↧
طالبان نے کس کے ہاتھ مضبوط کیے؟؟؟
↧
میاں نواز شریف کا تیسرا دور، انداز اور اہداف
پچھلے دو ادوار حکومت کی نسبت اس مرتبہ وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کی ٹیم مدبر نظر آتی ہے۔ نہ ہی سیاسی مخالفین کے گلے پڑنے کی عادت اپنائی ہے اور نہ ابھی تک کسی بڑ ے بدعنوانی کے اسکینڈل کا سامنا ہوا ہے۔ پچھلے ادوار کے طریقۂ کار کے برعکس اداروں سے جھگڑے مول لینے سے اجتناب بڑھتا جا رہا ہے۔ جس عقل مندی کے ساتھ اس حکومت نے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو خوش کر کے رخصت کیا ہے وہ طاقت کی سیاست میں احتیاط کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ افتخار محمد چوہدری، وہ گبھرو چیف جسٹس، جن کا ذکر آج کل ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا اسی قسم کی احتیاط کی پالیسی کے تحت سنبھالے گئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی حتی کہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف دونوں جماعتوں کے ساتھ تعلقات اس حد تک خراب نہیں ہونے دیے گئے کہ خواہ مخواہ کا سیاسی مسئلہ کھڑا ہو اور احتجاج اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوجائے۔ تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ میاں نواز شریف اور اُن کی ٹیم تیسرے دور حکومت میں بدل گئے ہیں۔
طریقہ کار بدل گیا ہے مقاصد ابھی تک پرانے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کی طرح بلکہ شاید اُن سے بڑھ کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت خود کو طاقت میں ہمیشہ برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے لٹھ بازی، لڑائی، نعرے اور واویلے مچا کر یہ کام کیا جاتا تھا‘ اب اس ترکیب کے اجزاء بدل گئے ہیں۔ آٹھ، نو ماہ گزارنے کے بعد نواز شریف کی تیسری حکومت کے چند ایک خدوخال واضح ہو چکے ہیں۔ اس مرتبہ نواز شریف چار سمتوں سے خود کو طاقت میں قائم اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ چار سمتیں امور خارجہ اور دفاعی پالیسی، جنوبی ایشیا میں یورپی یونین جیسے نظام کی بنیاد رکھنے کی کوشش، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو مختلف طریقوں سے اپنے نقطہ نظر کی طرف مائل کرنے یا اپنے تابع کرنے کے اقدامات اور سب سے بڑھ کر خود کو سیاسی نظام میں محفوظ بنانے کی کوششوں پر مبنی ہے۔ ان تمام زاویوں پر یکسو کام ہو رہا ہے‘ مکمل یکسوئی کے ساتھ۔ صرف دیکھنے میں یہ سب مختلف اقدامات محسوس ہوتے ہیں عملاً ان کا مقصد اپنی طاقت کو دوام دینا ہے۔
خارجہ اور دفاعی پالیسی میں امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کے ساتھ انتہائی پرامن اور تنازعے سے پاک تعلقات کا لائحہ عمل اپنایا ہوا ہے۔ اسلام آباد میں متعین امریکی سفارت کار حیران کن حد تک واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کی غیر موجودگی کے باوجود خوش اور مطمئن تھے۔ اُن کی اس طمانیت کی ایک بڑی وجہ وہائٹ ہائوس اور جاتی عمرہ کے درمیان براہ راست رابطے کی نئی سہولت تھی۔ امریکی، برطانیہ کی طرح ایک ملک میں ایک ہی شخص سے بات کرنے کے شائق ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں اُن کے لیے مشکل یہ تھی کہ کبھی صدر زرداری اور کبھی جنرل کیانی اور کبھی کبھار پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت کرنی پڑتی تھی۔ اگرچہ تین مختلف طاقت کے مراکز پاکستان کے نقطہ نظر کو بسا اوقات شکست دینے میں بھی کارآمد ثابت ہوتے تھے۔ لیکن اول ترجیح امریکا کی ہمیشہ ایک وقت میں ایک ہی شخص رہا ہے۔
اِس مرتبہ میاں محمد نواز شریف اُس شخص کی صورت میں اُبھر کر سامنے آئے ہیں جو امر یکہ کی بہت سی باتیں ریکارڈ پر لائے بغیر سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہیں۔ چاہے معاملہ امر یکہ کی فوجوں کے لیے انخلا ء کی سہولت فراہم کرنا ہو یا اس خطہ میں امریکا کے اثر و رسوخ کو محتاط مگر یقینی انداز سے تقویت دینا ہو۔ واشنگٹن کو اسلام آباد میں کسی مقام پر کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا۔ واشنگٹن کے ساتھ گہری دوستی کے نتیجے میں معاشی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی مدد تو ملے گی ہی، جمہوریت کے خلاف کسی ممکنہ کوشش کا قلع قمع کرنے میں بھی یہ دوستی انتہائی کارآمد ثابت ہو گی۔ میاں نواز شریف کی واشنگٹن سے جمہوریت کے حق میں بیان دلوانے کی روایت کافی پرانی ہے۔ کارگل ہویا جرنیلی منصوبہ امریکا کا دروازہ کھٹکھٹائے بغیر نواز لیگ نے کبھی اپنا ردعمل ترتیب نہیں دیا۔ اس ضمن میں برطانیہ اگرچہ چھوٹا اور بین الاقوامی اثرورسوخ کے اعتبار سے نسبتاً کم اہم ملک ہے، بہترین کردار ادا کر سکتا ہے۔ پنجاب کے گورنر چوہدری سرور کے دوسرے گوناگوں اوصاف کے علاوہ ایک خاص صفت سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ گہرا تعلق بھی ہے۔
اگر کسی نے نواز شریف کی حکومت کو غیر آئینی جھٹکا دینے کی کوشش کی تو آپ چوہدری سرور کو ایک نئے روپ میں دیکھیں گے۔ وہ برطانوی نظام کی ہر کل کو سمجھتے ہیں۔ اُن کو وہاں سے احتجاج کروانے کا فن آتا ہے۔ خارجہ اور دفاعی پالیسی کے اہم ترین معاملات وزیراعظم نے اپنے ہا تھ میں اسی وجہ سے رکھے ہوئے ہیں۔ خواجہ آصف، سرتاج عزیز اور طارق فاطمی، میاں صاحبان کے قریبی رشتہ داروں سے بھی زیادہ قابل اعتبار ہیں۔ وہ اُس کچن کابینہ کا حصہ ہے جو پالیسی کی ہانڈی کا مرچ مصالحہ وزیر اعظم سے پوچھ کر ڈالتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے تجربے سے سیکھتے ہوئے میاں نواز شریف نے دفاعی اور خارجہ پالیسی کی ڈش جرنیلوں کے ہاتھوں سے لے کر اپنی میز پر سجا دی ہے۔ امر یکہ کے ساتھ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ پیپلز پارٹی کے دور میں جنرل کیانی چلا رہے تھے۔ سابق چیف آف آرمی اسٹاف خود سے پالیسی پیپر لکھ کرصدر اوباما کے حوالے کر رہے تھے۔
ظاہر ہے جو پالیسی بنائے گا امریکا اُسی کی طرف جھکے گا اور امریکا جس کی طرف جھکے گا وہ طاقت کی فہرست میں دوسروں کی نسبت اوپر ہوگا۔ یہ بھانپتے ہوئے میاں نواز شریف نے یہ تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ دلچسپ امریہ ہے کہ شوراب بھی یہی مچایا جاتا ہے کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دفاع اور خارجہ امور سے متعلق کوئی فائل میاں نواز شریف کی جنبش آبرو کے بغیر نہیں ہلتی۔ بالخصوص وہ فائلیں جوامر یکہ کے ساتھ تعلقات سے متعلق ہیں۔ امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر میاں نواز شریف خود کو بین الاقوامی طور پر ایسے مقام پر فائز کرنا چاہتے ہیں جہاں پر اُن کے ہر قدم کی ستائش ہو اور وہ فیصلے جو اندرونی طور پر متنازع ہو سکتے ہیں بیرونی واہ واہ کے ذریعے پاکستان میں ہضم کروائے جا سکیں۔ اِن میں سے بہت سے فیصلوں کا تعلق ہندوستان اور افغانستان سے تعلقات سے ہے۔ تیسرے دور میں میاں نواز شریف کی پالیسی ان دونوں ممالک کے حوالے سے انتہائی دلچسپ اور منصوبہ بندی سے بھرپور ہے (اس پر اگلے کالم میں تفصیل سے روشنی ڈالیں گے
↧
↧
جیل کے ساتھی…
قیدیوں کو سب سے زیادہ گلہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے ہوتا ہے جو انھیں کڑے وقت میں اکیلا اور حوادث زمانہ میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ عموماً ایسے ساتھی جیل میں ملاقات کرنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ اگر ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے تو انھیں اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں دوران ملاقات یا اس کے بعد جس ساتھی کے ملاقات کے لیے وہ آیا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے اٹھا کر نہ لے جائیں۔
عموماً ایسے قیدی اپنے دوست احباب اور ساتھیوں سے بڑی بڑی توقعات بھی اس لیے وابستہ کرلیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا اثر و رسوخ انھیں مصائب کی دنیا سے جلد نکال سکتا ہے۔ میں نے ایسے لاتعداد قیدی دیکھے ہیں جنھیں اپنے ساتھیوں کی بے وفائی اور بے رخی کا بڑا قلق تھا۔ ایک قیدی نے روتے ہوئے بتایا کہ اس نے اپنی عزت و ناموس سب کچھ اپنے ساتھیوں کے لیے قربان کردی، لیکن اس کے ایسے ساتھی بھی تھے جنھوں نے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور اسے جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا اور اب اس کا ساتھ دینا بھی ان کے لیے بڑا مشکل ہے۔ بلکہ انھوں نے اپنی شرمندگی پر معافی کے بجائے ایسے طریقے اختیار کرلیے کہ اسے جتنا ممکن ہو جیل میں ہی رکھا جاسکے۔ ایک قیدی نے اپنی داستان میں اپنے کچھ ایسے ساتھیوں کا ذکر کیا جنھوں نے اس سے ملاقات ہی چھوڑ دی۔کورٹ میں آنے سے اس لیے گریز کیا کہ کہیں اپنی مفلوک الحالی میں ان سے امداد نہ مانگ لوں۔ اس قیدی کا یہ کہنا تھا کہ دولت تو آنے جانے والی چیزیں ہیں۔ لیکن اپنے ساتھیوں کا رویہ بڑا دل شکن ہے جس نے تمام اعتماد کی دیوار کو چھلنی چھلنی کردیا ہے۔
ایک سیاست زدہ قیدی سے احوال دریافت کیا تو اس نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا کہ جو جماعت اس کے چھوٹے مسئلے میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتی وہ کسی قوم کی تقدیر بدلنے اور انقلاب کے نعرے لگانے سے باز رہے۔ اسے بھی اپنے رشتوں داروں سے زیادہ اپنے احباب کی بے رخی کا بڑا دکھ تھا اس قیدی کے جذبات میں زمانے سے شکوئوں سے زیادہ اپنی سیاسی جماعت کی بے رخی کا بڑا دکھ تھا کہ اس نے دل فریب نعروں میں آکر کتنی قربانیاں دیں۔ اپنا سوشل بائیکاٹ کروایا۔ دشمنیاں مول لیں۔ لیکن اس کی جماعت کے بااثر ساتھی، اس کے بجائے منشیات فروشوں کا ساتھ اس لیے دے رہے ہیں کیونکہ وہ غریب ہے۔ ان کے لیے جرائم کا راستہ اختیار نہیں کرسکتا اور انھیں ناجائز کاموں سے حصہ نہیں دے سکتا۔
یہاں میری حیرانگی دیدنی تھی کہ اگر وہ یہ عمل نہیں کرسکتا تو پھر وہ جیل میں کیوں ہے تو اس نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ یہ بھی ساتھیوں کا تحفہ ہے۔ ان کی نظر کرم اور بڑے بڑے دعوؤں کا نتیجہ ہے۔
ایک قیدی نے اپنے بال بچوں کے بے سہارا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے دل میں ہل چل پیدا کردی کہ اس کے گھر والے بے سہارا ہوچکے ہیں۔ مالک مکان نے اس کے گھر والوں کو گھر سے اس لیے نکال دیا کہ وہ کرایہ نہیں ادا کرسکے تھے، کیونکہ ان کے گھر کا واحد کفیل مہینوں سے قید ہے۔مالک مکان نے اس کے گھر والوں کا کوئی عذر اس لیے سننے سے انکار کردیا، کیونکہ وہ ایک سال سے بغیر کرایہ ادا کیے رہ رہے تھے۔ اس قیدی نے بتایا کہ اس کے رشتے دار، بھائی وغیرہ بہت غریب ہیں۔ اس کے حالات بھی کبھی بہت اچھے ہوا کرتے تھے۔ اس کے فلیٹ، مکان، زمین اور اپنی گاڑی تھی بچے اچھے اسکول میں پڑھتے تھے۔ اچھا کھانا اور اچھا رہن سہن اس کا مقدر تھا۔ لیکن کچھ ساتھیوں کی صحبت نے اسے آہستہ آہستہ ان نعمتوں سے محروم کردیا اور وہ قلاش ہوگیا اور اسکول سے بچے نکال دیے گئے۔
اس قیدی کو یہ خوش فہمی تھی کہ اس کے دوست، ساتھی اس کی مدد کریں گے اس کا ساتھ دیں گے۔ اس قیدی نے بتایا کہ ان کا ایک سماجی حیثیت سے وابستہ ایک فورم تھا جس میں صنعت کار، وڈیرے، سرکاری اعلیٰ افسران، سیاسی نمایندے، ایم پی اے، ایم این اے تک اس کے ساتھی تھے۔ لیکن انھوں نے اس تکلیف میں پلٹ کر اس کی خبر تک نہیں لی۔ اس قیدی کا گلہ اپنے ساتھیوں سے اس لیے زیادہ تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ اس نے اپنا سب کچھ ان کی خاطر تباہ کیا ہے اس لیے اگر وہ سب مل کر اس کا ساتھ دیتے تو آج وہ جیل میں نہ ہوتا اور اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا۔ اس کے گھر والے در بدر نہ ہوتے۔ فاقے نہ کاٹتے اور انھیں مصائب کا سامنا نہ ہوتا۔
جیل میں ایسے قیدیوں کے احوال بھی سنے جنھوں نے بتایا کہ وہ ایک اچھی زندگی کا خواب سجائے، غلط راستوں پر چلے، لیکن ساتھیوں کی غلط محفل کا انجام بھی غلط ہوا۔ انھوں نے ساتھیوں سے بدلہ لینے کی قسم کھائی۔ کچھ ایسے سیاسی قیدی بھی میری نشست میں گویا ہوئے کہ انھوں نے اپنے لیڈروں کے کہنے پر اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا لیکن انھیں بے سہارا بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔کسی نے ان کی وجہ سے دبئی میں کاروبار سجا لیے تو کسی نے ملائیشیا میں اپنے خاندان کو سیٹ کرلیا۔ اور یہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مفروضوں اور نظریوں کے تحت مقید یہ قیدی اپنے لیڈروں سے نالاں نظر آئے کہ انھیں معمولی سی قانونی معاونت بھی فراہم کرنے کی تکلیف نہیں دی جاتی۔ یہاں ان قیدیوں کے ساتھیوں، احباب، رشتے داروں سے صرف یہ گزارش ہے کہ جیل میں قید اپنے ساتھی، دوست، رشتے داروں کو بے یار و مددگار نہ چھوڑیں ان کے لیے کچھ نہ کریں، لیکن انھیں دلاسا تو دے سکتے ہیں۔
