↧
ہمارے عالمی ریکارڈ
↧
Pakistan beat India in Asia Cup thriller
میچ تھا پاکستان اور انڈیا کا اور ہو رہا تھا بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے پڑوس میں واقع شیربنگلہ اسٹیڈیم میرپور میں۔ اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں دفن ہو گیا مگر آج اسٹیڈیم میں مناظر عجیب تھے۔ اسٹیڈیم میں موجود ہمارے بنگلہ دیشی بھائی، نوجوان، بچے اور خواتین ہاتھوں پاکستان کے پرچم تھامے موجود تھے، گالوں پر ہاتھوں پر پاکستان کا پرچم پینٹ تھا، نوجوانوں نے پاکستان کی ٹی شرٹس اور کیپس پہن رکھی تھیں۔ پاکستان کی ٹیم اچھا کھیلتی، چھکا چوکا لگتا تو ان کے چہرے کھل اٹھتے، پاکستانی کھلاڑی آئوٹ ہوتے تو ان کے چہرے افسردہ ہو جاتے۔ لگ نہیں رہا تھا کہ پاکستان کسی دوسرے ملک میں کھیل رہا ہے۔ اور یہ آج نہیں ہوا، پاکستان جب جب بھی بنگلہ دیش میں کھیلتا ہے، ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
یہ مناظر اس لیے بھی باعث سکون تھے کہ چند دن پہلے ہی پاکستان کی حمایت کے جرم میں جماعت کے رہنمائوں کو سزائیں سنائی گئی تھیں اور پاکستان مخالفت کا بہت چرچا رہا۔ مگر آج پھر ثابت ہوا کہ بھائیوں میں ان بن ہو جاتی ہے مگر دشمن کے مقابلے میں وہ متحد رہتے ہیں۔ اور آج پھر ثابت ہو گیا کہ بنگلہ دیش کا حقیقی دشمن بھارت ہے پاکستان نہیں۔
شکریہ بنگلہ دیشی عوام

Pakistan beat India in Asia Cup thriller
↧
↧
Dusti, Speaker Aur Glass Fellows by Ansar Abbasi
↧
Taliban and Mama Qadeer by Hamid Mir
↧
یوکرین میں روس اور مغرب کی رسہ کشی
یوکرین میں سابق صدر وکٹریانوکووچ کی جانب سے 21 نومبر کو یوکرین کے ساتھ وابستگی کے معاہدے کی یورپی یونین کی پیشکش ردکیے جانے کے بعد مغربی یوکرین میں حزب اختلاف کی جانب سے احتجاج کی لہر نے شدت اختیار کرلی اور دارالحکومت خیف میں مشتعل ہجوم نے سرکاری عمارتوں اور دفاتر پر قبضہ کرلیا جس سے حکومت کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ صدر یانوکووچ نے روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے دبائو پر ایسا اقدام کیا جس کے خلاف مغربی یوکرین کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہرچند کہ صدر پیوٹن نے یوکرین کی خستہ حال معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے اس سے 15 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا، تاہم مغربی یوکرین کے عوام مطمئن نہ ہوئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ روس کے مقابلے میں یورپی یونین کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کی پیشکش کو انہوں نے اس تنظیم میں شمولیت کا پیش خیمہ تصور کرلیا جو قرین قیاس بھی ہے۔ جو بات ذرائع ابلاغ نیچھپائی وہ یہ تھی کہ مشرقی یوکرین کے عوام جو روسی نژاد ہیں وہ روس سے قربت محسوس کرتے ہیں، چنانچہ وہاں کی رائے عامہ نے احتجاج میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ الٹا وہ مغربی یوکرین کے عوام کے احتجاج کو ریاست سے غداری پر محمول کرتے تھے، لیکن چونکہ چھیالیس لاکھ آبادی والی اس ریاست میں یوکرین نژاد باشندوں کی تعداد کل آبادی کا 73 فیصد ہے، جبکہ مشرقی یوکرین کی روسی نژاد آبادی صرف 22 فیصد ہے، اس لیے وہ اقلیت میں ہیں، لیکن چونکہ یوکرین روس کی قائم کردہ تنظیم Eurasian Union کا رکن ہے لہٰذا اگر وہ اس تنظیم کو چھوڑ کر یورپی یونین میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اسے اندرون ملک روسی آبادی کی مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا۔ جبکہ دوسری طرف روس بھی مزاحمت کرے گا جیسا کہ صدر پیوٹن کے یوکرین سے روس کی فراہم کردہ گیس کی واجب الادا تین ارب ڈالر کی رقم کی ادائیگی کے مطالبے سے ظاہر ہوتا ہے۔ یوکرین ہی پر کیا منحصر ہے جرمنی سمیت یورپی یونین کے بیشتر ممالک کا روس کی فراہم کردہ گیس پر دارومدار ہے۔ یورپی یونین کی رکن ریاستیں تیل اور گیس سے یکسر محروم ہیں اس لیے اگر روس یوکرین کو ترسیل کرنے والی پائپ لائن کو منقطع کردے تو یوکرین کی معیشت میں بحران اٹھ کھڑا ہوگا۔ ویسے اقتصادی عوامل کے علاوہ تزویراتی حقائق بھی یوکرین کی روس سے علیحدگی کے خلاف ہیں، کیونکہ بحیرۂ اسود میں روس کا بحری بیڑا ہے جبکہ Sevaste pol روس کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ 1991ء میں روس سے علیحدگی کے بعد یوکرین نے روس کا بحری اڈہ خالی کرانے پر جب اصرارکیا تو دونوں ملکوں میں بڑی کشیدگی پیدا ہوگئی، بالآخر فریقین نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے 1997ء میں سمجھوتہ کرلیا اور دونوں نے معاہدۂ دوستی پر دستخط کردیے۔
اب اگر یوکرین Eurasian Union ترک کرکے یورپی یونین میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو کیا روس بحیرہ اسود میں اپنے بحری بیڑے کو برقرار رکھ سکے گا؟ کیونکہ یورپی یونین میں شمولیت کے بعد مغرب کا استعماری ٹولہ یوکرین کو گھسیٹ کر ناٹو میں لے جائے گا، اس طرح ناٹو کا جال روس کی سرحد تک پھیل جائے گا۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد گورباچوف کے جانشین نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور معاہدۂ وارسا کو تحلیل کردیا، کیونکہ جب اشتراکی اور سرمایہ دار ریاستوں میں نظریاتی تصادم ختم ہوگیا تو دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔ یہ گورباچوف اور بورس یلسن کی سوچ تھی، جبکہ ناٹو کے عسکریت پسند اسے تزویراتی تناظر میں دیکھ رہے تھے، ان کا خیال تھا کہ روس سے کمیونزم ختم ہوگیا تو کیا ہوا، روس تو باقی ہے جو کمیونزم سے قبل زار کے زمانے میں بھی مغربی استعمار کا حریف تھا اور آج بھی ہے، لہٰذا ناٹو کو نہ صرف برقرار رکھنا چاہیے بلکہ اس کا دائرۂ کار یورپ سے پھیلا کر سارے کرۂ ارض پر محیط کردیا جانا چاہیے۔ یہ محرکات عالمی نظام کی پشت پر کارفرما تھے۔
یوکرین میں آزادی کے بعد جو کچھ ہوا وہ انہی داخلی اور خارجی عوامل کے تصادم کی علامت تھا۔ یوکرین میں دو واضح قوتیں ابھریں۔ ایک یوکرین کو روس سے وابستہ رکھنا چاہتی ہے جبکہ دوسری اسے روس سے ماورا یورپی یونین کے حلقہ اثر میں لے جانا چاہتی ہیں، ٹھیک اسی طرح جس طرح مشرقی یورپ کی سابق اشتراکی ریاستیں پولینڈ‘ ہنگری‘ رومانیہ‘ بلغاریہ‘ جارجیا‘ چیک اور سلوواک جمہوریائیں یورپی یونین اور ناٹو کی رکن ہیں۔
