↧
حکومت بے یقینی کا شکار ہے
↧
خزائیں ہمارا مقدر کیوں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں موجود بد امنی، لا قانونیت اور دہشت گردی کی بنیادی وجوہات تو غربت و افلاس اور جہالت ہی ہیں لیکن کیا صرف یہ کہہ کر ہم ماضی کی تمام تر حکومتوں کو اس صورت حال سے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں؟ نہیں بالکل نہیں۔ میرے خیال میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک کمزور حکمرانی کی جو کوتاہیاں ہم سے سرزد ہوئیں اُن کی ایک دیانتدارانہ اور غیر جانبدارانہ تشخیص ہمیں فوراً اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ اللہ کے نام پر حاصل کی گئی اس پاک سرزمین پر حکومتیں قائم کرنے کے فوراً بعد ہم نے فرض شناسی دیانتداری، صاف گوئی، خدا خوفی اور اصول پرستی کو خیر باد کہتے ہوئے کنبہ پروری، دولت اور جائیداد کی ہوس، بد دیانتی اور بے اصولی جیسی ریاست کُش اور ملک دشمن مہلک بیماریوں کو بڑے شوق سے گلے لگا لیا۔ لگژری کاریں، کشادہ کوٹھیاں مالِ حرام سے تیزی سے پھولتے ہوئے اندرون اور بیرون ملک بنکوں میں پڑے خزانوں اور اقتدار کے حصول کیلئے انسانی ذاتی وقار اور ملکی مفادات کے بے شرمی کے ساتھ بے دریغ سودے ہمارا شیوا بن گئے۔زمینی اصلاحات کو پسِ پشت ڈالکر وڈیرہ کلچر کو مزید تقویت دی گئی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ امیروں نے دولت کے انبار لگا لئے اور جاگیردار ملکی سیاست پر چھا گئے لیکن غریب افلاس کی چکی میں مزید پس گیا اور مڈل کلاس کے بہت سارے سفید پوش لوگ بھی غربت کی سطح سے نیچے گر گئے۔ سیاستدانوںکی نا اہلیوں بیورو کریٹس کی بد عنوانیوں اور مٹھی بھر عسکری قائدین کی ہوس اقتدار نے حالات کو بہتری کی طرف لانے کی بجائے ان کو ناقابل یقین حد تک ابتر کرڈالا۔ملکی قیادت نے مدبرانہ بصیرت سے بے نیاز بغیر کسی اعلیٰ منصوبہ بندی کے ریاست کو بے مقصد جنگوں میں جھونکا جس سے ملک معاشی لحاظ سے کمزور اور پھر دولخت ہوگیا اور دنیا کی مانی ہوئی افواج پاکستان جیسی عظیم عسکری قوت کو بار بار غلط استعمال کرکے بد نام کرنے کی کوشش کی گئی۔انگریزوں کے دور سے متحدہ ہندوستان میں قائم شدہ مدرسہ کلچر کو منظم اور مزید بہتر کرنے کی بجائے اس کو بیرونی قوتوں کی مالی معاونت کے تابع حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ان مذہبی تعلیم کے اداروں نے جہاں غریب گھرانوں کے بچوں کو تعلیم دینے میں بہت اعلیٰ کردارادا کیا وہاں کچھ اداروں میں موجود چند کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر کچھ مدرسوں میں عسکریت پسندی کے رجحان کو بھی ہوا ملی۔ بیرونی مالی امداد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت ساری مزید مذہبی جماعتیں اور عسکری لشکر وجود میں آگئے اور حکومت نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ کچھ حکومتوں نے تو ان لشکروں کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ پھر بیشتر دینی مدرسوں میں معیشت، تاریخ، کمپیوٹر جغرافیہ، سائنس اور دوسرے مضامین کی تعلیم کی عدم موجودگی اور سرکاری اور نجی سکولوں کے سلیبس میں سے دینی تعلیم کو غیب کرکے صورتحال کو مزید خراب کیا گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی تعلیمات کے برعکس ریاست اور اس کے امیر کی اجازت سے ماورا ایسی سرگرمیاں شروع ہوگئیں جس نے ملک کو دنیا کی برادری میں تنہا کردیا۔اب صورتحال یہ ہے کہ کچھ انتہا پسند اپنے لشکر یا اپنی جماعت کے امیر کی بات بھی نہیں سنتے۔اس نظام کو ٹھیک کرنے کیلئے ہم نے سیاسی بصیرت سے بالکل کام نہیں لیا۔اس کے علاوہ قبائلی پٹی میں بسنے والے تقریباً40 لاکھ قبائلیوں کے پاکستان کا حصہ بننے کے اعلان کے باوجود 1947 سے لیکر آج تک ہم نے اُنکو بقول سابق سفیر ایاز وزیر Administer کیا لیکن اُن کو خود حکمرانی یا Self Governance کا حق نہیں دیا۔ وہ پارلیمنٹ کا حصہ تو بن گئے لیکن پارلیمنٹ میں بنائے جانے والے قوانین اُن پر لاگو نہیں‘ نہ ہی وہ اس عدل کے نظام کے تابع ہیں جو پارلیمنٹ کی منظوری سے پاکستان میں چل رہا ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پچھلے 67 سال میں ہم قبائلی پٹی میں رہنے والے پاکستانیوں کو ایک موثر انتظامی ڈھانچہ دیکر اُن کو قومی دھارے میں نہیں ڈھال سکے۔
FATA کا علاقہ کسی صوبائی وزیراعلیٰ کے نیچے نہیں آتا نہ ہی قبائلیوں کا کوئی اپنا وزیراعلیٰ ہے۔ صدر اور گورنر خیبر پختون خواہ اللہ کے بعد فاٹا کے نگہبان ہیں لیکن پارلیمانی جمہوریت میں کون نہیں جانتا کہ یہ عہدے برائے نام اور بے اختیار ہوتے ہیں۔ آج سے تقریباً15 سال قبل جب میں واہ اسلحہ فیکٹریوں کے بورڈ کا چیئر مین تھا تو اس وقت میرا فاٹا سے کوئی براہِ راست تعلق تو نہ تھا لیکن میں بحیثیت پاکستانی سوچتا تھا کہ ہمارا یہ علاقہ زبردست محرومیوں کا شکار ہے۔ اس لئے درہ آدم خیل کے مَلکوں کی دعوت پر میں نے وہاں کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا اس وقت کے گورنر خیبر پختون خواہ جنرل افتخار حسین شاہ اور کچھ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مجھے خصوصاً وردی میں ایسا نہ کرنے کی نصیحت کی لیکن میں چونکہ وعدہ کرچکا تھا اس لئے چند صحافیوں کے ساتھ وہاں وردی میں ہی پہنچ گیا۔میرا وہاں استقبال فقید المثال تھا۔ میری فوجی ٹوپی اتروا کر انہوں نے مجھے اعزازاً کُلا پہنا دیا اور جعلی اسلحہ بنانے کے اپنے سارے خفیہ زیر زمین کارخانے بھی دکھائے۔ لنچ کیلئے بکرا ذبحہ کیا اور وہاں درہ کی مرکزی مسجد میں ہم نے اکٹھی نماز ظہر ادا کی۔ میں نے اُن سے عرض کیا کہ واہ چھاونی میں بننے والے شاہین کارتوسوں سے لیکر مشین گنوں تک آپ یہاں جو چیزیں بنا رہے ہیں وہ معیاری نہیں مثلاً بندوق یا مشین گن کی بیرل کیلئے تو ہم درآمد شدہ بہترین لوہا استعمال کرتے ہیں آپ کہاں سے یہ لوہا حاصل کرتے ہیں۔ اُن میں سے ایک کرافٹ مین نے فوراً جواب دیا کہ ہم ریل کی پٹڑی اکھاڑتے ہیں جو انگریز نے بنائی۔ چونکہ وہ لوگ میرا ناقابل یقین حد تک احترام کر رہے تھے میں نے پورے اخلاص سے اُن کو بتایا کہ یہ جعلی اور دونمبر کام تو پاکستان کے مفاد میں نہیں اس پر انہوں نے کہا جنرل صاحب ادھر صنعت ہے نہ زراعت۔ تعلیم اور صحت کی سہولتیں ناپید ہیں۔صاف پینے کا پانی تک میسر نہیں کوئی صدر یا وزیراعظم یہاں کا دورہ نہیں کرتا، ہم اگر اس اسلحے کی تیاری یا اس کی پاکستان اور افغانستان میں سمگلنگ نہیں کرینگے تو زندہ کیسے رہینگے؟ اس پر میری آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے چونکہ بد قسمتی سے یہ ایک کھرا سچ تھا۔ بہرحال میں نے عرض کیا کہ میرے ساتھ واہ فیکٹری میں تقریباً 30ہزار پاکستانی کام کرتے ہیں۔ میں یہ کرسکتا ہوں کہ آپ کے جواں سال بچے جو اچھے کرافٹس مین یا ہنر مند ہیں کو پاکستان کی ویپن فیکٹری میں قوانین کو کچھ Relax کرکے بھی ملازمت دے دوں۔ وہ بہت ممنون ہوئے اور میں نے فاٹا کے پچاس بچوں کو پی او ایف ویپن فیکٹری میں بھرتی کردیا۔ قبائلی سرداروں نے مجھے بتایا کہ پاکستان بننے سے لیکر اس وقت تک پاکستان کی کسی سرکاری یا غیر سرکاری کارپوریشن کے کسی چیف ایگزیکٹو نے بھی اُن کیلئے اس ہمدردی کا اظہار نہیں کیا۔ میں نے عرض کی کہ میری ہمدردی بحیثیت انسان قبائلی بھائیوں سے تو ہے ہی لیکن اس سے بھی زیادہ میری ہمدردی پاکستان سے ہے جو میری پہچان ہے۔ ہمیں اس شجر سے پیوستہ رہناچاہئے چونکہ بہار ضرور آئے گی۔ میں نے پھر اُن کو احمد ندیم قاسمی کے ان اشعار کا مطلب سمجھایا اور بہترین میزبانی کا شکریہ ادا کرکے واپسی کی اجازت چاہی…؎
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
↧
↧
Help and Duaa for Thar People
↧
Pakistani Dramas Classics
1- KHUDA KI BASTI
Aired on PTV in the year 1969, Khuda Ki Basti was a social issue-based drama, which was adapted from a novel by Shaukat Siddiqui. The drama saw Qazi Wajid in the lead role and introduced Behroz Sabzwari as a child actor. Such was the appeal of this drama that it was remade in the early 90s.
2- SHAMA
Based on a novel by A.R. Khatoon, Shama’s screenplay was written by Fatima Suraiyya Bajiya, with legendary director Qasim Jalali bringing this classic black and white drama to life. An instant hit, thanks to some amazing performances by Javed Sheikh, Qurban Jilani, Ishrat Hashmi and Rizwan Wasti.
3- AANGAN TERHA
The epitome of comedy and wit, owing to the penmanship of Anwar Maqsood, Aangan Terha remains an unforgettable drama to this day with impeccable performances by Salim Nasir, Shakeel, Arshad Mahmood, Durdana Butt and Bushra Ansari. On popular demand, the drama has been re-telecast numerous times since its first airing and was recently adapted as a stage play.
4- WARIS
Those who watched Waris at the time when it was aired fondly remember how the streets would be deserted at the time the drama would be on air. Discussing the social impacts of feudalism, this drama was a masterpiece scripted by renowned poet and writer Amjad Islam Amjad with Ghazanfar Ali taking up the directorial duties. Adding to its appeal was the remarkable acting prowess shown by actors such as Abid Ali and Jamil Fakhri
6- ANKAHI
Ankahi is one of the most famous Pakistani dramas that is known for its witty dialogues and remarkable acting from actors like Shehnaz Sheikh, Javed Sheikh, Shakeel, Saleem Nasir, Behroz Sabzwari and Jamshed Ansari. Broadcast in the year 1982, Ankahi was written by Haseena Moin and directed by Shoaib Mansoor.
7- TANHAIYYAN
Tanhaiyyan boasted of a star cast like Shehnaz Sheikh, Asif Raza Mir, Badar Khalil, Behroze Sabzwari, and a very young Marina Khan. Every actor in the drama serial did complete justice to the role and helped it become a spectacular hit. Needless to say, Haseena Moin’s script and Shahzad Khalil’s direction already had all the necessary ingredient to ensure its success.