جیل میں پڑے یہ قیدی اپنے رشتے داروں اور ساتھیوں سے بڑی توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ لیکن بڑی تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ جب قیدی اپنی داستان میں روتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ اسے یہ تکلیف دہ دن اپنے ساتھی کی بدولت ممکن ہو رہے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کلیجہ پھٹ جائے گا۔ ہزاروں قیدی، لاکھوں داستانیں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں جن کا مختصراً تذکرہ بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن مخصوص قیدیوں کی مشترکہ داستانوں میں سب سے زیادہ تذکرہ ان کے ساتھیوں کی بے رخی سے متعلق تھا۔ ایک قیدی نے بطور خاص کہا کہ ’’یہ ضرور لکھنا کہ میں نے کہا تھا ناں کہ ’’بھول مت جانا‘‘دیکھ لو کہ ساتھی آپ سب بھول گئے، گول گپے بھی نہیں کھلائے‘‘۔
غیر مبہم سی فرمائش پر لکھ تو دیا لیکن دل مسوس ہوکر رہ گیا کہ جیسے یہ داستانیں یہ شکوے، شکایتیں کرنے والے اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے دوست احباب، رشتے دار سے زیادہ اپنے ساتھی پر بھروسہ کرتے نظر آئے۔ کاش کوئی ساتھی ان کا بھروسہ قائم رکھ دے۔
↧
یہ ہیں اصل مسلمان.........(Saylani Welfare Trust)
![]()
![]()
![]()
سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کراچی کے تاجر طبقے کا ایک حیران کن منصوبہ ہے‘ یہ ٹرسٹ مولانا بشیر فاروقی نے 1999ء میں قائم کیا‘ مولانا میمن کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں‘ مسلک کے لحاظ سے حنفی ہیں‘ کراچی میں باردانے کی خرید و فروخت کا کام کرتے تھے‘ جوانی میں طبیعت مذہب کی طرف مائل ہوئی‘ دارالعلوم میں داخل ہوئے‘ مذہبی اور روحانی تعلیم حاصل کی‘ استخارے میں مہارت حاصل کی‘ لوگ ان کے دیوانہ وار مرید ہوئے‘ مذہبی چینل پر لائیو استخارہ شروع کیا‘ زائرین کی تعداد میں اضافہ ہو گیا‘ کراچی کی بزنس مین کمیونٹی میں روحانی رسوخ بنا‘ یہ عملی شخصیت ہیں چنانچہ انھوں نے میمن کمیونٹی کے ساتھ مل کر پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم کی بنیاد رکھ دی‘ سیلانی ٹرسٹ کا نام انھیں خانقاہ ڈوگراں میں مدفن خواجہ محکوم الدین سیلانی سے ملا‘یہ بزرگ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گھومتے رہتے تھے‘ یہ اس معمول کی وجہ سے سیلانی کہلاتے تھے‘ یہ سیلانی تھے لیکن سمہ سٹہ ان کا مرکز تھا‘ یہ گھوم پھر کر واپس سمہ سٹہ اور خانقاہ ڈوگراں آجاتے تھے‘ دنیا کے تمام جینوئن بزرگ لنگر ضرور شروع کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ رازق ہے‘ یہ آگ اور پتھر کے کیڑوں کو بھی رزق پہنچاتا ہے چنانچہ یہ ہر اس شخص کو پسند کرتا ہے جو دوسروں کے رزق کا ذریعہ بنتا ہے۔
آپ کو یقین نہ آئے تو آپ دنیا بھر کی سستی فوڈ چینز کی اسٹڈی کر لیں‘ دنیا کے کسی بھی کونے میں بننے والی سستی فوڈ چین دوسری مصنوعات کے مقابلے میں دس گنا تیزی سے ترقی کرتی ہے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ چین لوگوں کو سستا رزق فراہم کرتی ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کی آمدنی میں برکت ڈال دیتا ہے‘ صوفیاء کرام کیونکہ اللہ کے اس نظام کو سمجھتے ہیں لہٰذا یہ اپنی درگاہ پر لنگر کا اہتمام ضرور کرتے ہیں‘ یہ بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور یوں ان کا آستانہ‘ ان کی درگاہ بادشاہوں کے دربار سے زیادہ اہمیت اختیارکر لیتی ہے‘ دہلی کے تمام مسلمان حکمران دنیا سے رخصت ہو گئے‘ ان کے دربار اور محلات اجڑ گئے لیکن دہلی کے صوفیاء کرام کے دربار آج بھی قائم ہیں‘ ان درباروں کی رونق کی بے شمار وجوہات میں سے ایک وجہ ان کا لنگر بھی ہے‘ ان کا دستر خوان قائم ہے چنانچہ ان کی درگاہ بھی سلامت ہے‘ خانقاہ ڈوگراں کے سیلانی بابا بھی بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے‘ آپ کے اس روحانی ذوق کی وجہ سے آپ کے دربار میں بہت رونق تھی‘ یہ رونق آج بھی قائم ہے‘ سیلانی بابا آخری عمر میں سفر کے لیے نکلے‘ بھارت کے علاقے دھراجی میں قیام کیا اور وہاں ان کا وصال ہو گیا‘ دھراجی کے لوگوں نے آپ کو اپنے علاقے میں دفن کردیا‘ سمہ سٹہ کے لوگوں کو علم ہوا تو یہ دھراجی پہنچ گئے اور آپ کی میت کا مطالبہ کردیا۔
دھراجی کے لوگوں نے انکار کر دیا‘ نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی‘ اس دوران خواجہ محکوم الدین سیلانی دھراجی کے راجہ کے خواب میں آئے اور اس کو حکم دیا‘ آپ ان لوگوں کو میری لاش لے جانے دو‘ میں وہاں بھی رہوں گا اور آپ کے پاس بھی‘ راجہ نے اس حکم پر لبیک کہا‘ آپ کے مریدین آپ کا وجود اطہر لے کر سمہ سٹہ آ گئے اور خانقاہ شریف میں آپ کو دفن کر دیا‘ دھراجی کے راجہ نے تجسس سے مغلوب ہو کر ایک دن آپ کی خالی قبر کھول کر دیکھی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا‘ حضرت صاحب قبر میں قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے‘ راجہ نے قبر بند کی اور اس پربھی مزار بنوا دیا‘ یوں دنیا میں خواجہ محکوم الدین سیلانی بابا کے دو مزار ہیں‘ بھارت کے علاقے دھراجی اور پاکستان کے شہر سمہ سٹہ کے مضافات میں ‘ مولانا بشیر فاروقی اور ان کے ساتھیوں نے جب 1999ء میں ویلفیئر ٹرسٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ لوگ نام تلاش کرنے لگے‘ آپ حسن اتفاق دیکھئے‘ یہ لوگ ٹرسٹ قائم کرنے کے لیے کراچی کی جس عمارت میں اکھٹے ہوئے وہ عمارت سیلانی چوک میں واقع تھی اور وہ علاقہ دھراجی کہلاتا تھا‘ ان لوگوں نے اسے قدرت کا اشارہ سمجھا اور اپنے ادارے کا نام سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ رکھ دیا۔
یہ ٹرسٹ پندرہ سال قبل بنا لیکن اس نے کراچی‘ حیدر آباد اور فیصل آباد میں کمال کر دیا‘ کراچی شہر میں اس کے 52 دستر خوان ہیں‘ ان دستر خوانوں پر روزانہ ایک لاکھ لوگ مفت کھانا کھاتے ہیں‘ سیلانی ٹرسٹ روزانہ 500 بکرے ذبح کرتا ہے‘ یہ ان کا سالن پکا کر غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور جو گوشت بچ جاتا ہے‘ یہ لوگ اسے غریبوں کی بستیوں میں بانٹ دیتے ہیں‘ یہ کراچی کے پانچ ہزار گھرانوں کی کفالت بھی کر رہے ہیں‘ یہ انھیں مہینے بھر کا راشن دیتے ہیں‘ ان کے گھروں کا کرایہ ادا کرتے ہیں‘ ان کے یوٹیلٹی بل ادا کرتے ہیں‘ ان کے بچوں کے اسکول کی فیس ادا کرتے ہیں اور انھیں ادویات بھی فراہم کرتے ہیں‘ یہ پانچ ہزار خاندان وہ ہیں جن کے سربراہ ٹارگٹ کلنگ‘ ایکسیڈنٹ یا فساد میں مارے گئے اور ان کے خاندان کا کوئی کفیل نہیں‘ یہ لوگ اس مد میں ہر مہینے اڑھائی کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں‘ یہ انتہائی غریب لوگوں کو گھر اور فلیٹ بھی بنا کر دے رہے ہیں‘ یہ بیروزگاروں کو رکشے بھی خرید کر دیتے ہیں۔
کراچی شہر میں انھوں نے ساڑھے سات سو رکشے دیے‘ رکشہ مالکان سیلانی ٹرسٹ کو روزانہ اڑھائی سو روپے ادا کرتے ہیں اور اٹھارہ ماہ بعد رکشے کے مالک بن جاتے ہیں‘ یہ پاپ کارن اور چائے کی چھوٹی مشینیں بھی دیتے ہیں‘ کراچی میں انھوں نے ایک ڈسکاؤنٹ اسٹور بھی قائم کیا‘ اس اسٹور سے کوئی بھی شخص خریداری کر سکتا ہے‘ خریداروں کو اسٹور میں 30 فیصد رعایت ملتی ہے‘ یہ ہر مہینے ساڑھے چار سو بچیوں کو جہیز بھی دیتے ہیں‘ یہ دس ہزار طالب علموں کو وظائف بھی دے رہے ہیں‘ سیلانی ٹرسٹ نے ایک انتہائی دلچسپ چیز بھی ایجاد کی‘ انھوں نے فائر موٹر سائیکل بنوائے‘ یہ موٹر سائیکل آگ بجھاتے ہیں‘ موٹر سائیکلوں پر پانی کے چھوٹے ٹینک اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے سلینڈر لگے ہیں‘ یہ موٹر سائیکل چند منٹوں میں ان گلیوں میں گھس جاتے ہیں جہاں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں نہیں پہنچ پاتیں‘ یہ وہاں پہنچ کر فوراً آگ بجھا دیتے ہیں‘ میری چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ سے درخواست ہے‘ یہ سیلانی ٹرسٹ کی اس ایجاد سے فائدہ اٹھائیں‘ موٹر سائیکلوں کو بھی فائر بریگیڈ کا حصہ بنائیں‘ اس سے ہزاروں لوگوں کو فائدہ ہو گا‘ یہ لوگ کراچی کے لیے لمبی لمبی سیڑھیاں بھی درآمد کر رہے ہیں‘ یہ ایسے غبارے بھی لا رہے ہیں جو آگ لگنے کی صورت میں عمارتوں کے نیچے بچھا دیے جائیں گے اور لوگ ان پر کود کر جان بچا سکیں گے۔
سیلانی ٹرسٹ نے ڈسپنسریاں بھی بنا رکھی ہیں‘ یہ بنیادی صحت پر بھی کام کر رہے ہیں‘ یہ موبائل کلینک بھی بنا رہے ہیں‘ ان کے چھوٹے اسپتال بھی ہیں‘ یہ کمپیوٹر ٹریننگ کا پروگرام بھی چلا رہے ہیں‘ ان کی کمپیوٹر لیب میں پانچ سو طالب علم مفت ٹریننگ لیتے ہیں اور یہ ٹریننگ کے بعد مہینے میں تیس چالیس ہزار روپے کما لیتے ہیں اور یہ لوگوں کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے انھیں مختلف قسم کے ہنر بھی سکھاتے ہیں‘ سیلانی ٹرسٹ 63 شعبوں میں کام کر رہاہے‘ یہ ویلفیئر پر سالانہ دو سو 15 کروڑ روپے (سودو ارب) خرچ کرتے ہیں‘ ان کے ڈونرز کراچی کے بڑے بزنس مین ہیں‘ یہ بزنس مین اس ادارے کے ٹرسٹی ہیں‘ یہ ادارے کو وقت بھی دیتے ہیں‘ توانائی بھی اور سرمایہ بھی چنانچہ یہ ادارہ صرف پندرہ برس میں پاکستان کا سب سے بڑا ٹرسٹ بن گیا‘ اس میں اس وقت رضا کاروں کے علاوہ تیرہ سو لوگ کام کرتے ہیں‘ ادارہ ان ملازمین کو دانت صاف کرنے‘ ناخن کانٹے‘ جوتے پالش کرنے‘ بچوں کو اسکول میں داخل کرانے اور صاف لباس پہننے کا الاؤنس دیتا ہے‘ یہ ملازمین کو کتابیں بھی فراہم کرتا ہے۔
میں سیلانی فاؤنڈیشن کا کام دیکھنے کے لیے ہفتہ اور اتوار دو دن کراچی گیا‘ مجھے ان دو دنوں میں مولانا بشیر فاروقی (جنھیں یہ لوگ حضرت صاحب کہتے ہیں) سے تین ملاقاتوں کا موقع ملا‘ حضرت صاحب نے اپنی زندگی اور وقت سیلانی ٹرسٹ کے لیے وقف کر دی ہے‘ یہ صبح سے رات تک سیلانی ٹرسٹ کے ہیڈ کوارٹر میں رہتے ہیں‘ یہ ادارے کا کام بھی دیکھتے ہیں اور سیکڑوں لوگوں کے لیے استخارہ بھی کرتے ہیں‘ کراچی کے چند بڑے بزنس مینوں نے بھی خود کو سیلانی ٹرسٹ کے لیے وقف کر دیا ہے‘ یہ لوگ کاروبار اپنے بچوں کو سونپ کر سیلانی ٹرسٹ کے ہو کر رہ گئے ہیں‘ یہ اپنے ہاتھ سے لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں‘ انھیں راشن دیتے ہیں اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں‘ یہ لوگ ہڑتالوں اور فسادات کے دنوں میں کراچی کے محصورعلاقوں میں خوراک تقسیم کرتے ہیں‘ اتوار کے دن سیلانی ٹرسٹ نے پی اے ایف میوزیم میں دو ہزار دو سو طالب علموں کا ٹیسٹ لیا‘ یہ نوجوان کمپیوٹر کورس کرنا چاہتے ہیں۔
سیلانی ٹرسٹ نے ان بائیس سو طالب علموں میں سے ساڑھے چار سو طالب علم منتخب کیے‘ ٹرسٹ ان نوجوانوں کو مفت کمپیوٹر کورس کروائے گا‘ یہ کورس انتہائی جدید اور مفید ہے‘ یہ نوجوان اس کورس کے بعد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے‘ میں نے زندگی میں پہلی بار ایک وسیع ٹینٹ کے نیچے دو ہزار دو سو نوجوانوں کو ٹیسٹ دیتے دیکھا‘ ان نوجوانوں کے لیے کرسی اور میز دونوں کا بندوبست تھا‘ یہ انتظام بذات خود حیران کن تھا‘ میں ان لوگوں کے اخلاص‘ مستقل مزاجی‘ عاجزی اور خدمت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا‘ یہ پانچ وقت نماز بھی پڑھتے ہیں‘ ان کا حلیہ بھی اسلامی ہے‘ یہ مولوی ہیں لیکن ان لوگوں نے یورپ اور امریکا کے ٹرسٹوں سے کہیں بہتر ادارہ بنایا‘ میں نے انھیں دیکھا‘ میں انھیں ملا تو بے اختیار یہ کہنے پر مجبور ہو گیا‘ یہ ہیں اصل مسلمان اور یہ ہے اسلام کی اصلی اور سچی تصویر۔کاش ہم پر اعتراض کرنے والی قومیں ہماری یہ تصویر بھی دیکھ لیں‘ انھیں یقین آ جائے گا اسلام امن اور مسلمان امان ہیں‘ طالبان نہیں ہیں۔
↧
اوباما انتظامیہ کا ہزاروں امریکی فوجیوں کو فارغ کرنے کا فیصلہ

امریکہ نے دفاعی بجٹ میں کمی کے باعث 2017 تک 13 فیصد فوجیوں کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کا صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دفاعی بجٹ کے حجم میں کمی کے باعث فوجیوں کی تعداد کو 13 فیصد کم کر کے دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی تعداد پر لایا جائے گا، حاضر سروس فوجیوں کی تعداد کو 5 لاکھ 70 ہزار سے کم کر کے 4 لاکھ 40 ہزار اور 4 لاکھ 50 ہزار کے درمیان لایا جائے گا۔ اس کے علاوہ سرد جنگ کے دور کے امریکی فضائیہ کے جاسوس لڑاکا طیارے ‘اے10′ کا فلیٹ بھی مکمل طور پر ختم کرکے بغیر پائلٹ کے ڈرون طیارے ‘یو2′ جاسوسی کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے، 2017 تک ملک میں کئی فوجی اڈوں کو بند کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
چک ہیگل کا کہنا تھا کہ فوجیوں کی تعداد میں کمی کے منصوبے میں بجٹ سے متعلق حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کو یقینی بنایا گیا ہے تاکہ فوج مستقبل میں بھی امریکی مفادات کا تحفظ کر سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ ہمارے مالی چیلجنز کے حجم کی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے، ہمیں مستقبل میں بھی اس قسم کے مشکل فیصلے کرنے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی وزیر دفاع نے فوجیوں کی رہائش کے معاوضے میں کمی اور تنخواہوں میں اضافے میں کمی کی تجاویز بھی پیش کی ہیں۔
واضح رہے کہ فوجیوں کی تعداد میں کمی اور دیگر اقدامات کے منصوبے کی کانگریس سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے جب کہ گزشتہ چند سالوں میں کانگریس اس طرح کے کئی منصوبے مسترد کر چکی ہے۔
↧
↧
پولیس کا بڑھتا ہوا جانی نقصان