یہ تضاد 2004ء میں وکٹریانوکووچ کے صدارتی انتخاب کے وقت رونما ہوا۔ اُس وقت مغرب کی حمایت یافتہ پارٹیوں نے yulia Timoshenko کی قیادت میں انتخاب میں بے ایمانی کے خلاف احتجاج کیا اور بالآخر انہیں کامیابی ہوئی، لیکن 2004ء کے احتجاج میں امریکی ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹیوں کی فروغ جمہوریت سے متعلق کمیٹیوں نے مغرب نواز پارٹیوں کی مالی امداد کی جو کسی ریاست کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت کے مترادف ہے، اور اس بار بھی صدر وکٹریانوکووچ کے خلاف چار ماہ سے جاری احتجاج میں بھی امریکہ اور یورپی یونین نے مداخلت کی۔ اس کے ثبوت میں روس نے امریکی سفیر برائے یوکرین اور امریکی محکمہ خارجہ کی معاون سیکریٹری وکٹوریہ نولینڈ کی ٹیلی فون پر خفیہ گفتگو کا ریکارڈ نشر کردیا جس میں محترمہ امریکی سفیر کو ہدایت دے رہی تھیں کہ وہ فلاں فلاں مقامی سیاستدانوں کو ہرممکن امداد فراہم کریں۔ لیکن میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ یوکرین میں حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کی جو لہر دوڑی تھی وہ امریکی مداخلت کے نتیجے میں موجزن ہوئی۔ دراصل وکٹر یانوکووچ راشی‘ خائن‘ بددیانت حکمراں ثابت ہوا، جیسا کہ اس کے عالیشان مرمریں محل اور اس کی تزئین سے ظاہر ہوتا ہے جو ہرگز ایک لاکھ ڈالر تنخواہ دار عہدیدار کی بساط سے باہر ہے۔ اس طرح ان کی حریف یولیا ٹموشنکو جو Father Land Party کی سربراہ اور سابق وزیراعظم رہ چکی ہیں، محکمہ گیس میں خوردبرد اور بعد ازاں 2011ء میں اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں سات سال کی سزا پاچکی ہیں لیکن خوش قسمتی سے عوامی احتجاج کے دبائو پر پارلیمان کو انہیں باعزت بری کرنا پڑا اور اب ان کے حلیف Oleksandr Turchenov نہ صرف پارلیمان کے اسپیکر منتخب ہوگئے ہیں بلکہ عبوری حکومت کے صدر بھی بنادیے گئے۔
یہ تبدیلیاں اتنی جلد واقع ہوئیں کہ اندازہ لگانا ناممکن ہے کہ آیا یہ ملک کی اکثریت کے دبائو پر ظہور پذیر ہوئیں یا صرف مغربی یوکرین کے عوام کی مرضی کے مطابق رونما ہوئیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب پولیس نے مظاہرین پر گولہ باری کی جس کے نتیجے میں 18 فروری سے لے کر 20 فروری تک خیف میں سو افراد ہلاک ہوگئے تو شہر کی آبادی مشتعل ہوگئی اور 21 فروری کو یورپی یونین کے وزراء کے دبائو پر وکٹریانوکووچ اور حزب اختلاف کے درمیان کئے ہوئے معاہدے کو ماننے سے انکار کردیا، جس میں صدر نے اپنی کابینہ کو برخواست کرکے نئی کابینہ تشکیل دی اور احتجاج کے دوران گرفتار شدہ افراد کی رہائی اور دسمبر میں عام انتخابات کا حکم دے دیا تھا۔ (ڈان 22 فروری 2014ئ)
چنانچہ اب صدر مفرور اور روپوش ہوگیا ہے، اس کی جگہ پارلیمان کے اسپیکر نے عبوری مدت تک کے لیے صدارت کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ہے اور مئی میں عام انتخابات کا اعلان بھی کردیا ہے۔
ادھر سابق صدر وکٹریانوکووچ نے ان تبدیلیوں کو ماننے سے انکار کردیا اور عبوری حکومت کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بلوائیوں نے سرکاری محکموں پر قبضہ کرلیا اور نام نہاد حکومت بھی بنالی جو ناجائز ہے۔ مغربی ذرائع اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے بغلیں بجا رہے ہیں اور اسے مغرب کی سیاسی فتح اور روس کی شکست سے تعبیر کررہے ہیں۔ لیکن محض دعویٰ ثبوت نہیں ہوا کرتا۔ جیسا میں سطورِ بالا میں تحریر کرچکا ہوں کہ یوکرین کا مسئلہ اتنا سہل نہیں ہے کہ اسے انتخاب سلجھا سکے۔ دراصل قوم خود بٹی ہوئی ہے اور اس کا قبلہ ماسکو ہے یا برسلز یعنی واشنگٹن ڈی سی۔ اس ضمن میں تاریخ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یوکرین کئی بار آزاد ہوا اور جلد ہی سوویت یونین کے زیرقبضہ آگیا۔ یہ 1922ء کی بات ہے۔ 1939ء میں اس نے دوبارہ آزادی حاصل کی اور نازی جرمنی اور سوویت روس دونوں سے جنگ کی، اور 30 جون 1941ء میں آزاد ہوگیا، لیکن 1944ء میں پھر سوویت یونین کے چنگل میں آگیا اور دسمبر1991ء میں اس کے تحلیل ہونے کے بعد پھر آزاد ہوگیا اور یورپی یونین اور وفاق روس دونوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات اختیار کرکے اپنی آزادی برقرار رکھ سکتا ہے، لیکن جغرافیائی سیاسی عوامل ایسے ہیں کہ وہ کسی صورت روس سے مخاصمت کرکے اپنی آزادی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ لہٰذا مغرب کو چاہیے کہ وہ اپنی ملک گیری کی ہوس پر قابو رکھے اور یوکرین کو ایسی آزمائشوں میں نہ ڈالے جس کے باعث روس اس پر دوبارہ قبضہ کرلے، اور یہ اس صورت میں ہوسکتا ہے جب یوکرین ناٹو میں رکنیت اختیار کرنے کی کوشش کرے۔ لہٰذا یورپی استعمار کو اس ننھی سی جان پر رحم کرنا چاہیے۔
پروفیسر شمیم اختر
↧
↧
Pakistan's military operations in Pakistan
ایسا تو تاریخ میں کم ہی ہوا ہوگا کہ کسی قوم کی پوری قیادت اپنی قوم کو تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کے لیے آمادہ ہوجائے اور انہیں ایسا کرنے سے روکنے والوں کو نشانۂ تنقید و استہزا بنادیا جائے۔ آج پاکستان کی پوری سیاسی قیادت شمالی وزیرستان پر فوجی حملے کی حامی ہے۔ مسلم لیگ ن تو صاحبِ اقتدار ہے اور فوجی آپریشن کا فیصلہ اسی کا ہے۔ لیکن دیگر تمام سیاسی قوتیں بھی فوجی آپریشن کے نکتے پر حکومت ہی کی صف میں کھڑی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت کرنے والے آخر امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سید منورحسن کے سوالوں کے جوابات کیوں نہیں دیتے؟
آپریشن کا فیصلہ کرنے والوں سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ پاکستان میں فوجی آپریشنوں کے ذریعے آج تک آخر کیا حاصل کیا گیا ہے؟ دور نہ جائیں صرف 1971ء کے مشرقی پاکستان کے آپریشن سے بات شروع کرلی جائے اور اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کیا ان تمام فوجی آپریشنوں سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرلیے گئے؟ 1971ء کا فوجی آپریشن پاکستان کے سقوط پر منتج ہوا۔ بلاشبہ سقوط مشرقی پاکستان کے دیگر عوامل بھی رہے ہوں گے، لیکن اُس وقت فوجی آپریشن کا فیصلہ حالات کو سدھارنے کے لیے ایک اہم حکمت عملی تھی۔ فوجی آپریشن کے نتیجے میں بڑھنے والی بغاوت کی تحریک نے پاک فوج کو اپنے ازلی دشمن بھارت کے سامنے ہزیمت سے دوچار کیا اور ملک کا مشرقی بازو ہم سے کاٹ کر علیحدہ کردیا گیا۔ آج کے حالات میں فوجی آپریشن کا کوئی بھی حامی، مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن سے برآمد ہونے والے ہولناک نتیجے کو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں شمار نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ مشرقی پاکستان میں کیا گیا فوجی آپریشن اپنے نتائج کے حصول (یعنی پاکستان کو ایک اکائی رکھنے) میں ناکام رہا۔ اور وہ ایک ناکام فوجی آپریشن تھا۔