↧
Famous Cricket Players And Their Kids
↧
↧
سندھ کا قحط اور قیادت
ہم نے حکومتی نکمے پن کے کئی مظاہر ے دیکھے ہیں۔ بلکہ اتنے دیکھے ہیں کہ اب یاد کرنا بھی محال ہے کہ ان میں سے سب سے حیرت انگیز کون سے تھے۔ بدقسمتی سے اس نہ ختم ہونے والے سلسلہ ہائے نکما پن میں ہر روز تیزی سے اضافہ ہی ہو تا ہے۔ یہ عمل آہستہ ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔ حکومت سندھ کو لیجیے، خوراک کی کمی کے باعث 130 کے لگ بھگ بچوں کی ہلاکتوں کی خبر نے دوسرے مسائل کے ساتھ ایک بڑے مسئلے کو جنم دے دیا ہے جس سے متعلق عوامی نمایندگان کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ یہ فیصلہ بچوں کی اموات کو بیان کرنے کا ہے۔ تمام تر حکمت کو بروئے کار لانے کے باوجود یہ حکومت یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ اس کو خوراک کی کمی کہا جائے، قحط کہا جائے، بدلتے ہوئے موسم کا نتیجہ بیان کیا جائے یا یہ کہہ دیا جائے کہ اس غربت زدہ علاقے میں تو ایسا ہی ہوتا رہتا ہے۔
قحط کی خبر سامنے آئی تو جیالوں نے ہر طرف امدادی کیمپ لگا دیے۔ وزیر اعلی فوراً متحرک ہو گئے اور اپنے مشیران اور قریبی دوستوں کے ساتھ اس علاقے میں جا پہنچے۔ ایک آدھ چھوٹے افسر کو معطل کیا، کسی کو کان پکڑ کر باہر نکال دیا، کسی کو دھمکی دی، اور کسی کی سرزنش ہوئی۔ امداد کا علان بھی کر دیا گیا۔ مگر جب اس تمام ہنگامے میں یہ زاویہ سامنے آیا کہ قحط کی تہمت سیاسی طور پر ایک اسکینڈل میں تبدیل ہو سکتی ہے تو مختلف قسم کی تردیدیں اور وضاحتیں سامنے آنے لگیں۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ قحط نہیں کچھ خشک سالی تھی، موسم کی خرابی اور کچھ گندم کی مقامی طور پر فراہمی کے نظام میں کمزوری۔ خشک سالی پر محکمہ موسمیات نے وضاحت کر دی اس علاقے کی بارش کی اوسط معمول کے مطابق ہے۔ موسم کے تغیر و تبدل نے ان اموات میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کیا۔ ظاہر ہے جو بھی ہوا اُس کا تعلق انسانوں کے بنائے ہوئے اُس نظام سے ہے جس میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
پاکستان بھر میں مختلف حلقوں کے مسائل کچھ ایسے ہی ہیں۔ مگر اس سندھ میں چونکہ سیاسی طور پر اپنے حقوق کا ادارک رکھنے کا عمل دوسرے صوبوں کی نسبت گہرا ہے لہذا یہاں پر اس قسم کے واقعہ کا ہو جانا بالخصوص افسوسناک ہے۔ قائم علی شاہ کی حکومت شہباز شریف کی حکومت کی طرح چھٹے سال میں داخل ہو رہی ہے۔ اندرون سندھ سے پیپلز پارٹی نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ سیاسی عمل پر اپنی گرفت بدترین حالات میں بھی کمزور نہیں ہونے دی۔ چاہے اُس اتحاد کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ وقتی ضرورت کے تحت بننے والے تعلقات بھی سیاسی جماعتوں کو زمینی حقائق کے قریب ترین رکھتے رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو جن افسوس ناک حالات میں اللہ کو پیاری ہوئیں اُس کے بعد پیپلز پارٹی کی سندھی قیادت جذباتی طور پر یہاں کے عام لوگوں کے ساتھ اپنا تعلق مزید گہرا کرنے میں بھی کامیاب ہوئی۔ پھر صدر آصف علی زرداری کے دور میں تو یہ تمام علاقے اُس سیاسی باغ کی طرح استعمال ہوتے رہے جس کا ہر پھل نفع اور نقصان کے کھاتوں میں درج کیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ خاندان جن کے بچے اپنی اور اپنی مائوں کی ضروریات پوری نہ ہونے کی وجہ سے قبل از وقت زندگی کی جنگ ہار گئے دور دراز گوٹھوں میں رہنے کے باجود ہر ایک کے سیاسی ریڈار پر موجود تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کے حالات اور اِن پر ٹوٹنے والے پہاڑ اُن نمایندگان کی نظروں سے اوجھل ہوں جو ہر وقت اپنے ہم وطنوں کے حقوق کے تحفظ کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں۔
مگر ایسے ہی ہوا کیونکہ حقیقت دعووں سے بالکل مختلف ہے۔ سندھ کے اصل باشندے جن کو دوسرے صوبوں کے استحصال کے خوف میں برسوں مبتلا رکھا گیا ہے، اصل میں اپنے نام نہاد مسیحاوں کے سیاسی غلام بنے ہوئے ہیں۔ اُن کا سیاسی استحصال جذبات ابھار کر کیا جاتا ہے۔ اُن کی بھوک اور ذلت کو اس وجہ سے برقرار رکھا جاتا ہے کہ اُن پر مسلط طبقوں کے سیاسی نعرے کرارے رہیں۔ گندم اور چاول اُن کے گھروں سے دور رکھے جاتے ہیں تاکہ وہ مقامی طاقتور ظالمین کے گھٹنے چھوتے رہیں۔ اور ہمیشہ یہ محسوس کریں کہ یہ سب کچھ کیے بغیر وہ سانس بھی نہیں لے سکتے۔ وہ ووٹ بھی اپنی مجبوری اور بے کسی میں انھیں کو دیتے ہیں جو اپنے استحصال کی وجہ سے ان کے بچوں کی روح قبض کرتے ہیں۔ یہ ایک عجیب و غریب سیاسی سلسلہ ہے۔ جس میں بے مراد لوگ مراد پانے کے لیے اُنہیں ڈیروں پر حاضری دیتے ہیں جو اُن کی تباہی کے ذمے دار ہیں۔ تمام وسائل سیاسی بازی گروں نے طرح طرح کے حیلے استعمال کرتے ہوئے اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں۔
سندھی تاش کے پتوں کی طرح ہیں جن کو ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق کھیلتا ہے۔ اس تمام تماشے کی جڑوں تک پہنچنے کے لیے آپ کو تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں جو سیاست دان ہر وقت سندھ کے استحصال کی بات کر تے ہیں اُن کا رہن سہن تو دیکھیں، ذخائر سونے کے ہوں یا خوراک کے، کھیت کھلیانوں کی وسعت ہو یا مزارعوں کی تعداد ہر جگہ پر آپ کو دولت، راحت اور عیاشی ناچتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر چھوٹے پن کا یہ عالم ہے کہ گندم کیڑوں کو کھانے کے لیے فراہم کر دیں گے ‘انسان کے بچے تک پہنچنے کا انتظام نہیں کریں گے۔ گھوڑوں کو مربے کھلا کر پالتے ہیں، غریب سندھیوں کی اولاد کو گوبر چننے پر لگا یا ہو اہے۔ اس کم بخت نظام کو ثقافت کا نام دے کر قابل دفاع یا قابل قبول بنایا جاتا ہے۔ جب کوئی تنقید کرتا ہے تو اُس کو سندھ صوبے کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔ جب اِن کے نعروں کے کھو کھلے پن کو سامنے لایا جاتا ہے تو ہر گھر پر اپنا جھنڈا لہرانے لگتے ہیں۔ کوئی سیاسی پیر ہے اور کوئی گدی نشین ہے۔ کوئی انگریزوں کا بنایا ہو ا جاگیردار ہے اور کسی نے قتل کر کے زمینیں سنبھالی ہو ئی ہیں۔ قحط کی وجہ یہ لوگ ہیں۔
قدرت نے وسائل سب کے لیے یکساں پیدا کیے ہیں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی۔ کسی کو اپنے وسائل کا داروغہ نہیں بنایا۔ قدرت کے امتحان بھی سب کے لیے یکساں ہیں مگر زمین پر انصاف کی کمی، لالچ، حرص اور ظالموں کے قبیلے نے انسان کو جانوروں سے بدتر حالت میں رکھتے ہوئے اپنی طاقت کو دوام دیا ہے۔
دنیا میں ایک تحقیق کے مطابق اصل جمہوریت کے ہوتے ہوئے قحط کی صورت حال کے باوجود لوگ بھوکے نہیں مر سکتے کیونکہ مشکل ترین حالات میں کسی بھی جگہ یا اُس کے اردگرد وسائل یا مواقع یقینا موجود ہوتے ہیں جن کو بروقت تقسیم کر کے حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس بروقت تقسیم میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار نمایندگی کا وہ نظام ہے جو لوگوں کے ووٹوں اور اُن کی منشاء سے مرتب ہوتا ہے۔ اصل جمہوریت قحط کے خلاف سب سے بڑا اور موثر بند ہے اس پیمانے کو لے لیں تو آپ خود ہی طے کر پائیں گے کہ ہمارے ہاں کیسی اور کس کی جمہوریت ہے۔جب لوگوں کی بنیادی ضروریات ایسے پوری نہ ہوں کہ وہ ہمیشہ جانکنی کے عالم میں رہے تو اس نظام کو جمہوری کہنا بڑے جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ ان حالات میں سندھ کے قوم پرستوں کی ذمے داری بھی بنتی ہے۔ جو انھوں نے پوری نہیں کی۔
سندھ کے پسے ہوئے عوام کو اچھی متبادل قیادت کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو نظریاتی طور پر عوامی مسائل کو سمجھتے بھی ہیں اور حل کرنے کی جستجو کا راستہ بھی جانتے ہیں اُن کو اپنا کردار جلد اور موثر انداز سے ادا کر نا چاہیے تھا۔ ایسا نہیں ہوا بیانات پر زور زیادہ ہے کام پر کم، انقلابی تحریر اور تقریر کی کثرت ہے زمین پر منظم کام کی کمی۔ دنیا کی تاریخ میں انقلابی تحریر سے زیادہ عمل اور تقریر سے زیادہ تنظیم پر انحصار کر تے رہے ہیں۔ ماوزے تنگ نے کسانوں کے اندر رہ کر اُس انقلاب کی بنیاد رکھی جس نے چین کی تاریخ بدل دی۔ اگر وہ شہروں میں بیٹھا محض فلسفہ جھاڑتا رہتا تو چین آج بھی چیانگ کائی شیک کی چو تھی نسل کے ہاتھ میں ہوتا۔ قحط سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے اس طبقے کے ہاتھ سے طاقت واپس لینے ہو گی جس نے پاکستان بھر کی طرح یہاں پر بھی بربادی کا سماں پیدا کیا ہوا ہے۔
↧
Ye Ghaflat Nahin Qattal Hai by Ansar Abbasi
↧
PAKISTAN: International Women's Day
↧
Tharparkar
Tharparkar is the only fertile desert in the world. The region derives its names from Thar and Parkar. The name Thar is from Thul, the general term for sand region or sand ridges and Parkar literary means “to cross over”. The region was earlier known as Thar and Parkar, later they became one word.
Historical background

Geographical features
There is no stream of fresh water in the region. However, in Nagarparkar there are two perennial springs, namely Anchlesar and Sardhro. as well as temporary streams called Bhatuyani River and Gordhro River which flow during the rainy season. There are some hilly tracks called Parkar. The Granite Marble has been found there. “Karoonjhar Mountain” is near to Nagarparkar. There are no lakes, glaciers, plains in the district. This district is mainly a desert area.
Topography
The Thar Region forms part of the bigger desert of the same name that sprawl over a vast area of Pakistan and India from Cholistan to Nagarparkar in Pakistan and from the south of the Haryana down to Rajasthan in India. The area is mostly deserted and consists of barren tract of the sand dunes covered with thorny bushes. The ridges are irregular and roughly paralleled that thy often closed shattered valleys which they raise to a height to some 46 meters. When there is rain these valleys are moist enough admit cultivation and when not cultivated they yield luxuriant crops of rank grass. But the extra ordinary salinity of the subsoil land consequent shortage of portable water renders many tracks quite picturesque salt lakes which rarely a day up.
The only hills are in Nagarparkar, on the Northern edge of the Runn of Kutchh belongs to quite a different geological series. It consist Granite rocks. Probably an outlying mass of the crystalline rocks of the Arravelli range. The arravelli series belongs to Archean system which constitutes the oldest rocks of the earth crust. This is a small area quite different from the desert. The tack is flat a level expect close to Nagarparkar itself. The principle range Karoonjhar is 19 km in length and attains a height of 305 m. smaller hills rise in the east, which is covered with sars jungle and pasturage and gives rise to two springs named Anchlesar and Sardhro as well as temporary streams called Bhatyani and Gordhro after the rain.