کراچی پولیس ہی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی پولیس بھی ایک عرصے سے پر تشدد وارداتوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور عام پولیس اہلکار ہی نہیں بلکہ ان تینوں صوبوں میں متعدد اعلیٰ پولیس افسران بھی مختلف حملوں میں شہید ہوچکے ہیں۔ پولیس کے جو اعلیٰ افسران بدامنی میں نشانہ بنائے گئے ہیں ان میں اچھی شہرت کے حامل کے پی کے پولیس کے ڈی آئی جی صفت غیور اور لاہور سے تعلق رکھنے والے کوئٹہ کے ڈی آئی جی پولیس فیاض احمد سنبل شامل تھے جن کی شہادت کو پولیس کا بڑا نقصان قرار دیا جاتا ہے۔ کراچی میں پہلی بار ایس ایس پی سطح کے ایک افسر چوہدری اسلم کو گزشتہ ماہ نشانہ بنایا گیا تھا جو پولیس میں ایک دلیر اور بہادر افسر شمار ہوتے تھے مگر ان کی شہادت کے بعد سیاسی، عوامی اور پولیس کے حلقوں میں ان کا بڑا چرچا رہا اور اب ان کے چہلم کی رسم بھی ختم ہوگئی مگر کراچی پولیس کے بڑے بڑے دعوے کرنیوالے پولیس کے اعلیٰ افسران چوہدری اسلم کی شہادت کے اصل حقائق منظر عام پر لاسکے ہیں نہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ رات بھر جاگ کر اہم ملزموں کی گرفتاری کا صبح سویرے پریس کانفرنس میں اعلان کرنے والے چوہدری اسلم کو دوپہر کیوں اچانک طلب کیا گیا تھا؟
چوہدری اسلم کی شہادت کو کراچی پولیس کا بہت بڑا نقصان قرار دیا جاتا ہے جس کے بعد اعلیٰ افسران چوہدری اسلم کے قصیدے ضرور پڑھتے رہے مگر اب تک حقائق منظر عام پر لانے کی کوشش شاید اس لیے نہیں کی گئی کہ اس حملے کی ذمے داری قبول کرلی گئی تھی اور کراچی پولیس کو اس زحمت سے بچا لیا تھا جس کی حقیقی تفتیش ہونی چاہیے تھی حملہ آوروں نے چوہدری اسلم کو نشانہ بنانے کی کچھ وجوہات بھی بیان کی تھیں جن کی وجہ سے کراچی پولیس نے خود کو مزید تفتیش سے بری الذمہ سمجھ کر چوہدری اسلم کو اب بھلانا شروع کردیا ہے اور ایک تھانے میں چوہدری اسلم کے نام سے ایک سبیل قائم کیے جانے سے شاید پولیس کا فرض پورا ہوگیا ہے جس کے بعد سے پولیس کا جانی نقصان مسلسل بڑھ رہا ہے اور بلاول ہاؤس کی سیکیورٹی ڈیوٹی پر جانے والے15 پولیس اہلکاروں کی جانیں ضایع کرائے جانے کے بعد محکمے کو یہ ضرور خیال آگیا ہے کہ پولیس کے پاس اپنی حفاظت کا معقول سامان خصوصاً حفاظتی جیکٹس، جدید اسلحہ اور تیز رفتار گاڑیاں موجود نہیں ہیں۔
کراچی میں پولیس کی نچلی سطح کے اہلکاروں کا سب سے زیادہ جانی نقصان ہوچکا ہے۔ ٹریفک پولیس کی چوکیوں کو حفاظت کے لیے قریبی تھانوں میں منتقل کرنے، تھانوں کے گیٹ بند کرکے محصور ہوجانے سے موبائلوں، موٹر سائیکلوں پر پٹرولنگ کرنیوالے پولیس اہلکاروں کی بہت بڑی تعداد اب بھی غیر محفوظ ہے۔ یہ اہلکار شاہراہوں پر چیکنگ بھی کرتے ہیں اور اپنی سرکاری گاڑیوں کے پٹرول، گاڑیوں کی مرمت، کھٹارا گاڑیوں کے ٹائروں کی تبدیلی کے علاوہ تھانہ محرروں کی طرف سے بیٹ وصولی کا کام بھی سر انجام دیتے ہیں۔ انھیں موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کرنیوالوں کو بھی ڈھونڈنا ہوتا ہے نئے گھروں کی چھت بھرائی کی مٹھائی وصولی، کباڑ خانوں پر حاضری کے لیے چھوٹی سڑکوں اور گلیوں میں بھی جانا ہوتا ہے اور اپنے افسروں سے ملنے والی بیگار بھی بھگتانا پڑتی ہے اور وہ یہ سب کچھ کان ہتھیلی پر لے کر کرنے پر مجبور ہیں اور ان کے ساتھ اے ایس آئی سطح کا افسر ضرور نظر آتا ہے جب کہ پولیس کے اعلیٰ افسران اپنے اپنے حفاظتی اسکواڈ میں سفر کرتے ہیں اور جن کو سرکاری گھر میسر نہیں وہ مختلف علاقوں میں رہتے ضرور ہیں مگر ان کی گھروں میں حفاظت کرنیوالے پولیس اہلکار ان کے گھروں کے باہر خیموں میں غیر محفوظ ڈیوٹی پر مجبور ہیں۔
پولیس میں 60 سال سے زائد عمر کے ایسے افسر اور اہلکار بھی موجود ہیں جو اب کچھ کر دکھانے کی صلاحیت تو نہیں رکھتے مگر مال بنانے کا ان کا شوق پورا نہیں ہو رہا اور انھوں نے اپنے صاحبزادوں کو بھی پولیس میں بھرتی کروا رکھا ہے مگر وہ محکمے کی جان نہیں چھوڑ رہے اور حکومت سندھ کا یہ فیصلہ بھی عجیب ہے کہ نئے خون اور نوجوانوں کو پولیس میں ملازمتیں دینے کی بجائے فوج کے ریٹائرڈ سپاہیوں کو محکمہ پولیس میں بھرتی کرلیا ہے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ ریٹائرڈ فوجیوں کے ذریعے کراچی کی بدامنی پر قابو پانے کے خواہاں ہیں حالانکہ فوج اور پولیس کے کام مختلف ہیں اگر ایسا کرنا ہی تھا تو پولیس کے ریٹائرڈ مگر اچھی شہرت اور ماضی میں بہترین کارکردگی دکھانے والوں کی خدمات سیاست اور خوشامد کے بغیر حاصل کی جاسکتی تھیں۔کراچی پولیس میں شکستہ دلی اور بددلی کی ایک وجہ ترقیوں میں ناانصافیاں بھی ہیں اور اسی لیے ترقی کے حقداروں نے عدالت عالیہ سے رجوع بھی کر رکھا ہے مگر جلد انھیں انصاف ملتا نظر نہیں آرہا کیونکہ غیر قانونی ترقی پانے والوں کے ہاتھ بڑے لمبے اور سیاسی سفارشیں مضبوط ہیں جب ہی تو وہ خوشامدی ترقیاں لے کر جونیئر ہونے کے باوجود اپنے سینئرز پر حکم چلا رہے ہیں اور سیاسی حکمران خوش ہیں ۔
تقریباً 11 ماہ تک سندھ کا آئی جی رہنے والے شاہد ندیم بلوچ عزت سے اپنی مدت پوری کرکے رخصت ہوگئے ہیں اور ان کے ریکارڈ میں صرف یہی ہے کہ انھوں نے دوسروں کی طرح اپنی ملازمت میں توسیع کی کوشش نہیں کی البتہ اپنے دور میں موٹر سائیکلوں پر ایک جیسی نمبر پلیٹیں ضرور لگوادیں اور وہ بھی سندھ کے حکمرانوں کے پسندیدہ افسروں کو آپریشن کے دوران من مانیوں سے نہ روک سکے۔
کراچی پولیس اپنے بے پناہ جانی نقصان کے بعد پریشان ہے اور خود کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہے اسی لیے اعلیٰ افسران تک عام لوگوں کی رسائی ناممکن ہوچکی ہے اور کچھ حساس تھانوں کی حفاظت کے لیے خندقیں کھدوا کر یا اطراف میں بڑے بھاری سیمنٹ بلاک رکھوا کر پولیس اپنی حفاظت تو یقینی بنا رہی ہے اور عام لوگ حیران ہیں کہ ان کی حفاظت کیا اب پولیس کی بجائے ریٹائرڈ فوجی کریں گے۔پولیس کی بڑی تعداد وی آئی پیز اور اپنے افسروں کی حفاظت پر مامور ہے اور پولیس کے ساتھ عام لوگوں، افسروں، وکلا، ڈاکٹروں اور سیاسی رہنماؤں کی کلنگ بھی جاری ہے مگر پولیس مخدوش صورتحال پر قابو پانے میں ناکام اور عوام کی حفاظت کی بجائے اپنی حفاظت پر مجبور ہے تو آخر عوام کہاں جائیں کیا کریں؟ مگر اس سب کے باوجود پولیس کو ہر ممکن جدید سہولتوں سے لیس ہونا چاہیے کہ شہر اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمے داری بہر حال پولیس فورس پر ہی عائد ہوتی ہے۔
↧
نواز شریف کا تیسرا دور حکومت اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات
کسی زمانے میں میاں نواز شریف اور ان کی جماعت پا کستان پیپلز پارٹی کو اس وجہ سے غدار ِوطن قرار دیتی تھی کہ وہ ہندوستان نواز ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں ہندوستان کے وزیر ِاعظم راجیو گاندھی کی آمد پر مسلم لیگ کے سرکردہ ممبران نے اس وجہ سے طوفان کھڑا کر دیا تھا کہ وفاقی حکومت نے سڑک کے ایک کنارے سے کشمیر کا بورڈ ہٹا دیا۔ اس مبینہ واقعے کو ایک کمپین میں تبدیل کیا گیا اور ایک طویل عرصے تک اس کو بطور تیراستعمال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی پر تاک تاک کر نشانے لگائے گئے۔ کشمیر کو بزورِ شمشیر فتح کر نے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قربت کی وجہ سے مسلم لیگ ہندوستان کے بارے میں ایک خاص رویہ رکھتی تھی۔ مگر وہ زمانہ کوئی اورتھا۔ اب مسلم لیگ نواز ہندوستان کے ساتھ بھائی چارے اور ہر قیمت پر امن قائم کرنے کے فلسفے کی سب سے بڑی داعی ہے۔
شریف کیمپ میں یہ سوچ یک دم نہیں ابھری ۔ واجپائی کے ساتھ لاہور مذاکرات مسلم لیگ میں کاروباری حلقوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا ایک ثبوت بھی ہے اور وہ عنصر بھی جس نے نوازلیگ کو ہندوستان کو مار لگاؤ کے راستے سے ہٹا کر ہندوستان سے پیار کرو کے راستے پرلا کھڑا کیا ہے۔ اس مرتبہ بہرحال معاملہ صرف کاروباری اور تجارتی مراسم بڑھانے کا ہی نہیں ہے۔ نواز لیگ میں یہ سوچ جڑیں پکڑ چکی ہیں کی ہندوستان کے ساتھ بغل گیر ہو کر وہ ایسا بڑا کام کر پائیں گے جسکی کامیابی کے توسط سے دنیا میں نام بھی پیدا کریں گے اور اندرونی طور پر دیرینہ معاشی مسائل میں کمی لانے کا انتظام بھی کر لیں گے ۔ سادہ الفاظ میں میاں نواز شریف اور ان کے قریبی حلقے، پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت، معاشی کمزوری، توانائی کے بحران اور دہشت گردی جیسے درد سر کو حل کرنے کے لیے ایک ایسا رستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں جس میں وقت بھی کم صرف ہو اور نتائج بھی جلدی نکلیں۔ شریف برادران کو بتایا گیا کہ جس طرح جرمنی اور فرانس ایک دوسرے کے خلاف جنگیں لڑ لڑ کر کچھ حاصل نہ کر پائے اور آخر میں اکٹھے ہو کر نئے یورپ کی بنیاد بن گئے۔ ہندوستان اور پاکستان بھی ایسا ہی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یورپی اکٹھ کی طرح جنوبی ایشیا کا یکجا ہو جانا اس قسم کے فوائد کا باعث بن جائے گا جن سے آج کل بین الاقوامی جنگوں کا میدان ترقی کے حیرت کدہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تمام معاملات کو بھائی چارے کے ساتھ طے کرنے کا ایک اور فائدہ فیصلہ سازی کے عمل پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کا کمزور ہونا بھی ہو گا۔
فوجیں جنگوں اور تنازعات میں ضرورت سے زیادہ طاقت والا کردار اپنا لیتی ہیں۔ امن کے ماحول میں سیاست دان حتمی اور کلی طور پر طاقت کی لگام اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں گارڈین اخبار نے وزیراعلیٰ پنجاب سے متعلق چھپنے والا انٹرویو اس تناظر میں پڑھنا چاہیے۔ گارڈین اخبار نے لکھا ’’شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان میں موجود ناقابل بھروسہ حساس ادارے آزاد تجارت کی راہ میں حائل دو رکاوٹوں میں سے ایک ہیں۔ دونوں ممالک کے حساس اداروں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حفاظتی نکتہ نظر معاشی تحفظ کی بدولت ہوتا ہے۔ جب تک آپ معاشی طور پر محفوظ نہ ہوں اس وقت تک آپ کے پاس عمومی تحفظ بھی نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ کشمیر، سرحد پار پانی کے حقوق اور سیاچن جیسے مسائل صرف مذاکرات سے حل ہو سکتے ہیں۔ ہم تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ اور اس سے ہمیں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ملا۔‘‘
اگر یہ بیان وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے آیا ہوتا تو اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ شہباز شریف ظاہراً فوج کے قریب ترین ہیں۔ آرمی چیف کے ساتھ وہ اور چوہدری نثار سب سے زیادہ رابطے میں رہتے ہیں۔ فوج کو پنجاب کے فنڈز سے ترقیاتی کاموں میں سہولت جتنی شہباز شریف نے فراہم کی اس کا تصور بھی محال ہے۔ عام اور نجی ملاقاتوں میں بھی وہ خود سے اس تصور کو پروان چڑھاتے ہیں کہ بڑے بھائی تو فوج سے متعلق سخت رویہ رکھتے ہیں لیکن وہ غیر ضروری طور پر غیر لچک دار رویہ اپنانے کے قائل نہیں ہیں۔ مگر ہندوستان کے معاملے پر شہباز شریف جیسا نرم انداز رکھنے والا وزیر اعلی بھی ایسا بیان دینے سے گریز نہیں کر رہا جس کے نتائج سویلین اور اس کی قیادت کے تعلقات میں خرابی کا باعث بن سکتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے ان باتوں کی تردید کر دی ہے لیکن گارڈین کی خبر نے جو کام کرنا تھا‘ وہ کر دیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کی طرف ’’دروازہ کھول دو‘‘ پالیسی وہ معاملہ ہے جس پر نواز لیگ کی تمام قیادت ایک ہی آواز سے بولنا چاہتی ہے۔ یہ وہ کام ہے جس کو کرنے کے لیے نواز لیگ کی حکومت ہر قسم کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہو گی ۔
وفاقی حکومت اس پالیسی پر عمل درآمد کرنے کے لیے اس وجہ سے بھی مائل ہے کہ اس کے اندازوں میں آج کل سے زیادہ موافق ماحول دوبارہ دستیاب نہ ہو۔ دہلی کے ساتھ تجارت، کاروبار اور ثقافت کے رابطوں کو گہرا کرنے کے خلاف کوئی سیاسی آواز میدان میں موجود نہیں ہے۔ حتی کہ ق لیگ اور پاکستان تحریک انصاف خود نواز لیگ سے زیادہ ہندوستان کے گلے کا ہار بننے کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان کی طرف سے مشترکہ جوہری توانائی کے منصوبے کی تجویز گواہی دیتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی سرحد پار تعلقات گہرے کرنے کی خواہش پاکستان کی روایتی پالیسی پر مکمل طور پر غالب ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی ہندوستان یاترا پہلے سے ہی مشہور ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم دہلی کی زلفوں کی پرانی اسیر جماعتیں ہیں۔ باقی رہی جماعت اسلامی تو اس نے خود کو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کھڑا کر کے اپنی ساکھ اس بری طرح خراب کر لی ہے کہ اس کا اعتراض بے وزن ہو گا، عسکری قیادت کی تبدیلی کے بعد نواز لیگ کے قریبی حلقوں میں یہ اعتماد کئی گنا بڑھ گیا ہے کہ اب وہ بڑا کام کرنے کا وقت آن پہنچا ہے جس کے ذریعے میاں محمد نواز شریف تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوانے کے ساتھ ساتھ ملک میں خود کو سیاسی طور پر ناقابل تسخیر بنا پائیں گے۔ سیاسی طور پر لازوال بننے کے اس لائحہ عمل کے دو پہلو باقی ہیں‘ ایک افغانستان اور دوسرا آرمی کے ساتھ تعلقات، ان کا احاطہ اگلے کالم میں تفصیل کے ساتھ کیا جائے گا۔
↧
وزیرستان کو صوبے کی حیثیت دی جائے!