بھٹو صاحب نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ 1971ء کے مشرقی پاکستان کے ناکام فوجی آپریشن کے فقط دو سال بعد بھٹو صاحب نے بلوچستان کی حکومت تحلیل کرتے ہوئے بلوچستان پر فوج کشی کا اعلان کردیا۔ چار سال جاری رہنے والا آپریشن بھٹو صاحب کی حکومت کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوا۔ لیکن اس آپریشن کے نتیجے میں وفاق پاکستان کے خلاف پیدا ہونے والی بداعتمادی کی تلخی آج تک مری اور مینگل قبائل کے رویوں میں محسوس کی جاسکتی ہے۔
2006ء میں بلوچستان میں شروع ہونے والا فوجی آپریشن جنرل پرویزمشرف کے امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تھا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں آج کا بلوچستان ایک ایسا رستا ہوا ناسور بن چکا ہے جس کا علاج نہ تو سول حکومت کے پاس ہے اور نہ ہی آپریشن کرنے والوں کے پاس۔ آپریشن میں ملک دشمن قوتوں نے کھل کر کھیل کھیلا ہے اور بقول سربراہ فرنٹیئر کانسٹیبلری بیس سے زائد غیرملکی خفیہ ایجنسیاں صوبے میں موجود ہیں اور صورت حال کے بگاڑ کی ذمہ دار ہیں۔ فوجی آپریشن پر پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ کا تجزیہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’جنرل مشرف کا بلوچستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ ایک بھیانک غلطی تھی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’نواب اکبر بگٹی بلوچستان میں وفاق کی علامت کے طور پر موجود تھے، ان کے دل میں پاکستان آرمی کے لیے احترام موجود تھا اور وہ بلوچستان اور وفاق کے درمیان ربط کا ذریعہ تھے۔ نواب اکبر بگٹی کا قتل پاکستان کے خلاف جرم ہے۔‘‘
پھر سوات آپریشن بھی جس کی کامیابی کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا گیا، سب کے سامنے موجود ہے۔ 2009ء میں شروع ہونے والا یہ آپریشن کہنے کو ختم ہوچکا ہے، لیکن تاحال آزاد میڈیا کا داخلہ وہاں ممنوع ہے۔ فوجی آپریشن کی کامیابی کے بعد علاقہ کا انتظام سول انتظامیہ کے حوالے ہوجانا چاہیے تھا، لیکن آخری اطلاعات یہ ہیں کہ وہاں سے فوج کی واپسی کی فی الحال کوئی تیاری نہیں بلکہ نوازشریف صاحب نے اپنے دورۂ سوات کے دوران وہاں مستقل فوجی چھائونی کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔
کراچی کے دو آپریشن بھی ہمارے سامنے ہیں۔ پہلے آپریشن کا نتیجہ یہ ہے کہ آپریشن میں شریک تمام ہی پولیس آفیسر ایک ایک کرکے قتل کیے جا چکے ہیں اور شہر میں پچھلے پانچ برسوں میں 7000 سے زائد لوگ قتل کیے گئے ہیں۔ بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیاں عام ہیں اور عوام کاجینا دوبھر ہے۔ اس پس منظر میں کراچی کی تاریخ کا دوسرا آپریشن کیا گیا ہے۔ اس آپریشن میں اہم کردار رینجرز کا ہے۔ ایم کیو ایم، اے این پی اور پی پی پی کے مسلح گروپوں کی شہر میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کو روکنے کے لیے شروع کیا جانے والا یہ آپریشن آج اس حال میں ہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے یہ لکھا ہے کہ ایک تہائی کراچی طالبان کے کنٹرول میں ہے جہاں ان ہی کا سکہ چلتا ہے اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ بھی اس خبر پر یقین رکھتے ہیں۔ کراچی کے شہریوں سے پوچھیے تو پتا چلے گا کہ نہ تو ٹارگٹ کلنگ کے نام پر ہونے والی قتل و غارت گری بند ہوئی ہے اور نہ ہی بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار میں کوئی فرق پڑا ہے۔ سیاسی تنظیموں کے مسلح جتھے آج بھی موجود ہیں اور آپریشن بھی جاری ہے۔ عوام سمجھنے سے قاصر ہیں کہ رینجرز کی طرف سے ہر روز ٹارگٹ کلرز پکڑے جانے کے دعووں میں کیا صداقت ہے اور آخر اس آپریشن کے نام پر کیا کھیل کھیلا جارہا ہے!
ملک کی سیاسی قیادت کے ذمہ سید منور حسن کے اس سوال کا جواب قرض ہے کہ ناکام فوجی آپریشنوں کی تاریخ رکھنے والا پاکستان کیا ایک اور ناکام فوجی آپریشن کا متحمل ہوسکتا ہے؟
سید منور حسن نے ملک کی سیاسی قیادت کی توجہ اس جانب بھی مبذول کروائی ہے کہ پاکستان کی پختون آبادی اور اس سے ملحقہ افغانستان کی آبادی تاریخی طور پر استعمار دشمن رہی ہے۔ برطانوی سامراج یہاں اپنا قبضہ کرنے میں ناکام رہا۔ روس نے افغانستان میں اگر ہزیمت اٹھائی تو اس کی وجہ افغانوں اور پاکستان کے غیرت مند پختون عوام کی اسلام دوستی اور حریت پسندی تھی۔ اور اب اگر پچھلے گیارہ برسوں سے امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے سر پھوڑ رہے ہیں اور دنیا بھر کے تجزیہ کار اسے امریکی شکست سے تعبیر کررہے ہیں تو اس کی بڑی وجہ بھی پاکستان و افغانستان کے غیرت مند پختون عوام کا جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت ہے۔ تاریخی طور پر افغانستان اور پاکستان کے یہ غیور مسلمان کبھی بھی اسلام دشمن قوتوں کے آلۂ کار نہیں بنے۔ غوری و غزنوی سے لے کر سیاف، گلبدین حکمت یار اور اب ملا عمر تک کوئی بھی مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے خلاف کبھی کھڑا نہیں ہوا۔ بلکہ ان سب کی موجودگی اسلام کی سربلندی اور افتخار کا سبب رہی ہے۔ ایسے میں کچھ ناراض عناصر اور کچھ شرپسند گروہوں کی موجودگی کو بنیاد بناکر فوجی آپریشن شروع کردینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ ایسا آپریشن جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو برے حالوں میں نقل مکانی کرنا پڑے گی، ناحق لوگوں کا خون ہوگا، بے گناہ افراد بھی لپیٹ میں لیے جائیں گے جہاں وہ پوچھ گچھ کے تکلیف دہ مراحل سے گزریں گے، اور یوں ملک اور پاک فوج سے ناراض لوگوں کی فہرست میں لاکھوں پاکستانیوں کا مزید اضافہ ہوجائے گا۔
سید منورحسن کا کہنا یہی ہے کہ ان کی فوجی آپریشن کی مخالفت دراصل فوج کی حمایت ہے، کیونکہ اس طرح وہ فوج کو ملک کے ایک اور علاقہ میں غیر مقبولیت سے بچانا چاہتے ہیں۔