↧
↧
Pakistan Disabled Peoples by Wusatullah Khan
آج ذرا خود پر غور کیجے گا جب آپ گھر سے نکلیں اور آپ کو کوئی صاحب وہیل چیئر پر بیٹھے نظر آئیں یا کالا چشمہ پہنے سفید چھڑی ہلاتے فٹ پاتھ پے ملیں یا اسی فٹ پاتھ پر دونوں پیر گھسٹتے دکھائی دیں، ہم میں سے بیشتر ان لوگوں کے لیے ایک لمحاتی ہمدردی محسوس کرتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ ہماری طرح کے ان نارمل دماغ و دل کے لوگوں کو ہماری ہمدردی سے زیادہ ہماری توجہ کی ضرورت ہے۔یہ بیمار نہیں کہ آپ ان پر عیادت بھری نگاہ ڈالیں۔یہ ناکام نہیں کہ آپ ان پر ترس کھائیں۔یہ نکھٹو نہیں ، بھکاری نہیں۔یہ بھی ایک خوبصورت اور پرسکون زندگی چاہتے ہیں مگر ہم آپ جیسے نام نہاد جسمانی نارمل لوگوں کی ہمدردی و ترس ان کے لیے سب سے بڑا تازیانہ بن جاتا ہے۔آخر ہم ان کے ہم قدم اور شانہ بشانہ ایک نارمل رویے کے ساتھ کیوں نہیں چل سکتے۔
اس وقت اس دنیا کے ہر سو میں سے پندرہ لوگ کسی نا کسی جسمانی یا زہنی کمی میں مبتلا ہیں اور ان میں سے ستر تا اسی فیصد ترقی پذیر دنیا میں رہتے ہیں۔پاکستان میں اگرچہ جسمانی و ذہنی کمی کے شکار لوگوں کا کوئی سائنسی سروے موجود نہیں لیکن انیس سو اٹھانوے کی آخری مردم شماری کے مطابق ملک میں پونے تین ملین معذور افراد تھے اور اس تناسب سے اندازہ ہے کہ گذشتہ سولہ برس میں ان کی تعداد پانچ ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔اور یہ تعداد ناروے ، نیوزی لینڈ ، لبنان اور کویت جیسے کسی بھی ملک کی آبادی سے زیادہ ہے۔
لیکن ناروے ، نیوزی لینڈ ، لبنان اور کویت سمیت بیشتر امیر یا متوسط ممالک میں معذوری بوجھ سمجھے جانے کے بجائے رفتہ رفتہ محض ایک جسمانی کمی کے درجے تک لائی جاچکی ہے۔ ان ممالک میں روزگار کے اکثر شعبوں میں کوئی بھی جسمانی کمی کا شکار اپنے صلاحتیوں کے حساب سے کوئی بھی کام منتخب کرنے میں آزاد ہے۔فٹ پاتھوں سے لے کر عمارتوں ، بسوں ، ٹرینوں کے ریمپس تک ایسے بنائے گئے ہیں کہ جسمانی معذوروں کو مدد کے لیے ادھر ادھر نہ دیکھنا پڑے۔ان کے لیے پبلک پرائیویٹ پارکنگ ایریاز میں جگہیں مختص ہونا ایک عام سی بات ہے۔وہ اپنے استعمال کے لیے ڈیوٹی فری آلات اور گاڑیاں امپورٹ کرسکتے ہیں۔ان کے اوقاتِ کار لچک دار رکھے گئے ہیں اور سرکاری و نجی طبی و سماجی ادارے ان کی بھرپور معاونت سے کبھی نہیں ہچکچاتے چنانچہ ان معاشروں میں شائد ہی کوئی ایسا زن و مرد ہو جو محض کسی جسمانی کمی کے سبب زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہو۔گویا ان معاشروں نے ان کی کمی کو اپنی توجہ سے اپنے اندر جذب کرلیا ہے۔
مگر ہم جیسے معاشروں میں کہانی خود ترسی سے شروع ہوتی ہے اور خدا ترسی پر ختم ہوجاتی ہے۔جس طرح ذہنی مسائل کے سلجھاؤ کے لیے ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا عیب کی بات سمجھی جاتی ہے اور ایسے مشورے کو ’’ اوئے میں کوئی پاغل ہاں ’’ کہہ کر مسترد کردیا جاتا ہے اسی طرح ذہنی یا جسمانی کمی کے شکار بچوں اور بڑوں کے بارے میں بھی یہ سوچ کر بغیر سوچے سمجھے انااللہ پڑھ لی جاتی ہے کہ صبر سے کام لو اللہ کو یہی منظور تھا۔حالانکہ اگر صرف بھکاریوں کی ہی تعداد کو گنا جائے تو ہٹے کٹے بھکاری جسمانی و ذہنی کمی کے شکار حاجت مندوں سے کئی گنا زیادہ پائے جاتے ہیں۔اگر کمی کے شکار شخص کو ذرا سا بھی سماجی دھکا مل جائے تو بہت سے معذور اس دنیا کو نام نہاد اچھے بھلوں کے لیے اور خوبصورت بنا سکتے ہیں۔
آخر اشاروں کی زبان کو ترقی دینے والی ہیلن کیلر بھی تو نابینا اور بہری تھی۔کیمبرج میں بیٹھا ہوا دنیا کا سب سے بڑا ماہر فلکیات و فزکس سٹیونز ہاکنز اپنے پورے مفلوج جسم کے ساتھ سوائے دماغ کے اور کیا ہے۔کیا پولیو میکسیکو کے فریڈا کاہلو کو ایک بڑا مصور بننے سے روک سکا ؟ بہرے موسیقار بیتھوون نے اس دنیا کو کیسی کیسی جادوئی دھنوں سے بھر دیا کہ آج تک مغربی موسیقی بیتھوون سے بچ کر نہیں نکل پائی۔ سدھا چندرن کی جب ایک حادثے میں دونوں ٹانگیں کٹ گئیں تب اسے پتہ چلا کہ ہندوستان کی سب سے بڑی رقاصہ بننے کا راستہ تو اب کھلا ہے۔
جنرل ضیا الحق کے بارے میں آپ بھلے جو بھی رائے رکھیں مگر وہ پاکستان کے شائد پہلے اور اب تک کے آخری حکمراں ہیں جنہوں نے معذوروں ، آہستہ رو اور خصوصی تعلیم کے ضرورت مند بچوں کے لیے قانون سازی بھی کی اور ادارہ سازی میں بھی دلچسپی ظاہر کی۔انھیں اپنی لاڈلی بیٹی زین سے یہ سبق ملا کہ ہم قدم نا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ قدم ہی نہیں بڑھایا جاسکتا۔کہنے کو پاکستان میں معذور افراد کی فلاح سے متعلق قانون انیس سو اکیاسی سے نافذ ہے اور اس کے تحت سرکاری و نجی اداروں میں دو فیصد ملازمتی کوٹہ جسمانی کمی کے شکار لوگوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔تاہم کوئی سال ایسا نہیں جاتا کہ معذور افراد کی مختلف انجمنوں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے نہ آتا ہو کہ دو فیصد کوٹے پر عمل درآمد کیا جائے۔
یہ بھی ڈھنڈورا ہے کہ اسلام آباد ، لاہور اور کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت بھی ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ سرکاری اسپتالوں میں تو غیر معذوروں کے لیے بھی بظاہر مفت علاج کی سہولت ہے۔ویسے بھی ساٹھ فیصد سے زائد معذور افراد دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اور یہ کہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے متاثرین بھی کیا مفت علاج کے لیے اسلام آباد ، لاہور یا کراچی جائیں ؟ معذور افراد کے لیے ڈیوٹی فری گاڑیوں کی امپورٹ ہوسکتی ہے لیکن کیا اس سے بھی زیادہ اہم اشیا یعنی وہیل چییرز ، ٹرائی سائکلز اور مصنوعی اعضا بھی ڈیوٹی فری منگوائے جاسکتے ہیں ؟ یہ کوئی نہیں بتاتا۔
سرکاری بیت المال کے پاس کروڑوں روپے موجود ہیں اور اس کا دعویٰ ہے کہ جس خاندان میں دو معذور افراد ہوں اس خاندان کو پچیس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔لیکن اگر کسی خاندان میں صرف ایک معذور پایا جائے تو وہ کیا کرے اور کہاں جائے ؟ یہ بھی کوئی نہیں بتاتا۔
پبلک سروس کمیشن کے تحت اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے امتحانات ( مقابلے کا امتحان ) میں معذور افراد کے لیے کامرس، اکاؤنٹس ، ریونیو اور انفارمیشن کے شعبے کھلے ہیں۔خصوصی تعلیم کی وزارت انیس سو چھیاسی سے کام کررہی ہے اور اس کے تحت خصوصی تعلیم کے چھیالیس مراکز بھی فعال ہیںمگر وہاں بریل کتابوں ، مددگار تعلیمی آلات اور ماہر اساتذہ کی کمی کا رونا ہے۔پبلک لائبریریوں میں بھی بریل کتابوں کے نام پر ایک آدھ الماری موجود ہوتی ہے مگر اس پر اکثر زنگ آلود تالہ ہی دیکھا گیا ہے۔
جسمانی کمی کے شکار بچوں کی آدھی سے زیادہ تعداد نارمل اسکولوں میں بھی پڑھ سکتی ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر کے اسکول کمرشل وجوہات کی بنا پر معذور بچوں کو اپنے ہاں داخلہ دینے کی بہت قرینے سے حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔اگر کمی کے شکار بچے نارمل اسکولوں میں داخل ہو بھی جائیں تو ان کے ساتھ کلاس فیلوز حتیٰ کہ اساتذہ تک انھیں ایک خصوصی مخلوق کے طور پر دیکھتے اور برتتے ہیں۔اس رویے کے سبب جسمانی کمی کے شکار بچوں کی نارمل صلاحتیں بھی متاثر ہوجاتی ہیں۔
ایک جانب شائد ہی کسی کا دھیان جاتا ہو اور وہ ہے انٹلکچوئل ڈس ایبلٹی۔اس کا شکار بچہ دیکھنے میں تو بالکل نارمل لگتا ہے لیکن ناکافی غذائیت کے سبب اس کی ذہنی و جسمانی نشوونما ایک نارمل بچے کے مقابلے میں آدھی رھ جاتی ہے۔ لگ بھگ اٹھائیس فیصد پاکستانی بچے انٹلکچوئل ڈس ایبلٹی کا شکار ہیں لیکن ان پر الگ سے توجہ دینے کے بجائے ان پر پھسڈی ، نکمے ، کام چور اور کند ذہن کا لیبل لگا کے ان کے اپنے ہی گھر اور سماج والے نادانستہ طور پر خود سے الگ تھلگ کرتے چلے جاتے ہیں۔
اگرچہ فٹ پاتھوں ، رہائشی و کمرشل عمارات اور ٹرانسپورٹ کو بغیر کسی اضافی بجٹ کے ڈس ایبل فرینڈلی بنایا جاسکتا ہے۔بس تعمیراتی ٹھیکیدار کو بتانے اور پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں اور ٹرین کی بوگیوں کو خریدتے وقت کمپنی کو یہ سہولتیں نصب کرنے کی ہدایات دینے کی ضرورت ہے۔لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہم جسمانی کمی کے شکار لوگوں اور ان کے مسائل کو محسوس کرسکیں۔مگر ہمیں تو کوئی اپنے علاوہ نظر ہی نہیں آتا۔تو پھر نابینا کون ہوا ؟
معذوروں کی مدد تو خیر ہم سے کیا ہوگی۔ہم تو ان ممالک میں شامل ہیں جہاں معذور سازی ہوتی ہے۔یقین نہ آئے تو پولیو کی ویکسینیشن کرنے والے رضاکاروں کی ہلاکتوں کی خبریں پڑھ لیا کریں۔
Pakistan Disabled Peoples by Wusatullah Khan
↧
تھر کے بھوکے پیاسے سندھی
![]()
قحط، زلزلہ یا سیلاب نہیں ہوتا کہ اچانک آجائے، ناگہانی وار کرے،لمحوں میں بستیوں اور آبادیوں کو اپنی ہلاکت آفرینی سے ملیامیٹ کردے، قحط تو ایسی کربناک آفت کا نام ہے جوآہستہ آہستہ دبے قدموں، بڑی دھیرج سے وسیع وعریض علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے کر موت سے ہمکنار کرتی ہے، زمانہ قدیم میں قحط کا شکار بے بسی اور بے کسی سے دم توڑتے تھے کہ انھیں موت سے بچانے والے ہاتھ بہت دور ہوتے تھے، دشوار گذار اور طویل فاصلے، امدادی ٹیموں کے لیے موت کی اس جولان گاہ تک فوری رسائی کو مشکل اور بعض حالات میں ناممکن بنا دیا کرتے تھے پھر انسانیت سسک سسک کر دم توڑتی تھی۔ گدھ زندہ انسانوں کے دم نکلنے کے منتظر ارد گرد منڈلاتے رہتے لیکن زندہ انسانوں کو نوچنے سے گریزاں ہوتے کہ فطرت نے ان کو یہی سکھایاتھا ۔ یہ اشرف المخلوقات حضرت انسان ہے جو کسی صورت ترس نہیں کھاتا۔ دم توڑتا، جاں بلب یا پیاس کا شکار مظلوم ،یہ سب کو اپنی اغراض کا ترنوالا بنا لیتا ہے۔