↧
Pakistan Constitution & Shariah by Ansar Abbasi
↧
↧
The Reality of Altaf Hussain by Hamid Mir
↧
بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے
سلطنت روما کے عروج و زوال کی داستان پڑھتا ہوں تو لرز جاتا ہوں اور گاہے یہ خیال آتا ہے کیا ہم اسی راستے پر تو نہیں چل پڑے جہاں تہذیب و ثقافت کے پجاریوں کی قبریں جا بجا پھیلی نظر آتی ہیں۔ روم کے بے تاج بادشاہوں کو جشن طرب برپا کرنے کے سب طریقے فرسودہ محسوس ہونے لگے اور اکتاہٹ ہونے لگی تو یکسانیت دور کرنے کے لئے ایک نئی طرح کا کلچر فروغ دینے کا منصوبہ بنایا گیا۔ مورخین یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ منفرد نوعیت کے اس اسپورٹس فیسٹیول کا نادر تخیل کس درباری نے پیش کیا تاہم جولیو کلیڈین خاندان جس نے روم پر کئی سو سال بادشاہت کی، اس کے دور حکمرانی میں گلیڈیٹر کے نام سے ایک وحشیانہ کھیل شروع کیا گیا جس کا مقصد رومی تہذیب و ثقافت کا تحفظ تھا۔
گلیڈیٹرز وہ قیدی اور غلام ہوا کرتے تھے جنہیں پالتو کتوں کی طرح پالا پوسا جاتا، کھلایا پلایا جاتا اور سالانہ فیسٹیول کے لئے تیار کیا جاتا۔ کئی ماہ پہلے اس منفرد شو کی ٹکٹیں فروخت ہوتیں اور مقررہ دن ایک بڑے میدان میں تماش بینوں کا انبوہ جمع ہو جاتا۔ بادشاہ کے درباری، امراء، رئوسا اور دیگر اشراف کے لئے اسٹیج سجایا جاتا، بادشاہ سلامت تھرکتے اجسام اور موسیقی کی دلنواز دھنوں سے نغمہ بار فضا میں تشریف لاتے اور یوں اس کھیل کو شروع کرنے کا حکم دیا جاتا۔ گلیڈیٹر جنہیں عرصہ دراز سے سدھایا گیا ہوتا، انہیں ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں آنے کا حکم ملتا۔ وہ نہایت سلیقے اور قرینے کے ساتھ منظم انداز میں بادشاہ سلامت کے چبوترے کے سامنے سے گزرتے اور سلامی پیش کرتے۔ اس کے بعد میدان کے ایک حصے میں موجود ان کچھاروں کے جنگلے کھول دیئے جاتے جن میں وحشی درندوں کو کئی دن سے بھوکا رکھا گیا ہوتا۔
شیر، چیتے، ریچھ ان سے نکلتے ہی گلیڈیٹروں پر ٹوٹ پڑتے۔ گلیڈیٹرز اپنے ہتھیاروں کے ساتھ بھوکے درندوں کا مقابلہ کرتے۔ میدان انسانوں اور حیوانوں کے خون سے بھر جاتا۔ لڑائی تب ختم ہوتی جب ان درندوں یا انہی کی طرح سدھائے گئے انسانوں میں سے کوئی ایک گروہ غالب آ جاتا۔ مورخین کا محتاط اندازہ یہ ہے کہ اس کھیل میں ہر سال کم از کم 8000 گلیڈیٹر مارے جاتے۔ جو بچ جاتے ،انہیں انعام و اکرام سے نوازا جاتا مگر اس کھیل سے باہر نہیں نکلنے دیا جاتا اور وہ اگلے سال اسی میلے میں پھر کام آ جاتے۔ جب یہ وحشی جانور گلیڈیٹروں کی تکا بوٹی کر رہے ہوتے تو تماشایئوں کی ہذیانی چیخیں اور موسیقی کا شور مل کر سماں باندھ دیتا اور بادشاہ سلامت ان مناظر سے بیحد لطف اندوز ہوتے۔
روم میں گلیڈیٹروں کا یہ کھیل کئی سو سال تک جاری رہا اور اسے روم کی ثقافت کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ یہاں تک کہ کلیڈین سلسلہ کے آخری چشم و چراغ نیرو نے اقتدار سنبھال لیا۔ نیرو کا برسراقتدار آنا بھی اقتدار کی رسہ کشی کے خود غرضانہ کھیل کا ایک عجیب موڑ تھا۔ نیرو موسیقی کا رسیا تھا،اسے کسی ناچنے والے گھر میں جنم لینا تھا مگر شاہی خاندان میں پیدا ہو گیا۔ اس لئے وہ تخت نشین ہونے کے بعد بھی باقاعدہ ناچتا گاتا اور اپنے درباریوں سے داد وصول کرتا۔ اس کی ماں ایپرپینا نے اپنے شوہر کو زہر دے دیا تاکہ نیرو بادشاہت کا حقدار بن سکے۔ اس کے چچا کلاڈیئس نے اپنے بھتیجے نیرو کو تخت و تاج کا وارث نامزد کر دیا لیکن یہ شخص ایسا احسان فراموش اور مطلبی نکلا کہ اس نے تخت نشین ہوتے ہی سب سے پہلے انہیں ٹھکانے لگایا جن کی وجہ سے اسے اقتدار نصیب ہوا۔
پہلے اس نے اپنے محسن چچا کے بیٹے کو مروایا اور پھر ماں کو قتل کر دیا۔ اپنی ایک بیوی کو اس نے تب لات مار کر ہلاک کر دیا جب وہ حاملہ تھی۔اسے جب جو لڑکی پسند آتی، اس کے شوہر کو قید میں ڈال کر اپنے پاس رکھ لیتا۔ ناول نگار Gaius Suetonius کو رومی تاریخ کا سب سے معتبر حوالہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنے ناول The twelve ceasre میں نیرو کی خباثت بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جب نیرو کا دل شادیوں سے بھر گیا تو اس نے جی بہلانے کے لئے ایک نئی ترکیب سوچی ، وہ اپنے سپاہیوں کے ذریعے انتہائی پاکباز و پاکدامن کنواری لڑکیوں کی کھوج لگواتا،انہیں اپنے کارندے بھیج کر زبردستی اٹھواتا اور اپنے جنسی درندوں کے حوالے کر دیتا تاکہ وہ اجتماعی آبروریزی کا شوق پورا کر سکیں۔ جب درندگی کا یہ کھیل شروع ہوتا اور مظلوم لڑکیوں کی دلدوز چیخوں سے زمین ہل رہی ہوتی تو یہ نفسیاتی مریض حظ اُٹھاتا اور اپنے جذبات کی تسکین کرتا۔ اقتدار کے آخری ایام میں اس نے ایک اور خباثت یہ کی کہ ایک انتہائی حسین و جمیل لڑکے کو عمل اخصاء کے ذریعے نا مرد کیا اور دلہن بنانے کے بعد زندگی بھر اپنے پاس رکھا۔ ایک مرتبہ جب نیرو کے دوست اور آرمینیا کے شہنشاہ ٹریدیٹس نے روم کی سیر کو آنا تھا تو نیرو نے گلیڈیٹرز کے کھیل میں جدت پیدا کرنے کے لئے اس میں گلیڈیٹر عورتوں کا اضافہ کر دیا اور مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی وحشی درندوں کے درمیان چھوڑ دیا گیا۔
ایک جملہ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ 64 قبل مسیح روم میں شدید آگ لگی جس میں دارالسلطنت کے دوتہائی علاقے جل کر راکھ ہو گئے اور ہزاروں انسان زندہ جل گئے۔جب روم جل رہا تھا تو نیرو 53میل دور واقع اپنے محل کی ایک پہاڑی پر بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ چونکہ نیرو عیاش اور اذیت پسند تھا لہٰذا یہ آگ اس نے خود لگوائی تاکہ جلتے مرتے لوگوں کی دلدوز چیخوں سے محظوظ ہو سکے۔ کسی شاعر نے ایسے حکمرانوں کی کیا خوب عکاسی کی ہے:
لگا کر آگ شہر کو بادشاہ نے کہا
اُٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت
جھکا کر سر سبھی شاہ پرست بولے حضور!
شوق سلامت رہے شہر اور بہت
جب سندھی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لئے موئن جو دڑو میں ہنگامہ برپا تھا اور کسی نے آثار قدیمہ کو نقصان پہنچنے کی بات کی تو جیالے سیخ پا ہو گئے اور میں محولہ بالا اشعار گنگناتا رہ گیا۔ میلوں ٹھیلوں کے ذریعے عوام کو رام کرنے اور لبھانے کی ریت تو بہت پرانی ہے۔ سندھی ثقافت کے نام پر تو یہ ناٹک پہلی بار ہوا مگر پنجابی اور پختون ثقافت کے نام پر تو اس طرح کی تقریبات ہوتی رہتی ہیں۔ اس تقریب کی خبر تو نمایاں طور پر شائع ہوئی مگر ایک چھوٹی سی خبر کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ خبر یہ تھی کہ اس تقریب سے واپس جانے والے انجیئنروں کو ڈاکوئوں نے لوٹ لیا...کیونکہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔ جب بھوکے ننگے روم کے شہریوں نے نیرو کے خلاف بغاوت کی تو اس تہذیب و ثقافت کا بھی جنازہ نکل گیا۔ نیرو کو معلوم تھا کہ لوگ اس کی تکا بوٹی کر دیں گے اس لئے اس نے محض 31 سال کی عمر میں خودکشی کر لی۔
جس طرح ایک شہزادے نے ثقافت کے نام پر لوگوں کی غربت کا مذاق اُڑایا، ویسے ہی ایک اور شہزادے نے اسپورٹس فیسٹیول رچایا اور سب سے بڑا قومی پرچم بنانے کا اعزاز پایا۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کرانے والوں کو کیا معلوم کہ ان کا نام تاریخ کی کتابوں میں بھی لکھا جا چکا۔شنید ہے کہ اب بسنت منانے کی تیاریاں بھی پورے زور شور سے جاری ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ثقافت کے نام پر میرے ہم وطنوں کی غربت کا مذاق اُڑایا جائے گا۔ نہ جانے کیوں ایسے میلوں ٹھیلوں اور فیسٹیولزکو منعقد ہوتا دیکھ کر مجھے سندھ اور پنجاب کے شہزادوں پر ترس آتا ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔
محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ 'جنگ '
↧
Jamshed Dasti
Jamshed Ahmad Khan Dasti is a Pakistanipolitician who serves as the Member of National Assembly representing Muzaffargarh, Punjab.[1] Starting his political career from Pakistan People's Party he resigned from the party on 16 March 2013 and also from membership and National Assembly. He later announced contesting election as an independent candidate. He got overwhelming majority in NA-177 Muazaffargarh-II and NA-178 Muazaffargarh-III in 2013 election in which he defeated the influential family of Hina Rabbani Khar.[2] Popularly known for being the poorest parliamentarian in the country, Dasti declined offer to join the victories party Pakistan Muslim League after elections and decided to remain independent member. He voted for Nawaz Sharif for the slot of premier. [3]
On 4th April 2013 Dasti was sentenced to 3 years in prison and 5000 Rupees fine for presenting a fake degree and breaching the public representation eligibility. Following the court verdict he was arrested from outside the courtroom. On foreseeing the court verdict he announced his decision of not contesting in the general elections of 2013 a day earlier the court announced the verdict. On 10 April 2013, the Multan bench of Lahore High Court heard Mr Dasti's appeal setting aside all laws, overturned his conviction of 3 years and 5000 Rs fine hence paving the way for him to contest the 2013 elections. Jamshed Dasti was elected in National Assembly for next five years. Dasti contested general 2013 elections as an independent candidate from two constituencies NA-177 (Muzaffargarh-II) and NA-178 (Muzaffargarh-III and won both seats,[4] defeating Ghulam Noor Rabbani Khar and Nawabzada Mansoor. Dasti however revolted against People's Party, and in the party's stronghold he won two seats, he has subsequently aligned with the Pakistan Tehreek-e-Insaf in the National Assembly and on national issues such as US drone strikes where he was present at Imran Khan's rally [5]
↧
Pakistanis set new world records
پاکستان میں ان دنوں عالمی ریکارڈ بنانے کی دوڑ جاری ہے۔ علوم و فنون کو تو چونکہ یہاں سے عرصہ ہوا دیس نکالا مل چکا ہے، اس لیے اب ایسے میدان میں ریکارڈ ز بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جن کی جانب دنیا کی توجہ ہی نہیں، نہ ان کے پاس اس دردِ سر کے لیے کوئی وقت ہے۔ دنیا کا سب سے طویل انسانی پرچم بنانے کا ریکارڈ اس سے پہلے بنگلہ دیش کے پاس تھا۔ ایک اور بھوکا ننگا ملک جس نے قوم پرستی کے نام پر علیحدگی اختیار کی لیکن آج بھی اپنے عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ ہندوستان ہو، بنگلہ دیش یا پاکستان، اس خطے میں ان کا مقابلہ حب الوطنی کے میدان میں ہوتا ہے، جو ہمہ وقت خطرے سے دوچار ہوتی ہے۔ ان ملکوں نے کبھی علم کے میدان میں ریکارڈ بنانے کی کوشش نہ کی۔ اب آپ یہ مت بتائیے کہ پاکستانی طالب علموں نے آکسفورڈ اور کیمبرج جیسے اداروں سے او لیول میں سب سے زیادہ اے پلس لینے کا ریکارڈ بھی بنا رکھا ہے، یا دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی ماہر بچی بھی یہیں پائی گئی تھی۔ بلاشبہ ایسے بیسیوں واقعات یہاں بکھرے پکڑے ہیں، کئی ایسے بھی ہوں گے جو ابھی تک میڈیا کی نظروں میں نہ آئے ہوں، لیکن یہ مت بھولیے کہ یہ سب انفرادی کاوشیں ہیں، ان میں کہیں بھی ریاست کی پشت پناہی آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ اپنے میدانِ عمل میں نام کرنے والے یہ وہ گنے چنے افراد ہوں گے جنہوں نے موجودہ نظام سے ہٹ کر اپنی راہ چنی ہو گی۔ ورنہ ریاست نے جس طرح کا تعلیمی، معاشی اور سماجی نظام ترتیب دے رکھا ہے، وہاں صرف حب الوطنی کے نام پر خالی دماغ لوگ ہی پیدا ہو سکتے ہیں، عالی دماغ جوان نہیں۔
گنیز بک آف ریکارڈ کی ٹیم اگر ذرا بھی غیر جانبدار ہوتی تو پاکستان کو دنیا کا طویل ترین انسانی پرچم بنانے والے ملک کا ریکارڈ قائم کرنے والے سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ اس کا یہ اعزاز بھی اپنی ریکارڈ بک میں لکھ لیتی کہ دنیا کا طویل ترین انسانی پرچم بنانے والے ملک کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسی ملک کے ایک حصے میں یہی سبز ہلالی پرچم لہرانا جرم بن چکا ہے۔ سرکاری اداروں سے لے کر نجی اداروں تک میں کہیں بھی یہ پرچم نہیں لہرایا جا سکتا۔ ساتھ ہی قومی ترانہ پڑھنے کا ریکارڈ بنانے والوں کو یہ بھی بتا دیجیے کہ اسی ملک کے ایک حصے میں جہاں دنیا کا طویل ترین انسانی پرچم لہرایا نہیں جا سکتا، وہاں یہ قومی ترانہ بھی نہیں پڑھا جا سکتا۔ اسے بھی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کروا لیجیے۔ پاکستان کے نام ایک اور عالمی ریکارڈ میں اضافہ ہو جائے گا ۔
اور جب صرف گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں اپنے نام کا اضافہ ہی مقصود ہے تو پھر لاپتہ افراد کے لواحقین کے لانگ مارچ کو بھی یاد رکھیے۔ کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک پیدل چلنے والا چند افراد کا یہ لانگ مارچ اب دنیا کا طویل ترین لانگ مارچ بن چکا ہے۔ فاصلے کے لحاظ سے اس نے چیئرمین ماؤ کے مشہورِ زمانہ لانگ مارچ کو بھی مات دے دی ہے۔ کیوں نہ لگے ہاتھوں اسے بھی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرا لیں۔ ساتھ ہی ملک کے آزاد میڈیا نے جس طرح اس سے چشم پوشی اختیار کیے رکھی ہے، وہ بھی کسی ورلڈ ریکارڈ سے کم نہیں۔ ملکی سلامتی کو درپیش ایک انتہائی حساس مسئلے پر جس طرح میڈیا نے خاموشی اختیار کی، اور چار ماہ تک ایک منٹ کی یا سنگل کالم خبر نہ چھاپی ہو، ایسا شاید ہی دنیا میں کہیں ہوا ہو۔ یہ اپنے تئیں ایک بہت بڑا ریکارڈ ہے ۔ بالخصوص ایک ایسے ملک میں جہاں میڈیا ہمہ وقت اپنی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹتا رہے۔ اور جب دنیا کا طویل ترین لانگ مارچ پنجاب جیسی گنجان آبادی سے ہو کر گزرا ہو۔ اس ریکارڈ میں سیاسی جماعتوں کی خاموشی کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ وہ جماعتیں جو آزادیِ اظہار کے لیے ہر وقت چیختی چلاتی رہتی ہیں، لیکن اس طویل ترین لانگ مارچ میں نہ صرف یہ کہ شامل نہ ہوئیں ، بلکہ بڑی مہارت سے کنی کترا گئیں اور خود کو اس سے دور رکھا۔