امریکہ اپنی ہاری ہوئی جنگ پاکستان کے سر ڈال کر جانا چاہتا ہے۔ یعنی امریکہ کی موجودگی ہی میں استعمار دشمن افغانی اور پاکستانی پختون عوام پاکستان دشمنی میں اس حد تک آگے بڑھ جائیں کہ امریکہ کے جانے کے بعد پاکستانی فوج امریکہ کی جگہ اُن سے ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی لڑتی رہے۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کے خلاف افغانستان سے ملحقہ پاکستانی پختون آبادی میں جس نفرت کی ضرورت ہے وہ فی الحال موجود نہیں۔ چنانچہ اس کا حل وہی ڈھونڈا گیا ہے جو مشرقی پاکستان میں آزمایا جا چکا ہے، یعنی فوجی آپریشن۔ عوام اور فوجی جوانوں کی جانیں بلاشبہ قیمتی ہیں لیکن جذبۂ جہاد سے معمور لاکھوں فرزندانِ توحید کو پاکستان سے دشمنی کی طرف دھکیل دینا انتہائی ناعاقبت اندیشی ہوگی۔
خبریں کچھ خاص حوصلہ افزا نہیں۔ میر علی میں گزشتہ ہفتہ ہونے والے قبائلی جرگہ کی تفصیلات اخبارات میں آگئی ہیں جس میں عثمان زئی اور دیگر قبائل نے یہ طے کیا ہے کہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں اگر وہاں کے عوام کو ہجرت کرنا پڑی تو وہ اِس دفعہ افغانستان کی طرف ہجرت کریں گے جہاں کی حکومت کم از کم ڈرون سے تو اپنے عوام کو بچاتی ہے۔
سید منور حسن کو اپنوں اور غیروں سے گاہے بگاہے یہ بھی سننے کو ملتا رہا ہے کہ طالبان اور جماعت کے طریقہ انقلاب میں بڑا فرق ہے۔ طالبان دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ جماعت اسلامی امت کے تصور کو لے کر زندہ ہے۔ ایسے میں طالبان کی حمایت میں سید منورحسن کا مستقل اصرار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ مفاداتی سیاست اور امریکی زور اور زبردستی کے اِس دور میں لوگوں کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ کوئی شخص یا گروہ فقط سچ کے لیے پوری دنیا کے سامنے تنہا بھی کھڑا ہوسکتا ہے، خاص طور پر ایسے میں کہ جب سچ کی یہ گواہی بظاہر رائیگاں ہی جاتی نظر آرہی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کو پتا ہے کہ سچ کی مار کہاں تک پہنچتی اور اثر دکھاتی ہے۔ سید منور حسن کا کام دنیا کے سامنے سچ کو آشکار کرنا اور اس کے اوپر استقامت کے ساتھ جم جانا ہے۔
Pakistan's military operations in Pakistan
↧
مذاکرات: کامیابی کی ضمانت
حالیہ دنوں میں‘اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی شہ سرخیوں کے حوالے سے یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔ ان شہ سرخیوں کے مطابق ’’مسلم لیگ (ن) کے ارکان پارلیمنٹ نے طالبان کیخلاف فوجی آپریشن کی شدیدخواہش کا اظہار کیا ہے۔‘‘مجھے یقین کامل ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ملکی یک جہتی اور سلامتی کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔پختونوں کی تاریخ اور 2004ء میں جنوبی وزیرستان میں کئے جانے والے فوجی آپریشن کے نتائج کا تقاضا ہے کہ مسئلے کا حل فوجی آپریشن نہیں بلکہ سیاسی افہام و تفہیم ہے ـڈیورنڈ لائن1893 ء میں ہندوستان کے برطانوی حکمران اور افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمن خان کے دور میں کھینچی گئی تھی۔
اس کا مقصد پختون قوم کو تقسیم کرنا تھا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا کیونکہ افغانستان کے بادشاہ کو حکمرانی کیلئے ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف میں بسنے والے قبائل کی منظوری حاصل کرنا لازمی ہے۔1970ء کی دہائی میں سوویٹ روس نے کابل میں اپنی من پسند حکومت قائم کی جسے مجاہدین کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اورمجاہدین کے ساتوں قائدین کی مشترکہ جدوجہد سے اس حکومت اور روس کو ذلت آمیز شکست اٹھانا پڑی۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ مجاہدین کی کوششوں اور قربانیوں سے حاصل کی جانے والی فتح کے بعد انہیں کابل پر حکمرانی کا حق دیا جاتا لیکن انکے ساتھ دھوکا کیا گیا اور یوں افغانستان کو خانہ جنگی میں دھکیل دیا گیا۔اس خانہ جنگی کے دوران ملا عمر کی قیادت میںپختونوں کی مزاحمتی قوت ابھری جسے عرف عام میں ’طالبان‘ کہا جاتا ہے۔ اس قوت نے1996ء سے 2001ء تک کے عرصے میں افغانستان کے بیشتر علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیاتھا اوریہی وہ وقت تھا جب امریکہ اور اسکے اتحادیوںنے افغانستان پر حملہ کیا اوراپنا تسلط قائم کر لیا۔2003 ء میں جلال الدین حقانی پاکستان کے دورے پر آئے تھے ۔ مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ دوران ملاقات انہوں نے مجھے بتایا کہ طالبان اور مجاہدین باہمی اتحاد سے قابض فوجوں کیخلاف مشترکہ جنگ کیلئے آمادہ ہو چکے ہیں۔ میں نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ افغانستان میں قیام امن اور جمہوریت کے قیام کیلئے انہیں امریکی ایجنڈے کو قبول کر لینا چاہیئے کیونکہ افغانستان میں پختونوں کو اکثریت حاصل ہے جسے اس جمہوری نظام میں اقتدار اور حکمرانی کا حق مل جائیگا اور جنگ کی تباہ کاری کے بغیر مقاصد حاصل ہوں گے۔
اس پر انہوں نے کوئی تبصرہ نہ کیا لیکن وعدہ کیا کہ وہ ملا عمر سے بات کر کے اس کا جواب دیں گے۔دو ماہ بعد مجھے ان کی جانب سے یہ جواب موصول ہوا: ’’ہم نے اپنی آزادی کے حصول کی خاطر آخری لمحے تک جنگ کا عزم کر رکھا ہے۔ قابض فوجوںکا ایجنڈا قبول کرناہماری روایات ‘ قومی اقدار اور نظریے کے خلاف ہے۔اگر اللہ نے چاہا تو ہم اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک کہ ہم اپنی آزادی حاصل نہ کر لیں‘ چاہے پاکستان ہمارا ساتھ نہ بھی دے۔‘‘طالبان منظم ہوئے اور بارہ سال کی جنگ کے بعد ملا عمر کی زیر قیادت طالبان نے دنیا کی عظیم ترین طاقت کے خلاف جنگ جیت لی ہے اور جارح قوتیں پسپاہو چکی ہیں۔ اب کابل میں حکومت بنانے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ شمالی اتحاد اور کرزئی بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائینگے ۔ اس طرح طالبان کی یہ حکومت 1996-2001میں قائم ہونیوالی حکومت سے کہیںزیادہ مستحکم اور پر اعتماد ہوگی کیونکہ مجاہدین کی پہلی حکومت سات جماعتوںکے اتحاد پر مشتمل تھی جو سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے زیر سایہ کام کر رہے تھے لیکن اب وہاں صرف ایک لیڈر ملا عمرہے۔ جو انکے کمانڈربھی ہیںاور لیڈر بھی۔اسکے علاوہ ایک اور بھی نمایاں فرق ہے کہ طالبان کے حریت پسندوں کی اکثریت ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جو گذشتہ تین دہائیوں میں جنگ و جدل کے سائے میں پلے بڑھے ہیں اور انہیں زندگی کی کوئی آسائش میسر نہیںرہی ہے۔وہ صرف لڑنا جانتے ہیں جس کا انہیں کئی دہائیوں کا تجربہ ہے اور یہی نوجوان اس تحریک کے روح رواں ہیں۔طالبان کو افغانستان کے تقریباً 90 فیصد علاقوں پر کنٹرول حاصل ہے جہان انہوں نے اپنی عملداری قائم کر رکھی ہے اور ان کااپنا قانون رائج ہے۔