مواصلات کے اس جدید دور میں قحط سے موت کا تصور ناپید ہوچکا ہے کہ دم توڑتی انسانیت کو پلک جھپکتے میں اشیائے خورد نوش پہنچائی جا سکتی ہیں۔ ہوائی جہازوں سے لے کر دیوہیکل کنٹینروں کے ذریعے متاثرہ علاقوں تک امداد کی فوری فراہمی نے قحط کو پسپا کرکے رکھ دیا ہے لیکن اسی دور جدید میں ہمارے تھر میں انسانیت سسک سسک کردم توڑ رہی ہے جہاں بچے بھوک سے زیادہ پیاس سے مررہے ہیں یا ناقابل استعمال آلودہ پانی ان کے لیے زہر قاتل بن رہا ہے۔ ناکافی غذا ،ادویات اور معالجوں کی عدم دستیابی نے اس سانحے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ خشک سالی اور قحط کے بارے میں فطرت انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے مظاہر قدرت کو واضح کرنا شروع کردیتی ہے۔ ان علاقوں میں خشک سالی کے پہلے مرحلے میں جنگلی حیات ناپید ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ مختلف بیماریاں چرند پرند اور انسانوں پر دھاوا بول دیتی ہیں۔ تھر میں گذشتہ کئی برسوں سے ڈھور ڈنگر مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ تھر کے مورتو ساری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔گذشتہ سالوں میں جب بے شمار مور اچانک اور یک لخت مرنے لگے تو کسی پر اسرار وائرس کے حملے کا چرچاہوا تھا ، انھی دنوں اس کالم نگار کے دوست ماہر جنگلی حیات نے خبردار کیا تھا کہ تھر میں خشک سالی کا طویل دور شروع ہونے والا ہے جس کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔
خشک سالی کا منطقی انجام قحط کی صورت میں متشکل ہوتا ہے جس کے لیے ذخائر خوراک اور صاف پانی کی فراہمی منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ زوال کا شکار ہمارے سماج میں اب سر پڑی نمٹانے کی عادت راسخ ہوچکی ہے، اس لیے فطرت کی بار بار واضح تنبیہ کے باوجود کسی حکمت کار نے اس کی پروا نہیں کی، کوئی اقدام نہیں کیا سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، تھر میں زندگی اور موت کا کھیل تو گذشتہ کئی سال سے جاری ہے۔ وبائیں پھیلتی رہیں ، لوگ پانی کی بوند بوند کو ترستے رہے اور ہم میلے ٹھیلوں میں مصروف رہے۔ سندھ کی ثقافت کی ترویج کے نام پر جب موہنجوداڑو کے کھنڈرات پر جشن رنگ ونورمنایا جا رہا تھا عین اسی وقت تھر کے وسیع و عریض ویرانوں میں بکھرے ہوئے بے نوا انسانوں پر، گھاس پھونس کی جھونپڑیوں اور مٹیالی خاکستر گوٹھوں پر موت کے سائے پھیل رہے تھے لیکن سندھ دھرتی کے بیٹے بھوک اور پیاس سے سسک سسک کر دم توڑ رہے تھے جب کہ موہنجوداڑوکے کھنڈرات سے لے کر کراچی کے ساحلوں تک رنگ وبو کا ایک ہنگام برپا تھا، سندھ کی عظمت کے قصے کہانیاں تھیں، داستان گو بزم آراء تھے، لوک گلوکار زرق برق لباس پہنے محو رقص تھے چہار سو شہنائیاں گونج رہی تھیں لیکن چند قدم کے فاصلے پر اسی سندھ دھرتی کے بیٹے بھوک اور پیاس سے دم توڑ رہے تھے۔
’’مرسوں‘مرسوں سندھ ناں ڈیسوں‘‘کے نعرے لگانے والے ،بات بہ بات ٹیوٹر(Twitter) پر عقل و دانش کی پھل جھڑیاں چھوڑنے والے سب غائب ہیں، بے حس حکمرانوں نے موت کے کھیل کو اَناکی جنگ بنادیا ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پنجاب اور مرکز کی امداد لینے سے انکار اور فوج کو تھر کے بجائے وزیرستان بھجوانے کے مشورے دیے جارہے ہیں، تھر کے بے نواؤں کی ’مزاج پرسی‘کے دیے جانے والے حکمرانوں کے لیے سرکٹ ہاؤس میں شاہانہ دعوتوں کا اہتمام ہورہا ہے۔ ایک طرف سندھ کے بیٹے پانی کو ترس رہے ہیں جب کہ ان کے منتخب نمایندے کوفتوں، مچھلی اور بریانی اڑارہے ہیں۔ چند ہفتے پہلے تھر کا مخدوم زادہ ڈپٹی کمشنر غریب تھریوں کو گلاب اُگانے اور اپنی معیشت بہتر بنانے کے مشورے دے رہا تھا۔وہ جن کے پھول جیسے بچے ناکافی خوراک، بھوک پیاس سے جان بلب ہوں۔ وہ گلاب اگائیں گے؟ کاش اس مخدوم زادے نے اپنے دادا اور عظیم سندھی دانشور، مخدوم طالب المولیٰ کی ایک ،آدھ رُباعی ہی پڑھ لی ہوتی جو تادم آخر سندھ اور سندھیوں کے عشق میں مبتلا رہے۔
بعدازمرگ شورشرابا اور واویلا چہ معنی دارد؟ وزیراعظم نواز شریف نے متاثرین تھر کے لیے ایک ارب روپے کی خطیر رقم کا اعلان کیا ہے لیکن اس طرح کیا وہ سیکڑوں پھولوں جیسے بچے واپس آجائیں گے جن کی ماؤں کی گودیں ہماری بے حسی کی وجہ سے اجڑ چکی ہیں۔ یہ کوئی آفت ناگہانی نہیں تھی، ظاہر وباہر المناک حقیقت تھی جو گذشتہ کئیبرسوں سے ہمارے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ ہمیں خبردار کررہی تھی لیکن ہم توشترمرغ ہیں کہ مصیبت دیکھتے ہی ریت میں سردبالیتے ہیں، اس طرح کی خوش فہمی سے اَجل بھی کبھی ٹلا کرتی ہے، یہ اور بات ہے کہ نشانہ ہم نہیں، بے بس اور بے کس تھر والے تھے جن کا زمانوں سے رہنما ،تہجد گذار ارباب غلام رحیم نجانے کہاں روپوش ہے جس کی پہلی منزل لاہور یا دبئی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کے نیم شبی کے نالے اور رکوع وسجود بارگاہ الٰہی میں کیسے باریاب ہوسکتے ہیں کہ میرے آقاومولاؐکے ایک غلامؓفرمایا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتابھی پیاس سے مر گیا تو اس کا جواب دہ عمرؓہوگا۔
رہی سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی تو ان کا اللہ حافظ ہے۔ غریبوں کے حقوق اور ان کے غم میں کھلنے والی سول سوسائٹی ہویا انقلاب، انقلاب کا رٹا لگانے والی نام نہاد جمہوری جماعتیں کوئی بھی تھر نہیں پہنچا، بوسینا سے فلسطین تک مسلمانوں کے دکھ میں تڑپنے والے صالحین بھی حکمت اورحماقت کے گورکھ دھندے کو سلجھانے میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ غربت کو کاروبار بنانے والے شائستہ کلام دانشور ہوں یا شاعر مصیبت کی اس گھڑی میں سب غائب ہیں۔ اے کاش جمہوریت حقیقی معنوں میں بروئے کار ہوتی ،بلدیاتی ادارے موجودہوتے تو قوم کو اس مصیبت کا چند ماہ پہلے پتہ چل جاتا لیکن ہم تو مربوط اور مسبوط انداز میں ایک نظام کے تحت کام کرنے کے بجائے آفت ٹوٹنے کے بعد ہنگامی بنیادوں پر ’کارروائی‘ کے عادی ہوچکے ہیں۔
↧
یہ صحرا موت کا صحرا ہے
شیکسپیر نے اپنے کسی ڈرامے میں کردار کی زبان سے یہ کہلوایا ہے کہ ایک انسان جو نابینا ہو، وہ بھی دیکھ سکتا ہے کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ کنگ لیئر کا یہ جملہ آج بہت یاد آیا۔ تھر کے نیم جاں لوگوں سے ہمدردی کے لیے جانے والے ہمارے وزیر اعلیٰ اور ان کے ہمراہیوں نے تھکن اور صدمے سے نڈھال ہوکر مٹھی سرکٹ ہاؤس میں کمر ٹکائی۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن تھا کہ ان کے لیے عشائیے کا اہتمام نہ کیا جاتا۔ دروغ برگردن صحافیان، سب کی تواضع تلی ہوئی مچھلی، چکن تکے، بریانی، ملائی بوٹی، کوفتے اور روغنی روٹی سے کی گئی ہے۔ درجہ دوم کے لوگوں کے لیے بریانی کی دیگیں تھیں جو اس قدر خشوع و خضوع سے کھائی گئیں کہ جو لوگ اس بریانی سے حسب خواہش انصاف نہ کرسکے وہ کفِ افسوس مل کر رہ گئے۔ اس عشائیے کی تفصیل جان کر مجھے بے نظیر بھٹو یاد آئیں۔ وہ 70 کلفٹن میں جب اپنے کارکنوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھتیں تو دال، چاول، نان اور ایک سبزی کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔ جو وہ خود کھاتیں، وہی اپنے جاں نثاروں کو بھی کھلاتیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اگر بے نظیر بھٹو کسی ایسے اجتماعی سانحے میں پرسہ کرنے اور چارہ جوئی کے لیے گئی ہوتیں تو وزیروں، مشیروں اور افسروں کے اس ہجوم میں کیا ان کے سامنے بھی یہ دسترخوان چننے کی کسی نے مجال کی ہوتی؟ ایسے لمحوں میں وہ اس لیے یاد آتی ہیں کہ وہ مدبر تھیں، رہنما تھیں، ان کے بعد آنے والے شاید وہ لوگ ہیں جو سندھ کے دیہی علاقوں سے ووٹ لینا اپنا پیدائشی حق اور وہاں کے رہنے والوں کا پیدائشی فرض سمجھتے ہیں۔
اس وقت سندھ حکومت کے ذمے داروں کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں پڑنے والے قحط اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ وہ اسے میڈیا بہ طور خاص الیکٹرانک میڈیا کی ذمے داری قرار دے رہے ہیں۔ اس مرحلے پر یہ کیسے جان لیا کہ اس سنگین صورت حال میں صوبائی حکومت کی ذمے داری کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سابق صدر زرداری صاحب نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے اختیارات کی جو تقسیم کی ہے اس نے ملک کی تمام صوبائی حکومتوں کو بہت زیادہ بااختیار بنادیا ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ مقامی بیورو کریسی اور صوبائی دارالحکومت میں موجود متعلقہ افسران اور وزیروں نے حالات کی سنگینی کا احساس کیوں نہ کیا اور اس بحران سے نمٹنے میں اتنی دیر کیوں لگادی۔ تھرپارکر اور اس سے متصل اضلاع میں پیپلز پارٹی کے سرگرم عہدیداروں نے اس الم ناک انسانی مسئلے پر نگاہ کیوں نہ رکھی اور علاقے کے افسران پر دباؤ کیوں نہیں بنایا کہ وہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے دن رات ایک کردیں۔ یہ ذمے داری ان سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی بھی تھی جو اس علاقے میں بڑے بڑے جلسے کرتی ہیں۔ کیا ان جماعتوں کو اس علاقے کے غریبوں کی ضرورت صرف اس وقت ہوتی ہے جب ووٹ لینے کا موسم آتا ہے۔
یہ ایک اچھی بات ہے کہ وفاقی حکومت نے صوبائی معاملات میں عدم مداخلت کا رویہ اپنا رکھا ہے لیکن تھرپارکر کے اس الم ناک سانحے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ صوبوں میں سر اٹھانے والے وہ معاملات اور مسائل جو بہت بڑے انسانی المیے میں تبدیل ہوسکتے ہیں، ان کے بارے میں وفاقی حکومت کو زیادہ حساس رویہ اختیار کرنا چاہیے اور ان کے بارے میں ہنگامی اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہمارے تھرپارکر اور ہندوستانی تھر کے درمیان ریت کے بگولے چکراتے ہیں اور کبھی کبھی سرحدی حد بندیوں سے بھی کھلواڑ کرتے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جس پر خفیہ ایجنسیوں کی گہری نظر رہتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ لوگ دو سوال اٹھا رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ خشک سالی کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں تھا اور نہ قحط کوئی ناگہانی آفت تھی، اس بارے میں ان ایجنسیوں سے بھول چوک کیسے ہوئی؟ دوسرا سوال یہ کیا جارہا ہے کہ پاکستانی اور ہندوستانی تھر ایک جیسے مسائل کا شکار ہوتے ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ ہندوستانی تھر میں رہنے والے ان مسائل سے دوچار نہیں ہوئے اور نہ وہاں اس طرح اموات ہوئیں۔ اس کا یہ مطلب تو نکلتا ہے کہ سرحد کے دوسری طرف وہاں کی مقامی حکومت کی معاملات پر گرفت بہت بہتر تھی۔ بارش وہاں بھی نہیں ہوئی۔ اناج کی قلت وہاں بھی ہوئی لیکن انھوں نے اسے قحط میں بدلنے نہیں دیا۔ ہم صبح شام ہندوستان پر انگلی اٹھاتے ہیں کیا ان معاملات میں ہمیں ہندوستان سے کچھ سیکھنا نہیں چاہیے؟
