کے ردعمل کو دیکھ رہی ہوتی ہے کہ زمین پر جن لوگوں کو اقتدار دیا گیا ہے وہ کیا کر رہے ہیں۔ اللہ سے معافی مانگ رہے ہیں، گریہ و زاری کر رہے ہیں یا انواع و اقسام کے کھانے اڑا رہے ہیں۔ شکر ہے وزیر اعظم نے یہ کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔ وہ انسان جو چودہ سو برس پہلے تھے اور جو آج ہیں ان سب کے صرف دو ہاتھ ہیں لیکن اصل بات اندر کے احساس ذمے داری کی ہے۔
کوئی اپنے جسمانی عمل اور طاقت سے ایسی آفت نہیں ٹال سکتا لیکن ان لوگوں کی حالت پر رو ضرور سکتا ہے جن کا اس کو ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے اور ذمے داری کی نوک اس کے دل میں چھبتی رہتی ہے جو اسے چین نہیں لینے دیتی۔ یہی حکمران جب عمر بھر کی اس مشقت سے گھبرا گیا تو وہ ایک دن باہر جا کر سنگ ریزوں سے بھری زمین پر لیٹ گیا اور خدا سے زاری کرنے لگا کہ میں بہت تھک گیا ہوں مجھے اپنے پاس بلا لے کیونکہ اس کا بڑھاپا اس کی ذمے داری کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ اس تھر کے حادثے کے دن بدقسمتی سے دو بڑے لوگ ان مظلوموں کا حال پوچھنے ان کے ہاں پہنچے تو پولیس نے ان کی حفاظت کے لیے راستے بند کر دیے۔ اسی دوران ایک بچی علاج کے لیے اسپتال لائی جا رہی تھی جو راستے میں روک دی گئی اور پھر وہ ان بڑے پاکستانیوں کی زندگیوں کے تحفظ کی نذر ہو گئی مر گئی۔ زمین پر تو ان بے کس اور بے بس لوگوں کا کوئی پرساں حال نہیں لیکن ان سب کا رب ضرور دیکھ رہا ہے جس کی پکڑ بہت سخت ہے۔ وزیر اعظم نے ان لوگوں کے لیے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ سنا ہے کہ سندھ کی انتظامیہ خصوصاً اس علاقے کے افسروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جو لوگ قریب ہی پڑی ہوئی گندم اٹھا کر ان بھوکوں تک نہیں پہنچا سکتے وزیر اعظم کا کیا خیال ہے وہ یہ پورے ایک ارب روپے ان تک جانے دیں گے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آپ کی طرح میرا بھی یہ تجربہ ہے کہ اگر صرف فالتو مال یا سامان حقدار پاکستانیوں تک پہنچا دیا جائے تو کوئی بھوکا نہیں مر سکتا۔ ہمارے ہاں یہ کہاوت مشہور ہے کہ دو کا کھانا تین آدمیوں کے لیے بھی کافی ہوتا ہے۔ امریکیوں نے پوری دنیا کو اپنی فاسٹ فوڈ پر لگا دیا ہے جو بہت مہنگی ہوتی ہے اور بچے شوق کے ساتھ کھاتے ہیں۔ میرے بچوں کا جب موڈ بنتا ہے تو وہ ماں باپ سے نہیں بابا سے کہتے ہیں کہ انھیں یہ برگر وغیرہ منگوا دیں۔ سچ ہے کہ میں انکار تو نہیں کر سکتا لیکن یہ سوچتا ضرور ہوں کہ اس سے کتنے پاکستانیوں کا پیٹ بھر سکتا ہے اور میں ان بھوکے پاکستانیوں کا حق مار رہا ہوں جس کی یقیناً باز پرس ہو گی لیکن میں یہ گناہ پھر بھی کرتا ہوں جس کی سزا نہ جانے کس صورت حال میں ملے گی اور کب ملے گی اگر کسی حکومت کو فرصت ملے تو وہ کسی ایسے انتظام کی کوشش کرے جس میں کھانے کا سامان تو ضایع نہ ہونے دیں شادیوں پر یہ جرم عام ہوتا ہے اور بڑے پیمانے پر۔ ون ڈش کی پابندی عائد ہے لیکن یہ ون ڈش اتنی مقدار میں تیار کی جاتی ہے کہ کئی ڈشوں کے برابر ہوتی ہے پھر اس پابندی کا کیا فائدہ۔ ہم اپنی بے لگام سوسائٹی پر کنٹرول کر سکتے ہیں اور جدید ملکوں میں ایسا کنٹرول موجود ہے۔ آپ کسی ریستوران میں بھی صرف اتنا کھانا منگوا سکتے جتنا آپ کھا سکیں، فالتو نہیں کیونکہ اسے قومی ضیاع سمجھا جاتا ہے۔ بات تو بڑی واضح ہے اور سب کو معلوم ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط اور تھر میں بھوکے مرنے والے کیوں بھوکے مر رہے ہیں اس کی پوری قوم ذمے دار ہے اور قاتل بھی۔
↧
تھر کی قحط سالی اور بچوں کی اموات کا لہو حساب مانگتا ہے
↧
Siraj ul Haq

Haq was born in the Upper Dir District, did receive his master's degree in Political Science from the Peshawar University. He had been the Chief of Islami Jamiat-e-Talaba from 1988 to 1991.[2]
He was elected to the Khyber Pakhtunkhwa Assembly in the 2002 election from the platform of Muttahida Majlis-e-Amal and was made finance minister in the provincial cabinet under the leadership of Akram Khan Durrani. However, he resigned in protest against the deadly US drone strike on a Madrassa in Bajaur Agency which resulted in the deaths of 86 children. His party boycotted the 2008 election. In 2013, he contested on Jamaat-e-Islami’s ticket and was elected to the assembly.[3]
Haq remained the Deputy Ameer of Jamaat-e-Islami until 30 March 2014 when he was elected as the Central Ameer of Jamaat-e-Islami Pakistan.[4] He remains immensely popular in his constituency and known for his modesty among friends and foes alike.[5]
↧