پاکستان میں بسنے والے پچیس ملین پختونوں اور افغانستان کے سترہ ملین پختونوں کی اقدار و روایات مشترک ہیں۔افغانستان میں کسی بھی حکمران کیلئے ان دونوں فریقین کی رضامندی کے بغیر حکومت قائم کرنا ناممکن ہے۔اب ان کا اثرورسوخ اسلام آباد تک پھیل چکا ہے جو ایک اہم تذویراتی تبدیلی ہے۔جنرل مشرف کو امریکیوں نے وزیرستان کے جال میں پھنسایا تھا۔انہیں بتایا گیا تھا کہ راولپنڈی میں ان پر کئے جانیوالے قاتلانہ حملوں کا ماسٹر مائنڈ جنوبی وزیرستان میں ہے۔ یوں بلا سوچے سمجھے جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی منظوری دے دی گئی جس کے سبب ہزاروں قبائلی قتل ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ وہا ں سے ہجرت کر کے ملک کے مختلف علاقوں میں پناہ گزیں ہو گئے۔یہ عمل ابھی تک جاری ہے ۔ان اندرون ملک بے گھر کئے جانے والوں کی صفوں میں مسلح دہشت گرد بھی شامل ہو کر کراچی‘ پشاور‘ کوئٹہ اور لاہور میں پناہ گزیں ہو گئے ہیں اور دہشت گردی کی مختلف کاروائیوں میں ملوث ہیں۔حالیہ دنوں میں شمالی وزیرستان میں کی جانیوالی فوجی کاروائی کے بعد بھی تقریباً پندرہ سو خاندان وہاں سے ہجرت کر کے خیبر پختون خواہ کے شہروں اور قصبوں میں پناہ گزیں ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں اگرشمالی وزیرستان میںبھرپور فوجی آپریشن کیا گیا توبے گھر ہونے والوں کا سیلاب آئے گا اور امن وامان کی صورت حال انتہائی بگڑ جائے گی جسے سنبھالنا ناممکن ہوگا۔عام طور پر یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان قابل اعتبار نہیںلیکن حقیقت اسکے برعکس ہے کیونکہ انکے ساتھ متعدد مواقع پر دھوکا کیا گیا۔ 2004ء میں جب کہ معاہدہ طے پا چکا تھا تو دوسرے ہی دن مولوی نیک محمد کو ڈرون حملے میں مار دیا گیا۔ایسی ہی کاروائی تین مرتبہ دہرائی گئی اور بیت اللہ محسود‘ حکیم اللہ محسود اورولی الرحمن کو قتل کر کے مفاہمتی عمل کو سبوتاژ کیا گیا۔فوجی قیدیوں کے تبادلے اور معاوضے کی ادائیگی کا بھی ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں300 فوجی قیدی تو رہا کرا لئے گئے لیکن معاوضے کی ادائیگی نہیں کی گئی۔اس کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے خیبر پختون خواہ کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل اورکزئی نے استعفی دے دیا تھا۔تین اور مواقع پر قیدیوں کے تبادلوں کے معاہدے طے پائے تھے جن کے تحت طالبان نے ہمارے قیدیوں کو رہا کردیا تھا لیکن بدلے میں طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کیا گیا ۔ایک پیچیدگی لوگوں کے ذہن میں اور بھی ہے ۔ وہ افغان طالبان کی قوت کو تحریک طالبان پاکستان کا پشت پناہ سمجھ رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ افغان طالبان ایک اور ہی قوت کے نمائندے ہیں جس نے اب تک دنیا کی بڑی قوتوں کو شکست دی ہے۔ یہ قوت پختون قوت ہے جوکوہ ہندو کش سے لیکر کراچی تک پھیلی ہوئی ہے ۔جب امریکہ ‘ افغانستان سے نکلے گا تو یہ قوت امت مسلمہ کا ہراول دستہ ہوگی۔ اسلام کے دشمن اس قوت سے خوف زدہ ہیں اور اسے ایک دوسری قوت‘ شیعہ قوت سے لڑانا چاہتے ہیں جو ایران ‘ عراق‘ شام‘ بحرین کے علاوہ سعودی عرب‘ خلیجی ممالک اور پاکستان میں اقلیت کی صورت میں موجود ہے۔ اسلام دشمن ہر جگہ فرقہ وارانہ تصادم دیکھنا چاہتا ہے۔پاکستان میں بھی اسی فرقہ وارانہ تصادم کو ہوا دی جا رہی ہے۔ جہاں فرقہ وارانہ تصادم کا حربہ کام نہیں آتا وہاں نسلی عصبیت کو ہوا دی جاتی ہے۔ امریکہ ایک ایسے موقع پر جب وہ افغانستان سے شکست کھا کر نکل رہا ہے تو اس کی خواہش ہے کہ اس خطے میں بد امنی رہے اور یوں وہ اپنی شکست کا بدلہ لے سکے۔پاکستان کو انتہائی مشکل مسائل کا سامنا ہے ‘ ان مسائل کے باوجو د ایک نیا محاذ کھولنا کسی طور دانشمندی نہیں ہوگی۔بہتر یہی ہوگا کہ قیام امن کی خاطر بات چیت کے عمل میں خیبر پختون خواہ کی حکومت کو بھی شامل کیا جائے۔طالبان کی جانب سے قیام امن کیلئے مذاکرات پر آمادگی کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے باہمی اعتماد پر مبنی فضا قائم کی جائے تاکہ قیام امن کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوں۔قیام امن کی خاطرحکومت کی جانب سے چار رکنی ٹیم کا اعلان نہایت خوش آئند ہے۔ اس ٹیم کے اراکین قابل اعتماد اور اہل شخصیات ہیں۔
لازم ہے کہ مسائل کو پرامن طور پر حل کرنے کی راہ اپنائی جائے جس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس جنگ سے علیحدہ کر لیں جو ایک سازش اورسفارتکاری کے منفی ہتھکنڈوں کو استعمال کر کے ہم پر تھونپی گئی ہے۔اس جنگ سے نجات حاصل کرنے کیلئے ہمارے پاس قائد اعظم کی اس منطق کی جانب واپس آنے کے علاوہ اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے کہ: ’’افغانستان کیساتھ ملحق ہماری سرحدوں کی حفاظت وہاں کے قبائل کی اپنی ذمہ داری ہے۔یہ ذمہ داری انہیں کو سونپ دو۔‘‘
↧
وہی ڈھاکا
اس کالم کی پوری سرخی یوں ہے ’’وہی ڈھاکا وہی ہندوستان اور وہی پاکستان‘‘ فرق 1971ء اور 2014ء کا ہے یعنی 43سال کا۔ ان برسوں میں ہم اس قدر بدل گئے کہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان میں غداروں کا غلبہ تھا، آج پاک بھارت جنگ میں وفاداروں کا غلبہ ہے۔ تب یہ جنگ فوجوں کی تھی اب یہ جنگ کرکٹ کے کھلاڑیوں کی ہے لیکن دونوں جنگوں میں اس خطے کے لوگوں کے جذبات کا جوش ایک جیسا رہا۔ غداروں والی جنگ میں ہمیں عبرت ناک شکست ہوئی پہلے تو 90 ہزار پاکستانی بھارت کی قید میں دے دیے پھر ان کو بھارت سے رہا کرانے کے بعد ہیرو بھی بن گئے لیکن پاکستان کے عوام بھارت سے اپنی شکست اور رسوائی کا بدلہ لینے کے لیے انتقام کی آگ میں جلتے رہے۔ فوجی جنگ کا میدان تو جب سجے گا دیکھا جائے گا فی الحال کرکٹ کے میدان میں ہم نے بھارت کو رسوا کر دیا۔ یہ میدان بھی ڈھاکا میں تھا، اب یہ پلٹن میدان نہیں شیر بنگلہ اسٹیڈیم تھا۔ اس میدان کا فاتح بھی ایک پاکستانی پٹھان تھا آفریدی اور پہلے والے میدان کا شکست خوردہ بھی ایک پٹھان تھا نیازی۔ بس ان دونوں پٹھانوں کی پاکستانیت میں فرق تھا۔ برصغیر میں آباد ہندو اور مسلمان قوموں میں یہی فرق کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ رہا۔ کبھی اس نے تاریخ کی فتح حاصل کی اور زمین کے نقشے پر ایک نیا ملک بنا دیا اور کبھی اس نے اپنے اس ملک کی عزت اس ملک کے شہر میں لٹا دی۔ دنیا کی ہر قوم کی طرح یہ قوم بھی اپنے لائق کسی قیادت کی منتظر رہی۔ ایک قیادت نے اس سے ایک ملک بنوا لیا اور ایک قیادت نے اس ملک کو رسوا کر دیا اور وہ بھی ان دشمن ہاتھوں سے جن کو توڑ کر یہ ملک بنایا گیا تھا۔