اور اب کچھ احتساب اپنا بھی۔ ہم جو اخبارات اور ٹیلی ویژن سے وابستہ ہیں، ہم نے تھر کے معاملات پر اس وقت تک توجہ کیوں نہیں دی جب تک یہ بحران الم ناک انسانی المیے میں تبدیل نہیں ہوگیا۔ ان دنوں معاملہ، بریکنگ نیوز اور ریٹنگ کا ہے، جب طالبان، وینا ملک اور میرا بی بی بریکنگ نیوز کی مرکز نگاہ ہوں اس وقت کسی نے یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ ذرا کسی اور طرف بھی نگاہ اٹھاکر دیکھے۔ میں اپنے آپ سے سوال کرتی ہوں کہ جب میں نگر پارکر، تھر پارکر، مٹھی اور دوسری سرحدی بستیوں کا سفر کرچکی ہوں، وہاں کے قہر ناک موسموں کو قریب سے دیکھا ہے، وہاں کی سیاسی صورت حال پر افسانے بھی لکھے ہیں تو کیا مجھے معلوم نہیں تھا کہ تھر میں خشک سالی سے مور ایسے حسین پرندے اور پھول جیسے بچے کیوں اور کیسے ختم ہوجاتے ہیں۔ کیا یہ میری ذمے داری نہیں تھی کہ میں اس بارے میں وقت سے پہلے لکھوں اور افسر شاہی کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کروں؟
ہم لکھنے والے عموماً جمہوریت کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن یہ بات ماننے کی ہے کہ اگر ملک میں اس وقت جمہوریت نہ ہوتی میڈیا آزاد نہ ہوتا تو اس سانحے اور اس کی شدت کو یوں نہ پیش کیا جاتا۔ دیرسے سہی حکمران اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں تھرپارکر کی طرف یوں دوڑ نہ لگاتیں اور وہاں کے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی طرف توجہ نہ دیتیں۔ انھیں معلوم ہے کہ اب کوئی آمران کی سرپرستی کے لیے نہیں آئے گا اور انھیں ووٹ لینے کے لیے ان ہی کے سامنے جھولی پھیلانی ہونگی جنھیں انھوں نے اس ابتلا میں تنہا چھوڑ دیا تھا۔ چپکے سے ہی سہی ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ تھر کے لوگوں کو نظر انداز کرنے کا ایک سبب کہیں یہ تو نہیں کہ وہ ہندو ہیں اور ہندو بھی وہ جوکولہی، بھیل اور باگڑی ہیں۔ یقیناً ایسی بات نہیں ہوگی لیکن پھر بھی اس بارے میں ہمیں سوچنا تو چاہیے۔ تھر کے بعد چولستان میں بھی ایک ایسا ہی انسانی المیہ جنم لینے والا ہے تو کیا ہمیں اس بارے میں ابھی سے کچھ نہیں سوچنا چاہیے؟ کیا لازم ہے کہ اپنی نااہلیوں کے سبب ہم ایک بار پھر دنیا میں رسوا اور خود اپنی نگاہوں میں ذلیل ہوں؟
ان دنوں ہم نے جان سے گزرتے ہوئے بہت سے بچوں کی تصویریں دیکھی ہیں۔ اولاد کی نبضوں کے ڈوبنے کے ساتھ ان کی ماؤں کی آنکھوں میں دم توڑتے ہوئے خواب دیکھے ہیں۔ ایسے میں ابن انشا کی ایک طویل نظم کی چند سطریں نظر سے گزاریئے کہ یہ سطریں جگر شق کرتی ہیں:
یہ بچہ کیسا بچہ ہے… یہ بچہ کالا کالا سا…یہ کالا سا مٹیالا سا…یہ بچہ بھوکا بھوکا سا… یہ بچہ سوکھا سوکھا سا… یہ بچہ کس کا بچہ ہے… یہ بچہ کیسا بچہ ہے… جو ریت پہ تنہا بیٹھا ہے… ناں اس کے پیٹ میں روٹی ہے… ناں اس کے تن پر کپڑا ہے… ناں اس کے سر پر ٹوپی ہے… ناں اس کے پیر میں جوتا ہے… ناں اس کے پاس کھلونوں میں… کوئی بھالو ہے، کوئی گھوڑا ہے… ناں اس کا جی بہلانے کو…کوئی لوری ہے، کوئی جھولا ہے…ناں اس کی جیب میں دھیلا ہے… ناں اس کے ہاتھ میں پیسا ہے…ناں اس کے امی ابو ہیں…ناں اس کی آپا خالا ہے… یہ سارے جگ میں تنہا ہے… یہ بچہ کیسا بچہ ہے… یہ صحرا کیسا صحرا ہے… ناں اس صحرا میں بادل ہے… ناں اس صحرا میں برکھا ہے… ناں اس صحرا میں بالی ہے…ناں اس صحرا میں خوشہ ہے… ناں اس صحرا میں سبزہ ہے… ناں اس صحرا میں سایا ہے… یہ صحرا بھوک کا صحرا ہے… یہ صحرا موت کا صحرا ہے…یہ بچہ کیسے بیٹھا ہے… یہ بچہ کب سے بیٹھا ہے… یہ بچہ کیا کچھ پوچھتا ہے… یہ بچہ کیا کچھ کہتا ہے… یہ دنیا کیسی دنیا ہے… یہ دنیا کس کی دنیا ہے… اس دنیا کے کچھ ٹکڑوں میں… کہیں پھول کھلے کہیں سبزہ ہے… کہیں بادل گھر گھر آتے ہیں… کہیں چشمہ ہے، کہیں دریا ہے…کہیں اونچے محل اٹاریاں ہیں… کہیں محفل ہے، کہیں میلا ہے… کہیں کپڑوں کے بازار سجے… یہ ریشم ہے، یہ دیبا ہے… کہیں غلے کے انبار لگے… سب گیہوں دھان مہیا ہے… کہیں دولت کے صندوق بھرے… ہاں تانبا، سونا، روپا ہے… تم جو مانگو سو حاضر ہے… تم جو چاہو سو ملتا ہے… اس بھوک کے دکھ کی دنیا میں… یہ کیسا سکھ کا سپنا ہے؟… وہ کس دھرتی کے ٹکڑے ہیں؟…یہ کس دنیا کا حصہ ہے؟…ہم جس آدم کے بیٹے ہیں …یہ اس آدم کا بیٹا ہے… یہ آدم ایک ہی آدم ہے… وہ گورا ہے یا کالا ہے… یہ دھرتی ایک ہی دھرتی ہے… یہ دنیا ایک ہی دنیا ہے… سب اک داتا کے بندے ہیں… سب بندوں کا ایک ہی داتا ہے… کچھ پورب پچھم فرق نہیں…اس دھرتی پر حق سب کا ہے۔
↧
پوری قوم تھر والوں کی قاتل ہے
ذکر تھر کے ریگستان میں پاکستانی بچوں کی کَس مپرسی کی حالت میں موت کا ہے لیکن پوری قوم کے لیے اس شرمناک سانحے کا ذکر پہلے کہاں سے شروع کیا جائے سمجھ میں نہیں آ رہا اور یہ سمجھ میں آنے والی بات بھی نہیں ہے۔ تھر کے اس قحط زدہ علاقے سے باہر کا پاکستان تھر کے مقابلے میں ایک خوشحال پاکستان ہے مگر اس خوشحال پاکستان کو اپنے جسم کے ایک حصے کی خبر نہیں۔ یہ کیسا پاکستان ہے جس کے بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور باقی کا پورا پاکستان خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے حتیٰ کہ تھر جیسا چولستان نامی ایک اور ریگستان ایسی موت سے محفوظ ہے۔ وزیر اعظم جب تھر پہنچے تو انھوں نے حکم دیا کہ صوبائی وزیر اعلیٰ اپنی انتظامیہ کے ان افراد کو سزا دیں جو اس سانحہ کے ذمے دار ہیں۔ قریب ہی گندم کے ڈھیر لگے ہوئے تھے جو ان بھوکے پاکستانیوں تک نہیں پہنچائے گئے لیکن وزیر اعظم کی سادگی یا سیاسی مجبوری کہ انھوں نے اس سانحے کے اصلی ذمے دار سے کہا کہ وہ اس سانحہ کے مجرموں کو سزا دے یعنی وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا والا مضمون بلکہ آگے چلیے کہ اس سانحہ کی ذمے داری آخر میں خود وزیر اعظم تک پہنچتی ہے کہ وہ پورے ملک کے، بشمول تھر پارکر کے، سب کے حکمران اعلیٰ ہیں اور ہر اچھی بری بات کے ذمے دار بھی۔ ایک ایسے ہی اعلیٰ ترین حکمران کا ایسی ہی صورت حال میں ایک واقعہ جو میں حال ہی میں کہیں پڑھا ہے۔
سخت ترین قحط تھا۔ تاریخ میں اس قحط کا ذکر تفصیل کے ساتھ ملتا ہے اور ساتھ ہی اس قحط زدہ ملک کے حاکم اعلیٰ کا بھی۔ یہ حاکم اعلیٰ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ شہر کی گلی سے گزر رہے تھے کہ انھیں کونے میں دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھی ہوئی ایک بچی دکھائی دی۔ بھوک بچی کے چہرے مہرے سے عیاں تھی۔ یہ دیکھ کر حکمران نے پریشان ہو کر اپنے ساتھی سے پوچھا کہ اس بچی کے گھر والے کہاں ہیں، ان سے کہو کہ اس کو اپنے پاس رکھیں۔ یہ سن کر اس حاکم اعلیٰ کے ساتھی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور اس نے اپنی اشک آلود نظروں سے حاکم اعلیٰ کی طرف دیکھ کر کہا کہ آپ نے پہچانا نہیں، یہ آپ کی پیاری پوتی ہے جسے میں نے کئی بار آپ کی گود میں مچلتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ سن کر حاکم اعلیٰ کو سب یاد آ گیا اور اس کی آنکھیں بھی اپنے ساتھی کی طرح لبریز ہو گئیں لیکن وہ بڑی ہمت کر کے قدم سنبھال کر رکھتے ہوئے آگے چل دیا کیونکہ قحط اس کے ملک کے ہر فرد اور بچے کے لیے برابر تھا۔ یہ امیر المومنین عمر بن خطاب تھا جس کے گھر میں قحط پورے ملک کے گھروں سے زیادہ تھا۔
اب آپ یاد کیجیے کہ آپ نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کی اس علاقے میں آمد کے موقع پر دوپہر کو بوفے لنچ کا اہتمام کیا گیا۔ بے حد مرغن غذاؤں سے میز بھر گئے اور سرکاری خوراک پر مزے اڑانے والے ان سجی ہوئی مہکتی چیزوں کے گرد پلیٹیں ہاتھوں میں لیے گپیں لڑاتے رہے۔ نہیں معلوم ان میزوں کے کسی پائے کے نیچے کسی معصوم بھوکے بچے کی میت دبی ہوئی ہو یا ان خوش خوراک لوگوں کے پاؤں تلے کسی بچے کی روح چیخ رہی ہو۔ یہ سب اللہ جانتا ہے اور اس کے اپنے الفاظ میں اس کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے جب ایسی آسمانی آفتیں نازل ہوتی ہیں جیسی بارش کے نہ ہونے سے قحط کی طرح تو حکمران اس کے ذمے دار نہیں ہوتے یہ سب ان سے بالاتر ہوتا ہے۔ یہ قدرت کی خوشی نا خوشی کا معاملہ ہوتا ہے لیکن قدرت انسانوں کے ردعمل کو دیکھ رہی ہوتی ہے کہ زمین پر جن لوگوں کو اقتدار دیا گیا ہے وہ کیا کر رہے ہیں۔ اللہ سے معافی مانگ رہے ہیں، گریہ و زاری کر رہے ہیں یا انواع و اقسام کے کھانے اڑا رہے ہیں۔ شکر ہے وزیر اعظم نے یہ کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔ وہ انسان جو چودہ سو برس پہلے تھے اور جو آج ہیں ان سب کے صرف دو ہاتھ ہیں لیکن اصل بات اندر کے احساس ذمے داری کی ہے۔
کوئی اپنے جسمانی عمل اور طاقت سے ایسی آفت نہیں ٹال سکتا لیکن ان لوگوں کی حالت پر رو ضرور سکتا ہے جن کا اس کو ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے اور ذمے داری کی نوک اس کے دل میں چھبتی رہتی ہے جو اسے چین نہیں لینے دیتی۔ یہی حکمران جب عمر بھر کی اس مشقت سے گھبرا گیا تو وہ ایک دن باہر جا کر سنگ ریزوں سے بھری زمین پر لیٹ گیا اور خدا سے زاری کرنے لگا کہ میں بہت تھک گیا ہوں مجھے اپنے پاس بلا لے کیونکہ اس کا بڑھاپا اس کی ذمے داری کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ اس تھر کے حادثے کے دن بدقسمتی سے دو بڑے لوگ ان مظلوموں کا حال پوچھنے ان کے ہاں پہنچے تو پولیس نے ان کی حفاظت کے لیے راستے بند کر دیے۔ اسی دوران ایک بچی علاج کے لیے اسپتال لائی جا رہی تھی جو راستے میں روک دی گئی اور پھر وہ ان بڑے پاکستانیوں کی زندگیوں کے تحفظ کی نذر ہو گئی مر گئی۔ زمین پر تو ان بے کس اور بے بس لوگوں کا کوئی پرساں حال نہیں لیکن ان سب کا رب ضرور دیکھ رہا ہے جس کی پکڑ بہت سخت ہے۔ وزیر اعظم نے ان لوگوں کے لیے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ سنا ہے کہ سندھ کی انتظامیہ خصوصاً اس علاقے کے افسروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جو لوگ قریب ہی پڑی ہوئی گندم اٹھا کر ان بھوکوں تک نہیں پہنچا سکتے وزیر اعظم کا کیا خیال ہے وہ یہ پورے ایک ارب روپے ان تک جانے دیں گے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آپ کی طرح میرا بھی یہ تجربہ ہے کہ اگر صرف فالتو مال یا سامان حقدار پاکستانیوں تک پہنچا دیا جائے تو کوئی بھوکا نہیں مر سکتا۔ ہمارے ہاں یہ کہاوت مشہور ہے کہ دو کا کھانا تین آدمیوں کے لیے بھی کافی ہوتا ہے۔ امریکیوں نے پوری دنیا کو اپنی فاسٹ فوڈ پر لگا دیا ہے جو بہت مہنگی ہوتی ہے اور بچے شوق کے ساتھ کھاتے ہیں۔ میرے بچوں کا جب موڈ بنتا ہے تو وہ ماں باپ سے نہیں بابا سے کہتے ہیں کہ انھیں یہ برگر وغیرہ منگوا دیں۔ سچ ہے کہ میں انکار تو نہیں کر سکتا لیکن یہ سوچتا ضرور ہوں کہ اس سے کتنے پاکستانیوں کا پیٹ بھر سکتا ہے اور میں ان بھوکے پاکستانیوں کا حق مار رہا ہوں جس کی یقیناً باز پرس ہو گی لیکن میں یہ گناہ پھر بھی کرتا ہوں جس کی سزا نہ جانے کس صورت حال میں ملے گی اور کب ملے گی اگر کسی حکومت کو فرصت ملے تو وہ کسی ایسے انتظام کی کوشش کرے جس میں کھانے کا سامان تو ضایع نہ ہونے دیں شادیوں پر یہ جرم عام ہوتا ہے اور بڑے پیمانے پر۔ ون ڈش کی پابندی عائد ہے لیکن یہ ون ڈش اتنی مقدار میں تیار کی جاتی ہے کہ کئی ڈشوں کے برابر ہوتی ہے پھر اس پابندی کا کیا فائدہ۔ ہم اپنی بے لگام سوسائٹی پر کنٹرول کر سکتے ہیں اور جدید ملکوں میں ایسا کنٹرول موجود ہے۔ آپ کسی ریستوران میں بھی صرف اتنا کھانا منگوا سکتے جتنا آپ کھا سکیں، فالتو نہیں کیونکہ اسے قومی ضیاع سمجھا جاتا ہے۔ بات تو بڑی واضح ہے اور سب کو معلوم ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط اور تھر میں بھوکے مرنے والے کیوں بھوکے مر رہے ہیں اس کی پوری قوم ذمے دار ہے اور قاتل بھی۔