اسی طرح عالمی ریکارڈ کے خانے میں لاپتہ افراد کے حوالے سے پاکستان کے نام ایک اور اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز کے مطابق پچھلی ایک دہائی کے دوران بلوچستان سے لاپتہ کیے گئے افراد کی تعداد سولہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ دنیا کے کسی بھی ملک میں لاپتہ ہونے والے افراد کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ کسی بھی ایمسرجینسی میں اتنی بڑی تعداد میں افراد لاپتہ نہیں ہوئے یا نہیں کیے گئے۔ گو کہ کہ حکومتی ذرایع اور خفیہ اداروں کے حکام اس تعداد کو ہمیشہ مسترد کرتے رہے ہیں، تاہم بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی یہ وہ تعداد ہے، جن کے تمام کوائف اور حقائق ان کے پاس موجود ہیں۔ جن تک وہ اب تک نہیں پہنچ پائے، ان کا قصہ الگ ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے خود بلوچستان سے نو سو ایسے افراد کی گمشدگی تسلیم کی جنھیں خفیہ ادارے شک کی بنیاد پر لے گئے، اور پھر ان کا کوئی اتہ پتہ نہ رہا۔ جب کہ معاملہ تعداد کا نہیں، اس عمل کا ہے جو بنیادی طور پر غیرقانونی اور غیرآئینی ہے۔ ابھی حال ہی میں خضدار کے علاقے توتک سے مسخ شدہ لاشوں کی اجتماعی قبروں کی نشاندہی ہوئی، تو ایک بار پھر ہمیں اس بحث میں ڈال دیا گیا کہ برآمد ہونے والی لاشوں کی حقیقی تعداد کہیں زیادہ تھی، سرکار نے اصل تعداد چھپا دی۔ حالانکہ سوال یہ نہیں کہ کتنے لوگ لاپتہ ہوئے یا کتنوں کی لاش مسخ کی گئی، سوال یہ ہے کہ اگر ایک بھی شہری غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا، لاپتہ کیا گیا یا ماورائے عدالت قتل کیا گیا، تو ریاست مکمل طور پر اس کی ذمے دار ہے ۔ اس کا فرض بنتا ہے کہ ان اداروں اور اہلکاروں کو تلاش کرے، ان تک پہنچے اور ان سے باز پرس کرے۔ باقی کوئی شخص اگر ریاست کا باغی ہے، تو آئین میں اس سے نمٹنے کا طریقہ کار درج ہے۔ ایسے افراد کو گرفتار کر کے اعلیٰ عدالتوں میں پیش کیا جائے اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ جیسے اگر ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں کوئی مارا جاتا ہے، تو اس کا کوئی حساب نہیں لیا جاتا۔ لیکن محض شک کی بنیاد پر (یا خواہ ثبوت کی موجودگی میں بھی) کسی بھی شہری کو غیرآئینی و غیر قانونی طور پر لاپتہ کر دینا، ماورائے عدالت قتل کر کے اس کی لاش کو مسخ کر کے پھینکنا اتنا ہی سنگین جرم ہے جتنا کہ ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کا جرم ۔
اور اگر ان واقعات میں ملوث افراد کو سزا دینا ممکن نہیں تو پھر ذرا سی ہمت کر کے اسے بھی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں لکھوا لیجیے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے، جہاں آئین و قانون کے ہوتے ہوئے محض شک کی بنیاد پر کسی بھی شخص کو اٹھایا، لاپتہ کیا ، اور مار کے پھینکا جا سکتا ہے۔ جنگ تو ختم ہو نہیں رہی، ملک کے نام ایک اور عالمی ریکارڈ میں اضافہ سہی۔
Pakistanis set new world records
↧
↧
لاپتہ افراد اور لانگ مارچ
ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں 10 عورتوں اور بچوں نے کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک 5 ماہ پیدل مارچ کر کے لاپتہ افراد کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر اجاگر کر دیا۔ یوں دنیا میں رائے عامہ کو آگاہ کرنے کے لیے ہونے والے لانگ مارچ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ تاریخ میں چین کے چیئرمین ماؤزے تنگ اور مہاتما گاندھی کے لانگ مارچ مشہور ہیں۔ چیئرمین ماؤزے تنگ کی قیادت میں 16 اکتوبر 1934ء سے اکتوبر 1935ء تک سیکڑوں کمیونسٹوں کے ساتھ کئی ہزار میل تک مارچ کیا تھا۔ یہ مارچ دراصل چیئرمین ماؤ کی قیادت میں منظم ہونے والی پیپلز آرمی کا لانگ مارچ تھاجس میں جیپوں اور گاڑیوں کے ساتھ دشمن کو دھوکا دینے کی حکمت عملی کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کو متحرک کیا گیا تھا ۔
مہاتما گاندھی نے نمک تحریک کے دوران لانگ مارچ کیا اور ہندوستان کے گاؤں گاؤں میں آزادی کی تحریک پہنچ گئی۔ 72 سالہ قدیر بلوچ کوئٹہ میں ایک بینک کی ملازمت سے 2011ء میں ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایک دن ان کا بیٹا جلیل ریکی لاپتہ ہوا، اس وقت جلیل ریکی کا ایک بیٹا 2 سال کا تھا جس کے دل میں سوراخ تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ بیمار بیٹے کے سامنے کوئی ایسی بات نہ کی جائے کہ اس کا دل متاثر ہو۔ قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد انھیں تقسیم ہونے والی جمہوری وطن پارٹی کے ایک دھڑے بلوچ ری پبلکن پارٹی کا سیکریٹری جنرل بننے کی پیشکش ہوئی تھی مگر جلیل ریکی کو پڑھنے لکھنے کا شوق تھا اس بناء پر وہ پارٹی کا سیکریٹری اطلاعات بننے پر تیار ہوا۔
ایک دن دو پک اپ اور بغیر نمبر پلیٹ کی دو کاروں میں سوارسادہ پوش سرکاری اہلکار اس کو گرفتار کرنے پہنچ گئے۔ جلیل نماز جمعہ پڑھ کر لوٹ رہا تھا ایجنسیوں کے اہلکار اس کو پکڑنے آ گئے، جلیل نے فرار ہونے کی کوشش کی مگر اس کو گولی مارنے کی دھمکی دی گئی یوں جلیل لاپتہ قبیلے کا حصہ بن گیا۔ جلیل ایک سال تک لاپتہ رہا بس ایک بار ہی اپنے خاندان سے رابطہ ہوا یہ عید کا موقع تھا کہ جلیل کے گھر کے فون پر ایک کال آئی کہ ایک مخصوص نمبر پر ہزار روپے کا بیلنس ڈلوایا جائے پھر رات گئے جلیل کی کال آئی۔ جلیل نے کہا کہ یہ نمبر کسی کونہ بتایا جائے جلیل نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ کسی سے رہائی کی بھیک نہ مانگی جائے پھر قدیر بلوچ نے جلیل کی رہائی کے لیے کوششیں شروع کی اس نے مقدمات درج کرانے کے لیے درخواستیں دی، لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کرنے والے کمیشن کے سامنے پیش ہوا، ایک موقع پر ایک افسر نے اس کے بڑھاپے کا احساس کرتے ہوئے کہا کہ جلیل صرف سیاسی کارکن ہے تو وہ رہا ہو جائے گا۔ یوں قدیر بلوچ نے میڈیا سے روابط بڑھائے اور لاپتہ افراد کے لواحقین کو منظم کرنے کا کام شروع کر دیا پھر کسی نے بلوچی چینل وش ٹی وی پر نشر ہونے والی خبر کی اطلاع دی، اس خبر سے جلیل ریکی کی لاش تربت سے ملنے کی اطلاع ملی، تربت کے اسسٹنٹ کمشنر نے فون کیا اور لاش کی تدفین کے بارے میں پوچھا۔ قدیر بلوچ نے سرکاری افسر کو تدفین سے منع کیا یوں قدیر بلوچ نے ایک ایمبولینس کا انتظا م کیا جلیل کی لاش گھر لائی گئی اس کا ایک ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا اور دل کے قریب دو اور دل میں ایک گولی ماری گئی تھی۔
قدیر نے رشتے داروں کے منع کرنے کے باوجود اپنے پوتے کو اس کے باپ کی لاش دکھا دی پھر پوتے کو ہر بات بتا دی یوں قدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے باقاعدہ تحریک شروع کی۔ قدیر بلوچ کی قیادت میں پیدل مارچ کرنے والوں میں ایک نوجوان لڑکی فرزانہ مجید بلوچ سب سے زیادہ متحرک تھی۔ فرزانہ نے بلوچستان یونیورسٹی سے بائیوکیمسٹری میں ایم ایس سی کرنے کے بعد ایم فل پروگرام میں داخلہ لے رکھا تھا۔ فرزانہ مجید کا بھائی ذاکر مجید ایم اے انگلش پروگرام کا طالب علم تھا وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کا نائب صدر تھا۔ ذاکر اپنے چند دوستوں کے ساتھ مستونگ سے لوٹ رہا تھا کہ ایک ساتھ کئی گاڑیوں نے انھیں روک لیا۔ ذاکر مجید کے دوستوں نے اس کی بہن فرزانہ کو بتایا تھا کہ ذاکر کو اٹھاتے ہی اس کے دوستوں کو رہا کر دیا گیا۔ فرزانہ اپنے بھائی کے لاپتہ ہونے کی خبر ٹی وی پر نشر کرائی پھر انسانی حقوق کمیشن کے خضدار کے نمایندے سے رابطہ کیا اور تھانے میں ایف آئی آر در ج کرائی مگر بیمار ماں کو کچھ نہیں بتایا مگر پھر ماں کو پتہ چل ہی گیا وہ دعاؤں میں لگ گئی۔ ذاکر سیاسی کارکن تھا اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف تھا اور کئی دفعہ گرفتار ہوا تھا مگر ہمیشہ عدالت رہا کر دیتی تھی پھر 2011ء میں بلوچستان میں لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ فرزانہ مجید نے وائس فار مسنگ پرسنز کے رہنما قدیر بلوچ کے ساتھ مل کر لاپتہ افراد کے لواحقین کو منظم کرنا شروع کیا، سپریم کورٹ کے جج جسٹس جاوید اقبال نے لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت شروع کی، انھوں نے بہت سے خاندانوں سے وعدے کیے جو کبھی پورے نہیں ہوئے۔ فرزانہ نے پہلے اسلا م آباد میں احتجاجی کیمپ لگایا تھا پھر اسے دھمکی آمیز فون آنے لگے کہ اسلام آباد کا کیمپ بند کر دیں یا ذاکر مجید کو بھول جاؤ۔ وہ خوفزدہ نہیں ہوئی اور اسلام آباد کے بعد کراچی میں احتجاجی کیمپ لگایا مگر بھائی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔
اس احتجاجی مارچ میں 10سالہ حیدر بلوچ بھی شامل ہے اس کے والد ایک مزدور رمضان بلوچ عرصہ دراز سے لاپتہ ہیں۔ علی بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بہن کے ساتھ اس مارچ میں شریک ہے۔ اس مارچ کے شرکاء نے سخت سردی کے باوجود پیدل لانگ مارچ کیا اس کو موسم کی سختیوں کے ساتھ پولیس خفیہ ایجنسیوں اور شدت پسند گروہوں کو برداشت کرنا پڑا ۔ کوئٹہ سے کراچی تک ہر شہر میں لوگوںنے ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بھرپور ساتھ دیا جب یہ لانگ مارچ خضدار پہنچا تو سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے مارچ کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ حب کے قریب ماما قدیر بلوچ پر قاتلانہ حملے کی کوشش کی گئی، لانگ مارچ کے لیاری پہنچنے سے پہلے وہاں گینگ وار تیز کر دی گئی یوں لیاری کے عوام قدیر بلوچ اور ان کے ساتھیوں سے یکجہتی کے اظہار سے محروم رہے۔ پھر بھی چاکیواڑہ چوک پر لوگ جمع ہوئے اس طرح کراچی پریس کلب کے سامنے بہت بڑا جلسہ ہوا، اور لانگ مارچ کے شرکاء کئی دن تک احتجاجی کیمپ میں بیٹھے رہے۔ اندرون سندھ ہر شہر میں لوگوں نے لانگ مارچ کے شرکاء کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ پنجاب میں بائیں بازو کے کارکنوں غیر سرکاری تنظیموں خاص طور پر انسانی حقوق کے کارکن ان کے استقبا ل کے لیے موجود رہے۔ کئی شہروں میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے جلوس کے شرکاء کو ہراساں کرنے کی کوشش کی مگر قدیر بلوچ اور ان کی ساتھی خواتین اور بچوں کے عزم میں کمی نہ آئی ان لوگوں نے اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے دھرنا دے کر لاپتہ افراد کے مسئلے کو اجاگر کیا۔ لاپتہ افراد کا معاملہ 14برس سے موضوع بحث ہے۔
پرویز مشرف کی حکومت نے سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تحریک چلانے والی انجمن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد 5 ہزار کے قریب ہے جب کہ بارہ سو افراد کی لاشیں مل چکی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے ہمیشہ لاپتہ افراد کی بازیابی پر زور دیا مگر اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے معاملے میں غیر متحرک ہو گئے ہیں ان کی حکومت نے تحفظ پاکستان قانون کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ میاں نواز شریف کے دور میں نوٹک کے مقام پر اجتماعی طور پر دفن کی جانے والی لاشیں برآمد ہوئی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک نے ملزمان کی نشاندہی کی مگر کچھ نہ ہوا، اور نہ ہی صوبائی حکومت کی پورے صوبے میں رٹ قائم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے یوں لاپتہ افراد کا معاملہ ابھی تک حل نہ ہو سکا۔ ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں لانگ مارچ کے ذریعے عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی، رائے عامہ کی تبدیلی سے بلوچستان کے عوام کا وفاق پر اعتماد قائم ہو گا ۔ اگر اسٹیبلشمنٹ نے اس لانگ مارچ کے مطالبات تسلیم نہیں کیے تو اس کا سارا فائدہ علیحدگی پسندوں کو ہو گا۔ بعض سینئر تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ماما قدیر بلوچ کے لانگ مارچ کا اختتام اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے ہو رہا ہے اگر اب بھی اسٹیبلشمنٹ نے توجہ نہ دی تو ایسا نہ ہو کہ مستقبل میں یہ مارچ نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر کے سامنے ہو۔ ماما قدیر بلوچ کی اس جدوجہد سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے وفاق کو بچایا جا سکتا ہے فیصلہ وفاقی حکومت اور بڑے صوبوں کو کرنا ہے۔
↧
Geo News reporter Wali Babar murder case : Two sentenced to death
↧
سعودی عرب سے ہماری سرد مہری پر کف افسوس
میں رجائیت پسند ہوں ، مجھے سب اچھا نظر آتا ہے، سعودی ولی عہد شہزادہ سلیمان بن عبد العزیز پاکستان آئے، میرا دل بلیوں اچھلنے لگاا ور میرے قلم سے محبت کے زمزمے بہہ نکلے ، مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ پاکستان نے دفاعی ساز و سامان کی فراہمی کے لئے معزز مہمان کی درخواست کو شرف قبولیت نہیں بخشا۔ میں اب بھی سوچتا ہوں کہ کاش! یہ منحوس خبر غلط ہو مگر میں نے پاکستان کے اعلی حکومتی عہدیداروں کے بیانات پڑھے ہیں کہ ہم شام کے مسئلے پر سعودی عرب کا ساتھ نہیں دے سکتے۔عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے طیارہ شکن ہتھیار مانگے ہیں، انہی ذرائع کے مطابق یہ اسلحہ شامی مجاہدین نے بشار الا سد کی فضائیہ کے خلاف اپنے دفاع میں استعمال کرنا تھا مگر پاکستان کو خدشہ ہے کہ یہ اسلحہ طالبان کے ہاتھ لگ سکتا ہے جو با لآخر پاک فضائیہ کے خلاف استعمال ہو گا، اس لئے یہ سودا نہیں ہوا۔
میری اقتدار کے ایوانوں تک کوئی رسائی نہیں، حقیقت حال تک پہنچنا میرے لئے قطعی نا ممکن ہے ، میرا تبصرہ صرف سنی سنائی باتوں تک محدود ہو گا ، مگر یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں کہ سعودی ولی عہد کو دو روز قبل26 فروری کو بھارت جانا پڑا جہاں ایئر پورٹ پر انکا استقبال بھارت کے نائب صدر محمد حامد انصاری نے کیا۔ بھارت اور سعودی عرب کی باہمی تجارت پچھلے چار سال میں دوگنا ہو چکی ، اب اس کا حجم 44 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کے ساتھ یہ تجارت 5 ارب ڈالر سے بھی نہیں بڑھ سکی۔ اس کی وجہ زرداری کا دور حکومت ہے جب پاک سعودی تعلقات نقطہ انجماد کو چھو رہے تھے۔ مگر اب ایک سال سے شریف برادران کادور دورہ ہے، وہ چین ، جرمنی،ترکی، امریکہ اور برطانیہ کے دورے پر دورے کر رہے ہیں مگر جو ملک ان کی غریب الوطنی کے دور میں کام آیا، وہ ان کی ترجیحات میں سر فہرست نظر نہیں آتا۔ شریف برادران کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہت جلد اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں۔ میں بتا نہیں سکتا کہ ادارہ نوائے وقت کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے مگر سعودی عرب نے تو ان کو شاہی محلات پیش کئے، اسٹیل مل لگانے کی اجازت دی۔ سپر اسٹور کھولنے اور چلانے کے لائسنس دیئے اور علاج کے لئے لندن جانے کی بھی اجازت دی حالانکہ یہ جلاوطنی کے معاہدے کی خلاف ورزی تھی ۔