برصغیر کی ان دونوں قوموں کے درمیان کبھی گولہ و بارود کی اور کبھی گیند اور بلے کی جنگ ہوتی ہی رہے گی۔ ان کی دشمنی رنگ و نسل کی نہیں نظریات کی ہے، اسلام اور بت پرستی کی ہے جب تک یہ دونوں قومیں نظریاتی اتحاد اختیار نہیں کر لیتیں جو نا ممکن ہے تب تک ان کے درمیان جنگ جاری رہے گی، اس کے میدان بدلتے رہیں گے، اس کے ہتھیار بدلتے رہیں گے لیکن ان کے مابین دشمنی نہیں بدلے گی۔ ان دنوں پاکستان میں ایک سیکولر طبقہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ یہ دشمنی اگر ختم نہیں ہوتی تو اس میں سے زہریلے کانٹے نکال دیے جائیں۔ اس کوشش میں صرف برصغیر کی دو قومیں ہی نہیں بیرونی طاقتیں بھی شامل ہیں جو یہاں اپنے اپنے مفاد میں ہندو مسلم دوستی قائم کرنا چاہتی ہیں، فی الحال انھیں اس کا بظاہر ایک غیر متنازعہ میدان مل گیا ہے یعنی دونوں ملکوں میں تجارت کی بحالی۔ ہندو مسلم کے درمیان تجارت تو پہلے دن سے ہی بحال تھی جب پاکستان بنایا گیا تب بھی ان دنوں ہندو مسلم کے درمیان تجارت چل رہی تھی لیکن پاکستان بن جانے کے بعد دونوں ملکوں کی سرحدیں جدا ہو گئیں۔
دو مخالف ملکوں کے درمیان کی سرحدیں ویزا ضروری دیگر لوازمات بھی لاگو اور تجارت بالکل بند۔ کسی پاکستانی حکمران میں یہ جرات پیدا نہیں ہوئی کہ وہ تجارت کھول سکے، اب پہلی بار جب امریکا نے بھارت کی علانیہ سرپرستی شروع کی اور بھارت کی طلب پر تجارت کا مسئلہ پیدا ہوا تو کمزور پاکستانی حکمرانوں نے امریکی خوشنودی کے لیے بھارت کے ساتھ تجارت کی سلسلہ جنبانی شروع کر دی۔ سرحدیں کھولنے کی بات ہوئی ویزا وغیرہ ختم یا نرم کرنے کی بات ہوئی اور نہ جانے کتنے پرانے گم شدہ رشتے تلاش کر لیے گئے۔ ایک طرف امریکا کی سپر پاور جو ہمارے ہاں حکومتیں بناتی اور بگاڑتی ہے دوسری طرف ملک کے اندر امریکا کے مفاد پرست حامی اور بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی غرض سے سیکولرازم کے علمبردار جمع ہو گئے۔ ان سیکولر عناصر کو میڈیا میں مضبوط رسائی حاصل ہے اس طرح امریکا کی سرپرستی اور بھارت کی انتھک کوششوں سے پاکستان کے اندر ایک لابی بن رہی ہے جو بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات اور بعد میں برادرانہ تعلقات کی خواہاں ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے عوام اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ بھارت کے خلاف پاکستان کی کرکٹ کے میدان میں فتح نے ایک بار پھر بتایا ہے کہ پاکستانی بھارت کو کیا سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں رات کے شروع میں ہی جب آفریدی نے یکے بعد دیگرے دو چھکے مارے جن کے بغیر فتح ممکن نہیں تھی تو پورا پاکستان جو سانس روک کر کرکٹ میچ کے آخری لمحے دیکھ رہا تھا فتح کا اعلان ہوتے ہی ناقابل بیان حد تک پرجوش ہو کر اپنے آپ سے باہر نکل آیا۔ کرکٹ کے میچ میں فتح و شکست بارہا دیکھی ہے لیکن ایسی فتح بہت زیادہ نہیں ملتی جب پوری قوم بے قرار ہو کر جھوم اٹھے اور رقص کناں بازاروں میں نکل آئے۔ ڈھاکا میں ہونے والی اس فتح کے بہت معنی تھے۔ ایک تو ہم اپنے کھوئے ہوئے جگر کے ٹکڑے ڈھاکا کو بہت یاد کرتے رہے پھر ہم نے دیکھا کہ نہ صرف ڈھاکا بلکہ پورا مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) پاکستان کی فتح کو اپنی ذاتی فتح سمجھ کر جشن منانے لگا جیسے متحدہ پاکستان کی یادوں میں گم ہو گیا ہے جب ہمارے غدار لیڈروں نے اسے بھارت کے حوالے کر دیا۔ حسینہ واجد قسم کے لیڈر کچھ بھی کرتے رہیں، برصغیر میں ایک نہیں دو قومیں آباد ہیں اور یہ دو ہی رہیں گی۔ ویزوں میں نرمی تو کیا سرحدیں بھی ختم کر دیں لیکن دلوں میں استوار ان سرحدوں کا کیا کریں گے جو 1947ء میں ایک بار پھر استوار کر دی گئی ہیں اور اس خطے کے جغرافیائی حکمران انھیں گرانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ یہاں کے عوام ان نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں۔ ہندو اپنی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انھیں پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم بدقسمتی سے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ موجود سرحدوں کو ہی قائم رکھ سکیں تو بڑی بات ہے۔ ان سرحدوں کے محافظ ڈھاکا اور اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ کوئی نہ کوئی آفریدی نوجوان ہمیں پاک بھارت دونوں کو یاد دلاتا ہے اور اس فرق کو ظاہر کرتا ہے جو نظریات نے دونوں کے درمیان استوار کر رکھا ہے۔ نہ مٹنے والا فرق۔
↧
مصباح الیون تیرا شکریہ
سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کو کل 5 سال پورے ہو گئے۔ اس سانحہ کی پانچویں برسی سے ایک دن پہلے پاکستان نے ایشیا کپ میں روایتی حریف بھارت کو شکست دے کر پاکستانیوں کو دکھی ہونے سے بچا لیا۔ 5 سال پہلے تین مارچ کو جب لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کی بس پر حملہ کیا گیا تو اس کا مقصد تھا‘ اس ملک سے کرکٹ ختم ہو جائے۔ حملہ کرنے والے اپنے مقصد میں اس حد تک کامیاب ہوئے کہ ملکی میدان ویران ہو گئے۔ یہاں انٹرنیشنل کرکٹ بند ہو گئی۔ ہمارے میدان آج بھی ویران اور خاموش ہیں۔ اپنے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کو ملتی ہے تو کھلاڑیوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے کرکٹر اس سے محروم ہیں لیکن آفرین ہے کہ وہ اس کے باوجود ملک سے باہر جا کر فتح کے جھنڈے گاڑ دیتے ہیں۔ میں نے آپ سے کہا تھا کہ اچھی خبر صرف کرکٹ کے میدانوں سے ہی آتی ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے تحریک طالبان اور حکومت کی طرف سے فائر بندی کے اعلانات بھی اچھی خبر ہوں گے۔ میرے لیے یہ اچھی خبر اس لیے نہیں ہے کہ نجانے یہ فائر بندی کب ٹوٹ جائے اور اگر یہ قائم بھی رہے تو کیا مذاکرات سے اس ملک میں امن آ جائے گا۔