↧
↧
تھر کی قحط سالی اور بچوں کی اموات کا لہو حساب مانگتا ہے
↧
Al-Khidmat Foundation - Service to Humanity
↧
Search for Malaysia Airlines MH370
↧
دی گیونگ پلیج
بل گیٹس اور وارن بفٹ دنیا کی امیر ترین شخصیات ہیں‘ بل گیٹس مائیکرو سافٹ کے بانی ہیں جب کہ وارن بفٹ سرمایہ کاری کی درجنوں کمپنیوں کے مالک ہیں‘ یہ دونوں دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والے لوگ بھی ہیں‘ بل گیٹس 95 فیصد جب کہ وارن بفٹ 99 فیصد دولت دنیا کے غریبوں کے لیے وقف کر چکے ہیں‘ بل گیٹس اور وارن بفٹ نے 2010ء میں’’ دی گیونگ پلیج‘‘ کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا خیراتی ادارہ بنایا‘ یہ ادارہ ’’بلینر کلب‘‘ بھی کہلاتا ہے‘ اس کلب کی ممبر شپ کی صرف دو شرائط ہیں‘ ایک‘ دنیا کے صرف ارب پتی لوگ اس کلب کے رکن بن سکتے ہیں‘ دو‘ یہ کلب صرف ان ارب پتی لوگوں کے لیے اپنے دروازے کھولتا ہے جو اپنی دولت کا کم از کم آدھا حصہ خیرات کرنے کے لیے تیار ہوں‘ جولائی 2013ء تک دنیا کے 115 ارب پتیوں نے اس کلب کی ممبر شپ حاصل کر لی تھی‘ ان ارب پتیوں میں زنانہ مصنوعات بنانے والی کمپنی (Spanx) کی مالکہ سارا بلیک لی‘ بل گیٹس کے ساتھی اور مائیکرو سافٹ کے بانی رکن پال ایلن (یہ دنیا کے 53 ویں امیر ترین شخص ہیں)‘ فلم ساز سٹیو بینگ‘ امریکی بزنس مین اور سیاستدان مائیکل بلومبرگ (یہ 31 بلین ڈالر کے مالک ہیں)‘ آریکل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر لیری ایلی سن‘ فیشن ڈیزائنر ڈیانی وان فرسٹن برگ‘ آسٹریلین بزنس مین اینڈریو ٹویگی فاریسٹ شامل ہیں‘ ان کے علاوہ امریکا کے بڑے بزنس مین ریڈ ہیسٹنگز‘ ہلٹن ہوٹلز کے مالک بیرن ہلٹن‘ جارج لوکس‘ جیفری اسکول‘سڈنی کیمل‘ ٹیڈ ٹرنر اور مارک ذکر برگ بھی اس فہرست میں شامل ہیں‘ یہ تمام لوگ اپنی دولت کا نصف سے تین چوتھائی حصہ عام لوگوں کے لیے وقف کر چکے ہیں۔ ’’دی گیونگ پلیج‘‘ چیرٹی کے لیے ریسرچ بھی کرتا ہے‘ یہ ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہیں‘ یہ ماہرین پوری دنیا کا سروے کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے ڈونر کو وہ شعبے بتاتے ہیں جن میں یہ اپنی دولت لگا سکتے ہیں مثلاً آپ بل گیٹس کو لے لیجیے‘ یہ پوری دنیا کے بچوں کے لیے ویکسین تیار کرتے ہیں‘ بل گیٹس نے دسمبر 1999ء میں پولیو کے خلاف جہاد شروع کیا‘ پولیو اس وقت 127 ممالک میں موجود تھا‘ بل گیٹس نے اربوں روپے کی پولیو ویکسین تیار کرائی اور عالمی ادارہ صحت کی مدد سے یہ ویکسین بچوں تک پہنچانا شروع کر دی‘ آج بل گیٹس کی وجہ سے پولیو صرف تین ممالک پاکستان‘ افغانستان اور نائیجیریا تک محدود ہے‘ بل گیٹس ان ممالک کو بھی پولیو فری بنانا چاہتے ہیں‘ یہ پاکستان کے ہر وزیراعظم سے ملاقات کرتے ہیں اور صرف ایک ہی درخواست کرتے ہیں ’’آپ مہربانی کر کے پولیو ورکرز کو تحفظ دیں تا کہ ہم آپ کے ملک سے پولیو ختم کر سکیں‘‘ حکومت کوشش کر رہی ہے لیکن شکیل آفریدی کی ’’مہربانی‘‘ سے ہمارے لاکھوں بچوں کی زندگیاں خطرات کا شکار ہو چکی ہیں‘ شکیل آفریدی این جی او ’’سیو دی چلڈرن‘‘ کے ملازم تھے‘ انھوں نے پولیو ویکسی نیشن کی جعلی مہم تیار کی‘ ایبٹ آباد کی دو ایل ایچ ڈبلیوز آمنہ بی بی اور بخت بی بی کی خدمات حاصل کیں‘ یہ خواتین اسامہ بن لادن کے گھر میں داخل ہوئیں‘ اسامہ کے بچے کا ڈی این اے لیا‘ یہ ڈی این اے اسامہ کے ڈی این اے سے میچ ہو گیا اور امریکا نے خون کے اس قطرے کی بنیاد پر اسامہ بن لادن کے گھر پر حملہ کر دیا‘ اسامہ بن لادن مارے گئے لیکن پاکستان کے لاکھوں بچوں کی زندگیاں اندیشوں میں گھر گئیں‘ اسامہ بن لادن کو ہیرو ماننے والے آج پولیو ورکرز کو شکیل آفریدی سمجھ کر ان پر حملے کر رہے ہیں ‘ ان حملوں میں پولیو ورکرز اور ان کے محافظ قتل ہوتے ہیں‘ ان کے قتل کی خبریں عالمی میڈیا میں جگہ پاتی ہیں لیکن بل گیٹس اس کے باوجود پولیو کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں‘ یہ ہار نہیں مان رہے ‘پال ایلن نے اپنی دولت سائنسی ریسرچ کے لیے وقف کر دی ‘ یہ سائنس پر ریسرچ کرنے والے مختلف اداروں کو ڈونیشن دیتے ہیں‘ لیری ایلی سن اپنی دولت سے بڑھاپے اور اس کے علاج پر ریسرچ کرا رہے ہیں‘ ڈیانی وان نے اپنی دولت خواتین کے مسائل کے حل کے لیے وقف کر دی ہے جب کہ دوسرے بزنس مین اپنی دولت ماحولیات‘ صاف پانی‘ پرائمری تعلیم‘ میڈیکل اور جانوروں کی بہبود پر خرچ کر رہے ہیں۔
دنیا میں مسائل حل کرنے کے تین طریقے ہوتے ہیں‘ حکومت‘ عوام اور حکومت عوام۔ حکومتوں کا کام ملکوں میں نظام بنانا اور اس نظام پر سختی سے عمل کرانا ہوتا ہے لیکن اگر حکومتیں یہ کام نہ کرا سکیں تو پھر تمام تر ذمے داری عوام پر شفٹ ہو جاتی ہے‘ عوام کو آگے بڑھ کر اپنے مسئلے خود حل کرنا پڑتے ہیں لیکن اگر عوام بھی متحرک نہ ہوں تو پھر تیسرا طریقہ حکومت اور عوام کا اشتراک بچ جاتا ہے‘ عوام بالخصوص معاشرے کے بااثر لوگ اگر حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں تو مسائل حل ہونے لگتے ہیں اور یہ بلینر کلب تیسرا طریقہ ہے‘ یہ لوگ دوسرے ممالک کی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں‘ ہم اگر اپنے ملک کا جائزہ لیں تو ہمیں ماننا پڑے گا‘ ہمارے ملک میں حکومتیں اور عوام دونوں فیل ہو چکے ہیں‘ حکومت ختم ہو چکی ہے جب کہ عوام بے حسی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں چنانچہ اب معاشرے کو متحرک کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ بچتا ہے‘ ملک کے بااثر لوگ ’’دی گیونگ پلیج‘‘ کی طرح آگے آئیں‘ پاکستان میں بلینر کلب بنائیں اور حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں‘ یہ ملک دوبارہ پٹڑی پر آ جائے گا چنانچہ ملک ریاض‘ میاں منشاء اور اقبال زیڈ احمد جیسے لوگوں کو آگے بڑھنا چاہیے‘ یہ ’’ارب پتی کلب‘‘ بنائیں‘ یہ ملک کے بنیادی مسائل کی فہرست بنائیں‘ آپس میں شعبے تقسیم کریں‘ حکومت سے تعاون لیں اور کام شروع کر دیں‘ ان میں سے ایک بنیادی تعلیم کی ذمے داری اٹھالے‘ یہ جدید ترین سلیبس بنوائے‘ سرکاری اسکولوں کو بتدریج ’’اون‘‘ کرنا شروع کرے اور ملک میں تعلیم کا انقلاب برپا کر دے‘ کوئی ایک ارب پتی صحت کی ذمے داری اٹھا لے‘ یہ اسپتال بنوائے‘ میڈیکل کے طالب علموں کو اپنے ساتھ شامل کرے‘ بین الاقوامی ڈونرز کی مدد لے‘ ادویات پر ریسرچ کرائے اور عام اور غریب لوگوں کی طبی ضروریات پوری کر دے‘ کوئی صاف پانی کی ذمے داری اٹھا لے‘ کوئی ماحولیاتی آلودگی پر کام کرے‘ کوئی تھر میں پانی کا بندوبست کر دے‘ کوئی ملک میں سستے گھروں کی ٹیکنالوجی عام کر دے‘ کوئی غریب بچیوں کی شادیوں کا معاملہ سنبھال لے‘ کوئی منشیات کے خلاف بڑے پیمانے پر کام کرے‘ کوئی گھریلو تشدد کے خلاف قوانین بنوائے‘ کوئی یتیم بچوں‘ بیوہ عورتوں اور بوڑھے لوگوں کے سینٹر بنائے‘ کوئی ایمبولینس سروس شروع کر دے اور کوئی صرف قبرستانوں کی ذمے داری اٹھا لے‘ یہ لوگ اگر اکٹھے ہو جائیں‘ یہ کلب بنائیں‘یہ نظام ترتیب دیں اور اگر یہ ایک سسٹم کے تحت لوگوں کی مدد کرنا شروع کردیں توہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں ملک میں انقلاب آ جائے گا۔
پاکستان دنیا میں چیرٹی کرنے والے پانچ بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے‘ ہمارے ملک کے 80 فیصد لوگ چیرٹی کرتے ہیں‘ ہمارے ملک کے بھوکے ترین لوگ بھی مسجد‘ درگاہ اور مدرسے کو چندہ دیتے ہیں یا دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں‘ اس کی وجہ ہماری کوششوں میں تسلسل اور خیراتی اداروں میں کوآرڈی نیشن کی کمی ہے‘ ملک کے مخیر حضرات چیرٹی کی منصوبہ بندی نہیں کرتے‘ یہ بیک وقت تمام مسائل جھولی میں ڈال لیتے ہیں‘ یہ دستر خوان بھی بنا لیتے ہیں‘ اسپتال بھی کھول لیتے ہیں‘ اسکول بھی قائم کر دیتے ہیں اور ایمبولینس سروس بھی شروع کر دیتے ہیں‘ منصوبہ بندی کی اس کمی کی وجہ سے چیرٹی ورکرز تھک جاتے ہیں‘ سرمایہ بھی ختم ہو جاتا ہے اور مسائل بھی قائم رہتے ہیں‘ یہ لوگ بھی اگر امریکی بزنس مینوں کی طرح آپس میں ایک ایک شعبہ تقسیم کر لیں تو اس سے مسائل بھی حل ہو جائیں گے اور یہ لوگ اپنے اپنے شعبے کے ایکسپرٹ بھی بن جائیں گے‘ پاکستان میں چیرٹی کا دوسرا بڑا مسئلہ مذہبی تنظیمیں اور ادارے ہیں‘ یہ ادارے اور تنظیمیں انتہائی فعال اور متحرک ہیں‘ یہ عام لوگوں سے رابطے میں بھی ہیں لیکن صرف مساجد‘ درگاہوں اور مدارس تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں‘ یہ زندگی کے دوسرے شعبوں کو اپنی ذمے داری نہیں سمجھتے‘ یہ درست ہے‘ مدارس‘ درگاہیں اور مساجد بھی ضروری ہیں لیکن معاشرہ بھی ہم سب کی ذمے داری ہوتا ہے‘ میں نے آج تک کسی مذہبی تنظیم کو منشیات کے خلاف کام کرتے نہیں دیکھا‘ کاش ملک کی کوئی ایک مذہبی تنظیم ہیروئن کی لت میں مبتلا نوجوانوں کی ذمے داری اٹھا لے‘ یہ ملک بھر میں نشیوں کی بحالی کا ذمے اٹھا لے یا کوئی مذہبی تنظیم بوڑھوں کے لیے اولڈ ہومز بنا لے یا پھر کوئی مذہبی تنظیم پورے ملک کو صاف پانی کی فراہمی شروع کر دے یا پھر کوئی مذہبی جماعت تھر کے قحط زدہ علاقوں میں پانی کے تالاب بنا دے یا پھر کوئی جماعت پورے ملک میں بلڈ بینکس قائم کر دے یا پھر کوئی مذہبی جماعت پولیو ویکسین کی ذمے داری اٹھا لے یا کوئی مذہبی جماعت ملک بھر میں چوکیدار کا نظام بنا دے یا کوئی مذہبی جماعت ٹریفک‘ ٹریفک سگنلز یا صفائی کا نظام سنبھال لے‘ ہماری مذہبی جماعتیں ان مسائل کو اپنی ذمے داری کیوں نہیں سمجھتیں‘ یہ صرف مساجد‘ مدارس اور درگاہوں تک کیوں محدود ہو کر رہ گئی ہیں؟ یہ عام انسانوں کو اپنا فرض کیوں نہیں سمجھتیں؟۔عالم اسلام بالخصوص ہمارے ملک کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو گی گورے خیرات میں بھی ہم سے آگے نکل گئے‘ ہمارے ملک سے پولیو ختم کرنے کی ذمے داری بھی بل گیٹس نے اپنے سر لے رکھی ہے جب کہ ہم پولیو ورکرز کو قتل کر رہے ہیں‘ کاش ہمارے علما پولیو کے خلاف اکٹھے ہو جائیں اور ارب پتی سرمایہ کار ملک میں ’’دی گیونگ پلیج‘‘ جیسے ادارے بنا لیں‘ یہ نیکی کے کام میں ہی جمع ہو جائیں۔