پاکستان کے معاملات عوام کے ہاتھ میں ہیں، شریف برادران اس اختیار کو ہائی جیک نہیں کر سکتے، زرداری نے اس اختیار کو ہائی جیک کیا اور پاکستان کو اس کے عزیز ترین دوست سعودی عرب سے دور کر دیا۔ پاکستانی عوام کو حرمین شریفین سے عقیدت ہے، وہ اس پر جانیں نچھاور کرنے کو تیار ہیں، پہلی خلیجی جنگ میں پاکستان نے اپنی فوج سعودی دفاع کے لئے بھیجی، سعودی فوج کی ٹریننگ کے لئے بھی ایک پروگرام جاری ہے، سعودی محبتوں کی بھی کوئی انتہا نہیں، بھارت نے جب بھی پاکستان کے خلاف جارحیت کی تو سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دینے کا حق ادا کر دیا۔ سعودی عرب نے بنگلہ دیش کی علیحدگی کی مخالفت کی۔ کشمیر پر ہمیشہ پاکستان کے موقف کی حمائت کی، شاہ فیصل نے بادشاہی مسجد میں آنسووں کی زبان میں کشمیر کی آزادی کے لئے دعا مانگی، پاکستان نے لائل پور کو فیصل آباد کانام دے کر شاہ فیصل سے اپنی گہری عقیدت کا ثبوت فراہم کیا، اسلام آباد کے افق پر شاہ فیصل مسجد کے بلندو بالا مینار دونوں ملکوں کے تعلقات کی معراج کا روشن منظر نامہ ہیں۔ اقوام متحدہ اور اسلامی کانفرنس میں دونوں ملک یکساں سوچ کے ساتھ چلتے ہیں۔
تو پھر شام اور ایران کے مسئلے پر پاکستان نے سعودی عرب سے دوری کیوں اختیار کر لی ہے،اور وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب امریکہ نے سعودی عرب سے فاصلے بڑھا لئے ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو خطے کے دوسرے ممالک کی دوستی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ سعودی عرب نے احتجاج کے طور پر سلامتی کونسل کی سیٹ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ کیا پاکستان کے رویے سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ہم امریکی خوشنودی میں اپنے عزیز تریں دوست اور حرمین شریفین کی خادم حکومت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ کاش! میری سوچ اور میرا تجزیہ غلط نکلے اور حقیقت میں پاک سعودی دوری کا شائبہ تک نہ ہو لیکن یہ سب کچھ ہمارے کردار اور ہماری پالیسیوں سے ہویدا ہونا چاہئے۔آخر سعودی ولی عہد کو نئی دہلی کیوں جانا پڑا ، یہ بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب نواز شریف تو نہیں دیں گے لیکن مجھے اپنے بھائیوں جیسے دوست سرتاج عزیز سے یہ توقع ضرور ہے کہ وہ عوام کے ذہنوںمیں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کریں گے۔
شام کا مسئلہ کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی حکومت کو بیرونی مداخلت سے ختم نہیں کرنا چاہئے مگر آج کی دنیا نے عرب بہار کا خیر مقدم کیا،ہم نے بھی کیا، تیونس میں ، سوڈان میں ، لیبیا میں ،مصر میں، تبدیلیوں کا کھلے بازووں سے استقبال کیا۔ہم نے اپنے فوجی آمر جنرل مشرف کو بھی چلتا کیا۔ شام میں بشار الا سد کو حکومت ورثے میں ملی، اس کے باپ حافظ الاسد نے اقتدار پر شب خون مارا، یہ ایک فوجی انقلاب تھا، مصر میں ناصر نے اقتدار چھینا اور عوام کا جینا دو بھر کر دیا، شام میں حافظ الاسد نے عوام کو اپنی طویل آمریت کے شکنجے میں جکڑے رکھا، پھر اس کے بیٹے نے اس آمریت کو دوام بخشا، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا اور اگر سعودی عرب ان مظلوم عوام کا ساتھ دے رہا ہے تو کونسا گناہ کر رہا ہے۔
ایک طرف سے امریکہ نے ایٹمی ایران سے دوستی کی خاطر سعودی عرب سے دوری اختیار کر لی، دوسری طرف روسی صدر پوتن نے دھمکی دی کہ روسی افواج سعودی عرب کو جارحیت کا نشانہ بنائیں گی۔ یہ پچھلے سال اگست کی بات ہے اور چھ ماہ بعد سعودی ولی عہد ہم سے مدد چاہنے کے لئے آئے اور اگرہم نے ان کو خالی ہاتھ لوٹا دیا ہے تو تف ہے ہمارے ان ایٹمی ڈھیروں پر جو پہاڑوں کی غاروں میں پڑے گل سڑ رہے ہیں۔ یہ ایٹم بم حرمین شریفین کی حفاظت اور حرمت پر قربان نہیں ہو سکتے تو میری طرف سے ان میں کیڑے پڑ جائیں۔
ہم نے ایٹمی دھماکوں کے بعد مفت سعودی تیل کے مزے اڑائے، افغان مجاہدین کی دیکھ بھال کا مسئلہ ہو، زلزلے کی تباہی یا سیلاب کی قیامت ، ہر وقت سعودی عرب پیش پیش۔ سعودی عرب میں ہمارے پاکستانی بھائیوں کی ترسیلات، اوور سیز پاکستانیوں کی کل ترسیلات کا تیس فیصد ہیں، یہی زر مبادلہ ہماری معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔
اسے کہتے ہیں جس تھالی میں کھانا ، اسی میں چھید کرنا۔
شریف برادران براہ کرم اپنے محسنوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کریں۔ یہ ان کی ذات ہی کے محسن نہیں ، پورے پاکستانیوں کے محسن ہیں، انڈو نیشیا سے بوسنیا تک پورے عالم ا سلام کے محسن ہیں، میں کبھی بتاﺅں گا کہ بوسنیا کے لئے بظاہر سعودی حج پروازوں میں کیا کچھ جاتا رہا۔ سی ون تھرٹی کی ان پروازوں نے بوسنیا کی آزادی کی بنیاد رکھی۔ آج سعودیہ کی ضرورت ہے۔ ان کی ضرورت کے وقت ان کا ہاتھ مت جھٹکیں۔
اسد اللہ غالب
بشکریہ روزنامہ "نوائے وقت"
↧
Mama Qadeer Baloch
Abdul Qadeer Baloch, aged 72, and 11-year old Ali Haider Baloch are not aware that they have made history.This old man and young boy have travelled more than 2,000 kilometers on foot along with a group of Baloch women and men on their way from Quetta to Islamabad.The purpose of their non-violent long march was to raise voice against enforced disappearances in Balochistan. They broke the 84-year-old record of Mahatma Gandhi who traveled for 390 kilometers on foot from Ahmadabad to Dandi as part of his famous salt march.
When Mahatma Gandhi started his march to protest against the salt laws of British Government in the colonial India he was 61 years old in 1930. The youngest among the first 80 marchers with Gandhi was 18 years old. Gandhi opposed unjustified taxes on the production of salt and started disobedience by making salt himself. Chinese leader Mao Zedong also started a long march in 1934 but this long march was actually a military retreat undertaken by the red army of Communist Party.
There was no single long march but a series of marches because various parts of the red army in the south China escaped to the north and the west. The red army of 41 years old Mao Zedong regrouped and then attacked Kuomintang. This long march was part of a military strategy. It was not a political long march.
The word long march was used and abused by many politicians after Mahatma Gandhi and Mao Zedong but nobody traveled on foot. Most of the politicians used vehicles in their long marches.
Late Benazir Bhutto even took a rail ride in her long march from Lahore to Islamabad against Nawaz Sharif government in 1992. She called off the long march near Wazirabad when she was informed that President Ghulam Ishaq Khan had decided to demand resignation from Prime Minister Nawaz Sharif. Again Nawaz Sharif also used the word long march in his Tehreek-e-Najat against Benazir Bhutto government in 1994.
The word long march was again used in lawyer’s movement for the restoration of deposed judges. Nawaz Sharif started his long march from Lahore to Islamabad in March 2009 but he was traveling in a jeep not on foot. Zardari Government communicated him a message through the then Army Chief General Kayani about the restoration of judges when he reached Gujranwala and the long march was called off. When Mama Baloch announced his long march from Quetta to Karachi, many people never took him seriously. He is famous as Mama Qadeer Baloch. He is not protesting against any government laws; he is not demanding the resignation of prime minister and he is not demanding the illegal release of any prisoner. He has been campaigning for the recovery of missing persons since 2009 when his son Jalil was killed in the custody of secret agencies.
He initiated his campaign from the platform of Voice of Baloch Missing Persons (VBMP) and only demands production of missing persons in courts. He started his long march with some families of missing persons from Quetta on 27th October 2013. Ali Haider Baloch stopped going to school and joined the long march with his elder sister Saba. His father Ramzan Baloch was abducted in front of the eyes of young Ali Haider. Farzana Majid Baloch is a well-educated woman. She did masters in bio-chemistry from Balochistan University and has been raising voice for the production of her younger brother Zakir Majid Baloch since 2009. She is secretary general of VBMP and the moving spirit behind this historical long march.
Daughters of two missing doctors, Deen Muhammad Baloch and Akbar Marri, also joined this long march. The daughter of a missing lawyer Haider Khan Baloch advocate was disappointed in courts and joined the long march of Mama Qadeer Baloch along with some other women. This small convoy completed 730 kilometers from Quetta to Karachi on foot in 27 days. They faced some problems near Khuzdar and the local administration asked Mama Qadeer Baloch to go back otherwise he will be attacked by miscreants. Mama Qadeer Baloch refused to surrender and continued his march. He was given a warm welcome in Wadh by BNP President Akhtar Mengal and then the guards of Mengal provided protection to Mama Qadeer Baloch till Hub.
The marchers were given big receptions in Hub and Layari. Ghinwa Bhutto, Syed Munawar Hasan and sister of Dr Afia Siddiqui were among those who expressed solidarity with the Baloch marchers. After reaching Karachi, VBMP set up a protest camp outside the Karachi Press Club for many days where National Party President Senator Hasil Bizinju also met Mama Qadeer Baloch and accepted that his Chief Minister in Balochistan Dr Abdul Malick Baloch was powerless to resolve the problem of missing persons.
Defense Minister Khawaja Muhammad Asif also visited this camp in December 2013 and assured Mama Qadeer Baloch that their dear ones will be produced in courts soon. The defense minister was unable to fulfill his promise. Ignorance of government disappointed Mama Qadeer Baloch and he decided to continue his long march from Karachi to Islamabad. Some of his sympathizers opposed the idea of traveling on the roads of Punjab but Mama Qadeer Baloch said: “We must try to awake the people of Punjab because Punjab is Pakistan and only they can return us our thousands of missing persons”.
Mama Qadeer Baloch never faced any problems while crossing Sindh. Many Sindhi nationalist parties expressed solidarity with the marchers in different cities. The marchers started facing problems when they entered Punjab. This convoy was first stopped in Multan and then in Okara. Armed people in uniform pointed guns at Farzana Majid Baloch and forced her to go back but she refused. Despite threats Seraiki nationalists openly supported the cause of Mama Qadeer Baloch in Multan. When the marchers were crossing the lush green fields of Punjab a truck tried to hit the marchers near Renala Khurd. Two participants, including one female marcher, were injured but the march continued. When they reached Lahore only some human rights activists of HRCP, AHRC and a left wing Awami Workers Party welcomed the marchers.
Chairperson of the Defense for Human Rights Amna Masood Janjua also welcomed the march of Mama Qadeer Baloch in Lahore along with the families of many missing persons from different areas of the Punjab. The so-called guardians of national interest advised many journalists in Lahore to stay away from Mama Qadeer Baloch. Lahorites actually missed the golden opportunity of removing misunderstandings between common Punjabis and the oppressed people of Balochistan.
Mama Qadeer Baloch again faced threats from the commandos of Punjab police near Gujrat. The marchers were asked to go back but they refused. They were not allowed to pass through the Gujrat city. They were forced to go towards Gujrat bypass. Again they were threatened and abused near Sarai Alamgir by one dozen strangers in the presence of local police. When Mama Qadeer Baloch was passing through the garrison area of Jhelum, I joined him for few hours just to see the reaction of local population.
Most of the common Punjabis were not aware that why an old man from Balochistan was marching on the roads with some women and children. Some people offered drinks and water to the marchers but the police and security men in civil dress discouraged the locals.
Mama Qadeer told me that some common Punjabis offered them water, food and night stay at their homes but they were later threatened by the government agencies. Mama said: “We know that all the Punjabis are not bad but intelligence agencies never allowed them to even welcome us. It was against the culture of Punjab.” Some Baloch students from Lahore and Islamabad joined the march just to give some protection to the small convoy but they used masks to hide their faces. They fear that intelligence agencies will create problems for their families in Balochistan. On the other hand, some intelligence operators traveling with marchers also using masks because they feared the media cameras.