مجھے اس کا یقین نہیں۔ اسلام آباد میں دہشت گردی کی واردات ہو چکی ہے‘ یہ واردات کس نے کی‘ مجھے اس کا علم نہیں ہے البتہ میڈیا میں آیا ہے کہ احرار الہند نامی کسی تنظیم نے اس سانحے کی ذمے داری قبول کر لی ہے‘ ذمے داری کوئی قبول کرے یا نہ کرے‘ دیکھنا تو یہ ہے کہ ہمارے لوگ مارے جا رہے ہیں‘ حکمران اس معاملے میں کیا کہتے ہیں‘ یہ میں اور آپ سن رہے ہیں‘ اس لیے میں کہتا ہوں کہ مجھے مذاکرات‘ سیز فائر سے کوئی اچھی خبر بنتی نظر نہیں آتی۔ ایشیا کپ کے افتتاحی میچ میں سری لنکا سے چند رنز سے ہارنے والی پاکستانی ٹیم افغانستان سے ہارتے ہارتے بچی تھی۔ اتوار کو ڈھاکا میں بھارت کے خلاف میچ بھی اپنی تمام تر سنسنی خیزی لیے ہوئے تھا۔ کبھی جیت کی امید بنتی اور کبھی ہار کے خوف سے دل بیٹھ جاتا۔ اس میچ میں دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے سو فیصد صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان اور بھارت میدان میں اتریں تو ہر کھلاڑی اسے آخری میچ سمجھ کر کھیلتا ہے۔
ان میچوں میں بڑے بڑے ہیرو پل بھر میں زیرو ہو جاتے ہیں۔ انڈیا کی طرف سے تین ففٹیاں بنیں۔ پاکستانی بیٹسمین بھی خوب کھیلے۔ محمد حفیظ پہلے دو میچوں میں فلاپ ہوئے مگر اس اہم میچ میں 75 کی شاندار اننگز کھیل گئے۔ اوپننگ اسٹینڈ بھی شاندار تھا۔ صہیب مقصود نے حفیظ کا خوب ساتھ دیا لیکن میچ ختم ہوا تو قوم کا ایک ہی ہیرو تھا۔ بوم بوم آفریدی۔ آج قدرت نے بھی شاہد آفریدی کی جرات کا ساتھ دیا۔ لالے نے آخری اوور کی تیسری گیند پر پہلا چھکا مارا تو مجھے لگا وہ باؤنڈری پر کیچ ہو جائے گا۔ میں مایوس ہو کر ٹی وی اسکرین کے سامنے سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ کمنٹیٹر کی آواز آئی ’’اٹ از اے سکس‘‘۔ دوسری شاٹ بھی ایسی ہی تھی لیکن وہ بھی باؤنڈری سے باہر جا گری۔ اس کے بعد ڈھاکا کے میدان میں اور پاکستان کے ہر گھر‘ گلی اور سڑک پر صرف جشن ہی جشن تھا۔ میں بھی دفتر سے باہر نکلا تو فضا گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج رہی تھی‘ لاہورئیے سڑکوں پر بھنگڑے ڈال رہے تھے‘ ایسے مناظر پاکستان میں کہاں نظر آتے ہیں‘ یہاں تو افسردگی ہی افسردگی پھیلی ہوئی تھی‘ جسے کرکٹ ٹیم نے خوشی میں بدل دیا۔
پاکستان نے انڈیا کے خلاف جس قسم کی پرفارمنس دی ہے اس کی بنیاد پر میں یہ پیش گوئی کرنے کی جرات کر رہا ہوں کہ 8 مارچ کے فائنل میں پاکستان فاتح ہو گا۔ انڈیا کا ایشیا کپ ختم ہو گیا۔ بنگلہ دیش اور افغانستان پہلے ہی فائنل کی دوڑ سے باہر ہیں۔ سری لنکن ٹیم فائنل میں پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کی انڈیا کے خلاف جیت پر میں نے کئی لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ اب پاکستان فائنل میں جا کر ہار بھی جائے تو دکھ نہیں ہو گا۔ ایشیا کپ میں بگ تھری کا چوہدری انڈیا سری لنکا کے اور پاکستان سے بھی ہار گیا۔ مجھے خدشہ ہے کہیں افغانستان بھی اسے مار نہ گرائے۔ یہاں آئی سی سی انڈر 19 کے فائنل میں پہنچنے والے پاکستانی ٹیم کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ ہمارے نوجوان کرکٹر کیا عمدہ کھیلے ہیں۔ فائنل میں وہ جنوبی افریقہ سے ہار گئے مگر ان کا وہاں تک پہنچنا ہی بڑی بات تھی۔ جس ملک میں کرکٹ کا کوئی انفراسٹرکچر ہی نہ ہو وہاں کے بچوں کا فائنل میں پہنچنا کسی کارنامے سے کم نہیں۔ ویل ڈن پاکستان انڈر19 کرکٹ ٹیم۔ بگ تھری کے ساتھ انڈر 19 ورلڈ کپ میں بھی بری ہوئی۔
انڈیا کے خلاف میچ میں بنگلہ دیش کے کراؤڈ نے جس طرح پاکستان کو سپورٹ کیا اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کی پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ بنگالیوں کے دل میں آج بھی پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ بنگلہ دیش کی اسٹیبلشمنٹ پاکستان مخالف عناصر پر مشتمل ہے۔ مجھے دکھ ہے ہمارے کرکٹ کے میدان ویران ہیں۔ پاکستان میں امن جنگ بندی سے آئے یا جنگ سے‘ امن آنا چاہیے۔ اس ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہونی چاہیے۔ ہمارے بچوں سے یہ حق نہ چھینا جائے کہ وہ اپنے ہیروز کو اپنے میدانوں میں کھیلتے نہ دیکھ سکیں۔ مصباح الیون تیرا شکریہ۔ شاہد آفریدی تھینک یو ویری میچ۔ قوم کے چہرے پر مسکراہٹ لانے والے صرف کرکٹرز ہی ہیں۔ باقی کہیں سے اچھی خبر کیوں نہیں آتی؟
↧
↧
Nawabzada Nasrullah Khan
↧
Shahid Afridi in Asia Cup
↧
مزار قائد میں غیر اخلاقی سر گرمیاں
↧
Ceasefire and Baloch Children
↧
↧
شدت پ.سندی اورامن کا قیام ...Ibtisam Elahi Zaheer
↧
The Most-and Least-Expensive Cities in the World
↧
Awam Ki Lashon Per Yeh Siasat by Ansar Abbasi
↧
Violence against women : One-third of European women affected
↧
↧
True face of Indian democracy
↧
Geo News reporter Wali Babar murder case : Two sentenced to death
↧
اردو بمقابلہ انگریزی.......Urdu vs English
اگر آپ کسی بھی زبان کی ساخت کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہو گا کہ اس کی پیدائش ایسی ہے جو صدیوں پر محیط ہے شکل بدلتی رہتی ہے اس کی تراش، خراش ہوتی رہتی ہے جس کو قدرت نہیں کرتی بلکہ انسان کرتے ہیں جب کہ قدرتی ذی حیات کی تعمیر اور ترقی میں محض قدرت کا ہی دخل ہے۔ آدمؑ میں اللہ نے روح پھونکی شیطان کو ادراک نہ تھا اس لیے انسان کی ترقی باکمال ہے ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے اسی طرح زبان بھی ایک کمال ہے۔ ایک نوعمر بچہ بغیر گرامر کے اصول جانے صحیح زبان بولتا ہے تذکیروتانیث کا برمحل استعمال مگر یہ زبان صدیوں کا سرمایہ ہے۔ زبان تہذیب و ثقافت کا آئینہ ہے اس کی ارتقا آواز بہ آواز ہوئی اس لیے صوت در صوت اس کی ہر آواز کا وزن کیا گیا۔
یعنی آواز کی موجوں کے ارتعاش سماعت دماغ میں پیدا کیے ہوئے ان سروں کو خوبصورت، کومل یا بوجھل کیسا محسوس کرتی ہے اسی اعتبار سے لفظ کا چناؤ کیا گیا ورنہ شروع میں انسان گونگا ہی تھا۔ بس شور اور اشاروں پر اکتفا کرتا تھا مگر صاحبان فہم نے اشارے کو شور یا پکار سے ملادیا اس موقعے پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بی بی حوا اور بابا آدمؑ کون سی زبان بولتے تھے۔ یہ بات ان دنوں کی ہے جب براعظم نہ بنے تھے خلیجی ریاستیں بھارت اور سری لنکا سے جڑی تھیں اسی لیے اب تک بابا آدمؑ کا مزار سری لنکا میں ہے۔ اس بات کا پتہ یوں بھی چلتا ہے کہ سنسکرت اور عربی بھاشا میں اکثر جگہ پر اشتراک ہے آواز اور شور کو انسان نے قید کرنا سیکھا اور ماں کو ایک ہی طرح پکارا گیا کہیں مدر Mother، مادر، ماتا تو کہیں ماں غرض شروع میں ’’م‘‘ میم کی آواز مشترک ہے۔ جب زمین کئی لخت ہوئی دریاؤں جھرنوں اور موسموں کے حصے میں آئی تو بولی بھی الگ الگ ہوتی گئی۔ بولیوں اور فاصلوں نے ہر علاقے کے حکمران بھی پیدا کیے جو ان علاقوں پر اپنی حکمرانی کریں یہ حکمران اپنے وسائل اور مادی قوت کے ذریعے اپنے حدود کے مالک بنتے رہے جس حکمران کی جتنی مادی قوت تھی وہ اسی قدر علاقے پر قابض ہوتا جاتا۔