↧
↧
Primary Education in Pakistan
بلاشبہ ملک کی ترقی و تنزل میں نوجوان طبقہ مرکزی کردار ادا کرتا ہے اور اس وقت امن کے متلاشی طبقے نوجوان نسل سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ’’ملک میں امن کے لیے نوجوان ہی کچھ کر سکتے ہیں‘‘۔ جناب! امن نام ہے سکون کا، چین کا، اطمینان کا، آرام کا، آشتی اور پناہ کا۔ اب آپ ہی بتائیں ’’ایام گردش‘‘ میں مغرب سے جنوب اور شمال سے مشرق تک نوجوانوں کو یہ نعمتیں کہاں نصیب ہیں؟ اس لیے میری طرح آپ کو بھی اس عنوان سے یقیناً اختلاف ہو گا۔
امن کے متلاشی یہ بھول جاتے ہیں کہ ’’امن، غربت، بے روزگاری اور تعلیم‘‘ باہم مشترک ہیں۔ انھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ غربت کی وجہ سے ناخواندگی ہے اور ناخواندگی کی وجہ سے غربت ہے۔ جب تعلیم غریبوں کے دسترس میں ہو گی تو غریب معاشرے میں تعلیم عام ہو گی اور جب غریب معاشرے میں تعلیم ہو گی تو ایک مستحکم معاشرہ جنم لے گا اور جب مثبت معاشرہ پروان چڑھے گا تو وہاں پر ہر سو خوشحالی ہو گی اور امن و آشتی کا بول بالا ہو گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’تعلیم‘‘ کون عام کرے گا؟
بدقسمتی سے تعلیم عام کرنے کے دعویداروں کی کمی نہیں ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ طبقوں میں بٹی ہوئی مہنگی تعلیم کے باعث صرف ان گھرانوں کے بچے، نوجوان منزل تک پہنچ پاتے ہیں جو مالی لحاظ سے مستحکم ہوتے ہیں جب کہ 90 فیصد گھرانوں کے نوجوان منزل کی تلاش میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ سرکاری درس گاہوں کی حالت یہ ہے کہ کہیں اسکول آباد ہیں تو کہیں ویران ہیں۔ کہیں اساتذہ زیادہ ہیں تو بچے کم ہیں، کہیں طالب علم زیادہ ہیں تو استاد کم ہیں، کہیں تعلیم دی جا رہی ہے تو کہیں گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کی جا رہی ہیں۔
نوجوانوں کو حیلے بہانوں اور طفل تسلیوں کے گرداب میں جکڑ لیا گیا ہے۔ جو چیز یعنی ’’تعلیم‘‘ انھیں آگے لے جا سکتی ہے اسے اس سے دور کر دیا گیا ہے ایسے میں امن کا خواب عبث ہے۔ جہاں تعلیم کی راہیں مسدود کر دی گئی ہوں، جہاں نوجوانوں کے لیے روزگار کے راستے بند کر دیے گئے ہوں، جہاں غربت اژدھا کا روپ دھار چکی ہو۔ وہاں غربت کے بیچ سے کیسے خوشحالی آ سکتی ہے؟ اگر امن کے خواہاں ہو تو تعلیم کو غریبوں کے لیے عام کرو، ویران درس گاہوں کو آباد کرو۔
اب ذرا ملک میں تعلیم کی صورت حال ملاحظہ کریں! اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پرائمری سطح پر بچوں کے مقابلے میں اساتذہ کی شرح خطے میں سب سے کم ہے، اسکول نہ جانے والے بچوں میں دو تہائی تعداد لڑکیوں کی ہے، پرائمری سطح پر لڑکیوں کی انرولمنٹ شرح 54 فیصد جب کہ سیکنڈری سطح پر صرف 12 فیصد ہے۔ پاکستان میں 7 سے 15 سال تک کی 62 فیصد غریب لڑکیوں نے آج تک کلاس روم کی شکل نہیں دیکھی، خواتین کی شرح خواندگی 47 فیصد اور مردوں کی شرح خواندگی 70 فیصد ہے۔ خواتین کی صرف 49 فیصد آبادی نے تعلیم حاصل کی اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں صرف 38 فیصد خواتین اسکولز میں پڑھی ہیں۔ اسرائیل جس سے ہم نفرت کرتے ہیں اس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ سالانہ عالمی ایجوکیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی 46 فیصد آبادی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، 25 سال سے 64 سال کی عمر کے لوگوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا تناسب دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا یہ نتیجہ 2008ء میں نافذ ہونے والی تعلیمی اصلاحات کا سبب ہے جن میں اساتذہ کی تنخواہیں تعلیمی ڈھانچہ اور روزگار کی شرائط میں تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ اسرائیل میں 2003ء میں گریجویشن کرنے والے طلبا کی شرح 89 فیصد تھی جو 2010ء میں بڑھ کر 92 فیصد ہو گئی۔
یہ رپورٹ 34 ممبر ملکوں کے سروے سے تیار کر کے جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کینیڈا اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لحاظ سے دنیا کا نمبر ون ملک ہے۔ جب کہ اس کے برعکس پاکستان کے دیہی علاقوں میں اسکول جانے کی عمر کے تمام بچوں خصوصاً بچیوں میں سے 23 فیصد اسکولوں سے باہر ہیں، سرکاری اسکولوں کے 6 اور نجی اسکولوں کے 25 فیصد طالب علم ٹیوشن پڑھنے جاتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں پہلی جماعت کے 68 اور نجی اسکولوں کے 43 فیصد طالب علم گنتی کی پہچان نہیں کرسکتے، تیسری جماعت کے سرکاری اسکولوں کے 57 اور نجی اسکولوں کے 31 فیصد طالب علم انگریزی الفاظ پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں جب کہ 5 ویں جماعت کے سرکاری اسکولوں کے 57 اور نجی اسکولوں کے 36 فیصد طالب علم اردو کے جملے پڑھنے سے قاصر ہیں۔ اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے ذریعہ تعلیم کے حوالے سے 46 فیصد کی پہلی ترجیح اردو، 37 کی گھروں میں بولی جانے والی اور 17 فیصد کی انگریزی زبان ہے۔ دیہات میں غریب ترین طبقے کے 54، غریبوں کے 67 امیروں کے 73 اور امیر ترین طبقے کے 81 فیصد بچے اسکول جاتے ہیں۔
ماضی میں صوبہ سندھ کا تعلیمی معیار دیگر صوبوں سے بہتر تھا مگر اس وقت سندھ دیگر صوبوں سے پیچھے ہے۔ سندھ میں 60 لاکھ بچے ابھی بھی اسکولوں سے دور ہیں۔ سندھ کے 40 ہزار میں سے 38 ہزار اسکول فعال ہیں یعنی 11 ہزار اسکول غیر فعال ہیں۔ جمعرات 20 فروری 2014 کو سندھ اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے ’’سیاسی چارٹر‘‘ کی منظوری دی جس میں عہد کیا گیا ہے کہ سندھ میں اسکولوں کی 100 فیصد داخلے یقینی بنا کر تعلیم کے معیار کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔ یہ قرارداد سینئر وزیر برائے تعلیم و خواندگی نثار احمد کھوڑو نے پیش کی تھی۔ یہ چارٹر کراچی میں تمام سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں منظور کیا گیا تھا اور اس عہد کی سندھ اسمبلی سے بھی منظوری لے لی گئی ہے یہ عہد 2 نکات پر مشتمل ہے یعنی سندھ میں 100 فیصد داخلے ہوں اور معیار تعلیم بہتر ہو۔ واضح رہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں تعلیم کا بجٹ 132 ارب روپے ہے ان میں سے 110 ارب روپے تنخواہوں کی مد میں خرچ ہوجاتے ہیں باقی 22 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ہے۔ حکومت سندھ کے کل 15 لاکھ ملازمین ہیں جن میں سے ڈھائی لاکھ ملازمین صرف محکمہ تعلیم میں ہیں۔
ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے محکمہ تعلیم میں بدانتظامی اور مبینہ کرپشن افسوس ناک ہے، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کو کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا بجٹ ملتا ہے لیکن وہ سندھ میں سرکاری اسکولوں کے بچوں کو بروقت کتابیں مہیا نہیں کرسکتا ۔ ہر دفعہ جب نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے تو پورے سندھ میں درسی کتب نہ ملنے پر چیخ و پکار شروع ہوجاتی ہے۔ کتابوں کی اشاعت کے ٹھیکے دینے پر اب تک سندھ میں کئی کئی اسکینڈلز منظر عام پر آچکے ہیں لیکن اب تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ صرف سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ میں ہی نہیں بلکہ پورے محکمہ تعلیم میں بدانتظامی اور کرپشن کے سوا کوئی اچھی بات سننے کو نہیں ملتی۔ صرف موجودہ حکومت میں ہی یہ صورت حال نہیں ہے بلکہ سابقہ حکومتوں میں بھی محکمہ تعلیم کے حالات کو ٹھیک کرنے کے بجائے مزید بگاڑا گیا ہے اور یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ سندھ میں تعلیم کا شعبہ واحد نہیں ہے جو تباہ حالی کا شکار ہو۔ صوبے میں گڈ گورننس بھی ایک بہت بڑا مسئلہ رہی ہے۔ گزشتہ پانچ سال بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی لیکن گورننس پر توجہ نہیں دی گئی۔ ان پانچ سالوں کے دوران بھی ہزاروں غیر فعال اسکولوں کو فعال نہیں کیا جا سکا۔ گھوسٹ اساتذہ کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکی۔ اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ معیار تعلیم کے مسلسل انحطاط کو نہیں روکا جا سکا۔ عالمی بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے سندھ میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے امداد اور قرضے کی مد میں جو رقم فراہم کی تھی، وہ ضایع کر دی گئی اور جتنے بھی نئے منصوبے شروع کیے گئے وہ مطلوبہ نتائج نہ دے سکے۔ اس پورے عرصے میں سرکاری تعلیمی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال نہ کیا جا سکا۔
مذکورہ بالا صورت حال کے پیش نظر آپ خود فیصلہ کریں کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں یا کہ تنزلی کی جانب رواں دواں ہیں؟ الغرض یہ کہ دہشت گردی جیسے مسائل کے حل میں تعلیم اسی وقت اپنا موثر کردار ادا کر سکتی ہے جب آپ پڑھے لکھے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعوں کا بھی بندوبست کریں۔ نوجوانوں کو قومی مفاد میں استعمال کرنے کی حکمت عملی طے کرنا ہو گی۔ اگر یہ نہیں ہو گا تو پھر تعلیم دہشت گردی، اخلاقی انحطاط اور غربت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
Primary Education in Pakistan
↧
Important Darbars in Pakistan
Important Darbars