Our media should give more coverage to these non-violent marchers as they don’t say they are against the constitution of Pakistan; they are only demanding implementation of Article 10 of the Constitution which says that law enforcers must produce a suspect in the courts within 24 hours of his arrest. Mama Qadeer Baloch traveled more than 1,400 kilometers from Karachi to the areas close to Islamabad along with his 7-year-old grandson. Many Baloch, Pakhtun and Sindhi parliamentarians are ready to receive him in Islamabad but these receptions are not solution to his problems. The solution is justice. He made history by traveling more than 2,000 kilometers from Quetta to Islamabad at the age of 72 just for justice.
The government sitting in Islamabad should not disappoint him because Islamabad is his last hope in Pakistan. If justice was denied to him then he will be forced to go to the UN Human Rights Commissioner in Geneva. Who will be responsible for giving a bad name to Pakistan when a 72-year-old man will talk to international media about missing persons in Geneva? What will happen? The powerful security agencies will declare Mama Qadeer Baloch a traitor. His grandson may also be declared a traitor but increasing the number of traitors cannot solve any problem. Justice and rule of law is the ultimate solution to all the problems. Mama Qadeer Baloch spent this whole winter on the roads. He is coming to Islamabad in the hope of a spring. Don’t break his hopes.
Let it be a spring for him.
↧
↧
Multan
![]()
![]()
![]()
![]()
![]()
![]()
یوں تو اس کُرہ ارض پر موجود ہر انسانی آبادی اپنی ایک تاریخ اور تہذیب رکھتی ہے لیکن کچھ علاقے، شہر یا قصبے ایسے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے اپنے مکینوں کے علاوہ دوسرے انسانوں کے لیے بھی خصوصی اہمیت حاصل کر جاتے ہیں۔ ملتان برصغیر پاک و ہند کا ایک ایسا ہی شہر ہے جو تاریخی اعتبار سے مسلسل آباد رہنے والے شہروں میں شمار ہوتا ہے، کم و بیش اسی طرح کی اہمیت اسے اسلامی تاریخ کے حوالے سے بھی حاصل ہے کہ 712ء میں اُموی دور حکومت میں مختلف وجوہات کی بنا پر چار بڑی فوجی مہمات اس وقت کی معلوم دنیا کے چار اہم علاقوں کی طرح روانہ ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک رخ اسی علاقے کی طرف تھا جسے آج ملتان کہا جاتا ہے۔ میرا اشارہ طارق بن زیاد (اندلس) موسیٰ بن نصیر (مراکش) قیتبہ بن مسلم (وسطی ایشیا) اور محمد بن قاسم (سندھ۔ ہندوستان) کی طرف ہے۔ ملتان کو اولیاء اللہ کا شہر بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے نواح میں روحانی اور دینی اعتبار سے بہت سی اہم ہستیاں دفن ہیں۔
شاکر حسین شاکر کا شمار ملتان سے تعلق رکھنے والے قلم کاروں کی نسبتاً نوجوان نسل میں ہوتا ہے حالانکہ وہ گزشتہ تقریباً 25 برس سے کئی حوالوں سے کتاب کی محبت کے اسیر چلے آرہے ہیں۔ ایک خوش گو شاعر، کالم نگار اور ناشر کے حوالے سے تو اردو دنیا میں ان کی پہچان مستحکم ہوچکی ہے لیکن اس کتاب ’’ملتان۔ عکس و تحریر‘‘ کی معرفت ان کے اندر کے محقق اور تاریخ نگار کا جو روپ سامنے آیا ہے، وہ اہم بھی ہے اور قابل تعریف بھی۔ اپنی ترتیب اور پیش کش کے اعتبار سے بھی یہ کتاب اپنا ایک مخصوص انداز رکھتی ہے کہ اس میں عمارات کی تصاویر کی بجائے ایک باکمال مصور ضمیر ہاشمی کے سکیچز نما تصویری خاکوں، تصویروں کو استعمال کیا گیا ہے بلکہ جیسا کہ شاکر حسین شاکر نے اپنے ابتدائیے میں وضاحت کی ہے، اس کتاب کی تحریر ہی اصل میں ان تصویروں کی مرہون منت ہے یعنی تصویر پہلے بنی اور تحریر نے بعد میں اس کے قدم سے قدم ملا کر چلنا شروع کردیا۔اس معاملے کی مختصر رُوداد انھوں نے کچھ اس طرح سے بیان کی ہے۔
’’اس کتاب کو لکھنے کا خواب ملک کے نامور مصور ضمیر ہاشمی کی ملتان پر بنائی ہوئی تصاویر کو ذہن میں بسا کردیکھا گیا۔ شروع میں خیال یہ تھا کہ ہر تصویر کے بارے میں صرف ایک صفحہ لکھا جائے اور قارئین کو ضمیر ہاشمی کے فن پاروں کے ساتھ تاریخ ملتان سے بھی واقفیت ہو جائے لیکن موضوع اتنا پھیلتا گیا کہ بعض تصاویر کے پس منظر میں ایک باب لکھتے ہوئے پوری کتاب کا مضمون سامنے آگیا اور یوں یہ ضخیم کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کتاب کے ذریعے آپ ملتان کے بہت سے گوشوں سے پہلی بار واقف ہورہے ہیں اور مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ وہ گوشے ضمیر ہاشمی کی تصویروں کے ساتھ آپ کی لائبریری میں ہمیشہ محفوظ رہیں گے۔‘‘
اب آئیے ایک نظر ان عنوانات پر ڈالتے ہیں۔ شاکر حسین شاکر نے انھیں سات عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے جن میں سے ہر ایک کے بہت سے ذیلی عنوانات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر پہلے عنوان ’’مدینۃالاولیا‘‘ کے دامن میں ملتان کی 9 روحانی شخصیات، ان کے مزارات اور حالات زندگی بمعہ کرامات کو جگہ دی گئی ہے (حضرت موج دریا، حضرت شاہ محمد یوسف، حضرت شاہ شمس سبزواری، حضرت بہاؤالدین زکریا، حضرت شاہ رکن عالم، حضرت موسیٰ پاک شہید، حضرت مخدوم عبدالرشید حقانی، ماتی مہربان اور خواجہ غلام فرید) دوسرا عنوان ’’صدیوں کی چاپ‘‘ ہے جس کے پانچ ذیلی عنوانات ہیں۔ اسی طرح ’’تحفہ ملتان‘‘ کے عنوان تلے گرد، گرما، گدا اور گورستان کے مشہور عام تصورات پر بات کی گئی ہے۔ چوتھا عنوان ’’برطانوی عہد‘‘ پانچواں ’’مساجد‘‘ چھٹا ’’ملتان کل آج اور کل‘‘ اور ساتواں ’’رسوم و رواج‘‘ ہے۔
کتاب کا دیباچہ مشہور شاعر اور کالم نگار رضی احمد بن رضی کا تحریر کردہ ہے جس کا عنوان ’’ملتان۔ میرا اور شاکر کا رومان‘‘ ہے ،ان دوستوں کا ذکر اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ شاعر قمر رضا شہزاد اور سخن فہم شیخ محمد افضل کا ذکر نہ کیا جائے کہ یہ چاروں ادب دوست فی الوقت ملتان کی نئی نسل کی پہچان بن چکے ہیں۔رضی الدین رضی نے بڑی تفصیل سے اس کتاب کے محاسن اور پس منظر پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کی نثر خوب صورت بھی ہے۔ معلوماتی اور خرد افروز بھی مثال کے طور پر یہ چند جملے دیکھے جاسکتے ہیں۔
’’پانچ ہزار سال قدیم شہر میں سانس لینا بلا شبہ ایک منفرد اور خوشگوار تجربہ ہے۔ اس تجربے سے گزرتے تو سبھی ہیں لیکن اسے محسوس کرنے کے لیے شہر سے والہانہ محبت بلکہ عشق ضروری ہے۔ بہت کم شہر ایسے ہیں کہ جن کی گلیوں اور بازاروں میں گھومیں تو صدیاں آپ کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ ملتان بھی ایسا ہی ایک شہر ہے جہاں ہر گلی ہر محلے میں تاریخ آپ کے قدم تھامتی ہے۔ سوچنے سمجھنے اور ادراک رکھنے والوں کو یہ شہر بار بار اپنی جانب متوجہ کرتا ہے…ضمیر ہاشمی نے ملتان کو مصور کرنے کا عمل جب شروع کیا تو اس کے گمان میں بھی نہ ہوگا کہ اسے ایک ایسا شخص بھی ملے گا جو ان تصویروں سے ملتان کی تاریخ کریدے گا جو ہر تصویر کو ہاتھ میں تھامے تصویر کے منظر تک پہنچے گا اور پھر تلاش کرے گا کہ یہ منظر جو ضمیر ہاشمی نے اپنی تصویر میں محفوظ کرلیا ہے، اسے مزید کس طرح محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ وہ سوچے گا کہ یہ منظر اس تصویر میں جیسا نظر آرہا ہے، یہ تصویر سے پہلے اور پھراس سے بھی پہلے کیسا تھا۔‘‘
میں سمجھتا ہوں کہ رضی الدین رضی نے بڑی خوبصورتی سے اس کتاب میں شامل تصویروں، تحریروں اور تحقیق کو ایک جگہ جمع کردیا ہے، شاکر حسین شاکر کے مختلف بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں اپنی تحقیق کے ضمن میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ صحیح معنوں میں مددگار کتابیں بہت کم تھیں جب کہ مخطوطات اور روائتوں کا معاملہ اور بھی پیچیدہ تھا کہ روحانی ہستیوں اور بالخصوص ان کی کرامات کے حوالے سے جو حکائتیں اور شواہد سامنے آتے ہیں، ایک تو ان پر صدیوں کی گرد جمی ہوتی ہے اور دوسرے ان میں عقیدت کا عنصر اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات ’’حقیقت‘‘ سرے سے ہی غائب ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں بھی بہت سی ایسی روائتیں درج کی گئی ہیں جنھیں عقل سلیم تو کیا کامن سنس بھی قبول کرنے میں متامل ہوتی ہے لیکن ان کا بیان بھی ضروری تھا کہ مدینۃ الاولیا کے حوالے سے انھیں یکسر نظر انداز کردینا بھی ممکن نہ تھا۔
مجموعی طور پر تاریخ اور بالخصوص ملتان کی تاریخ اور تہذیب سے دلچسپی رکھنے والے احباب کے لیے یہ کتاب اہم بھی ہے اور دلچسپ بھی اور اس کے لیے ہمیں ضمیر ہاشمی، شاکر حسین شاکر اور اس منصوبے سے تعلق رکھنے والے تمام احباب کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ کسی جغرافیے کی حفاظت کے لیے اس کی تاریخ کا شعور اور اس کی حفاظت بھی یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔
↧
حج کی ادائیگی کے لیے بحری سروس
ایک خوش کن خبر ہے کہ حکومت نے فریضہ حج کی ادائیگی کے خواہش مند غریب شہریوں کی سہولت کے لیے حج کی ادائیگی کے لیے بحری سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم کی منظوری کے بعد اس سروس کا آغاز آیندہ حج ایام سے ہوگا۔ وزیر پورٹس و شپنگ نے بتایا ہے کہ حج پر ساڑھے تین لاکھ کے قریب اخراجات آتے ہیں جس کی وجہ سے غریب آدمی کے لیے حج کا فریضہ انجام دینا بڑا مشکل کام ہے۔ اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے سستے حج کا منصوبہ بنایا ہے، اس سلسلے میں یورپ سے تیز رفتار بحری جہاز حاصل کیے جا رہے ہیں جن کے ذریعے حاجیوں کو 6 دنوں کے اندر سعودی عرب پہنچایا جائے گا، انھیں کھانے پینے کی سہولیات بھی فراہم کی جائے گی، اس کے علاوہ تاجر برادری کے اشتراک سے جہازوں میں تجارتی سامان بھی ساتھ لے جایا جائے گا۔ اس سلسلے میں کسٹم اور امیگریشن کے معاملات پر بھی بات چیت چل رہی ہے، اس کے علاوہ اگلے مرحلے میں بلوچستان کے راستے ایران جانے والے زائرین کو بھی بحری راستے سے ایران بھیجا جائے گا۔ حکومت کی یہ کوششیں بلاشبہ لائق تحسین ہیں۔
حج و عمرہ کی ادائیگی ہر مسلمان کی جستجو و تمنا ہوتی ہے۔ غریب سے غریب مسلمان بھی کم معاشی وسائل ہونے کے باوجود بھی اپنا پیٹ کاٹ کر بنیادی ضروریات کو نظر انداز اور بہت سے فرائض کو موخر کرکے فریضہ حج کی ادائیگی کی کوششیں کرتا ہے لیکن آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی اور کاروباری نقطہ نظر سے حج وعمرہ کے روز افزوں اخراجات ، ہیرا پھیری، لوٹ مار اور کرپشن کی وجہ سے اس کا متحمل نہیں ہو پاتا۔ غریب و متوسط طبقے کے لیے فریضہ حج کی ادائیگی تقریباً ناممکن ہوکر رہ گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے بحری سفری سہولت کی وجہ سے حج کرایوں میں تین چوتھائی کے قریب کمی واقع ہوگی کیونکہ اس منصوبے کے تحت بحری کرایے کی شرح 25 سے 30 ہزار روپے رکھی گئی ہے جس کی وجہ سے غریب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو بڑی سہولت میسر آجائے گی۔
عازمین حج کے لیے حکومت پاکستاننے ابتدا میں غیر منافع بخش بنیادوں پر حج پالیسی متعارف کروائی تھی جس میں وقتاً فوقتاً بہتری لانے کی کوششیں بھی کی جاتی رہیں لیکن وزارت مذہبی امور میں نااہل، بددیانت اور خوف خدا سے بے بہرہ افراد کی تعیناتی اور سیاسی مداخلت و مفادات کی وجہ سے اس کی کارکردگی خراب سے خراب تر ہوتی گئی اور مسائل، مصائب اور شکایتوں میں اضافہ ہوتا گیا، ان خرابیوں، کوتاہیوں اور شکایات کا ازالہ کرنے کے بجائے حکومت نے پرائیویٹ حج اسکیم کا اجرا کرکے اس عمل میں پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کو شامل کر ڈالا جس کی وجہ سے کسی بہتری کے بجائے مزید خرابیاں رونما ہوئیں اور کرپشن اور ملی بھگت کا سلسلہ وزارت مذہبی امور سے ٹور آپریٹرز تک دراز ہوگیا۔ عازمین حج و عمرہ کی پریشانیوں اور مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔
رہائش، خوراک، سفری سہولیات، معاہدات کی خلاف ورزی کے لاتعداد واقعات سامنے آنے لگے جن پر حکومت نے کوئی توجہ نہ دی تو اس گمبھیر صورت حال پر عدالتوں کو ایکشن لینا پڑا۔ عدالت عظمیٰ کی کارروائیوں کے نتیجے میں وزیر و مشیر وزارت حج و مذہبی امور اور ٹور آپریٹرز جیلوں میں گئے، حجاج کو ان کی اضافی رقوم واپس کروائی گئیں۔ بدعنوانی اور لوٹ مار کو دیکھ کر سعودی حکومت بھی حرکت میں آئی، پاکستانی حکام سے سرکاری سطح پر اس کی شکایت کی گئی اور کافی ٹور آپریٹرز کو بلیک لسٹ کرکے تین سال تک کے لیے نئی رجسٹریشن پر پابندی عائد کردی گئی، مجبوراً حکومت پاکستان نے بھی سیکڑوں ٹور آپریٹرز کے لائسنس منسوخ کیے تھے۔ کم سرمایہ کاری اور کم مالی خطرات کے اس کاروبار میں راتوں رات دولت مند بننے کے خواہش مند عاقبت نااندیش عناصر کو حکومتی حلقوں کی آشیرباد اور پشت پناہی بھی حاصل ہے جو ایک منظم مافیا کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔
ہمارے ملک میں ایک تو وہ طبقہ ہے جو دیگر مذہبی فرائض کی ادائیگی کے بعد فریضہ حج و عمرہ کی ادائیگی کی تڑپ و جستجو میں لگا رہتا ہے اور بمشکل ہی اس کا متحمل ہوتا ہے، دوسری جانب ارباب اقتدار و اختیار اور مراعات یافتہ طبقہ ہے جس نے ان مذہبی عبادات کو سیاسی و سماجی رسم کی حیثیت دے ڈالی ہے۔ سیاست دانوں کے لیے یہ فریضہ سیاسی حالات سے وقتی فرار حاصل کرنے، سیاسی جوڑ توڑ، ڈیل اور رابطوں کا بہترین ذریعہ بن چکا ہے۔ خوشنودی، پذیرائی کے لیے رشوت کے طور پر سیاسی حلیفوں اور کارکنوں کو سرکاری خرچ پر حج و عمرہ پر بھیجنے کا رجحان جڑیں پکڑ چکا ہے۔ پرائیویٹ ٹور آپریٹرز مختلف قسم کے پرتعیش اور مختصر دورانیے کے ایسے حج و عمرہ پیکیج بھی متعارف کرائے جاتے ہیں جن کے اخراجات 20 لاکھ فی کس بتائے جاتے ہیں۔ حالانکہ حج کی اصل روح، تربیت اور فلسفہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کفن کی صورت حج کا احرام باندھ کر گھر سے نکلتا ہے، اپنے پیاروں کو زندگی کے تمام معاملات کو چھوڑ کر سفر کی مشقتیں برداشت کرتا، اﷲ کے حضور پیش قدمی کرتا ہے، عرفات میں حشر کے میدان کی طرح اﷲ کے حضور پیش ہوتا ہے، مزدلفہ میں رات کھلے آسمان تلے بسر کرتا ہے جہاں نہ کوئی ادنیٰ ہوتا ہے نہ اعلیٰ، نہ امیر نہ غریب، نہ حاکم نہ محکوم، سب کے پیر و سر ننگے ہوتے ہیں، ایک جیسا لباس ہوتا ہے، ہر کوئی اپنی مشقتیں خود برداشت کرتا ہے بلکہ حکم ہے کہ حج کی مشقتیں و صعوبتیں بیان نہ کی جائیں۔
حج کی ادائیگی کے دوران حجاج کے کپڑوں اور اجسام پر جمع ہونیوالے گرد و غبار اور میل کچیل پر اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں فخر کرتا ہے اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہ تعلیمات عام مسلمانوں کے علم میں ہوتی ہیں، کاش ہم ان پر غور اور عمل کرکے حج و عمرہ جیسی عبادات کی اصل روح کو برقرار رکھ سکیں۔ دنیا کے بہت سے اسلامی بلکہ بعض غیر اسلامی ممالک میں بھی عازمین حج کو اس فریضے کی ادائیگی میں سرکاری سطح پر بہت سی رعایت و مراعات فراہم کی جاتی ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے عازمین حج کے لیے بحری جہازوں کے ذریعے سفری سہولت کی فراہمی بھی ایک مستحسن اور قابل تعریف اقدام ہے۔ حکومت کو اس سہولت کے اجرا سے قبل اس قسم کے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے اس سہولت کا فائدہ غریب و متوسط طبقے کو پہنچے مثلاً یہ کہ اگر کسی نے پہلے فریضہ حج ادا کیا ہوا ہو تو اس کو یہ سہولت فراہم نہ کی جائے، سہولت سے استفادہ حاصل کرنیوالے سے اقرار نامہ لیا جائے کہ وہ ہوائی سفر کے اخراجات کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
اس بحری سفر میں سامان اور اس کے وزن کی بھی ایک متوازن حد مقرر کی جائے تاکہ کاروباری ذہنیت کے لوگ اس کا غلط استعمال نہ کرسکیں اور سب سے زیادہ اس کی سیکیورٹی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ بحری جہاز تک ممنوع اشیا اور منشیات وغیرہ کا پہنچانا نسبتاً آسان ہے، خاص طور پر ایک ہفتے پر محیط اس بحری سفر کے دوران کسی سادہ لوح یا بزرگ حاجی کے سامان میں رد و بدل یا کچھ شامل کردینا کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ زاد حج کی اشیا میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ چند سال پیشتر کراچی کے عازمین عمرہ کے دو خاندانوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن کی چپلوں میں ٹور آپریٹرز کے کارندوں نے ہیروئن چھپا رکھی تھی، اگر جامعہ بنوری کے مہتمم سعودی فرماں روا تک رسائی اور سینیٹ اور قومی اسمبلی اپنے اجلاس میں اس مسئلے پر آواز بلند نہ کرتیں تو ان کی گردن زنی ہوچکی ہوتی۔
حکومت کو وزارت مذہبی امور کے معاملات کا ازسر نو اور سنجیدگی سے جائزہ لے کر اس کو نااہل، بددیانت افراد سے پاک کرکے سیاست اور مفادات سے بالاتر ہوکر اچھی شہرت کے حامل دین کی سوجھ بوجھ اور خوف خدا رکھنے والے افراد کو تعینات کرنا چاہیے۔ عام کرایوں اور حج و عمرہ کے کرایوں کے فرق اور ٹیکس ختم کرکے رعایتی نرخ مقرر کرنے چاہئیں، ٹور آپریٹرز کی رجسٹریشن کی سخت شرائط اور معیار مقرر کرکے صرف ایسے آپریٹرز کو خدمات کی ذمے داری سونپنی چاہیے جو اسے محض کاروبار نہیں بلکہ دینی فریضہ سمجھ کر سرانجام دیں۔ بلیک لسٹ ہونے والا شخص یا ادارہ کسی دوسرے نام سے یہ کام دوبارہ نہ حاصل کرسکے۔ کوٹے کی تقسیم دیانتدارانہ ہونی چاہیے، پرائیویٹ ٹور آپریٹرز اور عازمین کے درمیان ایک تحریری معاہدے کا جامع متن تیار کرکے حکومت کو اس کے ضامن کے طور پر دستخط کرکے اس پر عمل کو یقینی بنانا چاہیے، حکومت کے شکایتی سیل کو فعال متحرک اور ہر قسم کے دباؤ سے آزاد کرکے اس کی کارکردگی کو مانیٹر کیا جانا چاہیے، ایسی ریگولیٹری باڈی بھی بنانی چاہیے جو معاہدے کے خلاف ورزی کی صورت میں متعلقہ ٹور آپریٹرز کا لائسنس منسوخ اور سیکیورٹی ضبط کرنے کا اختیار رکھتی ہو۔
↧
جمشید دستی اور ان کے الزامات کی گونج
شاید جمشید دستی جیسے لوگوں کے بارے میں ہی نطشے نے کہا تھا کہ’’ایسے لوگوں کے بارے میں پیش گوئی نہیں کی جاسکتی ہ ، وہ یکایک بغیر کسی لحاظ و جواز کے بغیر کسی علت اور سبب کے مقدر کی طرح نمودار ہو جاتے ہیں۔ آسمانی بجلی کی طرح یکدم چمکتے ہیں اور بہت ہیبت ناک و جابر ہوتے ہیں مگر ان کی عظمت اتنی خیرہ کن ہوتی ہے کہ کوئی ان سے نفرت کرنا بھی چاہے تو نفرت نہیں کرسکتا۔ انہیں جو قوت متحرک و فعال رکھتی ہے وہ ان کی شدید حد تک خودستائی ہوتی ہے۔ ویسی ہی خودستائی جیسی ایک فنکار کوئی لازوال فن پارہ تخلیق کرکے محسوس کرتا ہے۔
جمشید دستی ایک عوامی آدمی ہے۔ اس لئے عوام کا درد بھی رکھتا ہے۔ وہ غریب طبقے سے ہے اسی لئے اپنے طبقے کا وفادار اور اشرافیہ سے باغی ہے۔ اس وقت قومی اسمبلی کے ایوان میں موجود ان چند نمائندوں میں سے ہے جن کی وجہ شہرت ان کی سادگی و ایمانداری ہے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی اجلاس کے دوران مظفر گڑھ سے آزاد رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کے انکشاف نے ایک مرتبہ تو اقتدار کے مضبوط ایوان کو ہلا کر رکھ دیا۔ دستی کی بارعب آواز سے ایوان گونجتا رہا اور جب دستی کا مائیک بند ہو گیا تو وہ مائیک کے بغیر ہی چلا چلا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے میں لگا رہا۔ ایوان میں موجود تمام ارکان اسمبلی دستی کو تک رہے تھے کہ کیا کوئی رکن پارلیمنٹ اتنی جرأت کرسکتا ہے۔ جی ہاں...جمشید دستی نے پورے ایوان کے سامنے یہ الزام لگایا کہ وہ پارلیمنٹ لاجز جن میں معزز ارکان اسمبلی رہائش پذیر ہیں، ان میں مبینہ طور پر شراب و چرس نوشی عام ہے اور کچھ ارکان تو دیگر نازیبا سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے جاتے ہیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ جمشید دستی نے اس ملک کی مضبوط اشرافیہ کے خلاف آواز بلند کی بلکہ یہ وہی دستی ہے جس نے مظفر گڑھ جیسے جاگیردار علاقے میں ایک دو نہیں بلکہ تمام جاگیرداروں کو عوامی قوت سے چت کیا۔ سال 2013ء کے عام انتخابات میں اسی دستی نے کھر خاندان کی آبائی نشست تو چھینی ہی مگر اس کے ساتھ مرحوم نوابزادہ نصراللہ کے بیٹوں کو بھی شکست دی ہے۔ اس وقت پاکستان کے کسی حلقے کا ممبر اسمبلی عوام میں اتنی مقبولیت نہیں رکھتا جتنا جمشید دستی کو حاصل ہے۔ سال 2010-11ء کے دوران جنوبی پنجاب میں آنے والے بدترین سیلاب کی میڈیا کوریج کے دوران اس کالم نویس نے وہ مناظر خود دیکھے ہیں کہ جب سیلاب زدہ غریب عوام کے گھر بار،مویشی سمیت پانی میں ڈوب رہے تھے مگر جمشید دستی خود تیراکی کرکے اپنے حلقے کے عوام کی زندگیاں بچانے میں مگن تھا۔
اگر دستی کا یہ الزام درست ہے تو یہ بات تو طے ہے کہ پارلیمنٹ لاجز میں ایسی سرگرمیاں بلاشبہ غیر اخلاقی بھی ہیں اور غیر قانونی بھی۔ اگر یہ سلسلہ عرصے سے چل رہا تھا تو اس معزز ایوان کے کسی اور رکن میں اتنی جرأت کیوں نہیں ہوئی کہ وہ اس پر سوال اٹھاتا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جن کی نیت اور اخلاص پر شک نہیں کیا جاسکتا مگر جمشید دستی کے پاس مبینہ طور پرجو ٹھوس ثبوت ہیں ان سے تو لگتا ہے کہ بعض ارکان ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
جمشید دستی کے مذکورہ انکشاف سے چند روز قبل عدالت عظمیٰ کے ایک سینئر افسر سے میں نے کہا کہ آپ روزانہ ایک لمبا سفر طے کر کے عدالت آتے ہیں حالانکہ دیگر گریڈ 22 کے افسران کی طرح وہ نزدیک ہی پارلیمنٹ لاجز میں رہائش کے حقدار ہیں۔ وہ فرمانے لگے کہ ان کے پاس پارلیمنٹ لاجز میں ایک فیملی سوئیٹ ہے مگر اس وقت وہاں پر ایسی مبینہ سرگرمیاں ہوتی ہیں جو ایک شریف آدمی کے لئے قابل قبول نہیں ہیں ۔اس لئے انہوں نے نجی رہائش کو ہی ترجیح دی ہوئی ہے۔جمشید دستی نے معزز ارکان کے ہاسٹل پر ایسا الزام لگایا تو بہت سے پارلیمنٹیرین نے آف دی ریکارڈ جبکہ نبیل گبول جیسے ارکان نے تو جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان الزامات کی تصدیق کی۔ دستی کے الزامات پر ایک رکن اسمبلی کی بوکھلاہٹ سمجھ سے بالا تر لگی۔ بجائے اس کے کہ وہ اہم حکومتی عہدیدار ہونے کے ناتے شفاف تحقیقات اور مستقبل میں ایسی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے موثر اقدامات کا یقین دلاتے،وہ دستی پر ہی چڑھ دوڑے اور ان پر پٹرول و بجلی چورے جیسے بے ڈھنگے الزامات بھی لگا دئیے۔
حالانکہ ایوان کے غریب ترین رکن قومی اسمبلی جمشید دستی بھلا کتنی بجلی اور پٹرول چوری کرسکتے ہیں۔ تو بھلا سنئے۔ مظفر گڑھ کے کچے سے آبائی گھر کے مکین جمشید دستی کا ماہانہ بجلی کا بل 1000روپے سے بھی کم ہوگا تو کیا وہ اس گھر کے لئے بجلی چوری کرتے ہوں گے؟مظفر گڑھ کے غریب عوام کے لئے مفت بس سروس کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جو شخص عوامی خدمت کے طور حلقے کے لوگوں کی سہولت کے لئے مخیر حضرات کی مدد سے مفت بسیں چلاتا ہے۔ اس کے بارے میں کیسے یہ کہا جاسکتا ہے وہ کیا پٹرول چوری کرتا ہوگا لیکن اگر ٹھوس شواہد ہیں تو ان الزامات پر بھی تحقیقات ہونی چاہئے۔
مگر جمشید دستی کے الزامات کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ وہ تبدیلی جس کی عوام 2013ء عام انتخابات سے قبل لگائے بیٹھے تھا ، وہ کیوں نہیں آئی۔ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جن نمائندوں کے کندھوں پر ہم نے بہتری لانے کی ذمہ داری ڈالی ہے ان کی بڑی تعداد ٹیکس نادہندہ ہے۔ دی نیوز کے تحقیقاتی رپورٹر عمر چیمہ اس حوالے سے تفصیلی خبر دے چکے ہیں اور اب جمشید دستی کا حالیہ انکشاف۔
پولیس کے ایک سینئر افسر کا خود کہنا ہے کہ پارلیمنٹ لاجز کے اندر کے سی سی ٹی وی کیمروں کا ریکارڈ ہی دستیاب نہیں ہے۔ شاید دستی کی شکایت سے پہلے ہی تمام ممکنہ ثبوت مٹائے جاچکے ہوں گے اور ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد چاہتے ہوئے بھی سچ بولنے سے گریزاں ہے۔
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف خود ایک باکردار شخصیت کے مالک ہیں انہیں بذات خود بھی اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے۔ ہمارے وزیر داخلہ نے تو اس معاملے پر یہ روایتی سا بیان دے کر معاملے کو رفت گزشت کرنے کی کوشش کی ہے کہ لاجز کے باہر9 1کیمرے لگے ہوئے ہیں ،کسی میں کچھ نہیں نظر آیا جبکہ دستی نے جو کہا ہے پارلیمنٹ لاجز کے اندر کا کہا ہے باہر کا نہیں۔اگر ریکارڈ لانا ہے تو تمام راہداریوں اور کمروں کے باہر لگے کیمروں کا لائیں تاکہ عوام اصل حقیقت جان سکیں۔
مگر لگتا ہے کہ جمشید دستی اپنے ثبوتوں کی روشنی میں یونہی چلاتے رہیں گے اور بالآخر سابق وزیراعلیٰ دہلی اروند کیجر وال کی طرح خاموش ہوکر سائیڈ پر ہوجائیں گے کیونکہ ہمسایہ ملک کی طرح اس ملک کی اشرافیہ کے ہاتھ بھی بہت لمبے ہیں۔ جمشید دستی تو ایوان سے باہر جاسکتے ہیں مگر وہ اشرافیہ نہیں۔
اگر اس الزام کی شفاف تحقیقات ہوئی تو ڈر ہے کہ ارکان کی بڑی تعداد آئین کی شق 62 اور 63 کے نرغے میں آجائے گی اور بہت سوں پر نااہلی کی تلوار بھی گرسکتی ہے۔ اس لئے یہ معاملہ اگلے چند دنوں میں ہی دب جائے گا اور جمشید دستی ایک اور سچ سینے میں دبا کر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے مگر یہاں پر ماؤزے تنگ کی ایک بات یاد آرہی ہے جو انہوں نے اپنی چینی قیادت سے کہی تھی ’’آپ کا کردار بہتے سمندر میں خون کے قطرے کی مانند واضح اور شفاف ہونا چاہئے بیشک ایک پتلی لکیر ہی کیوں نہ ہو‘‘۔
بشکریہ روزنامہ 'جنگ '
↧