اب اس حکمران کو حدود و قیود میں رکھنے لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے اوتار، نبی اور پیغمبران بھی آتے رہے مگر ہر آن زبان ایک دوسرے سے ملتی رہی زبان کی آواز دیکھیں اور معنی دیکھیں کیسے بدلتے رہے اور آواز ایک ہی رہی۔ مثلاً بیسن۔ تلچھٹ یا دریا کا زمینی پھیلاؤ یعنی Indus Basin انڈس بیسن جب کہ اردو زبان میں بیسن چنے کا آٹا، دیکھیں انگریزی زبان میں جنگل Jungle جب کہ اردو زبان میں بھی ہم معنی، اردو زبان میں ڈکیت Dacoit ایک نہیں سیکڑوں الفاظ اردو زبان میں انگریزی زبان میں مل جائیں گے۔ یہ موازنہ تو تھا انگریزی کا جو ہندوستان پر قابض ہونے سے پہلے عام طور پر ہاف پینٹ (Half Pent) زیب تین کرتی تھی اور جب رقم ہاتھ آئی تو اس کے ہنرمندوں اور سائنسدانوں نے ہینڈلومز کو برقی لومز میں تبدیل کردیا اور کپڑے کی صنعت کو برق رفتار بنادیا ۔جس کو صنعتی انقلاب کا نام دیا گیا اور زبان نے بھی ترقی کی ہر نئے آلے اور مشین کا انگریزی نام تو خود بہ خود ہونا تھا زبان نہایت کمزور مگر اس کو بولنے اور برتنے والے نہایت ہوشیار زبان کی کمزوری کے عالم کی ادنیٰ سی مثال اور ’’د‘‘ اور ’’ڈ‘‘ کا فرق ادا کرنے سے قاصر ہے۔ میرے نزدیک ’’ڈ‘‘ D یعنی ڈی پر نقطہ ڈال کی آواز نکال سکتا ہے جیساکہ جرمن زبان کی نکتہ دانی ہے۔ اردو زبان دنیا کی واحد خوش قسمت ترین زبان ہے جو تمام مشرقی زبانوں اور انگریزی حکمرانوں کی زیر نگرانی سانچوں میں ڈھل رہی تھی۔
فورٹ ولیم کالج اردو زبان کا کارخانہ اور سب سے بڑھ کر جب یہ زبان ڈھل رہی تھی اس کا سکہ چمک رہا تھا اس وقت، غالب، آتش، حالی، ذوق اردو کے اعزازی ملازم تھے اس زبان کو انیس دبیر، نظیر اور میر تقی میر کی بھٹی نے صیقل کیا یہ وہ عہد تھا جب دنیا میں شاید ہی کہیں یہ یک وقت عہد بہ عہد اتنے عظیم شعرا مسند زبان پہ بیٹھے ہوں جیساکہ مسند اردو پہ جلوہ افروز تھے اسی لیے داغ دہلوی نے یہ نعرہ لگایا۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اردو زبان تقسیم ہند کے بعد تو مسلمان کی زبان بھارت میں قرار دے دی گئی تھی رہی سہی کسر پاکستان نے قائد اعظم کے قول کی نفی کرکے اس کو دفتری زبان بننے سے روک دیا گوکہ اس زبان کے پاس سائنسی تراجم کا ذخیرہ موجود تھا۔ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن کے پاس ایم بی بی ایس کے تراجم موجود تھے ۔ میر عثمان علی خان جو نواب دکن تھے انھوں نے سہل، نرم تراجم کرائے تھے اور ثقیل الفاظ کو بے دخل کردیا تھا یہ نہیں کہ انگریزی زبان جہاں زبان میں فنی خرابیاں موجود ہیں مثلاً متضاد معنی آسان سی بات ویل (Well) اچھا، بھلا، کنواں کہاں اچھا بھلا اور کہاں کنواں بالکل متضاد معنی دوسرا لفظ کین (Can) ممکن ہے، ہوسکتا ہے دوسرا معنی کنستر اور ایسے سیکڑوں الفاظ جب کہ اردو زبان اس سقم سے پاک ہے جب کہ اردو زبان کی ایک اور برتری نون غناں یعنی ن میں نقطہ موجود نہیں یہ آواز سر کے لیے اور شاعری کے حسن کو دوبالا کرنے میں اکثیر ہے زبان کے اس حسن کو کیا کہیے گا غالب نے نون غنہ کو دیکھیں کیسے استعمال کیا ہے:
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو
جب کہ انگریزی زبان حروف کی کمزوری کی بنا پر آزاد شاعری پر اس کا انحصار ہے انگریزی زبان میں نصف این یعنی نون غنہ کا کوئی جواب نہیں مگر پھر بھی وہ زبان اردو زبان سے برتر کہلاتی ہے اور ہم اس سے چمٹے پڑے ہیں آخر ایسا کیوں؟ کیونکہ انگریزی قوم نے اپنے سامراجی عزائم اور آزادی خیال کو الگ الگ استعمال کیا اور اپنی سائنسی ایجادات پر سواری کرکے تمام دنیا میں اپنا لوہا منوالیا ۔چھوٹی سی چیز پریشر کوکر Pressure ، اوون، انجکشن، ٹیسٹ ٹیوب، تھرمامیٹر، بلڈپریشر اور اب کمپیوٹر، سیٹلائٹ، موبائل فون، چپ chip، ڈرون طیارے وغیرہ وغیرہ ۔گزشتہ 500 برسوں سے فرنگی ترقی نے دنیا کی زبانوں میں وہ وار کیا ہے جو غیر ملکی گھس بیٹھیے کرتے ہیں یہاں تک کہ چین کو ایک نئی زبان چنگلش بنانے کا سوچنا پڑا اور ایک کمزور اور بے ترتیب زبان آج دنیا کی بلند پایہ زبان بن گئی ہے۔ ذرا غور کیجیے انگریزی کے حرف “V” وی کو دیکھیے 250 یا 300 الفاظ بنانے کے قابل ہے حرف “W”تقریباً 400 حروف بنانے کی حد سے حد قابلیت رکھتا ہے اور آخری حروف “X” ایکس، “Y” وائی اور “Z” ۔۔۔۔100 الفاظ بنانے سے عاری ہیں اسی طریقے سے درمیانی حروف کے اوزان کیے جائیں تو کوئی ہزاروں پر ہوں گے چند سو سے کم کیونکہ زبان نے بہت سست روی اور بے قاعدگی سے ترقی کی ہے اور قواعد بھی کمزور ہے مگر قوم 13 ویں اور 15 ویں صدی سے اپنے سامراجی ہنر کو استعمال کرنے لگی اور آج وہ نہایت تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ اقوام میں سے ایک ہے۔ اس لیے کہ کم ازکم انھوں نے اپنی قوم کا پیٹ کاٹ کے اپنا گھر نہیں بھرا اپنے عوام سے انصاف کیا، جانفشانی سے کام کیا عالموں کی عزت اور تکریم کی مگر افسوس کہ پاکستان کے کچھ شاعر اور نام نہاد ادیب اکثر ادبی کانفرنسوں میں رومن رسم الخط کے گیت گاتے نظر آتے ہیں اور یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اب ایس ایم ایس (SMS) کی اکثریت چونکہ رومن میں ہوتی ہے لہٰذا مستقبل قریب میں اردو کا بوریا بستر گول ہونے کو ہے ۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان کا تر نوالہ اردو زبان کے ذریعے ہیں ان کا نام دینا مناسب نہیں ان کو شاید یہ نہیں معلوم کہ بھارت کی فلم انڈسٹری آج بھی اردو زبان کی مرہون منت ہے۔ تقریباً 25 فیصد زرکثیر پیدا کر رہی ہے اردو زبان کے شعرا اور ادبا اس سے فیض یاب ہو رہے ہیں کہاں کی بے تکی باتیں کرتے ہیں یہ لوگ ابھی اس ملک کے 50 فیصد لوگ ترتیب سے اردو کے حروف تہجی نہیں جانتے، رومن ایس ایم ایس کی باتیں کرتے ہیں۔ ترکی میں رومن نے جگہ لی تو ترکی کی تہذیب، تمدن اور ادب کا کیا ہوا ترک زبان اپنے قدیم اثاثے سے محروم ہوگئی اور یورپی یونین نے ہزار کوششوں کے بعد بھی یورپی یونین میں شامل نہ کیا اور نہ ہی مستقبل میں اس کی امید کی جاسکتی ہے۔ قومیں لباس، زبان تہذیب چھوڑ کر ترقی کرسکتی ہیں نہ اپنی ثقافت چھوڑ کے اسی لیے جرمن چانسلر جرمن زبان، روسی صدر روسی زبان اور چینی صدر اور کابینہ چینی زبان بولتی ہے ۔کیونکہ وہ اپنا اعزاز سمجھتی ہیں لہٰذا پاکستانی قوم اگر اپنی خودی نہیں پہچانے گی تو ترقی ممکن نہیں اس کا تجربہ ہم 68 برس میں کرچکے مزید کیا تجربات کرنا چاہتے ہیں۔
Urdu vs English
↧