- Darbar Hazrat Data Ganj Bakhsh, Lahore
- Darbar Hazrat Pir Makki Sahib, Lahore
- Darbar Hazrat Baba Bulley Shah, Kasur
- Darbar Hazrat Mian Mir Qadri, Lahore
- Darbar Hazrat Mian Sher Muhammad, Shariqpur Sharif, District Sheikhupura
- Darbar Hazrat Shah Muhammad Ghous, Circular Road, Lahore
- Darbar Hazrat Aishan Sahib, Lahore
- Darbar Hazrat Madho Lal Hussain, Lahore
- Darbar Hazrat Shah Abual Muali, Lahore
- Darbar Hazrat Nau Lakh Hazari, Shah Kot
- Darbar Hazrat Shah Jamal Qadri, Lahore
- Darbar Hazrat Shah Chiragh near High Court, Lahore
- Darbar Hazrat Imam Ali-ul-Haq, Shah Sialkot
- Darbar Hazrat Nausha Gunj Bakhsh, Ranmal Sharif, Distt. Gujrat
- Darbat Hazrat Shah Daula, Gujrat
- Darbar Hazrat Bhiri Shah Rehman, Distt. Gujranwala
- Darbar Hazrat Jee Baba, Attock
- Darbar Hazrat Bibi Pak Daman, Lahore
- Darbar Hazrat Sakhi Sarwar, D.G. Khan
- Darbar Hazrat Khawaja Ghulam Farid, Kot Mithan Sharif, Distt. Rajanpur
- Darbar Hazrat Baba Farid-ud-Din Ganj Shakhar, Pakpattan
- Darbar Hazrat Hai Sher Dewan Chawali Mashaikh, Burewala, District Vehari
- Darbar Hazrat Dawood Bandgi, Shergarh, Distt. Okarak
- Darbar Hazrat Badshahan, Khushab
- Darbar Hazrat Kh. Noor Muhammad Moharvi, Chishtian, Distt. Bahawalnagar
- Darbar Hazrat Muhammad Panah Kamir, Distt. Sahiwal
- Darbar Hazrat Mahboob-e-Subhani, Uch Sharif, Distt. Bahawalpur
- Darbar Hazrat Dars Mian Wadda, Lahore
- Darbar Hazrat Miran Husain Zanjani, Chah Miran, Lahore
- Darbar Hazrat Shah Inayat Qadri, Fatima Jinnah Road, Lahore
- Darbar Hazrat Haq Bahoo, Kalar Kahar
- Darbar Hazrat Abdul Qadir Jillani, Kot Sadhan District Jhang
- Darbar Hazrat Baha-ud-Din Zakriya, Multan
- Darbar Hazrat Darbar Hazrat Shah Rukn-e-Alam , Multan
- Darbar Hazrat Musa Pak Shaheed, Multan 36.
- Darbar Hazrat Shah Shams Sabzwari, Multan
- Darbar Hazrat Kh. Khuda Bukhsh, Khairpur Tameali, District Bahawalpur
↧
Women's Day and Dr. Aafia Siddqui
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے خواتین کے حقوق کی جد و جہد تیز کرنے، ان کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنے، انھیں سماجی انصاف فراہم کرنے، سیاسی سماجی طور پر مستحکم بنانے، اہم ملکی امور میں شامل کرانے کی جد و جہد عزم کا اظہار کیا گیا۔ ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں، امتیازی سلوک، عدم مساوات اور استحصال کو ختم کرنے اور ان کے حقوق و مسائل کو اجاگر کرنے کی باتیں اور وعدے ہوئے۔ ان سے متعلق گیت، رقص، ٹیبلو اور ڈرامے پیش کیے گئے۔ ان تقریبات میں دہشت گردی کا شکار ہونے والی خاتون وکیل کی ہلاکت پر رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ کائنات سومرو، ملالہ یوسف زئی اور پروین بی بی کی زندگی کی مشکلات اور داستانیں سنائی گئیں۔ لیکن خواتین کے عالمی دن کے اس موقعے پر قومی اہمیت کے حامل سب سے اہم مسئلے کو پس پشت رکھا گیا۔ البتہ پاسبان خواتین کے سیمینار میں عافیہ صدیقی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ پریس کلب کے سامنے عافیہ کی رہائی کے لیے مظاہرے کے دوران علامتی طور پر ہتھکڑیوں میں جکڑی عافیہ اور امریکی صدر کو دکھایا گیا۔ خواتین اور بچوں کی کچھ تعداد اس مظاہرے میں شریک تھی۔
خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر انسانی حقوق کے سرگرم علمبردار معروف امریکی وکیل، شاعر اور اسکالر ‘ بھی پاکستان میں موجود تھے جو عالمی سطح پر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جد و جہد کررہے ہیں جن کا کہناہے کہ عالمی امن کے لیے عافیہ کی رہائی ضروری ہے۔ موری سلا ،ترکی، ملائیشیا، ساؤتھ افریقہ، مصر، برطانیہ، زیمبیا، فرانس، جرمنی سمیت درجنوں ممالک کا دورہ کرچکے ہیں جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں، طلبا، وکلا اور صحافیوں نے عافیہ کی رہائی کے لیے بھر پور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ انھوں نے اس موقع پر دنیا بھر کی 40 سے زائد انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مشترکہ طور پر پاکستانی قوم کی بیٹی عافیہ کی رہائی کے لیے عالمگیر جدوجہد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے پاکستانی حکومت کو کہا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرے اور عافیہ کی رہائی کے لیے اپنا بنیادی کردار ادا کرے۔ عافیہ کے خلاف فیصلہ سیاسی بنیادوں پر دیا گیا ہے۔ گرفتاری اور امریکی عدالت سے 86 سال کی سزا انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزی ہے جب کہ تمام ثبوت عافیہ کے حق میں تھے۔ ٹرائل کے موقع پر وہ خود کمرہ ٔ عدالت میں موجود تھے۔ عدالت نے جانبداری کا ثبوت دیا ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے انکشاف کیا ہے کہ کونسل آف یورپ کی رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان نے عافیہ رہائی کیس جنوری 2014 میں واپس لے لیا ہے ایک طرف حکومتی اراکین عافیہ کی واپسی کی تسلیاں دے رہے ہیں، دوسری جانب عافیہ رہائی موومنٹ ختم کرنے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ وہ عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں تمام اکابرین کے دروازے کھٹکھٹا چکی ہیں سب جانب سے صرف تسلیاں دی جاتی ہیں۔ لیکن عمل نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔ نگراں حکومت کو شامل کرلیا جائے تو 7 حکومتیں تبدیل ہوچکی ہیں تمام وزرائے اعظم نے وعدے کیے لیکن کسی جانب سے وعدوں پر عمل در آمد نہیں کیا گیا۔ 11 سال سے امریکی قید میں پابند سلاسل ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ پچھلے ایک عشرے سے اپنی بہن کے ساتھ انصاف اور اس کی رہائی کے لیے جس طرح ملکوں ملکوں، شہروں شہروں گھوم رہی ہیں اقتدار کے ایوانوں، بار کونسلوں، پریس کلبوں میں انصاف کے لیے دہائی دے رہی ہیں۔ مختلف فورم اور عوامی اجتماعات سے خطاب کررہی ہیں۔ سیاسی و سماجی مذہبی اور انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں اور قومی اکابرین اور قوم کی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں اور اس سلسلے میں ان کی اور ان کے خاندان کی استقامت اور قومی غیرت و حمیت کا جو رویہ سامنے آیا ہے وہ بلاشبہ انتہائی قابل رشک اور قابل تحسین ہے۔ دوسری جانب ارباب اقتدار و اختیار نے اس سلسلے میں بے حسی کا جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ اس سلسلے میں ملکی، انسانی اور خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیموں اور شخصیات کا رویہ بھی بڑا افسوس ناک اور دہرے معیار کا حامل نظر آتاہے۔
دنیا کے سامنے جوں جوں عافیہ صدیقی کے کیس کی حقیقت سامنے آتی جارہی ہے وہ اس کی رہائی کے لیے سرگرم اور منظم ہوتے جارہے ہیں، اس سلسلے میں دنیا کی انسانی حقوق سے متعلق 40 سے زائد تنظیموں نے عافیہ کی رہائی کے لیے بین الاقوامی طور پر جد وجہد کا اعلان کیا ہے۔ عافیہ کا قیدی نمبر 650 کا انکشاف کرکے اس کی رہائی کی جد وجہد کا آغاز کرنے والی ایوان مریم ریڈلے بھی ایک برطانوی صحافی ہیں۔ امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک اور سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلرک بھی اسے غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔ رمزے کلرک تو باقاعدہ جدوجہد کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی حکومت اور عوام کی توجہ اس انسانی مسئلے پر مرکوز کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ حکومت اور عدلیہ کے ارکان سے ملاقاتیں اور بارکونسلز سے خطاب کرکے حکومتی سطح پر کوششیں کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پہلے پاکستان کے ایک لیڈر (بھٹو) کو بچانے پاکستان آئے تھے۔ اس مرتبہ پاکستان کی بیٹی (عافیہ) کو بچانے پاکستان آئے ہیں۔ ان کے علاوہ امریکی سینیٹر اور صدارتی امیدوار مائیک گرپول بھی عافیہ کو معصوم شہری اور اس کو دی جانے والی ذہنی و جسمانی سزا اور قید کو غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔ امریکی اٹارنی ٹینا فوسٹر بھی عافیہ کو بے گناہ تسلیم کرکے اس کی رہائی کے لیے کوششوں کا آغاز کرچکی ہیں۔
انسانی حقوق، خواتین اور بچوں کے حقوق کی علمبردار تنظیموں، شخصیات اور ارباب اقتدار و اختیار، روشن خیالی اور لبرل ازم کے دعویداروں کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اس کے 3 بچوں کے ساتھ ریاستی ظلم و جبر پر سرد مہری بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔ دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں ایک عورت بچوں سمیت اغوا کرکے بین الاقوامی زندانوں میں قید کرکے بد نیتی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر 86 سال قید کی سزا وار قرار دے دی جاتی ہے، اس وقت ان لوگوں کی زبانیں قوت گویائی سے محروم ہوجاتی ہیں۔ عافیہ کے معاملے میں بھی معاملہ فہمی کے بعد عافیہ کی رہائی کے لیے بھی عوامی دباؤ بڑھتا نظر آرہا ہے جس کے لیے باقاعدہ مہم شروع ہوچکی ہے جس میں سابقہ امریکی عہدیدار بھی شامل ہیں۔ اگر یہ سلسلہ پاکستانی حکومت اور عوام کی طرف سے بروقت شروع کردیا جاتا تو حالات اس نہج تک نہ پہنچ پاتے۔ عوامی و سیاسی رد عمل سامنے نہ آنے کی وجہ سے حکومتیں عافیہ کے معاملے میں غفلت، مصلحت و منافقت کا شکار یا خود اس میں ملوث رہی ہیں۔ عافیہ کی رہائی کی واحد صورت یہی نظر آتی ہے کہ حکومت پر عوامی دباؤ بڑھایا جائے۔ اس سلسلے میں مختلف تنظیمیں، فورم، بار کونسلز، ملکی و بین الاقوامی اداروں، حکومتوں کو یاد داشتیں ارسال کریں، قرار دادیں پاس کریں تاکہ حکومت اس بات پر مجبور ہوجائے اور مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر دو ٹوک موقف اختیار کرے اور مسئلے کے حل کی مخلصانہ کوششیں کرے اور خاص طورپر امریکا یہ بات محسوس کرلے کہ اب ملکی و بین الاقوامی سطح پر اس عالمی اہمیت کے حامل انسانی مسئلے سے فرار ممکن نہیں ہے یہی خواتین کے عالمی دن کا تقاضا بھی ہے۔
Women's Day and Dr. Aafia Siddqui
↧